Tag: مشہور مترجم

  • شاہد حمید:‌ اردو زبان و ادب کا محسن

    شاہد حمید:‌ اردو زبان و ادب کا محسن

    شاہد حمید کا شمار اردو کے اہم ترین مترجمین میں ہوتا تھا۔ ماہرِ لسانیات اور مصنّف شاہد حمید نے غیرملکی ادب سے نہایت معتبر اور وقیع کتب کو اردو میں‌ ڈھالا اور ترجمے جیسے فن کی آب یاری کی جس کے لیے زبان و بیان پر مہارت ہی نہیں بڑی محنت اور ریاضت، توجہ اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔

    شاہد حمید نے 29 جنوری 2018ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ ان کی عمر 90 برس تھی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    جالندھر کے شاہد حمید 1928ء میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور آئے جہاں‌ گورنمنٹ کالج سے انگریزی میں ایم اے کیا اور تدریس کا پیشہ اختیار کر لیا۔ 1988ء میں بہ حیثیت مدرس ریٹائر ہوگئے۔ فکشن کے تراجم ساتھ ان کا ایک اور اہم کام دو ہزار صفحات پر مشتمل انگریزی اردو ڈکشنری تھی۔

    انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے معروف نقاد شمیم حنفی نے کہا تھا: یقین کرنا مشکل ہے کہ ہزاروں صفحوں پر پھیلا ہوا یہ غیرمعمولی کام ایک اکیلی ذات کا کرشمہ ہے۔ ممتاز فکشن نگار نیّر مسعود نے انھیں ایک حیرت خیز آدمی قرار دیا تھا۔

    مسعود اشعر نے مرحوم سے متعلق لکھا، "اس کی عملی زندگی کا آغاز تو ایک استاد کی حیثیت سے ہوا تھا۔ پاکستان آکر اس نے سب سے پہلے ایک اسکول میں ہی نوکری کی تھی۔ پھر وہ ایسا استاد بنا کہ کئی اخباروں میں کام کرنے کے باوجود ہمیشہ استاد ہی رہا۔ اس کے استاد ہونے کی یہ حیثیت اس کے ترجموں میں بھی نظر آتی ہے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، وہ اپنے ترجموں کی وجہ سے ہی علمی اور ادبی حلقوں میں مشہور ہوا۔ لیکن یہ ترجمے ایسے نہیں جیسے دوسرے ترجمہ کرنے والے کرتے ہیں۔ یہ ایک استاد کے ترجمے ہیں۔ اب وہ ٹالسٹائی کے ناول وار اینڈ پیس کا ترجمہ ہو، یا دوستوسکی کے ناولوں برادر کرامازوف اور کرائم اینڈ پنشمنٹ کا، یا جین آسٹن کے ناول پرائڈ اینڈ پریجوڈائس کا، یہ صرف ترجمہ ہی نہیں ہے بلکہ ان ناولوں میں جہاں تاریخی واقعات کا حوالہ آیا ہے، یا عیسائی عقیدے کا ذکر ہے، یا پھر کسی علاقے کا بیان ہے، یا کسی تاریخی خاندان کے احوال ہیں، وہاں ترجمہ کر نے والا یہ استاد اپنے پڑھنے والے پر ہی نہیں چھوڑ دیتا کہ وہ خود ہی اس کے متعلق معلومات حاصل کرتا پھرے بلکہ وہ بڑی عرق ریزی سے تحقیق کرتا ہے اور پورے کے پورے صفحے حاشیوں سے بھر دیتا ہے۔”

    شاہد حمید کو کلاسیکی لٹریچر کو اردو کے قالب میں ڈھالنے پر ملکہ حاصل تھا۔ انھوں نے ناولوں کی تاریخ کے تین بڑے شاہ کاروں کا ترجمہ کیا، جنھیں ناقدین نے معیاری اور نہایت معتبر ٹھہرایا۔ ان ناولوں کا ترجمہ کرنے میں انھوں نے کئی برس صرف کیے۔ انھوں نے جسٹس گارڈر کے ناول سوفی کی دنیا اور ہیمنگ وے کے شاہ کار ’’بوڑھا اور سمندر‘‘ کو بھی اردو کا روپ دیا۔

    ان کی یادداشتوں‌ پر مبنی کتاب بھی ’’گئے دن کی مسافت’‘ کے عنوان سے شایع ہوچکی ہے۔

  • ’’خانقاہ‘‘ کی کہانی جس پر ایم۔ جی۔ لیوس کو سخت مطعون کیا گیا

    ’’خانقاہ‘‘ کی کہانی جس پر ایم۔ جی۔ لیوس کو سخت مطعون کیا گیا

    فرانس کے ادیب الیگزینڈر ڈوما اپنے عہد کے مقبول ترین ناول نگار تھے جن کے مشہور ناول دی کاؤنٹ آف مونٹے کرسٹو کا اردو ترجمہ شاید آپ نے بھی پڑھا ہو۔

    اس کے علاوہ بھی کئی زبانو‌ں میں غیرملکی ادیبوں کے ناول اور مختصر کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کیا گیا جو ہمارے ادبی ذوق و شوق کی تسکین کا باعث ہیں۔

    تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بیسویں صدی کے اوائل میں بر صغیر میں انگریزی ناولوں کے اُردو تراجم بہت مقبول ہوئے۔ اردو زبان میں انگریزی زبان کے ناولوں کے تراجم کا جو سلسلہ منشی تیرتھ رام سے شروع ہوا، اسے یہاں قارئین نے قبولیت کی سند بخشی اور تراجم کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے نہ صرف ادبی ذوق کی تسکین کی بلکہ فکر و نظر کی کایا پلٹ دی۔ اردو ادب پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔

    قارئین، اردو زبان و ادب کی ممتاز شخصیات اور متعدد زبانوں پر عبور رکھنے والے معروف ترجمہ نگاروں نے مذہب، سائنس، فلسفہ، تاریخ، سوانح اور عالمی ادب سے اہم اور دل چسپ کتابوں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر ہم تک پہنچایا ہے۔ ان میں انگریزی، فرانسیسی، ہندی، بنگلہ، روسی، اور دیگر کئی زبانوں کے ساتھ علاقائی زبانوں میں‌ شایع ہونے والی کتابوں کے تراجم شامل ہیں۔

    سید سجاد حیدر یلدرم اور متعدد ادیبوں نے تراجم کے ذریعے اپنے متنوع تجربات سے اردو زبان و ادب کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے مزیّن کیا۔

    اسی طرح مظہر الحق علوی نے انگریزی زبان کے نام ور ناول نگار ایم۔ جی۔ لیوس (Mathew Gregory Lewis) کے ناول کا ’’خانقاہ‘‘ کے نام سے اردو ترجمہ پیش کیا تو اِسے قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس مصنّف کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے انگریزی زبان میں پُراسرار اور ہیبت ناک ناول اپنے منفرد اسلوب میں لکھ کر اپنی تخلیقی اور اختراعی صلاحیت کا لوہا منوایا۔

    لفظی مرقع نگاری سے ماحول کو ہیبت ناک اور واقعات کو سنسنی خیز بنانے میں اس مصنّف کو کمال حاصل تھا جس سے اردو کا قاری حقیقی معنوں میں ناول کے ترجمے کے بعد ہی واقف ہوا۔ اس ناول کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں اپنے سماج کے ان تاریک اور پوشیدہ پہلوؤں پر بات کی گئی تھی جن سے اس دور کے ادیبوں کی اکثریت گریزاں رہی۔ دراصل خانقاہ میں مصنّف نے تارکُ الدنیا راہبوں، پادریوں اور گوشہ نشین مر د و خواتین کی جعل سازی، دہری شخصیت، ان کے مکر و فریب، منافقت، اور جنسی جنون کا پردہ چاک کیا ہے۔

    مصنّف نے بتایا کہ یہ بازی گر کھلا دھوکا دے کر سادہ لوح لوگوں کو اپنا عقیدت مند بنائے ہوئے ہیں اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہر وہ برائی اور شیطانی عمل کررہے ہیں جس پر وہ عام لوگوں کو مطعون کرتے اور انھیں دنیا و آخرت میں سزا کا مستحق قرار دیتے ہیں۔

    1796ء میں خانقاہ کی اوّلین اشاعت نے یورپ کے متعصب پادریوں کو مشتعل کردیا اور انھوں نے اس کے خلاف شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔ اپنے بارے میں تلخ حقائق کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اس قدر سیخ پا ہوئے کہ اس ناول کے مطالعہ کرنے، اسے خریدنے کو ناجائز اور برا کہہ کر لوگوں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کی، لیکن اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اصلاحِ احوال پر توجہ نہیں‌ دی۔ یہ انگریزی زبان کے شاہ کار ناولوں میں‌ سے ایک تھا۔

    ڈپٹی نظیر احمد کے بعد غلام ربّانی آگرو، شاہد احمد دہلوی، سعادت حسن منٹو، اشفاق احمد، انتظار حسین، ظ انصاری، سیّد قاسم محمود، سبطِ حسن، احمد شاہ بخاری، سیّد عابد علی عابد اور کتنے ہی ادیب اور شاعر تھے جنھوں نے اہمیت اور افادیت کے پیشِ نظر اردو کو زینہ بناتے ہوئے ہمیں غیر ملکی تاریخ و ادب پڑھنے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کیا۔

  • نام وَر مترجم، افسانہ اور ناول نگار مظہر الحق علوی کا تذکرہ

    نام وَر مترجم، افسانہ اور ناول نگار مظہر الحق علوی کا تذکرہ

    اردو کے نام ور مترجم، افسانہ نگار اور عالمی ادبیات کے نباض مظہر الحق علوی نے 17 دسمبر 2013ء کو اپنی زندگی فرشتہ اجل کے ہاتھوں‌ میں‌ دے دی تھی۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے سات عشروں تک اپنے فن اور جوہرِ تخلیق سے اردو ادب کی آب یاری کی۔

    مظہر الحق علوی کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ انھیں زیادہ شہرت عالمی ادب کی شاہ کار کہانیوں کے تراجم کی بدولت ملی۔ تاہم افسانہ و ڈراما نگاری اور ادبِ اطفال بھی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا نمونہ ہیں۔ انھوں نے انگریزی ادب کے تقریباً 100 ناولوں کو اردو کے قالب میں نہایت خوبی سے ڈھالا۔

    مظہر الحق علوی نے انگریزی زبان کے علاوہ گجراتی کے مقبول ادب پاروں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ انھوں نے ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے ساتھ فروغِ ادب کے لیے فعال کردار ادا کیا۔

    فرانس کے مشہور زمانہ ناول نگار الیگزنڈر ڈوما کے ناول "دی کاؤنٹ آف مونٹے کرسٹو” کا ترجمہ "ظلِّ ہما” کے نام سے، برام اسٹوکر کے "ڈریکولا” کا ترجمہ، میری شیلے کے ناول "فرنکنسٹائن” اور سر رائڈر ہیگرڈ کے متعدد ناولوں کے نہایت عمدہ اردو تراجم مظہر الحق علوی کے اس فن میں‌ مہارت اور ان کی قابلیت و اسلوب کے یادگار ہیں۔

    وہ احمد آباد میں‌ مقیم تھے جہاں ایک لائبریرین کی حیثیت سے ملازمت کی اور اس دوران لکھنے پڑھنے اور مطالعے کا شوق پورا کرنے کے ساتھ ساتھ تخلیقی کام کی طرف راغب ہوئے۔ مظہر الحق علوی 90 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔