Tag: مشہور محل

  • شاہی محل کی ایک ‘بدنام بالکونی’ کا تذکرہ

    شاہی محل کی ایک ‘بدنام بالکونی’ کا تذکرہ

    آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے امپیریل ہوفبُرگ پیلس کی ایک بالکونی شاید اس ملک کی تاریخ میں‌ سب سے زیادہ بدنام ہے۔ یہ عمارت کسی دور میں شاہی محل کے طور پر استعمال ہوا کرتی تھی جس کا ایک حصّہ جدید تاریخ کے عجائب گھر کے طور پر مخصوص ہے۔

    اسی عجائب گھر کی ایک بالکونی سے نازی جرمن ریاست کے حکم ران ایڈولف ہٹلر نے 15 مارچ 1938ء کو آسٹرین عوام سے خطاب کیا تھا اور اس موقع پر اعلان کیا تھاکہ اس کا آبائی ملک آسٹریا اب نازی جرمن ریاست میں شامل کرلیا گیا ہے۔

    اس میوزیم کے خاص حصّے کے دروازے اور راستے ایسے بھی ہیں‌ جن میں سے صرف چند ہی عام شائقین کے لیے کھلے ہیں۔ اس لیے کہ انہی دروازوں سے گزر کر آگے بڑھنے پر وہ بالکونی آتی ہے، جہاں لگ بھگ 83 برس قبل ایڈولف ہٹلر نے کھڑے ہو کر ایک بڑے مجمع سے خطاب کیا تھا۔ اس بالکونی کو ‘ہٹلر بالکونی‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    ہاؤس آف آسٹرین ہسٹری یعنی اس میوزیم کی ایک خاتون ڈائریکٹر مونیکا زومر کا خیال ہے کہ سیّاح اور شائقینِ عجائبات کو ہٹلر بالکونی تک جانے کی بھی اجازت دینی چاہیے جس کے لیے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے۔

    مشہور شہر ویانا کی اس ‘ہٹلر بالکونی‘ کو نازی دور کی نمایاں نشانی کہا جاتا ہے۔ یہ جس محل کا حصّہ ہے، وہ 19 ویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا اور آسٹریا اور ہنگری پر مشتمل سلطنت کے حکم ران خاندان کی رہائش گاہ تھا۔

    اس بالکونی سے ہٹلر نے اس وقت تقریباً دو لاکھ آسٹرین شہریوں کے اجتماع سے خطاب کیا تھا۔ اس وقت بدنامِ زمانہ ہٹلر نے کہا تھا، میں اپنے وطن کی جرمن رائش میں شمولیت کا اعلان کرتا ہوں۔

    دوسری عالمی جنگ میں نازیوں کی شکست کے بعد اس بالکونی کو بند کر دیا گیا تھا۔ بعد میں‌ آسڑیا نے بھی خود کو ہٹلر کے ‘جرائم’ اور جنگی جنون سے متاثر ہونے والا ملک ظاہر کرنا شروع کردیا تھا۔

  • صدیوں پرانے پانچ شاہی محلّات

    صدیوں پرانے پانچ شاہی محلّات

    عالی شان محلّات، بلند و بالا قلعے اور پُرشکوہ عمارات صدیوں سے شاہان و امرا کی شان و شوکت کی علامت اور یادگار کے طور پر تعمیر کی جاتی رہی ہیں اور آج بھی دنیا بھر میں عظمتِ رفتہ کی یہ نشانیاں ہمارے لیے دیدنی ہیں۔

    یورپ کی بات کی جائے تو وہاں‌ ہر سال کروڑوں سیاح ایسے محلّات اور قلعوں کی سیر کو آتے ہیں‌، جن کا منفرد طرزِ تعمیر ہی نہیں‌ ان سے منسوب داستانیں، مستند تاریخی واقعات اور حقائق بھی ان کی دل چسپی کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں ہم یورپ کی اُن پانچ عمارتوں کا تذکرہ کررہے ہیں جن کی شان و شوکت اور تب و تاب آج بھی برقرار ہے۔

    ونڈسر کیسل
    یہ عظیم الشان برطانوی محل قدیم ترین شاہی رہائش گاہ کے طور پر مشہور ہے۔ صدیوں‌ سے اس محل میں شاہی خاندان آباد ہے۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ ونڈسر کیسل کی تعمیر 1078 عیسوی میں مکمل ہوئی تھی اور کسی زمانے میں یہ عمارت شاہی افواج کی قیام گاہ کے ساتھ ساتھ بطور جیل بھی استعمال ہوتی رہی۔ یہ ایک پُرشکوہ عمارت اور طرزِ‌ تعمیر کے اعتبار سے نہایت خوب صورت ہے جو برطانوی ملکہ کی مرکزی رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔ برطانوی تاج دار کی اس محل میں موجودگی کی صورت میں یہاں مخصوص مینار پر ان کا پرچم لہرا دیا جاتا ہے۔

    شوئن برُن پیلس
    لگ بھگ تین صدی اور اس سے کچھ زائد عرصہ ہوا جب پندرہویں صدی عیسوی کی ایک عمارت کی ازسرِ نو تعمیر کے ساتھ اس کے وسیع احاطے میں ایک محل کھڑا کر دیا گیا اور اسے شوئن برُن پیلس کا نام دیا گیا جس کا مقامی زبان میں مطلب خوب صورت بہار تھا۔ یہ محل آسٹرو ہنگیرین بادشاہت کی یادگار ہے جسے آسٹریا کی ملکہ ماریا ٹیریسا نے یوں آباد کیا کہ یہ یورپی شاہی خاندانوں کا سب سے بڑا اور اہم مرکز بن گیا۔ آج کے جمہوریہ آسٹریا کے شہر ویانا میں سالانہ لاکھوں‌ لوگ اس عظیم الشان محل کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

    ویرسائیے پیلس
    یہ 1677 کی بات ہے جب فرانس کے دارالحکومت پیرس کے نواح میں اس وقت کے بادشاہ لُوئی (چہار دہم) نے ویرسائیے پیلس کو شاہی رہائش گاہ کے طور پر اپنایا۔ یہ محل اٹھارہ سو کمروں پر مشتمل ہے اور یورپ کے بڑے محلات میں سے ایک ہے۔ ویرسائیے پیلس کی خوب صورتی اور اس کا طرزِ تعمیر اس دور میں مثالی ثابت ہوا اور مشہور ہے کہ یورپ کے دیگر حکم رانوں اور امرا نے اسی طرز پر اپنے قصر تعمیر کروائے۔ فرانس کا یہ محل آج بھی سیاحوں‌ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

    پیٹر ہوف پیلس
    خلیج فن لینڈ کے کنارے تعمیر کیا گیا یہ محل روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ کے مغرب کی طرف واقع ہے اور سیاحوں‌ کی توجہ کا مرکز ہے۔ تاریخ‌ کی کتب بتاتی ہیں‌ کہ اس محل میں موسمِ گرما میں روسی زار پیٹر اوّل قیام کرتا تھا۔ 1723 کی اس عظیم یادگار کی انفرادیت اور اس کا حُسن اس میں‌ بنائی گئی آبی راہ داریاں ہیں۔ اس کے بیرونی اور داخلی راستوں پر حوض، تالاب اور ان میں‌ موجود فوّارے اس کی دل کشی بڑھاتے ہیں۔

    توپکاپی پیلس
    ترکی جانے والے سیاح مشہور شہر استنبول کا توپکاپی پیلس دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔ اس محل کے چار بڑے حصّے ہیں اور اسے ایک وسیع رقبے پر تعمیر کیا گیا ہے جو پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں اس وقت کے سلاطین کی رہائش گاہ ہی نہیں‌ بلکہ انتظامی امور کا مرکز بھی تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ یہ محل ایک چھوٹے سے شہر کی طرح تھا جس میں لگ بھگ پانچ ہزار رہتے اور اپنے اپنے کام انجام دیتے تھے۔