Tag: مشہور مرثیے

  • اللہ جانیں یا میر انیس!

    اللہ جانیں یا میر انیس!

    ہمہ صفت شمسُ الرّحمٰن فاروقی اپنی فکر و زاویہ نظر، اپنے مشاہدات، تجربات، وسیع مطالعے کے ساتھ اپنے تخیل اور قلم کی تحریک سے جنم لینے والی تخلیقات کے سبب نادرِ روزگار ٹھہرے۔ اردو زبان و ادب کو گراں قدر علمی و ادبی سرمائے سے مالا مال کرنے والے ہندوستان اس ادیب، شاعر، محقّق، نقّاد، مترجم اور لغت نویس کی تخلیقی جہات کا احاطہ کرنا بجائے خود ایک کام ہے۔

    شمسُ الرّحمٰن فاروقی کی کسی ادبی موضوع، کتاب، شاعر و ادیب سے متعلق رائے سند بنتی، معتبر ٹھہرتی اور کسی کی شخصیت سے متعلق ان کے اظہارِ‌ خیال کو ممدوح باعثِ صد اعزاز و افتخار تصوّر کرتا۔ پچھلے سال آسمانِ ادب کا یہ روشن و رخشاں ستارہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں‌ خدائے سخن میر انیس کی مدح سرائی اور ان کی مرثیہ گوئی پر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا جس سے یہ ٹکڑا ملاحظہ کیجیے۔

    ’’میں میر انیس کو ہمیشہ سے چار پانچ بڑے شاعروں میں رکھتا ہوں۔ بنیادی بات رواں کلام ہے۔ یہ بہت بڑی صفت ہے۔ ہم اس کو سمجھ اور قدر نہیں کر پائے۔ خیر، یہ سمجھنے والی بات بھی نہیں، محسوس کرنے کی بات ہے۔ مصرع کتنا مشکل ہو، کتنا عربی فارسی ہو، کتنا ہندی سندھی ہو، آسانی اور روانی سے ادا ہوجاتا ہے۔ سمجھ میں آجاتا ہے۔

    مصرع میں لگتا نہیں لفظ زیادہ ہو گیا ہے یا کم ہوگیا۔ میر انیس کا شاعری میں یہ کمال اپنی جگہ ہے کہ الفاظ کواپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں، کسی سے یہ بَن نہیں پڑا۔ مضمون ایک ہے، لیکن ہرمرثیہ نیا معلوم ہوتا ہے۔ زبان پرغیر معمولی عبور۔ زبان عام طور پر شاعر پر حاوی ہوتی ہے، لیکن میر انیس زبان پر حاوی ہے۔

    معمولی مصرع بھی کہیں گے تو ایسی بات رکھ دیں گے کہ کوئی دوسرا آدمی کہہ نہیں سکتا۔ اکثر یہ تو آپ تجزیہ کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اس غزل یا نظم میں کیا کیا ہے، میر انیس کے معاملہ میں نہیں دکھا سکتے۔ مجھے ان کا مرثیہ دے دیں۔ اس کے ہر بند کے بارے میں بتا دوں گا لیکن مجموعی طور پر اتنا بڑا مرثیہ کیسے بن گیا اس کو اللہ میاں جانیں یا میر انیس۔

    مرثیہ تو مرثیہ، سلام لکھنے بیٹھتا ہے تو اس میں کمال کر دیتا ہے۔ میں کبھی گھر میں سلام پڑھتا تو میری بیوی کہتی نہ پڑھو، مجھے رونا آ رہا ہے، یعنی اسے بھی رونا آتا ہے جو سلام کی باریکیوں سے واقف نہیں۔ وہ کہتے ہیں:

    ؎ زہرا کے گھر کے چاند، زمانے کے آفتاب

    میرا عقیدہ کچھ بھی ہو، لیکن یہ مصرع مجھ پر بہت اثر کرتا ہے۔‘‘

  • آفتابِ سخن میر انیس کا یومِ وفات

    آفتابِ سخن میر انیس کا یومِ وفات

    میر انیس کو اردو زبان کا فردوسی کہا جاتا ہے جو 10 دسمبر 1874ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج جہانِ سخن کے اس نام وَر اور قادرُ الکلام شاعر کا یومِ وفات ہے۔

    میر انیس 1803ء میں محلہ گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پردادا امیر ضاحک قادر الکلام شاعر تھے اور انیس نے اس ورثے کے ساتھ شعروسخن کی دنیا میں‌ بڑا نام و مقام حاصل کیا۔

    میر انیس کو بچپن ہی سے شاعری سے شغف تھا۔ ابتدائی زمانہ میں انھوں نے حزیں تخلص کیا اور بعد میں اپنے وقت کے مشہور شاعر استاد ناسخ کے مشورے سے انیس رکھا۔ میر انیس نے غزلیں بھی کہیں مگر مرثیہ گوئی میں کمال حاصل کیا اور اس صنفِ سخن کو بلندی پر پہنچا دیا۔

    میر ببر علی انیس کو وفات کے بعد ان کے مکان میں سپردِ خاک کیا گیا اور 1963ء میں ان کے مدفن پر عالی شان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔

    میر انیس نے مرثیہ گوئی میں‌ جو کمال اور نام و مرتبہ حاصل کیا اردو ادب میں اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ انھیں‌ آج بھی انسانی جذبات اور ڈرامائی انداز میں‌ شاعری کے ذریعے اپنا مدعا بیان کرنے والے شعرا میں سرفہرست رکھا جاتا ہے۔

    انیس کا کمال یہی نہیں تھاکہ بلکہ انھوں نے زبان و بیان کے حوالے سے بھی اردو مرثیہ کو اس خوب صورتی سے سجایا کہ اس کی مثال نہیں‌ ملتی۔شاعری میں منظر نگاری، کردار اور واقعہ پیش کرنا میر انیس کا ہی ہنر عظیم تھا۔

  • دو باکمال اور لفظوں کا طلسم

    دو باکمال اور لفظوں کا طلسم

    زمانہ کی خاصیت طبعی ہے کہ جب نباتات پرانے ہو جاتے ہیں تو اُنھیں نکال کر پھینک دیتا ہے اور نئے پودے لگاتا ہے۔

    میر ضمیرؔ اور میر خلیقؔ کو بڑھاپے کے پلنگ پر بٹھایا، میر انیسؔ کو باپ کی جگہ منبر پر ترقی دی، ادھر سے مرزا دبیر اُن کے مقابلے کے لیے نکلے، یہ خاندانی شاعر نہ تھے، مگر ضمیرؔ کے شاگرد رشید تھے۔

    جب دونوں نوجوان میدانِ مجالس میں جولانیاں کرنے لگے تو فنِ مذکور کی ترقی کے بادل گرجتے اور برستے اُٹھے اور نئے اختراع اور ایجادوں کے مینھ برسنے لگے۔

    نوجوانوں کے کمال کو خوش اعتقاد قدر دان ملے، وہ بزرگوں کے شمار سے زیادہ اور وزن میں بہت بھاری تھے۔ کلام نے وہ قدر پیدا کی کہ اس سے زیادہ بہشت ہی میں ہو تو ہو! قدر دانی بھی فقط زبانی تعریف اور تعظیم و تکریم میں ختم نہ ہو جاتی تھی بلکہ نقد و جسن کے گراں بہا انعام تحائف اور نذرانوں کے رنگ میں پیش ہوتے تھے۔

    ان ترغیبوں کی بدولت فکروں کی پرواز اور ذہنوں کی رسائی سے اُمید زیادہ بڑھ گئی۔ دونوں با کمالوں نے ثابت کر دیا کہ حقیقی اور تحقیقی شاعر ہم ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ہر رنگ کے مضمون، ہر قسم کے خیال، ہر ایک حال کا اپنے الفاظ کے جوڑ بند سے ایسا طلسم باندھ دیتے ہیں کہ چاہیں رُلا دیں، چاہیں ہنسا دیں، چاہیں تو حیرت کی مورت بنا دیں۔

    (آزاد کی کتاب آبِ حیات سے انتخاب)