Tag: مشہور مزاحیہ شاعر

  • مغرب زدہ طبقے اور معاشرے کی اصلاح کرنے والے شاعر اکبر الٰہ آبادی کی برسی

    مغرب زدہ طبقے اور معاشرے کی اصلاح کرنے والے شاعر اکبر الٰہ آبادی کی برسی

    اکبر الٰہ ابادی اردو شاعری میں اپنے طنز و مزاح پر مبنی کلام کی بدولت ہی مشہور نہیں تھے بلکہ انھیں اپنے زمانے کا ایک مفکّر، مدبّر اور مصلح بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

    اکبر الٰہ آبادی کے دور میں نہ صرف مشرقیت پر بلکہ اسلامیت پر بھی مغربی رنگ غلبہ پا رہا تھا۔ اس دور میں قوم و ملّت کی اصلاح کی اشد ضرورت تھی، اکابرین چاہتے تھے کہ لوگ اپنی اسلامی روایات پر قائم رہتے ہوئے اپنی تہذیب اور ثقافت کو اہمیت دیں۔ انہی میں اکبر بھی شامل تھے۔ مغربیت کے اس غلبے کے خلاف اکبر الٰہ آبادی نے شاعری سے مدد لی۔

    آج اردو زبان کے اس مشہور شاعر کا یومَِ وفات ہے۔ وہ 1921ء کو آج ہی دن دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اکبر کی شاعری اخلاقی، سیاسی، تہذیبی شعور اور زندگی کا آئینہ سمجھی جاتی ہے۔ وہ واعظ بھی تھے، مصلح بھی، نقّاد بھی، نکتہ چیں بھی۔ انھیں ان کی روایت اور جدّت پسندانہ سوچ کے ساتھ ایک انقلابی اور باغی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

    اکبر کو اس دور کے خواص اور عوام دونوں نے سندِ قبولیت بخشی۔ اکبر نے اپنے کلام کے ذریعے اس دور میں‌ سبھی کی گویا خبر لی، اور کسی سے مرعوب ہوئے۔ وہ حق بات کہنے سے نہ گھبرائے اور اس معاملے میں کسی کے عہدے مرتبے کا لحاظ بھی نہ کیا۔

    یہاں ہم اکبر سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے اس دور میں ان کی حیثیت و مرتبے اور شہرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اکبر الہ آبادی کی شہرت اور ان کی مقبولیت نے جہاں‌ کئی حاسد پیدا کیے، وہیں بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعویٰ کرکے دوسروں کی نظر میں خود کو مستند اور معتبر منوانا چاہا۔

    ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انھوں نے خود کو اکبر کا استاد مشہور کر دیا۔ کسی طرح یہ بات اکبر کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ ان تک اطلاع پہنچی کہ حیدرآباد میں ان کے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے، تو ایک روز اپنے دوستوں اور مداحوں کی محفل میں فرمایا،

    ’’ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے۔ وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں انہیں عقل، مگر دونوں ناکام رہے۔ نہ مولوی صاحب کو عقل آئی اور نہ مجھ کو علم۔‘‘

    آج بھی جب ہم اکبر الٰہ آبادی کے اشعار پڑھتے ہیں تو مسکرانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اگر ان کی شاعری کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کریں تو شرمندگی بھی محسوس کرتے ہیں۔

    اکبر الہ آبادی کا اصل نام سیّد اکبر حسین تھا۔ انھوں نے 16 نومبر 1846ء کو آنکھ کھولی۔ اپنے وطن کی نسبت نام سے لاحقہ جوڑا اور اکبر الٰہ آبادی کہلائے۔ ابتدائی اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد وکالت پڑھی اور امتحان پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ مقدمات لڑے اور پھر جج کے منصب تک پہنچے۔ اس دوران انھوں نے سماج کے مختلف روپ بھی دیکھے اور ہندوستان میں‌ انگریزوں کی آمد کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول اور تہذیب و ثقافت پر مغربیت کا غلبہ تو دیکھ ہی رہے تھے۔ سو، ان کی شاعری نے اصلاح اور طنز کا انداز اپنا لیا۔

    انھوں‌ نے اپنی شاعری سے اصلاحِ معاشرہ کا وہی کام لیا جو اس دور میں سر سیّد احمد خان اور علاّمہ اقبال جیسی شخصیتوں کا شیوہ رہا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اکثر سماجی برائیوں، مغربی تہذیب اور لادینیت کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کیا اور نئی تہذیب یا مغربیت کے دلدادگان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم ان کی اس طرزِ شاعری میں کوشش یہ تھی کہ لوگوں کا وقار اور انا مجروح نہ ہو اور وہ اپنا محاسبہ بھی کریں‌۔ ان کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور آج بھی ہماری اخلاقی اور معاشرتی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اصلاح کرتے ہیں۔

    لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
    مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

    ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
    کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

    چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
    شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
    چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
    کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا

  • اکبر الہ آبادی اور ان کے ‘استاد’

    اکبر الہ آبادی اور ان کے ‘استاد’

    اکبر الٰہ ابادی اردو کے بڑے شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ان کی شاعری ان کے عہد کی اخلاقی، سیاسی، تہذیبی شعور اور زندگی کا آئینہ سمجھی جاتی ہے۔ وہ واعظ بھی تھے، مصلح بھی، نقّاد بھی، نکتہ چیں بھی اور روایت و جدّت پسندانہ سوچ کے ساتھ ایک انقلابی اور باغی شاعر تھے۔

    انھیں خواص اور عوام دونوں نے سندِ قبولیت بخشی تھی۔ کہتے ہیں اکبر نے اپنے کلام کے ذریعے اس دور میں‌ سبھی کی خبر لی ہے، اور کسی سے مرعوب ہوئے نہ کہیں اپنی بات کہنے سے ڈرے۔

    یہاں ہم اکبر سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے ان کی حیثیت و مرتبے اور شہرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اکبر الہ آبادی کی شہرت اور ان کی مقبولیت نے جہاں‌ کئی حاسد پیدا کیے، وہیں بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعویٰ کرکے دوسروں کی نظر میں خود کو مستند اور معتبر منوانا چاہا۔

    ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انھوں نے خود کو اکبر کا استاد مشہور کر دیا۔ کسی طرح یہ بات اکبر کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ ان تک اطلاع پہنچی کہ حیدرآباد میں ان کے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے، تو ایک روز اپنے دوستوں اور مداحوں کی محفل میں فرمایا،

    ’’ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچّ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے۔ وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں انہیں عقل، مگر دونوں ناکام رہے۔ نہ مولوی صاحب کو عقل آئی اور نہ مجھ کو علم۔‘‘

  • سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

    سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

    مشہور مغنیہ گوہر جان ایک مرتبہ الہ آباد گئیں‌ جہاں‌ وہ جانکی بائی کی مہمان بنیں۔

    انھوں‌ نے اپنی میزبان سے کہا کہ وہ خان بہادر سید اکبر حسین ( اکبر الٰہ آبادی) سے ملنا چاہتی ہیں۔ میزبان انھیں‌ لے کر دوسرے ہی دن اکبر کے ہاں پہنچ گئیں، تعارف کرواتے ہوئے جانکی بائی نے کہا کہ یہ کلکتہ کی مشہور مغنیہ گوہر جان ہیں، آپ سے ملنے کا اشتیاق تھا۔

    اکبر نے کہا، ’’زہے نصیب، ورنہ نہ میں امام، نہ غوث، نہ قطب اور نہ کوئی ولی جو قابلِ زیارت خیال کیا جاؤں، پہلے جج تھا، اب ریٹائر ہو کر صرف اکبر رہ گیا ہوں، حیراں ہوں کہ آپ کی خدمت میں‌ کیا تحفہ پیش کروں‌۔‘‘

    گوہر نے کہا، ’’ کوئی شعر لکھ دیجیے کہ یادگار رہے۔‘‘ اکبر نے ایک کاغذ لیا اور شعر لکھ کر گوہر جان کی طرف بڑھا دیا۔ شعر یہ تھا:

    خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
    سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا