Tag: مشہور مزاح نگار

  • نصرت ظہیر: معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی دنیا سے رخصت ہوئے

    نصرت ظہیر: معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی دنیا سے رخصت ہوئے

    سہارن پور(بھارت) سے خبر آئی ہے کہ معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی نصرت ظہیر دارِ فانی سے کوچ کرگئے ہیں۔ ان کی عمر 69 برس تھی۔

    نصرت ظہیر نے دنیائے ادب کے لیے‌ اپنی تخلیقات ’’بقلم خود‘‘، ’’تحت اللفظ‘‘ اور ’’خراٹوں کا مشاعرہ‘‘ کے نام سے چھوڑی ہیں۔ نصرت ظہیر نے اردو زبان و ادب کی خدمت کے لیے سہ ماہی ’’ادب ساز‘‘ نکالا تھا۔

    نصرت ظہیر نے مختلف روزناموں کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔

    یہاں ہم ان کے ایک مزاحیہ مضمون سے اقتباس پیش کررہے ہیں۔

    "اُن ہی دنوں شہر کی ایک ویران سڑک سے گزر رہا تھا کہ راہ میں ایک لکڑ بھگے سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے سوچا فرسٹ ہینڈ جانکاری کے لیے اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا۔ کیوں نہ لکڑ بھگے سے انٹر ویو کر لیا جائے۔

    ویسے بھی میں سیاست دانوں کے انٹرویو کر کر کے تنگ آچکا تھا۔ تو جسٹ فار اے چینج، کسی لیڈر کی بجائے لکڑ بھگّا ہی سہی۔

    ’’باقی باتیں تو بعد میں ہوں گی لکڑ بھگے بھائی! پہلے یہ بتاؤ کہ تمہارا اصلی نام کیا ہے۔ لکڑ بھگا، لکڑ بگا، یا لکڑ بگھا؟‘‘

    یہ سن کر لکڑ بھگا پہلے متغیّر پھر متفکر اور بعد ازاں متشکک ہوا۔ بالآخر متبسم ہو کر بولا۔

    ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہم جیسے ادنیٰ جانوروں کی وجہ سے آپ اس قسم کی لسّانی الجھنوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ خیر… بات یہ ہے کہ پہلے ہم لکڑ بھگے یا لکڑ بگھے ہی ہوا کرتے تھے۔ مگر امتداد زمانہ سے گھستے گھستے لکڑ بگے رہ گئے۔

    ویسے آپ چاہیں توہمیں لگڑ بگڑ بھی کہہ سکتے ہو۔ اہلِ فارس نے تو ہمیں چرخ کا نام دے ڈالا، جس کی وجہ سے ہند کے تمام شاعر بنا ہاتھ دھوئے ہمارے پیچھے پڑ گئے۔ چنانچہ ان چرب زبانوں نے چرخِ پیر، چرخِ زریں، چرخِ کبود اور چرخِ دولابی کی آڑ میں ہمارے فارسی نام کو اتنا بد نام کیا کہ اخترالایمان و الحفیظ جالندھری…”

  • غلط دلائل سے صحیح بات منوانے کی کوشش

    غلط دلائل سے صحیح بات منوانے کی کوشش

    مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے، لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابلِ رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔

    اب سگریٹ کو ہی لیجیے۔ ہمیں کسی کے سگریٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مرزا سگریٹ چھوڑنے کا جو فلسفیانہ جواز ہر بار پیش کرتے ہیں، وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا۔

    مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگریٹ پینے سے گھریلو مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہو کر سگریٹ شروع کر دی اور اس کے عادی ہو گئے تو انھوں نے چھوڑ دی۔

    کہنے لگے، بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر سگریٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا وہ در اصل پیدا ہی کثرتِ سگریٹ نوشی سے ہوئے تھے۔


    (ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب "چراغ تلے” سے انتخاب)

  • "بھینس بہت مشہور جانور ہے!”

    "بھینس بہت مشہور جانور ہے!”

    یہ بہت مشہور جانور ہے۔ قد میں عقل سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے۔

    چوپایوں میں یہ واحد جانور ہے کہ موسیقی سے ذوق رکھتا ہے، اسی لیے لوگ اس کے آگے بین بجاتے ہیں۔ کسی اور جانور کے آگے نہیں بجاتے۔

    بھینس دودھ دیتی ہے، لیکن وہ کافی نہیں ہوتا۔ باقی دودھ گوالا یعنی دودھ والا دیتا ہے اور دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔

    تعاون اچھی چیز ہے، لیکن دودھ کو چھان لینا چاہیے تاکہ مینڈک نکل جائیں۔

    بھینس کا گھی بھی ہوتا ہے۔ بازار میں ہر جگہ ملتا ہے۔ آلوؤں، چربی اور وٹامن سے بھرپور۔ نشانی اس کی یہ ہے کہ پیپے پر بھینس کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ تفصیل میں نہ جانا چاہیے۔

  • جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے!

    جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے!

    ہم پاکستان کے ممتاز اور نام ور آرٹسٹ گل جی کے گیارہ سال دیوار بیچ پڑوسی رہ چکے ہیں۔ انہیں بہت قریب سے پینٹ کرتے دیکھا ہے۔ وہ صرف رات کو اور وہ بھی بارہ بجے کے بعد پینٹ کرتے ہیں۔ کافی عرصے تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ شاید انہیں رات میں بہتر دکھائی دیتا ہے لیکن جب سے خود ہم نے السر کی تکلیف کے سبب رات کو لکھنا پڑھنا شروع کیا ہم سائے کے بارے میں بدگمانی سے کام لینا چھوڑ دیا۔

    کیا تجھ کو خبر کون کہاں جھوم رہا ہے

    انہیں بھی گھوڑوں سے بے انتہا شغف ہے۔ ان کی تصویریں بنا کے لاکھوں کماتے ہیں۔ سنا ہے ایک دفعہ کسی نے (ہم نے نہیں) مذاق میں کہہ دیا کہ جتنے کی آپ ایک گھوڑے کی تصویر بیچتے ہیں اس میں تو تین زندہ گھوڑے باآسانی آسکتے ہیں۔ اتنا تو ہم نے بھی دیکھا کہ اس کے بعد وہ کینوس پر کم از کم تین گھوڑے بنانے لگے۔

    یہ بھی دیکھا کہ جتنے پیار، تفصیل وار موشماری اور انسپریشن سے وہ گھوڑے کی دُم بناتے ہیں اس کا سو واں حصہ بھی گھوڑے اور سوار پر صرف نہیں کرتے۔ صرف گھوڑے ہی کی نہیں سوار کی بھی ساری پرسنالٹی کھچ کر دُم میں آجاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے ایک ایک بال پر مالکانہ شفقت سے ہاتھ پھیر کے دُم بنائی ہے۔

    چناں چہ ہر دُم منفرد، البیلی اور انمول ہوتی ہے۔ دل کی بات پوچھیے تو وہ فقط دُم ہی بنانا چاہتے ہیں۔ باقی ماندہ گھوڑا انہیں فقط دُم کو اٹکانے کے لیے طوعاً وکرہاً بنانا پڑتا ہے۔ کبھی کسی وی آئی پی خاتون کی پورٹریٹ خاص توجہ سے بہت ہی خوب صورت بنانی مقصود ہوتی ہے تو اس کے بالوں کی پونی ٹیل بطور خاص ایسی بناتے تھے کہ کوئی گھوڑا دیکھ لے تو بے قرار ہوجائے۔

    بلبل فقط آواز ہے طاﺅس فقط دُم

    یوں بنانے کو تو انہوں نے البیلے اونٹ بھی بکثرت بنائے ہیں اور الٹے بانس بریلی بھیجے ہیں۔ یعنی درجنوں کے حساب سے عرب ممالک کو روغنی اونٹ ایکسپورٹ کیے ہیں۔ ان کے بعض اونٹ تو اتنے منہگے ہیں کہ صرف بینک، شیوخ، غیر ملکی سفارت کار اور مقامی اسمگلر ہی خرید سکتے ہیں۔

    یونائیٹڈ بینک نے ان سے جو نایاب اونٹ خریدے وہ اتنے بڑے نکلے کہ ان کے ٹانگنے کے لیے ہال کے بیچوں بیچ ایک دیوار علیحدہ سے بنوانی پڑی لیکن انہیں دیکھ کر شیوخ اتنے خوش ہوئے کہ بعض نے اصل یعنی بالکل انہی جیسے اونٹوں کی فرمائش کردی۔ اب بینک اس مخمصے میں پڑگیا کہ:

    ایسا کہاں سے لاﺅں کہ تجھ سا کہیں جسے

    جب ہم بینک سے متعلق و منسلک ہوئے تو ایک دن ہمت کرکے گل جی سے کہا کہ حضور اگر آپ آیندہ ایسے اونٹ بنائیں جو اس عالمِ آب و گل میں با آسانی دست یاب ہوجایا کریں تو بینک کو شیوخ کی فرمائش پوری کرنے میں آسانی رہے گی۔ نوکری کا سوال ہے۔

    بہرکیف گل جی کے اونٹ میں وہ گھوڑے والی بات پیدا نہ ہوسکی اور ہوتی بھی کیسے، کہاں گھوڑے کی تابہ زانو گھنیری چنور شاہی دُم، کہاں اونٹ کی پونچھڑی!

    دُم نہیں دُم کا ٹوٹا کہیے۔ مرزا کہتے ہیں کہ اس سے تو ڈھنگ سے شُتر پوشی بھی نہیں ہوسکتی۔ ہر جانور کی دُم کا کچھ نہ کچھ مصرف ضرور ہوتا ہے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”آبِ گم“ سے اقتباس)

  • غلط فہمی

    غلط فہمی

    کنہیا لال کپور اردو زبان کے ان مزاح نگاروں میں شامل ہیں جن کا قلم نثر اور نظم دونوں اصناف میں متحرک رہا۔
    وہ ایک طرف اپنے مضامین میں سماجی ناہم واریوں، طبقاتی کشمکش اور انسانی رویّوں پر شگفتہ اور شوخ انداز میں قلم اٹھاتے ہیں تو دوسری طرف طنز و مزاح سے بھرپور نظمیں اور پیروڈی سے قارئین کی توجہ حاصل کر لتیے ہیں۔ ان کی تخلیقات سادہ اور عام فہم ہیں۔ طنز و مزاح کے ساتھ ان کی تحاریر میں تعمیر و اصلاح کا پہلو نمایاں ہے۔

    کنہیا لال کپور نے 1910ء میں لائل پور (فیصل آباد) میں آنکھ کھولی۔ تقسیم کے بعد ہندوستان چلے گئے جہاں درس و تدریس کے شعبے میں خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ مختلف اخبار اور ادبی جرائد کے لیے طنز و مزاح لکھا۔ ان کی متعدد کتابیں منظرِعام پر آئیں جن میں بال و پَر، گستاخیاں، نازک خیالیاں، سنگ و خشت، نرم گرم مشہور ہیں۔ 1980 کنہیا لال کپور کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔

    ان سے منسوب دو لطائف آپ کی ذوقِ شگفتہ کی نذر ہیں۔

    کنہیا لال کپور نہایت نحیف اور دبلے پتلے تھے۔ ایک انگریز خاتون جو ادب کا ذوق رکھتی تھیں جب کنہیا لال کپور سے ملیں تو انھیں دیکھ کر کہنے لگیں۔
    کپور صاحب! آپ سوئی کی طرح پتلے ہیں۔
    کنہیا لال کپور نے مسکراتے ہوئے نہایت انکساری سے کہا۔
    آپ کو غلط فہمی ہوئی محترمہ، بعض سوئیاں مجھ سے بھی موٹی ہوتی ہیں۔

    ایک اور واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔
    ایک مرتبہ کنہیا لال کپور کسی شخص سے الجھ گئے۔ بات بڑھی تو برہم ہوتے ہوئے بولے۔
    میں تو آپ کو شریف آدمی سمجھا تھا۔
    میں بھی آپ کو شریف آدمی سمجھا تھا۔ اس شخص نے بھی برہم ہو کر سوچے سمجھے بغیر کہہ دیا۔
    اس پر کنہیا لال نے نہایت سنجیدگی اور کمال عجز کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
    تو حضور آپ ٹھیک سمجھے، غلط فہمی تو مجھی کو ہوئی تھی۔