Tag: مشہور مسلمان سائنسدان

  • علم و تحقیق کی دنیا اور مسلمان

    علم و تحقیق کی دنیا اور مسلمان

    یہ ان چند مسلمان سائنس دانوں اور ان کے علمی و تحقیقی کاموں کا تذکرہ ہے جن کے علم اور ایجادات سے آج تک دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے اور عالمِ اسلام کی ان ناقابلِ فراموش شخصیات کو مغرب اور یورپ بھی عزّت اور احترام سے یاد کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ آج عالمِ اسلام علم و فنون اور سائنس کے میدان کے ایسے شہ سواروں سے محروم نظر آتا ہے، لیکن چند صدیوں پہلے تک مسلمانوں نے اپنا عروج دیکھا اور کئی لازوال کام کیے اور بے مثال کارنامے انجام دیے ہیں۔

    اندلس کے عظیم مسلمان سائنس دان ابنِ رشد نے سورج کی سطح کے دھبوں (Sunspots) کو شناخت کیا تھا جو اس دور میں‌ کسی جدید آلے اور قابلِ بھروسا ٹیکنالوجی سے تہی ہونے کے باوجود ایک بڑا کارنامہ تھا۔ عمر خیام کی بات کی جائے تو انھوں نے شمسی کیلنڈر مرتب کیا تھا۔خلیفہ مامون الرشید کے زمانے میں زمین کے محیط کی پیمائش عمل میں آئی جن کے نتائج کی درستی آج بھی حیران کن ہے۔ سورج اور چاند کی گردش، سورج گرہن، علم المیقات (ٹائم کیپنگ) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیر معمولی سائنسی معلومات دنیا کو البیرونی جیسے نامور مسلم سائنس دان کی بدولت حاصل ہوئیں۔ علم ہئیت اور فلکیات اور ستارہ شناسی کے ضمن میں اندلس کے مسلمان سائنس دانوں میں اگرچہ علی بن خلاق اندلسی اور مظفرالدّین طوسی کی خدمات بڑی اہمیت رکھتی ہیں، مگر ان سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ کے عظیم سائنس دان عباس بن فرناس نے اپنے گھر میں جو کمرہ تیار کر رکھا تھا، یہ دورِ جدید میں سیارہ گارہ (پلینٹیریم) کی بنیاد بنا۔ اس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ بعد ازاں البیرونی اور ازرقیل وغیرہ نے قطبین کے آلات کو وضع کیا اور اس شعبہ کو ترقی دی۔

    قبلہ کے تعین اور چاند اور سورج گرہن کو قبل از وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی ابن یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنس دانوں نے وضع کیا تھا۔ اس سلسلے میں ان کے مرتب کردہ جدول موجود ہیں۔ الخوارزمی کا نام لیں تو وہ حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں اپنی گراں قدر خدمات کی وجہ سے آج بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان کی کتاب (الجبر و المقابلہ) سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی اور اسی سے مغرب میں الجبرا متعارف ہوا۔ اس میں لوگوں کی روزمرہ ضروریات اور معاملات کا حل جیسے میراث، وصیت، تقسیم، تجارت، خرید و فروخت، کرنسی کا تبادلہ، کرایہ وغیرہ کو خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔

    طبیعیات اور حرکیات میں‌ ابن سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرا کی خدمات ابتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد میں اس میدان میں محمد بن زکریا، البیرونی اور ابوالبرکات البغدادی کا نام لیا جاتا ہے جنھوں نے اس شعبۂ علم کو مزید ترقی دی۔ ابن الہیثم نے زمان و مکاں، کششِ ثقل، وزن، پیمائش وغیرہ کے شعبے میں خوب کام کیا۔

  • اندلس کے ابنِ زُہر کا تذکرہ جنھیں طبیبِ کامل کہا جاتا ہے

    اندلس کے ابنِ زُہر کا تذکرہ جنھیں طبیبِ کامل کہا جاتا ہے

    لگ بھگ ہزار سال پہلے جہاں برِاعظم یورپ نے مسلمانوں کی دلیری، شجاعت کی داستانیں سنی تھیں، وہیں اندلس میں خلافت و اسلامی امارت کا پرچم بلند ہوتے بھی دیکھا تھا جس نے علم و فنون کی سرپرستی کی اور اس کے زیرِ سایہ صنعت و حرفت کے میدان میں مثالی ترقّی اور دریافت و ایجاد کے میدان میں عظیم اور ناقابلِ فراموش کارنامے انجام دیے گئے۔

    اسی دور کا اندلس جہاں ہمیں شان و شوکت، رعب و دبدبے اور سلطنت کے عروج و زوال کی ہوش رُبا داستان سناتا ہے، وہاں اس زمانے کے مسلمان سائنس دانوں کے کار ہائے نمایاں بھی ہمارے سامنے رکھتا ہے جس سے بعد میں یورپ کی دیگر اقوام نے بھرپور استفادہ کیا۔

    ابنِ زُہر (زُھر) اندلس کے اُس خاندان کے فرد تھے جس نے مختلف ادوار میں علم و ادب، مذہب اور طب میں نام و مرتبہ پایا۔

    ابنِ زُہر جیّد و مستند عالم اور حاذق طبیب تھے۔ مسلم اور غیر مسلم یورپی مؤرخین نے انھیں فنِ طبابت کے علاوہ الہٰییات، فقہ کا زبردست عالم اور ادبیات کا ماہر بتایا ہے۔ تاہم ان کی دنیا بھر میں وجہِ شہرت علمِ طب ہے جس کے لیے ان کے بزرگ اور خاندان کے دیگر لوگ بھی مشہور تھے۔

    زُہر کا مکمل خاندانی نام "ابنِ زُہر بن ابو مروان عبد الملک بن ابی الاعلیٰ زُہر تھا۔ ان کی ولادت اشبیلیہ میں 1091ء میں ہوئی۔ ابنِ زُہر کو مستشرقین Avenzoar کے نام سے جانتے ہیں۔

    ابنِ زُہر نے تجربات و تحقیق سے متعدد امراض کا علاج دریافت کیا اور کئی کتابیں تصنیف کیں جن میں امراض اور ادویّہ کی تفصیل محفوظ ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے سانس کی نالی کی جراحی کی اور غذائی عمل سے متعلق تجربات کیے۔ انھوں نے حلق اور غذا کی نالی سے مصنوعی غذائیت کا تجربہ کیا۔ انھوں نے اپنے ان تجربات اور دریافتوں کے سبب بہت عزّت اور شہرت پائی۔

    ابنِ زُہر نے نظام انہضام و امراضِ معدہ کے علاوہ جسم کے مختلف اعضا کی کیفیت و حالت اور طبّی شکایات و پیچیدگیوں پر تحقیق کرتے ہوئے اپنے مشاہدات اور تجربات کو بیان کیا ہے۔ امراض و علاج سے متعلق اس مسلمان سائنس داں اور ماہر طبیب کی دریافتوں اور انکشافات کے بارے میں تفصیل ان کی کتب سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

    ان کی مشہور طبّی تصانیف کتاب التیسیر فی المداوات و التدبیر، کتاب الاقتصاد فی الاصلاح النّفس والاجساد ہیں۔ ان کتب کا ترجمہ دُنیا کی متعدد زبانوں میں ہو چکا ہے۔ ابنِ زُہر کا سنِ وفات 1161ء بتایا جاتا ہے۔

  • سِسلی، جہاں سے عربی کتب کا علم لاطینی زبان میں یورپ تک پہنچا

    سِسلی، جہاں سے عربی کتب کا علم لاطینی زبان میں یورپ تک پہنچا

    سسلی وہ جزیرہ اور ایسا تاریخی مقام ہے جہاں سے اسلامی علوم یورپ تک پہنچے۔ یہ جزیرہ 130 سال تک مسلمانوں کی حکومت میں‌ شامل رہا اور 1091ء میں نارمن قوم نے اسے فتح کرلیا۔

    اس جزیرے کے باسی یونانی، عربی، لاطینی تینوں زبانیں بولتے تھے۔ اس دور میں‌ بعض علما، خاص طور پر یہودی، ان زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ جب جزیرے پر عیسائیوں حکومت قائم ہوگئی تو انھوں نے عربی سے تراجم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ مسلمانوں کے علم اور ان کی ریاضت کو زبانوں‌ پر اپنے عبور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منتقل کرتے چلے گئے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ شاہ راجر اوّل سے لے کر شاہ فریڈرک ثانی تک اور چند شاہانِ وقت نے علما کی سرپرستی کی اور اس کام پر انھیں‌ سراہتے ہوئے بے دریغ رقم خرچ کی۔ انھوں نے بلاتفریقِ مذہب سلسلی کے ایک شہر میں قابل علما کو دعوت دے کر بلایا اور ان سے ترجمہ کا کام لیا۔

    گویا حکم رانوں نے مترجمین کی جماعت تیّار کرلی جس نے عربی اور یونانی سے کتابوں کو لاطینی میں منتقل کیا۔ موضوع کے اعتبار سے زیادہ تر کتب ہیئت اور ریاضی کی تھیں۔

    سسلی میں تیرھویں صدی عیسوی میں طبّی کتب کا ترجمہ بھی ہوا۔ مائیکل اسکاٹ نے ارسطو کی علمُ الحیوانات کی کتاب کا عربی اور عبرانی سے ابوسینا کے حاشیے کے ساتھ 1233ء میں ترجمہ کیا۔

    ترجمہ کا کام شمالی اٹلی میں بھی ہوا۔ عربی سے لاطینی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو کر یورپ پہنچنے والی کئی کتب ایسی ہیں جن کا آج کوئی نشان نہیں‌ ملتا۔ اکثر کے مترجم نامعلوم ہیں۔

    الغرض سیکڑوں کتابیں عربی زبان سے لاطینی میں منتقل ہوئیں اور یورپ نے ان سے استفادہ کیا۔ اس زمانے میں یورپ علم و فضل سے بیگانہ اور شرف و فخر سے محروم تھا، لیکن وہاں اس علم کی بدولت تہذیب و تمدن کا آغاز ہوا اور یورپ میں علمی موضوعات پر مباحث ہی نہیں بلکہ فکرو تدبّر کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے اسے اقوام میں ممتاز اور نمایاں کیا۔

    (تاریخِ یورپ سے چند پارے)