Tag: مشہور مصور

  • یومِ‌ وفات: مشہور مصوّر ایم ایف حسین جن کا فن پارہ خود اُن کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا

    یومِ‌ وفات: مشہور مصوّر ایم ایف حسین جن کا فن پارہ خود اُن کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا

    عالمی شہرت یافتہ مصوّر مقبول فدا حسین 9 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کی عمر 95 برس تھی۔ انھیں بھارت کا ‘پکاسو’ بھی کہا جاتا ہے۔

    وہ بھارت اور دنیا بھر میں ایم ایف حسین کے نام سے مشہور پہچانے گئے۔ ایم ایف حسین کو ان کے بعض نظریات اور بیانات کی وجہ سے قدامت پرستوں کی جانب سے تنقید اور شدید ناپسندیدگی کا سامنا بھی کرنا پڑا جب کہ ان کے بعض فن پارے بھارت میں‌ مذہبی تنازع کا باعث بنے، ان پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کا الزام لگایا گیا اور ایم ایف حسین پر مقدمات کیے گئے۔ اسی تنازع میں انھیں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے قتل کی دھمکیاں ملیں‌ اور وہ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    ایم ایف حسین 17 ستمبر سن 1915ء کو بھارت میں پندھر پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کا بیش تر حصّہ ممبئی شہر میں گزرا۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز فلموں کے بڑے بڑے بورڈ پینٹ کرنے سے کیا اور پھر وہ وقت آیا کہ ان کے فن پارے لاکھوں کروڑوں میں فروخت ہونے لگے۔ ایم ایف حسین بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ایک مشہور مصوّر بن چکے تھے۔

    سن 2008ء میں ہندو مذہبی داستانوں پر مبنی ان کا ایک فن پارہ تقریباً دو ملین ڈالر میں فروخت ہوا، جو اُس وقت تک جنوبی ایشیا میں کسی جدید فن پارے کے لیے ادا کی گئی ریکارڈ رقم تھی۔

    ایم ایف حسین نے چند فلمیں بھی بنائیں، جن میں معروف بھارتی اداکارہ مادھوری ڈکشٹ کے ساتھ بنائی گئی فلم ’گج گامنی‘ بھی شامل ہے۔ ’ایک مصوّر کی آنکھ سے‘ اُن کی پہلی فلم تھی، جو انہوں نے سن 1967ء میں بنائی تھی اس فلم نے برلن، جرمنی کے بین الاقوامی فلمی میلے میں بہترین مختصر فلم کا گولڈن بیئر اعزاز جیتا تھا۔

    ایم ایف حسین عارضۂ قلب کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ انھیں‌ علاج کی غرض‌ سے لندن کے ایک اسپتال میں‌ داخل کروایا گیا تھا، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔

  • فرانس کے ایڈگر ڈیگا اور ’دی لٹل ڈانسر، ایجڈ فورٹین‘ کی کہانی

    فرانس کے ایڈگر ڈیگا اور ’دی لٹل ڈانسر، ایجڈ فورٹین‘ کی کہانی

    ایڈگر ڈیگا کو بچپن ہی سے ڈرائنگ کا شوق تھا۔ 18 سال کی عمر میں‌ اس نے اپنے گھر کے مخصوص کمرے کو ایک اسٹوڈیو کی شکل دے دی تھی۔ بعد کے برسوں میں ڈیگا نے ایک تاثر پسند مصور اور مجسمہ ساز کی حیثیت سے نام پیدا کیا اور پہچان بنائی۔

    ایڈگر ڈیگا نے فرانس کے عظیم شہر پیرس کے ایک باثروت گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ اس کا سنِ پیدائش 1834ء تھا۔ ڈرائنگ اور آرٹ میں‌ اس کی دل چسپی عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی اور اس نے پینٹنگ بنانے کا شوق اپنا لیا۔ ابتدائی زمانے میں اس نے تاریخی واقعات کی منظر کشی کی، لیکن جلد اس کا نظریہ اور رجحان مختلف ہو گیا۔ ڈیگا ایسے مصوّر کی حیثیت سے مشہور ہوا جس کا شمار امپریشن ازم کے بانیوں‌ میں‌ کیا جاتا ہے۔

    فرانس کے اس مصوّر نے پینٹنگ اور ڈرائنگ ہی نہیں‌ مجسمہ سازی میں بھی خاص مقام حاصل کیا۔ اس نے اپنی زندگی میں کُل 150 مجسمے تراشے تھے۔ ڈیگا نے مجسموں کی تیّاری میں موم، مٹّی اور چونے کا استعمال کیا تھا۔ اب ان میں سے اکثر مجسمے خراب اور برباد ہوچکے ہیں۔ تاہم ان کی نقل تانبے کے مجسموں کی صورت میں‌ محفوظ کرلی گئی اور فن پاروں کی اس نقل کی نمائشیں بھی منعقد کی جاچکی ہیں۔

    1917ء میں ڈیگا کا انتقال ہوگیا۔ وہ اپنی زندگی میں مصوّر کے طور پر نام و مقام بنا چکا تھا، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ اس مشہور آرٹسٹ کے شاہ کار مجسموں کی اس وقت تک کوئی نمائش منعقد نہیں ہوئی تھی۔ اس کا صرف ایک ہی مجسمہ لوگوں کے سامنے آیا تھا جسے ’دی لٹل ڈانسر، ایجڈ فورٹین‘ کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے۔

    اس کی پینٹنگ میں خاص طور پر محوِ‌ رقص لڑکیاں اور اجتماعی پرفارمنس کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

  • معروف پاکستانی مصوّر اینا مولکا کی برسی

    معروف پاکستانی مصوّر اینا مولکا کی برسی

    پاکستان میں فائن آرٹ کے شعبے میں تعلیم و تربیت اور فنِ مصوّری کے فروغ کے لیے اینا مولکا احمد کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج اس نام ور مصوّرہ کی برسی ہے۔ وہ 20 اپریل 2005ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    اینا مولکا نے 1917ء میں ایک یہودی جوڑے کے گھر میں آنکھ کھولی جو ان دنوں لندن میں مقیم تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب انھوں نے رائل کالج آف آرٹس، لندن میں داخلہ لیا تو وہاں ان کی ملاقات شیخ احمد سے ہوئی جو خود بھی ایک اچھے مصوّر تھے۔ یہ 1935ء کی بات ہے۔ شیخ احمد سے دوستی محبت میں بدل گئی اور انھوں نے عمر بھر کے لیے ایک دوسرے کی رفاقت قبول کرلی۔ اینا مولکا نے اسلام قبول کیا اور 1939ء میں شیخ احمد سے شادی کے بعد تمام عمر پاکستان میں گزرا دی۔

    یہاں لاہور میں قیام کے دوران اینا مولکا نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فنونِ لطیفہ کی بنیاد رکھی۔ اینا مولکا 1940ء سے 1972ء تک اس شعبے کی چیئرپرسن رہیں۔

    فن کی دنیا میں اس وقت کے ناقدین اور باذوق شخصیات نے اینا مولکا کے فن پاروں اور مصوّری کے شعبے میں ان کی‌ خدمات کو بہت سراہا اور ان کی شہرت ایک ایسی فن کار کے طور پر ہوئی جو یورپی طرزِ مصوّری میں ماہر تھیں، اس میں برش کے چھوٹے چھوٹے اسٹروکس سے تصویر مکمل کی جاتی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اینا مولکا کو مصوّری کے شعبے میں ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ اینا مولکا لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • مشہور پاکستانی مصّور استاد شجاع اللہ کی برسی

    مشہور پاکستانی مصّور استاد شجاع اللہ کی برسی

    20 اپریل 1980ء کو پاکستان کے مشہور مصور استاد شجاع اللہ وفات پاگئے تھے۔ وہ جامعہ پنجاب کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل کالج آف آرٹس میں استاد رہے اور منی ایچر پینٹنگز میں اپنے کمالِ فن کے سبب پہچانے گئے۔

    استاد شجاع اللہ کی پیدائش الور کی ہے جہاں ان کے بزرگ دہلی سے آکر بسے تھے۔ انھوں نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے دوران انھیں‌ مصوّری کا شوق ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے والد بھی اچھے مصوّر تھے اور انھیں دیکھ کر استاد شجاع کو بھی اس فن میں دل چسپی پیدا ہوئی۔

    شجاع اللہ کو ان کے والد نے منی ایچر پینٹنگ بنانے کے ساتھ اس پینٹنگ کے لیے خصوصی کاغذ، جسے وصلی کہا جاتا ہے، تیّار کرنے کی بھی تربیت دی۔ قیامِ پاکستان کے بعد استاد شجاع اللہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور راولپنڈی میں‌ سکونت اختیار کی، بعد میں لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں‌ وفات پائی۔

    استاد شجاع اللہ منی ایچر پینٹنگ کے مختلف اسالیب جن میں دکنی اور مغل شامل ہیں، ان کے ماہر تھے۔ انھیں پاکستان میں حاجی محمد شریف کے بعد منی ایچر پینٹنگ کا سب سے بڑا مصوّر تسلیم کیا جاتا ہے۔

  • ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘

    ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘

    کمال الدین بہزاد ایران کا نام وَر مصوّر تھا جس کے فن کا برصغیر ہی نہیں‌ دنیا بھر میں‌ شہرہ ہوا۔ اس کا سنِ پیدائش 1450 بتایا جاتا ہے۔ بہزاد نے متعدد درباروں سے وابستگی کے دوران شاہانِ وقت اور امرا سے اپنے فنِ مصوّری کی داد وصول کی اور ان کی سوانح و تواریخ کو اپنے فن سے آراستہ و زیبا کیا۔

    اردو کے نام وَر ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے اس باکمال مصوّر کو ایک کردار کے طور پر پیش کرتے ہوئے فنِ مصوّری اور تخلیق سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    استاد بہزاد جب آرٹ گیلری میں داخل ہوا تو اس کا پہلا تاثر روحانی آسودگی کا تھا۔ چار طرف رنگوں اور خطوں کی چھاؤنی چھا رہی تھی اور رنگ اور خط ہی تو ایک مصور کا سرمایہ حیات ہوتے ہیں۔ پھر اس نے گیلری کے وسط میں رکھے ہوئے ایک بنچ پر ابتدائی انسان کا ایک مجسمہ رکھا دیکھا۔ اللہ اللہ! گزشتہ صدیوں میں آرٹ نے کتنی بے حدود ترقی کی ہے! اِس مجسمے میں اتنی زندگی ہے جیسے یہ ابھی اُٹھ کر چلنے لگے گا اور بہزاد دم بخود رہ گیا جب ابتدائی انسان کا یہ مجسمہ سچ مچ اُٹھ کر چلنے لگا۔

    جلد ہی بہزاد نے اپنی حیرت پر قابو پایا اور سوچا کہ یہ وہ صدی ہے جس میں آوازیں پورے کرۂ ارض کا سفر کر کے مشرق و مغرب کے گھر گھر میں سنی جا سکتی ہیں اور جس میں چلتی پھرتی تصویریں ہوا کا سفر کرتی ہوئی آتی ہیں اور گھروں میں سجے ہوئے شیشے کے پردوں پر منعکس ہو جاتی ہیں۔

    اگر ایسی صدی میں آرٹسٹ کا تراشا ہوا ایک مجسمہ، عام انسانوں کی طرح چلنے پھرنے لگے تو اس پر حیرت کا اظہار اپنی جہالت کا اعلان ہو گا۔ پھر استاد بہزاد نے دیکھا کہ ابتدائی انسان کا وہ مجسمہ پلٹا اور اس کے پاس آ کر اس کے سامنے رک گیا اور بولا۔

    ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘ تو یہ مجسمہ نہیں ہے، آرٹسٹ ہے! حسن کے اس تخلیق کار نے اپنی شخصیت کو حسن سے کیوں محروم کر رکھا ہے؟ اس کے بال اتنے بے ہنگم کیوں ہیں؟ کیا اسے معلوم نہیں کہ انسان نے جب کھیتی باڑی کرنا سیکھا تھا تو وہ حجامت بنانا بھی سیکھ گیا تھا! آخر آج کا آرٹسٹ، تصویر بنانے سے زیادہ اپنے آپ کو بنانے میں اتنا وقت کیوں ضائع کرتا ہے؟ اس مصور کے بالوں اور لباس کی یہ بے ترتیبی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ بے ترتیبی اس نے بڑی ترتیب سے پیدا کی ہے تاکہ وہ مصوّر نظر آئے۔

    مصوّر جب مصوّر دکھائی دینے کی، اور شاعر، شاعر دکھائی دینے کی کوشش کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی مصوّری اور شاعری میں کوئی ایسی کمی ہے جس کا خود مصور اور شاعر کو بھی احساس ہے۔ بہزاد نے سوچا کہ مصور اور شاعر اپنی اس کمی کو دور کرنے کی بجائے اسے اپنی شخصیت کی رومانیت میں کیوں چھپاتا ہے؟ اس طرح تو وہ دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش میں اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے اور اپنے آپ کو دھوکا دینے والا انسان تو کبھی بڑا آرٹسٹ نہیں بن سکتا۔

    مصوّر نے اپنے سوال کو دہرایا تو استاد بہزاد بولا ’’میں پرانے خیال کا آدمی ہوں۔ صدیوں کی فصلیں کاٹ کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں کہ آج کے آرٹ کا اسلوب کیا ہے۔ میں آپ کا ماڈل بننے کو تیار ہوں مگر پہلے مجھے اس آرٹ گیلری کی سیر تو کرائیے تاکہ میرے دل میں یہ اعتماد پیدا ہو سکے کہ آپ کا ماڈل بن کر آپ کا اور اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا۔‘‘

    مصور نے بہزاد کو بازو سے پکڑا اور ایک تصویر کے پاس لے گیا۔ تصویر پر مصور نے اپنے دستخط بھی انگریزی میں کیے تھے اور نیچے ایک گوشے میں تصویر کا نام بھی انگریزی میں درج تھا۔ بہزاد حواس باختہ سا نظر آیا تو مصور سمجھ گیا کہ بدنصیب کو انگریزی نہیں آتی، چنانچہ اس نے تصویر کے نام کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا ’’ذات کی شکست۔‘‘

    ’’مگر یہ بنائی کس نے ہے؟‘‘ بہزاد نے پوچھا۔ مصوّر تن کر بولا ’’میں نے۔ مگر نہیں۔ میں نے اسے بنایا نہیں ہے بلکہ اس نے خود کو مجھ سے بنوایا ہے۔ میرے اندر کوئی ایسی قوت ہے جسے آپ میری چھٹی حس کہہ لیجیے۔ وہی مجھ سے یہ تصویریں بنواتی ہے۔ اس میں میرا شعور، میرا ارادہ قطعی شامل نہیں ہوتا۔ ایک بار آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو میں نے محسوس کیا کہ اگر میں یہ تصویر نہیں بناؤں گا تو مر جاؤں گا، چنانچہ تصویر آپ کے سامنے ہے۔‘‘

    بہزاد نے تصویر کو بغور دیکھا۔ پھر مصوّر کی طرف دیکھ کر بولا ’’معذرت چاہتا ہوں مگر فن کی دیانت مجھے یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہے کہ کاش اس رات آپ مر ہی گئے ہوتے تاکہ فن اس آلودگی سے محفوظ رہتا جو آپ نے اس تصویر کی صورت میں فن کے منہ پر دے ماری ہے۔ اوّل تو آپ نے اس تصویر کے اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں تک ریت کے اڑتے ہوئے جو ذرات دکھائے ہیں، وہ ذرات کی بجائے مکئی اور جوار کے دانے معلوم ہوتے ہیں۔ پھر اس میں سے ’’ذات‘‘ غائب ہے۔ صرف شکست ہی شکست ہے، اور شکست کو تو مثبت ہونا چاہیے کیونکہ جب کچھ ٹوٹتا ہے تو کچھ بنتا بھی ہے۔

    اور آپ نے ذات کو توڑنے تاڑنے کے بعد اس پر اپنے دستخط جڑ دیے ہیں، یہ جو تصویر کے کونے میں ایک لمبا سا کیڑا پڑا بل کھا رہا ہے تو یہ آپ کے دستخط ہی ہیں نا؟ اور یہ بھی انگریزی ہی میں ہیں نا؟ پھر جب آپ اپنی زبان میں دستخط تک نہیں کر سکتے تو اپنی بے چاری ذات کے ساتھ کیا انصاف کریں گے۔ معاف کیجیے گا، میں آپ کا ماڈل بننے کو تیار نہیں ہوں، قدرت نے مجھے ایک خاص سلیقے سے بنایا ہے۔ میں آپ کے سپرد ہو کر قدرت کے معیاروں کی ہتک کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ بہزاد نے یہ کہا اور مصوّر کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔

  • پیئرآگسٹ رینوار: درزی کا بیٹا جو فنِ مصوّری میں نام وَر ہوا

    پیئرآگسٹ رینوار: درزی کا بیٹا جو فنِ مصوّری میں نام وَر ہوا

    فنِ مصوّری کی ایک صنف ایکسپریشنزم (تاثراتی آرٹ) بھی ہے جس میں دنیا کے کئی آرٹسٹوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام کمایا۔ فرانس کا پیئرآگسٹ رینوار بھی ان میں سے ایک ہے جسے پیرس کے مقبول آرٹسٹوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے فن پاروں کی انفرادیت ہلکے اور اجلے رنگ ہیں۔

    وہ 25 فروری 1841ء کو پیدا ہوا۔ اس کے والد درزی تھے اور پیرس میں مقیم تھے۔ وہیں رینوار نے ڈرائنگ اور موسیقی میں دل چسپی لینا شروع کی، لیکن معاشی حالات نے 13 برس کی عمر میں اسے ایک کارخانے میں کام کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہاں وہ برتنوں پر نقش و نگار بناتا تھا۔

    اس عرصے میں ڈرائنگ اور مصوّری میں اس کی دل چسپی بڑھتی رہی اور 1862ء میں اس نے چارلس گلیئر سے آرٹ کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔

    اس زمانے میں مشہور مصوّروں میں کلاڈ مونے، الفرڈ سسلی اور فریڈرک بازیل وہاں آیا جایا کرتے تھے جن سے اس نوجوان آرٹسٹ کی بھی ملاقات ہونے لگی۔ ان کی فن سے متعلق گفتگو اور مختلف فن پارے دیکھ کر رینوار نے بہت کچھ سیکھا۔

    وہ پیرس کی آرٹ گیلریوں اور عجائب گھر جاکر فن پاروں کا مطالعہ کرتا اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس دوران وہ تصویریں‌ بھی بناتا رہا جن میں‌ گہرے رنگ استعمال کرتا تھا۔ دراصل رینوار ابتدائی زمانے میں کوربے سے متاثر تھا اور اپنی تصویروں میں کافی گہرا رنگ استعمال کرنے لگا تھا۔ چند سال کے دوران پیرس کے آرٹسٹوں سے اس کی دوستی ہوگئی۔ اسے ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا اور وہ سیکھتا چلا گیا، 1868ء میں رینوار اور مشہور مصوّر کلاڈ مونے اکثر دریائے سین کے کنارے تصویر کشی کرتے دیکھے جاتے تھے۔

    رینوار بھی پیرس کے آرٹسٹوں اور شائقین کو متوجہ کرنے میں کام یاب ہو گیا اور پھر اس کے فن پارے نمائش کے لیے گیلریوں میں سجنے لگے۔ وہ انیسویں صدی کے اواخر میں مصوّر کی حیثیت سے مقبول ہوچکا تھا۔ اس نے متعدد ممالک کے دورے کیے اور نام ور مصوّروں سے ملاقات اور ان کا کام قریب سے دیکھا۔

    فرانس کے اس مشہور مصوّر نے تین دسمبر 1919ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ دی۔

  • فنِ مصوّری کی ناز برداری کرنے والے شاہی دربار

    فنِ مصوّری کی ناز برداری کرنے والے شاہی دربار

    مغل فنِ مصوّری نے کئی تاریخی مراحل طے کیے اور کئی خاندانوں کے ہاتھوں ترقّی کے ان مدارج کو پہنچی۔ منگولوں سے اگر فنِ مصوّری کا آغاز ہوا تو تیموروں نے اسے اپنے خون سے سینچا اور ایران کے صفوی بادشاہوں نے اس کی ناز برداری کی۔

    14 ویں صدی سے 16 ویں صدی تک ایران کا فنِ مصوری تزئین کاری تک محدود تھا، کیوں کہ درباروں میں کتابوں کی تزئین کا رواج عام تھا۔ اس دور میں ہرات اور بخارا اس کا مرکز رہے۔ عباسی خاندان کے حکم رانوں نے اس فن کو آگے بڑھایا۔ منگولوں کے متواتر حملوں سے علوم و فنون کی ترویج میں بڑی رکاوٹ آئی، سیاسی انتشار نے لوگوں کے سکون کو درہم برہم کر دیا، لیکن جلد ہی ان کی تلواریں نیام میں چلی گئیں۔

    درباروں میں فنون پر دسترس رکھنے والے جمع ہوئے اور پھر ایک بار سمرقند اور بخارا ماہرینِ فن سے بھر گیا۔

    بابر فنونِ لطیفہ کا بڑا دلدادہ تھا۔ شاعری، مصوّری اور فلسفے میں اسے بڑی دل چسپی تھی۔ تزک بابری میں اس نے ایران کے مشہور مصوّر بہزاد کی بڑی تعریف کی ہے۔

    بابر کا یہ ذوق موروثی تھا۔ تیمور کی طرح وہ بھی جلال و جمال کا پرستار تھا۔ افسوس کہ زندگی کی رزم آرائیوں نے اسے مہلت نہیں دی اور جب ماہرینِ فن کی سرپرستی کا وقت آیا تو اس نے صدائے اجل پر لبّیک کہا۔

    ہمایوں بھی اپنے والد بابر کی طرح جمالیات کا دلدادہ تھا۔ ایک دن ایک خوب صورت سی فاختہ کہیں سے آ نکلی۔ شہنشاہ نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور مصوّروں کو بلوا کر اس کی تصویر بنائی اور پھر اسے آزاد کر دیا۔

    ایران کے دورِ اقامت میں ہمایوں کی کئی نام وَر مصوّروں سے ملاقات ہوئی جو بعد میں ان کی دعوت پر ہندوستان آئے اور یہیں سے مصوّری کے ایک نئے اسکول کی ابتدا ہوئی ہے جو بعد میں مغل فنِ مصوری کے نام سے مشہور ہوئی۔

    ایرانی مصوّروں نے مصوّری کے ایسے معجزے دکھائے کہ اگر حادثاتِ زمانہ اور انقلاباتِ وقت سے محفوظ رہ جاتے تو لوگوں کو محوِ حیرت بنائے رہتے۔ میر سیّد علی اور عبدُالصّمد نے چاول کے دانے پر چوگان کا پورا میدان دکھایا جس میں تماشائیوں سمیت کھلاڑیوں اور گھوڑوں کی شبیہیں تھیں۔ عبدُالصّمد نے ہندوستانی مصوّروں کی مدد سے داستانِ امیر حمزہ کی تزئین کا کام سَر انجام دیا اور بادشاہ سے نادرُالعصر کا خطاب حاصل کیا۔

    بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں فنِ مصوری کی بھی تجدید ہوئی۔ ایرانی اور ہندوستانی مصوروں کی اتنی بڑی تعداد اس سے قبل کبھی کسی دربار میں اکٹھا نہیں ہوئی تھی۔ دو مختلف مزاج کے مصوّر جب مل بیٹھے تو ان کے قلم میں یکسانیت آئی اور اکبر کا دربار فنِ مصوری کا گہوارہ بن گیا۔

    اکبر کے عہد کی معروف کتاب آئینِ اکبری میں اس کا مفصّل ذکر ہے۔ اکبر نے درباری مصوروں کو اپنے دادا کی کتاب بابر نامہ کی تزئین کا کام سپرد کیا اور تزئین کاری کو فروغ دیا۔ رزم نامہ، تیمور نامہ، خمسہ نظامی اور بہارستان کی تزئین کاری اکبری عہد کا انمول خزانہ ہیں۔

    (تاریخ نویس اور علمی و ادبی محقّق سلمیٰ حسین کے مضمون سے انتخاب)

  • کتاب کا ٹائٹل، امرتا پریتم اور اندر جیت!

    کتاب کا ٹائٹل، امرتا پریتم اور اندر جیت!

    میں نے ماہ نامہ شمع، دہلی کے دفتر فون کیا۔

    شمع کے ایڈیٹر یونس صاحب سے اپنا تعارف کروانا چاہا تو انھوں نے فرمایا کہ قتیل شفائی کا خط مجھے کل شام مل گیا تھا، آپ کا تعارف ہوچکا۔ آپ جس وقت چاہیں آجائیں۔

    میں نے ایک گھنٹے بعد پہنچنے کا وعدہ کیا اور ٹھیک ایک گھنٹے میں وہاں پہنچ گیا۔ دفتر میں داخل ہوا تو استقبالیہ والوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے آنے کی ہمیں اطلاع ہوچکی ہے۔ ایڈیٹر صاحب آپ کے انتظار میں ہیں۔

    ایک صاحب مجھے ایڈیٹر کے کمرے تک پہنچا آئے۔ ایڈیٹر صاحب نے میرا خندہ پیشانی سے استقبال کیا اور لاہور کے احباب کی خیریت دریافت کی۔ پھر ٹھنڈے مشروب سے میری تواضع کی۔

    قتیل کی غزلوں، نظموں کا معاوضہ جو ان کے پاس جمع تھا، وہ انھوں نے مجھے کیش دے دیا۔ یہ معاوضہ غالباً ڈیڑھ سو روپے تھا جو اس وقت کے حساب سے اچھی خاصی رقم تھی، پھر کہنے لگے کہ دہلی کے لیے کوئی خدمت ہو تو بتائیے۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں آپ کے آرٹسٹ اندر جیت سے ملنے کا خواہش مند ہوں۔

    انھوں نے خود اٹھ کر مجھے اندرجیت کے کمرے تک پہنچا دیا۔ میں نے کمرے میں داخل ہونے کے بعد اپنا تعارف کروایا تو اندر جیت بڑے تپاک سے ملے۔ پہلی ہی ملاقات میں یوں لگا کہ جیسے ہم دونوں ایک دوسرے سے برسوں سے آشنا ہیں۔

    لاہور کے دوستوں کا بڑی محبت سے ذکر کرتے رہے۔ پھر انھوں نے اپنا کام دکھایا۔ اندر جیت اس زمانے میں اگر بھارت کے سب سے بڑے مصور نہیں تو دوسرے یا پھر تیسرے مصور ضرور تھے۔ وہ پن ورک میں سرورق فگر السٹریشن میں کرتے تھے۔

    آج جو پرچوں میں ہم پن ورک میں فگر بنے ہوئے دیکھ رہے ہیں یہ اسی فن کار کی جدتِ طبع کا ثمر ہے۔

    میں نے گفتگو کے دوران محسوس کیا کہ اندر جیت محبت میں گندھی ہوئی مٹی کی پیداوار ہے جو سراپا محبت ہی محبت ہے۔ اس کی شخصیت پُر وقار بھی ہے اور پُرکشش بھی۔ وہ فن مصوری کے رموز و علائم سے آگاہی رکھنے والا فن کار ہے۔

    کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹہ اندر جیت کے ساتھ گزارنے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو اندر جیت نے ایک وعدہ لیتے ہوئے اجازت دی کہ میں کل شام ان کے ساتھ گزاروں گا۔

    دوسرے دن میں وعدے کے مطابق دیے گئے ایڈریس پر پہنچ گیا۔ یہ کتابوں کی ایک دکان تھی۔ میں نے دیکھا کہ اندر جیت اپنے چند دوستوں کے ساتھ میرے منتظر تھے۔

    تمام دوست بڑے تپاک سے ملے۔ پھر ہم جا کر ایک ہوٹل میں بیٹھ گئے۔ پُرتکلف چائے منگوائی گئی۔ چائے بھی پیتے رہے اور دہلی اور لاہور کے مصوروں کے بارے میں ان کے فن پر تفصیل سے باتیں کرتے رہے۔

    چائے ختم کرنے کے بعد ہم ہوٹل سے نکلے تو اندر جیت نے کہا ”آﺅ میں تمہیں امرتا سے ملواتا ہوں۔“

    ”یہ امرتا کون ہے؟“ پھر میں نے ہی کہا ”کہیں یہ امرتا (اج آکھاں وارث شاہ نوں) وہ تو نہیں“

    ”ہاں وہی ہے۔ وہی تو۔“

    ”پھر تم امرتا پریتم کہو نا۔“ اندر جیت کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔

    پھر کہنے لگا، ”میں امرتا جی کی ایک کتاب کا سرورق بنانے گیا تھا پھر…. پھر خود ہی سرورق ڈیزائن بن گیا۔ مطلب….

    مطلب یہ کہ میں امرتا جی کی پرکشش شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوگیا۔“

    یہ بات کہتے کہتے وہ پھر خاموش ہوگیا۔ اس بار اس کی خاموشی نے تفصیل کے ساتھ اپنی قلبی واردات بیان کر دی تھی۔

    ”اچھا تو یہ معاملہ ہے۔“ میں نے کہا۔

    اتنے میں امرتا صاحبہ کا گھر آگیا۔ اندر جیت نے آگے بڑھ کر دروازے پر دستک دی۔ چند لمحوں بعد دروازہ امرتا صاحبہ نے آکر کھولا اور ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ میں نے دیکھا کہ دونوں کی آنکھوں میں محبت کے چراغ جل رہے تھے۔ امرتا سے میرا تعارف کرواتے ہوئے اندر جیت نے کہا کہ لاہور سے آئے ہیں، مصور ہیں، موجد نام رکھتے ہیں۔

    حضرت احسان دانش صاحب کے شاگردوں میں سے ہیں اور استاد موبھا سنگھ کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ آپ سے ملنے کے خواہش مند تھے اس لیے میں انھیں لے آیا ہوں۔

    امرتا صاحبہ نے لاہور کے چند شاعروں کے نام لے کر ان کی خیریت دریافت کی۔ پھر کہا، ”ترنجن والے احمد راہی کا کیا حال ہے؟“ خاصی دیر تک احمد راہی کی شاعری کی داد دیتی رہیں۔

    اتنے میں چائے آگئی۔ چائے کے بعد میں نے اندر جیت سے کہا کہ ”اب اجازت لیں۔“ محترمہ ہمیں دروازے تک چھوڑنے آئیں۔

    ہم کچھ ہی دیر کے بعد اندر جیت کے گھر بیٹھے ہوئے تھے۔ اندرجیت کے چھوٹے بھائی سے ملاقات ہوئی جو اسی کی طرح آرٹسٹ ہے اور بت تراش بھی اچھا ہے۔

    بیٹھے بیٹھے پھر میں نے امرتا صاحبہ کی شاعری کی بہت تعریف کی اور اس خاتون کے حسنِ اخلاق کا ذکر کیا۔ میرے تعریفی کلمات سن کر اندر جیت کا چہرہ تمتما اٹھا۔

    مجھے اندازہ ہوگیا کہ محبت جہاں بھی ڈیرے ڈالتی ہے خوشیوں کے روپ میں آتی ہے یا پھر غم کے سایوں میں۔

    (نام ور مصور اور خطاط بشیر موجد کے دلی میں گزرے چند ایام کی یادیں)

  • حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    اس کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں۔ وہ سیاست داں، صحافی، ادیب، مقرر، نقاد، دانش ور، خطاط، مصور بھی تھا اور ایک ناشر بھی تھا۔

    پھر یہ بھی کہ اس نے ہر شعبے یا ہر میدان میں نام وری اور مقام حاصل کیا، لیکن ان کام یابیوں اور کام رانیوں کے باوجود اس کی تحمل مزاجی اور میانہ روی میں فرق نہیں آیا۔

    وہ دھیمے مزاج اور لہجے میں بات کرتا تھا اور سوچ سمجھ کر بولتا تھا۔ اقتدار میں بھی رہا، مگر اسے اقتدار کا وہ نشہ نہیں چڑھا جو انسان کو انسان سے دور لے جاتا ہے۔ شہرت اور نام وری کے باوجود اس کا لوگوں سے رشتہ نہیں ٹوٹا۔ اس نے یاریاں بھی نبھائیں اور فرائض بھی پورے کیے۔

    زندگی بھر انسانی رشتوں پر یقین رکھا اور دوستوں کا دوست رہا۔ مجھ سے ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں برادرانہ تعلقات قائم ہوئے تھے جو آخر تک قائم و دائم رہے۔ حالاںکہ اس دوران برسوں ملاقات نہیں ہوتی تھی اور بات چیت میں بھی طویل وقفے آجاتے تھے۔ اس کے باوجود کبھی دوری کا احساس نہیں ہوا۔ جب کبھی ملاقات ہوتی یا ٹےلی فون پر بات ہو جاتی یا پھر خط آجاتا تو قربت و نزدیکی کا احساس قائم رہتا۔

    حنیف رامے کے بزرگوں اور بڑے بھائیوں کا کاروبار کتابوں کی نشر و اشاعت تھا، اس لیے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ بھی اس پیشے سے منسلک ہوگیا۔ نیا ادارہ اور مکتبۂ جدید کے زیرِ اہتمام شایع ہونے والی کتابوں کی تزئین و ترتیب کے ساتھ ساتھ سرورق بنانے کا کام اس کے سپرد ہوا اور اس طرح آرٹ سے بھی رشتہ جڑا رہا۔ پھر جب بھائیوں میں کاروبار کا بٹوارا ہوا اور رشید احمد چوہدری اور بشیر احمد چوہدری نے الگ الگ کتابوں کے اشاعتی سلسلے شروع کیے تو حنیف رامے نے بشیر احمد چوہدری کو ”میری لائبریری“ کے نام سے مکتبہ قائم کروایا اور خود ”البیان“ کے عنوان سے اشاعتی مکتبے کی ابتدا کی۔

    ایک بات حنیف رامے کے ذہن میں ہمیشہ رہی کہ کم قیمت کتابیں چھپنی چاہییں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ خریدیں اور کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر ہو۔ حنیف رامے نے صرف کتابیں چھاپی ہی نہیں بلکہ خود بھی لکھیں اور ایک ادیب کی حےثیت سے بھی نام پیدا کیا۔

    اس کی کتابوں میں ”پنجاب کا مقدمہ“ کو بڑی شہرت ملی اور دیگر صوبوں کے بعض ادیبوں نے اس کے جواب میں بھی بہت کچھ لکھا۔ اسی طرح اس کی کتاب ”دُبِ اکبر“ بھی بڑی توجہ کا مرکز رہی اور پھر زندگی کی آخری تصنیف ”اسلام کی روحانی قدریں موت نہیں زندگی“ کو تو علمی و ادبی حلقوں میں بہت زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی۔

    حنیف رامے کا پسندیدہ موضوع معاشیات و اقتصادیات تھا اور اسی میں اس نے ایم اے کیا تھا۔ لہٰذا اس موضوع کی ایک کتاب کا ترجمہ بھی کیا تھا جو ”اقتصادی ترقی کا منظر اور پس منظر“ کے نام سے شایع ہوئی اور پھر ”اقبال اور سوشلزم“ مرتب کرکے شایع کی تھی۔ اس نے انگریزی میں ایک ناول بھی تحریر کیا۔ اس طرح دیکھیے تو وہ صرف ادب چھاپتا ہی نہیں رہا بلکہ اس کی تخلیق و تحریر میں بھی باقاعدہ شامل رہا۔

    (معروف ادیب اور صحافی شفیع عقیل کی کتاب سے ایک ورق)

  • چوری شدہ فن پارہ جو بیس سال بعد کچرے کے ڈھیر سے ملا

    چوری شدہ فن پارہ جو بیس سال بعد کچرے کے ڈھیر سے ملا

    میکسیکو کے مشہور مصور روفینو تومایو نے جب 1970 میں اپنی ایک پینٹنگ مکمل کی تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ایک روز گندگی کے ڈھیر پر پڑی ہو گی!

    یہ آئل پینٹنگ اس مصور کے مُو قلم کا شاہ کار تھی جسے کینوس پر اترنے کے صرف سات سال بعد یعنی 1977 میں نیلام کر دیا گیا۔ اسے نیلام گھر سے ایک قدر دان ساڑھے چھبیس ہزار پاؤنڈ میں لے گیا تھا۔

    چند برس بعد یہ پینٹنگ اس کے گودام سے کسی نے چوری کرلی اور لگ بھگ 20 سال بعد یہ کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہوئی۔ اس کا مالک اتنے برسوں میں یقینا اس پینٹنگ کا دکھ فراموش کر چکا تھا۔ تاہم الزبتھ گبسن نامی خاتون کے ہاتھ لگنے کے بعد جب اس کی خبر عام ہوئی تو چوری کا بیس برس پرانا وہ واقعہ کئی ذہنوں میں تازہ ہو گیا۔

    اس خاتون نے پینٹنگ کچرے کے ڈھیر سے اٹھائی تو وہ یہ جانتی تک نہ تھی کہ یہ کوئی شاہ کار ہے جسے منہگے داموں فروخت کیا جاسکتا ہے۔

    الزبتھ گبس آرٹ کو نہیں سمجھتی تھی اور اس کا خیال تھا کہ اس تصویر کو بس دیوار پر سجایا جاسکتا ہے، مگر ایک سہیلی نے کہا کہ شاید یہ کوئی قیمتی فن پارہ ہے، تم اس حوالے سے معلوم کرو۔

    اس فن پارے کے چوری ہونے کی رپورٹ 1988 میں کی گئی جس پر متعلقہ امریکی ادارے نے اس چوری کا کھوج لگانے کی کوشش کی تھی۔

    الزبتھ کو یہ معلوم ہوا تو وہ مالکان تک پہنچ گئی اور انھیں پینٹنگ لوٹا دی۔ کئی برس تک اس فن پارے کی جدائی کا غم سہنے والے مالکان نے الزبتھ کو خالی ہاتھ جانے نہ دیا اور سات ہزار پاؤنڈ بطور انعام دیے۔ بعد ازاں اس پینٹنگ کو نیویارک میں نیلام کر دیا گیا۔