Tag: مشہور مقبرے

  • صوفی خالق ولی کا آٹھ سو سال پرانا مقبرہ

    صوفی خالق ولی کا آٹھ سو سال پرانا مقبرہ

    ملتان سے تقریباً 53 کلومیٹر دور اور قدیم جرنیلی سڑک سے ڈیڑھ کلومیٹر مغرب کی طرف جائیں‌ تو مقبرہ خالد ولید موجود ہے جو مسلم فنِ تعمیر کا ایک شاہ کار ہے۔ یہ جنوبی ایشیا کے قدیم مزارات میں سے ایک ہے۔

    صاحبِ مقبرہ کا نام خالد ولید ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے دور میں‌ خالق ولی کے نام سے معروف ہوئے۔ محققین کے مطابق یہ بزرگ اور صوفی اپنے وقت کے مشہور سپاہ سالار سلطان محمود غزنوی کے ساتھ برصغیر آئے اور یہیں زندگی تمام کی۔ ماہرینِ‌ آثار کا کہنا ہے کہ ان کا مقبرہ ملتان کے ایک گورنر علی بن کرماخ نے غوری عہد میں 1175ء سے 1185ء کے درمیان تعمیر کروایا۔ تاہم اس تعمیر اور طرزِ تعمیر سے متعلق محققین کی مختلف آرا ہیں۔ بعض اسے مغل حکم راں شاہ جہاں اور چند نے اورنگ زیب عالم گیر کے عہد کی یادگار کہا ہے۔

    یہ مقبرہ دو کنال پر محیط ہے اور یہ زمین سے 27 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ اس کی فصیل نما دیوار کے چاروں کونوں پر گول برج بنائے گئے تھے جب کہ دس فٹ چوڑی فصیل کے درمیان میں ایک محراب ہے جس کی گولائی میں خطِ کوفی سے آیت الکرسی، اسم محمدﷺ اور خلفائے راشدین کے نام کندہ ہیں۔ مقبرے کی عمارت پکی اینٹوں سے تیار کی گئی ہے۔

    مقبرے کے مشرقی و شمالی اطراف میں کشادہ محراب نما کھڑکیاں ہیں جب کہ مزار کا فرش اور قبر کو کچا رہنے دیا گیا تھا۔ زمین سے مزار تک پہنچنے کے لیے 30 سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔

    اس تاریخی اہمیت کے حامل مقبرے کی دیکھ بھال کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں‌ کیا گیا ہے جب کہ ماضی میں اس لگ بھگ نو صدی پرانے مقبرے کی مرمت اور تزئین و آرائش کا برائے نام کام کیا گیا۔ حوادثِ‌ زمانہ اور موسم کی سختیاں دیکھنے والے اس مقبرے کی اینٹوں نے ذرا اپنی جگہ چھوڑی تو لوگوں‌ نے اس کی محراب کے اطراف اور بیرونی حصّے کو مزید نقصان پہنچانا شروع کردیا اور یہاں‌ کی اینٹیں‌ اکھاڑ کر لے جاتے رہے، لیکن 1985 میں ایک خاتون امریکی سیّاح اور محقق نے اس کی نشان دہی کی تو اس عمارت کی ذمہ داری سرکار نے اٹھا لی جب کہ محکمہ آثارِ‌ قدیمہ نے اس کی مرمت و بحالی کے لیے منصوبے بھی بنائے۔ تاہم یہ کام کاغذات تک محدود رہا اور ضروری مرمت اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب یہ تاریخی ورثہ برباد ہورہا ہے۔

  • دلّی ہم نے دیکھا….

    دلّی ہم نے دیکھا….

    میں جامعہ کے غیر مقیم طالبِ علموں میں سے تھا، یعنی جامعہ کی کسی اقامت گاہ میں نہیں رہتا تھا۔ میرا قیام بستی نظام الدین میں بھیا احسان الحق کے دولت کدے "علی منزل” میں تھا جو حضرت نظام الدین اولیا، امیر خسرو اور غالب کی ابدی آرام گاہوں سے متصل تھا۔

    روزانہ صبح میں بھیا احسان الحق کے صاحب زادے شبلی کے ساتھ تانگے پر بستی نظام الدین سے قرول باغ جاتا اور دن بھر جامعہ میں گزارنے کے بعد شام کو واپس آتا۔

    درگاہ حضرت نظام الدین تو علی منزل سے دو قدم پر ہی تھی۔ بستی سے نکل کر بڑی سڑک پر آئیے تو سڑک کی دوسری جانب ہمایوں کا مقبرہ ہے۔ اسی سڑک پر آگے چل کر پرانا قلعہ آتا ہے۔

    پرانے قلعے سے اور آگے چلیے تو پرانی دہلی کے حدود میں داخل ہونے سے قبل فیروز شاہ کا کوٹلا ملے گا۔

    پرانی دہلی میں فیض بازار سے اردو بازار پہنچنے پر سامنے پریڈ کے لق و دق میدان کے پرے دائیں جانب لال قلعہ نظر آئے گا اور بائیں جانب قریب ہی جامعہ مسجد کی پُرشکوہ عمارت۔

    پریڈ کے میدان میں 1857 کی جنگِ آزادی سے قبل مغل دربار کے منصب داروں، امرا اور رؤسا کے محلات تھے، 1857 کی جنگِ آزادی کے ناکام ہونے پر انگریزوں نے لوٹ مار کے بعد ان محلات کو اس بری طرح مسمار کیا کہ آج اس میدان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اب سے ڈیڑھ سو برس قبل یہ دلی کا اعلیٰ ترین رہائشی علاقہ تھا۔

    (دہلی کی بستی نظام الدین سے قرول باغ تک ماضی کی نشانیوں اور یادگاروں کا تذکرہ خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے)