Tag: مشہور موسیقار

  • فنِ‌ موسیقی: سات سُروں کی کہانی

    فنِ‌ موسیقی: سات سُروں کی کہانی

    راگ راگنیاں، لَے، تان یا سُر اور تال فنِ موسیقی کی وہ اصطلاحات ہیں‌ جن سے موسیقی کا ہر ادنیٰ شائق واقف ہے، لیکن اس فن کی باریکیاں اور نزاکتیں موسیقار اور گلوکار ہی سمجھ سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں زمانۂ قدیم ہی سے موسیقی کسی نہ کسی شکل میں اپنی جادو جگاتی رہی ہے، مگر قدیم دور کا طرزِ موسیقی، اور آلات، پھر کلاسیکی اور جدید دور کی موسیقی کو بھی سمجھنا عام آدمی کے لیے مشکل ہے۔

    ہم برصغیر یا ہندوستان کی بات کریں تو آج نہ تو کلاسیکی، خالص راگ راگنیوں پر مشتمل موسیقی باقی رہی ہے اور نہ ہی وہ گلوکار جو فن و اصنافِ‌ موسیقی پر قدرت رکھتے تھے۔ اسی طرح وہ بے مثال موسیقار رہے اور نہ ہی وہ سازندے جو اپنے فن اور مہارت میں یکتا تھے اور برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض‌ میں‌ ان کا شہرہ تھا۔

    آج موسیقی کا عالمی دن ہے۔ ہم جانتے ہیں‌ کہ کلاسیکی، نیم کلاسیکی اور لوک موسیقی نے دہائیوں کے دوران جدّت اور نئے ساز و آلات کے ساتھ اپنی شکل بھی بدلی ہے۔ آج اس فن کو نئی آوازوں کے ساتھ مختلف نئے پلیٹ فارم کی بدولت ایک جدید شناخت ملی ہے۔

    موسیقی کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس بات کو سمجھنا ایک پیچیدہ اور مشکل امر ہے۔ شاید، اسی وقت جب انسان نے اپنی کسی چھوٹی سی کام یابی پر کوئی ایسی آواز منہ سے نکالی جس میں ترنگ تھی، اور وہ دوسروں کو بہت بھلی لگی۔ یا پھر اس نے کسی کھوکھلی شے، کسی خاص چیز کی سطح پر ہاتھ مارے اور ایسی آوازیں سنیں جس نے اسے نغمگی کا احساس دلایا ہو اور انہی کی بنیاد پر وہ ساز ایجاد کرنے میں کام یاب ہوا ہو۔ موسیقی کی عمر جانچنے کا تو کوئی پیمانہ نہیں البتہ ہزاروں سال کے آثارِ قدیمہ سے پتھر کے ایسے آلاتِ موسیقی ملے ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ ان کی مدد سے لوگ اپنے غموں اور خوشیوں کا اظہار کرتے تھے۔ غاروں میں رہنے والے قدیم دور کے انسانوں نے مختلف جانوروں کی ہڈیوں اور سینگوں میں سوراخ کر کے اولین ساز ایجاد کیے تھے۔ ایسے کئی ساز مختلف قدیم تہذیبوں کی دریافت کے دوران ملے ہیں۔ یہ ایک طویل اور تحقیق طلب موضوع ہے، لیکن یہ طے ہے کہ موسیقی کا انسان گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ مثبت اور منفی دونوں طرح کے ہوسکتے ہیں۔ موسیقی انسانی جسم پر کس قسم کے مثبت اور منفی اثرات مرتب کرتی ہے، سائنس کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اس حوالے سے ایک تحقیقی مضمون میں راؤ شاہد اقبال نے لکھا تھا، فن لینڈ کے محققین نے جتنے سائنسی مطالعے موسیقی کے ‘نیک و بد اثرات’ جاننے کے بارے میں کیے ہیں بلاشبہ دنیا کے کسی اور ملک کے محققین اُس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکے۔ دراصل فن لینڈ کے سائنس دان انسانی دماغ پر موسیقی کے اثرات کو جاننے کے متعلق بہت زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں اُن کی جانب سے متعدد سائنسی مطالعات سامنے آچکے ہیں، جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ موسیقی کے ذریعے انسانی جذبات کو مؤثر انداز میں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے فن لینڈ کے محققین کی جانب سے 2015 میں کیے جانے والے ایک مطالعہ کا دنیا بھر میں بہت چرچا ہوا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ”اچھی موسیقی انسان میں نظم و ضبط کا سبب بنتی ہے۔“ یاد رہے کہ اس تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد موسیقی کے ذریعے تھراپی کے منفرد کاروبار کو خوب رواج ملا اور کئی ممالک میں تو باقاعدہ موسیقی تھراپی کے لیے کلینک قائم کر دیے گئے۔

    یومِ موسیقی منانے کا آغاز فرانس کے شہر پیرس سے ہوا تھا اور چند برسوں سے پاکستان میں بھی یہ دن منایا جارہا ہے۔ موسیقی کی روایت برصغیر میں بہت پرانی ہے اور برصغیر کی کلاسیکی موسیقی اور راگ کے ساتھ نیم کلاسیکی موسیقی سننے والے اگرچہ اب کم رہ گئے ہیں، لیکن یہاں نوجوان اب بھی غزل، گیت، لوک موسیقی شوق سے سنتے ہیں۔

    برِصغیر میں موسیقی نے مغلیہ دور سے بہت پہلے عروج حاصل کر لیا تھا اور سیکڑوں کلاسیکی گائیک اس فن کے امین بنے۔ موسیقی کو سمجھنے کے لیے اس فن کی اصطلاحات کو سمجھنا ضروری ہے۔ موسیقی، جسے ایک فن کا درجہ حاصل ہے اس کی سب سے اہم اصطلاح سُر ہے۔ سُر کا ذکر تو آپ نے سنا ہی ہوگا جو تعداد میں سات ہیں۔ انھیں سات سُر بھی کہتے ہیں۔ سُروں کے مجموعے کو سرگم کہا جاتا ہے۔ اگر ان کو موسیقی کے حروفَ تہجی فرض کرلیا جائے تو ان کو ماہرین نے کھرج، رکھب، گندھار، مدھم، پنجم، دھیوت اور نکھا کے نام دیے ہیں اور یہ یونہی نہیں رکھ دیے گئے۔ یہ نام مختلف جانوروں کی آوازوں سے مشابہت کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں جن سے خوشی، درد، غم، بے چینی اور غصے کے جذبات نمایاں ہوتے ہیں۔ ان حروف تہجی کو مختصرا سا، رے، گا، ما، پا، دھا اور نی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کھرج کا ماخذ ناف، رکب کا دل، گندھار کا سینہ، مدھم کا حلق، پنجم کا منہ، دھیوت کا تالو اور نکھا کا ماخذ ناک ہے۔ انہی سات سُروں کو خالص ترتیب سے یکجا کرنے سے راگ وجود میں آئے ہیں۔

  • پاکستانی دُھنوں اور گانوں کی بالی وڈ میں نقل

    پاکستانی دُھنوں اور گانوں کی بالی وڈ میں نقل

    دنیا بھر میں‌ تخلیقی کاموں کا اعتراف اور اس کی پذیرائی کے لیے ہر سال اپریل کے مہینے میں‌ ’انٹلکچوئل پراپرٹی‘ کا دن منایا جاتا ہے۔ پاک و ہند کی فلم انڈسٹری کی بات کی جائے تو یہاں کسی تخلیق کی نقل اور چوری کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے فن کار ایک دوسرے پر اکثر موسیقی یا شاعری نقل اور چوری کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔

    یہاں ہم بھارت کے موسیقاروں کی جانب سے ان چند پاکستانی گانوں کی نقل کا تذکرہ کررہے ہیں جو نام ور موسیقاروں اور مشہور ترین گلوکاروں کے تخلیق کردہ اور فن کا اظہار تھے۔

    میڈم نور جہاں کا گانا ‘تیرے در پر صنم چلے آئے…’ پچاس کی دہائی میں‌ مقبول ہوا تھا اور اسی طرح 60 کے عشرے میں ‘بادلوں میں چھپ رہا ہے چاند کیوں…’ بھی کئی برس بعد الزام اور تنازع کی زد میں آگیا بھارتی موسیقاروں نے موسیقی ہی نہیں بلکہ گیتوں کے بول اور کبھی پورا ہی گانا کاپی کر لیا۔

    ستّر اور اسّی کی دہائی میں مشہور بھارتی موسیقاروں نے یہ سلسلہ شروع کیا اور آر ڈی برمن، لکشمی کانت پیارے لال اور بپّی لہری اور 90 کی دہائی میں انو ملک، ندیم شرون اور آنند ملند پر موسیقی اور گیت کاپی کرنے کے الزام لگے، لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں۔

    دونوں ممالک کی فلم انڈسٹری نے جب نئی صدی میں قدم رکھا تو پریتم جیسے موسیقاروں نے پاکستانی گانے کاپی کیے۔ سرحد پار سب سے زیادہ گانے مہدی حسن کے کاپی کیے گئے۔ اس کے بعد میڈم نور جہاں اور دیگر گلوکاروں کا نام آتا ہے جن کے گانوں کی نقل بھارتی فلم انڈسٹری میں‌ پیش کی گئی۔

    مہدی حسن کی آواز میں ‘تیرے میرے پیار کا’ اور ‘بہت پیار کرتے ہیں’ جیسے گانے سپر ہٹ ثابت ہوئے جنھیں بالی وڈ میں کاپی کیا گیا۔ بالی وڈ اسٹار عامر خان ہوں یا شاہ رخ ان کی فلموں میں مہدی حسن کے نقل کیے گئے گانے شامل تھے۔ پاکستان میں مقبول ‘رفتہ رفتہ وہ میری’ ایسا کلام تھا، جسے بالی وڈ کی کام یاب فلم ‘بازی’ کے لیے موسیقار انو ملک نے کاپی کیا۔

    میڈم نور جہاں کی آواز میں مقبول ترین گانے بھارتی فلموں میں شامل ہوئے اور ‘وہ میرا ہو نہ سکا….’ کو بالی وڈ نے ‘دل میرا توڑ دیا اس نے…’ کی تبدیلی کے ساتھ پیش کردیا۔

    اپنی مسحور کن گائیکی سے شہرت اور مقبولیت پانے والے اخلاق احمد کے کئی گانے بھارت میں کاپی کیے گئے جن میں ‘سونا نہ چاندی، نہ کوئی محل’ بھی شامل ہے۔ اسے موسیقار آنند ملند نے ‘چھوٹی سی دنیا ‘ بنا کر پیش کیا تھا۔

  • جب قسمت کی دیوی موسیقار نثار بزمی پر مہربان ہوئی!

    جب قسمت کی دیوی موسیقار نثار بزمی پر مہربان ہوئی!

    پاکستان میں فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ نثار بزمی کی پہلی فلم تھی، لیکن تقسیمِ‌ ہند سے قبل اور بعد میں‌ وہ بھارت میں رہتے ہوئے 40 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔

    آج پاکستان کے اس مایہ ناز موسیقار کی برسی ہے۔ انھوں نے 2007ء میں‌ زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ نثار بزمی نے پہلی بار فلم جمنار پار کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ 1946ء کی بات ہے اور 1961ء تک وہ بھارت میں فلم انڈسٹری کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم کوئی خاص کام یابی ان کا مقدّر نہیں بنی تھی۔

    نثار بزمی نے 1962ء میں پاک سرزمین پر قدم رکھا تو جیسے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے کراچی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ پاکستان میں نثار بزمی نے جب فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کی تو کام یاب ترین موسیقار شمار ہوئے۔ بھارت سے پاکستان منتقل ہوجانا ان کی زندگی کا بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔

    فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کا مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔ اس کے علاوہ ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کے اس موسیقار نے یہاں‌ عزّت، مقام و مرتبہ پایا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر اپنے دور کے مشہور و معروف گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں آنکھ کھولنے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نوعمری ہی سے انھیں موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا اور ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے والد نے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جن سے انھوں نے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں فلم نگری سے موسیقار کے طور پر اپنا سفر شروع کیا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان آگئے جہاں اپنے فن کی بدولت بڑا نام اور مرتبہ پایا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سیّد، نیرہ نور، حمیرا چنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع دیا۔ مختلف شعرا کے کلام پر دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا تھا۔

    حکومتِ‌ پاکستان نے نثار بزمی کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • روبن گھوش جن کی موسیقی نے کئی فلمی نغمات کو لافانی بنا دیا

    روبن گھوش جن کی موسیقی نے کئی فلمی نغمات کو لافانی بنا دیا

    روبن گھوش کی لافانی موسیقی کا سب سے نمایاں وصف وہ شوخ ردھم اور جدّت ہے جس نے کئی گیتوں کو امر کر دیا۔ اخلاق احمد کی آواز میں ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی یہ نغمہ ’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل‘ آج بھی مقبول ہے۔

    1977ء کی فلم آئینہ سے اپنے فنی کریئر کی معراج پر نظر آنے والے روبن گھوش 13 فروری 2016ء کو ڈھاکا میں وفات پاگئے تھے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کو سپر ہٹ فلمیں دینے میں ان کی لازوال موسیقی کا بھی بڑا کردار رہا۔ مہدی حسن کی آواز میں ’کبھی میں سوچتا ہوں…،‘، ’مجھے دل سے نہ بھلانا،‘ نیّرہ نور کا گایا ہوا ’روٹھے ہو تم، تم کو میں کیسے مناؤں پیا… وہ گیت تھے جنھیں پاک و ہند میں‌ مقبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی ان کی سحر انگیزی برقرار ہے۔

    روبن گھوش کے کئی مقبول گیت ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر بھی نشر ہوئے جن میں ’کبھی تو تم کو یاد آئیں گے‘، ’مجھے تلاش تھی جس کی‘ ، ’ساون آئے ساون جائے‘ ، ’دیکھو یہ کون آ گیا وغیرہ شامل ہیں۔

    ان کا شمار برصغیر کے نام ور موسیقاروں میں کیا جاتا ہے۔ وہ 1939ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ روبن گھوش پاکستان کی مشہور فلمی اداکارہ شبنم کے شوہر تھے اور یہ جوڑی 1996ء میں بنگلہ دیش منتقل ہو گئی تھی۔ روبن گھوش نے 1961ء میں بنگالی فلموں سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا اور 10 سال بعد مقبول فلم ’چندا‘ سے اردو فلموں میں شمولیت اختیار کی۔ روبن گھوش نے پاکستان میں آخری فلم ’جو ڈر گیا وہ مر گیا‘ کی موسیقی ترتیب دی تھی۔

    انھوں نے پاکستان میں فلمی دنیا کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ چھے مرتبہ اپنے نام کیا تھا۔

  • یومِ وفات: مسحور کُن فلمی دھنوں کے خالق شوکت علی ناشاد کا تذکرہ

    یومِ وفات: مسحور کُن فلمی دھنوں کے خالق شوکت علی ناشاد کا تذکرہ

    دنیائے موسیقی اور فلم انڈسٹری کو کئی بے مثال اور رسیلے نغمات دینے والے شوکت علی ناشاد کو پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی ان کے تخلیقی جوہر اور فنی صلاحیتوں کی بدولت پہچان ملی۔ آج بھی جب ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو لبوں پر یہ گیت مچلنے لگتا ہے: ’’اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے ہم۔‘‘ ایک یہی گیت نہیں ʼجان کہہ کر جو بلایا تو برا مان گئےʼ، ʼلے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سےʼ بھی پاکستان اور بھارت میں‌ بھی بے پناہ مقبول ہوئے۔

    شوکت علی ناشاد زندگی کے آخری ایّام میں صاحبِ فراش ہو گئے اور برین ہیمبرج کے بعد کومے کی حالت میں 3 جنوری 1981ء کو ان کی روح نے ہمیشہ کے لیے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ آج اس عظیم موسیقار کی برسی ہے۔

    ’’اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے ہم‘‘ جیسے سدا بہار گیت موسیقار ناشاد نے 1974ء میں فلم ’’ایمان دار‘‘ کے لیے کمپوز کیا تھا۔ اسے تصوّر خانم کی آواز میں ریکارڈ کروایا گیا تھا۔

    ناشاد 1918ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام شوکت علی دہلوی تھا۔ ان کے والد غلام حسین خان اپنے دور کے ایک معروف طبلہ نواز تھے۔ تقسیم ہند سے قبل وہ موسیقار غلام حیدر کے ساتھ سازندے کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1953ء میں نخشب جارچوی نے فلم ’’نغمہ‘‘ کی موسیقی کے لیے شوکت علی دہلوی کی خدمات حاصل کیں اور انھیں ’’ناشاد‘‘ کا نام دیا۔ فلم ’’نغمہ‘‘ کے گانوں نے ہندوستان بھر میں دُھوم مچا دی۔

    ناشاد کا نام 1953ء سے ایک کام یاب موسیقار کے طور پر لیا جانے لگا۔ انھوں نے پہلی بار 1947ء میں فلم ’’دلدار‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ابتدائی زمانے میں وہ شوکت علی اور شوکت حسین کے نام سے مشہور ہوئے اور بعد میں ناشاد نام اپنایا۔

    ناشاد 1964ء میں پاکستان آگئے اور یہاں سب سے پہلے نخشب کی فلم ’’میخانہ‘‘ کے لیے موسیقی دی۔ اس فلم کے چند گیت بے حد مقبول ہوئے، جن میں ’’جان کہہ کر جو بلایا تو بُرا مان گئے‘‘ بھی شامل تھا۔ ناشاد نے پاکستان آنے کے بعد 58 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کی آخری فلم آزمائش تھی۔

    اس معروف موسیقار نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی مشہور فلموں‌ مے خانہ، جلوہ، ہم دونوں، تم ملے پیار ملا، سال گرہ، سزا، افسانہ، چاند سورج، رم جھم، بندگی اور دیگر کے لیے اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ناشاد لاہور کے ایک قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

  • پٹیالہ گھرانے کے نام وَر ستار نواز استاد فتح علی خان کی برسی

    پٹیالہ گھرانے کے نام وَر ستار نواز استاد فتح علی خان کی برسی

    استاد فتح علی خان پاکستان کے نام وَر ستار نواز اور موسیقار تھے جنھوں نے 1981ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے دارِ بقا کا رُخ کیا۔ ان کا تعلق برصغیر میں‌ کلاسیکی موسیقی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    استاد فتح علی خان کا سنِ پیدائش1911ء بتایا جاتا ہے۔ وہ پانچ سال کے تھے جب مشہور ساز ستار میں‌ دل چسپی پیدا ہوئی۔ ان کے تایا، استاد محبوب علی خان بھی موسیقی اور اس ساز کے ماہر تھے۔ فتح علی خان بڑے ہوئے تو انہی سے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    استاد فتح علی خان نے ماسٹر غلام حیدر کے ساتھ بھی طویل عرصہ گزارا۔ وہ لاہور اور بمبئی میں ان کے ساتھ ستار نواز کے طور پر اپنے فن اور اس ساز پر اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے موسیقی اور راگ راگنیوں کی باریکی اور فن کی نزاکتوں کو بھی سیکھا۔ بعدازاں خود بھی کئی فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں فلم آئینہ کا نام سرفہرست ہے۔

    1960ء کی دہائی میں وہ راولپنڈی منتقل ہوگئے جہاں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے قیام کے بعد وہاں کچھ عرصہ تک نوآموز فن کاروں کو ستار بجانے کی تربیت بھی دی۔

    استاد فتح علی خان کو پاکستان میں‌ فنِ موسیقی کے لیے خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی عطا کیا گیا تھا۔

  • مشہور موسیقار استاد بیبو خان کی برسی

    مشہور موسیقار استاد بیبو خان کی برسی

    آج مشہور موسیقار استاد بیبو خان کا یومِ وفات ہے۔ وہ 25 مارچ 1952ء کو حیدرآباد میں‌ انتقال کرگئے تھے۔ بیبو خان کا تعلق سندھ کے تاریخی اہمیت کے حامل شہر شکار پور سے تھا۔

    استاد بیبو خان کا اصل نام محمد ابراہیم قریشی تھا۔ وہ 1904ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی فنِ موسیقی اور گائیکی سے وابستہ تھے۔ انھیں استاد گامن خان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ بیبو خان نے موسیقی کے ابتدائی رموز اپنے والد ہی سے سیکھے۔ بعد میں انھوں نے استاد مبارک علی خان اور استاد مراد علی سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔

    ان کے والد دھرپد گانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے اور بیبو خان بھی اس میں ماہر ہوئے۔ ان کی گائیکی کا بہت شہرہ ہوا۔ انھیں تقسیم سے قبل آل انڈیا ریڈیو، بمبئی پر ہر ماہ گانے کے پروگرام میں مدعو کیا جاتا تھا اور وہ اپنے فن کا جادو جگا کر داد پاتے تھے۔ اس زمانے میں لوگوں کی تفریح اور موسیقی یا شعر و ادب کے ذوق کی تسکین کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا اور استاد بیبو خان کو بھی اس میڈیم کی بدولت دور دور تک سنا اور پہچانا گیا۔

    استاد بیبو خان کے شاگردوں میں‌ متعدد اپنے فن میں‌ ماہر اور نام ور ہوئے۔ ان میں قدرت اللہ خان، نیاز حسین، فدا حسین خان کو استاد کا درجہ حاصل ہوا جب کہ محمد ہاشم کچھی، ہادی بخش خان، مائی اللہ وسائی، محمد صالح ساند اور اللہ دینو نوناری نے بھی خون نام اور مقام پیدا کیا۔

    سندھ کے اس نام ور فن کار کو ٹنڈو یوسف کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • استاد عبدالقادر پیا رنگ کا یومِ وفات

    استاد عبدالقادر پیا رنگ کا یومِ وفات

    استاد عبدالقادر پیا رنگ 8 جنوری 1979ء کو وفات پاگئے تھے۔ پاکستان کے ممتاز موسیقار اور اس فن میں استاد کا درجہ رکھنے والے عبدالقادر پیا رنگ کو اس لیے بھی اہمیت دی جاتی ہے کہ اس فن میں انھوں نے فقط اپنے شوق اور لگن سے کمال حاصل کیا تھا اور ان کا کسی موسیقی کے گھرانے سے تعلق نہ تھا۔

    استاد عبدالقادر پیارنگ 1906ء میں پنجاب کے ضلع فیروز پور کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے خاندان اور سرپرستوں کی موت کے بعد ان کی زندگی بڑی کس مپرسی میں بسر ہوئی۔

    عبدالقادر پیا رنگ نے شہروں شہروں خاک چھانی اور گزر بسر بہت دشوار رہی۔ اسی زمانے میں مدراس میں استاد حافظ ولایت علی خان کی شاگردی اختیار کی اور موسیقی کے اسرار و رموز سیکھنے لگے۔ بعد میں بمبئی چلے گئے جہاں آل انڈیا ریڈیو اور پھر فلم کی موسیقی دینے کا موقع ملا۔ یوں ان کے فن اور صلاحیتوں کے اظہار کا آغاز ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد وہ یہاں‌ چلے آئے۔ حیدرآباد اور بعد میں کراچی میں اقامت پذیر ہوئے جہاں دینا لیلیٰ اور رونا لیلیٰ کو موسیقی کی تربیت دی۔ 1965ء میں کراچی سے راولپنڈی منتقل ہوگئے جہاں اپنے میوزک اسکول کی بنیاد رکھی اور اس کے فروغ اور تربیت کا سلسلہ شروع کیا۔

    اپنے وقت کے نام ور موسیقار، گلوکار اور اس سے وابستہ فن کار ان کے قدر دانوں میں شامل رہے۔ وہ راولپنڈی میں موفون ہیں۔

  • دھمال کے بادشاہ نذیر علی کی برسی

    دھمال کے بادشاہ نذیر علی کی برسی

    آج پاکستان کے مشہور فلمی موسیقار نذیر علی کی برسی ہے۔ 5 جنوری 2003ء کو اس دنیا سے رخصت ہونے والے نذیر علی گکھڑ منڈی ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے موسیقار ایم اشرف کے شاگرد اور معاون کی حیثیت سے کام کیا اور ان سے سیکھا۔

    1945ء کو پیدا ہونے والے نذیر علی نے پہلی مرتبہ فلم پیدا گیر کے لیے موسیقی دی تاہم ان کی شہرت کا ستارا فلم دلاں دے سودے سے چمکا۔ انھوں نے ایم اشرف کے ساتھ فلم تیس مار خان اور آئینہ میں بطور معاون کام کیا تھا۔

    فلمی موسیقی کے اپنے کیریئر کے دوران نذیر علی نے 140 فلمیں کیں اور 14 فلموں میں دھمالیں ریکارڈ کروائیں۔ انھیں دھمال کا بادشاہ بھی کہا جاتا تھا۔

    نذیر علی کی دیگر فلموں میں سجناں دور دیا، مستانہ ماہی، سلطان، عشق میرا ناں، دلدار صدقے، وچھڑیا ساتھی، بائیکاٹ، ہتھیار، سیونی میرا ماہی اور لال طوفان سرِفہرست ہیں۔

  • ماہرِ فنِ موسیقی اور محقق سعید ملک کی برسی

    ماہرِ فنِ موسیقی اور محقق سعید ملک کی برسی

    فنونِ لطیفہ میں فنِ موسیقی کو صدیوں سے بلند مقام اور اہمیت حاصل رہی ہے اور ہر خاص و عام میں‌ یکساں‌ مقبول فن ہے اور ذوق کی تسکین کا باعث ہے۔ موسیقی کا فن ہر دور میں ترقی کرتا رہا ہے۔

    ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں‌ کلاسیکی موسیقی کا عروج تھا، لیکن اس کے بعد نئے آلاتِ موسیقی، جدید رجحانات اور طرزِ گائیکی کے سبب جہاں‌ کئی ساز اور اصنافِ موسیقی ماضی کا حصّہ بن گئیں، وہیں اس فن کے ماہر اور ان کی فنِ موسیقی پر تحریر کردہ کتب بھی شیلف تک محدود ہوگئیں۔

    آج سعید ملک کا یومِ وفات ہے، وہ 30 دسمبر 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ ماہرِ موسیقی اور اس فن سے متعلق اپنی تصنیفات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ پاکستان کے اس مشہور ادیب کا مدفن لاہور میں ہے۔

    سعید ملک نے تین سال تک لاہور آرٹس کونسل کی الحمرا میوزک اکیڈمی میں‌ فیکلٹی ممبر کی حیثیت خدمات انجام دی تھیں اور اس کی گورننگ کونسل کے رکن تھے۔ وہ 26 سال تک ملک کے مختلف اخبارات اور جرائد میں موسیقی کے موضوع پر مسلسل کالم لکھتے رہے جس میں انھوں‌ نے بڑی محنت اور تحقیق کے ساتھ اس فن سے متعلق مواد باذوق قارئین اور موسیقی سیکھنے اور سمجھنے کے شائقین کے لیے اکٹھا کردیا ہے یہ کالم پاکستان میں موسیقی کی تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہیں۔

    سعید ملک کی تصانیف میں دی میوزک ہیریٹیج آف پاکستان، دی مسلم گھرانا آف میوزیشنز، لاہور: اٹس میلوڈی کلچر، لاہور اے میوزیکل کمپینئن اور ان سرچ آف جسٹس شامل ہیں۔