Tag: مشہور موسیقار

  • استاد چھوٹے غلام علی خان کی برسی

    استاد چھوٹے غلام علی خان کی برسی

    کلاسیکی موسیقی اور گائیکی میں استاد چھوٹے غلام علی خان پاکستان کے‌ نام ور‌ فن کاروں‌ میں شمار کیے جاتے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ 29 دسمبر 1986ء کو لاہور میں وفات پانے والے استاد چھوٹے غلام علی خان کا تعلق قصور کے ایک ایسے گھرانے سے تھا جو موسیقی اور گائیکی کے لیے مشہور تھا۔

    استاد چھوٹے غلام علی خان 1910ء میں پیدا ہوئے تھے۔ موسیقی کی ابتدائی تربیت اپنے والد میاں امام بخش سے حاصل کی جو دھرپد انداز گائیکی میں اختصاص رکھتے تھے۔ استاد چھوٹے غلام علی خان خیال، ترانہ، ٹھمری، دادرا اور غزل سبھی یکساں مہارت سے گاتے تھے۔

    انھوں نے کلاسیکی موسیقی کو پاکستان میں‌ فروغ دینے اور اس کی تربیت کے لیے بھی کام کیا۔ وہ اس حوالے سے لاہور آرٹس کونسل سے وابستہ رہے جہاں موسیقی کی تربیت کے لیے اپنی اکیڈمی قائم کی تھی۔

    چھوٹے غلام علی خان کے شاگردوں میں شاہدہ پروین اور بدرالزماں، قمر الزماں کے نام نمایاں ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے 1985ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

    پاکستان میں‌ موسیقی اور گائیکی کے فن میں نام و مقام بنانے والے استاد چھوٹے غلام علی خان کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • رجحان ساز موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی برسی

    رجحان ساز موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی برسی

    آج مشہور موسیقار ماسٹر غلام حیدر کا یومِ وفات ہے۔ 9 نومبر 1953ء کو اس دنیا سے رخصت ہونے والے اس موسیقار کو رجحان ساز مانا جاتا ہے۔ پہلی بار ماسٹر غلام حیدر ہی نے پنجاب کی لوک دھنوں کو اپنے گیتوں میں شامل کیا تھا۔

    ماسٹر غلام حیدر کا تعلق سندھ کے شہر حیدر آباد سے تھا۔ وہ 1906ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے ہارمونیم بجانے میں‌ دل چسپی لینے لگے تھے۔ اس ساز میں ان کی دل چسپی نے انھیں موسیقی کی طرف راغب کیا اور اسی شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر لاہور چلے گئے جہاں ایک تھیٹر سے وابستہ ہوئے۔ اس دوران غلام حیدر کو پرفارمنس کی غرض سے ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کرنے اور کئی اہم موسیقاروں سے ملاقات کا موقع ملا۔

    1932ء میں ماسٹر غلام حیدر نے لاہور کی ایک مشہور ریکارڈنگ کمپنی سے وابستگی اختیار کر لی جہاں اپنے وقت کے باکمال اور ماہر موسیقاروں استاد جھنڈے خان، پنڈت امرناتھ اور جی اے چشتی کا ساتھ نصیب ہوا۔ ماسٹر غلام حیدر کچھ عرصہ استاد جھنڈے خان کے معاون بھی رہے۔

    1933ء میں مشہور فلم ساز اے آر کاردار نے اپنی فلم سورگ کی سیڑھی کے لیے ماسٹر غلام حیدر کی خدمات حاصل کیں اور یوں اس موسیقار کا فلمی سفر شروع ہوا جسے فلم گل بکاؤلی کی موسیقی نے مہمیز دی اور بعد میں لاہور کے نگار خانوں کی مزید فلموں کی موسیقی ترتیب دینے کا موقع ملا۔ ان میں یملا جٹ، خزانچی، چوہدری اور خاندان شامل ہیں۔

    1944ء میں ماسٹر غلام حیدر بمبئی منتقل ہوگئے جہاں ہمایوں، بیرم خان، جگ بیتی، شمع، مہندی، مجبور اور شہید جیسی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں واپس لاہور آگئے۔ اس زمانے میں انھوں نے فلم بے قرار، اکیلی، غلام اور گلنار سمیت مختلف فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    برّصغیر میں‌ فلمی موسیقی کو نیا رنگ دینے والے ماسٹر غلام حیدر کو لاہور میں‌ سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • بیماری جس نے ایک لڑکے کو مشہور اور مال دار بنا دیا!

    بیماری جس نے ایک لڑکے کو مشہور اور مال دار بنا دیا!

    وہ بارہ سال کا ہوا تو اس کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ آیا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ وہ شہرت کی بلندیوں‌ کا سفر اور کام یابیوں راستہ طے کرتا چلا گیا۔

    ڈڈمیل گستاوو موسیقی اور رقص کے لیے مشہور ہوا اور آج اسے آرکسٹرا کنگ کہا جاتا ہے۔ ڈڈمیل گستاوو کا تعلق تو وینزویلا سے ہے، لیکن اس کی شہرت دنیا بھر میں ہے اور اس کا سبب وہ اسٹیج پرفارمنس ہے جسے ناقدین نے بہت منفرد اور پُراثر تسلیم کیا ہے۔

    وینزویلا کے فن کار نے ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی تھی جہاں جرائم عام اور موت نہایت ارزاں تھی۔ ہر قسم کی لوٹ مار اور کرپشن کے علاوہ منشیات کا غیرقانونی کاروبار کھلے عام ہوتا تھا۔ ایسے ملک میں‌ جہاں‌ نوجوانوں‌ کی اکثریت جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں میں‌ کھیلتی ہو یا منشیات کی عادی ہو، وہاں ڈڈمیل گستاوو سب کے لیے مثال بنا۔

    اس نوجوان کی شہرت اور نام وری کی کہانی بھی بہت دل چسپ ہے۔ زمانہ طالبِ علمی میں جب وہ بارہ سال کا تھا تو اسے ایک آرکسٹرا گروپ کو ہدایات دینے کے لیے غیرمتوقع طور پر اسٹیج پر کھڑا کردیا گیا۔ ڈڈمیل گستاوو پہلی مرتبہ کسی بڑے ہال میں بیٹھے ہوئے سامعین کے سامنے یوں‌ بطور ہدایت کار نمایاں‌ ہوا تھا۔ وہ شدید گھبراہٹ محسوس کررہا تھا، لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ اسے یہ کام بخوبی انجام دینا تھا۔

    دراصل وہ اس گروپ میں وائلن بجاتا تھا اور اس روز جب وہ ایک میوزک ہال میں‌ پرفارم کرنے کے لیے جمع تھے تو معلوم ہوا کہ ان کا ماسٹر اچانک بیمار پڑ گیا ہے اور آج آنے سے معذوری ظاہر کردی ہے۔ یوں ایک ماہر موسیقار کی جگہ اس 12 سالہ لڑکے کو یہ ذمہ داری نبھانا پڑی۔

    ڈڈمیل گستاوو اب تیس سال سے زائد عمر کے ہیں۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ اس وقت پہلی بار سازندوں کو ہدایات دیں تو ہال میں موجود شائقین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ان میں سے اکثر ہنس رہے تھے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ آغاز اچھا نہیں ہوا، لیکن چند منٹوں بعد منظر تبدیل ہوگیا، کیوں کہ ننھے ہدایت کار نے اپنی صلاحیتوں کا بہترین اظہار کردیا تھا۔ اور اس شو کے اختتام پر ہال تالیوں‌ سے گونج رہا تھا۔

    آج وہ ملک اور بیرونِ ملک اپنی منفرد اور پراثر پرفارمنس کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں اور ان کے کمالِ فن کے اعتراف میں انھیں‌ کئی ایوارڈز دیے جاچکے ہیں۔

    (تلخیص وترجمہ: عارف عزیز)

  • ناظم پانی پتی: خوب صورت گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    ناظم پانی پتی: خوب صورت گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا اور چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا… جیسے خوب صورت گیتوں کے خالق ناظم پانی پتی کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

    18 جون 1998 کو پاکستان کےاس معروف فلمی گیت نگار کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا۔ وہ لاہور میں مدفون ہیں۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ 15 نومبر 1920 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے لاہور سے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کی۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام و مقام حاصل کیا۔

    وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔

    انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی گیت نگاری کی اور متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

  • سریلی اور لازوال دھنوں کے خالق امجد بوبی کی برسی

    سریلی اور لازوال دھنوں کے خالق امجد بوبی کی برسی

    فلمی موسیقاروں میں امجد بوبی کو جہاں سریلی، مدھر اور پُراثر دھنوں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے، وہیں ان کی شہرت نئے تجربات اور موسیقی میں جدت اپنانے والے تخلیق کار کی بھی ہے۔

    آج کئی لازوال دھنوں کے خالق امجد بوبی کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 15 اپریل 2005 کو ہوا تھا۔

    امجد بوبی نے 1960 کی دہائی میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی۔ تاہم اس فلم کی نمائش 1976 میں ہوئی۔

    گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آوٴ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی کام یاب فلموں نے امجد بوبی کی شہرت کا سبب بنیں۔

    نئی اور کلاسیکی دھنیں تخلیق کرنے والے امجد بوبی کا فنی سفر چالیس سال پر محیط ہے۔

    امجد بوبی ان موسیقاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ممبئی کے گلوکاروں کو متعارف کروانے کا تجربہ بھی کیا اور متعدد فلموں کے لیے ہندوستان کے گائیکوں کی آواز میں گیت ریکارڈ کروائے۔