Tag: مشہور ناول نگار

  • بڑھاپے کے باغ میں!

    بڑھاپے کے باغ میں!

    بڑھاپا بھی ہماری زندگی کا ایک مرحلہ ہے اور دیگر تمام مراحلِ حیات کی طرح اس کا بھی اپنا ایک چہرہ، اپنی ہی فضا اور حدّت، اپنی خوشیاں اور ضروریات ہوتے ہیں۔ ہم سفید بالوں والے بوڑھوں کے بھی ہمارے تمام نوجوان برادرانِ انسانی کی طرح کچھ فرائض ہوتے ہیں، جو ہمارے وجود کو اس کی مقصدیت دیتے ہیں۔

    کسی انتہائی بیمار اور قریبُ المرگ انسان کی بھی، جو اپنے بستر پر لیٹا اس دنیا سے خود کو دی جانے والی کوئی بھی آواز بہ مشکل ہی سن پاتا ہے، اپنی ہی اہم اور ضروری ذمے داریاں ہوتی ہیں جو اسے پوری کرنا ہوتی ہیں۔

    بوڑھا ہونا بھی اتنا ہی خوب صورت اور مقدس کام ہے، جتنا جوان ہونا۔ مرنا سیکھنا اور مرنا بھی اتنا ہی اہم عمل ہے، جتنا کوئی بھی دوسرا کام، بشرط یہ کہ اسے زندگی کی مجموعی تقدیس اور اس کی مقصدیت کے لیے احترام کے ساتھ مکمل کیا جائے۔

    کوئی ایسا بوڑھا، جو بوڑھا ہونے، سفید بالوں اور موت کی قربت سے صرف نفرت کرتا ہو اور خوف کھاتا ہو، وہ اپنی زندگی کے اس مرحلے کا کوئی باوقار نمائندہ نہیں ہوتا، بالکل اس جوان اور توانا انسان کی طرح جو اپنے پیشے اور روزمرّہ کی پیشہ وارانہ زندگی سے نفرت کرتا ہو اور اس سے فرار کا خواہش مند ہو۔

    مختصر یہ کہ ایک بزرگ انسان کے طور پر اپنے مقصد کو پورا کرنے اور اپنے فرائض کی منصفانہ انجام دہی کے لیے انسان کو بڑھاپے سے، اور جو کچھ بڑھاپا اپنے ساتھ لے کر آتا ہے، اس سے اتفاق کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنا چاہیے۔

    اس “ہاں” کے بغیر، فطرت کے اس مطالبے کے سامنے سَر جھکائے بغیر جو وہ ہم سے کرتی ہے، پھر چاہے ہم بوڑھے ہوں یا جوان، ہمارے دن اپنی قدر اور اہمیت کھونے لگتے ہیں اور ہم زندگی کو دھوکا دینے لگتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ بڑھاپا اور ضعیفی اپنے ساتھ مسائل لے کر آتے ہیں اور ان کے اختتام پر موت کھڑی ہوتی ہے۔

    انسان کو سال بہ سال قربانیاں دینا اور بہت سی باتیں ترک کرنا پڑتی ہیں، اپنی حسّیات اور توانائیوں پر بداعتمادی سیکھنا پڑتی ہے۔ وہ راستہ، جسے طے کرنا کچھ ہی عرصہ پہلے تھوڑی سی چہل قدمی جیسا ہوتا تھا، بہت طویل اور کٹھن ہو جاتا ہے اور پھر ایک روز ہم اس رستے پر چل ہی نہیں پاتے۔ وہ کھانے جو ہم زندگی بھر بڑے شوق سے کھاتے رہے ہوتے ہیں، ہمیں وہ بھی چھوڑ دینا پڑتے ہیں۔ جسمانی خوشی اور لذّت زیادہ سے زیادہ کم یاب ہو جاتی ہیں اور ہمیں ان کی زیادہ سے زیادہ قیمت چکانا پڑتی ہے۔

    پھر تمام تر عارضوں اور بیماریوں، حواس کے کم زور پڑتے جانے، اعضا کے بتدریج مفلوج ہوتے جانے، کئی طرح کے درد اور تکلیفوں اور اکثر ان کے بہت طویل اور بے چینی سے عبارت راتوں میں تسلسل میں سے کسی کو بھی آسانی سے جھٹلا کر اس سے بچا تو نہیں جا سکتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن خود کو یہ دیکھے بغیر ہی پوری طرح شکست و ریخت کے اس منفرد عمل کے حوالے کر دینا بھی محرومی کی مظہر اور ایک الم ناک بات ہو گی کہ بڑھاپے کی عمر کے بھی اپنے ہی اچھے اور مثبت پہلو ہوتے ہیں، اپنی ہی خوشیاں اور ڈھارس بندھائے رکھنے کے اپنے ہی ذرائع۔

    جب دو بوڑھے انسان آپس میں ملتے ہیں، تو انہیں گلہڑ کی بد ذات بیماری، اکڑے ہوئے پٹھوں والے اعضا اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پھول جانے والے سانس کے بارے میں بالکل بات نہیں کرنا چاہیے، انہیں اپنے دکھوں اور ان موضوعات پر بھی کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہیے جو انہیں خفا کر دیتے ہیں۔ ایسی باتوں کے برعکس انہیں آپس میں ایک دوسرے کے خوش کن اور آرام دہ تجربات اور مشاہدات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے۔ ایسے تجربات ہر انسان کو بہت سے ہوئے ہوتے ہیں۔

    جب میں بوڑھے لوگوں کی زندگی کے اس مثبت اور خوب صورت رخ کے بارے میں سوچتا ہوں، اور اس بارے میں بھی کہ ہم سفید بالوں والے طاقت، صبر اور خوشی کے ان ذرائع سے بھی آگاہ ہوتے ہیں جو نوجوانوں کی زندگی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے، تو پھر مجھے اس بات کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ میں مذہب اور کلیسا سے حاصل ہونے والے حوصلے اور اطمینان کے بارے میں گفتگو کروں۔ یہ کام تو کسی پادری کا ہوتا ہے۔

    میں یہاں ان بہت سی عنایات میں سے چند ایک کا شکریے کے ساتھ اور باقاعدہ نام لے کر ذکر کر سکتا ہوں، جو بڑھاپا تحفے کے طور پر ہم پر کرتا ہے۔ میرے لیے ان تحائف میں سے سب سے قیمتی عنایت تصاویر کا وہ خزانہ ہے جو کوئی انسان بہت طویل زندگی گزارنے کے بعد بھی اپنی یادوں میں لیے پھرتا ہے اور جسے جسمانی سرگرمیاں ختم ہونے کے بعد بھی ماضی کے مقابلے میں ایک بالکل مختلف انداز میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

    ایسے انسانی وجود اور انسانی چہرے، جو مثلاً ساٹھ ستّر برسوں سے زمین پر موجود ہی نہیں، وہ ہمارے اندر زندہ رہتے ہیں، ہمارا حصہ ہوتے ہیں، ہم ان کی صحبت میں رہتے ہیں اور وہ ہمیں اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے دیکھتے بھی ہیں۔

    مکانات، باغات اور شہر جو دریں اثناء ناپید ہو چکے یا قطعی طور پر بدل چکے ہوتے ہیں، ہم انہیں پہلے کی طرح ان کی اصلی حالت میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ دور دراز پہاڑیاں اور سمندروں کے ساحل جو ہم نے عشروں پہلے سفر کے دوران دیکھے ہوتے ہیں، ہمیں تصاویر کی اپنی انہی کتابوں میں دوبارہ اسی طرح رنگین اور تر و تازہ نظر آتے ہیں۔
    ان تصویروں کو دیکھنا، ان کا مشاہدہ اور ان پر غور و فکر کرنا ہماری عادت اور بار بار کی جانے والی مشق بن جاتے ہیں اور انہیں دیکھنے والے کی طبیعت کا میلان اور زاویہ نگاہ غیر محسوس طریقے سے ہمارے مجموعی رویوں میں گھلنا ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔

    ہم میں سے بہت سے انسانوں کا ان کی خواہشات، خواب، چاہتیں اور پسندیدہ شوق سال ہا سال تک پیچھا کرتے رہتے ہیں اور عشروں پر محیط اس دوڑ کے باعث ہم بےصبرے، تناؤ کا شکار اور طرح طرح کی امیدوں سے بھر جاتے ہیں، جس دوران کام یابیاں یا ناکامیاں ہم پر شدت سے اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ لیکن آج اپنی زندگی کی تصاویر سے بھری اس بہت بڑی کتاب کے بڑی احتیاط سے صفحے پلٹتے ہوئے ہم یہ سوچ کر حیران بھی ہوتے ہیں کہ یہ کتنی اچھی اور خوب صورت بات ہے کہ ہم ہر طرح کی دوڑ دھوپ اور مقابلے سے بچ کر زندگی کا اتنے پرسکون انداز میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

    یہاں، بڑھاپے کے اس باغ میں کئی ایسے پھول بھی کھلتے ہیں، جن کی نگہداشت کے بارے میں ماضی میں ہم نے شاید ہی کبھی سوچا تھا۔ ان میں سے ایک صبر کا پھول بھی ہے، حقیقی معنوں میں انتہائی قیمتی پودوں میں سے ایک۔ اسے دیکھتے ہوئے ہم زیادہ پرسکون اور معاملات پر زیادہ تدبر کرنے والے بن جاتے ہیں۔ پھر ہمارے اندر کسی معاملے میں مداخلت یا اس میں عملاً کچھ کرنے کی خواہش جتنی کم ہوتی ہے، اتنی ہی ہمارے اندر یہ اہلیت زیادہ ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد فطرت اور انسانوں کی زندگی کو آرام سے بیٹھے مگر توجہ سے دیکھتے اور سنتے رہیں۔

    اسی اہلیت کی وجہ سے ہم کوئی تنقید کیے بغیر اور ہر بار ایک نئی حیرانی کے ساتھ زندگی کو اس کے تمام تر تنوع سمیت اپنے قریب سے گزرنے دیتے ہیں۔ قریب سے گزرتی اس متنوع زندگی میں ہم کبھی کبھار شامل بھی ہو جاتے ہیں، کبھی خاموش تاسف کے ساتھ، کبھی مسکرا کے، کبھی کھل کر ہنستے ہوئے تو کبھی مزاحیہ انداز میں۔

    کچھ ہی عرصہ پہلے میں اپنے باغ میں کھڑا تھا۔ میں نے آگ جلا رکھی تھی اور اس میں خشک پتے اور ٹہنیاں پھینکتا جا رہا تھا۔ اتنے میں ایک بزرگ خاتون وہاں سے گزری جس کی عمر لازماً اسّی برس کے قریب رہی ہو گی۔ وہ چلتے چلتے باغ کی بیرونی باڑ کے پاس رک کر مجھے دیکھنے لگی۔ میں نے اسے خوش آمدید کہا تو وہ مسکرائی اور کہنے لگی: “یہ جو آپ نے چھوٹی سی آگ جلائی ہے، بالکل ٹھیک کیا ہے۔ ہماری عمر میں انسان کو بہرحال دوزخ سے بتدریج دوستی کی کوشش کرنا ہی چاہیے۔”

    اس جملے کے ساتھ ہماری اگلی گفتگو کے رُخ اور لہجے دونوں کا تعین ہو گیا تھا، جس میں ہم نے کافی پُرلطف انداز میں ایک دوسرے سے اپنے کئی دکھوں اور محرومیوں کی شکایتیں بھی کر دیں۔ اپنی گفتگو کے اختتام پر ہم دونوں نے ایک دوسرے کے سامنے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ تمام تر تکالیف کے باوجود ہم دراصل ابھی بہت خوف ناک حد تک بوڑھے نہیں ہوئے اور جب تک ہمارے گاؤں کی سب سے عمر رسیدہ، سو سالہ خاتون زندہ ہے، ہم کسی بھی طرح بہت ہی ضعیف قرار نہیں دیے جا سکتے۔

    جب بہت نوجوان لوگ اپنی توانائی کی برتری کے بَل پر اور اپنی لاعلمی کی وجہ سے ہماری پیٹھ پیچھے ہم پر ہنستے ہیں، ہماری مشکل سے چلی جانے والی چال، ہمارے سروں پر باقی رہ جانے والے چند سفید بالوں اور ہماری گردنوں پر ابھری ہوئی نسوں کو مضحکہ خیز سمجھتے ہیں، تو پھر ہم خود کو یاد دلاتے ہیں کہ کس طرح ہم بھی کبھی ایسی ہی جسمانی طاقت کے مالک اور اتنے ہی لاعلم تھے اور اسی طرح ہنستے تھے۔

    یوں ہم خود کو ہارے ہوئے اور مفتوح نہیں سمجھتے بلکہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم بڑے ہو کر زندگی کے اس مرحلے سے نکل آئے ہیں اور تھوڑے سے زیادہ دانش مند اور زیادہ صابر ہو چکے ہیں۔

    (نوبیل انعام یافتہ ناول نگار ہرمین ہیسے کے مضمون “بلوغت کے ساتھ انسان نوجوان تَر ہوتا جاتا ہے” سے انتخاب، اسے مقبول ملک نے جرمن زبان سے اردو کے قالب میں‌ ڈھالا ہے)

  • گُم شدہ رجمنٹ

    گُم شدہ رجمنٹ

    ایک طاقت وَر فوج کی ایک رجمنٹ کو شہر کی گلیوں میں پریڈ کرنا تھی۔ دستے صبح ہی سے بیرک کے احاطے میں پریڈ کی ترتیب میں کھڑے ہونا شروع ہو گئے۔

    سورج بلند ہوتا گیا اور اب سائے احاطے میں اگنے والے نوخیز پودوں کے قدموں تلے مختصر ہونے لگے۔ اپنے تازہ پالش کردہ ہیلمٹوں کے اندر فوجی اور حکام پسینے سے شرابور ہونے لگے۔ سفید گھوڑے پر سوار کرنل نے اشارہ کیا، نقاروں پر ضربیں پڑیں، بینڈ نے مل کر ساز بجانا شروع کر دیے اور بیرک کے دروازے اپنی چُولوں پر آہستگی سے ہلنے لگے۔

    اب آپ دور کہیں کہیں نرم بادلوں کی دھاریوں والےنیلے آسمان کے تلے شہر دیکھ سکتے تھے جس کی چمنیاں دھویں کے لچھے چھوڑ رہی تھیں، اس کی بالکونیاں جہاں کپڑے سکھانے والی چٹکیوں سے اٹی تاریں، سنگھار میزوں کے آئینوں میں منعکس ہوتی سورج کی جگمگ کرنیں، مکھیاں دور رکھنے والے جالی دار پردوں میں خریداری کے سامان سے لدی خواتین کی الجھتی بالیاں، ایک چھتری والی آئس کریم گاڑی کے اندر کون رکھنے والا شیشے کا بکس، اور ایک لمبی ڈور کے سرے پر بچوں کا ایک گروہ سرخ کاغذی چھلوں پر مشتمل دُم والی پتنگ کھینچتے ہوئے جو زمین کو چھوتے ہوئے ڈگمگاتی ہے، پھر جھٹکوں جھٹکوں میں اٹھ کر آسمان کے نرم بادلوں کے مقابل بلند ہو جاتی ہے۔

    رجمنٹ نے نقاروں کی تھاپ میں پیش قدمی شروع کی، سڑکوں پر بوٹ بجنے لگے اور توپ خانے کی گھرگھراہٹ گونجنے لگی، لیکن اپنے سامنے خاموش، شریف طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والا شہر دیکھ کر فوجی خود کو تھوڑا بدلحاظ اور دخل انداز محسوس کرنے لگے، اور دفعتاً پریڈ بےمحل لگنے لگی۔ جیسے کوئی ساز کا غلط تار چھیڑ دے۔ جیسے اس کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا۔

    پری جیو باتا نامی ایک نقارچی نے ظاہر کیا جیسے وہ اسی تاب سے نقارہ بجا رہا ہے حالانکہ وہ صرف نقارے کی سطح کو چھو رہا تھا۔ اس سے جو آواز نکل رہی تھی وہ ایک مغلوب سی دھم دھم تھی، لیکن وہ اکیلا نہیں تھا۔ کیوں کہ عین اسی لمحے دوسرے تمام نقارچی اسی کی پیروی کررہے تھے۔ پھر بگل والے گزرے لیکن ان کے بگلوں سے محض ایک آہ نکل رہی تھی کیوں کہ کوئی بھی ان میں زور سے نہیں پھونک رہا تھا۔ سپاہی اور حکام بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ کر ایک ٹانگ ہوا میں اٹھاتے، پھر اسے بہت نرمی سے نیچے رکھ دیتے اور یہ پریڈ گویا پنجوں کے بل آگے بڑھتی گئی۔

    سو کسی کے حکم دیے بغیر ایک لمبی، بہت لمبی قطار پھونک پھونک کر قدم رکھتی، پنجوں کے بل دبی دبی چال سے چلی۔ شہر کے اندر توپیں اس قدر بےجوڑ لگنے لگیں کہ ان کے ساتھ چلنے والے توپچیوں پر یکایک خجالت طاری ہو گئی۔

    بعض نے بےاعتنائی کا وطیرہ اپنایا اور توپوں کی طرف دیکھے بغیر چلتے گئے، جیسے وہ وہاں محض اتفاق سے آ گئی ہوں۔ دوسرے توپوں سے لگ کر چلنے لگے، جیسے وہ انھیں چھپانا چاہتے ہوں، تاکہ لوگوں کے ان کے اکھڑ اور ناگوار نظارے سے بچایا جا سکے۔ کچھ نے ان پر غلاف ڈال دیے تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے، یا کم از کم وہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف نہ کھینچیں۔

    کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے توپوں کی نال یا توپ گاڑی پر ہاتھ مار کر یا ہونٹوں پر نیم مسکراہٹ لا کر کچھ ایسے شفقت آمیز تمسخر کا رویہ اختیار کیا گویا یہ دکھانا چاہتے ہوں کہ ان کا ان چیزوں کو مہلک مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، بس ذرا ہوا لگانا مقصود ہے۔

    یہ پریشان کُن احساس کرنل کلیلیو لیون تومینی کے دماغ میں بھی سرایت کر نے لگا جنھوں نے بےاختیار سر اپنے گھوڑے کی طرف جھکا دیا، جب کہ خود گھوڑے نے بھی ہر قدم کے درمیان وقفہ ڈالنا شروع کر دیا اور اب وہ کسی ریڑھے والے گھوڑے کی سی احتیاط سے چل رہا تھا۔ لیکن کرنل اور ان کے گھوڑے کو دوبارہ جنگی چال اختیار کرنے میں بس ایک لمحے کا غور و فکر ہی کافی تھا۔ صورتِ حال کا تیزی سے جائزہ لے چکنے کے بعد کرنل نے تیز حکم دیا: ’پریڈ چال!‘

    نقارے متوازن تال پر بجنا شروع ہوئے۔ رجمنٹ نے تیزی سے اپنی دل جمعی دوبارہ حاصل کی اور اب وہ جارحانہ خوداعتمادی سے آگے قدم بڑھانے لگی۔

    ’یہ ہوئی نا بات،‘ کرنل نے صفوں پر تیزی سے نظریں دوڑاتے ہوئے خود سے کہا، ’اس کو کہتے ہیں مارچ کرتی ہوئی اصل رجمنٹ۔‘

    چند راہ گیر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر قطار بنا کر کھڑے ہو گئے اور ایسے لوگوں کے انداز سے پریڈ دیکھنے لگے جو اس قدر طاقت کی صف آرائی میں دل چسپی رکھتے ہوں اور شاید انھیں اس میں مزہ بھی آتا ہو، لیکن کوئی ناقابلِ تفہیم احساس انھیں ستا رہا ہو۔ ایک مبہم خطرے کا احساس۔ اور ویسے بھی ان کے ذہنوں میں پہلے ہی سے کئی اہم چیزیں گردش کر رہی تھی کہ وہ تلواروں اور توپوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے۔

    خود پر نظریں جمی دیکھ کر سپاہی اور حکام ایک بار پھر ناقابلِ توجیہہ گھبراہٹ کا شکار ہونے لگے۔ وہ پریڈ چال کے بےلچک قدموں سے چلتے تو گئے، لیکن انھیں اس خیال سے دامن چھڑا پانا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ ان بھلے شہریوں کے ساتھ کوئی زیادتی کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی کے باعث بدحواسی سے بچنے کے لیے سپاہی مارانگون ریمیگیو نے نظریں جھکائے رکھیں۔ جب آپ صفوں میں مارچ کرتے ہیں تو آپ کو صرف سیدھی لکیر میں رہنے اور قدم ملانے کی فکر ہوتی ہے، دستہ باقی ہر چیز کا خیال خود رکھتا ہے۔ لیکن سیکڑوں سپاہی وہی کچھ کر رہے تھے جو سپاہی مارانگون کر رہا تھا۔

    درحقیقت آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سب، حکام، پرچم بردار، خود کرنل اپنی نظریں زمین سے اٹھائے بغیر، صف کا پیچھا کرتے چلے جا رہے تھے۔ بینڈ کے پیچھے پریڈ چال چلتے چلتے رجمنٹ ایک طرف کو کنی کھا گئی اور پارک کے اندر پھولوں کے تختے میں جا گھسی، اور پھر استقامت سے گلِ اشرفی اور بنفشے کے پھول روندتی چلی گئی۔

    باغبان گھاس کو پانی دے رہے تھے اور انھوں نے کیا دیکھا؟ ایک رجمنٹ آنکھیں بند کیے، نازک گھاس میں ایڑیاں پٹختے ان پر چڑھی چلی آ رہی ہے۔ ان بے چاروں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اپنے فوارے کس طرح تھامیں کہ پانی کہیں سپاہیوں پر چھڑکاؤ نہ کر دے۔ آخرکار ہوا یہ کہ انھوں نے اپنے فوارے سیدھے اوپر کر لیے، لیکن طویل دھاریں دوبارہ بے قابو سمتوں میں آ، آ کر نیچے گرنے لگیں۔ ایک نے آنکھیں میچے کمر سیدھی رکھے مارچ کرتے ہوئے کرنل کلیلیو لیون تومینی کو سر سے پاؤں تک شرابور کر دیا۔
    پانی سے نچڑ کر کرنل اچھل کر پکارے:

    ’سیلاب! سیلاب! بچاؤ کی کارروائی شروع کی جائے!‘ پھر انھوں نے فوری طور پر خود پر قابو پایا اور رجمنٹ کی کمان سنبھال کر اسے باغات سے باہر لے گئے۔ تاہم وہ تھوڑے سے بے دل ہو گئے تھے۔

    ’سیلاب! سیلاب!‘ کی پکار نے ایک راز اور ایک لاشعوری تمنا کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا کہ قدرتی آفت اچانک آ سکتی ہے، اور کسی کو ہلاک کیے بغیر اس قدر خطرناک ہو سکتی ہے کہ پریڈ منسوخ کرا دے اور رجمنٹ کو لوگوں کے لیے ہر قسم کے مفید کام کرنے کا موقع مل سکے، مثلاً پلوں کی تعمیر یا بچاؤ کی کارروائیوں میں حصہ لینا۔ صرف اسی بات سے ان کا ضمیر مطمئن ہو سکتا تھا۔

    پارک سے نکلنے کے بعد رجمنٹ شہر کے ایک مختلف حصے میں داخل ہو گئی تھی۔ یہ وہ کھلی سڑکیں نہیں تھیں جہاں انھیں پریڈ کرنا تھی، بلکہ یہ علاقہ تنگ، خاموش اور بل کھاتی ہوئی گلیوں پر مشتمل تھا۔ کرنل نے فیصلہ کیا کہ وہ ان گلیوں کو عبور کر کے سیدھا چوک تک جا پہنچیں گے تاکہ مزید وقت ضائع نہ ہو۔

    اس علاقے میں ایک انوکھا جوش و خروش بیدار ہو گیا۔ الیکٹریشن لمبی سیڑھیوں پر چڑھے گلی کے بلب ٹھیک کر رہے تھے اور ٹیلی فون کی تاریں اوپر نیچے کر رہے تھے۔ سول انجینیئرنگ کے سرویئر آلات اور فیتوں سے سڑکیں ناپ رہے تھے۔ گیس والے فٹ پاتھ پر بڑے گڑھے کھود رہے تھے۔ اسکول کے بچے ایک طرف قطار میں چلے جا رہے تھے۔ راج مزدور کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف ’یہ لو! یہ لو!‘ کہتے ہوئے اینٹیں اچھال رہے تھے۔ سائیکل سوار اپنے کندھوں پر لکڑی کی گھوڑیاں اٹھائے، تیز آواز میں سیٹیاں بجاتے گزرے۔ ہر کھڑکی میں ایک ایک لڑکی برتن دھو رہی تھی اور بڑی بالٹیوں میں کپڑے نچوڑ رہی تھی۔

    چنانچہ رجمنٹ کو ان بَل کھاتی گلیوں میں ٹیلی فون کی تاروں کے گچھوں، فیتوں، لکڑی کی گھوڑیوں، سڑک میں گڑھوں، پُر شباب لڑکیوں اور ہوا میں اڑتی اینٹیں– ’یہ لو! یہ لو!‘ – پکڑ کر اور ہیجان زدہ لڑکیوں کے چوتھی منزل سے گرائے ہوئے بھیگے کپڑوں اور بالٹیوں سے بچ بچا کر اپنی پریڈ جاری رکھنا پڑی۔

    کرنل کلیلیو لیون تومینی کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ بھٹک گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے گھوڑے سے نیچے جھک کر ایک راہ گیر سے پوچھا: ’معاف کیجیے گا، کیا آپ جانتے ہیں کہ مرکزی چوک کو جانے والا سب سے مختصر راستہ کون سا ہے؟‘

    راہ گیر، جو ایک معنک اور دبلا پتلا شخص تھا، تھوڑی دیر سوچتا رہا۔ ’راستہ پیچیدہ ہے۔ لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کو ایک احاطے سے ایک اور گلی کے راستے لے جاؤں گا جس سے آپ کا کم از کم چوتھائی گھنٹہ بچ جائے گا۔‘

    ’کیا تمام رجمنٹ اس احاطے سے گزر پائے گی؟‘ کرنل نے پوچھا۔

    آدمی نے رجمنٹ پر ایک نظر دوڑائی اور ہچکچاتے ہوئے کہا: ’خیر، کوشش کی جا سکتی ہے،‘ اور انھیں ایک بڑے دروازے سے گزرنے کا اشارہ کیا۔

    عمارت کے تمام خاندان بالکونیوں کے زنگ آلود جنگلوں کے پیچھے کھڑے ہو کر احاطے میں سے توپ خانے اور گھوڑوں سمیت گزرنے کی کوشش کرتی رجمنٹ کو دیکھنے کے لیے جھک گئے۔

    ’باہر نکلنے کا دروازہ کہاں ہے؟‘ کرنل سے دبلے آدمی سے پوچھا۔

    ’دروازہ؟‘ آدمی نے کہا۔ ’شاید میں اپنی بات واضح نہیں کر سکا۔ آپ کو اوپری منزل تک چڑھنا پڑے گا، وہاں سے آپ سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے دوسری عمارت میں داخل ہو جائیں گے اور اُس عمارت کا دروازہ گلی میں کھلتا ہے۔‘

    کرنل ان تنگ سیڑھیوں میں بھی اپنے گھوڑے پر سوار رہنا چاہتے تھے لیکن دو تین منزلوں کے بعد انھوں نے گھوڑے کو جنگلے سے باندھ کر پیدل آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ توپوں کو بھی احاطے میں چھوڑ دیا جائے جہاں ایک موچی نے وعدہ کیا کہ وہ ان پر نظر رکھے گا۔ سپاہی ایک قطار میں چلتے گئے اور ہر منزل پر دروازے کھلتے اور بچے چلاتے:’اماں، جلدی آؤ، دیکھو۔ سپاہی گزر رہے ہیں۔ فوج پریڈ کر رہی ہے!‘

    پانچویں منزل پر ان سیڑھیوں سے بالاخانے کو جانے والی سیڑھیوں تک پہنچنے کے لیے انھیں باہر کی طرف بالکونی کے اوپر چلنا پڑا۔ ہر کھلی کھڑکی میں سے سادہ کمرے نظر آتے جن میں جھلنگا چارپائیاں بچھی ہوتیں جہاں بچوں سے بھرے خاندان مقیم تھے۔

    ’اندر آؤ، اندر آؤ،‘ باپ اور مائیں سپاہیوں سے کہتے۔ ’تھوڑا آرام کرو، تم لوگ بہت تھکے ہوئے ہو گے!‘ ادھر سے آؤ، یہ راستہ چھوٹا ہے! لیکن اپنی بندوقیں باہر رکھ دو۔ اندر بچے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں نا۔۔۔‘

    سو راہداریوں اور گزرگاہوں میں رجمنٹ کی ترتیب ٹوٹ گئی۔ اور اس افراتفری میں وہ دبلا شخص کہیں ادھر ادھر ہو گیا جس نے کہا تھا کہ وہ راستہ جانتا ہے۔

    شام پڑ گئی اور رسالے اور پلٹنیں اب بھی سیڑھیوں اور بالکونیوں میں بھٹکتی پھر رہی تھیں۔ سب سے اوپر، چھت کے چھجے پر کرنل لیون تومینی بیٹھے تھے۔ انھیں نیچے بکھرا ہوا شہر دکھائی دے رہا تھا، وسیع و عریض اور تند و تیز، سڑکیں شطرنج کی بساط کی مانند اور خالی چوک۔ ان کے ساتھ ہی رنگین جھنڈیوں، پیغام رسانی والے پستولوں اور رنگ برنگے پردوں سے مسلح دستہ کھپریل پر ہاتھ اور گھٹنے ٹکائے بیٹھا تھا۔

    ’پیغام بھیجو،‘ کرنل نے کہا۔ ’جلدی، پیغام بھیجو: علاقہ ناقابلِ عبور۔۔۔ آگے بڑھنے سے قاصر۔۔۔ حکم کا انتظار۔۔۔‘


    (اٹلی کے معروف ناول نگار اور صحافی اٹالو کالوینو کی اس کہانی کو ظفر سیّد نے انگریزی سے اردو زبان میں‌ ترجمہ کیا ہے)

  • سترھویں صدی کے نامعلوم مصنف کی زندہ تحریر!

    سترھویں صدی کے نامعلوم مصنف کی زندہ تحریر!

    ممتاز ادیب اور فکشن نگار قرۃ العین حیدر کا ناول "کارِ جہاں دراز ہے” شاید آپ نے بھی پڑھا ہو۔ ان کی اس سوانحی تصنیف میں ایک ایسی تحریر سے اقتباس بھی شامل ہے جس کا مصنف نامعلوم ہے۔

    کہتے ہیں یہ تحریر سترھویں صدی کے کسی مفکر اور دانا کی ہے جو انگلستان کے ایک قدیم گرجا گھر سے ملی تھی۔ یہ اقتباس ہم آپ کے لیے یہاں نقل کر رہے ہیں۔

    ’’شور اور ہنگامے میں سے پُرسکون گزرو۔ اور یاد رکھو کہ امن خامشی میں ہے۔ خود کو جھکائے بغیر سب سے نبھائو۔ اپنی سچائی کو شانتی اور صراحت کے ساتھ بیان کرو اور دوسروں کی سنو خواہ وہ لوگ غیر دل چسپ یا کم علم ہی کیوں نہ ہوں، کیوں کہ ان کے پاس بھی ان کی کہانی موجود ہے۔

    چھچھورے لوگوں سے احتراز کرو کہ وہ روح کے لیے ناگوار ہیں اور اگر تم نے اپنا موازنہ دوسروں سے کیا تمھارے اندر نخوت یا تلخی پیدا ہو جائے گی، اپنے کارناموں اور منصوبوں سے لطف اندوز ہو، اپنے کام اور فرضِ منصبی میں دل لگائو خواہ وہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ ہو کیوں کہ تھارا ہنر ہی وہ شے ہے جسے گردشِ ایام کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔

    اپنے معاملات میں سوجھ بوجھ سے کام لو۔ دنیا مکروفریب سے پُر ہے۔ لیکن اہلِ دنیا کے چھل کپٹ سے دل برداشتہ ہو کر اچھے انسانوں کی نیکیوں کو نظر انداز نہ کرو۔

    بہت سے لوگ ہیں کہ اعلیٰ سے اعلیٰ نصب العین کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اور ہر جگہ زندگی دلاوری سے معمور ہے۔ تم جو خود ہو، وہی رہو مصنوعی جذبات کا اظہار نہ کرو۔ نہ محبت کے متعلق کلبیت کا رویہ اختیار کرو کیوں کہ ساری خشک سالی اور مایوسیوں کے درمیان محبت سدا بہار گھاس کی مانند اگتی رہتی ہے۔

    گزرتے برسوں کے مشوروں کو نرم مزاجی سے قبول کرو۔ اور نوعمری کے مشاغل سے وقار کے ساتھ دست بردار ہونا سیکھو۔ اپنی اندرونی قوت کو پروان چڑھائو جو کسی اچانک مصیبت کے وقت تمھارے کام آسکے۔ لیکن توہمات سے خود کو پریشان نہ کرو کہ بہت سے خوف اور خدشے درماندگی اور تنہائی کی وجہ سے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔

    ایک معقول حد تک ضبط وتوازن قائم کرکے اپنی ذات سے نرمی برتو۔ اپنے اوپر بلاوجہ ظلم نہ کرو اور یاد رکھو کہ زمین کی گھاس اور آسمان کے درخشاں ستاروں کی طرح تم بھی کائنات کے بچے ہو اور چاہے تمھاری سمجھ میں یہ بات نہ آوے، مگر کائنات متواتر اور پیہم اپنے اسرار منکشف کررہی ہے چناں چہ جو بھی تمھارا تصور خدا کے متعلق ہے، راضی برضائے پرورد گار ہو جائو اور زندگی کی پرُشور الجھنوں کے درمیان اپنی روح کے ساتھ امن سے رہو کیوں کہ اپنی تمام بیہودگیوں اور کلفتوں کے باوجود دنیا بڑی خوب صورت جگہ ہے۔‘‘

  • کیا آپ اکبری اور اصغری کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ اکبری اور اصغری کو جانتے ہیں؟

    زمانہ بدلتا ہے تو بعض رواج بھی بدل جاتے ہیں، طور طریقے اور رجحان بھی تبدیل ہوتے ہیں۔

    آج کسی لڑکی کا نام اکبری یا اصغری نہیں رکھا جاتا، لیکن ایک دور تھا جب یہ نام یا عرفیتیں عام تھیں۔

    اردو زبان اور ادب کے طالب علم اور باذوق قارئین کو معلوم ہو گاکہ ہمارے یہاں ناول نویسی کے آغاز کا سہرا مولوی نذیر احمد سَر ہے۔ ناقدین کی اکثریت نے انھیں اردو زبان کا پہلا ناول نویس تسلیم کیا ہے۔

    1869 میں ان کا مشہور ناول’’مراۃ العروس‘‘ شایع ہوا تھا جس میں دو بہنوں کی عادات و اطوار، سلیقے، پھوہڑ پن کو نہایت خوب صورتی سے پیش کیا گیا تھا جس کا مقصد عام اصلاح، لڑکیوں میں عائلی زندگی اور معاشرت کا شعور اجاگر کرنا تھا۔

    ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں دہلی کی ٹکسالی زبان بھی ملتی اور کرداروں کے مکالموں میں چاشنی بھی۔ لیکن اس ناول کی کم زوریاں بھی نقادوں نے اجاگر کی ہیں۔ اکثر نے انھیں ناصح اور روایتی سوچ والا بھی کہا ہے۔ تاہم ان کا یہ ناول اس دور کی خوب صورت تخلیقی یادگار ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ اس ناول کے مرکزی اور اہم کرداروں‌ کے نام کیا ہیں؟

    اکبری اور اصغری کے علاوہ اس ناول کے دیگر اہم کرداروں میں ماما عظمت، محمد عاقل، محمد کامل، محمد فاضل، سیٹھ ہزاری مل، دور اندیش خان اور خیراندیش خان شامل ہیں۔

  • وہ جس نے "دیوتا” تخلیق کیا!

    وہ جس نے "دیوتا” تخلیق کیا!

    محی الدین نواب نے اس زمین پر دو بار ہجرت کی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد مشرقی پاکستان گئے اور ملک دو لخت ہوا تو وہاں سے پاکستان چلے آئے، لیکن تیسری بار ایک ایسے دیس جا بسے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ یہ 2016 کی بات ہے، فروری کی چھے تاریخ تھی جب انھوں نے دنیا سے کوچ کیا۔

    آج محی الدین نواب کی برسی ہے۔ آئیے اس باکمال لکھاری اور مقبول ناول نگار کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

    حالاتِ زندگی پر چند سطور

    محی الدین نواب نے 1930 میں اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ ہندوستان کے صوبے بنگال کے شہر کھڑک پور میں پیدا ہونے والے محی الدین نواب نے تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کے لیے اُس وقت کے مشرقی پاکستان کا انتخاب کیا، مگر جب پاکستان کا یہ ٹکڑا الگ ہوا اور بنگلا دیش بنا تو انھوں نے پاکستان ہجرت کی۔ یہاں کراچی کو مستقر چنا اور زندگی کی آخری سانس تک اسی شہر میں رہے۔

    تعلق تو ان کا بنگال سے تھا مگر گھر میں اردو بولی جاتی تھی جس نے اس زبان سے لگاؤ اور انسیت پیدا کر دی اور وہ وقت بھی آیا کہ ان کا نام اردو کے مشہور اور مقبول ترین کہانی کاروں میں لیا جانے لگا۔ محی الدین نواب نے افسانہ لکھا اور شاعری بھی کی، مگر ان کی اصل وجہِ شہرت وہ ناول ہیں جنھوں نے مصنف کے تخلیقی جوہر اور منفرد اسلوب کے ساتھ قارئین کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

    زورِ قلم سے تصانیف تک

    محی الدین نواب اپنے زورِ قلم سے واقف اور قارئین کی عام نفسیات کو خوب سمجھتے تھے۔ یہ کہا جائے تو کیا غلط ہو گا کہ وہ کسی ماہر نباض کی طرح معاشرے پر نظر ڈالتے تھے۔ ان کا اپنے مشہور ترین ناول دیوتا کے بارے میں دعوىٰ تھا کہ اگر کوئی شخص اس کے چند پارے پڑھ لے تو وہ مکمل ناول پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔

    محی الدین نواب اپنی کہانیوں کی زمین اپنے گردوپیش، معاشرتی احوال سے اور افراد کے اعمال سے تیار کرتے تھے۔ اس کے ساتھ وہ انسان کی پیچیدہ نفسیات سے بھی اپنی کہانیوں کا موضوع نکالتے اور مکالمے بُنتے۔
    محی الدین نواب نے ضخیم ناول کے ساتھ مختصر کہانیاں بھی لکھیں۔

    ان کے قلم کی ایک خصوصیت حقیقت پسندی اور واقعہ نگاری ہے جسے انھوں نے بہت اہمیت دی اور سیاسی، سماجی، تاریخی موضوعات پر خوب لکھا۔

    معاشرتی کہانیوں نے ان کے قارئین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ پڑھنے والے ان کے دیوانے ہو گئے اور انھیں جراحِ معاشرہ کہا جانے لگا۔

    عنوان کی ندرت، تعارف کی انفرادیت

    محی الدین نواب کا قاری ان کے ناولوں کے پُرکشش اور بامعنى عنوان سے بھی متاثر نظر آتا ہے جو اسے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔

    دیوتا، وقت کے فاصلے، ادھورا ادھوری، بدی الجمع، جونک وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

    دوسری طرف انھوں نے اپنی کہانی یا ناول کا نہایت خوب صورت اور پُرکشش تعارف کروانے کی روایت برقرار رکھی جس کی چند مثالیں یہ ہیں۔

    ایک ناول قید حیات کی تعارفی سطور دیکھیے۔ لہلہاتے کھیتوں میں سرسراتی، تلخ اور عبرت ساماں حقیقتوں کا فسانہ، ان فصلوں کی پامالی کا احوال جنھیں بعض اوقات پکنا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ اپنے ناول گرفت کے تعارف میں لکھا ہے: “بات لہو کی ہو یا حنا کی تصور رنگوں سے شرابور ہو جاتا ہے، زندگی کے انہی دو عناصر سےآراستہ پل پل رنگ بدلتی یہ رنگا رنگ روداد طبقاتی تفاوت کی ہے اور سیاسی عداوت کی بھی۔

    محی الدین نواب کے ناولوں میں کہانی کے دوران کہیں عبادت، کہیں محبت تو کہیں عشق کی تعریف ملتی ہے اور کہیں وہ بغض و عداوت کو بھی اپنی عینک سے دیکھ کر قاری کے سامنے بیان کرتے ہیں اور یہ قابلِ مطالعہ ہوتی ہیں۔ ایک ناول میں عبادت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عبادت بہت وسیع، بہت بڑا مفہوم رکھتى ہے، انسانوں سے محبت کرنا عبادت ہے، جانوروں پر رحم کرنا عبادت ہے، کسی کی زیادتی پر، خطا پر بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود درگزر کرنا عبادت ہے، کسی کو خوشی دینے کے لیے مسکرا دینا عبادت ہے۔

    اب یہ دیکھیے کہ انھوں نے موٹر سائیکل سے انسانی حوصلے کو کس خوب صورتی سے جوڑ دیا ہے۔ ایک ناول میں لکھتے ہیں۔

    اس کے پاس ایک بڑے سائز کی بھاری بھرکم موٹر سائیکل تھی، اس موٹر سائیکل کے پہیے اور فولادی پارٹس اس کے حوصلوں کی طرح مضبوط اور ناقابل شکست تھے۔

  • جادوئی اسلوب کے حامل ہرمن ہیسے کا تذکرہ

    جادوئی اسلوب کے حامل ہرمن ہیسے کا تذکرہ

    اس کی دل چسپی جادوئی کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں میں تھی۔

    جب وہ بچہ اس قابل ہوا کہ ذہن کے پردے پر کوئی تصویر بنا سکے یا کچھ سوچ سکے تو انوکھی اور انجانی دنیا آباد کر لی جس میں عجیب و غریب کردار سامنے آتے، جادوئی اور پُراسرار واقعات رونما ہوتے اور وہ چشمِ تصور سے ان کا نظارہ کرتا۔

    اس بچے نے شعور اور آگاہی کی مسافت طے کی تو خود اُس پر کھلا کہ قلم کی طاقت سے وہ اپنے بچپن کے اُن خوابوں کو تعبیر دے سکتا ہے۔ تب اس نے اپنے تخیل کا سہارا لیا اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، یہ ہرمن ہیسے کا تذکرہ ہے جو اپنے جادوئی اسلوب کی بدولت دنیا بھر کے ادبیوں میں سب سے ممتاز اور مقبول ترین ہے۔

    ہرمن ہیسے کی تاریخِ پیدائش 20 جولائی 1877 ہے۔ اس نے جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے کے کٹر مذہبی اور روایات کے پابند گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والدین تبلیغ کی غرض سے زیادہ تر وقت گھر سے باہر اور اکثر دور دراز کے علاقوں میں گزار دیتے اور وہ گھر میں تنہا رہ جاتا اور پھر مَن پسند دنیا آباد کرلیتا۔

    نوعمری میں اس نے کتابوں کی خریدوفروخت کا کام شروع کیا جس کے سبب مطالعے کا شوق پروان چڑھا۔

    ہرمن ہیسے نے شاعری بھی کی، مگر نام وری اور وجہ شہرت فکشن کا میدان ہے۔ وہ 25 سال کے تھے جب ان کا شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا، مگر اسے توجہ نہ ملی. 1905 میں ان کا ناول Beneath the Wheel شایع ہوا اور ادبی حلقوں کی توجہ سمیٹی۔ ہرمن ہیسے نے افسانوی کہانیاں‌ بھی تخلیق کیں جن میں یورپ کے معاشرتی رویوں اور اخلاقی قدروں کو موضوع بنایا اور ان کو کھوکھلا اور بگڑتا ہوا پیش کیا۔

    The Glass Bead Game، Steppenwolf اور Siddhartha ہرمن کے مشہور ناول ہیں۔ فکشن کے میدان میں یہ ناول اپنے تخلیقی جوہر اور اسلوب کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    سدھارتھ 1922 میں شایع ہوا تھا جسے دنیا بھر میں سراہا گیا اور یہ مقبول ترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ اردو زبان میں بھی اس کا ترجمہ دست یاب ہے۔ 1946 میں اس عظیم تخلیق کار کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔

    آخری عمر میں ہرمن ہیسے گوشہ نشیں ہو گئے۔ مشہور ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے صدر دروازے پر لکھوا دیا تھا کہ ملاقات کی زحمت نہ فرمائیں۔