Tag: مشہور ناول

  • میکسم گورکی: وہ ناول نگار جسے "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی

    میکسم گورکی: وہ ناول نگار جسے "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی

    18 جون 1936ء کو دنیا سے رخصت ہوجانے والے نام ور روسی ادیب اور شاعر میکسم گورکی کو "ماں” نے دنیا بھر میں لازوال شہرت عطا کی اور یہ ناول شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔

    روسی ادب میں ناول ماں کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے جس نے الیکسی میکسیمووچ پیشکوف المعروف میکسم گورکی کو اپنے ہم عصروں‌ میں ممتاز کیا۔ اس نے 28 مارچ 1868ء کو روس میں جنم لیا، والد کا سایہ کم عمری میں‌ سر سے اٹھ گیا، گورکی نے چھوٹے موٹے کام کیے، اور غربت و افلاس دیکھا، ایک مہربان نے تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا سکھا دیا اور پھر وہ علم و ادب کی جانب مائل ہوا۔ آج اسے ایک انقلابی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو توانا اور تازہ فکر شاعر، باکمال ناول نگار، ڈراما نویس اور مستند صحافی بھی تھا۔ اس کے ناول اور مختصر کہانیاں بہت مقبول ہوئیں۔

    میکسم گورکی کا ناول “ماں” 1906ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس ناول کی کہانی ایک مزدور، اس کی ماں، اس کے چند دوستوں اور چند خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ بیٹا انقلابی فکر کا حامل ہے اور گرفتاری کے بعد ماں اپنے بیٹے اور اس کے مقصد یعنی انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کرتی ہے، وہ ان پڑھ اور سادہ عورت ہے جو بیٹے کو جیل کے دوران خود بھی ایک انقلابی بن جاتی ہے۔ اس ناول کا دنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ جب کہ گورکی کو پانچ مرتبہ ادب کے نوبیل انعام کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    روس کے اس ادیبِ اعظم نے اپنی آپ بیتی بھی رقم کی جس کا مطالعہ گورکی کے نظریات سے اور اس کے دور میں روس کے حالات سے واقف ہونے کا موقع دیتا ہے، اس آپ بیتی میں کئی اہم سیاسی اور سماجی اور دل چسپ نوعیت کے واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

  • عہد ساز شخصیت اور عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت اور عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت اور شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا جاتا ہے جو سماجی برائیوں، خامیوں اور مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے نظام کو بدلنے میں‌ مددگار ثابت ہوا۔ اس عظیم تخلیق کار نے 9 جون 1870ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    باذوق قارئین اور ناول کے شیدائیوں‌ نے چارلس ڈکنز کے ناول اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز جیسی کہانیاں‌ ضرور پڑھی ہوں گی، یہ ناول عالمی ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں اور آج بھی کیمبرج کے نصاب کا حصّہ ہیں۔

    چارلس ڈکنز نے 7 فروری 1812ء کو انگلینڈ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کے والد بحریہ میں کلرک تھے جب کہ والدہ تدریس کے شعبے سے منسلک تھیں۔ اس کے باوجود اس کنبے کے مالی حالات کچھ بہتر نہ تھے اور 1822ء میں حالات اس وقت مزید بگڑے جب ڈکنز کے والد فضول خرچی اور عیّاشی کے ہاتھوں‌ مجبور ہو کر مقروض ہوگئے اور پھر انھیں‌ جیل جانا پڑا۔

    12 سالہ چارلس ڈکنز کو اس واقعے کے بعد فیکٹری میں ملازمت کرنا پڑی۔ اس کا بچپن فیکٹری میں دن رات کام کرتے گزرا، اسے کم اجرت ملتی تھی جب کہ جبر و استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اس کے ذہن پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ اس دور کی جھلکیاں اس کے ناول ’’اولیور ٹوئسٹ‘‘ اور ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ‘‘ میں نظر آتی ہیں۔

    15 سال کی عمر میں‌ چارلس ڈکنز نے آفس بوائے کی حیثیت سے ایک ادارے میں ملازمت اختیار کر لی اور یہیں اس نے لکھنا شروع کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ وہ برطانیہ کا مقبول ترین فکشن نگار اور سماجی دانش وَر بنا۔ دنیا بھر کی زبانوں‌ میں‌ اس کے ناولوں‌ کا ترجمہ ہوا۔ چارلس ڈکنز نے اپنی کہانیوں کے لیے جو کردار تخلیق کیے وہ آج بھی مقبول ہیں۔ ان کے ناول پر ایک فلم Great Expectations بھی بنائی گئی تھی جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ چارلس ڈکنز کو ایک عظیم تخلیق کار ہی نہیں برطانوی سماج کا محسن بھی مانا جاتا ہے جس نے معاشرے میں سدھار لانے اور مثبت تبدیلیوں کا راستہ ہموار کیا۔

  • ترجمہ نام ہے ایک سعیِ نامشکور کا…

    ترجمہ نام ہے ایک سعیِ نامشکور کا…

    ”عالی ادب کو ایک ٹھوس حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے ترجمہ ایک ناگزیر وسیلہ ہے۔“

    یہ خیال تقابلی ادبیات کے فرانسیسی نژاد امریکی پروفیسر آلبیر ژیرار (Albert Gerard) نے اپنی عمدہ تصنیف ”مقدمۂ ادبِ عالم“ میں ظاہر کیا تھا، لیکن ساتھ ہی بڑی درد مندی سے یہ ٹھوس حقیقت بھی تسلیم کی تھی کہ ”ترجمہ نام ہے ایک سعیِ نامشکور کا جس کے صلے میں، شدید مشفقت کے بعد، صرف حقارت ملتی ہے۔“

    یہ فقرہ آج سے کوئی آدھی صدی پہلے لکھا گیا تھا، جب نوبیل انعام اور دوسرے بین الاقوامی امتیازات کے خواہش مند ادیب مترجمین کی تلاش میں سرگرداں نہیں پھرتے تھے، اور نہ عالمی ادب کے تراجم مقبولِ عام پیپر بیک ایڈیشنوں میں شائع ہوا کرتے تھے۔ تاہم دیکھا جائے تو اب بھی صورتِ حال میں نہایت معمولی سا فرق پڑا ہے۔

    مغرب میں ترجمے کا ”حقُ الخدمت“ پہلے سے زیادہ تسلیم کیا جا چکا ہے اور مترجم کا نام اب کتاب کے سرورق پر بھی چھپنے لگ گیا ہے۔ اس کے علاوہ تقابلی ادبیات کا مطالعہ دنیا کی بہت سی یونیورسٹوں میں شروع ہو چکا ہے (چناں چہ ”پاکستان ادب، بہ شکلِ ترجمہ“ ایک مضمون کے طور پر امریکا اور کناڈا میں پڑھایا جا رہا ہے)۔ ترجمے کا عام معیار بھی غالبًا پہلے سے بہتر ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود، کم سے کم تیسری دنیا کے اس حصے میں، جہاں اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے، ترجمے کو اب تک حقارت ہی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، حالاں کہ یہی حقیر کام کم سے کم مغرب میں ایسے لوگوں نے بھی انجام دیا ہے جو اپنی اپنی زبانوں کی آبرو تھے۔

    انگریزی میں چوسر سے لے کر ڈرائیڈن، پوپ، کولرج اور براؤننگ تک، اور بیسویں صدی میں لارنس، ییٹس، پاؤنڈ، ایلیٹ، آڈن اور بیکٹ تک نے یہ کام کیا ہے۔ فرانسیسی میں بودلیر سے لے کر آندرے ژیدتک کتنے ہی بڑے فن کاروں نے خود کو مترجم کہلانے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کی (بلکہ ژید نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ہر ادیب کے لیے لازم ہے کہ عالمی ادب کا کم سے کم ایک شاہکار اپنی زبان میں منتقل کرے)۔ جرمن زبان میں گوئٹے کے علاوہ شلّر، اور روسی زبان میں پاسترناک کے تراجم کی اہمیت مسلم ہے۔ (گوئٹے نے آٹھ دس زبانوں سے ترجمہ کیا ہے اور پاسترناک کو شیکسپیئر کے عمدہ ترین مترجمین میں شمار کیا جاتا ہے۔) پھر یہ بھی نہیں کہ اتنے بڑے لکھنے والوں نے یہ کام محض پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیا ہو یا اس کو لڑکپن کا ایک مرحلہ تربیت سمجھا ہو، انہوں نے تو اپنی پوری شخصیت اور ادبی شہرت کو داؤ پر لگا کر یہ کام کیا ہے۔

    بیسویں صدی کے اردو ادب میں پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم سے لے کر اختر حسین رائے پوری، سعادت حسن منٹو، عزیز احمد، محمد حسن عسکری، قرةُ العین حیدر اور انتظار حسین تک نے نثری ادب کا ترجمہ کیا ہے اور اقبال سے لے کر فیض، راشد، فراق، میراجی، مجید امجد اور شان الحق حقّی جیسے شاعروں نے شعری ادب کے تراجم کیے ہیں۔

    ان میں سے کون ہے جس نے کسی بھی دوسری شخصیت کا ضمیمہ بننا قبول کیا ہو؟ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ تخلیقِ ادب کے مقابلے میں ترجمے کا کام نفیِ خودی کا مظہر ہے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ پھر یہ کام اثباتِ خودی کے پیغمبر حضرتِ علامہ نے کیوں انجام دیا؟ شاید اس لیے کہ اسرارِ خودی ہی سے نہیں، رموزِ بے خودی سے بھی ان کا رشتہ اتنا ہی گہرا تھا۔

    کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کا اصولِ حیات انفرادیت پرستی اور غیر جمہوری معاشرتوں کا فلسفۂ زندگی اجتماعیت پرستی ہے، اس کے باوجود مغربی یورپ اور امریکا میں علمی، ادبی اور اجتماعی ادارے صدیوں سے چل رہے ہیں اور مشرقی یورپ اور روس میں انفرادی کمال کا حصول ناممکن نہیں۔ اس کے برعکس تیسری دنیا کے بڑے حصّے میں نہ انفرادی جوہر درجہ کمال تک پہنچتے پاتا ہے، نہ تہذیبی تعاون کی صورت پیدا ہوتی ہے، بلکہ دونوں کی جگہ ایک ناپختہ انانیت پسندی اور غرض مندانہ بد انتظامی کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں ترجمے کا کام کسی اعلیٰ پیمانے پر کہاں سے ہو؟

    ترجمے کا تو اصلُ الاصول ہی تعاون ہے: مصنف سے تعاون، قاری سے تعاون، اصل زبان سے تعاون، اپنی زبان سے تعاون، موضوعِ کتاب کے خصوصی ماہرین سے استمداد بلکہ مختلف قسم کے پیشہ وروں کے تعاون کے حصول بھی لازم ہے، تا کہ عمومی سطح پر استعمال ہونے والے اصطلاحی الفاظ کا زندہ مفہوم سمجھ میں آئے، ورنہ علم و ادب کا رابطہ زندگی سے کٹ کر رہ جائے گا۔ چناں چہ ترجمہ ایک نہایت مشقت طلب کام ہے اور جو طبیعتیں اس کے خلاف تعصب اور مزاحمت سے کام لیتی ہیں، در حقیقت محنت سے جان چُراتی ہیں۔ ایسے میں تخلیقی الہام اور آمد پرستی سے بہتر بہانہ کیا ہو سکتا ہے؟

    ترجمہ ایک فن ہے اور جملہ فنون کی طرح اس فن میں بھی کمال اور بے کمالی کے ہزاروں مدارج موجود ہیں۔ جورج اسٹاینر(George Steiner) کا کہنا ہے کہ ننانوے فی صد تراجم ناقص ہوتے ہیں۔ (اور طبع زاد تحریریں کتنے فی صد ناقص نہیں ہوتیں؟) پھر ترجمے کی بہت سی اقسام ہیں کہ یہ کام تو بازار سے لے کر اقوامِ متحدہ تک اور اخبار سے لے کر وی سی آر تک کسی نہ کسی شکل میں چلتا ہی رہتا ہے، چاہے محض چالو قسم کا ہو۔

    عام زندگی میں بھی ترجمے کا معیار قدرے بہتر ہو سکتا ہے اگر اس کو، فن کے طور پر نہ سہی، ایک روزمرہ ہُنر ہی کی طرح سیکھنے سکھانے کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔ فن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ محض تعلیم و تعلم سے نہیں آتا، اگرچہ اس میں بھی ایک عنصر ہنر کا ضرور ہوتا ہے جو ماہرانہ تربیت سے نکھر سکتا ہے، لیکن ترجمے کا ہنر اس لحاظ سے خاصا پیچیدہ ہے کہ اس میں دہری تہری صلاحیت کی ضرورت پڑتی ہے۔

    متن کی زبان اور اپنی زبان تو خیر آنی ہی چاہیے۔ اُس موضوع کے ساتھ بھی طبعی مناسبت درکار ہے جو متن میں موجود ہے۔ مصنف سے بھی کوئی نہ کوئی نفسیاتی مماثلت لازمی ہے، اور اُس صنفِ ادب یا شاخِ علم سے بھی جس سے متن پیوست ہے، مترجم کو پیوستگی حاصل ہو، تب شاید ترجمہ چالو معیار سے اوپر اٹھ سکے۔

    (مظفر علی سید کے مضمون ’ ترجمے کی جدلیات‘ سے اقتباس)

  • لیو ٹالسٹائی: فلسفی اور ادیب جو کسانوں کا مقدّر بدلنا چاہتا تھا

    لیو ٹالسٹائی: فلسفی اور ادیب جو کسانوں کا مقدّر بدلنا چاہتا تھا

    روسی ادیب اور فلسفی لیو ٹالسٹائی نے اپنی فکر انگیز تخلیقات سے روس ہی نہیں‌ بلکہ سرحد پار بسنے والے تخلیق کاروں کو بھی متاثر کیا۔ ٹالسٹائی کو ان کے ناولوں اور ان کی انسان دوستی کی وجہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آج اس مشہورِ زمانہ ادیب اور فلسفی کا یومِ‌ وفات ہے۔ 20 نومبر 1910ء کو ٹالسٹائی نے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    لیو ٹالسٹائی 28 اگست 1928ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا شمار روس کے معروف ترین ادیبوں اور فلسفیوں میں‌ ہوتا ہے۔ 9 برس کے ٹالسٹائی کی زندگی میں‌ ایک کڑا وقت ان کی یتیمی کی صورت آیا، جس کے بعد انھیں آبائی زمینوں پر کاشت کاری کا کام کرنا پڑا، ساتھ ہی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور فوج میں بھی شامل ہوئے، اس ملازمت کے دوران انھوں نے جو کچھ دیکھا اور سمجھا، اسے اپنے ناول ’’جنگ اور امن‘‘ میں‌ خوب صورتی سے سمو دیا، یہ ٹالسٹائی کا شہرہ آفاق ناول ہے۔

    ٹالسٹائی کو زمانہ طالب علمی میں‌ اساتذہ اور ساتھی طلبا کے منفی رویّوں‌ کا سامنا کرنا پڑا، انھیں‌ اساتذہ نالائق کہتے تھے، جس نے ٹالسٹائی کو بددل کیا اور انھوں نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا، کئی سال تک ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ میں گزارنے والے ٹالسٹائی غور و فکر کے عادی تھے، وہ اپنے سماج کا مطالعہ اور لوگوں کی سماجی زندگی کا مشاہدہ کرتے رہے، ساتھ ہی کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے منصوبے بناتے رہے۔ انھوں‌ نے کسانوں‌ کے بچّوں‌ کو تعلیم دینے کے لیے اسکول بھی قائم کیا۔

    ٹالسٹائی نے پہلا ناول 1856ء میں لکھا، لیکن ان کی شہرت کا سفر جنگ کی ہولناکیوں کے بارے میں ان کی کہانیوں سے شروع ہوا۔ وار اینڈ پیس نے انھیں‌ عالمی سطح پر شناخت دی، اور اینا کارینینا کے نام سے ناول کا بھی بہت چرچا ہوا۔

    ٹالسٹائی نے سماجی مفکر کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل کی اور اپنے نظریات کو کتابی شکل میں‌ پیش کیا، وہ جنگ مخالف، جمہوریت اور مساوات کے قائل اور ذاتی ملکیت کے تصور کو رد کرنے والے دانش ور کے طور پر ابھرے، جس نے جبر اور استحصال کی مذمت کی۔

    ٹالسٹائی کے انقلابی نظریات اور ان کی فکر نے روس کے مجبور اور مظلوم طبقے کو ہی نہیں‌ سرحد پار بھی لوگوں‌ کو متاثر کیا۔ بدقسمتی سے خاندان کے لوگ ہی ان کے مخالف ہوگئے اور پھر ٹالسٹائی نے اپنے حصّے کی جاگیر اور دولت کسانوں اور مزدورں میں تقسیم کرکے گھر چھوڑ دیا۔

    ٹالسٹائی نے کس مپرسی کے عالم میں‌ ایک ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر دَم توڑ دیا تھا۔ انھوں‌ نے ناولوں اور کہانیوں‌ سمیت مختلف موضوعات پر اپنی فکر اور نظریات کو تحریری شکل میں‌ پیش کیا جن کا مختلف زبانوں‌ میں‌ ترجمہ کیا گیا ہے۔

  • 1958 میں‌ منظرِ عام پر آنے والا "وبائی ہیجان”

    1958 میں‌ منظرِ عام پر آنے والا "وبائی ہیجان”

    دنیا کا کوئی ملک کرونا کی وبا سے محفوظ نہیں‌ ہے۔ جو ممالک اس وبا کی شدّت میں‌ کمی کے بعد لاک ڈاؤن ختم کرچکے تھے، وہ کرونا وائرس کے کیسز میں تیزی کے سبب دوبارہ بندشِ‌عامّہ کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں اور ساتھ ہی اس وائرس کو ختم کرنے کے لیے ویکسین تیار کرنے کی کوششیں‌ بھی جاری ہیں۔

    جن دنوں‌ کرونا وائرس اور اس وبا کے پھیلنے کا شور نیا نیا تھا تو اس سے متعلق کئی مفروضے اور تصورات کے ساتھ من گھڑت اور من چاہی باتیں‌ بھی سنی گئیں۔ انہی دنوں‌ چند فلموں اور ایسے ناولوں کا بھی خوب چرچا ہوا جن کی کہانی کسی ایسے ہی پُراسرار وائرس اور ویکسین سے متعلق تھی، لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شہرہ آفاق ناول نگار ابنِ صفی بھی نصف صدی قبل ایسے ہی پُراسرار وائرس اور وبا کی کہانی لکھ چکے ہیں۔

    ابنِ صفی کے اس ناول کا نام تھا "وبائی ہیجان” جو 1958 میں منظرِ عام پر آیا۔ یہ ناول عالمی طاقتوں کے مابین حیاتیاتی جنگ کے تصور پر مبنی ہے جس میں‌ بیکٹیریا اور وائرس کے ذریعے دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ ابنِ صفی کے اس ناول کا ایک پیرا ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    ابنِ صفی نے اس جاسوسی ناول میں‌ ایک بیکٹیریا کے ذریعے عام لوگوں‌ کو بیمار ہوتا اور خوف زدہ دکھایا ہے جس سے کاروبارِ زندگی ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس وبا کا تدارک کرنے کے لیے مختلف ممالک کے طبی مشن حرکت میں‌ آتے ہیں، لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا۔ ایک موقع پر ناول کے اہم کردار کیپٹن حمید سے گفتگو کرتے ہوئے دوسرا کردار ڈاکٹر سانگلو کہتا ہے:

    "وبائی امراض کے جراثیم مختلف ذرایع سے ہمارے سسٹم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یا تو وہ فضا میں موجود ہوتے ہیں اور ہوا کے ساتھ ہمارے جسم میں پہنچتے ہیں یا اس پانی میں ان کا وجود ہوتا ہے جسے ہم پیتے ہیں یا پھر کیڑے مکوڑوں کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ ہم نے سارے ذرایع چھان مارے، لیکن ہمیں نئے قسم کے جراثیم کہیں بھی نہ ملے۔ ایک دن میں تجربہ گاہ میں سلائڈ پر مشتبہ پانی کی چند بوندیں ڈال کر خرد بین سے ان کا جائزہ لے رہا تھا کہ کسی نے مذاقاً اس پر ایک چٹکی نمک ڈال دیا۔”

    ان کرداروں‌ کی گفتگو جاری رہتی ہے اور ڈاکٹر بتاتا ہے:
    "شاید اس نے ایسا کرتے وقت ڈاکٹر گوہن پر پھبتی بھی کسی تھی، لیکن کیپٹن مجھے تو خدا کی قدرت کا تماشہ نظر آگیا۔ نمک کی چٹکی پڑتے ہی لاتعداد نارنجی رنگ کے ذرّات سے نظر آنے لگے، لیکن یہ غیر متحرک تھے، بس پھر یہیں سے ہمارے کام کا آغاز ہوا۔ نمک نہ صرف ان کے لیے سم قاتل ہے بلکہ ان کی رنگت بھی تبدیل کر دیتا ہے۔ رنگت تبدیل ہونے سے قبل انھیں خرد بین سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ یعنی آپ انھیں صرف مردہ حالت میں دیکھ سکتے ہیں، اگر یہ زندہ ہوں تو دنیا کی طاقت ور ترین خرد بین سے بھی نہیں دیکھے جاسکتے۔”

    کہانی آگے بڑھتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ گوہن نام کا ایک مغربی ڈاکٹر مسیحا بن کر آیا ہے اور وبائی مرض سے نجات کے لیے چائے میں نمک ملا کر پینے کا نسخہ تجویز کررہا ہے۔ یہ علاج کارگر ثابت ہوتا ہے اور گوہن راتوں رات مقبول ہو جاتا ہے۔ لوگ خوف سے باہر نکلنے لگتے ہیں اور بیماری کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔

    اس ناول کا ہیرو کرنل فریدی بعد میں اس سازش سے پردہ اٹھاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سازش تھی اور بیماری پھیلانے والا جرثوما لیبارٹری میں‌ تیار کیا گیا تھا۔

  • یومِ وفات: بیگم حمیدہ اختر حسین کی زندگی پر ایک نظر

    یومِ وفات: بیگم حمیدہ اختر حسین کی زندگی پر ایک نظر

    معروف ترقی پسند ادیب اختر حسین رائے پوری کی رفاقت اور ان کے طفیل اپنے وقت کے جید اور باکمال لکھاریوں سے ملنے، صاحبِ طرز ادیبوں اور شعرا کو پڑھنے اور ان سے ملاقاتوں کا موقع ملا تو بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کو بھی لکھنے کی تحریک ملی۔ ادب پڑھنے کا شوق انھیں بہت پہلے سے تھا، کیوں کہ ان کے والد بھی جاسوسی رائٹر تھے۔

    بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی آپ بیتی جس کا مرکزی موضوع، ان کے شوہر اختر حسین رائے پوری ہیں، سامنے آئی تو اسے سبھی نے منفرد قرار دیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ان کی ہر قدم پر راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کی جس نے ان کے اندر موجود تخلیق کار کو ابھرنے کا موقع دیا۔

    ان کی پیدائش 1918 کی ہے۔ بیگم حمیدہ نے 1935 میں اختر حسین رائے پوری سے شادی کی جو اردو کے نام ور نقاد، محقق اور ادیب تھے۔ ان کے اتنقال کے بعد بیگم حمیدہ اختر حسین نے ادبی سفر شروع کیا اور اپنے اسلوب کے سبب اہم لکھاریوں میں شمار ہونے لگیں۔ خود نوشت سوانح عمری اور خاکوں کے دو مجموعے ان کی یادگار تخلیقات ہیں۔ اس کے علاوہ ناول اور دیگر کتب بھی ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 20 اپریل 2009 کو ہوا تھا۔ بیگم حمیدہ حسین کراچی میں مدفون ہیں۔

  • جادوئی اسلوب کے حامل ہرمن ہیسے کا تذکرہ

    جادوئی اسلوب کے حامل ہرمن ہیسے کا تذکرہ

    اس کی دل چسپی جادوئی کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں میں تھی۔

    جب وہ بچہ اس قابل ہوا کہ ذہن کے پردے پر کوئی تصویر بنا سکے یا کچھ سوچ سکے تو انوکھی اور انجانی دنیا آباد کر لی جس میں عجیب و غریب کردار سامنے آتے، جادوئی اور پُراسرار واقعات رونما ہوتے اور وہ چشمِ تصور سے ان کا نظارہ کرتا۔

    اس بچے نے شعور اور آگاہی کی مسافت طے کی تو خود اُس پر کھلا کہ قلم کی طاقت سے وہ اپنے بچپن کے اُن خوابوں کو تعبیر دے سکتا ہے۔ تب اس نے اپنے تخیل کا سہارا لیا اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، یہ ہرمن ہیسے کا تذکرہ ہے جو اپنے جادوئی اسلوب کی بدولت دنیا بھر کے ادبیوں میں سب سے ممتاز اور مقبول ترین ہے۔

    ہرمن ہیسے کی تاریخِ پیدائش 20 جولائی 1877 ہے۔ اس نے جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے کے کٹر مذہبی اور روایات کے پابند گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والدین تبلیغ کی غرض سے زیادہ تر وقت گھر سے باہر اور اکثر دور دراز کے علاقوں میں گزار دیتے اور وہ گھر میں تنہا رہ جاتا اور پھر مَن پسند دنیا آباد کرلیتا۔

    نوعمری میں اس نے کتابوں کی خریدوفروخت کا کام شروع کیا جس کے سبب مطالعے کا شوق پروان چڑھا۔

    ہرمن ہیسے نے شاعری بھی کی، مگر نام وری اور وجہ شہرت فکشن کا میدان ہے۔ وہ 25 سال کے تھے جب ان کا شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا، مگر اسے توجہ نہ ملی. 1905 میں ان کا ناول Beneath the Wheel شایع ہوا اور ادبی حلقوں کی توجہ سمیٹی۔ ہرمن ہیسے نے افسانوی کہانیاں‌ بھی تخلیق کیں جن میں یورپ کے معاشرتی رویوں اور اخلاقی قدروں کو موضوع بنایا اور ان کو کھوکھلا اور بگڑتا ہوا پیش کیا۔

    The Glass Bead Game، Steppenwolf اور Siddhartha ہرمن کے مشہور ناول ہیں۔ فکشن کے میدان میں یہ ناول اپنے تخلیقی جوہر اور اسلوب کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    سدھارتھ 1922 میں شایع ہوا تھا جسے دنیا بھر میں سراہا گیا اور یہ مقبول ترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ اردو زبان میں بھی اس کا ترجمہ دست یاب ہے۔ 1946 میں اس عظیم تخلیق کار کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔

    آخری عمر میں ہرمن ہیسے گوشہ نشیں ہو گئے۔ مشہور ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے صدر دروازے پر لکھوا دیا تھا کہ ملاقات کی زحمت نہ فرمائیں۔