Tag: مشہور نعتیہ کلام

  • مشہورِ‌ زمانہ نعت اور حسن لطیف

    مشہورِ‌ زمانہ نعت اور حسن لطیف

    "شاہِ مدینہ ﷺ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی…” یہ مشہور نعت 1957ء کی فلم نورِ اسلام میں شامل تھی جس کی دھن ایسی بے مثل ہے کہ سننے والوں پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ کہ اس مشہورِ‌ زمانہ نعت کی دھن کس نے بنائی تھی؟ اسے حسن لطیف نے تخلیق کیا تھا۔

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں یوں تو اعلیٰ پائے کی متعدد نعتیں کمپوز کی گئی ہیں لیکن یہ ایک سدا بہار اور لاجواب دھن ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس نعت کی دھن کو کئی موسیقاروں نے نقل کرکے معمولی رد و بدل کے ساتھ پیش بھی کیا لیکن انھیں وہ مقبولیت نہیں مل سکی جو اس نعت کو حاصل ہوئی۔

    فلمی تاریخ میں‌ حمد و نعت کی طرز اور ان کی دھنیں تخلیق کرنے کی بات کی جائے تو اس نعت کا پلڑا بھاری رہے گا۔ اس حوالے سے حسن لطیف کا نام بھی ہمیشہ لیا جاتا رہے گا جنھوں نے اپنے وقت کے ایک باکمال گلوکار سلیم رضا کی آواز میں اپنی تخلیق کردہ دھن پر یہ نعت ریکارڈ کروائی۔

    موسیقار حسن لطیف نے فلم نگری کے لیے 27 فلموں میں پونے دو سو کے قریب گیتوں کی دھنیں‌ ترتیب دیں۔ ان کی تخلیق کردہ دھنوں پر سب سے زیادہ گیت زبیدہ خانم، ملکہ ترنم نورجہاں، سلیم رضا اور احمد رشدی نے گائے تھے۔

    بڑے پردے پر فلم کے منظر میں ڈفلی کے ساتھ اس مشہورِ زمانہ نعت کو گاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس نعت کا یہ بند پڑھیے۔

    شاہِ مدینہ، یثرب کے والی
    سارے نبی تیرے در کے سوالی
    جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے
    آباد عالم تیرے کرم سے
    باقی ہر اک شے، نقشِ خیالی
    تیرے لیے ہی دنیا بنی ہے
    نیلے فلک کی چادر تنی ہے

    تُو اگر نہ ہوتا، دنیا تھی خالی
    سارے نبی تیرے دَر کے سوالی
    شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ۔۔۔۔۔

  • سیّد اقبال عظیم کی برسی جو‌ اپنی بے نگاہی پر ملول نہ تھے

    سیّد اقبال عظیم کی برسی جو‌ اپنی بے نگاہی پر ملول نہ تھے

    مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ، نم دیدہ
    جبیں افسردہ، افسردہ، قدم لغزیدہ، لغزیدہ
    چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
    نظر شرمندہ، شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

    اس مشہور اور مقبولِ عام نعتیہ کلام کے شاعر سید اقبال عظیم ہیں جو‌ 20 برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اردو زبان کے اس معروف شاعر، ادیب اور محقق کی برسی ہے۔

    سید اقبال عظیم 8 جولائی 1913 کو یو پی کے مردم خیز شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ علم و ادب میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ ان کے دادا سید فضل عظیم فضل، نانا ادیب میرٹھی اور والد سید مقبول عظیم عرش تھے جو اپنے زمانے میں شعروسخن میں معروف تھے۔

    اقبال عظیم نے شاعری میں صفی لکھنوی اور وحشت کلکتوی سے اکتساب کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے اقبال عظیم نے قیامِ پاکستان کے بعد ڈھاکا میں سکونت اختیار کی جہاں مختلف کالجوں اور ڈھاکا یونیورسٹی میں‌ ملازمت کے دوران علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے اور ان کی تحقیقی کتب جن میں بنگال میں اردو، سات ستارے اور مشرق سرِفہرست ہیں، سامنے آئیں۔ 1970 میں وہ کراچی چلے آئے جہاں اردو زبان و ادب کو اپنے سوزِ سخن اور فکرونظر سے نکھارا اور مالا مال کیا۔

    اقبال عظیم کے شعری مجموعے مضراب، قابِ قوسین، لب کشا، ماحصل، نادیدہ اور چراغِ آخرِ شب اشاعت پذیر ہوئے۔ 22 ستمبر 2000 کو وفات پانے والے اقبال عظیم کراچی کے سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    سید اقبال عظیم کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
    جو دیدہ وَر ہیں انہیں بھی نظر نہیں آتا

  • شہرہ آفاق قصیدہ بردہ شریف پڑھنے والے مہدی ظہیر

    شہرہ آفاق قصیدہ بردہ شریف پڑھنے والے مہدی ظہیر

    مہدی ظہیر کا نام کئی قارئین کے لیے نیا ہوسکتا ہے، لیکن قصیدہ بردہ شریف وہ شہرہ آفاق نعتیہ کلام ہے جو سبھی نے سنا اور پڑھا بھی ہو گا۔

    یہ قصیدہ امام بوصیری نے لکھا تھا جس میں سرورِ کائنات ﷺ سے والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ نعتیہ کلام اسلامی دنیا میں‌ بے‌ حد مقبول ہے، خاص طور پر سلسلہ تصوف میں‌ اس کلام کو بے حد عقیدت، عزّت اور توقیر حاصل ہے۔ دنیا کے معروف نعت خواں اس کلام کو پڑھنا باعثِ اعزاز سمجھتے ہیں اور اسے دینی مجالس و روحانی محافل میں نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    پاکستان میں‌ بھی ہر مشہور نعت خواں‌ نے یہ قصیدہ پڑھا ہے، لیکن مہدی ظہیر وہ نام ہے جس کے پُرسوز لحن نے اس قصیدے کا لُطف دوبالا کردیا اور خاص بات یہ ہے کہ مہدی ظہیر کو عربی زبان پر عبور حاصل تھا۔ انھوں نے قصیدہ بردہ شریف کے اشعار پڑھتے ہوئے کلام کے جوہرِ عقیدت، وفورِ شوق اور کیفیات کا گویا حق ادا کردیا۔

    اب آپ مہدی ظہیر کا مختصر تعارف پڑھ لیں۔ مہدی ظہیر 1927 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام افتخار مہدی تھا۔

    وہ پاکستان کے ممتاز موسیقار، گلوکار، شاعر اور براڈ کاسٹر تھے۔ انھیں اردو کے علاوہ عربی زبان پر عبور حاصل تھا اور ان کی آواز میں یہ قصیدہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں سنا گیا۔

    1974 میں جب لاہور میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی تو اس کا ترانہ بھی بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے، ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں۔۔۔۔

    یہ ترانہ بھی مہدی ظہیر نے گایا تھا۔ ان کی آواز میں ملک کے طول و عرض میں گونجنے والے اس ترانے کی بازگشت برادر اسلامی ممالک میں بھی سنائی دی۔