Tag: مشہور واقعات

  • پگڑی اور بارات کا کھانا

    پگڑی اور بارات کا کھانا

    زندگی میں‌ ہمیں بہت سے لوگ ملتے ہیں، ان میں‌ سے کچھ ہمیں‌ اپنی کسی بات یا اپنے کسی طرزِ عمل سے حیرت میں‌ ڈال دیتے ہیں، ان کا کوئی بھی فعل یا حرکت ہمیں چونکا سکتی ہے، یا پھر ان کی کوئی بات ہمیں اپنی عادات اور رویّوں کا جائزہ لینے اور اپنے معمولات میں غور و فکر پر آمادہ کرلیتی ہے۔ یہاں ہم ایسے ہی دو واقعات آپ کی دل چسپی کے لیے نقل کررہے ہیں۔

    ایک مرتبہ ہم لاری پر جوہر آباد جا رہے تھے، میرے ساتھ لاری میں ایک اور معزّز آدمی پرانی وضع کے ریٹائرڈ تھے، گرمی بہت تھی، انھوں نے گود میں پگڑی رکھی ہوئی تھی۔ ہوا آ رہی تھی۔ ایک خاص علاقہ آیا تو انھوں نے پگڑی اٹھا کے سر پر رکھ لی اور ادب سے بیٹھ گئے۔

    میں متجسس آدمی تھا۔ میں نے کہا، جی! یہاں کسی بزرگ کا مزار ہے۔ کہنے لگے نہیں۔ میں نے کہا، جی کوئی درگاہ ہے یہاں۔ کہنے لگے نہیں۔ میں بولا، معاف کیجیے گا، میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے پگڑی گود سے اٹھا کر سَر پر رکھ لی ہے اور باادب ہو کر بیٹھ گئے ہیں، کوئی وجہ ہو گی۔

    کہنے لگے! بات یہ ہے کہ میں اس علاقے کا واقف ہوں، یہاں ڈیزرٹ تھا، ریت تھی اور کچھ بھی نہیں تھا۔ حکومت نے سوچا کہ اس میں کوئی فصل اگائی جائے۔ لوگ آتے نہیں تھے۔ ایک آدمی آیا، اس نے آ کر جھونپڑا بنایا اور یہاں پانی کی تلاش میں ٹیوب ویل وغیرہ کی کوشش کی۔ وہ پہلا آدمی تھا جس نے یہاں سبزہ اگایا اور اس زمین کو ہریالی بخشی۔ پتا نہیں وہ آدمی کہاں ہوگا، میں نے اس کے احترام میں یہ پگڑی اٹھا کے رکھ لی۔

    دیکھیے، یہ ایسی چیزیں ہیں جو ہماری زندگی کے اوپر عجیب طرح سے اثرانداز ہوتی ہیں اور اگر آپ اپنی آنکھیں بالکل کھلی رکھیں اور کان بھی تو آپ کو اردگرد اتنی کہانیاں ملیں گی جن کے اوپر آپ نے اس سے پہلے توجہ نہیں دی ہو گی۔

    ہمارے استاد پروفیسر صوفی غلام مصطفٰی تبسّم صاحب کی ایک عادت تھی کہ جب کسی کی شادی ہوتی تھی تو بارات کو کھانا کھلانے کا بندوبست ان پر ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے، ہم بھاٹی دروازے بتیاں والی سرکار کے پیچھے ایک گھر تھا، وہاں چلے گئے۔ اب جو بارات تھی اس کے بارے میں خیال تھا کہ 80 کے قریب بندے ہوں گے، وہ 160 کے قریب آ گئے۔ اب صوفی صاحب کی آنکھیں، اگر آپ میں سے کسی کو یاد ہے، ماشاء اللہ بہت موٹی تھیں، گھبرا گئے، ان کے ماتھے پر پسینا، ناک پر بھی آ جاتا تھا، کہنے لگے اشفاق ہن کیہہ کریے؟

    میں نے کہا پتا نہیں، دیگوں میں پانی ڈال دیتے ہیں۔ پہلا موقع تھا، میں ففتھ ایئر کا اسٹوڈنٹ تھا، انھوں نے ایک زور دار تھپّڑ میرے منہ پر مارا۔ کہنے لگے، بے وقوف آدمی، اس میں پانی ڈال کے مرنا ہے، وہ تو فوراً ختم ہو جائے گا، اس میں گھی کا ایک اور پیپا ڈالنا ہے۔ گاڑھا ہو جائے گا تو کھایا نہیں جاتا۔

    اب آخر کیفیت یہ آ گئی کہ دیگیں ختم ہو گئیں اور ان کا چہرہ دیکھنے والا تھا۔ وہ کانپ رہے تھے، اگر کسی نے اندر سے کہہ دیا کہ اور بھیجیں، ان کے پاس دینے کے لیے صرف ایک رہ گئی تھی، لیکن وہ ڈرے ہوئے تھے۔ جب خوف زدہ تھے تو اندر سے آواز آئی بس۔ جب دوسرے بندے نے کہا، بس بس جی صوفی صاحب۔

    میں نے کہا، خدا کے واسطے ایسی ٹینشن کا کام آئندہ نہیں کرنا۔ کہنے لگے نہیں، بالکل نہیں، میری بھی توبہ۔ وہاں سے ہم چل پڑے، پیچھے ہم شاگرد، خود آگے آگے۔

    صوفی صاحب کوئی پندرہ بیس گز سے زیادہ گئے ہوں گے ایک مائی باہر نکلی۔ کہنے لگی لو غلام مصطفٰی میں تو تینوں لبھ دی پھرنی آں۔ تاریخ رکھ دتی اے، 13 بھادوں دی، کاکی دی۔ تو صوفی صاحب جو توبہ کر کے نکلے تھے، کہنے لگے کاغذ ہے، پنسل ہے؟ لکھ 13 سیر گوشت، ایک بوری چانول، صوفی صاحب لکھوا رہے ہیں تو میں نے کہا، جی یہ پھر ہو گا، کہنے لگے نہیں! یہ تو ان کی ضرورت ہے۔

    میں نے کہا آپ صرف کتاب کی تشریح وغیرہ پڑھایا کریں۔ تو یہ ان کا کام تھا۔ یہ جو عمل کی دنیا ہے، اس میں داخل ہونا ضروری ہے۔

    (مشہور ادیب اور ڈراما نویس اشفاق احمد کے بیان کردہ واقعات کی لڑی سے انتخاب)

  • مشہور شاعر جسے ایک نام وَر صحافی نے لاجواب کر دیا!

    مشہور شاعر جسے ایک نام وَر صحافی نے لاجواب کر دیا!

    علم وادب کی دنیا میں شخصیات کے مابین رنجش، تنازع کے بعد حسد اور انتقام جیسے جذبات سے مغلوب ہوکر دوسرے کی توہین کرنے کا موقع تلاش کرنے کے علاوہ معاصرانہ چشمک بھی رہی ہے جن کا تذکرہ ادبی کتب میں ملتا ہے جب کہ بعض واقعات کا کوئی حوالہ اور سند نہیں، لیکن وہ بہت مشہور ہیں۔

    یہاں ہم نام ور صحافی اور اپنے دور کی ایک قابل شخصیت جمیل مہدی اور اردو کے عظیم شاعر جگر مراد
    آبادی کا ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    مرحوم جمیل مہدی کو استاد شعرا کا بہت سا کلام گویا ازبر تھا۔ ان کے سامنے کوئی شاعر جب اپنا شعر پیش کرتا تو وہ اسی مضمون میں استاد یا کسی مقبول شاعر کے کلام سے کوئی شعر سنا دیتے اور کہتے کہ یہ بات تو آپ سے پہلے فلاں شاعر کہہ گیا ہے، اس لیے اس میں کوئی خوبی اور انفرادیت نہیں ہے۔

    اس طرح وہ شعرا کو شرمندہ کرتے اور ان کی یہ عادت بہت پختہ ہوچکی تھی۔ اکثر شاعر اپنا سے منہ لے کر رہ جاتے اور دوبارہ انھیں اپنا کلام سنانے میں بہت احتیاط کرتے۔

    یہ سلسلہ وہ نوآموز، غیر معروف اور عام شعرا تک محدود رکھتے تو ٹھیک تھا، لیکن ایک بار انھوں نے جگر صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔

    ایک محفل میں جگر مراد آبادی نے انھیں اپنا یہ شعر سنایا۔

    آ جاؤ کہ اب خلوتِ غم خلوتِ غم ہے
    اب دل کے دھڑکنے کی بھی آواز نہیں ہے

    جمیل مہدی صاحب نے حاضرین کی پروا کیے بغیر جگر صاحب کو ٹوک دیا اور یہ شعر سنایا۔

    ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
    اب تو آ جا، اب تو خلوت ہو گئی

    شعر سنا کر جگر صاحب سے مخاطب ہو کر بولے، حضرت آپ سے بہت پہلے خواجہ عزیز الحسن مجذوب یہی بات نہایت خوبی اور نزاکت سے کہہ چکے ہیں۔