Tag: مشہور واقعہ

  • مشہور شاعر جسے ایک نام وَر صحافی نے لاجواب کر دیا!

    مشہور شاعر جسے ایک نام وَر صحافی نے لاجواب کر دیا!

    علم وادب کی دنیا میں شخصیات کے مابین رنجش، تنازع کے بعد حسد اور انتقام جیسے جذبات سے مغلوب ہوکر دوسرے کی توہین کرنے کا موقع تلاش کرنے کے علاوہ معاصرانہ چشمک بھی رہی ہے جن کا تذکرہ ادبی کتب میں ملتا ہے جب کہ بعض واقعات کا کوئی حوالہ اور سند نہیں، لیکن وہ بہت مشہور ہیں۔

    یہاں ہم نام ور صحافی اور اپنے دور کی ایک قابل شخصیت جمیل مہدی اور اردو کے عظیم شاعر جگر مراد
    آبادی کا ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    مرحوم جمیل مہدی کو استاد شعرا کا بہت سا کلام گویا ازبر تھا۔ ان کے سامنے کوئی شاعر جب اپنا شعر پیش کرتا تو وہ اسی مضمون میں استاد یا کسی مقبول شاعر کے کلام سے کوئی شعر سنا دیتے اور کہتے کہ یہ بات تو آپ سے پہلے فلاں شاعر کہہ گیا ہے، اس لیے اس میں کوئی خوبی اور انفرادیت نہیں ہے۔

    اس طرح وہ شعرا کو شرمندہ کرتے اور ان کی یہ عادت بہت پختہ ہوچکی تھی۔ اکثر شاعر اپنا سے منہ لے کر رہ جاتے اور دوبارہ انھیں اپنا کلام سنانے میں بہت احتیاط کرتے۔

    یہ سلسلہ وہ نوآموز، غیر معروف اور عام شعرا تک محدود رکھتے تو ٹھیک تھا، لیکن ایک بار انھوں نے جگر صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔

    ایک محفل میں جگر مراد آبادی نے انھیں اپنا یہ شعر سنایا۔

    آ جاؤ کہ اب خلوتِ غم خلوتِ غم ہے
    اب دل کے دھڑکنے کی بھی آواز نہیں ہے

    جمیل مہدی صاحب نے حاضرین کی پروا کیے بغیر جگر صاحب کو ٹوک دیا اور یہ شعر سنایا۔

    ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
    اب تو آ جا، اب تو خلوت ہو گئی

    شعر سنا کر جگر صاحب سے مخاطب ہو کر بولے، حضرت آپ سے بہت پہلے خواجہ عزیز الحسن مجذوب یہی بات نہایت خوبی اور نزاکت سے کہہ چکے ہیں۔

  • وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    ایک صراف نے عباسی فرماں روا منصور کو عرضی بھیجی کہ میں غریب بندہ ہوں، تھوڑی سی پونجی ایک صندوقچے میں رکھی تھی، وہ چوری ہوگئی۔ اب کوڑی کوڑی کو محتاج ہوں۔

    منصور نے صراف کو خلوت میں طلب کر کے دریافت کیا کہ تمھارے گھر میں کون کون رہتا ہے؟

    جواب ملا کہ بیوی کے سوا کوئی نہیں ہے۔

    بادشاہ نے پوچھا، بیوی جوان ہے یا معمر؟

    صراف نے جواب دیا، وہ جوان ہے۔

    خلیفہ منصور نے صراف کو جانے کی اجازت دے دی اور چلتے وقت اسے ایک نایاب عطر کی شیشی عطا کی۔ یہ عطر خلیفہ کے سوا بغداد بھر میں کسی کے پاس نہیں تھا۔

    خلیفہ کے حکم سے شہر کی فصیل کے پہرے داروں کو وہی عطر سنگھوا دیا گیا کہ ایسی خوش بُو کسی شخص کے پاس سے آئے تو اسے گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔

    چند روز بعد سپاہی ایک نوجوان کو پکڑ کر لائے۔ اس کے پاس سے مخصوص عطر کی خوش بُو آرہی تھی۔ خلیفہ منصور نے اس سے دریافت کیا کہ یہ عطر تجھے کہاں سے دست یاب ہوا؟ نوجوان خاموش رہا۔

    خلیفہ نے کہا، جان کی امان چاہتا ہے تو وہ صندوقچہ واپس کر دے جو تجھے صراف کی بیوی نے دیا ہے؟ اس شخص نے چپ چاپ صندوقچہ لاکر پیش کر دیا اور معافی چاہی۔

    بادشاہ نے صراف کو بلا کر صندوقچہ دیا اور سمجھایا کہ بیوی کو طلاق دے دو، وہ تمھاری وفادار نہیں ہے۔

    سید مصطفٰے علی بریلوی