Tag: مشہور ولن

  • فلموں کے وہ ولن جن کے سامنے ہیرو بھی ماند پڑ گئے

    فلموں کے وہ ولن جن کے سامنے ہیرو بھی ماند پڑ گئے

    کیا برصغیر پاک و ہند میں‌ ماضی میں‌ اور آج بھی ہیرو اور ہیروئن کے بغیر کوئی تفریحی اور رومانوی فلم مکمل قرار دی جاسکتی ہے اور فلم بین اسے دیکھنا پسند کریں‌ گے؟ یقیناً نہیں۔ اسی طرح عام فلموں سے ولن کو بھی دور نہیں رکھا جاسکتا۔

    ہمارے یہاں زیادہ تر ولن محبّت کے راستے میں دیوار بن جاتا ہے یا پھر اسے خیر، نیکی اور امن کا دشمن دکھایا جاتا ہے۔ ہالی وڈ میں بھی خیر اور شر کے درمیان لڑائی میں ولن کے کردار کو نمایاں کیا جاتا ہے، لیکن منفی کرداروں کو اپنی بہترین پرفارمنس سے یادگار بنا دینا اور ہیرو کے مقابلے میں فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کسی بھی فلمی صنعت میں منفی نوعیت کے اس کردار کو نبھاتے ہوئے اپنی بہترین اداکاری سے فلم بینوں کو متاثر کرنے اور اپنی پرفارمنس کو یادگار بنا دینے والے چند فن کاروں کا یہ تذکرہ آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ شاید آپ نے بھی وہ فلمیں‌ دیکھی ہوں جن میں ان فن کاروں نے ولن کے کردار کو یادگار بنا دیا۔

    آغاز کرتے ہیں بیٹ مین: دی ڈارک نائٹ سے جو 2008ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ‘جوکر’ کا منفی کردار آنجہانی ہیتھ لیجر نے نبھایا تھا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اسی برس اداکار کی موت واقع ہوگئی تھی۔ تاہم یہ ہیتھ لیجر کا وہ کردار تھا جو ان کی بہترین اداکاری کی بدولت امر ہوگیا۔ ناقدین نے یہاں تک کہا ہے کہ فلم کا ہیرو یعنی بیٹ مین بھی ولن یعنی جوکر کے سامنے دھندلا گیا۔ فلم ’دا ڈارک نائٹ، کے لیے ہیتھ لیجر کو بعد از مرگ معاون اداکار کا ایوارڈ دیا گیا۔

    ہیری پورٹر کی بات ہو تو اس مشہورِ زمانہ سیریز کے مرکزی کردار تو تین بچّے تھے جن کی مہم جوئی اور مقصد میں کام یابی کے لیے فلم بین جذباتی نظر آتے ہیں، مگر اس کا ولن یعنی ‘والڈی مورٹ’ بھی دیکھنے والوں کو متاثر کرنے میں‌ کام یاب رہا۔ یہ کردار بدی کا استعارہ بن گیا۔ فلم میں اپنی منفی سرگرمیوں اور برائیوں کی طاقت سے اس نے فلم بینوں کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ یہ رالف فینیس نامی برطانوی اداکار نے ادا کیا تھا۔

    ایکس مین سیریز کے ‘منیگنیٹو’ کو سپر ولنز کی فہرست میں رکھا جاتا ہے جسے آئن میکلین نے بہت خوبی سے نبھایا۔ وہ ایک بُرے اور منفی سوچ کے حامل پروفیسر کے روپ میں نظر آئے۔ اس کردار کو ہالی وڈ کے بہترین بُرے کرداروں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

    بیٹ مین: دی ڈارک نائٹ رائزز کو سال 2012 میں ریلیز ہونے والی کلاسیک فلم کا درجہ حاصل ہوا۔ اس فلم میں ولن ‘بین’ ہیرو پر بھی غالب نظر آتا ہے۔ اس کردار کو ٹام ہارڈی نے اس کمال مہارت سے نبھایا کہ لوگ داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ ایک سفاک اور نہایت بے رحم شخص کا کردار تھا جس کی پرفارمنس نے مرکزی کردار کو بھی کچھ پیچھے دھکیل دیا۔

    فلم تھور تو آپ نے بھی دیکھی ہوگی۔ یہ ایک کام یاب فلم تھی جس میں ہیرو سے حسد کرنے والے اس کے بھائی ‘لوکی’ نے شان دار پرفارمنس سے فلم بینوں کو متاثر کیا۔ یہ کردار اداکار ٹام ہیڈلسن نے ادا کیا تھا۔

    عالمی سنیما کے ان چند بہترین ولن کا تذکرہ کرنے کے بعد اگر ہم بولی وڈ کی طرف دیکھیں تو دہائیوں قبل بننے والی متعدد فلموں کے کچھ ولن ایسے ہیں جن کے مکالمے آج تک لوگوں کی زبان پر ہیں۔

    شعلے وہ فلم تھی جس کا خوب چرچا ہوا۔ اسے فلم انڈسٹری کی تاریخ میں ‘گبر سنگھ’ کے کردار کی بدولت جو کام یابی ملی، اس کی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔ آج تک گبر سنگھ کو بولی وڈ کا سب سے بڑا ولن قرار دیا جاتا ہے، اور یہ کردار امجد خان نے نبھایا تھا۔ وہ ایک ڈاکو کے روپ میں اس فلم کی بلاک بسٹر کام یابی میں سب سے اہم ثابت ہوئے اور آج بھی ان کے مکالمے لوگوں کو یاد ہیں۔

    مسٹر انڈیا ایک کام یاب فلم تھی جس میں امریش پوری کا یہ تکیۂ کلام "موگیمبو خوش ہوا” بھارت اور پاکستان میں‌ بھی بچّے بچّے کی زبان پر رہا۔ ان کا خاص لباس اور انداز دیکھنے والوں کو موگیمبو کے منفی کردار سے اس طرح‌ جوڑتا ہے کہ وہ اس زبردست ولن کو دیر تک اسکرین پر دیکھنا چاہتے تھے۔

    مدر انڈیا سماجی نوعیت کی ایسی فلم تھی جس میں کنہیا لال نے ‘سکھی لالہ’ نامی ظالم ساہوکار کا کردار ادا کیا تھا۔ اداکار سکھی لالہ نے اپنی بہترین اداکاری سے اس کردار کو یادگار بنا دیا۔ اسے سماجی نوعیت کے حساس اور سلگتے ہوئے مسائل پر ایک بہترین فلم کہا جاتا ہے۔

  • بالی وڈ کے مشہور اداکار پران کو ’’ولن آف دی ملینیئم‘‘ بھی کہا جاتا ہے

    بالی وڈ کے مشہور اداکار پران کو ’’ولن آف دی ملینیئم‘‘ بھی کہا جاتا ہے

    ہندی سنیما کے اداکار پران کو ’’ولن آف دی ملینیئم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کا شمار بالی وڈ کے منجھے ہوئے اداکاروں میں ہوتا ہے۔ پران فلموں میں اپنے منفی کرداروں کو اس خوبی سے نبھاتے کہ سنیما بین اُن سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جاتے۔

    بالی وڈ کے اس مشہور ولن اور معاون اداکار نے 12 جولائی 2013ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ وفات کے وقت ان کی عمر 93 برس تھی۔

    پران کرشن سِکند پرانی دہلی کے محلّہ بلی ماراں میں پیدا ہوئے تھے۔ پران نے تقسیمِ ہند سے قبل لاہور میں فلمیں کیں اور بعد میں ممبٔی چلے گئے تھے۔

    پران نے اپنے فلمی کیريئر کی شروعات ایک ہیرو کے طور پر کی۔ ان کی پہلی فلم ’جٹ یملا‘ سن 1940 میں ریلیز ہوئی، لیکن بعد کے برسوں میں وہ اپنی شکل و صورت، چال ڈھال اور دیکھنے کے انداز کی وجہ سے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو ولن کے لیے زیادہ بہتر لگے اور یوں ان کے کیریئر کا آغاز مختلف انداز سے ہوا۔

    نصف صدی پر مشتمل اپنے کیریئر کے دوران پران نے لگ بھگ چار سو فلموں میں اداکاری کی اور ہندی سنیما میں صفِ اوّل کے ولن کہلائے۔

    پران نے منفی مزاحیہ کردار بھی نبھائے اور ولن کے کیریکٹر کو ایک الگ پہچان دی۔

    ضدی، بڑی بہن، میرے محبوب، زنجیر، اپكار کے علاوہ وہ کئی سپر ہٹ فلموں میں منفی کردار نبھاتے نظر آئے اور اپنے وقت کے سپراسٹارز کے ساتھ کام کیا۔ پران نے اپنے زمانۂ عروج میں مشہور ترین فلم ڈان، امر اکبر انتھونی اور شرابی میں کردار ادا کیے تھے۔

    پران کی آواز سب سے مختلف تھی اور ان کے ڈائیلاگ بولنے کا انداز بھی جداگانہ۔ انھوں نے ایک مار دھاڑ کرنے والے، بدمعاش، چور اچکے اور قاتل سے لے کر نیک یا رحم دل انسان کے کردار بھی نبھائے جنھیں شائقین نے بہت پسند کیا۔

  • یومِ وفات: پاکستانی فلموں کے مقبول ‘ولن’ ساون کے عروج اور زوال کی کہانی

    یومِ وفات: پاکستانی فلموں کے مقبول ‘ولن’ ساون کے عروج اور زوال کی کہانی

    60 اور 70 کے عشرے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ساون کا نام ایک بہترین اداکار اور مقبول ولن کے طور پر لیا جاتا تھا جنھوں نے کئی کام یاب فلمیں کیں۔ ساون 6 جولائی 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ساون کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ وہ اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں‌ برٹش آرمی میں‌ بھرتی ہوئے اور فوج سے فارغ ہونے کے بعد کر روزی کمانے کے لیے تانگہ چلانا شروع کر دیا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور انھیں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونے کا موقع مل گیا۔

    ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے تھے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بالوں بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ کہتے ہیں کہ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون اپنے طرزِ زندگی سے مطمئن نہیں تھے۔ انھوں نے 1950ء میں کراچی جانے کا فیصلہ کیا جہاں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے کام، مزدوری بھی شروع کردی۔ ان کا مقصد پیسے کمانا تھا۔ اسی عرصے میں شہر کے ایک سنیما کے عملے سے ان کی دوستی ہوگئی۔ ان لوگوں نے ساون کو فلموں میں کام کرنے کا مشورہ دیا۔ ساون نے فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگانے شروع کر دیے اور آخر کار فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ایک کردار حاصل کرنے میں‌ کام یاب ہوگئے۔

    فلمی دنیا میں‌ قدم رکھنے والے ظفر احمد بٹ کو ساون کا نام دیا گیا۔ اسی زمانے میں کسی نے لاہور جاکر قسمت آزمانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہ اپنی گرج دار آواز اور ڈیل ڈول کی وجہ سے پنجابی فلموں میں زیادہ کام یاب ہو سکتے ہیں۔ ساون لاہور چلے گئے اور آغا حسینی کی فلم ’’سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار دے دیا گیا۔ ’’سولہ آنے‘‘ کے بعد وہ فلم ’’سورج مکھی‘‘ میں کاسٹ کر لیے گئے اور اس فلم نے انھیں مقبول اداکار بنا دیا۔

    ساون نے کئی پنجابی فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے جن میں ’’بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں ’’شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ کے نام سرفہرست ہیں۔

    ساون نے مقبولیت اور کام یابی کا زینہ طے کرتے ہوئے فلم سازوں سے بھاری معاوضے کا مطالبہ شروع کردیا تھا جس نے انھیں عروج سے زوال کی طرف دھکیل دیا۔ وہ خود کہنے لگے تھے کہ "میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھ رہا تھا۔” کئی کام یاب فلمیں کرنے کے بعد ساون کو فلموں میں اہم کرداروں کی آفر کا سلسلہ بند ہوتا چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ادوار میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر تک محدود ہوگئے تھے۔