Tag: مشہور پاکستانی اداکار

  • فلمی ہدایت کار جس نے ہجوم میں "ستارہ” دیکھا

    فلمی ہدایت کار جس نے ہجوم میں "ستارہ” دیکھا

    آپ نے فلم نگری سے جڑے کئی واقعات پڑھے اور سنے ہوں گے جو حیران کُن اور دل چسپ بھی ہیں۔ ان میں‌ سے کچھ افسردہ کر دینے والے اور بعض قصّے تو نہایت الم ناک ہیں۔

    کہیں‌ کسی اداکار نے اپنی فلموں‌ کی ناکامی پر خودکشی کی تو کسی مشہور فلمی جوڑی نے حقیقی زندگی میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، لیکن جلد ہی ان کے پرستاروں تک خبر پہنچی کہ ازدواجی زندگی کی تلخیوں کے بعد ان فن کاروں نے اپنے راستے جدا کر لیے ہیں۔

    پاک و ہند کی فلمی صنعت کے کئی نام ور اور مقبول اداکار ایسے بھی ہیں‌ جن کے بارے میں‌ آپ نے سنا ہو گاکہ وہ زندگی میں‌ کچھ اور بننا چاہتے تھے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یوں وہ بڑے پردے کے بڑے اداکار بن گئے۔

    یہاں‌ ہم ایک ایسا ہی قصّہ پیش کررہے ہیں جو اردو اور پنجابی فلموں کے نام ور اداکار مصطفیٰ قریشی کی فلم نگری میں آمد سے متعلق ہے۔

    یہ ایک دل چسپ کہانی ہے جس میں اپنے وقت کی مقبول ہیروئن اور کام یاب اداکارہ شمیم آرا کا ذکر بھی ضروری ہے۔ مشہور ہے کہ وہ اپنی ایک فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھیں جہاں ان کے مداح اور تماش بین بڑی تعداد میں‌ جمع ہوگئے۔

    انہی میں ایک نوجوان بھی شامل تھا جو اُن دنوں ریڈیو پاکستان میں کام کرتا تھا۔ جس فلم کی شوٹنگ جاری تھی، اس کے ہدایت کار رضا میر تھے جن کی اچانک نظر اس نوجوان پر پڑی۔ ان کی نظروں‌ نے نوجوان کو اس کے قد و قامت اور چہرے مہرے کے لحاظ سے اداکاری کے لیے موزوں قرار دے دیا۔

    رضا میر نے اس نوجوان کو مخاطب کیا تو اس نے بتایا کہ اس کا نام مصطفیٰ قریشی ہے اور وہ ریڈیو سے منسلک ہے۔ ہدایت کار نے یہ جاننے کے بعد اسے اپنی فلم میں کام کرنے کی پیش کش کردی۔

    شوٹنگ دیکھنے کے لیے بھیڑ میں‌ گھس آنے والے مصطفیٰ قریشی نے بالآخر ان کی آفر قبول کر لی۔ یوں انھیں مشہور فلم ‘لاکھوں میں ایک’ میں کردار نبھانے کا موقع ملا۔

    مصطفیٰ قریشی نے اس فلم میں شمیم آرا کے شوہر کا کردار ادا کیا تھا۔

  • مشہور اداکار اسماعیل شاہ کی برسی

    مشہور اداکار اسماعیل شاہ کی برسی

    29 اکتوبر 1992ء کو فلم اور ٹیلی ویژن کے مشہور اداکار اسماعیل شاہ کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا تھا۔ وہ ایک باصلاحیت فن کار تھے جو پاکستانی فلموں‌‌ میں‌ اپنے ایکشن سے بھرپور کرداروں‌ اور ڈانس کے لیے شہرت رکھتے تھے۔

    یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کے مشہور اداکار اور مقبول ہیرو رقص سے ناواقف تھے، لیکن اسماعیل شاہ کی صورت میں‌ ہدایت کاروں کو ایک نیا اور ایکشن فلموں‌ کے لیے موزوں چہرہ ہی نہیں‌ رقص کا ماہر بھی مل گیا اور یہی وجہ تھی کہ ابتدائی چند فلموں کی ریلیز کے بعد اسماعیل شاہ فلم میکروں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔

    اس اداکار نے شان دار پرفارمنس اور معیاری رقص کی بدولت جلد سنیما کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ناچے ناگن وہ فلم تھی جس نے اسماعیل شاہ کی شہرت اور مقبولیت کو بامِ عروج پر پہنچا دیا اور وہ فلم سازوں‌ اور ہدایت کاروں‌ کے لیے اہمیت اختیار کر گئے۔ فلم ناچے ناگن 1989ء میں منظرِ عام پر آئی اور ملک بھر میں اسے پزیرائی ملی۔ اس اداکار کی پہلی فلم ’’باغی قیدی‘‘ تھی، اسماعیل شاہ نے مجموعی طور پر 70 فلموں میں کام کیا جن میں اردو، پنجابی اور پشتو زبانوں‌ میں بننے والی فلمیں‌ شامل ہیں۔

    1962ء کو پشین کے ایک قصبے میں پیدا ہونے والے اسماعیل شاہ کو‌ بچپن ہی سے اداکاری کا شوق تھا۔ یہی شوق اور لگن 1975ء میں انھیں‌ پاکستان ٹیلی وژن کے کوئٹہ مرکز تک لے گئی اور بلوچی ڈراموں سے ان کے کیریئر کا آغاز ہوا۔ اسماعیل شاہ نے اردو زبان کے مشہور ڈرامہ ’’ریگ بان‘‘ اور ’’شاہین‘‘ میں بھی کردار نبھائے اور ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    لو اِن نیپال، لیڈی اسمگلر، باغی قیدی، جوشیلا دشمن، منیلا کے جانباز، کرائے کے قاتل اور وطن کے رکھوالے اسماعیل شاہ کی مشہور اور کام یاب فلمیں‌ ہیں۔

  • ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    پاکستان کی فلمی صنعت میں نیّر سلطانہ کو ملکۂ جذبات کہا جاتا ہے جنھوں نے ہیروئن سے لے کر کریکٹر ایکٹریس تک اداکاری کے جوہر دکھائے اور نام و مقام حاصل کیا۔ آج سنیما کی اس منفرد اور باکمال اداکارہ کی برسی ہے۔

    نیّر سلطانہ کا اصل نام طیبہ بانو تھا جو 1937ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ویمن کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔

    اپنے وقت کے نام ور ہدایت کار انور کمال پاشا نے لاہور میں ملاقات کے دوران انھیں فلموں‌ میں‌ کام کرنے کی پیش کش کی اور یوں وہ نیّر سلطانہ کے نام بڑے پردے پر جلوہ گر ہوئیں۔

    نیّر سلطانہ خوب صورت بھی تھیں اور فنونِ لطیفہ خاص طور پر اردو ادب میں دل چسپی رکھتی تھیں جس نے انور کمال پاشا کو بہت متاثر کیا تھا۔ اس اداکارہ کی پہلی فلم ’’قاتل‘‘ تھی اور یہ انور کمال پاشا کا پروجیکٹ تھا۔ 1955 میں نیّر سلطانہ نے ہمایوں مرزا کی فلم ’’انتخاب‘‘ میں کام کیا اور پھر اگلی چار دہائیوں‌ تک ان کا یہ سفر جاری رہا۔ 70ء کی دہائی کے آغاز میں انھیں کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے فلم نگری میں‌ کام ملا اور وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی رہیں۔ المیہ اور طربیہ کرداروں‌ کو نبھانے میں نیّر سلطانہ کا کوئی ثانی نہیں تھا اور اسی لیے انھیں ملکہ جذبات کا خطاب دیا گیا۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور میں ان کی مشہور فلموں میں ’’اولاد، ایاز، خیبر میل، پہچان، باجی، دیو داس، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ نیر سلطانہ نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں اردو میں 140 فلمیں، 49 پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی یادگار فلموں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں سہیلی، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سامنے آئیں‌ گے۔

    نیّر سلطانہ نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی۔ اس خوب صورت اور باکمال اداکارہ کو سرطان کا مرض لاحق تھا۔ 27 اکتوبر 1992ء کو نیّر سلطانہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔

  • سپر اسٹارز جنھوں‌ نے پاکستانی فلموں‌ میں‌ ڈبل کردار نبھائے

    سپر اسٹارز جنھوں‌ نے پاکستانی فلموں‌ میں‌ ڈبل کردار نبھائے

    پاکستانی فلموں کے سپراسٹارز اور مشہور فن کاروں‌ نے ڈبل رول ہی نہیں‌‌ بیک وقت تین اور چار کردار بھی نبھائے اور فلم بینوں‌ نے انھیں‌ بے حد سراہا۔ ان میں اداکار اور اداکارائیں‌ دونو‌ں ہی شامل ہیں، لیکن یہاں‌ ہم صرف اُن چند اداکاروں کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جو مختلف فلموں میں ڈبل رول ادا کر کے شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہے۔

    محمد علی کو پاکستانی فلم انڈسٹری کے سپر اسٹار کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے وقت کے اس اداکار نے کئی فلموں‌ میں‌ یادگار کردار نبھائے اور خوب شہرت حاصل کی۔ محمد علی نے فلم’’راجا جانی، آنسو بن گئے موتی‘‘ اور ’’میرا گھر میری جنت‘‘ نامی جیسی کام یاب فلموں میں‌ ڈبل کردار نبھائے اور ہر روپ میں‌ انھوں‌ نے اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کیا۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے ایک اور سپراسٹار ندیم ہیں جنھوں نے پانچ دہائیوں تک فلمی دنیا پر راج کیا۔ اداکار ندیم نے بھی متعدد فلموں میں ڈبل کردار ادا کیے اور سنیما بینوں‌ سے خوب داد وصول کی۔ فلم ’’ہم دونوں‘‘اور’’ سنگ دل‘‘ میں انھیں‌ ڈبل کردار نبھانے کا موقع ملا تو انھوں‌ نے بھی اسے غنیمت جانا اور کمال پرفارمنس دی۔ ’’جلتے سورج کے نیچے‘‘ وہ فلم تھی جس میں‌ ندیم نے دو نہیں‌ بہ یک وقت تین کردار نبھائے اور فلم بینوں کے دل جیتے۔

    چاکلیٹی ہیرو یعنی وحید مراد نے فلم ’’ہل اسٹیشن، مستانہ ماہی اور ناگ منی‘‘ میں ڈبل کردار نبھائے جنھیں‌ شائقین نے بے حد پسند کیا۔

    بات ہو بھولی بھالی صورت والے اداکار کمال کی تو جہاں فلم انڈسٹری ان کے فنِ اداکاری کی معترف ہے، وہیں پاکستانی سنیما انھیں‌ ایک ہدایت کار اور فلم ساز کے طور پر بھی یاد رکھے گا۔ سید کمال نے ’ہم دونوں‘‘ اور ’’گھر داماد‘‘ میں ڈبل کردار ادا کیے تھے۔

    مشہور اداکار شاہد نے دو یا تین نہیں‌ بیک وقت چار روپ دھارے اور شائقین کو اپنی اداکاری سے محظوظ کیا۔ اس فلم کا نام ’’بہت خُوب‘‘ تھا جس میں‌ انھیں چار مختلف کردار نبھانے کا موقع ملا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت میں مصطفیٰ قریشی اپنے مخصوص انداز اور مکالموں کی ادائیگی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں‌ نے ’’جیوا‘‘ اور ’’بارود کی چھاؤں‘‘ نامی فلموں‌ میں‌ ڈبل کردار نبھائے تھے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار منور ظریف کو ’’نمک حرام‘‘ میں ڈبل کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔

  • کیا آپ بندر روڈ والے مرزا غالب کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ بندر روڈ والے مرزا غالب کو جانتے ہیں؟

    پاکستان میں اسٹیج سے لے کر ریڈیو تک اپنی فن کاری اور صدا کاری کی صلاحیتوں کا خوبی سے اظہار کرنے کے بعد سبحانی بایونس نے ٹیلی وژن اسکرین پر اپنی پرفارمنس سے ناظرین کے دل جیتے اور نام و مقام بنایا۔ آج اس باکمال اور اپنے فن میں‌ یکتا اداکار کی برسی ہے۔

    مشہور فن کار سبحانی بایونس 31 مئی 2006 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق حیدرآباد دکن( اورنگ آباد) سے تھا جہاں انھوں نے 1924 میں آنکھ کھولی۔

    انھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد اسٹیج سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں خواجہ معین الدین جیسے عظیم ڈراما نگار کے ساتھ انھیں بھی کام کرنے کا موقع ملا اور ان کے متعدد ڈراموں میں سبحانی بایونس نے لازوال کردار ادا کیے جن میں مشہور ترین ڈراما "مرزا غالب بندر روڈ پر” تھا، اسی طرح "تعلیمِ بالغاں” میں ان کا کردار آج بھی کئی ذہنوں‌ میں‌ تازہ ہے۔

    سبحانی بایونس نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ترین ڈراموں خدا کی بستی، تاریخ و تمثیل، قصہ چہار درویش، رشتے ناتے، دو دونی پانچ، رات ریت اور ہوا، دائرے، وقت کا آسمان، با ادب باملاحظہ ہوشیار اور تنہائیاں میں بھی اپنی اداکاری سے ناظرین کو محظوظ کیا۔

    پرفارمنگ آرٹ کی دنیا میں ان کا نام آج بھی نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    سبحانی بایونس کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔