Tag: مشہور پاکستانی ادیب

  • عالمی شہرت یافتہ ماہرِ ‌تعلیم، ادیب اور محقق اشتیاق حسین قریشی کی برسی

    عالمی شہرت یافتہ ماہرِ ‌تعلیم، ادیب اور محقق اشتیاق حسین قریشی کی برسی

    آج عالمی شہرت یافتہ ماہرِ تعلیم، مؤرخ، محقق اور ڈراما نویس پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا یومِ وفات ہے۔ 22 جنوری 1981ء کو وفات پانے والے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور بانی چیئرمین مقتدرہ قومی زبان تھے۔ تعلیم و تدریس اور مختلف موضوعات پر ان کی کتب پاکستان سمیت دنیا کی مشہور جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔

    ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی 20 نومبر، 1903ء کو ضلع اٹاوہ، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ 1942ء میں سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی سے بی اے، تاریخ اور فارسی میں ایم اے کیا۔ بعدازاں اسی ادارے کے شعبہ تاریخ میں لیکچرار ہوگئے، لیکن کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کا فیصلہ کیا اور برطانیہ چلے گئے۔ انھوں نے سلطنتِ دہلی کا نظمِ حکومت کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    ہندوستان واپسی پر دہلی یونیورسٹی میں ریڈر مقرر ہوئے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر اور پھر ڈین بنے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1948ء میں کراچی آگئے۔ انھیں جامعہ کراچی کے علاوہ مہاجرین و آبادکاری کے وزیرِ مملکت اور بعد ازاں مرکزی حکومت میں وزیرِ تعلیم بنایا گیا۔ کچھ وقت کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔

    1955ء میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر ہوئے جہاں وہ 1960ء تک خدمات انجام دیں اور اسی دوران برِصغیر کی تایخ پر شہرۂ آفاق کتاب برعظیم پاک و ہند کی ملّتِ اسلامیہ تصنیف کی۔ ان کی اردو اور انگریزی کتب میں سے دو اہم کتب The Struggle for Pakistan اور The Administration of Mughal Empire بھی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اشتیاق حسین قریشی نے تین اہم تصانیف تعلیم اور تاریخ و سیاست کے موضوع پر سپردِ قلم کیں۔

    1979ء انھیں مقتدرہ قومی زبان کا بانی چیئرمین مقرر کیا گیا جہاں انھیں نے اردو زبان کی ترویج و فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کو ستارۂ پاکستان سے نوازا۔ وہ کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستانی بچوں کو کس نوع کا مواد پڑھنے کو مل رہا ہے؟

    پاکستانی بچوں کو کس نوع کا مواد پڑھنے کو مل رہا ہے؟

    یہ کہنا تو شاید صحیح نہ ہو کہ پاکستان میں بچوں کی کتابیں بہت کم تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ ادب کے نام پر پاکستانی بچوں کے ساتھ شدید بدسلوکی روا رکھی جا رہی ہے اور انہیں عموماً ایسی کتابیں پڑھنے کو مل رہی ہیں جن کے بغیر وہ زیادہ بہتر شہری بن سکتے ہیں۔

    اب یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بچوں کے ادب کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ توجہ تو بہت زیادہ دی جا رہی ہے مگر اس توجہ کا رخ سرے سے غلط ہے۔ ذرا ان دکانوں میں جا کر جھانکیے جہاں بچوں کی کتابیں پانچ پانچ، دس دس پیسے کے عوض کرایے پر دی جاتی ہیں۔ یہ دکانیں بچوں کی کتابوں سے اٹی پڑی ہیں، مگر آپ کو ان کے ناموں اور ان کے ٹائٹلوں ہی سے اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستانی بچوں کو کس نوع کا مواد پڑھنے کو مل رہا ہے۔

    یہ کتابیں عموماً جنوں بھوتوں، دیوؤں، روحوں، ڈاکوؤں اور قزاقوں سے متعلق ہوتی ہیں اور ان کے سرورق انسانی چہرے میں سے نکلے ہوئے لمبے نکیلے دانتوں، چلتے ہوئے ریوالوروں اور بہتے ہوئے خون سے آراستہ ہوتے ہیں۔

    کیا کبھی کسی نے اس نکتے پر غور فرمانے کی زحمت گوارا کی ہے کہ ایسا ادب ہم اس نسل کو پڑھنے کے لیے دے رہے ہیں جسے ربع صدی بعد پاکستان کی ترقی و تعمیر کا نگران بننا ہے۔

    ہمارے ہاں پہلے ہی جنوں، بھوتوں اور دیوؤں کی کہانیوں کی کمی نہ تھی۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ مغرب کے "کومکس” کے زیرِ اثر انسانوں نے ہی دیوؤں اور جنوں کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا اور ان کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی مار دھاڑ اور قتل و غارت کی کہانیاں لکھی جانے لگیں۔ اسی ذہنیت کا نتیجہ تھا کہ ہمارے بچوں کے ایک مقبول رسالے میں بھوپت ڈاکو کی کہانی بالاقساط شائع ہوتی رہی اور بچے اسے شوق سے پڑھتے رہے۔

    بچے غیر معمولی واقعات سے بھری ہوئی کہانیاں ہمیشہ شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں کیوں کہ اس طرح ان کی بے پناہ قوتِ تخیل کو تسکین ملتی ہے، مگر اس نوع کی کہانیاں بچوں کی نفسیات اور کردار پر جو اثر مرتب کرتی ہیں ان کے بارے میں ان مصنفینِ کرام اور ناشرینِ عظام نے شاذ ہی سوچا ہو۔

    نتیجہ یہ ہے کہ آج بازاروں میں بچوں کی جو کہانیاں دھڑا دھڑ بک رہی ہیں یا کرائے پر پڑھی جا رہی ہیں وہ ہماری نئی نسل کو ذہنی طور پر بگاڑنے کا کام تیزی سے انجام دے رہی ہیں۔ ہم حیران ہوتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کو یکایک کیا ہو گیا ہے۔ اور وہ اپنے سے پہلی نسل سے اتنی ناگوار حد تک مختلف کیوں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تفاوت کے دوسرے اسباب کے علاوہ ایک سبب یہ بھی ہے کہ دونوں نسلوں کو بچپن میں جو ادب پڑھنے کو ملتا رہا ہے وہ موضوع و مواد کے معاملے میں ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔

    حیرت ہے کہ اس صورتِ حال سے متعلق اِکا دکا بیانات نظر سے ضرور گزرتے رہتے ہیں مگر حکامِ تعلیم یا مصنفین یا ناشرین نے اجتماعی طور پر اس صورت کی اصلاح کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

    ناشرین اپنے حقوق کے لیے تو متفق ہو جاتے ہیں اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ اپنے حقوق کا تحفظ دراصل اس امر کی علامت ہے کہ ہمیں اپنی آزادی اور اس آزادی سے ملنے والی سہولتوں کا شعور حاصل ہے، چنانچہ ناشرین کو اپنے حقوق کی یقیناً حفاظت کرنی چاہیے، مگر حقوق کے علاوہ ہر آزاد شہری کے فرائض بھی تو ہوتے ہیں۔

    اب تو ناشرین میں ماشاءاللہ بڑے پڑھے لکھے اور با شعور افراد شامل ہیں، اگر وہ طے کر لیں کہ وہ بچوں کا ایسا ادب نہیں چھاپیں گے جو بچوں کی ذہنی تعمیر کی بجائے ان کی تخریب کرے اور اگر وہ ایسے ناشرین کا مقاطعہ کرنے کا فیصلہ کریں جو محض معمولی سی مالی منفعت کی خاطر پاکستان کی پوری نسل کو اور یوں بالواسطہ طور پر پاکستان کے مستقبل کو تباہ کر رہے ہیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بچوں کا جو خطرناک ادب ان دنوں شائع ہو رہا ہے اس کا کماحقہ تدارک ہو جائے گا۔

    (اردو کے معروف ادیب، افسانہ نگار، شاعر، صحافی اور مدیر احمد ندیم قاسمی کی نسلِ نو کی تعلیم و تربیت سے متعلق ایک چشم کُشا اور فکر انگیز تحریر سے اقتباس)

  • آج تاریخ کیا ہے؟

    آج تاریخ کیا ہے؟

    یہ 1957 كی بات ہے- بیسویں صدی کا مشہور مؤرخ ٹائن بی پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا- یہ تاریخ کے بارے میں کوئی سیمینار تھا-

    تقریب کے اختتام پر پاکستان کے ایک نام ور مصنف اور سرکاری ملازم ڈائری لے کر آگے بڑھے اور آٹوگراف كی درخواست كی- ٹائن بی نے قلم پکڑا، دستخط کیے، نظریں اٹھائیں اور بیورو کریٹ كی طرف دیکھ کر بولے:

    "میں ہجری تاریخ لکھنا چاہتا ہوں، کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آج ہجری تاریخ کیا ہے؟”

    سرکاری ملازم نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں-

    ٹائن بی نے ہجری تاریخ لکھی، تھوڑا سا مسکرایا اور اس كی طرف دیکھ کر کہا:

    "تھوڑی دیر پہلے یہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بڑے زور شور سے تقریریں ہورہی تھیں- وہ لوگ تاریخ کیسے بنا سکتے ہیں جنھیں اپنی تاریخ ہی یاد نہ ہو- تاریخ باتیں کرنے سے نہیں، عمل سے بنتی ہے-”

    سرکاری ملازم نے شرمندگی سے سر جھکا لیا-

    (مختار مسعود کی کتاب سے انتخاب)

  • "میں نے کون سا گالی دی ہے!”

    "میں نے کون سا گالی دی ہے!”

    غلام رسول مہرؔ نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ انھیں دنیائے ادب میں انشا پرداز، نقاد، مترجم، مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    غلام رسول مہر کا بسلسلۂ روزگار حیدر آباد دکن میں بھی چند سال قیام رہا۔ وہ جالندھر کے علاقے پھول پور کے باسی تھے اور پہلی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کی تھی۔ اکثر حیدرآباد سے اپنے اہلِ خانہ کو ملنے آبائی علاقے جاتے رہتے تھے۔

    ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین نے اس باکمال تخلیق کار اور نہایت قابل شخصیت سے متعلق ایک واقعہ اپنی کتاب "بوند بوند” میں یوں رقم کیا ہے:

    "مولانا غلام رسول مہر کیا صاحبِ علم بزرگ تھے۔ جب بھی بات کی علم ہی کی بات کی۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد نکاح ثانی فرمایا۔ مگر شاید آنے والی ان کے علمی معیار پر پوری نہیں اتری۔ کسی بات پر اسے جاہل کہہ دیا۔

    وہ نیک بی بی رو پڑی۔ تب مہر صاحب تھوڑے نرم پڑے۔ پیار سے بولے کہ مولانا میں نے کون سی گالی دی ہے کہ آپ گریہ فرمائی پر اتر آئیں۔ جاہل عربی کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہے "بے خبر”۔

  • دو باکمال اور لفظوں کا طلسم

    دو باکمال اور لفظوں کا طلسم

    زمانہ کی خاصیت طبعی ہے کہ جب نباتات پرانے ہو جاتے ہیں تو اُنھیں نکال کر پھینک دیتا ہے اور نئے پودے لگاتا ہے۔

    میر ضمیرؔ اور میر خلیقؔ کو بڑھاپے کے پلنگ پر بٹھایا، میر انیسؔ کو باپ کی جگہ منبر پر ترقی دی، ادھر سے مرزا دبیر اُن کے مقابلے کے لیے نکلے، یہ خاندانی شاعر نہ تھے، مگر ضمیرؔ کے شاگرد رشید تھے۔

    جب دونوں نوجوان میدانِ مجالس میں جولانیاں کرنے لگے تو فنِ مذکور کی ترقی کے بادل گرجتے اور برستے اُٹھے اور نئے اختراع اور ایجادوں کے مینھ برسنے لگے۔

    نوجوانوں کے کمال کو خوش اعتقاد قدر دان ملے، وہ بزرگوں کے شمار سے زیادہ اور وزن میں بہت بھاری تھے۔ کلام نے وہ قدر پیدا کی کہ اس سے زیادہ بہشت ہی میں ہو تو ہو! قدر دانی بھی فقط زبانی تعریف اور تعظیم و تکریم میں ختم نہ ہو جاتی تھی بلکہ نقد و جسن کے گراں بہا انعام تحائف اور نذرانوں کے رنگ میں پیش ہوتے تھے۔

    ان ترغیبوں کی بدولت فکروں کی پرواز اور ذہنوں کی رسائی سے اُمید زیادہ بڑھ گئی۔ دونوں با کمالوں نے ثابت کر دیا کہ حقیقی اور تحقیقی شاعر ہم ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ہر رنگ کے مضمون، ہر قسم کے خیال، ہر ایک حال کا اپنے الفاظ کے جوڑ بند سے ایسا طلسم باندھ دیتے ہیں کہ چاہیں رُلا دیں، چاہیں ہنسا دیں، چاہیں تو حیرت کی مورت بنا دیں۔

    (آزاد کی کتاب آبِ حیات سے انتخاب)