Tag: مشہور پاکستانی سیاستدان

  • فیض احمد فیض کا "عیش”

    فیض احمد فیض کا "عیش”

    ایک دفعہ فیض کراچی آئے۔ عطا صاحب نے ان کی اور راشد کی ایکسیلیئر ہوٹل میں دعوت کی جہاں ان دنوں ایک مصری بیلی ڈانسر پرنسس امینہ کا فلور شو ہو رہا تھا۔

    ایک خاص بات اس میں یہ تھی کہ ڈھول بجانے والا اس ڈانسر کا شوہر تھا جو کسی انگریز لارڈ کا چھوٹا بیٹا تھا۔ اس دعوت میں فیض، راشد اور دونوں کے کالج کے ساتھی سیّد رشید احمد، غلام عبّاس اور راقم الحروف شامل تھے۔

    ہم لوگ جب وقت مقررہ پر ہوٹل کی سب سے اوپر والی منزل پر واقع ہال میں پہنچے تو دیکھا کہ عطا صاحب کے تعلقات کی بنا پر ہوٹل والوں نے واقعی بڑا اہتمام کر رکھا ہے۔ مینجر نے خود ہمارا استقبال کیا اور ہمیں اسٹیج کے قریب والی ان دو میزوں میں سے ایک پر بٹھا دیا جن پر نہایت بڑھیا قسم کے مشروبات مع لوازمات بڑے سلیقے سے آراستہ تھے۔ فلور شو میں ابھی دیر تھی۔

    آخر جب اس کا وقت قریب آنے لگا تو فیصلہ ہوا کہ اس سے پہلے کھانا کھا لیا جائے۔ ہم لوگ ابھی کھانا کھا ہی رہے تھے کہ فلور شو کی تیاری میں ہال کی رنگین بتّیاں جلنے بجھنے لگیں اور اس کے ساتھ ہی ہوٹل کے منیجر کچھ اور مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے انہیں ہماری میز کے ساتھ والی میز پر لے آئے۔

    ان مہمانوں میں اس زمانے کے وفاقی وزیر ذوالفقار علی بھٹو صاحب بھی تھے۔ انہوں نے فیض صاحب کو دیکھتے ہی کسی قدر استعجاب اور بڑی بے تکلّفی کے لہجے میں پوچھا: ”Faiz, what are you doing here“ فیض صاحب نے سَر اٹھا کر ایک نظر ان پر ڈالی، پھر چھری کانٹا سنبھال کر اپنی پلیٹ پر جھک گئے اور بڑی بے پروائی سے جواب دیا: ”عیش۔“

    یہ لفظ انہوں نے ہر ہر حرف کی آواز کو اُبھارتے ہوئے کچھ اس اندازسے ادا کیا کہ جیسے ان کا نطق ان کی زبان کے بوسے لے رہا ہو۔ ہم سب فیض صاحب کے اس جواب سے محظوظ ہوئے مگر راشد صاحب سب سے زیادہ۔

    وہ بعد میں بھی بڑا لُطف لے لے کر اس کی داد دیتے رہے۔ یہاں تک کہ اسے سکندر اور دیو جانس کلبی کے اس مشہور مکالمے سے جا بھڑایا کہ جس میں سکندر کے اس سوال پر کہ اسے کیا چاہیے؟ بوریے پر بیٹھے ہوئے دیو جانس کلبی نے صرف اتنا کہا تھا کہ ”ذرا ایک طرف کو ہٹ جائو اور دھوپ مت روکو۔“

    (ڈاکٹر آفتاب احمد کی یادداشتوں سے انتخاب)

  • بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی برسی

    بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی برسی

    نوابزادہ نصراللہ خان کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’’بابائے جمہوریت‘‘ کے نام سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ نام ور سیاست دان نوابزادہ نصراللہ خان 27 ستمبر 2003 وفات پاگئے تھے اور آج ان کی برسی ہے۔ مجلسِ احرار سے اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے نوابزادہ نصراللہ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے اور پاکستان میں مختلف سیاسی ادوار میں جمہوریت کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

    نوابزادہ نصراللہ خان 1918 میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1933 میں عملی سیاست میں حصّہ لینا شروع کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1950 میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انھوں نے حسین شہید سہروردی کے ساتھ عوامی لیگ کی بنیاد رکھی اور بعد میں پاکستان جمہوری پارٹی کے نام سے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت قائم کی۔

    1964 میں نوابزادہ نصراللہ خان نے کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا اور اسی سال منعقدہ صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار نام زد کیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان متعدد سیاسی تحاریک کے ساتھ جمہوری پارٹیوں، مختلف سیاسی گروہوں اور بااثر قبائلی شخصیات پر مشتمل اتحاد کے قیام میں متحرک اور فعال رہے جن میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ، جمہوری مجلس عمل، یو ڈی ایف، پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی، آل پارٹیز کانفرنس، این ڈی اے اور اے آر ڈی کے نام شامل ہیں۔ انھیں خان گڑھ میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔