Tag: مشہور پاکستانی فلمیں

  • وہ پاکستانی فلمیں‌ جو یادگار ثابت ہوئیں

    وہ پاکستانی فلمیں‌ جو یادگار ثابت ہوئیں

    پاکستانی فلمی صنعت کے زوال اور اس کے اسباب پر تو ہم اخباری کالم اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں بہت کچھ سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں، لیکن یہاں ہم اُن فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جنھیں زبردست کام یابی ملی اور وہ لالی وڈ کی یادگار فلمیں‌ ثابت ہوئیں۔

    قیام پاکستان کے بعد یہاں نئی فلمی صنعت میں قدم رکھنے والوں میں کئی بڑے اداکار اور منجھے ہوئے فلم ساز شامل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے متحدہ ہندوستان کے زمانے میں کلکتہ اور بمبئی کے فلمی مراکز میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا اظہار کرکے نام و مقام پایا تھا۔ اس چمکتی دمکتی دنیا میں کئی نئے چہرے اور وہ فن کار بھی شامل ہوتے گئے جنھوں نے ہدایت کاری، فوٹو گرافی اور موسیقی جیسے شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ اس وقت بڑی تعداد میں اردو، پنجابی اور پشتو فلموں میں کام کرنے والوں نے اپنے فن و کمال کا جادو جگایا اور لالی وڈ کی فلمیں یادگار ثابت ہوئیں۔

    آغاز کرتے ہیں فلم کوئل سے جس کے لیے سحر انگیز موسیقی خواجہ خورشید انور نے ترتیب دی تھی اور میڈم نور جہاں نے ناقابل فراموش گلوکاری اور اداکاری سے اسے کام یاب بنا دیا۔ اس فلم میں نور جہاں کے علاوہ اسلم پرویز، علاﺅالدین، نذر اور نیلو نے بھی بہترین اداکاری سے فلم بینوں کو متاثر کیا۔ یہ لولی وڈ کی وہ فلم تھی جس کے مکالمے نہایت جاندار اور اسکرپٹ مضبوط تھا۔ فلمی ناقدین کوئل کو لالی وڈ کی بہترین فلم قرار دیتے ہیں۔

    1956ء میں فلم انتظار ریلیز ہوئی اور یہ ایک شاہکار فلم ثابت ہوئی۔ اسے فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور فلم کی زبردست کام یابی کی ایک وجہ اس کے نغمات اور موسیقی بھی تھی۔ فلم کی موسیقی خواجہ خورشید انور نے ترتیب دی تھی جب کہ گیت قتیل شفائی نے لکھے تھے۔ فلم کے ہدایت کار مسعود پرویز تھے۔ اس فلم نے گولڈن جوبلی مکمل کی تھی۔ اداکاروں میں نور جہاں، سنتوش کمار، آشا پوسلے اور غلام محمد شامل تھے اور ان کی بے مثال اداکاری نے شائقین کے دل موہ لیے۔ اس فلم میں سنتوش کمار نے ڈبل رول نبھایا تھا۔ اوپر ہم نے فلم کوئل کی کام یابی کا ذکر کیا تھا، اور اس کے بعد فلم انتظار نے بھی زبردست بزنس کیا۔

    1965ء کی ایک فلم بنام لاکھوں میں ایک کو لالی وڈ کی کلاسیک فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ تقسیمِ ہند کے پس منظر میں ایک مسلمان نوجوان اور ہندو لڑکی کے عشق کی داستان پر مبنی فلم ہے جسے شائقینِ سنیما نے بے حد سراہا۔ اس فلم کے ہدایت کار رضا میر تھے جب کہ فلمی گیتوں کے خالق فیاض ہاشمی تھے اور ان کے خوب صورت گیتوں کی دھنیں نثار بزمی نے ترتیب دی تھیں۔ فلم کے گیت میڈم نور جہاں، مہدی حسن اور مجیب عالم کی آواز میں آج بھی سننے والوں میں مقبول ہیں۔ ایک گیت جو آپ کو بھی یاد ہو، میڈم نور جہاں کی آواز میں گویا امر ہوگیا۔ اس کے بول ہیں، ”چلواچھا ہوا تم بھول گئے۔“ اس کے علاوہ ایک گیت بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پیا بھی ہر زبان پر تھا۔ بطور ولن مصطفیٰ قریشی نے اسی فلم سے اپنا کیریئر شروع کیا تھا۔ ان کے علاوہ فلم میں شمیم آرا، اعجاز اور طالش نے لاجواب اداکاری کی۔
    1966ء میں فلم ارمان ریلیز ہوئی جو پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم ہے۔ فلم ساز وحید مراد اور ہدایت کار پرویز ملک کی اس کاوش نے ملک گیر مقبولیت ملی۔ فلم کے گیت شاعر مسرور انور نے لکھے اور موسیقی سہیل رانا نے دی تھی۔ اداکارہ زیبا، وحید مراد اور نرالا نے فلم میں عمدہ اداکاری کی اور فلم بینوں کے دل جیت لیے۔ یہ ایک رومانوی فلم تھی جس میں وحید مراد اور اداکارہ زیبا کی جوڑی کو بہت پسند کیا گیا۔ ارمان کو لالی وڈ کی بہترین فلموں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔
    آئینہ وہ فلم تھی جس کی کہانی، مکالمے، فوٹو گرافی، گیت اور ان کی موسیقی سبھی بہترین تھے اور اسے نذر الاسلام نے اپنی ہدایت کاری سے یادگار بنا دیا۔ اس فلم کی موسیقی روبن گھوش نے ترتیب دی تھی اور فلمی ناقدین کی نظر میں اس کی کام یابی میں موسیقی کا بڑا دخل تھا۔ آئینہ کے اداکاروں میں شبنم، ندیم شامل تھے جن کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔ اسی فلم کا ایک گیت اس دور کے نوجوانوں اور بعد میں آنے والوں میں یکساں مقبول ہے جس کے بول ہیں، ”روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناﺅں پیا۔“ گلوکارہ نیرہ نور کی آواز میں اس گیت نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔
    آزادیٔ فلسطین کے موضوع پر فلم زرقا کو ریاض شاہد کی شاہکار فلم تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ فلم 1969ء میں ریلیز ہوئی تھی اور اس کے گیت شاعرِ‌ عوام حبیب جالب نے لکھے تھے۔ فلم کے موسیقار رشید عطرے تھے۔ ریاض شاہد نے فلم کا اسکرپٹ اور مکالمے تحریر کیے جو ان کے فن و تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین اظہار تھا۔ اداکار طالش کے علاوہ نیلو، اعجاز، ساقی نے بھی شان دار اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ یہ لالی وڈ کی ایک ناقابلِ فراموش فلم ہے۔

    (پاکستان کی فلمی صنعت اور فن کار سے ماخوذ)

  • باکس آفس پر ناکام، مگر قابلِ‌ ذکر فلم "دھماکہ” کی خاص بات کیا تھی؟

    باکس آفس پر ناکام، مگر قابلِ‌ ذکر فلم "دھماکہ” کی خاص بات کیا تھی؟

    جاوید اقبال فلم دھماکہ کی بدولت پہلی بار بڑی اسکرین پر جلوہ گر ہوئے تھے۔ ان کی یہ فلم باکس آفس پر بری طرح پٹ گئی، لیکن بعد کے برسوں میں انھوں نے فلم نگری اور ٹیلی ویژن پر جاوید شیخ کے نام سے خوب شہرت اور کام یابیاں حاصل کیں۔

    فلم دھماکہ 1974ء میں آج ہی کے دن ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم نے شائقین کو تو بہت مایوس کیا، لیکن یہ متعدد حوالوں سے قابلِ ذکر اور یادگار بھی تھی۔ کراچی کے سنیما گھروں میں فلم دھماکہ 25 ہفتے ہی مکمل کرسکی تھی۔

    خاص بات یہ تھی کہ فلم کی کہانی اردو کے مقبول ناول نگار ابنِ صفی کی ’’عمران سیریز‘‘ کے ایک ناول ’’بے باکوں کی تلاش‘‘ پر مبنی تھی۔ ابنِ صفی ناول نگار ہی نہیں شاعر بھی تھے۔ اس فلم کے نغمات انھوں نے اور سرور بارہ بنکوی نے لکھے تھے۔ باکس آفس پر ناکام ہونے والی اس فلم میں شیکسپیئر کی ایک نظم اور خدائے سخن میر تقی میر کی ایک غزل کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

    اس زمانے کے مشہور و معروف اداکار رحمٰن، لہری، اداکارہ شبنم، تمنا، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی معروف آرٹسٹ عرشِ منیر کے علاوہ فلم ساز نے بھی اس میں ایک رول ادا کیا تھا۔ اس کے فلم ساز محمد حسین تالپور اور ہدایت کار قمر زیدی تھے۔ موسیقی لال محمد اقبال نے ترتیب دی تھی۔

    جاوید اقبال (جاوید شیخ) نے اس فلم میں ظفرُ الملک کا اور فلم ساز المعروف مولانا ہیپی نے جیمسن کا کردار ادا کیا تھا۔

    ابنِ صفی کے ناولوں کا مشہور کردار علی عمران تو فلم میں‌ پردے پر ظاہر نہیں‌ ہوا، البتہ اس مصنّف اور نغمہ نگار کی ریکارڈ کردہ آواز کو فلمی منظر میں علی عمران کی آواز کے طور پر شامل کیا گیا۔ یوں ناول کا یہ مقبول کیریکٹر آواز کی حد تک فلم میں شامل تھا۔

    اداکار رحمٰن نے اس فلم میں ولن کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم دھماکہ کی بدولت ابنِ صفی کی غزل ’’راہِ طلب میں کون کسی کا، اپنے بھی بیگانے ہیں‘‘ بے حد مقبول ہوئی۔ یہ غزل حبیب ولی محمد کی آواز میں‌ فلم میں شامل تھی۔ معروف گلوکارہ شہناز بیگم اور رونا لیلیٰ کی آواز میں بھی فلم کے گیت ریکارڈ کیے گئے تھے۔

    فلم کے پوسٹر اور اشتہارات میں شائقین کو متوجہ کرنے کے لیے لکھا گیا تھا کہ فلم کی کہانی ایشیا کے سب سے بڑے جاسوسی ناول نگار کی تحریر کردہ ہے۔

  • پاکستانی فلم "چراغ جلتا رہا” یادگار کیوں؟

    پاکستانی فلم "چراغ جلتا رہا” یادگار کیوں؟

    ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں فلم انڈسٹری کی رونقیں عروج پر تھیں اور سنیما ایک مقبول تفریحی میڈیم تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں فلم سازی کا آغاز ہوا تو انڈسٹری میں آرٹسٹوں کی بڑی تعداد سامنے آئی جنھوں نے مختلف شعبہ جات میں اپنے فن اور صلاحیتوں کا اظہار کیا اور لازوال شہرت اور نام و مقام حاصل کیا۔ ان میں کئی اداکار ایسے تھے جن کی پہلی ہی فلم نے انھیں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور وہ دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر راج کرتے رہے۔

    یہاں ہم بات کررہے ہیں ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کی جو اس لحاظ سے یادگار فلم تھی کہ اس سے پاکستان کے چار باکمال اداکاروں محمد علی، زیبا، دیبا اور کمال ایرانی نے اپنے کیریر کا آغاز کیا تھا۔

    یہ فلم 9 مارچ 1962ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ "چراغ جلتا رہا” کے فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی نگار جناب فضل احمد کریم فضلی تھے۔ اس کی موسیقی نہال عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی تھی جب کہ میر تقی میر، مرزا غالب کے علاوہ جگر مراد آبادی، ماہر القادری جیسے شعرا کا کلام شامل تھا جب کہ فضل احمد کریم فضلی نے بھی اس فلم کے لیے گیت تحریر کیے تھے۔

    اس لحاظ سے بھی یہ فلم یادگار ہے کہ اس کی اوّلین نمائش کراچی کے نشاط سنیما میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کی تھی۔ فلم کے دو نغمات مشہور بھارتی گلوکار طلعت محمود کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوئے تھے۔

    فضل احمد کریم فضلی کی اس فلم محمد علی کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا اور ان کے ساتھ زیبا بھی پہلی بار بڑے پردے پر نمودار ہوئیں جو بعد میں لیجنڈ اداکار محمد علی کی جیون ساتھی بنیں۔ یہی نہیں‌ بلکہ ریڈیو پاکستان کے نوجوان صدا کار طلعت حسین بھی اسی فلم میں پہلی بار بطور اداکار شائقین کے سامنے آئے۔ اسی طرح دیگر فن کار بھی جو پہلی بار اس فلم کے ذریعے بڑے پردے پر متعارف ہوئے، نام و مقام بنانے میں‌ کام یاب رہے اور محمد علی، زیبا دہائیوں تک پاکستانی سنیما پر چھائے رہے اور شائقین کے دلوں پر راج کیا۔

    یہ بھی بتاتے چلیں کہ انڈسٹری کو‌ چار فلمی ستارے اور باکمال اداکار دینے والی ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کے ہیرو عارف اس فلم کے بعد کبھی بڑے پردے پر نظر نہیں‌ آئے۔

  • "سہیلی” جس نے مشہور اداکارہ شمیم آرا کو احتجاج پر مجبور کردیا

    "سہیلی” جس نے مشہور اداکارہ شمیم آرا کو احتجاج پر مجبور کردیا

    پاکستان میں ہر لحاظ سے کام یاب قرار دی جانے والی فلموں میں سے ایک "سہیلی” بھی ہے جو 23 دسمبر 1960ء کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    حکومتِ پاکستان نے اس سال صدارتی ایوارڈ کا اجرا کیا تھا اور اسی برس سہیلی بھی ریلیز ہوئی جس نے مختلف زمروں میں پانچ ایوارڈ اپنے نام کیے۔

    اس فلم کے پروڈیوسر ایف ایم سردار تھے، جب کہ اس کی کہانی حسرت لکھنوی نے لکھی تھی اور اس کے ہدایت کار ایس ایم یوسف تھے۔ سہیلی کی موسیقی اے حمید کی ترتیب دی ہوئی تھی اور فلم کے نغمہ نگار فیاض ہاشمی تھے۔

    سہیلی میں مرکزی کردار معروف اداکارہ شمیم آرا، نیر سلطانہ، ببّو، رخشی، درپن اور اسلم پرویز نے نبھائے تھے۔

    اس فلم کو پانچ ایوارڈز میں بہترین فلم، بہترین ہدایت کار، بہترین اداکارہ، بہترین معاون اداکار اور بہترین معاون اداکارہ کے ایوارڈز دیے گئے۔ شمیم آرا نے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ اپنے نام کیا جب کہ طالش اور نیر سلطانہ کو معاون اداکار کے ایوارڈ ملے۔

    یہ پاکستانی سنیما کی وہ یادگار فلم ثابت ہوئی جسے بعد میں چار نگار ایوارڈ بھی دیے گئے۔

    یہاں یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں‌ کہ صدارتی ایوارڈ میں شمیم آرا کو بہترین اداکارہ کا اور نیر سلطانہ کو بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ ملا تھا جب کہ نگار ایوارڈ میں نیر سلطانہ نے بہترین اداکارہ کا اور شمیم آرا بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کیا اور اسی پر ایک تنازع بھی سامنے آیا۔ اس ایوارڈ کو شمیم آرا نے احتجاجا قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

    ایس ایم یوسف کو بہترین ہدایت کار اور اداکار درپن نے بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔

  • جب لاہور ریلوے اسٹیشن کا نام "بھوانی جنکشن” رکھا گیا!

    جب لاہور ریلوے اسٹیشن کا نام "بھوانی جنکشن” رکھا گیا!

    ہندوستان پر برطانوی راج کے زمانے میں جان ماسٹرز نامی ایک انگریز فوجی افسر نے ناول نگاری میں‌ بھی نام کمایا۔ ان کے ناول "بھوانی جنکشن” کا ہندوستان میں خوب شہرہ ہوا جس کا موضوع یہ خطّہ اور یہاں‌ برطانوی راج کے خلاف اٹھنے والی آوازیں تھا۔ جان ماسٹرز کے اسی ناول پر ہالی وڈ نے فلم بنائی تھی جس کے کچھ حصّوں کی عکس بندی لاہور ریلوے اسٹیشن پر کی گئی تھی۔ یہ 1955 کی بات ہے۔

    جان ماسٹرز اور ان کے ناول کا چرچا تو ایک طرف ہالی وڈ کی فلم ساز کمپنی اور یونٹ کی لاہور آمد سے لے کر فلم کی عکس بندی تک ہر چھوٹی بڑی خبر اخبارات کی زینت بن رہی تھی اور یہ موضوع سبھی کی توجہ اور دل چسپی کا باعث تھا۔

    جب پاکستان کی فلم نگری میں یہ خبر عام ہوئی کہ ہالی وڈ کی ایک مشہور فلم ساز کمپنی یہاں آرہی ہے تو جیسے ان کی عید ہو گئی۔ دراصل فلم ساز کمپنی کو مختلف کرداروں اور تکنیکی کام کے لیے مقامی آرٹسٹوں اور انجینئروں کی مدد بھی چاہیے تھی اور یوں مقامی لوگوں کو پہلی بار ایک نام ور ادارے اور ماہر لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ لاہور کے آرٹسٹ بہت خوش نظر آرہے تھے۔

    اس فلم کا مرکزی کردار اس دور کے سپر اسٹار ایوا گارڈنر اور اسٹیورٹ گرینجر نے نبھایا تھا۔ ایوا گارڈنر اپنے حسن وجمال اور اسکینڈلز کے باعث دنیا بھر میں مشہور تھیں جب کہ اسٹیورٹ گرینجر اپنی شان دار پرفارمنس کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔

    "بھوانی جنکشن” کا پس منظر انگریز سرکار کے زمانے میں‌ بھارتی علاقوں (ہندوستان) ‌ میں کانگریس کی حکومت مخالف تحریک تھی۔ اس وقت بھوانی جنکشن کے مقام پر کانگریسی ریل کی پٹڑی پر لیٹ گئے تھے اور انگریز سرکار مشکل میں‌ تھی کہ اگر ٹرین کا پہیہ رک جائے تو یہ اس کی کم زوری کو ظاہر کرے گا اور حکومت کی سبکی ہو گی اور اگر ان لوگوں کی پروا کیے بغیر ٹرین گزار دی جائے تو سیکڑوں ہلاک ہو جائیں‌ گے اور ایک ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔

    اس فلم کی شوٹنگ کے لیے پاکستان کی حکومت نے اجازت دینے کے ساتھ فلم ساز کمپنی کو ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

    لاہور کے قلعے اور آس پاس کے مقامات کے علاوہ اہم مناظر ریلوے اسٹیشن پر فلمائے جانے تھے۔ ریلوے انتظامیہ نے لاہور اسٹیشن کے دو پلیٹ فارم شوٹنگ کے لیے مخصوص کر دیے جہاں فلم کی ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کر لی گئیں۔ وہاں عمارت کی تختیوں اور پلیٹ فارم پر لاہور کی جگہ بھوانی جنکشن لکھ دیا گیا۔

    فلم کا یونٹ لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرا تھا جو اس زمانے میں بہترین ہوٹل سمجھا جاتا تھا۔

    (علی سفیان آفاقی کی تحریر سے خوشہ چینی)

  • سپر اسٹارز جنھوں‌ نے پاکستانی فلموں‌ میں‌ ڈبل کردار نبھائے

    سپر اسٹارز جنھوں‌ نے پاکستانی فلموں‌ میں‌ ڈبل کردار نبھائے

    پاکستانی فلموں کے سپراسٹارز اور مشہور فن کاروں‌ نے ڈبل رول ہی نہیں‌‌ بیک وقت تین اور چار کردار بھی نبھائے اور فلم بینوں‌ نے انھیں‌ بے حد سراہا۔ ان میں اداکار اور اداکارائیں‌ دونو‌ں ہی شامل ہیں، لیکن یہاں‌ ہم صرف اُن چند اداکاروں کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جو مختلف فلموں میں ڈبل رول ادا کر کے شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہے۔

    محمد علی کو پاکستانی فلم انڈسٹری کے سپر اسٹار کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے وقت کے اس اداکار نے کئی فلموں‌ میں‌ یادگار کردار نبھائے اور خوب شہرت حاصل کی۔ محمد علی نے فلم’’راجا جانی، آنسو بن گئے موتی‘‘ اور ’’میرا گھر میری جنت‘‘ نامی جیسی کام یاب فلموں میں‌ ڈبل کردار نبھائے اور ہر روپ میں‌ انھوں‌ نے اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کیا۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے ایک اور سپراسٹار ندیم ہیں جنھوں نے پانچ دہائیوں تک فلمی دنیا پر راج کیا۔ اداکار ندیم نے بھی متعدد فلموں میں ڈبل کردار ادا کیے اور سنیما بینوں‌ سے خوب داد وصول کی۔ فلم ’’ہم دونوں‘‘اور’’ سنگ دل‘‘ میں انھیں‌ ڈبل کردار نبھانے کا موقع ملا تو انھوں‌ نے بھی اسے غنیمت جانا اور کمال پرفارمنس دی۔ ’’جلتے سورج کے نیچے‘‘ وہ فلم تھی جس میں‌ ندیم نے دو نہیں‌ بہ یک وقت تین کردار نبھائے اور فلم بینوں کے دل جیتے۔

    چاکلیٹی ہیرو یعنی وحید مراد نے فلم ’’ہل اسٹیشن، مستانہ ماہی اور ناگ منی‘‘ میں ڈبل کردار نبھائے جنھیں‌ شائقین نے بے حد پسند کیا۔

    بات ہو بھولی بھالی صورت والے اداکار کمال کی تو جہاں فلم انڈسٹری ان کے فنِ اداکاری کی معترف ہے، وہیں پاکستانی سنیما انھیں‌ ایک ہدایت کار اور فلم ساز کے طور پر بھی یاد رکھے گا۔ سید کمال نے ’ہم دونوں‘‘ اور ’’گھر داماد‘‘ میں ڈبل کردار ادا کیے تھے۔

    مشہور اداکار شاہد نے دو یا تین نہیں‌ بیک وقت چار روپ دھارے اور شائقین کو اپنی اداکاری سے محظوظ کیا۔ اس فلم کا نام ’’بہت خُوب‘‘ تھا جس میں‌ انھیں چار مختلف کردار نبھانے کا موقع ملا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت میں مصطفیٰ قریشی اپنے مخصوص انداز اور مکالموں کی ادائیگی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں‌ نے ’’جیوا‘‘ اور ’’بارود کی چھاؤں‘‘ نامی فلموں‌ میں‌ ڈبل کردار نبھائے تھے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار منور ظریف کو ’’نمک حرام‘‘ میں ڈبل کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔

  • ’’ڈبل کردار‘‘ نبھانے والی مشہور اداکارائیں

    ’’ڈبل کردار‘‘ نبھانے والی مشہور اداکارائیں

    پاکستانی فلموں میں اپنے وقت کی مشہور اور مقبول اداکاراؤں نے ڈبل رول نبھا کر نہ صرف سنیما کے شائقین سے داد اور ستائش سمیٹی بلکہ بڑے پردے کے ناقدین نے بھی انھیں سراہا اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔

    فلم انڈسٹری کی مشہور ہیروئنوں میں شبنم، صبیحہ خانم، شمیم آرا، رانی، زیبا بیگم اور بابرہ شریف نے متعدد فلموں‌ میں‌ ڈبل رول نبھائے اور سنیما بینوں‌ کی توجہ حاصل کی۔

    ماضی کی سپر اسٹار شبنم سے آغاز کریں‌ تو انھوں نے فلم ’’آبرو‘‘ کا ڈبل رول اس خوبی سے نبھایا کہ نہ صرف ان کے پرستاروں نے اسے پسند کیا، بلکہ فلمی ناقدین نے بھی انھیں بہت سراہا اور انھیں‌ زبردست پزیرائی ملی۔

    شمیم آرا کو پاکستان کی فلم انڈسٹری میں‌ اداکارہ ہی نہیں کام یاب ہدایت کارہ کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں‌ نے اپنے وقت کے مشہور اور نہایت باصلاحیت اداکاروں‌ کے ساتھ کام کرکے خود کو منوایا اور ان کی فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ شمیم آرا نے فلم’’ہمراز‘‘ میں ڈبل کردار نبھا کر فلم بینوں سے خوب داد سمیٹی۔

    انجمن پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک نمایاں اور قابلِ ذکر نام ہے جنھیں‌ سنیما کے شائقین نے کئی فلموں‌ میں‌ دیکھا اور ان کی پرفارمنس کو سراہا۔ اداکارہ انجمن نے فلم ’’دُلاری‘‘ میں ڈبل رول ادا کرکے شائقین سے خوب داد سمیٹی تھی۔

    پاکستانی سنیما کی مشہور اور مقبول ترین اداکارہ بابرہ شریف کی سپر ہٹ فلموں اور ان کی شان دار اداکاری نے اپنے وقت کے نام ور ہدایت کاروں اور قابلِ ذکر ناموں کو اپنا معترف اور شیدا بنا دیا تھا۔ اس اداکارہ کا اپنی ایک کام یاب فلم ’’سلاخیں‘‘ میں ڈبل کردار بہت پسند کیا گیا جب کہ مِس ہانگ کانگ، شبانہ اور بیٹی بھی وہ فلمیں تھیں جن میں بابرہ شریف نے مختلف روپ اپنائے اور عمدہ پرفارمنس سے شائقین کے دل جیتے۔

    ’’پرچھائیں‘‘ اور ’’چوری چوری‘‘ وہ فلمیں ہیں‌ جن میں زیبا بیگم نے ڈبل کردار نبھائے اور فلم نگری میں اپنی صلاحیتوں‌ کو آزماتے ہوئے شائقین کے دل جیت لیے۔

    پاکستانی فلموں کی مشہور اداکارہ اور فلم بینوں‌ میں مقبول صبیحہ خانم نے ’’پاک دامن‘‘ اور ’’مسکراہٹ ‘‘ جیسی فلموں میں دو مختلف کردار نبھا کر نہ صرف شائقین بلکہ ناقدین سے بھی داد و تحسین سمیٹی۔ صبیحہ خانم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنا جانتی تھیں۔

    فلم کی کام یابی یا ناکامی الگ بات ہے، لیکن اداکارہ رانی پاکستان کی فلم انڈسٹری کا وہ چہرہ تھا جسے مداحوں‌ نے ہر بار اور ہر روپ میں بے حد سراہا اور پسندیدگی و قبولیت کی سند بخشی۔ اس اداکارہ نے فلم ’’ناگ منی‘‘ اور ’’ایک گناہ اور سہی‘‘ میں ڈبل کردار ادا کیے تھے۔

    ماضی کی ایک اور اداکارہ ممتاز نے بھی ایک فلم میں ڈبل کردار نبھا کر خوب داد سمیٹی تھی۔ انھوں نے فلم انڈسٹری میں اپنے وقت کے سپر اسٹارز کے ساتھ کام کیا اور ’’خوشبو‘‘ وہ فلم تھی جس میں ممتاز کو ڈبل کردار نبھانے کا موقع ملا اور وہ شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب رہیں۔

  • ناظم پانی پتی: خوب صورت گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    ناظم پانی پتی: خوب صورت گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا اور چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا… جیسے خوب صورت گیتوں کے خالق ناظم پانی پتی کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

    18 جون 1998 کو پاکستان کےاس معروف فلمی گیت نگار کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا۔ وہ لاہور میں مدفون ہیں۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ 15 نومبر 1920 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے لاہور سے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کی۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام و مقام حاصل کیا۔

    وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔

    انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی گیت نگاری کی اور متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

  • سریلی اور لازوال دھنوں کے خالق امجد بوبی کی برسی

    سریلی اور لازوال دھنوں کے خالق امجد بوبی کی برسی

    فلمی موسیقاروں میں امجد بوبی کو جہاں سریلی، مدھر اور پُراثر دھنوں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے، وہیں ان کی شہرت نئے تجربات اور موسیقی میں جدت اپنانے والے تخلیق کار کی بھی ہے۔

    آج کئی لازوال دھنوں کے خالق امجد بوبی کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 15 اپریل 2005 کو ہوا تھا۔

    امجد بوبی نے 1960 کی دہائی میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی۔ تاہم اس فلم کی نمائش 1976 میں ہوئی۔

    گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آوٴ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی کام یاب فلموں نے امجد بوبی کی شہرت کا سبب بنیں۔

    نئی اور کلاسیکی دھنیں تخلیق کرنے والے امجد بوبی کا فنی سفر چالیس سال پر محیط ہے۔

    امجد بوبی ان موسیقاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ممبئی کے گلوکاروں کو متعارف کروانے کا تجربہ بھی کیا اور متعدد فلموں کے لیے ہندوستان کے گائیکوں کی آواز میں گیت ریکارڈ کروائے۔

  • جنگجو ہیرو اور شفیق انسان لالہ سدھیر کی یاد ستا رہی ہے

    جنگجو ہیرو اور شفیق انسان لالہ سدھیر کی یاد ستا رہی ہے

    لالہ سدھیر نے زندگی کی متعدد دہائیاں فلم انڈسٹری کے نام کیں اور سنیما بینوں کے دلوں پر راج کیا۔

    خاص طور پر میدانِ جنگ میں اپنے کردار کو نبھاتے ہوئے انھوں نے اپنے مداحوں کو ایسا متأثر کیا کہ جنگجو ہیرو کے نام سے مشہور ہو گئے۔

    آج اس اداکار کی 23 ویں برسی ہے۔

    پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو کی حیثیت سے نام بنانے والے سدھیر کا اصل نام شاہ زمان تھا، مگر سنیما نے انھیں سدھیر بنا دیا۔ فلم انڈسٹری میں اپنے وقت کے اس باکمال اداکار کو عزت اور احترام سے لالہ سدھیر پکارا جانے لگا۔ وہ نہایت شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے۔

    لاہور میں 1922 کو پیدا ہونے والے سدھیر نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی فلم ہچکولے میں کام کیا اور اس کے بعد فلم دوپٹہ نے انھیں شہرت دی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ نورجہاں نے کام کیا تھا۔ 1956 میں فلم ماہی منڈا اور یکے والی وہ فلمیں تھیں جنھوں نے سدھیر کی شہرت کو گویا پَر لگا دیے۔

    وہ اپنے وقت کی مشہور ایکٹریسوں نور جہاں، مسرت نذیر، صبیحہ خانم، آشا بھوسلے، لیلیٰ، زیبا، دیبا، شمیم آرا، بہار بیگم اور رانی کے ساتھ کئی فلموں میں ہیرو کے روپ میں نظر آئے اور شائقین نے انھیں پسند کیا۔

    کرتار سنگھ، بغاوت، حکومت، ڈاچی، ماں پتر، چٹان، جانی دشمن اور کئی فلمیں ان کی شہرت اور نام وری کا سبب بنیں۔

    19 جنوری 1997 کو لالہ سدھیر نے اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا۔