Tag: مشہور پاکستانی فلم ساز

  • 16 فروری 1948ء‌: پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک یادگار دن

    16 فروری 1948ء‌: پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک یادگار دن

    ایک زمانہ تھا جب کلکتہ فلم سازی کا مرکز ہوا کرتا تھا اور متحدہ ہندوستان کا ہر باکمال، ہر بڑا چھوٹا فن کار چاہے وہ اداکار ہو، موسیقار، گلوکار، شاعر یا کہانی نویس وہاں فلم نگری میں قسمت آزمانے اور کام حاصل کرنے جاتا تھا، بعد کے برسوں میں یہ فلمی صنعت ممبئی منتقل ہوگئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں لاہور تیسرا اہم فلمی مرکز بنا اور ابتدائی زمانے میں یہاں بننے والی فلموں نے ہندوستان بھر میں کام یابیاں حاصل کیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد 16 فروری 1948ء کو لاہور میں ملک کے پہلے فلم اسٹوڈیو کا افتتاح ہوا اور یوں آج کا دن پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ کا یادگار دن ثابت ہوا۔

    تقسیم سے قبل اس اسٹوڈیو کے مالک سیٹھ دل سکھ پنچولی تھے، جو تقسیم کے موقع پر فسادات کے دوران اسٹوڈیو میں‌ توڑ پھوڑ اور اسے نذرِ آتش کیے جانے کے بعد بھارت چلے گئے۔ وہ ایک فن شناس آدمی تھے۔ بھارت میں انھوں نے اپنا کام شروع کیا اور کئی فن کاروں کو اپنی فلموں میں موقع دیا، ان کی کئی فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ لاہور میں ان کے اسٹوڈیو کا انتظام ان کے منیجر دیوان سرداری لال نے سنبھال لیا۔

    پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد آنجہانی دیوان سرداری لال نے اسی پنچولی آرٹ اسٹوڈیو کے ٹوٹے پھوتے سامان اور بکھری ہوئی چیزوں کو اکٹھا کیا اور اسے دوبارہ آباد کیا۔ گنے چُنے تکنیک کاروں نے یہاں سے فلم سازی کی بنیاد رکھی اور بعد میں یہاں بننے والی کئی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ اسی بینر تلے سرداری لال کی جس فلم پر پہلے سے کام جاری تھا، وہ بھی 1948ء میں مکمل ہوگئی اور یہی فلم’تیری یاد‘ کے ٹائٹل سے ریلیز ہوئی تھی۔ اسے پاکستان کی پہلی فلم قرار دیا جاتا ہے۔

  • آغا جی اے گل کی برسی اور ایورنیو اسٹوڈیو

    آغا جی اے گل کی برسی اور ایورنیو اسٹوڈیو

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں فلمی صنعت کے قیام، فلم سازی کا آغاز، اس کی ترقی و ترویج میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں میں ایک نام آغا جی اے گل کا بھی ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    آغا جی اے گل نے لاہور میں ایورنیو اسٹوڈیو قائم کر کے فلم سازی کے شعبے کی ترقی اور سنیما کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک دور تھا جب ایورنیو اسٹوڈیوز کی رونق دیدنی تھی اور اس بینر تلے سنیما کے لیے شان دار اور قابلِ ذکر کام کیا گیا۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے معماروں اور سرپرستوں میں سے ایک آغا جی اے گل 6 ستمبر 1983 کو لندن میں وفات پاگئے تھے۔

    آغا جی اے گل کا تعلق پشاور سے تھا جہاں وہ 19 فروری 1913 کو پیدا ہوئے تھے۔ بحیثیت فلم ساز انھوں نے فلم مندری سے خود کو متعارف کروایا اور اس کے بعد سنیما کو ایورنیو پروڈکشنز کے تحت یادگار فلمیں‌ دیں جن میں دلا بھٹی، لختِ جگر، نغمۂ دل، اک تیرا سہارا، قیدی، رانی خان، راوی پار، ڈاچی، عذرا، شباب، نجمہ اور نائلہ سرِفہرست ہیں۔

    ایورنیو اسٹوڈیو کو اس زمانے میں فلم سازی کے جدید آلات اور ساز و سامان سے آراستہ کرنے والے آغا جی اے گل لاہور کے ایک قبرستان میں محوِ خوابِ ابد ہیں۔