Tag: مشہور پاکستانی ڈرامے

  • پاکستان ٹیلی ویژن کی نام وَر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کی نام وَر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی

    کئی دہائیوں تک ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والی ذہین طاہرہ 2019ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔ ان کا شمار پاکستان ٹیلی ویژن کی سینئر اور منجھی ہوئی اداکاراؤں میں‌ ہوتا ہے۔

    ذہین طاہرہ کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ انھوں نے لگ بھگ 45 برس ٹیلی ویژن پر کام کیا اور اداکاری کے فن میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ذہین طاہرہ نے ریڈیو، اسٹیج پرفارمنس کے ساتھ چند فلموں میں بھی کردار نبھائے تھے۔

    اداکارہ ذہین طاہرہ نے 700 سے زائد ڈراموں میں اداکاری کی۔ انھوں نے 1960ء میں ٹی وی پر اپنی داکاری کا آغاز کیا۔ ’خدا کی بستی‘ پی ٹی وی کا مقبول ترین ڈراما تھا جسے 1974ء میں دوبارہ اسکرین پر پیش کیا گیا اور ذہین طاہرہ نے اس میں مرکزی کردار نبھا کر شہرت حاصل کی۔

    چھوٹی اسکرین پر اداکارہ نے آنگن ٹیڑھا، خالہ خیرن، شمع، عروسہ، دیس پردیس، عجائب خانہ، ضرب تقسیم اور مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے تحت بننے والے ڈراموں میں‌ کام کیا جو نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر نشر ہوئے۔

    ڈراموں میں اپنے فن کا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ انھوں نے بڑی اسکرین پر بھی اپنی اداکاری سے شائقین کو متاثر کیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے 2013ء میں ’تمغہ امتیاز‘ سے نوازا تھا۔

  • اسٹیل تیّار کرنے والی دیہاتی عورتیں‌

    اسٹیل تیّار کرنے والی دیہاتی عورتیں‌

    دین میں ہر معاملے میں ڈسپلن سکھایا گیا ہے۔ ہمارے بابے کہتے ہیں کہ ڈسپلن چھوٹے کاموں سے شروع ہوتا ہے۔

    جب آپ معمولی کاموں کو اہمیت نہیں دیتے اور ایک لمبا منصوبہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں، اپنا ذاتی اور انفرادی، تو پھر آپ سے اگلا کام چلتا نہیں۔

    کافی عرصہ پہلے میں چین گیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب چین نیا نیا آزاد ہوا تھا۔ ہم سے وہ ایک سال بعد آزاد ہوا۔ ان سے ہماری محبتیں بڑھ رہی تھیں اور ہم ان سے ملنے چلے گئے، افریقہ اور پاکستان کے کچھ رائٹر چینی حکام سے ملے۔

    ایک گاؤں میں بہت دور پہاڑوں کی اوٹ میں کچھ عورتیں بھٹی میں دانے بھون رہی تھیں۔ دھواں نکل رہا تھا۔ میرے ساتھ شوکت صدیقی تھے۔ کہنے لگے، یہ عورتیں ہماری طرح سے ہی دانے بھون رہی ہیں۔

    جب ہم ان کے پاس پہنچے تو دو عورتیں دھڑا دھڑ پھوس، لکڑی جو کچھ ملتا تھا، بھٹی میں جھونک رہی تھیں۔ اپنے رومال باندھے کڑاہے میں کوئی لیکوڈ (مائع) سا تیار کر رہی تھیں۔ ہم نے اُن سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ہم اسٹیل بنا رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ اسٹیل کی تو بہت بڑی فیکٹری ہوتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں اور چین ابھی آزاد ہوا ہے۔ ہمارے پاس کوئی اسٹیل مِل نہیں ہے۔ ہم نے اپنے طریقے کا اسٹیل بنانے کا ایک طریقہ اختیار کیا ہے کہ کس طرح سے سندور ڈال کر لوہے کو گرم کرنا ہے۔

    یہ عورتیں صبح اپنے کام پر لگ جاتیں اور شام تک محنت اور جان ماری کے ساتھ اسٹیل کا ایک ڈلا یعنی پانچ، چھے، سات آٹھ سیر اسٹیل تیار کر لیتیں۔ ٹرک والا آتا اور ان سے آکر لے جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس اسٹیل کے بدلے لے لیتے ہیں۔

    میں اب بھی کبھی جب اس بات کو سوچتا ہوں کہ سبحان اللہ، ان کی کیا ہمّت تھی۔ ان کو کس نے ایسے بتا دیا کہ یہ کام ہم کریں گی تو ملک کی کمی پوری ہوگی۔ چھوٹا کام بہت بڑا ہوتا ہے۔ اس کو چھوڑا نہیں جا سکتا، جو کوئی اسے انفرادی یا اجتماعی طور پر چھوڑ دیتا ہے، مشکل میں پڑ جاتا ہے۔

    (معروف ادیب اور ڈراما نویس اشفاق احمد کے مضمون "چھوٹا کام” سے اقتباس)

  • ہر دل عزیز معین اختر آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوئے تھے

    ہر دل عزیز معین اختر آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوئے تھے

    ہر دل عزیز فن کار معین اختر نے آج ہی کے روز اس دنیا سے ناتا توڑا تھا، اور مداح آج ان کی نویں برسی منارہے ہیں۔

    پاکستان میں پرفارمنگ آرٹ، خاص طورپر نقالی کے فن کی بات کی جائے تو معین اختر کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس فن کو نہایت خوبی سے اپنی شناخت کا ذریعہ بناتے ہوئے معین اختر نے صدا کاری سے ادا کاری تک اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور شہرت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    معین اختر جیسے فن کار صدیوں میں‌ پیدا ہوتے ہیں۔ اسٹیج سے ریڈیو تک، ریڈیو سے ٹیلی ویژن اور پھر فلم نگری تک معین اختر نے ہزاروں روپ بدلے، سیکڑوں کردار نبھائے اور وہ سبھی لازوال اور ذہنوں پر نقش ہیں۔

    انھیں ایک ایسے ورسٹائل آرٹسٹ اور باکمال فن کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جس نے اس نگری کے ہر شعبے میں تخلیقی اور شان دار کام کیا۔ اسٹیج اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں کامیڈی کے ساتھ معین اختر نے سنجیدہ کردار بھی نبھائے۔ صدا کار، ادا کار، مختلف پروگراموں کے کام یاب میزبان، گلوکار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی معین اختر نے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔

    معین اختر کا تعلق کراچی سے تھا جہاں 24 دسمبر، 1950 کو آنکھ کھولی۔ اس بے مثال اداکار نے 2011 کو اسی شہر میں زندگی کا سفر تمام کیا۔

    معین اختر سولہ برس کے تھے جب اسٹیج پر پہلی پرفارمنس دی اور حاضرین کے دل جیت لیے۔ ٹیلی ویژن وہ میڈیم تھا جہاں قدم رکھتے ہی گویا ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 70 کی دہائی میں معین اختر پاکستان بھر میں پہچان بنا چکے تھے۔

    مزاحیہ شوز ففٹی ففٹی، لوز ٹاک، ہاف پلیٹ، اسٹوڈیو ڈھائی اور روزی جیسا ٹی وی پلے ان کی شان دار پرفارمنس کی وجہ بہت مقبول ہوا۔

    معین اختر کا فنی سفر 45 سال پر محیط ہے جسے ہر لحاظ سے شان دار اور متأثر کن کہا جاتا ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ کے اس بے تاج بادشاہ نے کئی معتبر ایوارڈز اپنے نام کیے اور انھیں سرحد پار بھی بہت پسند کیا جاتا تھا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے معین اختر کو ستارۂ امتیاز اور تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    معین اختر پاکستان کے ان آرٹسٹوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے دلوں پر راج کیا اور کبھی، کسی بھی روپ میں ان کے مداحوں کو ان کی پرفارمنس سے مایوسی نہیں ہوئی۔ معین اختر کے ساتھ فنِ نقالی اور اسٹیج پرفارمنس کا گویا ایک عہد بھی رخصت ہوگیا۔