Tag: مشہور پاکستانی گانے

  • مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    مقبول ترین فلمی گیتوں کے خالق اسد بھوپالی کی برسی

    9 جون 1990ء کو بھارتی فلمی صنعت کے مشہور نغمہ نگار اور معروف شاعر اسد بھوپالی وفات پاگئے تھے۔ اسد بھوپالی نے جہاں اپنے تحریر کردہ گیتوں سے فلم انڈسٹری میں نام و مقام بنایا، وہیں ان کے تخلیق کردہ گیت کئی فلموں کی کام یابی کا سبب بھی بنے۔

    وہ متحدہ ہندوستان کی ریاست بھوپال کے ایک گھرانے میں 10 جولائی 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔ فارسی، عربی اور انگریزی کی رسمی تعلیم حاصل کی، شروع ہی سے شاعری کا شوق رکھتے تھے اور 28 برس کی عمر میں ممبئی چلے گئے جہاں نغمہ نگار کے طور پر انڈسٹری میں قدم رکھا۔ یہ وہ دور تھا جب خمار بارہ بنکوی، جاں نثار اختر، راجندر کرشن اور پریم دھون جیسے گیت نگاروں کا بڑا زور تھا اور ان کے علاوہ مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، حسرت جے پوری بھی اپنے فن اور قسمت کو آزما رہے تھے، لیکن اسد بھوپالی ان کے درمیان جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھوپال کے پہلے شاعر تھے جس نے فلم نگری میں قدم رکھا اور گیت نگاری شروع کی۔

    انھیں‌ 1949ء میں فلم ’’دنیا‘‘ کے دو نغمات لکھنے کا موقع ملا جن میں سے ایک گیت محمد رفیع نے گایا جس کے بول تھے، ’’رونا ہے تو چپکے چپکے رو، آنسو نہ بہا، آوازنہ دے‘‘ اور دوسرا گیت ثرّیا کی آواز میں مقبول ہوا جس کے بول ’’ارمان لٹے دل ٹوٹ گیا، دکھ درد کا ساتھی چھوٹ گیا‘‘ تھے۔ یہ دونوں گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    چند فلموں کے لیے مزید گیت لکھنے کے بعد اسد بھوپالی کو بی آر چوپڑا کی مشہور فلم ’’افسانہ‘‘ کے نغمات تحریر کرنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔ تاہم بعد میں ان کے کیریئر کو زوال آیا اور وہ غیرمقبول شاعر ثابت ہوئے۔

    1949ء سے 1990ء تک اسد بھوپالی نے لگ بھگ سو فلموں کے لیے نغمات تخلیق کیے۔ ’’پارس منی‘‘ وہ فلم تھی جس کے گیتوں نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا، اور بعد میں ’’استادوں کے استاد‘‘ کے گیت امر ہوگئے۔ 1989ء میں اسد بھوپالی نے فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے نغمات تخلیق کیے جنھیں پاک و ہند میں‌ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    اردو کے ممتاز شاعر اور فلمی نغمہ نگار اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے یہ دو گیت برصغیر کی تاریخ میں‌ امر ہوچکے ہیں اور آج بھی سرحد کے دونوں اطراف ان کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ان کے بول ہیں، دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ، اور دوسرا گیت ہے، کبوتر جا، جا جا، کبوتر جا….

    انھوں نے دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نہ جیسا خوب صورت گیت تخلیق کرنے پر بھارت کی فلمی صنعت کا سب سے بڑا فلم فیئر ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔

  • ’’نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘‘ نام وَر گلوکارہ نسیم بیگم کی برسی

    ’’نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘‘ نام وَر گلوکارہ نسیم بیگم کی برسی

    نسیم بیگم اپنے زمانے کی مقبول ترین گلوکارہ تھیں جو 29 ستمبر 1971 کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی برسی ہے۔

    1936 میں امرتسر کی ایک مغنیہ کے گھر جنم لینے والی نسیم بیگم نے بھی موسیقی اور راگ راگنیوں، سُر اور تال سے ناتا جوڑا اور اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان، لاہور سے کیا۔

    فلم انڈسٹری میں‌ نسیم بیگم کو اس وقت کے فلمی موسیقار شہر یار نے متعارف کروایا۔ وہ فلم بے گناہ کا ایک نغمہ ’’نینوں میں جل بھر آئے روٹھ گیا میرا پیار‘‘ کے ذریعے فلمی صنعت سے وابستہ ہوئیں اور ان کا گایا ہوا یہ نغمہ بے حد مقبول ہوا۔ اس گیت نے نسیم بیگم پر فلمی دنیا کے دروازے کھول دیے۔

    نسیم بیگم نے پانچ برسوں‌ میں‌ چار نگار ایوارڈز اپنے نام کیے اور بہترین گلوکارہ کہلائیں۔نسیم بیگم کو یہ نگار ایوارڈز مشہور فلمی نغمات سو بار چمن مہکا‘ اس بے وفا کا شہر ہے‘ چندا توری چاندنی میں اور نگاہیں ہوگئیں پُرنم‘ کے لیے دیے گئے تھے۔

    پاکستان کی اس مقبول گلوکارہ نسیم بیگم کے دیگر نغمات میں ہم بھول گئے ہر بات‘ ہم نے جو پھول چُنے اور مکھڑے پہ سہرا ڈالے‘ آجائو آنے والے‘ نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘ جب کہ ملّی نغمہ اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو‘ شامل ہیں۔

    دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘ ان کی آواز میں ایک مقبول ترین گیت تھا جو سرحد پار بھی سنا اور بے حد پسند کیا گیا۔

    نسیم بیگم نے اپنے وقت کے نام ور گلوکاروں جن میں سلیم رضا، منیر حسین، مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا شامل ہیں‌، کے ساتھ متعدد دو گانے بھی گائے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔