Tag: مشہور پاکستانی گلوکار

  • معروف گلوکار اخلاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے

    معروف گلوکار اخلاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے

    4 اگست 1999ء کو پاکستان کے نام وَر گلوکار اخلاق احمد نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ اخلاق احمد کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے اور آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    اخلاق احمد 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اسٹیج پروگراموں میں شوقیہ گلوکاری کرنے لگے۔ 1971ء میں انھوں نے کراچی میں بننے والی فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ کے لیے ایک گانا ریکارڈ کروایا تھا اور یہیں سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ اور ’’پازیب‘‘ میں بھی اخلاق احمد کے گیت شامل ہوئے، لیکن ان کے ذریعے وہ مقبولیت انھیں نہیں ملی جو بعد میں ان کے حصّے میں آئی۔

    1974ء میں اداکار ندیم نے اپنی فلم ’’مٹی کے پتلے‘‘ میں اخلاق احمد کے آواز میں ایک نغمہ شامل کیا اور موسیقار روبن گھوش نے لاہور میں اخلاق احمد کی آواز میں اپنی فلم ’’چاہت‘‘ کا ایک نغمہ ’’ساون آئے، ساون جائے‘‘ ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ اخلاق احمد کے فلمی سفر کا مقبول ترین نغمہ ثابت ہوا۔ اس گیت پر انھیں خصوصی نگار ایوارڈ بھی عطا ہوا۔

    اسی عرصے میں اخلاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے پروگراموں میں گلوکاری کا آغاز کیا اور ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ فلم نگری میں انھوں نے شرافت، دو ساتھی، پہچان، دلربا، امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت، مسافر، دوریاں، بسیرا جیسی کام یاب ترین فلموں کے لیے گیت گائے جو بہت پسند کیے گئے۔ اخلاق احمد کا شمار پاکستان میں مقبولیت کے اعتبار سے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں ہوتا ہے۔

    خلاق احمد نے آٹھ نگار ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ 1985ء میں انھیں خون کا سرطان تشخیص ہوا تھا اور وفات کے وقت علاج کی غرض سے لندن میں مقیم تھے۔ انھیں کراچی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • عظیم گلوکار مسعود رانا کی برسی

    عظیم گلوکار مسعود رانا کی برسی

    مسعود رانا کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 25 برس بیت گئے۔ آج پاکستان کے اس معروف گلوکار کی برسی ہے۔ مسعود رانا 4 اکتوبر 1995 کو وفات پاگئے تھے۔

    پلے بیک سنگر کی حیثیت سے فلم ہمراہی کے گیتوں نے مسعود رانا کو شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچایا اور وہ فلم انڈسٹری میں‌ موسیقاروں اور فلم سازوں کی ترجیح بن گئے۔ فلم ڈاچی کے گیتوں نے بھی ان کی شہرت اور مقبولیت میں‌ اضافہ کیا۔ مسعود رانا کا شمار ان گلوکاروں‌ میں‌ ہوتا ہے جنھیں خاص طور پر ہائی پِچ کے گيت ريکارڈ کرانے کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا۔ رومانوی گیت ہی نہیں طربیہ دھنوں اور غمگین شاعری‌ کو اپنی دل گداز آواز دینے والے مسعود رانا ورسٹائل فن کار تھے اور ان کی اسی خوبی نے انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں‌ ممتاز کیا۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس عظیم گلوکار کا تعلق سندھ کے شہر میرپورخاص سے تھا جہاں انھوں‌ نے 9 جون 1938 کو آنکھ کھولی۔

    مسعود رانا کی آواز میں‌ فلم آئینہ کا نغمہ ’تم ہی ہو محبوب میرے، میں کیوں نہ تم سے پیار کروں‘ بہت مقبول ہوا اور آج بھی سماعتوں میں‌ رس گھول رہا ہے۔ فلم چاند اور چاندنی کا گیت ’تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے‘ ان کی پُرسوز آواز میں اب بھی سنا جاتا ہے اور یہ اپنے وقت کے مقبول ترین گیتوں میں‌ سے ایک تھا۔

    گلوکاری کی دنیا کے اس نام وَر اور فلم نگری کے باکمال پلے بیک سنگر نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے 550 سے زائد گيت گائے اور تین دہائیوں سے زائد عرصے تک شائقینِ موسیقی اور مداحوں کے لیے اپنی پُرسوز اور دل گداز آواز میں‌ گیت ریکارڈ کروائے۔ انھوں‌ نے آئینہ، دھڑکن، مجاہد، نائلہ، کون کسی کا، بھیّا، سنگ دل، پاک دامن، احساس، دامن اور چنگاری، میرا ماہی، مرزا جٹ، دھی رانی اور کئی فلموں‌ کے لیے گیت گائے۔

  • غزل سرائی کا عروج اقبال بانو

    غزل سرائی کا عروج اقبال بانو

    سُر اور ساز ہی نہیں اقبال بانو اردو زبان کی لطافت، چاشنی اور الفاظ کی تاثیر کو بھی خوب سمجھتی تھیں۔ اقبال بانو کا تلفظ عمدہ اور شعر کا فہم خوب تھا۔ شاعری سے انھیں خاص لگاؤ تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کی گائیکی پُراثر تھی۔ ان کی آواز حاضرین اور سامعین کو جیسے اپنی گرفت میں لے لیتی اور محفل پر دیر تک اقبال بانو کا اثر رہتا۔

    آج برصغیر پاک و ہند کی اس منفرد اور بے مثال گائیک کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 21 اپریل 2009 کو ہوا تھا۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کو بامِ عروج تک لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    اقبال بانو نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز کیا تھا۔ ان کی عمر سترہ برس تھی جب انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور ملتان میں آباد ہوئیں۔ یہ 1952 کی بات ہے۔

    اقبال بانو نے اپنی گائیکی سے پاکستان کے مشہور موسیقاروں اور بڑے حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو جب اقبال بانو نے گایا تو جیسے یہ کلام ہر خاص و عام کا ترجمان بن گیا۔ یہ نظم ہر طرف ایک نعرے کی صورت گونجنے لگی۔

    ان کی گائی ہوئی ایک غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُولاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسے گیت کو شاید ہی ہم فراموش کرسکیں جسے اقبال بانو نے گا کر امر کر دیا۔

    فیض کا کلام ’ہم دیکھیں گے‘ گانے کے بعد اقبال بانو کو شہرت اور بے حد پیار تو ملا، مگر پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ان کی آواز اور پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا، لیکن ان کا سب سے بڑا اعزاز اور تمغہ مداحوں کی محبت اور ہر جگہ ملنے والی پزیرائی تھی۔ انھیں اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے نہ صرف سراہا بلکہ ان کے فن کی عظمت اور ان کی منفرد گائیکی کا اعتراف بھی کیا۔