Tag: مشہور پرندے

  • کوّا پیاسا نہیں مَر سکتا…

    کوّا پیاسا نہیں مَر سکتا…

    پیاسا کوّا کے عنوان سے کہانی آپ نے بھی پڑھی ہو گی۔ اس مشہور کہانی میں کوّے کی ذہانت کو خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ کوّا وہ پرندہ ہے جو واقعی بھوک اور پیاس سے نہیں مَر سکتا ہے۔ خدا نے اپنی اس مخلوق کو ان صلاحیتوں اور اسی ذہانت سے نوازا ہے کہ یہ ‘پاتال’ سے پانی ڈھونڈ نکالے۔

    حیوانات کے ماہرین نے اس پرندے کے خاندان کو Corvidae کا سائنسی نام دے رکھا ہے جن میں کوّے سے مماثلت رکھنے والے کئی پرندے مثلاً Raven, Rooks, Jays, Magpies Jackdaws وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس خاندان میں 133 مختلف پرندوں میں سے 40 نسلیں کوؤں کی ہیں۔

    پاکستان میں عام طور پر سرمئی رنگ کی گردن اور کالے جسم والا کوّا پایا جاتا ہے جسے House Crow کہتے ہیں۔

    اس پرندے (گھریلو کوّے) کی ذہانت بہت مشہور ہے۔ یہ نہ صرف درخت کی چھوٹی موٹی ٹہنیوں، تنکوں کو بطور اوزار استعمال کر کے کھانا تلاش کرنا جانتا ہے بلکہ لوہے تانبے کی پتری وغیرہ کو چونچ سے موڑ کر اس کا پھندا سا بنا کر کسی جگہ سے اپنے کھانے کی کوئی شے حاصل کرنا بھی جانتا ہے۔

    کوّے کے دماغ میں 1.5 بلین نیورون ہوتے ہیں اور اتنے ہی نیورون مختلف نسل کے بندروں میں بھی پائے جاتے ہیں، لیکن یہاں ایک فرق ہے۔ کوّے کا دماغ اور بندر کے دماغ کا سائز بہت مختلف ہے۔ اس ننّھے دماغ کے اندر یہ تمام نیورون انتہائی قریب ہوتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ دماغ کو ملنے والے سگنلز تیزی سے ادھر سے ادھر ہوتے ہیں اور یوں دماغ کے نیورون کی آپس میں‌ کمیونیکشن یا رابطہ بہت تیزی سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے آپ پتّھر اٹھانے کے لیے جھکتے ہیں اور دوسری طرف کوّا اُڑ چکا ہوتا ہے۔

    اس پرندے کا آئی کیو لیول انتہائی زبردست ہے۔ ماہرین اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بن مانس یا سات سالہ بچّے کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے برابر تصوّر کرتے ہیں۔

    کوّے کی غذائی عادات اور اس کی خوراک کی بات کی جائے تو یہ مردار خور بھی ہے، لیکن یہ اس کا بنیادی طریقۂ حصولِ خوراک نہیں۔ آپ اگر تجربہ کریں تو معلوم ہو گا کہ کھلی جگہ جیسے چھت پر باقاعدگی سے کھانا کھائیں تو اس پرندے کو آپ کا یہ وقت یاد رہے گا اور ہر روز باقاعدگی سے وہ اس جگہ پر پہنچے گا اور موقع ملتے ہی آپ کی کسی ڈش سے کچھ نہ کچھ اڑا لے جائے گا۔ اسی طرح کوّا کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کی آمدورفت کے اوقات جانتا ہے۔ الغرض جہاں خوراک کی بھرمار اور کوّے کے لیے غذا کی دست یابی آسان ہو، یہ ہر اس جگہ اور مقام سے واقف ہے۔

    کوّا بیج، پھل، سبزی، گوشت، مردہ پرندے حتّٰی کہ انسانی لاشوں کو بھی نوچتا ہے اور چھوٹے پرندوں کے انڈے اور بچّے بھی کھا جاتا ہے۔

    یہ پرندہ گروہ کی شکل میں‌ رہنا پسند کرتا ہے۔ اگر آپ کسی کوّے کو مارتے ہوں تو جواب میں‌ بہت سے کوّے آپ کو دیکھ کر کائیں کائیں کرنے اور سَر پر ٹھونگیں‌ مارنے کے لیے جمع ہو جائیں گے۔ یہ نہ صرف انتقامی جذبات رکھتا ہے بلکہ اپنے خاندان کو بھی آپ کے حلیے سے آگاہ کردیتا ہے۔

    افزائشِ نسل کے لیے کوّا ٹہنیوں، تنکوں سے اپنا گھونسلہ بناتا ہے اور ایسے درخت کا انتخاب کرتا ہے جو گھنا اور پھیلا ہوا ہو۔ مادہ کے انڈے دینے کا وقت اپریل تا جولائی ہوتا ہے جس میں یہ تین سے پانچ انڈے دیتی ہے۔ ایک ہی درخت پر کوّے کے بہت سارے گھونسلے ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر کوّے 15 سے 20 سال کی عمر پاتے ہیں۔

  • گیانا کے قومی پرندے کو فارسی میں گند مرغ کیوں کہتے ہیں؟

    گیانا کے قومی پرندے کو فارسی میں گند مرغ کیوں کہتے ہیں؟

    گیانا (Guyana) جنوبی امریکا کے شمالی ساحل پر واقع ایک ملک ہے، جس کی سرحدیں وینزویلا، سرینام اور برازیل سے ملتی ہیں۔ اس ملک کا قومی پرندہ Hoatzin ہے جسے فارسی میں گند مرغ کہتے ہیں جس کی وجہ اس کے جسم سے آنے والی بدبُو ہے۔

    یہ جنوبی امریکا اور اس خطّے کے گھنے جنگلات کے دلدلی علاقوں، جوہڑوں اور تالابوں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے اور گیانا ہی نہیں برازیل، وینزویلا، کولمبیا کے بھی ایسے ہی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

    یہ ایک عجیب و غریب پرندہ ہے جس کا سارا دن گائے بھینسوں کی طرح پتّے وغیرہ کھاتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ یہ کوئی بھی پھل کم ہی کھاتا ہے۔ کیڑے مکوڑے یا چھوٹے حشرات بالکل نہیں کھاتا۔ یہ ڈھیر سارے پتّے کھا کر اپنی خوراک کی نالی (گلے) میں مخصوص مقام پر ذخیرہ کرتا ہے اور یہاں قدرتی نظام کے تحت خاص بیکٹیریا اسے جسمانی غذائی ضرورت کے لیے مخصوص شکل میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ پتّے کھانے کی وجہ سے اس کے جسم سے مسلسل گائے کے گوبر جیسی بُو آتی رہتی ہے اور اس کا گوشت بھی بہت بدمزہ ہوتا ہے۔

    یہ مادہ سے ملاپ کے وقت نہایت پُراسرار اور خطرے کی صورت میں بھیانک قسم کی آواز نکالتا ہے۔ ماہرین کے مطابق گند مرغ شور مچانے والا پرندہ ہے جو پرواز نہیں‌ کرسکتا اور درختوں پر اچھل کود کے علاوہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے ہوا میں غوطہ لگاسکتا ہے۔ قدرت نے اسے درختوں کی شاخوں پر تیزی سے اوپر نیچے اور لمبی چھلانگیں لگانے کی صلاحیت دے رکھی ہے۔ اس کے پیروں کے پنجے بڑے اور مضبوط ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ درخت کی شاخوں پر اپنی گرفت قائم رکھتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کے بازوؤں میں بھی اندر کی جانب چھوٹے چھوٹے پنجے موجود ہوتے ہیں جن سے یہ ٹہنیوں پر اچھل کود کے دوران گرفت قائم رکھتا ہے۔ زمین سے کسی درخت پر چڑھنا ہو تو یہ اپنے پروں کو پھیلا کر ان کے اندر موجود پنجوں کو استعمال کرتے ہوئے آسانی سے اوپر چڑھ جاتا ہے۔

    یہ درختوں پر گھونسلا بھی بناتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ پرندہ زیادہ تر دریا اور تالاب کے ساتھ موجود درختوں پر آشیانہ قائم کرتا ہے جہاں اس کے بچّے کسی حملہ آور کو دیکھ کر نیچے پانی میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ خطرہ ٹل جانے پر باہر نکل کر تیرتے ہوئے باہر نکلتے ہیں اور اپنے پیروں اور بازوؤں کے پنجوں کی مدد سے درخت پر بنے ہوئے اپنے گھونسلے میں دوبارہ پہنچ جاتے ہیں۔

    گند مرغ 12 سے 15 سال تک زندہ رہتے ہیں اور اکثر بازوں، سانپوں اور بندروں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ اس کے مختلف نام ہیں جو اس کی خصوصیات کی بنا پر اسے ماہرین نے دیے ہیں۔ یہ خطرناک اور خوب صورت پرندہ ہے جس کی لمبی گردن اور آنکھوں کی سرخی مائل بھوری رنگت ہی نہیں‌ اس کے پروں کا پھیلاؤ بھی نہایت دل کش معلوم ہوتا ہے۔ سَر پر پروں کا تاج سا ہوتا ہے جو دور سے دیکھنے پر نہایت بھلا لگتا ہے۔

  • مشہور نسل کے پرندے گانا بھول گئے، محققین پریشان

    مشہور نسل کے پرندے گانا بھول گئے، محققین پریشان

    کینبرا: آسٹریلیا کی ایک مشہور نسل کے پرندے گانا بھول گئے ہیں، جس نے محققین کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، کیوں کہ اسے خطرے کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ہنی اِیٹر یعنی شکر خورا نامی پرندہ، جو آسٹریلیا میں پایا جاتا ہے، چہچہانا بھول گیا ہے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ اس پرندے کی نسل ختم ہونے کی علامت ہو سکتی ہے۔

    آسٹریلوی نیشنل یونی ورسٹی کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ نسل کو آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھنے والے بڑے پرندے معدوم ہو رہے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق نر شکر خورے (Honeyeater) گنجان ماحول میں خوب گاتے ہیں جن میں مختلف قسم کی پیچیدہ دھنیں بھی شامل ہوتی ہیں جب کہ اس کے برعکس ماحول میں ان کا چہچہانا سادہ ہو جاتا ہے۔

    محقق راس کریٹس کا کہنا ہے کہ شکر خوروں کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے، گانوں سے دوری اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ ان کی افزائش نسل کے مواقع میں کمی آ رہی ہے۔ تحقیق کے مطابق نر پرندے جنسی عمل سے قبل خاص قسم کی آوازیں نکالتے ہیں اور چھوٹے نر پرندے اسی سے سیکھتے ہیں، لیکن بڑے پرندے کم ہونے کی وجہ سے اب وہ ان آوازوں سے نابلد ہو گئے ہیں۔

    محقق ڈیجن اسٹوجینووک کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کی آبادی میں کمی صاف نظر آ رہی ہے، گانے والے پرندوں میں جنسی عمل پر ابھارنے والے گانے ان کی آبادی کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔

    محققین نے یہ تشویش ناک بات بھی بتائی کہ اس وقت صرف 18 نر شکر خورے موجود ہیں جو پوری آبادی کا 12 فی صد ہیں، یہ پرندے دوسرے پرندوں کے گانوں کی نقل تو کر سکتے ہیں لیکن اپنے نغمے نہیں گا سکتے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جنگلوں میں بھی صرف چند سو شکر خورے ہی باقی بچے ہیں۔

    واضح رہے کہ پروں میں کالے اور پیلے رنگ کے نشانات رکھنے والا کمیاب پرندہ پہلے مشرقی آسٹریلیا کے بیش تر علاقوں میں پایا جاتا تھا مگر اب یہ جنوب مشرق کے جنگلوں تک محدود ہے۔

  • سوڈان کے لیے چار فٹ کا ‘سیکرٹری’ کیا اہمیت رکھتا ہے؟

    سوڈان کے لیے چار فٹ کا ‘سیکرٹری’ کیا اہمیت رکھتا ہے؟

    منہ عقاب کی طرح، ٹانگیں بگلے جیسی اور قد 4 فٹ سے کچھ نکلتا ہوا۔ اس کا وزن تقریباً 5 کلو ہوسکتا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں سیکرٹری برڈ (Secretry Bird) کی جس کی زندگی سرسبز میدانوں اور گھاس پھونس کے درمیان گزرتی ہے۔

    اس پرندے کے نام پڑھتے ہی ہمارا ذہن اُس عام منصب یا عہدے کی طرف جاتا ہے جو دفاتر اور مختلف تنظیموں میں‌ کسی فرد سے مخصوص ہوتا ہے اور آپ کو حیرت ہوگی کہ پرندے کے اس نام کی بنیاد یہی لفظ ہے۔

    اس کی وجہِ تسمیہ یہ کہ اٹھارھویں صدی عیسوی میں دفاتر میں کلرک اور سیکرٹری جیسے منصب دار تحریر کے لیے پرندوں کے جو پنکھ استعمال کرتے تھے، وہ اس پرندے کے سَر کے پروں کی طرح پھیلے ہوئے ہوتے تھے۔ تبھی سے یہ خوب صورت مخلوق سیکرٹری برڈ مشہور ہوگیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نام سوڈان کی قومی زبان کے لفظ سقرُالطّیر سے نکلا گیا ہے جس کا مطلب ہے صحرائی عقاب۔

    یہ پرندہ سوڈان اور ساؤتھ افریقا کے درمیان گھاس اور جڑی بوٹیوں کے گرم میدانوں میں پایا جاتا ہے۔

    اس کی من پسند غذا سانپ ہیں۔ ان کے علاوہ یہ چھپکلیاں، مینڈک، مختلف قسم کے کیڑے پتنگے، چوہے اور خرگوش کے بچے بھی ہڑپ کر جاتا ہے۔ اس کام کے لیے سیکرٹری برڈ اپنے پنجوں کا استعمال کرتا ہے۔

    سانپ سے سامنا ہوتے ہی یہ اپنے پَروں کو پھیلا لیتا ہے اور اپنا سَر اٹھا کر اس پر موجود اپنے پَروں کا تاج کھڑا کر لیتا ہے۔ اس کے تاج کے پروں‌ کا رنگ کالا ہوتا ہے۔ اس کی نظر سانپ کے سَر پر جمی رہتی ہے اور موقع پاکر یہ اس کے سَر پر وار کرتا ہے اور عموماً ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیتا ہے۔ سانپ اس حملے کی صورت میں جوابی کارروائی بمشکل ہی کرپاتے ہیں۔

    اس پرندے کے پنجہ مارنے کی رفتار ہمارے پلک جھپکنے کی رفتار سے بھی تیز ہوتی ہے اور اس کے پنجوں میں طاقت اس کے جسم سے بھی تین گنا زیادہ۔ گویا سانپ کے سَر پر 20 کلو کا پتّھر مار دیا گیا ہو۔ یہ اپنے شکار کو سالم نگل جاتا ہے۔

    یہ پرندہ گھاس کے میدانوں میں موجود ببول کے درختوں پر سوکھی ٹہنیاں ڈال کر آشیانہ بناتے ہیں اور اس کی مادہ سال میں دو سے تین انڈے دیتی ہے۔ یہ انڈے سبز اور نیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔ نَر پرندہ بھی انڈے سینکتا ہے، لیکن اس کا اصل کام شکار کرنا ہوتا ہے۔ تقریباً 50 دن بعد انڈوں سے بچّے نکل آتے ہیں۔

    یہ پرندہ سوڈان میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ وہاں اسے ملک دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سوڈان کے ڈاک ٹکٹوں کے علاوہ صدراتی جھنڈے اور صدارتی مہر پر بھی اسی کا عکس (لوگو) نظر آتا ہے۔

    سیکرٹری برڈ اپنی زندگی کا بڑا حصّہ زمین پر چل پھر کر ہی گزارتے ہیں اور ایک دن میں اوسطاً دن میں 35 کلومیٹر تک چلتے ہیں۔ یہ بہت اونچی اڑان بھر سکتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر اپنے مسکن کے اطراف ہی کھلی فضا میں پرواز کرتے ہیں۔ عموماً سہ پہر سے شام تک شکار کرتے ہیں اور پھر اپنے گھونسلے میں چلے جاتے ہیں۔

    عام طور پر جوان سیکرٹری برڈ پر کوئی جانور حملہ نہیں کرتا البتہ ان کے بچّے ضرور دوسرے پرندوں کا شکار بن جاتے ہیں۔

    (مترجم: عظیم لطیف)

  • بووَر: "محبوب” کی خاطر آشیانہ سجانے والا پرندہ

    بووَر: "محبوب” کی خاطر آشیانہ سجانے والا پرندہ

    قدرت کی بے شمار خوب صورت اور رنگ برنگی مخلوق میں سے ایک بووَر برڈ (Bower Bird) بھی ہے جو رنگ دار اور چمکیلی اشیا سے اپنا گھر سجانے کے لیے مشہور ہے اور یہ سجاوٹ نَر بووَر کی جانب سے مادہ کو لبھانے کی کوشش ہوتی ہے۔

    دنیا میں اس پرندے کی تقریباً 20 نسلیں پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک Vogelkop bowerbird ہے جو آج ہمارا موضوع ہے۔

    بووَر برڈ کی یہ نسل انڈونیشیا کے جزیرے نیو گنی کے علاقے Vogelkop میں پائی جاتی ہے اور اسی نسبت سے اسے پہچانا جاتا ہے۔

    ایک دل چسپ اور خاص بات تو یہ ہے کہ نیوگنی کی آزاد فضاؤں کا یہ باسی نقّالی بھی کرسکتا ہے۔ جی ہاں، یہ طوطے کی طرح آواز نکالتا (کاپی) ہے۔

    لیکن اس پرندے کی سب سے خاص بات اور انفرادیت تنکوں سے بنا اس کا وہ آشیانہ ہے جسے نَر بووَر کسی مادہ کو لبھانے کی غرض سے سجاتا ہے۔

    قدرت نے اسے کسی معمار جیسی صلاحیت دے رکھی ہے اور اس کا استعمال کرتے ہوئے پہلے یہ پرندہ نہایت مہارت سے اپنا گھر بناتا ہے اور بعد میں‌ سجاوٹ اور آرائش کا اہتمام کرتا ہے۔ بووَر، اپنا آشیانہ بنانے کے لیے چند موٹے تنکوں سے ستون بناتا ہے اور اس پر کئی تنکے رکھ کر اپنا جھونپڑی نما گھر مکمل کرلیتا ہے۔

    گھر تیّار کرنے کے بعد نر بووَر اس کے داخلی دروازے کے سامنے کا حصّہ صاف کرکے اسے مختلف اشیا سے سجا دیتا ہے اور پھر "محبوب” کا انتظار شروع ہوتا ہے۔

    مادہ کو اس گھر کی جانب متوجہ کرنے کے لیے نَر بوور پھول، مختلف خشک پتّے، پھل، بیج اور ایسے کیڑے اٹھا کر لاتا ہے جو چمک دار ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ یہ پرندہ اپنے آشیانے کے سامنے کوئلہ، مختلف اقسام اور رنگوں کی پھپھوندیوں حتّٰی کہ ہرن کی مینگنیوں کے چھوٹے چھوٹے ڈھیر لگا دیتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ٹھکانے کے سامنے ہر رنگ اکٹھا کر لے جو مادہ کے لیے کشش کا باعث بن سکے۔

    دل چسپ اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ بوور ان اشیا کو لاکر یونہی نہیں پھینک دیتا بلکہ انھیں‌ گھر کے آگے ایک خاص ترتیب سے رکھتا ہے۔ اکثر یہ دوسرے پرندے کی جھونپڑی سے بھی چیزیں چُرا کر لے آتا ہے۔

    بووَر انسانوں کی پھینکی ہوئی چیزیں مثلاً پلاسٹک کی بوتلیں، اس کے رنگ دار ڈھکن وغیرہ بھی اس سجاوٹ میں شامل کرلیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ پرندہ وقتاً فوقتاً اپنی جھونپڑی کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی سجاوٹ میں رد و بدل کرتا رہتا ہے۔

    اس پرندے کی مادہ قریبی درخت پر آکر بیٹھتی ہے جہاں سے جھونپڑی اور اس کی سجاوٹ پر نظر ڈالتی ہے اور جس آشیانے کی سجاوٹ اسے بھاتی ہے، یہ گویا اس کے مالک کی ہوجاتی ہے۔

    یہ چند سیکنڈوں کے لیے ملاپ کرتے ہیں۔ اکثر نَر افزائشِ نسل کے لیے ملاپ سے محروم رہ جاتے ہیں اور انھیں مخصوص سیزن میں نئے سِرے سے گھر بنانے اور اسے سجانے کی مشقّت کرنا پڑتی ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔

    (تلخیص و ترجمہ: عظیم لطیف)

  • ابابیل کے گھونسلے میں اجوائن کا کیا کام؟

    ابابیل کے گھونسلے میں اجوائن کا کیا کام؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ابابیل جیسے ننھے پرندے کو سب سے زیادہ خطرہ چمگادڑ سے رہتا ہے اور جب ابابیل اپنے گھونسلے میں انڈے دیتی ہے اور ان میں سے بچے نکلتے ہیں تو سب سے پہلے پرندے کا یہ جوڑا انھیں چمگادڑ سے بچانے کا انتظام کرتا ہے۔

    ابابیل وہ پرندہ ہے جو اپنا گھونسلا مٹی اور گھاس کو ملا کر بناتا ہے۔ اس گھونسلے میں مادہ ابابیل چار انڈے دیتی ہے۔

    چمگادڑ اور ابابیل کے بعد ہم اب اجوائن کا ذکر کررہے ہیں۔ آپ نے اجوائن کا نام تو سن ہی رکھا ہے۔ اسے ہمارے ہاں مسالا جات میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ نباتات کی وہ قسم ہے جسے جڑی بوٹی کہہ سکتے ہیں۔ اجوائن کی مختلف اقسام ہیں اور یہ اپنی مہک کے لیے مشہور ہے۔ اس کی بُو تیز ہوتی ہے۔ برصغیر میں مختلف اقسام کے پکوان میں دیگر مسالا جات کی طرح اجوائن بھی عام استعمال ہوتی ہے۔

    اسی اجوائن کے پودے کی مدد سے ابابیل اپنے بچوں کو چمگادڑ سے محفوظ رکھ پاتی ہے۔

    صدیوں پہلے علامہ کمال الدین الدمیری نے اپنی مشہور تصنیف کتاب الحیوان میں مذکورہ حیوانات اور اجوائن سے متعلق لکھا تھا کہ بچے نکلنے پر ابابیل اس پودے کی ٹہنیاں اپنے گھونسلے میں لاکر رکھ دیتی ہے جس کی خوش بُو سے چمگادڑ اس کے گھونسلے کے قریب ہی نہیں آتی اور یوں اس کے بچے محفوط رہتے ہیں۔