Tag: مشہور پودے

  • چند خوش نما اور خوش بُو دار جھاڑیاں

    چند خوش نما اور خوش بُو دار جھاڑیاں

    آپ نے جھاڑیوں کا ذکر اکثر سنا ہوگا، بالخصوص وہ لوگ جو دیہات اور پہاڑی علاقوں کے پروردہ ہیں‌، انھوں نے جنگل اور کھلے مقامات پر ہر قسم کی نباتات کا مشاہدہ کیا ہو گا جن میں‌ کانٹے دار اور زہریلی جھاڑیاں بھی شامل ہیں، لیکن یہاں ہم بات کررہے ہیں‌ اُن خوش بُو دار جھاڑیوں کی جنھیں آپ اپنے گھر میں‌ کچّی مٹی یا بڑے بڑے گملوں‌ میں لگا سکتے ہیں۔

    گھاس اور جڑی بوٹیوں کے علاوہ دوسری قسم کی نباتات کو عام طور پر ہم درخت اور پیڑ کہہ کر شناخت کرتے ہیں، لیکن درخت اور جھاڑی میں فرق ہوتا ہے۔ کسی بھی پیڑ کا ایک تنا ہوتا ہے جس سے اس کے قد کے اعتبار سے اوپر اٹھنے کے بعد شاخیں نکلتی ہیں۔ اس کے برعکس جھاڑی نباتات کی وہ قسم ہے جس کے کئی تنے ہوسکتے ہیں اور یہ قد میں درخت سے بہت چھوٹی ہوتی ہے۔

    پاکستان میں قسم ہا قسم کی نباتات میں دل کش اور خوش بُو دار جھاڑیاں‌ بھی پائی جاتی ہیں‌ جن کو عام باغیچے یا بڑے گملوں میں لگایا جاتا ہے اور اس طرح صاحبِ خانہ اپنے ذوق و شوق کی تسکین کے ساتھ خود کو فطرت کے قریب پاتے ہیں۔

    یہاں ہم ان چند خوش نما جھاڑیوں کے نام بتا رہے ہیں جنھیں آپ اپنے گھر کے باغیچے اور بڑے گملوں میں بھی رکھ سکتے ہیں۔

    رات کی رانی سے کون واقف نہیں؟ یہ سدا بہار اور تیزی سے پھلنے پھولنے والی خوش نما جھاڑی ہے۔ اس پھول دار جھاڑی پر چھوٹے چھوٹے سفید پھول کھلتے ہیں جن کی خوش بُو بھی فرحت افزا ہوتی ہے۔ یہ جھاڑی 5 سے 7 فٹ تک اونچی ہوسکتی ہے۔ موسمِ گرما اور خزاں میں بھی اس پر سفید پھول گچھوں کی شکل میں کِھلتے ہیں۔

    برصغیر پاک و ہند میں مروا کو اس کے پھولوں سے اٹھنے والی بھینی بھینی خوش بُو کی وجہ سے سبھی پسند کرتے ہیں۔ مروا کا پودا دس فٹ اونچا ہوتا ہے۔ یہ سدا بہار جھاڑی ہے جس کے پتّے گہرے سبز رنگ کے ہوتے ہیں اور انتہائی خوش نما دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی افزائش بیج سے ہوتی ہیں۔ مروا پر برسات کے دنوں میں پھول کِھلتے ہیں اور یہ فضا کو معطّر کردیتے ہیں۔ اس پھول دار جھاڑی کو تراش کر جاذبِ نظر بنایا جاسکتا ہے۔

    بار سنگار ایک سخت جان اور روئیں دار پتّوں والی جھاڑی ہے جس کے سفید پھولوں میں زر دانے ہوتے ہیں جو رات کو اس پر نمودار ہوتے ہیں اور صبح سویرے گِر جاتے ہیں۔ ان کی خوش بُو دور تک پھیل جاتی ہے۔ بار سنگار جھاڑی کو بارشوں میں قلم یا بیج سے لگایا جاسکتا ہے۔

    پلیو میریا کو نباتات کی دنیا میں‌ بہت زیادہ مضبوط اور خوش بُو دار پھولوں والی جھاڑی کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔ اس کے پتّے بڑے بڑے اور یہ کئی اقسام کی ہوتی ہے۔

    اب بات کرتے ہیں قومی پھول چنبیلی کی جس کا پودا جھاڑی دار شمار کیا جاتا ہے۔ اس پر جو پھول آتے ہیں۔ ان سے گجرے اور ہار بھی بنائے جاتے ہیں۔ یہ سدا بہار اور خوش نما پھولوں والی جھاڑی ہے۔

  • ہاتھی کے کانوں والا پودا

    ہاتھی کے کانوں والا پودا

    یہ پودا آپ نے بھی اکثر بڑی کیاریوں، دفاتر اور گھروں کے اندر اور باہر بڑے بڑے گملوں‌ اور کشادہ جگہ پر رکھا ہوا دیکھا ہو گا۔ اسے عموماً خوب صورتی اور سجاوٹ کی غرض سے رکھا جاتا ہے۔ عام طور پر اسے Elephant Ear Plant کہتے ہیں۔

    اس پودے کے بڑے بڑے پتّوں‌ پر شبنم یا بارش کے قطرے ٹھہر جاتے ہیں اور بہت خوب صورت منظر پیش کرتے ہیں۔ سبز کے علاوہ بھی اس پودے کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اس کے صاف اور سبز رنگ کے چمکتے ہوئے پتّے دیکھ کر خوش گوار احساس پیدا ہوتا ہے۔

    سائنسی دنیا میں‌ اس کا نام Colocasia ہے۔ ماہرینِ نباتات کے مطابق دنیا میں‌ اس پودے کی 3000 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔

    یہ برّاعظم ایشیا کے جنوب مشرقی ممالک جن میں انڈونیشیا، ملائیشیا ویت نام، لاؤس، جاپان وغیرہ شامل ہیں، ان کے ٹراپیکل (Tropical) خطّے میں پایا جاتا ہے۔ یاد رہے دنیا کے نقشے پر ٹراپیکل سے مراد وہ علاقے ہیں جہاں تقریباً سارا سال بارش ہوتی ہے اور موسم گرم رہتا ہے۔ آج بڑے اور پھیلے ہوئے پتّوں والا یہ پودا پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں‌ دیکھا جاسکتا ہے۔

    یہ پودا کیوں اتنا عام ہے؟
    اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت آسانی سے جڑ پکڑ لیتا ہے اور تیزی سے نشوونما پاتا ہے جس کے بعد خوب صورت اور بڑے پتّے دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ یہ موسم کی سختیاں برداشت کرلیتا ہے اور مٹّی کا بھی عادی ہوتا ہے۔ اسے پودوں‌ کے لیے ضروری مٹّی اور باقاعدہ پانی کافی ہوتا ہے البتہ زرخیز زمین اور سازگار ماحول میں‌ اس پودے میں‌ جان پڑ جاتی ہے۔ اس کے بڑے اور خراب ہو جانے والے پتّوں کو الگ کردیا جائے تو نئے پتّوں کو اگنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کا تنا بلندی کی طرف بڑھتا ہے جس سے نکلنے والی شاخوں‌ پر یہ خوب صورت پتّے موجود ہوتے ہیں۔

    کیا یہ پودا اور اس کے پتّے زہریلے ہوتے ہیں؟
    جی ہاں۔ اس کے پتّے کافی زہریلے ہیں اور اس کی وجہ ان میں موجود کیلشیم آکسیلیٹ کیمیکل ہے۔ اس پودے کے تنے اور پتّوں میں یہ کیمیکل لمبی لمبی نہ نظر آنے والی سوئیوں (Needle Like Crystals) کی طرح ہر جگہ موجود ہے۔ جب کوئی جانور یا انسان اس پودے کے پتّوں کو چھوتا یا کھاتا ہے تو یہ کیمیکل جلد میں گھس جاتا ہے اور سوجن پیدا کرتا ہے۔ اگر منہ میں چلا جائے تو ہونٹ اور حلق سوج جاتے ہیں‌ اور سانس لینا یا نگلنا دشوار ہوجاتا ہے۔

    کیا یہ انسانوں‌ کے لیے کسی طرح‌ مفید ہے؟
    یہ پودا ہماری فضا کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس سے سالن اور پکوڑے بھی بنتے ہیں۔ جی ہاں! اس پودے کے تنے اور پتّوں میں سے کیلشیئم آکسیلیٹ نکال کر انہیں کھایا جاتا ہے۔ اس زہریلے کیمیکل کو نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ پتّے کا چھلکا اور اس کی نسیں (Veins) کاٹی جاتی ہیں، پتّوں کو ٹھنڈے پانی میں تھوڑی دیر بھگویا جاتا ہے۔ اس کے بعد ابال کے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے تنے اسفنج کی طرح ہوتے ہیں اور زیادہ تر اسے مچھلی کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔ اس کی جڑ جو آلو کی طرح موٹی ہوتی ہے اسے آلو ہی کی طرح کاٹ کر تلا جاتا ہے یا سالن میں ڈال کر پکایا جاتا ہے۔

    بہت سے ممالک میں اس کی جڑ سے میٹھی ڈش(Desert) بنتی ہے جو بہت لذیذ ہوتی ہے۔ اس کے پتّوں میں وٹامن سی، بی1، اور بی 2 شامل ہیں جب کہ جڑ میں امینو ایسڈ اور نشاستہ موجود ہوتے ہیں۔ یہ جسم کے پٹھے مضبوط کرتے اور جسم کو فربہ بناتے ہیں۔

    اس پودے سے لوگ لاکھوں روپے کماتے ہیں، کیوں‌ کہ ان کی بعض اقسام بہت مشکل سے دست یاب ہوتی ہیں اور یہ منہگے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔

    اس پودے کو گھروں میں لگائیں تو بچّوں کو اس سے دور رکھیں اور اگر کھائیں تو اس کی سب سے محفوظ چیز یعنی جڑ کھائیں۔