Tag: مشہور ڈرامہ نگار

  • پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے خالق حمید کاشمیری کی برسی

    پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے خالق حمید کاشمیری کی برسی

    6 جولائی 2003ء کو معروف ڈراما نویس اور افسانہ نگار حمید کاشمیری جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ پی ٹی وی کے لیے ان کے تحریر کردہ متعدد ڈرامے مقبول ہوئے۔

    حمید کاشمیری کا اصل نام عبدالحمید تھا۔ وہ یکم جون 1929ء کو مری، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ حمید کاشمیری کا شمار فعال ادیبوں میں ہوتا تھا۔ وہ لکھنے لکھانے کے ساتھ فروغِ علم و ادب کے لیے بھی کوشاں رہے اور ایک کتب فروش کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ کراچی میں صدر کے علاقے میں ان کی دکان ہوا کرتی تھی جہاں اکثر بڑے بڑے ادیب اور نام وَر شخصیات اکٹھا ہوتی تھیں۔ حمید کاشمیری اپنی کتابوں کی دکان کے قریب ہی ایک عمارت میں رہائش پذیر تھے۔

    کئی افسانے تخلیق کرنے والے حمید کاشمیری نے پندرہ سے زیادہ ناول اور ٹیلی ویژن کے لیے 50 سے زائد ڈرامے لکھے۔ ان میں سیریلز اور ڈراما سیریز شامل ہیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا اور ان کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    حمید کاشمیری کے ڈراموں میں ایمرجنسی وارڈ، روزنِ زنداں، شکستِ آرزو، اعتراف، کشکول، کافی ہائوس شامل ہیں۔

    پت جھڑ کے بعد حمید کاشمیری کا وہ ڈراما تھا جس پر 1973ء میں انھوں نے میونخ ڈراما فیسٹیول میں انعام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان رائٹرز گلڈ اور 2002ء میں اے آر وائی گولڈ انعام بھی حاصل کیا۔

    حمید کاشمیری کراچی کے میوہ شاہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • نام وَر ادیب، انشا پرداز اور ڈراما نگار حکیم احمد شجاع کی برسی

    نام وَر ادیب، انشا پرداز اور ڈراما نگار حکیم احمد شجاع کی برسی

    آج اردو کے نام وَر انشا پرداز، افسانہ نگار، شاعر اور مشہور ڈراما نویس حکیم احمد شجاع کا آج یومِ وفات ہے۔ وہ 4 جنوری 1969ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔

    1896ء میں‌ پیدا ہونے والے حکیم احمد شجاع نے لاہور سے میٹرک اور ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کے بعد میرٹھ کالج سے بی اے کی سند حاصل کی اور شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ 1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہوئے اور وہاں سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ وہ مجلس زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے اور ان کے زیر نگرانی ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔

    حکیم احمد شجاع اردو کے صفِ اوّل کے ڈرامہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ افسانے اور ناول تحریر کرنے کے ساتھ انھوں نے فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔ ان کا طرزِ تحریر منفرد اور اسلوب شان دار تھا۔ انھیں اپنے وقت کے باکمال نثر نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    ان کی خود نوشت خوں بہا کے نام سے شایع ہوئی۔ انھوں نے لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی تاریخ لاہور کا چیلسی کے نام سے رقم کی۔ حکیم شجاع قرآن پاک کی تفسیر تحریر کررہے تھے، لیکن یہ کام مکمل نہ کرسکے اور صرف پانچ پاروں کی تفسیر لکھی تھی کہ ان کا انتقال ہو گیا۔

    انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • حمید کاشمیری: پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں کے خالق کی برسی

    حمید کاشمیری: پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں کے خالق کی برسی

    2003 میں آج کے روز حمید کاشمیری ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے تھے۔ اردو ادب میں افسانہ نگاری، ڈراما نویسی ان کا میدان رہا جس میں انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور نام و مقام بنایا۔

    6 جولائی کو کراچی میں اردو کے اس معروف افسانہ نگار اور ڈراما نویس کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    حمید کاشمیری کا اصل نام عبدالحمید تھا۔ یکم جون 1929 کو مری، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہونے والے حمید کاشمیری کا شمار فعال ادیبوں میں ہوتا تھا۔

    کراچی میں صدر کی الفنٹن اسٹریٹ پر حمید کاشمیری کی کتابوں کی دکان ہوا کرتی تھی جہاں بڑے بڑے رائٹرز اور نام ور ادبی شخصیتیں اکثر اکٹھی ہوتی تھیں۔ حمید کاشمیری اپنی کتابوں کی دکان کے قریب ہی ایک عمارت میں رہائش پذیر تھے۔

    کئی افسانے تخلیق کرنے والے حمید کاشمیری نے پندرہ سے زیادہ ناول اور ٹیلی وژن کے لیے 50 سے زائد ڈرامے لکھے۔ ان میں سیریلز اور ڈراما سیریز شامل ہیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا اور ان کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    حمید کاشمیری کے ڈراموں میں ایمرجنسی وارڈ، روزنِ زنداں، شکستِ آرزو، اعتراف، کشکول، کافی ہائوس شامل ہیں۔

  • "مولانا تفریحُ الملک” اور "مرزا پھویا” کون ہیں؟

    "مولانا تفریحُ الملک” اور "مرزا پھویا” کون ہیں؟

    خواجہ صاحب کا نام معلوم نہیں کب سے کانوں میں گونجا ہوا تھا، مگر دیکھا سب سے پہلے گوالیار کی بزمِ اردو میں۔

    جب آپ نے خضر خان اور دیول دیوی کے متعلق اپنا وہ مقالہ پڑھا جس کا تعلق گوالیار ہی کے قلعے سے تھا اور جس میں ہندو مسلم اتحاد کا افسوں پھونکا گیا تھا۔

    کھانے کی میز پر باقاعدہ تعارف کی رسم مشیر احمد علوی نے ادا کی۔ خواجہ صاحب بہت محبت سے ملے۔ اپنی ریلوے ٹرین نما پان کی ڈبیا سے پان نکال کر دیا۔ دیر تک دل چسپ گفت گو فرماتے رہے اور پھر دہلی جاکر روزنامچے میں وہ تمام گفت گو درج کر دی۔

    دوسری مرتبہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ملا۔ پھر اسی ڈبیا سے پان کھلایا، یہ گفت گو مختصر تھی اور قہقہے زیادہ تھے۔ تیسری مرتبہ آپ سے اس طرح ملاقات ہوئی کہ آپ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے ایک تقریر براڈ کاسٹ کرنے لکھنؤ تشریف لا رہے تھے۔ ہم لوگ آپ کے خیر مقدم کے لیے رات ہی سے یک جا ہوگئے، اس لیے کہ صبح پانچ بجے ٹرین آتی تھی۔

    مسٹر جگل کشور مہرا اسٹیشن ڈائریکٹر، ملک حسیب احمد پروگرام ڈائریکٹر، مسٹر غلام قادر فرید، مسٹر ہنس راج کوتھرا اور میں یہ سب کے سب ایک ہی کمرے میں فرشی بستر بچھا کر رات بھر سونے کے لیے جاگتے رہے، صبح آپ کا خیر مقدم کیا گیا۔

    آپ کو اسی گھر میں مہمان بنایا گیا۔ تیسری ملاقات کے بعد ہی آپ نے دہلی جاکر اپنے اخبار ‘‘منادی’’ میں مجھے ‘‘تفریحُ الملک’’ کے خطاب سے سرفراز کر دیا اور پھر برابر شوکت تھانوی کے بجائے ‘‘مولانا تفریح الملک’’ لکھتے رہے۔

    چوتھی مرتبہ مجھے اطلاع ہوئی کہ آپ بصیغۂ راز لکھنؤ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ڈھونڈتا ہوا پہنچا۔ بیٹے کی سسرال میں یہ خواجہ سمدھی صاحب نظامی پلاﺅ، زردہ، بالائی کھا رہے تھے، میں بھی ہاتھ دھو کر بیٹھ گیا اور پھر خواجہ صاحب کو ریڈیو اسٹیشن سے ایک تقریر کے لیے آمادہ کر لیا۔

    اس مرتبہ خواجہ صاحب نے کچھ تجارتی معاملات مجھ سے طے کیے یعنی مجھ کو حکم دیا کہ میں منادی کے لیے ‘‘مرزا پھویا’’ کا فرضی روز نامچہ لکھوں اور اس کے معاوضہ میں جو کچھ مجھے دیا جائے اس سے انکار نہ کروں۔

    میں کچھ دن تک یہ خدمت انجام دیتا رہا۔ آخر فرار کی ٹھانی اور چُپ ہوکر بیٹھ رہا۔ اگر کچھ دن آدمی روپوش رہے تو پھر شرمندگی سنگین سے سنگین تر ہوجاتی ہے اور عذرِ گناہ کے امکانات دور ہٹتے جاتے ہیں۔

    چناں چہ یہی ہوا کہ اپنی کاہلی کی بدولت ایسے مشفق بزرگ، ایسے چہیتے دوست اور ایسے بے غرض مہربان کو ہاتھ سے کھو بیٹھا۔ وہ بیمار رہے، میں بے قرار رہا۔ انھوں نے آنکھوں کا آپریشن کرایا، ان کے یہاں حادثات ہوئے، مگر ہمت نہ ہوئی کہ تعزیت کروں۔ اور اب تک چوروں کی طرح مفرور ہوں۔ جُرم صرف اتنا ہے کہ مرزا پھویا نے لکھنا بند کیا۔ پھر اس کے بعد خط لکھنے کی ہمت نہ ہوئی اور اب خط لکھوں اور مراسم کی تجدید کروں تو کس منہ سے۔

    خواجہ صاحب کا میں مرید نہیں ہوں، مگر ان سے محبت ضرور کرتا ہوں۔ وہ مجھے اپنی کاکلوں اور داڑھی کے ساتھ حسین نظر آتے ہیں۔ ان میں بلا کی دل کشی ہے۔

    لوگ کہتے ہیں کہ حسن نظامی چلتے پھرتے پوسٹر ہیں اور میں کہتا ہوں کہ حسن نظامی نہ پوسٹر ہیں نہ پیر، نہ ادیب ہیں نہ مقرر، بلکہ وہ جادوگر ہیں۔ یقین نہ آتا ہو تو ان کے پاس جاکر دیکھیے۔

    کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
    جادُو وہ جو سَر چڑھ کے بولے

    (معروف ادیب اور شاعر شوکت تھانوی کی نادر روزگار شخصیت خواجہ حسن نظامی سے متعلق یادیں)