Tag: مشہور کامیڈین

  • مشہور کامیڈین کے والد کے ہاتھوں 7 افراد کیوں قتل ہوئے؟

    مشہور کامیڈین کے والد کے ہاتھوں 7 افراد کیوں قتل ہوئے؟

    مشہور کامیڈین نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے والد کے ہاتھوں 7 افراد کا قتل ہوا، نجی ٹی وی کے پروگرام میں انھوں نے یہ بات بتائی۔

    پاکستان کے معروف کامیڈین اکرم اداس ایک ٹی وی پروگرام میں بطور مہمان شریک ہوئے، جہاں انھوں نے اپنی فیملی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد بہت اچھے انسان تھے، وہ ہمیشہ کمزور لوگوں کا ساتھ دیتے اور کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے، تاہم حالات نے ان سے 7 لوگوں کا قتل کروایا۔

    اکرام اداس نے بتایا کہ وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن انسان کی زندگی میں برا وقت بتا کر نہیں آتا۔

    انھوں نے کہا کہ جب والد جیل چلے گئے تو اس کے بعد ہم نے اپنا آبائی شہر بھی چھوڑ دیا اور پھر کبھی وہاں واپس نہیں گئے۔

    کامیڈین نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد غلط کاموں میں پھنس گئے اور ایسا کیوں ہوا نہیں پتا، جس کی وجہ سے 7 لوگ ان کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے، والد جیل گئے تو کیسز لڑتے ہوئے ساری زمین جائیداد فروخت کرنا پڑی۔

    معروف اسٹیج کامیڈین نے بتایا کہ 14 سال تک ان کے والد جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے، انھیں اور بھائیوں کو بچپن سے ہی بہت محنت کرنی پڑی اور انھوں نے کافی مشکل وقت دیکھا۔

  • یومِ‌ وفات: جگدیپ نے فلم ‘شعلے’ میں ‘سورما بھوپالی’ کا مزاحیہ کردار ادا کیا تھا

    یومِ‌ وفات: جگدیپ نے فلم ‘شعلے’ میں ‘سورما بھوپالی’ کا مزاحیہ کردار ادا کیا تھا

    بالی وڈ کے معروف مزاحیہ اداکار جگدیپ گزشتہ سال 8 جولائی کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے بالی وڈ کی مشہور اور کام یاب ترین فلم شعلے کے ایک کردار سورما بھوپالی کے سبب شہرت اور مقبولیت حاصل کی تھی۔

    جگدیپ کا اصل نام سّید اشتیاق احمد جعفری تھا۔ وہ 29 مارچ 1939ء کو مدھیہ پردیش کے شہر داتیا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے کیریئر کا آغاز بطور چائلڈ آرٹسٹ فلم افسانہ سے ہوا اور بعد میں‌ جگدیپ کے نام سے انھیں کئی فلموں میں اہم اور نمایاں کردار نبھانے کا موقع ملا۔ انھوں نے چار سے سو زائد فلموں‌ میں کام کیا جن میں‌ سے اکثر سپرہٹ اور یادگار ثابت ہوئیں۔

    1957ء میں بمل رائے کی فلم دو بیگھا زمین نے ان کے کیریئر کو مہمیز دی اور یہاں سے وہ ایک کامیڈین کے طور پر سامنے آئے۔ انھوں‌ نے 1975ء میں فلم شعلے میں جگدیپ نے سورما بھوپالی کا کردار اس خوبی سے نبھایا کہ لوگوں کے دلوں میں‌ اتر گئے۔ کہتے ہیں ان کے اس کردار نے گویا بھوپال کا کلچر ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔ اپنے اس کردار میں انھوں نے اپنے اندازِ تخاطب سے جان ڈالی تھی اور ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنا رول نبھانے کے لیے جس قدر محنت کی تھی، اسی کی بدولت یہ کردار ناقابلِ فراموش ثابت ہوا۔ سورما بھوپالی کا یہ کردار لکڑی کا ایک تاجر ہے جو بہت زیادہ پان کھاتا ہے اور مخصوص لب و لہجے میں‌ بات کرتا ہے۔

    جگدیپ کی یادگار فلموں میں شعلے کے علاوہ انداز اپنا اپنا، افسانہ، آر پار اور دیگر شامل ہیں۔ انھیں آخری بار 2017ء میں فلم ’مستی نہیں سستی‘ میں دیکھا گیا تھا۔

    جگدیپ کے تین بیٹے جاوید جعفری، نوید جعفری اور حسین جعفری بھی بالی وڈ سے وابستہ ہیں۔ جاوید جعفری معروف کامیڈین، میزبان، اداکار اور ماہر ڈانسر ہیں۔

  • ہر دل عزیز معین اختر کو مداحوں سے بچھڑے دس برس بیت گئے

    ہر دل عزیز معین اختر کو مداحوں سے بچھڑے دس برس بیت گئے

    ہر دل عزیز معین اختر کو دنیا سے رخصت ہوئے دس برس بیت گئے۔ آج کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے اس فن کار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ٹیلی ویژن ڈراموں اور کامیڈی شوز میں اپنی لاجواب اداکاری اور مختلف پروگراموں کی میزبانی کے دوران معیاری اور شائستہ مذاق، طنز و مزاح اور کاٹ دار جملوں سے حاضرین اور ناظرین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے اور انھیں قہقہے لگانے پر مجبور کردینے والے معین اختر نے ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں کے علاوہ فلم میں بھی کام کیا۔

    وہ پاکستان میں پرفارمنگ آرٹ کے بادشاہ مانے جاتے ہیں جن کا خاص طور پر نقّالی کے فن میں کوئی ثانی نہ تھا۔ معین اختر نے اپنی اسی مہارت کو اپنی شناخت کا ذریعہ بنایا اور صدا کاری سے ادا کاری تک گویا شہرت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    معین اختر نے اسٹیج سے ریڈیو تک، ریڈیو سے ٹیلی ویژن اور پھر فلم نگری تک سیکڑوں بہروپ دھارے، کئی کردار نبھائے جو آج بھی ذہن و دل پر نقش ہیں۔

    معین اختر ایک ورسٹائل فن کار تھے جنھوں‌ نے اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر کامیڈین کے طور پر اپنی شناخت بنانے کے ساتھ سنجیدہ کردار بھی نہایت خوبی سے نبھائے۔ انھوں نے گلوکار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کو آزمایا۔

    معین اختر کا تعلق کراچی سے تھا جہاں انھوں نے 24 دسمبر 1950ء کو آنکھ کھولی۔ وہ سولہ سال کے تھے جب اسٹیج پر پہلی پرفارمنس دی اور حاضرین کے دل جیت لیے۔ ٹیلی ویژن وہ میڈیم تھا جہاں قدم رکھتے ہی گویا ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 70 کی دہائی میں معین اختر پاکستان بھر میں پہچان بنا چکے تھے۔

    طنز و مزاح پر مبنی ان کے پروگراموں میں ففٹی ففٹی، لوز ٹاک، ہاف پلیٹ، اسٹوڈیو ڈھائی کو بے حد پسند کیا گیا جب کہ روزی وہ ٹیلی پلے تھا جس میں انھیں مس روزی کے روپ میں شان دار پرفارمنس کی وجہ سے بہت پذیرائی ملی۔ انتظار فرمائیے، یس سر نو سر اور عید ٹرین بھی معین اختر کے یادگار کھیل ہیں۔

    معین اختر کا فنی سفر 45 سال پر محیط ہے جو ہر لحاظ سے شان دار اور متأثر کن رہا۔

    پرفارمنگ آرٹ کے اس بے تاج بادشاہ نے کئی معتبر ایوارڈز اپنے نام کیے اور انھیں سرحد پار بھی بہت پسند کیا گیا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے معین اختر کو ستارۂ امتیاز اور تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    2011ء میں معین اختر کے ساتھ ہی گویا فنِ نقّالی اور اسٹیج پرفارمنس کا ایک عہد بھی رخصت ہوگیا۔

  • اپنے خواب کا تعاقب کرتے جیک لیمن کی کہانی

    اپنے خواب کا تعاقب کرتے جیک لیمن کی کہانی

    جیک لیمن 8 سال کا تھا جب اس کے دل میں فلم میں کام کرنے کی امنگ پیدا ہوئی اور شہرت حاصل کرنے کی خواہش نے جنم لیا۔ وہ ہیرو بننے کا خواب دیکھنے لگا تھا۔

    اس کا تعلق امریکا سے تھا، جہاں اس نے 8 فروری 1925ء کو آنکھ کھولی۔ اسکول گیا تو وہاں‌ نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ٹیبلو اور اسٹیج ڈراموں میں حصّہ لینا شروع کر دیا۔ اس طرح اسے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا اور اس کا اعتماد بھی بڑھا۔ جب اس نے ہاورڈ کالج میں‌ قدم رکھا، تو وہاں ڈرامیٹک کلب کا وائس پریذیڈنٹ بنا دیا گیا۔ بعد کے برسوں میں اسے ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور اس کے بچپن کا خواب پورا ہوا۔ آج اسے ہلکی پھلکی مزاحیہ فلموں کے شان دار ہیرو کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

    جیک لیمن کی فلمیں کلاسیک میں شمار کی جاتی ہیں۔ اس مشہور اور باکمال اداکار کی فلمیں سوشل کامیڈی پر مبنی ہوتی تھیں۔ اس نے برطانیہ اور امریکا میں شائقین کو نہ صرف اپنی پرفارمنس سے محظوظ اور متاثر کیا بلکہ ہالی وڈ کو بھی متعدد باکمال فن کار دیے۔ اسے مزاحیہ فن کاروں کی فہرست میں‌ نمایاں مقام حاصل ہے جن کی پرفارمنس سے بعد میں‌ آنے والوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

    لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سمیت جیک لیمن نے ہالی وڈ کے کئی اعزازات اپنے نام کیے۔ 1959ء میں Some Like It Hot منظرِ عام پر آئی اور باکس آفس پر دُھوم مچا دی، یہ جیک لیمن کے کیریئر کی کام یاب ترین کامیڈی فلم تھی۔

    جیک کی ایک اور ایوارڈ یافتہ فلم ’’دی اپارٹمنٹ‘‘ 1960ء میں ریلیز ہوئی جو امریکی کامیڈی فلم تھی۔ اس فلم میں جیک سولو ہیرو کی حیثیت سے پردے پر نظر آیا اور اس میں ہیروئن کا کردار فلم اسٹار شرلے میکلین نے نبھایا تھا جو نہایت خوب صورت اور باصلاحیت فن کار تھی۔

    جیک کی اس فلم نے دس اکیڈمی ایوارڈز کے لیے نام زدگی حاصل کی اور اس میں سے پانچ ایوارڈ لے اڑی۔ اس کے علاوہ جیک لیمن کی چند مشہور فلموں میں مسٹر رابرٹ، دی اپارٹمنٹ، اوڈ کپل شامل ہیں۔ اس فن کار کی ڈائیلاگ ڈلیوری بہت زبردست تھی اور اس حوالے سے جیک کو بہت سراہا جاتا تھا۔

    کامیڈی فلموں اس ہیرو کی آخری فلم 1991ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ وہ 29 جون 2001ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔

  • موقع شناس جیری لیوس کی کام یابیوں کی کہانی

    موقع شناس جیری لیوس کی کام یابیوں کی کہانی

    جیری لیوس کو ہالی وڈ کا صفِ اوّل کا مزاحیہ اداکار کہا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسا فن کار تھا جو موقع شناس تھا اور اس کی ایک خوبی بَروقت فیصلہ کرنا تھا۔ جیری نے جہاں اداکاری کے شعبے میں‌ اپنی صلاحیتوں کی بنا پر نام کمایا، وہیں اپنی شخصی خوبی کی بنیاد پر مالی فوائد بھی حاصل کیے۔

    جیری لیوس نیو جرسی میں 1926ء کو پیدا ہوا۔ اوائلِ زمانہ میں اس نے ڈین مارٹن کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ شروع کیا۔ ڈین مارٹن ایک سنگر اور کامیڈین تھا اور یہ دونوں نائٹ کلبس کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے۔ ان کی جوڑی شائقین میں مقبول ہوتی چلی گئی اور ایک وقت آیا جب وہ فلم نگری تک پہنچ گئے۔ اس جوڑی کی پہلی فلم ’’مائی فرینڈ ارما‘‘ ریلیز ہوئی تو خود ان کے وہم و گمان میں‌ نہ تھا کہ وہ راتوں رات اسٹار بن جائیں گے۔ اس فلم نے زبردست بزنس کیا۔

    اس فلم کے بعد جیری لیوس اور ڈین مارٹن کے لیے ہالی وڈ سے آفرز کا گویا ڈھیر لگ گیا اور ان کی مزید فلمیں باکس آفس پر کام یابی سے ہمکنار ہوئیں۔ لیوس اور مارٹن خوب رُو اور باصلاحیت فن کار تھے۔ یہ جوڑی آٹھ سال تک برقرار رہی اور پھر جیری لیوس نے اپنا راستہ جدا کرلیا اور کامیڈی فلمیں پروڈیوس کرنے لگا۔

    وہ نہایت باصلاحیت تھا اور اس نے جان لیا تھاکہ وہ خود ہی نہ صرف شائقین کو متوجہ رکھ سکتا ہے بلکہ فلمی دنیا سے مالی فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔ 1956 میں‌ مارٹن سے الگ ہونے کا فیصلہ کرنے کے بعد جیری اپنی فلمیں لکھنے کے علاوہ ہدایت کار بھی بن گیا اور باکس آفس سے فلم کی آمدنی کا ساٹھ لینا شروع کردیا۔ فلم ساز اس کی مقبولیت کے سبب اس کے ناز نخرے برداشت کرتے تھے۔ جیری لیوس کا نام ہی گویا کام یابی کی ضمانت تھا۔

    جیری نے اپنی فلموں‌ میں‌ کامیڈی رول نبھانے کا سلسلہ جاری رکھا اور ناٹی پروفیسر، بیل بوائے جیسی کام یاب فلمیں ہالی وڈ کو دیں۔ فلم اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں متعدد اعزازات اپنے نام کرنے والے جیری لیوس نے زندگی کی 91 بہاریں‌ دیکھیں۔

    فلموں کا یہ مشہور کامیڈین، کام یاب فلم ڈائریکٹر، پروڈیوسر، اسکرین رائٹر اور گلوکار 2017 میں ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گیا۔