Tag: مشہور کتابیں

  • وہ کتاب جسے لائبریری سے ہٹا دیا گیا!

    وہ کتاب جسے لائبریری سے ہٹا دیا گیا!

    بحیثیت ادیب اور شاعر تو آرسن ہاؤسے کی تخلیقات اسے کوئی مقام و مرتبہ نہیں دلوا سکیں، لیکن دنیا بھر میں اس کے ایک ناول کا تذکرہ اس لیے ہوا کہ اس کی جلد بندی کے لیے انسانی جسم کی کھال استعمال کی گئی تھی۔

    ہاؤسے کا تعلق فرانس سے تھا جہاں وہ 1815ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک اسکالر کے طور پر بھی فرانس میں پہچانا گیا۔ ہاؤسے 26 فروری 1896ء کو انتقال کر گیا تھا۔ اس نے کئی ناول لکھے اور مختلف موضوعات پر مضامین رقم کیے جن پر مشتمل ایک کتاب 1880ء کے وسط کی ہے اور یہی وہ کتاب ہے جس کی جلد انسانی کھال سے تیار کی گئی۔

    یہ کتاب مصنف آرسن ہاؤسے نے اپنے دوست ڈاکٹر لدووک باؤلینڈ کو دے دی تھی۔ اس کا عنوان Des destinées de l’âme (روح کی تقدیر) تھا۔ یہ کتاب 1930 میں ہیوٹن لائبریری کی زینت بن گئی۔

    2014 میں انکشاف ہوا کہ یہ انسانی کھال سے مجلّد ہے اور یہ انکشاف دنیا کی مشہور اور معتبر ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ”ہارورڈ یونیورسٹی“ کی جانب سے کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ ان کے پاس لائبریری میں ایک ایسی کتاب موجود ہے کہ جس کی جلد پر ایک عورت کی کھال چڑھائی گئی ہے۔یونیورسٹی میں اس کتاب کا معائنہ سائنسدانوں نے کیا اور تصدیق کی کہ اس کی جلد انسانی کھال سے بنی ہوئی ہے۔

    یہ کام مصنف نے نہیں کیا بلکہ ہاؤسے تو یہ کتاب اپنے دوست کو سونپ کر چند سال بعد ہی چل بسا تھا۔ اس کی جلد ہاؤسے کے دوست ڈاکٹر باؤلینڈ نے بنوائی تھی اور اس کے لیے ایک ایسی ذہنی مریضہ کی پیٹھ کی کھال استعمال کی گئی جس کی موت واقع ہوگئی تھی اور لاش کو لاوارث قرار دے دیا گیا تھا۔

    یہ کوئی پہلی کتاب نہیں جس کی جلد انسانی کھال سے تیار کردہ ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ جلد بندی کے فن میں انسانی کھال کا استعمال سولھویں صدی کے اوائل تک کیا جاتا رہا اور اس کے لیے ’اینتھروپوڈرمک ببلیوپیگی‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ ماہرین کے مطابق انیسویں صدی میں ایسے حوالے ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پھانسی پانے والے افراد کے جسم طبی تجزیوں کے لیے بھیجے جاتے تھے اور اس دوران ان کے جسم کی جو کھال الگ کر لی جاتی تھی، اسے جلد سازی کے لیے
    بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

    ہاؤسے کی کتاب ’روح کی تقدیر‘ میں مصنف کے دوست ڈاکٹر باؤلینڈ کا لکھا ہوا ایک نوٹ بھی ملا جس میں لکھا تھا کہ اس کتاب کی زیبائش کو بڑھانے کے لیے اسے کسی بھی مہر کے زیور سے آراستہ کرنے کی ضرورت نہیں۔نوٹ میں مزید کہا گیا کہ ’میں نے انسانی جلد کا یہ ٹکڑا ایک عورت کی پیٹھ سے لیا تھا۔‘ اس کے مطابق ’انسانی روح پر لکھی گئی یہ کتاب اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی جلد بھی انسانی کھال سے ہی بنائی جائے۔‘ یہ واضح ہے کہ مریضہ سے اجازت لیے بغیر اس کے جسم کا یہ حصہ لے کر اسے کتاب کی جلد بندی میں استعمال کیا گیا تھا اور اب اسے لائبریری سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    ہاؤسے کی یہ کتاب دراصل روح اور حیات بعد از مرگ کے مسائل پر اس کے خیالات کی عکاس ہے۔

  • چند مقبول کتابیں جو کاروباری افراد کی راہ نمائی کرتی ہیں!

    چند مقبول کتابیں جو کاروباری افراد کی راہ نمائی کرتی ہیں!

    امریکا کے صدر روز ویلٹ کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہی دن میں کئی کتابیں پڑھ لیتے تھے۔ اپنی آپ بیتی میں انھوں نے اپنے ذوقِ کتب بینی اور صبح سے شام گئے تک کئی کتابیں ختم کرنے کی خصوصیت کا بھی ذکر کیا ہے۔

    آج وقت کی کمی اور ارتکازِ توجہ ایک عام مسئلہ ہے اور ایسا کرنا ہماری نظر میں ناممکن ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے بعض لوگوں نے اس عادت کے حوالے سے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہو، لیکن یہ سچ ہے کہ دنیا کی مشہور اور اپنے شعبے میں کام یاب تصوّر کی جانے والی کئی شخصیات کو کتب بینی کا شوق اور مطالعہ کرنے کی عادت رہی ہے۔ دنیا کے کام یاب ترین لوگ باقاعدگی سے کتابیں پڑھتے ہیں۔ یہاں ہم اُن کتابوں کا تذکرہ کررہے ہیں جنھیں پڑھ کر آپ یہ جان سکتے ہیں کہ کاروبار کو بتدریج وسعت دیتے ہوئے منافع بخش بنانے اور ہر سطح پر نمایاں ہونے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ یہ کتابیں بتاتی ہیں‌ کہ کیسے کسی کمپنی کا نام اور ساکھ بنائی جاسکتی ہے، مسابقت کی دوڑ کس طرح جیتی جائے اور کاروباری دنیا میں‌ مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے جدید رجحانات سے کیسے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

    Lies, Damned Lies, and Marketing
    یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو کاروبار کررہے ہیں اور اپنے برانڈ یا مصنوعات کی مؤثر تشہیر اور وسیع پیمانے پر فروخت چاہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کاروبار کی کام یابی میں مارکیٹنگ کا عمل دخل کلیدی حیثیت کا حامل ہے، لیکن اتل منوچا سمجھتے ہیں‌ کہ مارکیٹنگ کے ساتھ کچھ دوسری چیزیں بھی آپ کے کاروبار کو وسعت اور نفع بخش بناتی ہیں۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں‌ انہی باتوں پر روشنی ڈالی ہے۔

    مصنّف کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں مختلف عہدوں پر کام کرچکے ہیں اور اپنی کتاب میں انھوں‌ نے بھرپور تشہیر کے باوجود توقع کے مطابق نتائج کے حصول میں‌ ناکامی پر بات کی ہے۔

    The Exit-Strategy Playbook
    اس کتاب کے مصنّف ایڈم کوفی ہیں‌۔ انھوں‌ نے کسی بھی کمپنی کو منافع بخش بنانے اور خاص سطح پر لا کر اسے فروخت کرنے کے بنیادی قوانین پیش کیے ہیں۔
    دنیا میں‌ بہت سے کاروباری افراد ایسے بھی ہیں‌ جو چند سال بعد ایک منافع بخش کمپنی کو چھوڑ کر نئے کاروبار کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ بعض‌ اوقات وہ ایسا کسی ذاتی مسئلے، کاروباری الجھنوں کی وجہ سے کرتے ہیں اور کبھی انھیں‌ اپنی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ یہ لوگ چیلنجز کا سامنا کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ اپنے منافع بخش کاروبار کو کسی بھی دل چسپی رکھنے والے کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں۔ مصنّف نے اس کتاب میں‌ بتایا ہے کہ ایسے بزنس مین کن اصولوں اور طریقوں پر عمل کرکے اپنی کمپنی کو کسی بھی سرمایہ کار کے لیے زیادہ پُرکشش بنا کر اسے خریدنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔
    ایڈم مرفی کی یہ کتاب بتاتی ہے کہ کوئی بھی کاروباری ادارہ کس طرح‌ ایسا شان دار فریم ورک ترتیب دے سکتا ہے کہ اسے کوئی بھی خریدنے کو تیّار ہو۔

    Brands Don’t Win
    اسٹین برنارڈ کی یہ کتاب بتاتی ہے کہ وہی کمپنیاں اپنے اپنے شعبے میں‌ نمایاں ہوتی ہیں جو کسی طرح دوسروں سے مختلف انداز اپناتی ہیں، اور غیر روایتی طرز پر کام کرتے ہوئے اپنا مقام بناتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اسٹار بکس اور پیلوٹون نے بھی اپنے اپنے شعبہ کے متعین کردہ اصولوں اور مخصوص طریقۂ کار کے تحت کاروبار کیا ہوتا تو وہ کبھی نمایاں نہ ہوتیں۔

    Detox
    اس کتاب کی مصنّف میلنی پمپ ہیں جو ان تمام عناصر، اجزاء، رویّوں اور ثقافتی رجحانات کی نشان دہی کرتی ہیں جو کسی بھی کمپنی کو کام یابی سے دور کرسکتی ہیں۔ وہ ان عناصر اور مختلف عوامل کو ترقی کی راہ میں‌ رکاوٹ اور انفرادیت کے عمل میں زہر جیسا قرار دیتی ہیں۔

  • ہندو لڑکی چندراوتی کے عاشق کی مشہور آپ بیتی

    ہندو لڑکی چندراوتی کے عاشق کی مشہور آپ بیتی

    ’’شہاب نامہ‘‘ ایک اہم اور دل چسپ آپ بیتی ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس میں بیسویں صدی کے تمام اہم سیاسی و تاریخی انقلابات کو قید کیا گیا ہے اور نسلِ انسانی پر ان انقلابات کے کیا اثرات مرتب ہوئے اس کی بھی مکمل تصویر کشی کی گئی ہے۔

    یہ مصنف کی زندگی کے شب و روز کے حالات و واقعات کی ایک دل چسپ کہانی بھی ہے اور ان کے عہد کی ایک تلخ داستان بھی۔ اس کے اوراق معلومات افزا بھی ہیں اور درد انگیز بھی۔ اس کے صفحات تقسیم ہند کے دوران کے اُن وحشت ناک اور خوں ریز فسادات کی تصویر کشی سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے روئے زمین پر انسانیت کو ہمیشہ کے لیے شرمسار کر کے چھوڑا۔

    اس کے مطالعہ سے 1947ء سے قبل کے ہندوستان کی سیاسی و سماجی صورتِ حال کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اس میں ایک طرف حصول پاکستان کے سلسلے میں کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین سیاسی رسہ کشی کا عالمانہ تجزیہ کیا گیا ہے وہیں دوسری طرف قیام پاکستان کے بعد اس کی ابتدائی مشکلات اور وہاں کے سیاست دانوں کے بارے میں دل چسپ معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر اور اس کی تاریخ پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ غرض اس کتاب میں مختلف موضوعات کو احاطۂ تحریر میں لیا گیا ہے لیکن قدرت اللہ شہاب نے ان تمام موضوعات کو آپ بیتی کی ہئیت میں اپنی ذات کے وسیلے سے بیان کیا ہے اور یہی اس خود نوشت سوانح عمری کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

    قدرت اللہ شہاب پاکستان کے نام ور سول سرونٹ اور ادیب تھے جو 1917ء کو گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ انڈین سول سروس میں شامل رہے اور قیام پاکستان کے بعد متعدد اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ یحییٰ خان کے دور حکومت میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں انہوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شر انگیزیوں اور زیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل تھا۔ وہ 1986ء میں وفات پاگئے تھے۔

    شہاب نامہ کا آغاز ’’اقبالِ جرم‘‘ سے ہوتا ہے۔ یہ کتاب کا ابتدائیہ ہے جس میں قدرت اللہ شہاب نے اپنی آپ بیتی کے حوالے سے چند اہم معلومات بہم پہنچائی ہیں اور اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ’’شہاب نامہ‘‘ کا بنیادی مقصد بت شکنی یا بت تراشی کے بجائے ان واقعات، مشاہدات اور تجربات کی روداد کو بے کم و کاست بیان کرنا ہے جنہوں نے انھیں متاثر کیا۔ قدرت اللہ شہاب اپنے اس دعویٰ پر پورا اترتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پوری خود نوشت میں کہیں بھی اس بات کا شائبہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی بت شکنی یا بت تراشی کررہے ہیں۔

    قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت سوانح عمری کا باقاعدہ آغاز اپنے بچپن کی حسین یادوں سے کیا ہے۔ اس میں ایسے نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں جو ان کی آنے والی زندگی کا پتہ دیتے ہیں۔ اس میں سطحیت اور قناعت پسندی کے بجائے ارتقا کے عناصر نمایاں ہیں اور ایک اونچی پرواز بھرنے کا جذبہ بھی موجزن ہے۔ یہ بچپن شرارتوں، شوخیوں، بے باکیوں، نادانیوں اور رومان بھرے جذبات سے بھی عبارت ہے۔

    قدرت اللہ شہاب کا بچپن جموں شہر کے اسکولوں اور وہاں کے گلی کوچوں میں اپنے ہم نواؤں کے ساتھ عیش وعشرت میں گزرا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جموں و کشمیر ڈوگرا حکمرانوں کے زیرِ نگیں تھا اور ریاست کے مسلمانوں کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے جموں شہر کے گلی کوچوں، وہاں کے بازاروں نیز ان اسکولوں اور کالجوں جہاں انھوں نے تعلیم حاصل کی تھی، کا ذکر جس دل چسپ انداز میں کیا ہے وہ جموں سے ان کی گہری عقیدت اور محبت کا مظہر ہے۔

    ’’شہاب نامہ ‘‘ کے ابتدائی ابواب میں دو کہانیاں ایک ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔ ایک کا تعلق مصنف کی نجی زندگی سے ہے اور دوسری اس وقت کے جموں و کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں کہانیاں دل چسپ بھی ہیں اور معلومات افزا بھی۔ پہلی کہانی میں مصنّف نے اپنے بچپن کے احوال و کوائف اور تعلیمی زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانی پس منظر کو بھی دل چسپ پیرائے میں بیان کیا ہے، نیز بچپن کی ایک ناکام محبت کی روداد کو بھی اپنی تمام تر کیفیات کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اتارا ہے۔ اس کہانی میں مصنف نے اپنے والد محمد عبداللہ کا بھی ایک خوب صورت اور جاذب نظر خاکہ کھینچا ہے۔

    جموں و کشمیر کا سیاسی و سماجی منظر نامہ پیش کرنے کے بعد قدرت اللہ شہاب نے’’چندراوتی‘‘ کے عنوان کے تحت گورنمنٹ ڈگری کالج لاہور کا ذکر کیا ہے جہاں سے انھوں نے ایم۔ اے کیا تھا۔

    اس باب کا مرکزی موضوع قدرت اللہ شہاب اور چندراوتی کی عشقیہ داستان ہے۔چندراوتی ایک ہندو لڑکی تھی جس کے عشق میں قدرت اللہ شہاب مبتلا ہو گئے تھے۔ وہ لیڈی میکلیکن کالج میں پڑھتی تھی۔ دونوں کی پہلی ملاقات پنجاب پبلک لائبریری، لاہور میں ایک ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو دھیرے دھیرے عشق کے گہرے رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ لیکن یہ عشق ابھی پروان ہی چڑھ رہا تھا کہ اس پر اداسی کے سائے لہرانے لگے۔ چندراوتی اچانک ٹی۔ بی جیسی بیماری کا شکار ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں قدرت اللہ شہاب کو غمِ ہجر کے دائمی درد سے ہمکنار کر کے دنیائے فانی سے کوچ کر گئی۔

    قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ‘‘ میں خارجی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی داخلی دنیا کی بھی تصویر کشی کی ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے ان واقعات کو بھی سچائی اور دیانت داری کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اتارا ہے جن کو عام طور پر خود نوشت سوانح نگار مصلحتاً صیغۂ راز میں رکھتے ہیں یا اپنے گرد و پیش کی سماجی اور تہذیبی قدروں کو مدِنظر رکھ کر رمز و کنایہ کا سہارا لے کر بیان کرتے ہیں لیکن قدرت اللہ شہاب نے اپنی زندگی کے ایسے نازک معاملات اور سر بستہ اسرار و رموز کو بے کم و کاست بیان کیا ہے۔ انھوں نے نہ رمز و کنایہ کا سہارا لیا ہے، نہ تشبیہات و استعارات کا اور نہ اپنے معیار و مرتبے کی پروا کی ہے جو عام طور پر ایسے واقعات کو بیان کرنے میں رکاوٹ حائل کرتا ہے۔

    قدرت اللہ شہاب نے گورنمنٹ ڈگری کالج، لاہور سے ایم۔اے کر نے کے بعد 1940 میں آئی۔ سی۔ ایس کا امتحان پاس کر کے جموں و کشمیر کا پہلا مسلم آئی۔ سی۔ ایس افسر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ انھوں نے اس کام یابی کا ذکر اپنی آپ بیتی کے ایک مخصوص باب میں ’’آئی۔ سی۔ ایس میں داخلہ‘‘ کے عنوان کے تحت بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ اس باب کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں انھوں نے سر گورڈن ایرے، سرعبدالرحمٰن اور ڈاکٹر سر رادھا کرشنن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو آئی۔ سی۔ ایس انٹرویو بورڈ کے ممبر تھے۔

    قدرت اللہ شہاب نے اپنی ملازمت کا باقاعدہ آغاز بھاگلپور، بہار کے اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے کیا۔ انھوں نے بھاگلپور میں اپنے قیام کے دوران کی روداد کو ’’بھاگلپور اور ہندو مسلم فسادات ‘‘ کے عنوان کے تحت بڑے دل چسپ انداز میں تحریر کیا ہے۔ یہاں سے ان کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے اور ان کی خود نوشت سوانح عمری میں بھی ایک نیا موڑ آتا ہے۔ یہی وہ مقام بھی ہے جہاں سے ’’شہاب نامہ‘‘ کی فضاؤں پر سیاسی اور تاریخی عنصر کا گہرا رنگ بھی نمایاں ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

    قدرت اللہ شہاب نے تقسیم ہند کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے حالات و واقعات کا بڑے عالمانہ اور دانش ورانہ انداز میں تجزیہ بھی کیا ہے۔ یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ہر انسان کی طرح ان کا بھی اپنا ایک نقطۂ نظر ہے اور جس کا انھیں حق بھی حاصل ہے۔

    دیکھا جائے تو ’’شہاب نامہ‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جو قاری کو پاکستان کے ایوانِ اعلیٰ کے اندر کے ماحول سے متعارف کراتی ہے اور اس کے سامنے ایسے راز کھول کر رکھ دیتی ہے جن تک اس کی رسائی ممکن نہ تھی۔ یہ پاکستانی سیاست کے در پردہ رازوں کی سچی عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ اس عہد میں پاکستان کے ایوانِ حکومت میں ہونے والی ان خفیہ سیاسی ریشہ دوانیوں کی بھی چشم دید داستان ہے جنہوں نے سیاسی، سماجی، معا شی اور دفاعی معاملات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے جغرافیہ پر بھی اپنے منفی اثرات مرتب کیے۔

    انھوں نے حکمرانوں کے دل چسپ خاکے بھی کھینچے ہیں اور ان کے مزاج، کردار، عادات و اطوار، مذہبی عقائد اور گھریلو ماحول کے ساتھ ساتھ ان کی عملی زندگی کے خوب صورت نقش بھی ابھارے ہیں۔ نیز صحافت، سیاست، تعلیم، ادب، بیورو کریسی، معاشیات،خارجہ پالیسی اور عوام سے متعلق ان کے نظریات کو بھی مثالوں اور حوالوں کے ساتھ احاطۂ تحریر میں لیا ہے۔

    قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں تقسیم ہند، کشمیر اور پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز کے حوالے سے جو حالات و واقعات تحریر کیے ہیں وہ اخباری رپورٹوں، سنی سنائی باتوں یا محض کسی جذباتی و انسانی وابستگی کے بجائے آنکھوں دیکھے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ براہ راست مشاہدات پر مبنی ہیں۔

    شہاب نامہ کی دنیا میں اگرچہ بہت وسعت، گہرائی، گیرائی ہے، موضوعات کا تنوع ہے، ضخامت ہے لیکن زبان ایسی دل کش ہے کہ پڑھنے والا اس کے سحر میں اس قدر ڈوب جاتا ہے کہ اسے کتاب کے اختتام تک اس وسعت، گہرائی، گیرائی، موضوعات کے تنوع اور ضخامت کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی الفاظ، تشبیہات، استعارات اور محاورات کے مناسب استعمال سے پیدا ہونے والی سحر خیزی اس کا احساس ہونے دیتی ہے۔

    ’’شہاب نامہ‘‘ میں ایسی تحریریں بھی شامل کی ہیں جن کو آپ بیتی میں شامل کرنے کا نہ تو کوئی جواز بنتا تھا اور نہ ہی اس کے امکانات موجود تھے۔ یہ وہ تحریریں ہیں جو ان کی مشہور تخلیقات پر اردو کے نامور ادیبوں اور ناقدین نے لکھی ہیں۔

    ہر چند کہ اس کتاب کے مواد اور قدرت اللہ شہاب کے نظریات کی مخالفت میں بہت کچھ لکھا بھی گیا لیکن اس کے باوجود اس کی مقبولیت میں کبھی کمی نہ آئی۔ اردو خود نوشت سوانح نگاری کی تاریخ میں موضوعات کے تنوع کے لحاظ سے اس نوع کی خود نوشتیں اگرچہ نایاب تو نہیں لیکن کم یاب ضرور ہیں۔

  • اچھی کتاب…

    اچھی کتاب…

    پڑھنے کی عادت بہت اچھی ہے لیکن پڑھنے پڑھنے میں فرق ہے اور کتاب کتاب میں فرق ہے۔

    میں ایک بدمعاش اور پاجی آدمی سے باتیں یا بے تکلّفی کرتے ہوئے جھپکتا ہوں اور آپ بھی میرے اس فعل کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں لیکن میں اس سے زیادہ تر بُری اور پاجی کتاب پڑھتا ہوں، نہ آپ کو ناگوار گزرتا ہے اور نہ مجھے ہی کچھ ایسی شرم آتی ہے بلکہ اس کی بات شربت کے گھونٹ کی طرح حلق سے اُترتی چلی جاتی ہے۔ پاجی آدمی کی شاید کوئی حرکت ناگوار ہوتی اور میں اس سے بیزار ہو جاتا مگر یہ چپکے چپکے دِل میں گھر کر رہی ہے اور اس کی ہر بات دلربا معلوم ہوتی ہے۔

    اگر میں کسی روز بازار جاؤں اور چوک میں سے کسی محض اجنبی شخص کو ساتھ لے آؤں اور اس سے بے تکلفی اور دوستی کی باتیں شروع کر دوں اور پہلے ہی روز اس طرح اعتبار کرنے لگوں جیسے کسی پرانے دوست پر، تو آپ کیا کہیں گے؟ لیکن ریل اگر کسی اسٹیشن پر ٹھہرے اور میں اپنی گاڑی سے اُتر کر سیدھا بک اسٹا ل (کتب فروش کی الماری) پر پہنچوں اور پہلی کتاب جو میرے ہاتھ لگے وہ خرید لاؤں اور کھول کر شوق سے پڑھنے لگوں تو شاید آپ کچھ نہ کہیں گے۔ حالانکہ یہ فعل پہلے فعل سے زیادہ مجنونانہ ہے۔

    میں ایک بڑے شہر یا مجمع میں جاتا ہوں۔ کبھی ایک طرف نکل جاتا ہوں اور کبھی دوسری طرف جا پہنچتا ہوں اور بغیر کسی مقصد کے اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا ہوں۔ افسوس کہ باوجود آدمیوں کی کثرت کے میں وہاں اپنے تئیں اکیلا اور تنہا پاتا ہوں اور اس ہجوم میں تنہائی کا بار اور بھی گراں معلوم ہوتا ہے۔ میرے کتب خانے میں بیسوں الماریاں کتابوں کی ہیں میں کبھی ایک الماری کے پاس جا کھڑا ہوتا ہوں اور کوئی کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں۔ میں اس طرح سیکڑوں کتابیں پڑھ جاتا ہوں لیکن اگر میں غور کروں تو دیکھوں گا کہ میں نے کچھ بھی نہیں پڑھا۔ اس وقت میری آوارہ خوانی مجھے ستائے گی اور جس طرح ایک بھرے پرے شہر میں میری تنہائی میرے لیے وبال ہوگی۔ اسی طرح اس مجمع شرفا و علما ادبا شعرا میں یکہ و تنہا و حیران ہوں گا۔

    بغیر کسی مقصد کے پڑھنا فضول ہی نہیں، مضر بھی ہے۔ جس قدر ہم بغیر کسی مقصد کے پڑھتے ہیں اسی قدر ہم ایک بامعنی مطالعہ سے دور ہوتے جاتے ہیں۔

    ملٹن نے ایک جگہ کہا ہے ’’اچھی کتاب کا گلا گھونٹنا ایسا ہی ہے جیسا کسی انسان کا گلا گھوٹنا۔‘‘ جس سے اس کی مراد یہ ہے کہ فضول اور معمولی کتابوں کے پڑھنے میں عزیز وقت ضائع کرنا اچھی کتابوں کا گلا گھوٹنا ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں وہ ہمارے لیے مردہ ہے۔ لو گ کیوں فضول، معمولی اور ادنیٰ درجے کی کتابیں پڑھتے ہیں، کچھ تو اس لیے کہ ان میں نیا پن ہے، کچھ اس خیال سے کہ ایسا کرنا داخل فیشن ہے اور کچھ اس غرض سے کہ اس سے معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

    پہلی دو وجہیں تو طفلانہ ہیں، تیسری وجہ بظاہر معقول ہے لیکن اس کے یہ معنٰی ہوں گے کہ ہم معمولی، ذلیل اور ادنیٰ معلومات کو اپنے دماغ میں بھرتے ہیں تاکہ اعلیٰ معلومات کی گنجائش باقی نہ رہے۔ اگر ہم اپنے مطالعہ کا ایک سیاہہ تیار کریں اور اس میں صبح و شام تک جو کچھ پڑھتے ہیں لکھ لیا کریں اور ایک مدّت کے بعد اسے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہم کیا کیا کر گزرے۔ اس میں ہم بہت سی ایسی تحریریں پائیں گے جن کا ہمیں مطلق خیال نہیں۔

    بہت سے ایسے ناول ہوں گے جس کے ہیروؤں تک کے نام یاد نہیں۔ بہت سے ایسی کتابیں ہیں کہ جن کی نسبت اگر ہم سے کوئی کہتا کہ یہ ہم پڑھ چکے ہیں تو ہمیں کبھی یقین نہ آتا۔ بہت سی ایسی تاریخیں، سفر نامے، رسالے وغیرہ ہوں گے جنھیں پڑھ کر خوش تو کیا ہوتے پچھتائے ہی ہوں گے۔

    اگر ہم علی گڑھ کے کالج کے طالب علموں کے نام، ان کے حلیے، ان کے وطن، ان کے محلّے، ان کی کتب، نصاب تعلیم اور ان کے شجرے یاد کرنے شروع کر دیں اور اسے معلومات کے نام سے موسوم کریں تو لوگ کیا کہیں گے۔

    غرض ایسا ہی کچھ حال اس سیاہہ کا ہوگا۔ اس کا اکثر حِصّہ خرافات کی ایک عجیب فہرست اور ہماری ورق گردانی اور تضیعِ وقت و دماغ کی ایک عمدہ یادگار ہوتی ہے۔

    ملٹن نے کیا خوب کہا ہے۔ ’’عمدہ کتاب حیات ہی نہیں بلکہ وہ ایک لافانی چیز ہے۔‘‘ اس قول میں مطلق مبالغہ نہیں۔

    (از قلم مولوی عبدُالحق)

  • کارل مارکس: ایک عظیم مفکّر اور انقلابی

    کارل مارکس: ایک عظیم مفکّر اور انقلابی

    نوبیل انعام یافتہ ادیب البرٹ کامیو نے کہا تھا، ’’وہ ظلم جو ہم نے مارکس کے ساتھ کیا ہے، اس کا مداوا ہم کبھی بھی نہیں کر سکتے۔‘‘

    کارل مارکس جرمنی کا وہ دانش ور اور فلسفی تھا جس نے گزشتہ صدی میں اپنے افکار سے دنیا کو متوجہ کرلیا اور وہ اس کے نظریات سے متاثر ہوئی۔ بیسویں صدی میں دنیا کی کئی حکومتوں کی اساس ظاہری طور پر مارکس کے بنیادی نظریات پر استوار کی گئی تھی، لیکن بعد میں انہی سوشلسٹ نظریات کی حکومتوں نے مطلق العنانیت کو اپنا کر مارکس کے تصوّرات کا مفہوم ہی تبدیل کر دیا۔ البرٹ کامیو نے 1956ء میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے۔

    آج کارل مارکس کا یومِ وفات ہے۔ 1883ء میں‌ اس نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ کارل مارکس نے 5 مئی 1818ء کو پرشیا (موجودہ جرمنی) میں ایک یہودی وکیل کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ اس زمانے میں سیاسی، سماجی اور مذہبی لحاظ سے بھی دنیا نت نئے فلسفوں اور تبدیلیوں کے ساتھ تحریکوں کے زیرِ اثر تھی۔ کارل مارکس کی پیدائش سے ایک سال قبل اس کے والد نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ اس کی وجہ حکومت کی جانب سے یہودیوں کے لیے سرکاری ملازمت اور وکالت پر پابندی عائد کیا جانا تھا۔

    کارل مارکس نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بون اور پھر برلن کی درس گاہوں کا رخ کیا اور اسی زمانے میں وہ ہیگل جیسے فلسفی کو پڑھ کر اس سے بہت متاثر ہوا۔ برلن ہی میں کارل نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ علمِ قانون اس کا پسندیدہ مضمون تھا لیکن فلسفہ اور تاریخ میں بھی اس کی گہری دل چسپی تھی۔ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرکے ایپیکیورس (Epicurus) کے فلسفے پر اپنا تحقیقی مقالہ ڈاکٹری کی سند حاصل کرنے کے لیے پیش کیا۔ کارل نے 1842ء میں وہ کولون شہر چلا گیا اور وہاں صحافت میں اپنا کیریئر بنانے کی کوشش کی۔ جلد ہی وہ ایک اخبار کا مدیر بھی بن گیا۔ اس نے مضمون نگاری کا آغاز پہلے ہی کردیا تھا اور باقاعدہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی اخبار کی وجہ سے شروع ہو گیا۔

    اس زمانے میں آزادیٔ صحافت پر پابندیاں عائد کی گئیں تو کارل نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور شاہی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ عوام کی آواز بننے لگا تھا جس میں اس نے روس کے زار کے خلاف ایک مضمون بھی شایع کردیا اور اس جرم میں اخبار پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 1843ء میں فرانس کا عظیم شہر پیرس جہاں بہت سے انقلابی پہلے سے موجود تھے، وہیں کارل بھی پہنچا اور ایک ماہ نامے کا آغاز کردیا۔ لیکن اس کا صرف ایک شمارہ چھپ سکا۔ اس شمارے میں کارل نے لکھا تھا کہ جرمن وفاق قائم نہیں رہ سکتا اور اس حوالے سے اپنے خیالات اور حقائق سامنے لایا تھا۔ فرانس میں‌ تو اسے اہمیت نہیں‌ دی گئی لیکن پرشیا میں کارل پر بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ 1845ء میں کارل کو فرانس سے جلا وطن کردیا گیا۔

    فرانس کے بعد کارل نے اپنے ساتھیوں سمیت بیلجیئم کا رخ کیا اور برطانیہ کا بھی دورہ کیا جہاں اسے محنت کش طبقے کے حالات جاننے کا موقع ملا جس نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بدحالی عروج پر تھی، اور جس نظام میں لوگ پس رہے تھے، اس میں ان کی سماجی و معاشی حالت میں سدھار ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ ہر لحاظ سے پستی اور بدترین طرزِ زندگی عوام کا مقدر بن چکا تھا۔ کارل مارکس نے بیلجیئم میں قیام کے دوران اپنے دوست اور مفکر اینگلز کے ساتھ مل کر اس سب پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور یورپ کے محنت کشوں کے حقوق کے لیے تنظیم قائم کی۔

    1848ء میں کارل کا وہ کتابچہ شایع ہوا جس میں اس نے محنت کشوں کو اکٹھے ہونے کا پیغام دیا تھا۔ اسے دنیا کمیونسٹ مینی فسٹو کے عنوان سے پہچانتی ہے۔ بعد میں وہ لندن چلا گیا جہاں رہ کر اپنی جدوجہد اور نظریات کا پرچار کرتا رہا۔ اس نے فلسفہ، سیاست اور معاشیات پر اپنے افکار کی بدولت انسانوں کی سوچ کو اپنے حق میں‌ نئے زاویے اور راستے سجھائے۔

    کارل مارکس نے نوجوانی ہی میں شادی کرلی تھی تاہم اپنے وطن میں‌ باغی اور غیرملک میں‌ اپنے افکار و نظریات کی وجہ سے روزگار اور معاش کے لیے مسائل کا شکار رہنے والا کارل مارکس مالی مشکلات جھیلتا رہا۔ اس کی خانگی زندگی بھی غم و اندوہ سے دوچار ہوئی کیوں کہ اس کے چار بچّے نوعمری میں ہی چل بسے تھے جب کہ تین بیٹیاں جو جوان ہوئیں، ان میں سے بھی دو نے خود کشی کرلی تھی۔

    کارل مارکس کو اس کی وفات کے بعد زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور اس کے نظریات میں کچھ آمیزش کرنے بعد روس میں لینن اور اس کے ساتھیوں نے زار کی آمریت کا خاتمہ کیا اور مزدور طبقے کا علَم بلند کیا تھا۔

    وہ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا ناقد اور ایسا مفکر تھا جس نے اپنے انقلابی نظریات کی وجہ سے زندگی کا بیش تر حصہ جلاوطنی اور مالی تنگ دستی میں گزار دیا جب کہ زندگی میں اس کے فلسفے اور کتابوں کو بھی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ تاہم بعد میں دنیا اس کے فلسفے کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے اہمیت بھی دی گئی۔ ان کی مشہورِ زمانہ تصنیف ’داس کیپیٹل‘ کو آج بھی دنیا بھر میں غور و فکر کے عادی اور کہیں‌ بھی ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریکوں کے لیے راہ نما کتاب کہا جاتا ہے۔

    دنیا بھر کے عظیم فلسفی اور علم و ادب سے وابستہ شخصیات یہ تسلیم کرتی ہیں کہ آج وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس فلسفی، معیشت دان اور مزدور دوست انقلابی راہ نما کو اتنی ہی مقبولیت اور پذیرائی ملی ہے جتنی کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے اسے مٹانے کی کوشش کی ہے۔ مارکس کے نظریات کو غلط ثابت کرنے اور اس کی ذات پر الزامات لگانے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ سامراجی قوتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے اس کے نظریات کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف کتابیں لکھوائیں اور لاکھوں مضامین شائع کروائے، لیکن مارکس کا نظریہ توانا ہوتا چلا گیا اور سرمایہ دارانہ نظام کی موت اور اس کی خرابیوں سے متعلق اس کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں۔

  • اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    ایک واقعۂ دلچسپ اہلِ ذوق کی ضیافتِ طبع کے لیے لکھتا ہوں۔ لاہور میں پہلی دفعہ جب ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ ہوا تو پروفیسر آزاد (محمد حسین آزاد) زندہ تھے، گو دماغ کسی حد تک متاثر ہو چکا تھا۔

    نذیر احمد ملنے کے لیے گئے، حالی اور غالباً شبلی بھی ساتھ تھے، نذیر احمد کا لیکچر ہونے والا تھا جو چھپا ہوا ان کے ہاتھ میں تھا۔ آزاد رسالہ کی طرف متوجہ ہوئے تو نذیر احمد نے یہ کہہ کر آگے بڑھا دیا کہ ایک نظر دیکھ لیجیے، کانفرنس میں پیش کرنا ہے۔

    آزاد فوراً قلم سنبھال کر بیٹھ گئے اور کانٹ چھانٹ شروع کر دی۔ نذیر احمد، آزاد کی اس بے تکلفی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جوشِ محبت سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ ان کو قدرتی طور پر یہ خیال آیا کہ ابھی ان کے دائرہ میں ایک شخص ایسا موجود ہے جو ایک ’’بوڑھے‘‘ بچہ کی مشقِ سخن پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔

    حالیؔ بھی آزاد کی استادی کا لوہا مانتے تھے، ان کی مخلصانہ عقیدت کیشی کے لیے وہ تقریظ و تنقید دیکھیے جو آبِ حیات اور نیرنگِ خیال پر حالی نے لکھی ہے اور جس پر ضمناً یہ طے کردیا ہے کہ نیچرل شاعری دراصل آزاد کی صنعتِ فکر کا نقشِ اوّلین اور ان کی اوّلیات میں محسوب ہونے کے لائق ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں،

    ’’نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ یعنی لٹریچر کے رقبہ کا طول و عرض بڑھ گیا ہے، لیکن اس کا ارتفاع جہاں تھا وہیں رہا۔ یعنی اخلاقی سطح بہت اونچی نہیں ہوئی لیکن آزاد کی پاکیزہ خیالی اور خوش بیانی نے یہ کمی پوری کر دی۔ ’نیرنگِ خیال‘ کی بہت کچھ داد دی ہے، کیوں کہ آزاد کے قلم نے پہلے پہل جذباتِ انسانی کی تجسیم و تشخیص کی اور معقولات کی تصویریں محسوسات کی شکلوں میں کھینچی ہیں اور خصائلِ انسانی کے فطری خواص ایسے مؤثر اور دل کش پیرایہ میں بیان کیے ہیں، جن سے اردو لٹریچر اب تک خالی تھا۔‘‘

    شبلی بھی آزاد کا ادب کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے آزاد اردوئے معلیٰ کا ہیرو ہے، اس کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، وہ اصلی معنوں میں ایک زبردست انشا پرداز ہے۔

    (نام وَر انشا پرداز اور مضمون نگار مہدی افادی کی تحریر بعنوان ‘ملک میں تاریخ کا معلّمِ اوّل’ سے ایک پارہ)

  • فضول، معمولی اور ادنیٰ درجے کی کتابیں!

    فضول، معمولی اور ادنیٰ درجے کی کتابیں!

    پڑھنے کی عادت بہت اچھی ہے، لیکن پڑھنے پڑھنے میں فرق ہے اور کتاب کتاب میں فرق ہے۔

    میں ایک بدمعاش اور پاجی آدمی سے باتیں یا بے تکلّفی کرتے ہوئے جھپکتا ہوں اور آپ بھی میرے اس فعل کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں، لیکن میں اس سے زیادہ تر بُری اور پاجی کتاب پڑھتا ہوں، نہ آپ کو ناگوار گزرتا ہے اور نہ مجھے ہی کچھ ایسی شرم آتی ہے بلکہ اس کی بات شربت کے گھونٹ کی طرح حلق سے اُترتی چلی جاتی ہے۔

    پاجی آدمی کی شاید کوئی حرکت ناگوار ہوتی اور میں اس سے بیزار ہو جاتا مگر یہ چپکے چپکے دِل میں گھر کر رہی ہے اور اس کی ہر بات دلربا معلوم ہوتی ہے۔

    اگر میں کسی روز بازار جاؤں اور چوک میں سے کسی محض اجنبی شخص کو ساتھ لے آؤں اور اس سے بے تکلّفی اور دوستی کی باتیں شروع کر دوں اور پہلے ہی روز اس طرح اعتبار کرنے لگوں جیسے کسی پرانے دوست پر، تو آپ کیا کہیں گے؟ لیکن ریل اگر کسی اسٹیشن پر ٹھہرے اور میں اپنی گاڑی سے اُتر کر سیدھا بک اسٹال (کتب فروش کی الماری) پر پہنچوں اور پہلی کتاب جو میرے ہاتھ لگے وہ خرید لاؤں اور کھول کر شوق سے پڑھنے لگوں تو شاید آپ کچھ نہ کہیں گے۔ حالاں کہ یہ فعل پہلے فعل سے زیادہ مجنونانہ ہے۔

    میں ایک بڑے شہر یا مجمع میں جاتا ہوں۔ کبھی ایک طرف نکل جاتا ہوں اور کبھی دوسری طرف جا پہنچتا ہوں اور بغیر کسی مقصد کے اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا ہوں۔ افسوس کہ باوجود آدمیوں کی کثرت کے میں وہاں اپنے تئیں اکیلا اور تنہا پاتا ہوں اور اس ہجوم میں تنہائی کا بار اور بھی گراں معلوم ہوتا ہے۔ میرے کتب خانے میں بیسوں الماریاں کتابوں کی ہیں، میں کبھی ایک الماری کے پاس جا کھڑا ہوتا ہوں اور کوئی کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں۔ میں اس طرح سیکڑوں کتابیں پڑھ جاتا ہوں، لیکن اگر میں غور کروں تو دیکھوں گا کہ میں نے کچھ بھی نہیں پڑھا۔

    اس وقت میری آوارہ خوانی مجھے ستائے گی اور جس طرح ایک بھرے پُرے شہر میں میری تنہائی میرے لیے وبال ہوگی۔ اسی طرح اس مجمع شرفا و علما ادبا شعرا میں یکہ و تنہا و حیران ہوں گا۔

    بغیر کسی مقصد کے پڑھنا فضول ہی نہیں مضر بھی ہے۔ جس قدر ہم بغیر کسی مقصد کے پڑھتے ہیں اسی قدر ہم ایک بامعنیٰ مطالعہ سے دور ہوتے جاتے ہیں۔

    ملٹن نے ایک جگہ کہا ہے ’’اچھی کتاب کا گلا گھونٹنا ایسا ہی ہے جیسا کسی انسان کا گلا گھوٹنا۔‘‘ جس سے اس کی مراد یہ ہے کہ فضول اور معمولی کتابوں کے پڑھنے میں عزیز وقت ضائع کرنا اچھی کتابوں کا گلا گھوٹنا ہے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں وہ ہمارے لیے مردہ ہے۔

    لوگ کیوں فضول، معمولی اور ادنیٰ درجے کی کتابیں پڑھتے ہیں، کچھ تو اس لیے کہ ان میں نیا پن ہے، کچھ اس خیال سے کہ ایسا کرنا داخلِ فیشن ہے اور کچھ اس غرض سے کہ اس سے معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

    پہلی دو وجہیں تو طفلانہ ہیں، تیسری وجہ بظاہر معقول ہے، لیکن اس کے یہ معنٰی ہوں گے کہ ہم معمولی، ذلیل اور ادنیٰ معلومات کو اپنے دماغ میں بھرتے ہیں تاکہ اعلیٰ معلومات کی گنجائش باقی نہ رہے۔

    اگر ہم اپنے مطالعہ کا ایک سیاہہ تیار کریں اور اس میں صبح و شام تک جو کچھ پڑھتے ہیں لکھ لیا کریں اور ایک مدّت کے بعد اسے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہم کیا کیا کر گزرے۔ اس میں ہم بہت سی ایسی تحریریں پائیں گے جن کا ہمیں مطلق خیال نہیں۔

    بہت سے ایسے ناول ہوں گے جس کے ہیروؤں تک کے نام یاد نہیں۔ بہت سے ایسی کتابیں ہیں کہ جن کی نسبت اگر ہم سے کوئی کہتا کہ یہ ہم پڑھ چکے ہیں تو ہمیں کبھی یقین نہ آتا۔ بہت سی ایسی تاریخیں، سفر نامے، رسالے وغیرہ ہوں گے جنھیں پڑھ کر خوش تو کیا ہوتے پچھتائے ہی ہوں گے۔

    اگر ہم علی گڑھ کے کالج کے طالب علموں کے نام، ان کے حلیے، ان کے وطن، ان کے محلّے، ان کی کتب، نصابِ تعلیم اور ان کے شجرے یاد کرنے شروع کر دیں اور اسے معلومات کے نام سے موسوم کریں تو لوگ کیا کہیں گے؟

    غرض ایسا ہی کچھ حال اس سیاہہ کا ہوگا۔ اس کا اکثر حصّہ خرافات کی ایک عجیب فہرست اور ہماری ورق گردانی اور تضیعِ وقت و دماغ کی ایک عمدہ یادگار ہوتی ہے۔

    ملٹن نے کیا خوب کہا ہے۔ ’’عمدہ کتاب، حیات ہی نہیں بلکہ وہ ایک لافانی چیز ہے۔‘‘ اس قول میں مطلق مبالغہ نہیں۔

    (بابائے اردو مولوی عبدالحق کی ایک تحریر)

  • ‘ارتھ شاستر’ وہ مشہور کتاب جس کے مصنّف کو حاسد اور مکّار کہا جاتا ہے

    ‘ارتھ شاستر’ وہ مشہور کتاب جس کے مصنّف کو حاسد اور مکّار کہا جاتا ہے

    زمانۂ قدیم کی معلوم تاریخ کے دو نام وَر کردار اور ایک قابلِ ذکر کتاب انیسویں صدی کے آغاز سے متضاد روایات کی دیگ میں شک و شبہے کی آنچ سے سلگ رہی ہے، لیکن مؤرخین اور محققین آج تک اس حوالے سے تشکیک کا شکار ہیں۔ سو، ایک عام اور گم نام شخص چندر گپت موریا جس نے بعد میں ایک عظیم سلطنت کے بانی کی حیثیت سے شہرت پائی اور اس کے ایک ذہین اور قابل اتالیق وشنو گپت کی زندگی اور اس کا علمی کارنامہ آج بھی قبول و رد کی سرحد پر جھول رہا ہے۔

    قبل از مسیح کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ چندر گپت موریا ایک بے سروسامان اور گم نام شخص تھا جس نے ہندوستان میں موریا سلطنت کی بنیادی رکھی۔ یہ پہلا حکم راں ہے جس نے شمالی ہند کی تمام ریاستوں کو زیر کیا اور سلطنت قائم کرلی۔ اس نے 298 سے 322 قبلِ مسیح‌ میں کئی جنگیں لڑیں، جن میں سب سے اہم جنگ سکندر کے ایک سالار سِلوکس کے ساتھ ہوئی۔ اسے جین مت کا پیروکار لکھا گیا ہے۔

    اسی عظیم شہنشاہ کا ایک اتالیق اور وزیرِ اعظم وشنو گپت تھا۔ کہتے ہیں وہ بڑا دانا تھا۔ ذہین، طبّاع اور ایک عالم تھا جو اس زمانے میں چانکیا کوٹلیا کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے بارے میں کئی روایات اور قصّے پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں غالبا مذہب اور معاشرت کے تفاوت کی بنیاد پر اس کی کردار کُشی بھی کی گئی ہے۔ مشہور ہے کہ وہ ایک حاسد انسان تھا اور اسی لیے وہ کوٹلیا مشہور ہوا۔ ذات کا برہمن تھا۔ اسی کی مدد سے چندر گپت نے عظیم الشان سلطنت قائم کی اور تاریخ میں‌ اپنا نام لکھوانے میں‌ کام یاب رہا۔

    چانکیا کو سیاسی مدبّر، منتظم اور عالم فاضل بھی مانا جاتا ہے اور مکّار و سازشی بھی۔ اس کی شخصیت اور کردار سے نظر ہٹا کر جب ’’ارتھ شاستر‘‘ کی بات کی جاتی ہے تو یہ ایک عظیم تصنیف مانی جاتی ہے۔

    یہ اسی وشنو گپت المعروف چانکیا کوٹلیا کی تصنیف ہے جس نے اسے دنیا بھر میں شہرت دی۔ اس کتاب میں قدیم ہندوستانی تمدّن، علوم و فنون، معیشت، ازدواجیات، سیاسیات، صنعت و حرفت، قوانین، رسم و رواج، اور ریاستی امور سمیت کئی اہم موضوعات چانکیہ نے اپنی فکر اور علمیت کا اظہار کیا ہے۔

    ماہرین و محققین متفق ہیں کہ یہ کتاب 300 سے 311 قبلِ مسیح کے دوران لکھی گئی۔ اس کتاب کا اصل متن سنسکرت میں تھا اور یہ 1904ء میں دریافت ہوئی۔ 1905ء میں اسے پہلی بار کتابی شکل دی گئی اور بعد کے ادورار میں اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔

    ارتھ شاستر کو چانکیا کا علمی کارنامہ قرار دیا جاتا ہے جس کے تین بنیادی حصّے ہیں۔ ایک انتظامیہ، دوسرا ضابطہ و قانون اور انصاف کے مباحث پر مشتمل ہے اور تیسرے میں خارجہ پالیسی کا بیان ہے۔ اس کے علاوہ تہذیب اور تمدّن پر نہایت عمدہ مضامین شامل ہیں۔

    چانکیا اور اس کی تصنیف ارتھ شاستر کی نسبت متضاد آرا مشہور ہیں اور اس پر مباحث کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستانی اور مغربی محققین چانکیا جیسے کسی شخص کے وجود اور اس کی کتاب کے متن پر بھی شک و شبہ ظاہر کرتے رہے ہیں اور اس بارے میں اختلافِ رائے موجود ہے، لیکن بعض ممتاز مغربی محققین اور مستشرقین کا کہنا ہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کتاب چانکیہ کی تصنیف ہے یا نہیں، لیکن یہ اپنے وقت کی اہم ترین اور لائقِ مطالعہ کتاب ضرور ہے جس نے موجودہ دنیا کو ایک قدیم تاریخ اور تہذیب کی کہانی سنائی ہے۔

  • مطالعے کا شوق، عالمی فہرست میں دو عرب ممالک نمایاں پوزیشن پر

    مطالعے کا شوق، عالمی فہرست میں دو عرب ممالک نمایاں پوزیشن پر

    علم و فنون اور دنیا کے مختلف شعبوں سے متعلق معلومات کے حصول کے مختلف ذرایع ہوسکتے ہیں، جن میں کتب بینی اور مطالعے کو نہایت اہم اور ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں‌ یہ سننے میں‌ آتا ہے دنیا کے مختلف ممالک میں کتب بینی کا رجحان کم ہوگیا ہے اور مطالعے کا شوق دَم توڑ رہآ ہے، لیکن آج بھی بعض ممالک میں‌ خاص طور پر طالبِ علم اور مختلف موضوعات میں دل چسپی رکھنے والے مطالعے کی عادت اور روایت قائم رکھے ہوئے ہیں۔

    اسی حوالے سے نوپ ورلڈ کلچر اسکور انڈیکس نے برطانوی اسپیشلسٹ کمپنی اور برطانوی جریدے انڈیپنڈنٹ کے اشتراک سے ثقافتی کارکردگی کے عالمی گراف کے تازہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق مصر اور سعودی عرب دنیا کے سب سے زیادہ مطالعہ کرنے والے ممالک ہیں۔

    ایک خیال یہ ہے کہ عرب شہری بہت کم مطالعہ کرتے ہیں، تاہم حالیہ دس برسوں کے دوران اس حوالے سے عرب دنیا میں تبدیلی آئی ہے۔

    یونیسکو نے 2003ء سے متعلق فروغِ افرادی قوّت رپورٹ میں بتایا تھا کہ 80 عرب شہری سال میں ایک کتاب پڑھتے ہیں جب کہ ایک یورپی شہری سال میں 35 کتابیں زیر مطالعہ رکھتا ہے۔

    اسکائی نیوز کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ مطالعہ کرنے والے ممالک میں مصر پانچویں اور سعودی عرب گیارہویں نمبر پر آگیا ہے۔

    بھارت کے بعد تھائی لینڈ دوسرے اور چین تیسرے نمبر پر ہے۔ یہ بات تعجب خیز ہے امریکا جیسا ملک مطالعے کے حوالے سے دنیا بھر میں 23 ویں نمبر پر ہے۔

    مصری پبلشرز آرگنائزیشن کے چیئرمین اور عرب پبلشرز آرگنائزیشن کے سعید عبدہ کے مطابق عرب اور مصری خاص طور پر دنیا کی ان اقوام میں شامل ہیں جو مطالعے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔

    انہوں نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ہمارے اس دعوے کا سب سے بڑا ثبوت متحدہ عرب امارات کا مطالعہ چیلنج پروگرام ہے۔ اس کے ذریعے پہلے سال میں عرب ممالک کی سطح پر 5 لاکھ مطالعہ کرنے والے سامنے آئے۔

  • رانچی کے پاگل خانے کی "پری”

    رانچی کے پاگل خانے کی "پری”

    رانچی پاگل خانے کا جو منظر مجھے کبھی نہیں بھول سکا، وہ ایک بنگالی لڑکی تھی، جیسے سنگِ مَر مَر کو تراش کر کسی نے کوئی بُت بنایا ہو۔ باغیچے کے ایک الگ تھلگ کونے میں اکیلی بینچ پر بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہہ رہے تھے جیسے موتیوں کے دانے گر رہے ہوں۔

    میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ نیپال کی ڈاکٹر جو مجھے سینی ٹوریم دکھا رہی تھی، اس کا گلا یک لخت بھر آیا اور وہ خاموش ہو گئی۔

    پَل دو پَل کے لیے میرے قدم رک گئے اور میں اس حسینہ کی طرف دیکھنے لگ گیا۔ دودھیا سفید کپڑے پہنے یوں لگ رہی تھی جیسے عرش سے اتری کوئی پری ہو۔ وہ ہلے جلے بغیر ایک جگہ خاموش بیٹھی تھی اور اس کے آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے۔ ” جیسے سنگِ مَرمَر کا کوئی پھوارا ہو۔“ میرے منہ سے نکلا۔

    اور پھر ہمارے ساتھ چل رہی نرس نے اس کی کہانی سنائی۔ ”بڑی بدقسمت لڑکی ہے۔ شکل سے سولہ سترہ سال کی ہو گی۔ اس کا پیار اپنے ٹیوٹر سے ہو گیا۔ وہ اسے پڑھانے آتا تھا۔ اتنے امیر ماں باپ کی بیٹی۔ اس کا بیاہ ایک معمولی ٹیوٹر سے وہ کیسے کر دیتے۔ گھر والوں نے ٹیوٹر کو کچھ دے دلا کر اس کا بیاہ کسی اور سے کروا دیا۔

    لڑکی نے جب سنا تو اس کا دماغ ہل گیا۔ بولتی ہے نہ کچھ کہتی ہے۔ کتنی کتنی دیر بھوکی کی بھوکی پڑی رہتی ہے۔ اسے جب موقع ملتا ہے سج سنور کر اس الگ تھلگ بینچ پر آکر بیٹھ جاتی ہے اور گھنٹوں بھر چھم چھم آنسو بہاتی رہتی ہے۔ جیسے چناب اس کے اندر پھوٹ پڑی ہو، اس کے آنسو نہیں رکتے۔ اس کی پلکیں نہیں سوکھتیں۔ اسے یہیں بیٹھے بیٹھے آنسو بہاتے رات ہو جائے گی۔

    اسی اسپتال کا ایک دوسرا واقعہ
    اسپتال کی سوشل ورکر ہمیں اس کے کمرے میں لے جا رہی تھی کہ ایک مریض جلدی جلدی آیا اور مجھے روک کر کہنے لگا۔ ”آپ کے ساتھ پردے میں ایک بات کرنی ہے۔“ میں ہنسنے لگا۔ ”ہاں بتاﺅ۔“ میں نے اس سے کہا۔

    ”ادھر چلو۔ ادھر۔“ اور وہ مجھے ایک طرف لے گیا جہاں دو شمال کی طرف پہاڑ دکھائی دیتے تھے۔

    ”ادھر سے آ رہے ہیں۔“ وہ مریض کہنے لگا۔ چیونٹیوں کی طرح فوجیں پہاڑوں سے اتر رہی ہیں۔ بم برسیں گے۔ گولے پھوٹیں گے۔ تڑ تڑ مشین گنیں چلیں گی۔ کوئی نہیں روک سکے گا، کوئی نہیں روک پائے گا۔ وہ دھکیلتے ہوئے ہمارے ملک میں داخل ہو جائیں گے۔ وہ ایسی مار ماریں گے کہ ہم کسی کو شکل دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے۔

    آپ مانو یا نہ مانو میں نے بتا دیا ہے۔ میں نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔ مجھے تو ان کی فوجیں سامنے سے آتی دکھائی دے رہی ہیں۔ آپ کو نظر نہیں آ رہیں۔ عجیب ہے آپ کی نظر۔ آپ کے پاس آنکھیں ہی نہیں ہیں۔ کتنی دیر وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھے یوں بولتا رہا۔

    مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ میں مند مند مسکراتا ہوا اس کی طرف دیکھتا رہا۔ چار دن بعد خبر آئی۔ چین نے ہمارے ملک پر حملہ کر دیا ہے۔ ان کی فوجیں چیونٹیوں کی طرح ہمارے ملک میں زبردستی گھس آئی ہیں۔ آگے ہی آگے بڑھ رہی تھیں۔

    (ناول نگار اور پنجابی زبان کے شاعر کرتار سنگھ دگل کی یادوں سے ترجمہ، مصنف کا تعلق گر داس پور، ہندوستان سے تھا)