Tag: مشہور کتابیں

  • ذکر اُن کا جنھیں کرونا نے "نئی زندگی” دی

    ذکر اُن کا جنھیں کرونا نے "نئی زندگی” دی

    کرونا کی وبا پھوٹی تو جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی شدید متاثر ہوئے، وہیں کووڈ 19 کی ہلاکت خیزی سے باخبر رہنے اور وائرس سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے ذرایع ابلاغ کا سہارا لیا، لیکن جب مختلف ممالک بندشِ عامّہ(لاک ڈاؤن) کی طرف گئے تو لوگوں کو سماجی سرگرمیاں اور میل جول ترک کرنا پڑا۔

    گھروں تک محدود ہوجانے والے جہاں کرونا کے خوف اور روزگار کی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے، وہیں‌ انھیں‌ بوریت اور تنہائی کا احساس بھی ستانے لگا جس نے مختلف زبانوں میں تخلیق کردہ اس ادب کو گویا نئی زندگی دی جو ماضی کی وباؤں اور فرضی یا تصوّراتی مرض کے گرد گھومتا تھا۔

    یہ وہ ناول اور افسانے تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ کیسے ایک جرثومہ یا وائرس وبا کی صورت انسانوں میں‌ پھیلتا چلا جاتا ہے اور وہ مہلک مرض‌ کا شکار ہو جاتے ہیں، اس سے دنیا کی کثیر آبادی متاثر ہوتی ہے اور بڑے پیمانے پر اموات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

    روایتی ذرایع ابلاغ کے علاوہ سوشل میڈیا پر اس دوران کئی ناولوں اور افسانوں کا چرچا ہوا اور کہا جانے لگا کہ رواں سال دنیا بھر میں ادب کو بڑی تعداد میں قارئین میّسر آئے۔

    یہ بات اتنی درست نہ ہو، تب بھی طاعون کی ہلاکت خیزی سے لے کر ماضی بن جانے والی تمام مہلک وباؤں تک اس سال خاص طور پر ناول اور کہانیاں ‌پڑھی گئیں اور لوگوں‌ نے اس موضوع پر پیش کی جانے والی فلمیں‌ بھی دیکھیں۔

    یہاں ہم اُن چند کتابوں کا ذکر کررہے ہیں جنھیں‌ رواں سال قارئین کی بڑی تعداد نے پڑھا۔

    برطانوی مصنف ڈینیئل ڈیفو کی 1722ء کی تصنیف تھی ’اے جنرل آف دی پلیگ ایئر‘، جس کا نام ہی اس کی کہانی کو واضح کردیتا ہے۔

    البرٹ کامو کی تخلیق ’دی پلیگ‘ کے نام سے کتابی شکل میں‌ سامنے آئی تھی اور یہ طاعون کی وبا کے دنوں کا نوحہ ہے۔

    1939ء میں ہسپانوی فلو پر کیتھرین این پورٹر کا ناول سامنے آیا تھا جس کا نام تھا، ’پیلے ہورس پیلے رائڈر۔‘

    مارگریٹ ایڈون نے اپنے تخیل اور کہانی بُننے کے اپنے فن کو آزمایا اور کام یابی حاصل کی۔ یہ کہانی تھی ایک وبا کے بعد انسانوں کی اکثریت کے موت کے منہ میں چلے جانے کی۔ اس داستان کو مارگریٹ ایڈون نے ’دی ایئر آف دی فلڈ‘ کے نام سے شایع کروایا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔

    2014ء کی بات ہے جب ایملی منڈیل نے اپنا ناول ‘اسٹیشن الیون’ قارئین کے مطالعے کے لیے پیش کیا۔ یہ بھی ایک وبا کے نتیجے میں انسانوں کے مٹ جانے کی داستان ہے جسے اس سال دنیا بھر میں دوبارہ پڑھا گیا۔

    راجندر سنگھ بیدی کے افسانے کا تذکرہ تو ہم پہلے بھی اے آر وائی، اردو کی اس مستند، معتبر ویب سائٹ اور پاکستان میں صفِ اوّل کے اس ویب پیج پر کرچکے ہیں۔

    ہمارے مستقل اور باذوق قارئین کو ‘کوارنٹین’ یاد ہو گا جسے پاکستان اور ہندوستان میں بھی کرونا کے بعد قارئین کی بڑی تعداد نے پڑھا۔ یہ نام ور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کا تخلیق کردہ تھا جس میں‌ انھوں‌ نے وبائی مرض کے دوران انسانوں کے جذبات اور احساسات میں بدلاؤ اور خوف کو بیان کیا تھا۔

  • Tsundoku: وہ اصطلاح جو ایک دل چسپ بحث چھیڑ سکتی ہے

    Tsundoku: وہ اصطلاح جو ایک دل چسپ بحث چھیڑ سکتی ہے

    فلسفہ، مصوری، موسیقی کے رسیا اور انگریز مصنف سیموئیل بٹلر سے منسوب قول ہے کہ "کتابیں قیدی روحوں کی طرح ہوتی ہیں یہاں تک کہ کوئی انھیں کسی شیلف سے لے جائے اور آزاد کر دے۔”

    دنیا بدل چکی ہے، کتاب پڑھنے اور مطالعے کے شوقین تو شاید اب بھی بہت ہوں، لیکن ورق گردانی کی عادت پر انٹرنیٹ اور کمپیوٹر اسکرین کا رنگ گہرا ہوتا جارہا ہے۔ یوں تو دنیا بھر میں‌ لوگ اب بھی کتب خریدتے اور پڑھتے ہیں، مگر یہ جان کر شاید آپ کو حیرت ہو کہ ان میں‌ سے بعض ایسے ہیں‌ جو صرف کتاب سجانے کے لیے گھر لاتے ہیں، اس کا مطالعہ کبھی نہیں کرتے۔

    سن ڈوکُو (Tsundoku) انہی لوگوں‌ کے لیے ایک اصطلاح ہے جس نے جاپان میں‌ جنم لیا۔ اس اصطلاح میں‌ Tsun سے مراد حاصل یا اکٹھا کرنا اور جمع کرنا ہے اور Doku کا مطلب پڑھنا یا مطالعہ کرنا ہے۔

    یہ اصطلاح ایسے فرد کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کتب اکٹھی کرنے کا شوق رکھتا ہو اور انھیں اپنے بک شیلف میں‌ باقاعدہ ترتیب اور قرینے سے رکھ دیتا ہے اور گاہے گاہے بک شیلف کی صفائی اور کتابوں‌ پر جمنے والی گرد بھی جھاڑتا رہتا ہے، لیکن ان کا مطالعہ نہیں‌ کرتا!

    ماہرین کا کہنا ہے اکثریت کے لیے یہ اصطلاح نئی بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں‌ ہے کہ یہ حالیہ برسوں‌ یا چند دہائیوں کے دوران وضع کی گئی ہے‌۔ یہ اصطلاح 1879 میں برتی گئی اور غالب امکان ہے کہ یہ اس سے بھی زیادہ پرانی ہو۔

  • حلیم اور مہربان دیوتا

    حلیم اور مہربان دیوتا

    میں انسانی زندگی کی الجھنوں پر جس قدر غور کرتا ہوں اتنا ہی مجھ پر روشن تر ہوتا جاتا ہے کہ جس طرح قدیم مصر کے لوگ بخشش اور نجات کے لیے آئیس اور نیفتیس کا دامن پکڑتے تھے اسی طرح ہمیں اپنی مشکلات کے حل کے لیے طنز اور رحم کا دامن پکڑنا پڑتا ہے۔

    طنز اور رحم سے بڑھ کر کوئی چیز ہماری مشکل کشا نہیں ہو سکی۔ طنز سے زندگی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا ہوتی ہے اور رحم اپنے آنسوؤں سے زندگی کو مقدس بناتا ہے۔

    جس طنز کو میں اپنا دیوتا بنانا چاہتا ہوں، وہ کوئی سنگ دل دیوتا نہیں۔ وہ محبت اور حسن کا مضحکہ نہیں اڑاتا، وہ حلیم اور مہربان دیوتا ہے۔ اس کا تبسم دشمنوں کو بھی دوست بنا لیتا ہے اور وہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ احمقوں اور ظالموں پر ہنسو، ان سے نفرت مت کرو۔ کیوں کہ یہ کم زوری کی نشانی ہے۔

    ایک بہت بڑے فرانسیسی کے ان دانش مندانہ الفاظ پر میں اس کتاب کو ختم کرتا ہوں اور رخصت چاہتا ہوں…. خدا حافظ ۔

    (ماخوذ از ”نوع انسان کی کہانی“ مصنف ہنڈرک فان لون، مترجم پطرس بخاری)

  • فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کے کاروبار

    فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کے کاروبار

    ایک دن فیض صاحب مجھے اپنی گاڑی میں عبدالرحمٰن چغتائی صاحب کے ہاں لے جارہے تھے۔

    نسبت روڈ پر سے گزرے تو انھیں سڑک کے کنارے ”قاسمی پریس“ کا ایک بڑا سا بورڈ دکھائی دیا۔ مجھے معلوم نہیں یہ کن صاحب کا پریس تھا، مگر بہرحال، قاسمی پریس کا بورڈ موجود تھا۔

    فیض صاحب کہنے لگے، ”آپ چپکے چپکے اتنا بڑا کاروبار چلا رہے ہیں؟“ اس پر ہم دونوں ہنسے، تھوڑا آگے گئے تو میو اسپتال کے قریب مجھے ایک بورڈ نظر آیا۔

    میں نے کہا، ”فیض صاحب! کاروبار تو آپ نے بھی خوب پھیلا رکھا ہے، وہ بورڈ دیکھیے۔“

    بورڈ پر فیض ہیئر کٹنگ سیلون کے الفاظ درج تھے۔

    فیض صاحب اتنا ہنسے کہ انھیں کار سڑک کے ایک طرف روک لینا پڑی۔

    (احمد ندیم قاسمی کی کتاب ”میرے ہم سفر“ سے خوشہ چینی)

  • انصاف کا بول بالا کرنے کی انوکھی ترکیب

    انصاف کا بول بالا کرنے کی انوکھی ترکیب

    عدالتوں میں انصاف رائج کرنے کی ایک انوکھی ترکیب کموجیہ نامی بادشاہ نے نکالی تھی۔

    اس کے عہد سے پہلے کسی کو یہ ترکیب سوجھی، اور نہ اس کے بعد کسی کو اس پر عمل کرنے کی توفیق ہوئی۔

    بادشاہ کموجیہ کے حکم کے مطابق بے انصاف اور بے ایمان جج کی کھال بہ طور سزا کھینچ لی جاتی۔ چوں کہ یہ کھال یتیم خانے کے کسی مصرف کی نہ ہوتی، اس لیے اس سے سرکاری فرنیچر کی پوشش کا کام کیا جاتا۔

    جج صاحب کی کھال ان کی کرسی عدالت پر مڑھوا دی جاتی۔ پھر آں جہانی کی جگہ اس کے بیٹے کا تقرر کیا جاتا تاکہ وہ اس کرسی پر بیٹھ کر آغوشِ پدر کی گرمی اور انجامِ پدر کی تپش محسوس کرے اور مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت انصاف اور صرف انصاف سے کام لے۔

    (مختار مسعود کی کتاب لوحِ ایام سے اقتباس)

  • "چانسلر” کے بارے میں‌ جانیے

    "چانسلر” کے بارے میں‌ جانیے

    یہ تو شاید ہم سبھی جانتے ہیں کہ لفظ "چانسلر” کسی ریاست کے عظیم عہدے دار، کسی محکمے اور ادارے کے منتظمِ اعلیٰ کے لیے برتا جاتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں‌ خاص طور پر یہ لفظ جامعات کے منتظم اور مختار کی حد تک محدود ہے، جب کہ جرمنی کی بات کریں‌ تو وہاں یہ لفظ نظامِ حکومت سے جڑا ہوا ہے اور سربراہِ مملکت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    زبان و بیان کے ماہر اور تاریخ‌ پر نظر رکھنے والوں کے مطابق قدیم زمانے میں‌ روم کے کسی عظیم لیڈر اور عہدے دار کو چانسلر بولا اور لکھا جاتا تھا۔ اسی طرح‌ برطانوی نظام میں بھی یہ ایک عہدے کے لیے برتا جاتا رہا ہے۔ جامعات کا ناظم تو اکثر ممالک میں‌ چانسلر ہی کہلاتا ہے۔

    اکثر الفاظ کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی چھپی ہوئی ہے، حیرت انگیز، دل چسپ، سادہ، لطیف اور شاید یہ بہت بھونڈی بھی ہو سکتی ہے، لیکن ہم اس طرف توجہ نہیں‌ دیتے۔

    ڈاکٹر سید حامد حسین ان لوگوں‌ میں‌ سے ہیں جنھوں‌ نے الفاظ کے اسرار اور بھید جاننے کی کوشش کی ہے اور حرف حرف کرید کر جو کچھ جان سکے اسے ہمارے سامنے رکھا ہے۔

    معروف قلم کار، محقق اور مترجم ڈاکٹر سید حامد حسین نے اپنی کتاب لفظوں‌ کی انجمن میں‌ "چانسلر” کے بارے میں‌ لکھا ہے:

    "چانسلر لفظ لاطینی زبان سے آیا ہے۔ اصل معنی ”کیکڑے“ ہیں۔ بعد میں اس سے ایک اور لفظ بانس، لکڑی یا لوہے کی جالی کے لیے بنایا گیا۔ یہ جالیاں گرجا میں ہوتی تھیں جو اس حصے کو علیحدہ کرتی تھیں جہاں پادری بیٹھتا تھا۔ چانسلر کا لفظ سب سے پہلے اس دربان کے لیے استعمال ہوا جو گرجا میں قائم عدالت کے باہر جالی کے پاس بیٹھتا۔ پھر اسے عدالتوں کے چپراسی کے لیے بولنے لگے۔ بعد میں عدالت کے سیکریٹری اور نوٹری کو اس نام سے پکارنے لگے۔”

  • کالا پانی اور اردو ادب کے مشہور زنداں‌ نامے!

    کالا پانی اور اردو ادب کے مشہور زنداں‌ نامے!

    برطانوی راج اور انگریزوں کے ہندوستان پر تسلط کے خلاف تحاریک اور قلم کے ذریعے ہندوستان کی آزادی کا پرچار کرنے کی پاداش میں اس زمانے کی کئی اہم اور نابغۂ روزگار شخصیات نے قید و بند کا بھی سامنا کیا اور اس کی روداد رقم کی۔

    اردو ادب میں اس دور میں لکھے گئے متعدد زنداں نامے مشہور ہیں۔ قید و بند کی یہ داستانیں نہ صرف دل کش اور پُرلطف ہیں بلکہ یہ سامانِ عبرت بھی ہیں۔ ایسی ہی چند مشہور اور لائقِ مطالعہ کتب کا یہ تذکرہ آپ کی توجہ اور دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    اردو ادب کا ادنیٰ قاری بھی ‘‘کالا پانی’’ سے ضرور واقف ہو گا جہاں انگریز دور کے باغیوں اور مخالفین کو سزا کے طور پر بھیج دیا جاتا تھا۔ اس موضوع پر پہلی کتاب مولانا محمد جعفر تھانیسری نے لکھی تھی۔ اس کا نام ہی کالا پانی تھا۔ یہ کتاب انھوں نے 1885 میں لکھی تھی۔ وہ فرنگی اقتدار کے خلاف لڑی گئی جنگ کا ایک اہم کردار بھی تھے۔ انھوں نے اس کتاب میں انگریز کے جبرو استبداد کی داستان رقم کی ہے اور مجاہدینِ حرّیت اور آزادی کے لیے قربانیوں کا نقشہ کھینچا ہے۔

    اس زمانے میں کالا پانی خوف ناک اور بدترین مقام کے طور پر مشہور تھا اور اسی نام سے زیادہ تر کتب مشہور ہیں۔

    ہندو مہا سبھائی لیڈر بھائی پر مانند نے بھی جزیرہ انڈمان میں قید و بند کے حالات اسی نام سے رقم کیے ہیں۔ اس کتاب میں بھی فرنگی دور کے مظالم اور ہندوستانی قیادت کی تحریک اور قربانیوں کے تذکرے پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    مولانا حسرت موہانی ایک باکمال نثر نگار، شاعر اور جید صحافی اور ہندوستان میں اس دور کا ایک متحرک نام بھی ہے جنھوں نے 1908 میں الہٰ آباد جیل میں اپنے شب و روز کی وارداتوں کو رہائی کے بعد رقم کیا۔ ان کی کتاب ‘‘مشاہداتِ زنداں’’ کے نام سے سامنے آئی۔

    مولانا محمود حسن دیو بندی کو گرفتار کر کے انگریزوں نے جزیرہ مالٹا میں قید کیا تو وہاں ان کے شاگرد مولانا حسین احمد مدنی بھی موجود تھے۔ انھوں نے‘‘سفرنامۂ اسیرِ مالٹا’’ کے عنوان سے قید کی مصیبت اور آفات کو تحریری شکل دی۔ اسے بھی اردو ادب کا اہم زنداں نامہ شمار کیا جاتا ہے۔

    زعیم الاحرار چوہدری افضل حق نے اپنی آپ بیتی ‘‘میرا افسانہ’’ کے نام سے لکھی ہے جس میں جیل سے متعلق تاثرات بھی ناقابلِ فراموش اور عبرت ناک ہیں۔ اس کے علاوہ انہی کی ایک اور کتاب ‘‘دنیا میں دوزخ’’ بھی جیل سے متعلق ہے۔

    ممتاز صحافی اور طنز نگار ابراہیم جلیس نے قیامِ پاکستان کے ابتدائی زمانے میں کراچی سینٹرل جیل میں اسیری کاٹی۔ اس کی روداد انھوں نے ‘‘جیل کے دن اور جیل کی راتیں’’ کے عنوان سے رقم کی ہے۔
    اسی طرح حمید اختر کی ‘‘کال کوٹھڑی’’ اور عنایت اللہ کی کتاب ‘‘اس بستی میں’’ اسیری کے دنوں کے مشاہدات پر مبنی ہیں۔

    معروف شاعر اور لازوال گیتوں کے خالق ریاض الرحمٰن ساغر نے اسیری سے متعلق کتاب ‘‘سرکاری مہمان خانہ’’ لکھی۔

    مجلسِ احرارِ اسلام کے آغا شورش کاشمیری جنگِ آزادی کے جیالوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ زندگی کے مختلف ادوار میں پسِ زنداں رہے۔ اسی قید کی روداد ‘‘پسِ دیوار زنداں’’ کے نام سے ان کےبلاشبہ ایک وقیع اور باوقار کتاب ہے جسے پوری دل چسپی کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔

    پروفیسر خورشید احمد کی کتاب ‘‘تذکرۂ زنداں’’ ایک دل چسپ اور پُر لطف کاوش ہے جو قید و بند سے متعلق ہے۔

    نعیم صدیقی کی ‘‘جیل کی ڈائری’’ دل کش اور دل آویز ہے۔