Tag: مشہور کردار

  • ’’خوجی“ ایک ایسا آئینہ جس میں ہم اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں

    ’’خوجی“ ایک ایسا آئینہ جس میں ہم اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں

    فسانۂ آزاد اردو ناول نگاری کے عہدِ اوّلین کا ایک خوب صورت نقش ہے جو پنڈت رتن ناتھ سرشار کشمیری کی تخلیق ہے۔ اردو ادب میں یہ بحث کی جاتی رہی کہ اسے ناول کہا جائے یا داستان، لیکن سبھی یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ فسانۂ آزاد کا کردار ’’خوجی“ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔

    پنڈت رتن ناتھ سرشار ادیب اور شاعر تھے، تعلق کشمیر سے تھا۔ اپنے زمانے کے اخبارات میں مدیر رہے، سرکاری ملازمت بھی کی اور مضمون نگاری کے ساتھ تصنیف و ترجمہ کا شغل جاری رکھا۔

    خوجی کا کردار ان کے ذہن کی اختراع ہے جسے انھوں نے فسانۂ آزاد میں متعارف کروایا۔ اس مشہور کردار کے بارے میں اردو کے ممتاز نقّاد اور محقّق ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھا ہے:

    ’’فسانۂ آزاد“ دسمبر 1878ء سے دسمبر 1879ء تک، اودھ اخبار لکھنؤ کے ضمیمے کے طور پر قسط وار شائع ہوتا رہا۔ اور پہلی بار 1880ء میں نول کشور پریس لکھنؤ سے شائع ہوا۔ اس ناول میں سرشار نے زوال شدہ لکھنؤ، مسلم تہذیب کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ خود یہ تہذیب اس ناول میں محفوظ اور اجاگر ہو گئی ہے۔

    اس ناول میں ہر طبقے کے مردوں اور عورتوں کے بے شمار چھوٹے بڑے کردار ہیں، لیکن ایک کردار خصوصیت کے ساتھ ایسا ہے جو زندۂ جاوید ہو گیا ہے۔ عرفِ عام میں اس کردار کا نام ”خوجی“ ہے۔ ”فسانۂ آزاد“ میں اس کردار نے وہ رنگ بھرا ہے کہ اس کے بغیر خود یہ ناول بے مزہ و بے لطف ہو کر رہ جاتا۔ میں نے اسی عجیب و غریب اور نرالے کردار کی سرگزشت آپ کی تفریحِ طبع کے لیے مرتب کی ہے۔ خوجی کی انوکھی سرگزشت ترتیب دیتے ہوئے میں نے اس کردار کے سارے چھوٹے بڑے واقعات کو مربوط انداز میں اس طرح اکٹھا کر دیا ہے کہ ایک طرف آپ قبلہ خوجی صاحب کے مزاج اور رنگا رنگ تماشوں سے پوری طرح واقف ہو جائیں اور دوسری طرف ان کی زندگی کی ساری کہانی بھی آپ کے سامنے آ جائے۔

    خوجی صاحب دھان پان سے آدمی ہیں، لیکن ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے اور ذرا سی بات پر بڑی سے بڑی طاقت سے بھڑ جاتے ہیں اور مار کھاتے ہیں، لیکن شکست نہیں مانتے۔ بات بات پر قرولی نکالنے اور حریف کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔

    ”نہ ہوئی قرولی“ ان کا تکیۂ کلام ہے۔ یہی تکیۂ کلام خوجی کی سرگزشت کا عنوان ہے۔ آپ کو اس سرگزشت میں ربط بھی نظر آئے گا اور تسلسل بھی۔ آپ اسے ”سوانحی ناول“ کی طرح روانی اور دل چسپی کے ساتھ پڑھ سکیں گے۔

    خوجی کے کردار کو بحیثیت مجموعی دیکھیے تو یوں محسوس ہو گا کہ یہ کردار زوال شدہ لکھنوی مسلم تہذیب کا نمائندہ ہے۔ وہ تہذیب جس کا جسم کم زور و بے جان اور قد گھٹ کر بالکل بونوں جیسا ہو گیا ہے، لیکن ایک ہزار سال کی حکومت، طاقت اور عظمت کا نشہ اب بھی چڑھا ہوا ہے۔ اسی لیے شیخی بھگارنا، دون کی ہانکنا، اپنی بڑائی کا اظہار کرنے کے لیے ڈینگیں مارنا خوجی کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔

    برصغیر کی زوال پذیر مسلم تہذیب کی روح خوجی کے کردار میں مجسم ہو گئی ہے۔ اس لیے خوجی صاحب آج بھی زندہ ہیں اور آنے والے زمانے میں بھی زندہ رہیں گے۔“

  • مرزا ظاہر دار بیگ جو ریا کار اور چرب زبان مشہور تھے!

    مرزا ظاہر دار بیگ جو ریا کار اور چرب زبان مشہور تھے!

    مرزا ظاہر دار بیگ کا مضحک کردار اپنے احساسِ کمتری کو احساسِ برتری میں بدلنے کے لیے چرب زبانی کا حربہ استعمال کرتا ہے۔ اس طرح کے مضحک کردار ہمارے اردگرد آج بھی پائے جاتے ہیں جو ظاہری تصنّع اور شان و شوکت کا بھرم رکھنے کے لیے اس طرح کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ خود کو معاشرے کا باعزّت فرد ظاہر کرنے کے لیے اپنی امارت اور حسب و نسب کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ اس کے بدلے ان کو عزت ملے، لوگ انہیں احترام دیں۔

    اس طرح کے ہزاروں ظاہر دار بیگ ہر سماج میں خود کو بڑا بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کا تخلیق کردہ یہ کردار اپنے عہد کی اس تہذیب اور معاشرت پر کڑی تنقید کرتا ہے جہاں عزّت صرف دولت مندوں اور اعلیٰ خاندان کے لوگوں کو ملتی تھی۔

    ظاہر دار بیگ کا کردار ایک نوعیت کی معاشرتی پیروڈی ہے۔ وہ اپنے عہد کی زندہ علامت ہے اور اس ظاہر داری کی نمائندگی کرتا ہے جو کسی ترقی پذیر تہذیب کی تباہی کے لیے معاشرے میں رونما ہوتی ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دستِ افلاس نے قوم کو اپنے حصار میں لے لیا تھا اور سماج میں بے چینی کا عالم تھا۔ معاشرتی زندگی میں بڑے چھوٹے کا امتیاز تھا اور شہری حقوق سب کو یکساں طور پر میّسر نہ تھے۔

    عوامی زندگی ایسے دوراہے پر کھڑی تھی جو نہ تو کوئی مقصد رکھتی تھی نہ منزل۔ 1857ء کے نتیجے میں پھیلی ہوئی تباہی عام تھی، لوگ اپنی اقدار کو بھول چکے تھے، اعصابی طور پر کم زور ہو چکے تھے، معاشرتی بیماریاں پھیل رہی تھیں، اس کا انجام یہ ہوا کہ ہر فرد حقیقت سے فرار حاصل کرنا چاہتا تھا۔

    مشرقی تہذیب کی جگہ مغربی تہذیب، ہندوستانی کھانوں کی جگہ مغربی کھانے، مکتب اور پاٹھ شالہ کی جگہ کالج اور یونیورسٹیوں نے لے لی اور یہ وقت انسان کو اکسا رہا تھا کہ یا تو خود کو بدل لے یا ماضی کے نہاں خانوں میں گھٹ گھٹ کر ختم ہو جائے۔

    مرزا ظاہر دار بیگ کا کردار اپنے عہد کی ظاہر داریوں کا نمائندہ ہے۔ احساسِ کمتری اسے اپنی بڑائی کا بھرم رکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ چوں کہ یہ کردار غیرلچک دار ہے اس لیے اس کی ناہمواریاں سمٹنے کے بجائے پھیل کر سامنے آتی ہیں جو ناظرین کو ہنسانے کا موجب بنتی ہیں۔

    توبتُہ النّصوح کا یہ کردار نذیر احمد کے دیگر کرداروں کی طرح اسمِ بامسمّیٰ ہے جس میں مرزا سفید پوش طبقے کا نمائندہ ہے جو نہ تو خود کو غریب کہلوانا پسند کرتا ہے اور نہ ہی امراء کی برابری کی استطاعت رکھتا ہے۔ مرزا اہلِ لکھنؤ کی پرتصنع زندگی کا نقشہ ہمارے سامنے لے آتا ہے، مگر ساتھ انفرادیت بھی رکھتا ہے۔

    اپنا یہ بھرم مرزا ہر صورت میں قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اپنی امارات کے قصّے اپنے قریبی دوست کلیم سے بھی بیان کرتا رہا۔ اپنے نانا کی جائیداد کو اپنی بیان کرتا رہا۔ جمعدار کے بیٹوں کی دیکھا دیکھی بھی مرزا کی عادتیں بگڑیں تھیں۔ مرزا ان کو اپنا رشتہ دار بتانا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا تھا۔

    مرزا کا دوست کلیم جب گھروالوں سے ناراض ہو کر مرزا کی طرف آ گیا تو مرزا نے گھر کی بجائے اسے مسجد میں ٹھہرایا۔ مسجد میں اندھیرا تھا، جس کے حوالے سے کلیم کے اعتراض کو مرزا نے اس خوب صورتی سے ٹالا، مرزا کی چرب زبانی ملاحظہ کریں:

    چراغ کیا میں نے تو لیمپ روشن کروانے کا ارادہ کیا تھا، لیکن گرمی کے دن ہیں، پروانے بہت جمع ہو جائیں گے اور آپ زیادہ پریشان ہوں گے اور اس مکان میں ابابیلوں کی کثرت ہے، روشنی دیکھ کر گرنے شروع ہوں گے اور آپ کا بیٹھنا دشوار کر دیں گے۔ تھوڑی دیر صبر کیجیے کہ ماہتاب نکال آتا ہے۔

    کلیم کو بھوک نے ستایا تو اس نے ذکر کیا، مرزا نے پہلے تو دیر ہو جانے کا عذر پیش کیا اور پھر بالآخر بُھنے ہوئے چنے لے آیا اور کرنے لگا تعریفیں چنوں کی۔

    مرزا کا لازوال کردار دراصل دہلی کے شکست خوردہ اور زوال پذیر معاشرے کے کھوکھلے پن، ظاہری نام و نمود اور ریا کاری کا عکس ہے۔ یہ کردار ہر معاشرے میں آج بھی تلاش کیا جا سکتا ہے جو غربت کے باعث احساسِ کمتری کا شکار ہو گیا، امیروں میں شامل ہونے کے شوق میں مذہبی و اخلاقی اقدار سے بھی بے بہرہ ہو جاتا ہے۔ محض اپنی چرب زبانی سے سب کو مرعوب کرنے میں مصروف رہتا ہے۔

    (ارشاد علی کے مقالے، ‘اردو نثر کے مضحک کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ’ سے اقتباس)