Tag: مشہور کرکٹر

  • بین اسٹوکس کے بعد ایک اور مشہور کرکٹر آئی پی ایل سے نکل گئے

    بین اسٹوکس کے بعد ایک اور مشہور کرکٹر آئی پی ایل سے نکل گئے

    دنیا کے نامور آل راؤنڈر بین اسٹوکس کے بعد اب انگلینڈ کے چوٹی کے بیٹر جو روٹ نے بھی انڈین پریمیئر لیگ کے اگلے ایڈیشن کو خیرباد کہہ دیا ہے۔

    راجستھان رائلزکی جانب سے اس بات کا اعلان اپنے آفیشل ایکس کاؤنٹ پر کیا، آئی پی ایل فرنچائز کا کہنا تھا کہ ہمیں آئندہ سال 2024 کے ایڈیشن میں انگلش بیٹر کا ساتھ دستیاب نہیں ہوگا۔ جو روٹ نے اس سیزن سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ہے،

    فرنچائز نے جو روٹ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’ڈریسنگ روم میں آپ کی کمی محسوس کی جائے گی‘۔ راجستھان رائلز نے جو روٹ کو خریدنے کے لیے اسی سال تقریباً 121,000 امریکی ڈالرز ادا کیے تھے۔

    انگلینڈ کے معروف بیٹر نے 19 دسمبر کو ہونے والی نیلامی سے قبل ہی فرنچائزز کو ڈیڈ لائن سے ایک دن پہلے اپنے آئی پی ایل نہ کھیلنے کے فیصلے سے آگاہ کردیا ہے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل چنئی سپر کنگز کے پلیئر بین اسٹوکس نے گھٹنے کے آپریشن اور کرکٹ میں ورک لوڈ کو مینج کرنے کے لیے آئی پی ایل 2024 ایڈیشن سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا۔

    بین اسٹوکس کو آئی پی ایل میں چنئی سپر کنگز نے سب سے مہنگی بولی 16 کروڑ 25 لاکھ بھارتی روپے میں خریدا تھا، تاہم اب وہ اپنی ٹیم کو دستیاب نہیں ہیں۔

  • کرکٹ سے دل بستگی کا ایک پرانا واقعہ

    کرکٹ سے دل بستگی کا ایک پرانا واقعہ

    یوں تو آج کل ہر وہ بات جس میں ہارنے کا امکان زیادہ ہو کھیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کھیل اور کام میں جو بین فرق ہماری سمجھ میں آیا، یہ ہے کہ کھیل کا مقصد خالصتاً تفریح ہے۔ دیکھا جائے تو کھیل کام کی ضد ہے جہاں اس میں گمبھیرتا آئی اور یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کے لیے کھیل ہے اور گھوڑے کے لیے کام۔

    ضد کی اور بات ہے ورنہ خود مرزا بھی اس بنیادی فرق سے بے خبرنہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ ٹنڈو اللہ یار سے معاوضہ پر مشاعرہ “پڑھ‘‘ کے لوٹے تو ہم سے کہنے لگے، ’‘فی زمانہ ہم تو شاعری کو جب تک وہ کسی کا ذریعۂ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بد معاشی سمجھتے ہیں۔‘‘ اب یہ تنقیح قائم کی جا سکتی ہے کہ آیا کرکٹ کھیل کے اس معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ دراصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگّا کھاتا ہے۔

    ان کی قومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملے میں انتہائی جذباتی ہوجاتے ہیں اور معاملاتِ محبت میں پرلے درجے کے کاروباری۔ اسی خوش گوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا۔

    کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تأسف کا اظہار کرنا اپنی نا واقفیتِ عامّہ کا ثبوت دینا ہے۔ 1857ء کی رست خیز کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، کرکٹ انگریزوں کے لیے مشغلہ نہیں مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرأت کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے، جس میں کام سے زیادہ عرق ریزی کرنا پڑتی ہے۔

    اب اگر کوئی سر پھرا منہ مانگی اجرت دے کر بھی اپنے مزدوروں سے ایسے موسمی حالات میں یوں کام کرائے تو پہلے ہی دن اس کا چالان ہو جائے۔ مگر کرکٹ میں چونکہ عام طور سے معاوضہ لینے کا دستور نہیں، اس لیے چالان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کر کے کام میں تبدیل ہو گیا وہ اس کے موجدین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔

    غالبؔ نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہو کر کہا تھا کہ ہم مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں، بالکل بچّوں کا سا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچّہ سیانا ہوتا ہے کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیر سنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔ کرکٹ کے رسیا ہم جیسے ناآشنائے فن کو لاجواب کرنے کے لیے اکثر کہتے ہیں، ’’میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس!‘‘ عجیب اتفاق ہے۔ تاش کے دھتی بھی رمی کے متعلق نہایت فخر سے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سولہ آنے سائنٹیفک کھیل ہے۔ بَکنے والے بَکا کریں، لیکن ہمیں رمی کے سائنٹیفک ہونے میں مطلق شبہ نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ ہارنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک طریقہ ہنوز دریافت نہیں ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ کرکٹ اور رمی قطعی سائنٹیفک ہیں اور اسی بنا پر کھیل نہیں کہلائے جاسکتے۔

    بات یہ ہے کہ جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا کھیل کھیل نہیں رہتا کام بن جاتا ہے۔ ایک دفعہ کرکٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ہم نے مرزا سے کہا کہ کھیلوں میں وہی کھیل افضل ہے جس میں دماغ پر کم سے کم زور پڑے۔

    فرمایا، ’’بجا! آپ کی طبعِ نازک کے لیے نہایت موزوں رہے گا۔ کس واسطے کہ جوئے کی قانونی تعریف یہی ہے کہ اسے کھیلنے کے لیے عقل قطعی استعمال نہ کرنی پڑے۔‘‘ محض کرکٹ ہی پر منحصر نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان عام ہے کہ تعلیم نہایت آسان اور تفریح روز بروز مشکل ہوتی جاتی ہے (مثلاً بی اے کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر برج سیکھنے کے لیے عقل درکار ہے) ریڈیو، ٹیلی ویژن، سنیما اور با تصویر کتابوں نے اب تعلیم کو بالکل آسان اور عام کر دیا ہے لیکن کھیل دن بدن گراں اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا بعض غبی لڑکے کھیل سے جی چرا کر تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔

    اس سے جو سبق آموز نتائج رونما ہوئے وہ سیاست دانوں کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔

    کسی اعتدال پسند دانا کا قول ہے، ’’کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کام اچھا۔‘‘ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں اس زرّیں اصول سے سراسر اختلاف ہے تو اس کو یہ معنیٰ نہ پہنائے جائیں کہ خدانخواستہ ہم شام و سحر، آٹھوں پہر کام کرنے کے حق میں ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہم اپنا شمار ان نارمل افراد میں کرتے ہیں جن کو کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کھیل ہی اچھا لگتا ہے اور جب کھل کے باتیں ہو رہی ہیں تو یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ فی الواقع کام ہی کے وقت کھیل کا صحیح لطف آتا ہے۔ لہٰذا کرکٹ کی مخالفت سے یہ استنباط نہ کیجیے کہ ہم تفریح کے خلاف بپھرے ہوئے بوڑھوں (ANGROLD MEN) کا کوئی متحدہ محاذ بنانے چلے ہیں۔

    ہم بذاتِ خود سو فی صد تفریح کے حق میں ہیں، خواہ وہ تفریح برائے تعلیم ہو، خواہ تعلیم براہِ تفریح! ہم تو محض یہ امر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر چہ قدیم طریقِ تعلیم سے جدید طرزِ تفریح ہزار درجے بہتر ہے؛ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔

    (مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ‘چراغ تلے’ سے ایک شگفتہ پارہ)

  • کرکٹر ڈونلڈ بریڈ مین کی انگلینڈ کے خلاف انوکھی چال!

    کرکٹر ڈونلڈ بریڈ مین کی انگلینڈ کے خلاف انوکھی چال!

    ڈونلڈ بریڈ مین کو دنیائے کرکٹ کا عظیم کھلاڑی تسلیم کیا گیا ہے۔ 1949ء میں انھیں "سر” کے خطاب سے نوازا گیا اور 1979ء میں وہ آسٹریلیا کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے بھی سرفراز کیے گئے۔

    ڈونلڈ جارج بریڈ مین نے ڈان بریڈ مین کے نام سے خوب شہرت پائی۔ 27 اگست 1908ء کو پیدا ہونے والے بریڈ مین کا تعلق آسٹریلیا سے تھا۔ انھوں‌ نے 25 فروری 2001ء میں‌ ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ وہ آسٹریلیا کی تاریخ کے مشہور ترین کھلاڑیوں میں سے ایک تھے۔ آج ان کے یومِ‌ وفات پر کرکٹ کی تاریخ‌ کا یہ مشہور واقعہ قارئین کی دل چسپی کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔

    1936-37 کی بات ہے جب ایشز سیریز میں نائٹ واچ مین کا عجیب واقعہ پیش آیا۔ آسٹریلیا کی ٹیم اپنی مہمان ٹیم انگلینڈ سے دو ٹیسٹ ہار چکی تھی اور تیسرا ٹیسٹ میلبورن میں کھیلا جارہا تھا۔

    سَر ڈان بریڈ مین پہلی مرتبہ ٹیم ی کپتانی کررہے تھے اور آسٹریلین بورڈ کو شک تھا کہ سینئر کھلاڑی ان سے تعاون نہیں کررہے ہیں۔ پہلی اننگز میں جب اس عظیم کھلاڑی نے بیٹنگ کی تو انہیں احساس ہوا کہ پچ بہت خراب ہے اور مکمل دھوپ نہ لگنے کی وجہ سے اس کی اوپری سطح پر گیند چپک رہی ہے اور رک کر آرہی ہے۔ انہوں نے جیسے تیسے 200 رنز بنائے اور نو کھلاڑیوں پر اننگز ڈیکلیئر کر دی۔

    ادھر انگلینڈ کے کپتان گبی ایلن بھی پچ کو سمجھ چکے تھے اور بیٹنگ کے دوران جب ان کے لیے پچ اور مشکل معلوم ہوئی اور 76 رنز پر نو کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تو انہوں نے اننگز ڈیکلیئر کردی تاکہ آسٹریلیا دوبارہ کھیلنے آئے اور جلد شکار ہوجائے۔

    کرکٹ لیجنڈ ڈونلڈ بریڈ مین نے اس موقع پر انوکھی چال چلی۔ انہوں نے اپنے ریگولر اوپنرز کی جگہ آخری نمبر پر کھیلنے والے بولروں فلیٹ ووڈ اسمتھ اور بل اوریلی کو اوپنر کے طور پر بھیج دیا، جس پر دونوں نے احتجاج بھی کیا، لیکن بریڈ مین نے انہیں کہا کہ آج کی شام کا کچھ وقت نکال لو، تیسرے دن تک پچ صحیح ہوجائے تو ہم سنبھال لیں گے۔ وہ دونوں گئے لیکن زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے، ان کے بعد اگلے دو بلّے باز، جو بولر ہی تھے، انہوں نے مطلوبہ وقت نکال لیا اور تیسرے دن جب چوتھی وکٹ گری تو بریڈ مین میدان میں‌ اترے جن کے ساتھ دوسری طرف ریگولر اوپنر فنگلیٹن تھے۔

    اس وقت تک پچ سوکھ چکی تھی اور پتّھر ہورہی تھی۔ گیند بلّے پر ٹھیک آرہی تھی اور اس روز بریڈ مین اور فنگلیٹن نے اسی پچ پر 400 رنز کی پارٹنر شپ بنا دی۔ آسٹریلیا کے بریڈ مین نے اس میں 270 اور فنگلیٹن نے 136 رنز اسکور کیے۔ اس طرح مجموعی 564 رنز نے انگلینڈ کو مشکل میں‌ ڈال دیا۔ دوسری اننگز میں 689 رنز کا ہدف ملا تھا، لیکن انگلینڈ اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود 365 رنز سے یہ ٹیسٹ ہارا۔ اگلے دونوں ٹیسٹ جیت کر آسٹریلیا نے ایشز کا تاج اپنے سَر پر سجا لیا۔

    پوری ٹیم کے نائٹ واچ مین (ٹیسٹ کرکٹ میں یہ اصطلاح کسی اچھے اور مستند بلّے باز کو بچانے کے لیے استعمال ہوتی ہے) بنانے کی یہ حکمتِ عملی بریڈ مین کی ذہانت کا نتیجہ تھی۔ وہ آسٹریلیا کی پہلی شخصیت تھے جن کی زندگی ہی میں ایک عجائب گھر قائم کرکے اسے بریڈ مین سے موسوم کیا گیا۔

  • چڑیا کو ہلاک کرنے والے جہانگیر خان کی برسی

    چڑیا کو ہلاک کرنے والے جہانگیر خان کی برسی

    ڈاکٹر جہانگیر خان ٹیسٹ کرکٹ میں ہندوستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی کرکٹ ٹیم کے رکن تھے جنھوں نے کھیل کے میدان میں مختصر عرصہ گزارا۔ تاہم کرکٹ کی تاریخ میں ایک واقعے کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    یہ 4 جولائی 1936 کی بات ہے جب جہانگیر خان کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے ایم سی سی کے خلاف میدان میں‌ اترے۔ مخالف ٹیم بیٹنگ کررہی تھی۔

    جہانگیر خان نے کرکٹ پچ پر موجود بیٹسمین ٹی این پیئرس کو گیند کرانے کے لیے دوڑ لگائی اور جیسے ہی گیند ان کے ہاتھ سے نکلی اسی وقت ایک چڑیا پرواز کرتی ہوئی آکر اس سے ٹکرا گئی۔

    پوری قوت سے پھینکی گئی گیند کی ضرب نے چڑیا کو اس کی زندگی سے محروم کر دیا۔

    سبھی کھلاڑی اس ننھی چڑیا کی ہلاکت پر دکھی تھے، اور یہ ایک حادثہ تھا۔ اس چڑیا کو حنوط کر کے لارڈز گراؤنڈ کے لانگ روم میں محفوظ کرلیا گیا اور اس کے ساتھ ہی وہ گیند بھی وہیں‌ رکھ دی گئی۔

    آج اس ٹیسٹ کرکٹر کی برسی ہے۔ ڈاکٹر جہانگیر خان 23 جولائی 1988 کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔