Tag: مشہور کھانے

  • گنجے نہاری والے کی دکان

    گنجے نہاری والے کی دکان

    ایرے غیرے نتھو خیرے نہاری کی دُکانیں لے بیٹھے ہیں۔ پہلے گنتی کے نہاری والے تھے۔ ایک چاندنی چوک میں۔ ایک لال کنویں پر۔ ایک حبش خاں کے پھاٹک میں اور ایک چتلی قبر اور مٹیا محل کے درمیان۔ ان میں سے ہر ایک شہر کا ایک ایک کونا دبائے ہوئے تھا۔

    سب سے زیادہ مشہور گنجے نہاری والے کی دکان تھی جو گھنٹہ گھر کے پاس قابل عطّار کے کوچے اور سیدانیوں کی گلی کے بیچ میں بیٹھتا تھا۔ جب تک یہ زندہ رہا، نہاری اپنے اصلی معنوں میں نہاری رہی۔ یہ کیا مرا کہ نہاری کا مزہ ہی مرگیا۔ نہاری کیا کھاتے ہیں کلیجا جلاتے ہیں۔

    یہ دکان ہم نے دیکھی ہے، بلکہ وہاں جاکر نہاری بھی کھائی ہے۔ شوقین دور دور سے پہنچتے تھے۔ گرم گرم روٹی اور تُرت دیگ سے نکلی ہوئی نہاری۔ جتنی نلیاں چاہیں جھڑوائیں۔ بھیجا ڈلوایا۔ پیاز سے کڑکڑاتا ہوا گھی، بوم کی بے ریشہ بوٹیاں۔ ادرک کا لچھا۔ کتری ہوئی ہری مرچوں کی ہوائی اور کھٹے کی پھٹکار۔ سبحان اللہ نواب رام پور کا پورا دستر خوان صدقے تھا۔ گھروں میں اِس سامان کے لیے پورے اہتمام کی ضرورت ہے۔ اس لیے جو اصل میں نہاری کا لُطف اٹھانا چاہتے تھے، انھیں دکان ہی پر جانا پڑتا تھا۔

    شہر کے نہاری بازوں کی آج بھی نہاری والوں کے ہاں بھیڑ لگی رہتی ہے۔ صبح سے دس بجے تک تانتا نہیں ٹوٹتا، تو اس کا ذکر ہی کیا خصوصاً گنجے کی دکان پر۔ سورج نکلا نہیں کہ لوگوں کی آمد شروع ہوگئی۔ دس اندر بیٹھے کھا رہے ہیں تو بیس پیالے، کٹورے بادیے، پتیلیاں لیے کھڑے ہیں۔ ایک پیسے سے لے کر دو روپے کے گاہک ہوتے تھے۔ لیکن مجال ہے کوئی ناراض ہو یا کسی کو اس کی مرضی کے مطابق نہ ملے۔ زیادہ سے زیادہ نو بجے دیگ صاف ہوجاتی تھی۔ اجلے پوشوں کے لیے بالاخانے پر انتظام تھا جہاں سب طرح کی آسانیاں تھیں۔

    یہ دکان دار گنجے نہاری والے ہی کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی آن کا کیا کہنا۔ سنا ہے کہ چھنّا مل والے دہلی کے رئیسِ اعظم اس کی دکان کو خریدنا چاہتے تھے۔ ہزار کوششیں کیں۔ روپے کا لالچ دیا۔ جایداد کی قیمت دُگنی اور چوگنی لگا دی، یہاں تک کہ دکان میں اشرفیاں بچھا دینے کو کہا۔ دوسرا ہوتا تو آنکھیں بند کر لیتا۔ وہیں کہیں قابل عطّار کے کوچے میں، بلی ماروں میں یا رائے مان کے کوچے میں جا بیٹھتا۔ لیکن میاں گنجے مرتے دم تک اپنی اسی آن سے وہیں بیٹھے رہے۔

    ہم پانچ چار دوست پیٹ بھر کر نہاری کے شوقین تھے۔ جاڑا آیا اور نہاری کا پروگرام بنا۔ یوں تو اتوار کے اتوار باری باری سے کسی نہ کسی کے گھر پر نہاری اڑا ہی کرتی تھی لیکن ہر پندرہویں دن اور اگر کوئی باہر کا مہمان آگیا تو اس معمول کے علاوہ بھی خاص دکان پر جاکر ضرور کھا لیا کرتے تھے۔

    ہمارا دستور تھا۔ ہم پر کیا منحصر ہے نہاری بازوں کے یہ بندھے ہوئے قاعدے ہیں کہ صبح کے لیے رات سے تیاری ہوتی تھی۔ تازہ خالص گھی دو چھٹانک فی کس کے حساب سے مہیا کیا جاتا تھا۔ گاجر کا حلوا حبش خاں کے پھاٹک یا جمال الدین عطّار سے لیتے تھے۔ اور تو کیا کہوں اب ویسا حلوا بھی کھانے میں نہیں آتا۔ گندے نالے کی پھکسی ہوئی نیلی سفید، پھیکی سیٹھی، کچی یا اتری ہوئے گاجروں کی گلتھی ہوتی ہے۔ اب اور کیا تعریف کروں۔ خیر! صبح ہوئی، موذّن نے اذان دی اور نہاری نے پیٹ میں گدگدیاں کیں۔

    ہمارے دوستوں میں خدا بخشے ایک سید پونیے تھے۔ بڑے زندہ دل، یاروں کے یار، نہایت خدمتی۔ یہ ان کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ اندھیرے سے اٹھ کر ایک ایک دوست کے دروازے کی کنڈی پیٹیں، گالیاں کھائیں، کوسنے سنیں اور ایک جگہ سب کو جمع کر دیں۔ سامان اسی غریب پر لادا جاتا۔

    جب تک ہماری یہ ٹولی زندہ سلامت رہی اور میاں گنجے صاحب نیچی باڑ کی مسلی مسلائی لیس دار ٹوپی سے اپنا گنج ڈھانکے چھینٹ کی روئی دار کمری کی آستینوں کے چاک الٹے۔ رفیدہ سے چہرے پر لہسنیا ڈاڑھی لگائے، آلتی پالتی مارے، چمچ لیے دیگ کےسامنے گدّی پر دکھائی دیتے رہے، نہ ہمارا یہ معمول ٹوٹا اور نہ نہاری کی چاٹ چھوٹی۔ دو چار مرتبہ کی تو کہتا نہیں ورنہ عموماً ہم اتنے سویرے پہنچ جاتے تھے کہ گاہک تو گاہک دکان بھی پوری طرح نہیں جمنے پاتی تھی۔ کئی دفعہ تو تنور ہمارے پہنچے پر گرم ہونا شروع ہوا اور دیگ میں پہلا چمچ ہمارے لیے پڑا۔ دکان کے سارے آدمی ہمیں جان گئے تھے اور میاں گنجے کو بھی ہم سے ایک خاص دل چسپی ہوگئی تھی۔

    تین چار مواقع پر اس نے خصوصیت کے ساتھ ہمارے باہر والے احباب کی دعوت بھی کی اور یہ تو اکثر ہوتا تھا کہ جب علی گڑھ یا حیدرآباد کے کوئی صاحب ہمارے ساتھ ہوتے وہ معمول سے زیادہ خاطر کرتا۔ فرمایش کے علاوہ نلی کا گودا، بھیجا اور اچھی اچھی بوٹیاں بھیجتا رہتا اور باوجود اصرار کے کبھی ان چیزوں کی قیمت نہ لیتا۔

    اب یہ اپنے شہر والوں کی پاس داری کہاں؟ ہماری وضع میں کیا سلوٹیں آئیں کہ زندگی کی شرافت ہی میں جھول پڑگئے۔

    (یہ پارہ اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کے مضمون سے لیا گیا ہے، جنھوں نے دلّی کی تہذیب و ثقافت کو اپنے دل نشیں‌ انداز میں تحریر کیا ہے)

  • دلّی والوں کا دستر خوان

    دلّی والوں کا دستر خوان

    1947ء سے پہلے تک دلّی والوں کا دستر خوان بڑا سادہ ہوتا تھا۔ جیسا بھی کچھ زور تھا وہ بس دو وقت کے کھانے پر تھا، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا۔

    ناشتے کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا، سوائے اس کے کہ شدید گرمی کے موسم میں تانبے کی درمیانی سائز کی قلعی دار بالٹی میں کبھی برف ڈال کر تخمِ ریحاں کا شربت بن گیا، جسے بول چال کی زبان میں تخمراں کا شربت کہتے تھے اور بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ تخمراں اصل میں کس لفظ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

    کسی دن ستّو بن گئے، ستّوﺅں میں مٹھاس کے لیے گڑ کی شکر پڑتی تھی، کسی دن اور زیادہ عیش کا موڈ آیا تو بازار سے دہی منگوا کے دہی کی لسّی بنالی۔ سب نے ایک ایک گلاس اس مشروب کا پیا اور بس ناشتہ ہوگیا۔

    شدید گرمی کے علاوہ باقی موسم میں ناشتے کے نام پر صرف چائے بنتی تھی جس کے لیے تانبے کی قلعی دار پتیلی چولھے پر چڑھتی تھی، جو پانی چائے بنانے کو ابالنے کے چڑھایا جاتا تھا اس میں تھوڑی سی کنکریاں نمک کی ضرور ڈالی جاتی تھیں، پانی میں اُبال آنے کے بعد اس میں چائے کی پتّی ڈالی جاتی تھی اور اسے اس وقت تک اونٹایا جاتا تھا جب تک کہ چائے کی پتّی خوب پانی پی کر پتیلی کی تہ میں نہ بیٹھ جائے۔

    اب اس میں چینی اور بھینس کا جوش کیا ہوا بالکل خالص دودھ ملایا جاتا تھا، اس کے بعد چند منٹ تک چائے چلانے کے لیے ایک خاص قسم کے چمچے سے جسے گھَنٹی کہتے تھے، چائے بھر بھر کے کئی بار نکالی اور انڈیلی جاتی تھی جیسے دودھ کی دکان پر دودھ والے کڑھاﺅ میں سے لُٹیا میں دودھ نکال کر اونچائی پر لے جاکر واپس کڑھاﺅ میں ڈالتے ہیں، یہ اس لیے تاکہ چائے کا درجہ حرارت اس مقام پر قائم رہے جہاں اس کے ابلنے کا احتمال نہ ہو، اب گویا چائے تیار۔

    ایک دوسری قلعی دار پتیلی میں یہ چائے چھان کر پلٹ لی جاتی اور پھر اس گھنٹی سے نکال نکال کر سب کو دی جاتی تھی۔ چائے یا چینی کے تیز یا ہلکا ہونے کا کوئی مذاق اس وقت تک نہیں پیدا ہوا تھا، سب کو ایک ہی برانڈ کی چائے ملتی تھی۔

    بعض بچّے یہ چائے، چائے کے کپ میں پینے کے بجائے چینی کے پیالے میں لیتے تھے اور اس میں رات کی بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑے بھگو کر چمچے سے سڑپ سڑپ کر کے کھاتے تھے۔ بچّوں کو چائے دن بھر میں صرف ایک بار صبح ناشتے پر ملتی تھی، باقی ناشتے کی بچی ہوئی چائے قدرے چھوٹی پتیلی میں منتقل کر کے گنجینے (توشہ خانے) میں رکھ دی جاتی تھی، شام تک ایک دو دور اس چائے کے بڑوں کے چلتے تھے۔

    جب موسم ذرا گلابی ہوجاتا تو پھر بچّوں کو ناشتے میں چھوٹی سی روغنی ٹکیہ اور انڈے کا چھوٹا آملیٹ ملتا تھا، اس طرح کہ ایک انڈے کو پھینٹ کر اس میں سے کم از کم چار چھوٹی چھوٹی ٹکیاں انڈے کی تل کر بچوں کو روغنی ٹکیہ کے اوپر رکھ کر دی جاتی تھی، کبھی کبھی زیادہ عیش کا موڈ ہوا تو بازار سے حلوہ پوری یا نہاری آگئی۔

    (پروفیسر اسلم پرویز (مرحوم) کی آپ بیتی ‘‘میری دلّی‘‘ سے انتخاب)

  • روٹی، توے سے تنّور تک ذائقہ ہی نہیں صورت بھی بدلتی ہے

    روٹی، توے سے تنّور تک ذائقہ ہی نہیں صورت بھی بدلتی ہے

    دنیا کے مختلف ممالک میں ضیافت اور مہمان داری کا انداز اور طریقے بھی مختلف ہیں۔ تہواروں اور تقاریب میں مہمانوں کے لیے قسم قسم کا پکوان اور لذیذ کھانے تیّار کیے جاتے ہیں، لیکن گھروں میں ہمیں غذائی اشیا کی کچھ مخصوص شکلیں ضرور دیکھنے کو ملتی ہیں، جو طعام کے لوازم میں شامل ہوتی ہیں۔

    اس کی ایک مثال روٹی ہے جو برصغیر پاک و ہند میں ہر قسم کے سالن، سبزی ترکاری، دال دلیے کا لازمہ مانی جاتی ہے۔ کیا امیر، کیا غریب سبھی روٹی سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔

    عام روٹی کے علاوہ تہواروں اور تقاریب کے لیے پکوانوں کی مناسبت سے مختلف اقسام کی روٹیاں تیّار کی جاتی ہیں۔ ان کے بنانے کا طریقہ بھی مختلف ہوتا ہے اور ان کے نام بھی۔ اس کے لیے تجربہ کار اور ماہر کاری گروں کی ضرورت پڑتی ہے۔

    گندم کے آٹے کی روٹی ہمارے یہاں عام استعمال کی جاتی ہے اور اسے ہم چپاتی، پھلکا اور پراٹھا کے نام سے جانتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں لوگ ناشتے میں مکھن، دہی، دودھ یا لسّی کے ساتھ بھی سادہ روٹی اور پراٹھے کھاتے ہیں۔

    پاکستان میں گھروں میں‌ جو روٹیاں پکائی جاتی ہیں، وہ بھی اپنی شکل و صورت اور اجزائے ترکیبی میں مختلف ہوتی ہیں۔ اس کی سادہ مثال تو روٹی کا گول یا چوکور ہونا ہے جب کہ الٹے توے کی روٹی بھی مشہور ہے اور اکثر علاقوں میں‌ یہی روٹی کھائی جاتی ہے، اسی طرح غذائی اجزا کی بات کی جائے تو بعض لوگ‌ گندم کے علاوہ جَو کی روٹی بھی کھاتے ہیں۔ باجرہ ایک اہم غذائی جنس ہے اور اس کے آٹے کی بھی روٹی پکائی جاتی ہے۔

    چپاتی، پراٹھے، پھلکا اور پوری وغیرہ بنانے میں خمیر کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن روٹیوں کی بعض اقسام ایسی ہیں جن میں خمیر کی آمیزش ضروری ہوتی ہے۔ انھیں نان بائی اور ماہر باورچی پُھلانا اور خستہ و خوش ذائقہ بنانا جانتا ہے۔ عام طور پر ایسی روٹیاں گھروں میں‌ تیّار نہیں کی جاتیں، کیوں کہ اس میں‌ خاصی محنت لگتی ہے اور اکثر ایسی روٹیاں پکانے کے لیے خاص طریقہ اور مہارت درکار ہوتی ہے۔

    آلو کے پراٹھے، میٹھی روٹی، بیسن کی روٹی، مولی، گوبھی اور دال بھرے پراٹھوں کا ذائقہ آپ کی زبان نے بھی چکھا ہو گا۔ ایسی روٹیوں کا لطف بدلتے ہوئے موسم کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے۔

    مختلف شکلوں‌ میں نمکین، میٹھی اور مزے دار روٹیاں نان، کلچہ، پوری، شیر مال، روغنی پراٹھا جیسے ناموں سے پہچانی جاتی ہیں اور یہ انواع و اقسام کے سالن، ساگ اور چٹنی کے ساتھ کھائی جاتی ہیں۔