Tag: مشہور کہانی

  • ‘ایک شاہی پیغام…’

    ‘ایک شاہی پیغام…’

    بادشاہ نے، کہتے یہی ہیں، تمہیں، فردِ واحد کو، جو اس کی رعایا کا ادنیٰ سا حصّہ ہے، بادشاہت کے سورج سے فرار ہو کر زیادہ سے زیادہ ممکن دوری پر پناہ لے چکے انتہائی چھوٹے سے حقیر سائے کو، ہاں تمہیں، تمہیں ہی تو، بادشاہ نے اپنے بسترِ مرگ سے ایک پیغام بھجوایا ہے۔

    بادشاہ کے اشارے پر قاصد نے شاہی بستر کے پاس زمین پر اپنے گھٹنے ٹیکے تو انتہائی علیل بادشاہ نے قاصد کو تمہارے نام اپنا یہ پیغام سرگوشی میں دیا۔ بادشاہ کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم تھا۔ اسی لیے قاصد سے کہا گیا کہ وہ سرگوشی میں یہی پیغام بادشاہ کے کان میں دہرائے۔ جب قاصد یہ پیغام دہرا چکا تو بادشاہ نے جو کچھ سرگوشی میں سنا تھا، اس کے درست ہونے کی سَر ہلا کر تصدیق بھی کر دی۔

    اس وقت بادشاہ کو مرتے دیکھنے والے جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے اور بادشاہ کے درمیان رکاوٹ بننے والی تمام چلمنیں ہٹا دی گئی تھیں، تمام رکاوٹی پردے گرائے جا چکے تھے اور سامنے دور اوپر تک جانے والی گول سیڑھیوں پر دائرے کی شکل میں سلطنت کے تمام شہزادے کھڑے تھے۔ ان سب کے سامنے قاصد نے خود کو فوراً سفر کے لیے تیار کیا اور وہاں سے چل پڑا۔

    قاصد ایک مضبوط جسم والا ایسا شخص تھا جو کبھی تھکتا نہیں تھا۔ وہ حاضرین کے ہجوم کو کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں بازو سے پیچھے ہٹاتے اور اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ جہاں کہیں اسے کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا، وہ اپنے سینے پر چمکتا سورج کا نشان دکھا دیتا۔ وہ اتنی آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا، جتنی کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں تھی۔

    لیکن ہجوم بہت ہی بڑا تھا۔ عام لوگوں کے تو محل سے باہر گھروں کے سلسلے بھی بڑے طویل تھے۔ اگر وہ جلد ہی کسی کھلی جگہ پہنچ جاتا، تو وہ اتنی تیزی سے سفر کرتا، جیسے اڑ رہا ہو۔ اور پھر جلد ہی تم یہ آواز سنتے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کے مکّے بنا کر تمہارے دروازے پر زبردست انداز میں دستک دے رہا ہوتا۔ لیکن اس کے بجائے وہ تو ابھی تک محل کے سب سے اندرونی حصے کے مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانے میں ہی مصروف تھا۔

    اس کی یہ کاوش بالکل بے نتیجہ ہوتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان کمروں سے نکلنے میں کبھی کام یاب نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر کام یاب ہو بھی گیا، تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ اسے ابھی سیڑھیاں اترنے کے لیے بھی لڑائی کرنا تھی۔

    اگر وہ سیڑھیاں اترنے میں کام یاب ہو بھی گیا، تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ سیڑھیوں کے بعد اسے کئی وسیع و عریض برآمدے بھی عبور کرنا تھے۔ ان دالانوں کے بعد ایک دوسرا محل تھا جس نے اس محل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جہاں سے نکلنے کی قاصد کوشش کر رہا تھا۔ اس دوسرے محل کے بعد بھی، پھر سیڑھیاں اور برآمدے تھے اور پھر ایک اور محل۔

    یہ جدوجہد یونہی جاری رہی۔ ہزاروں سال تک۔ وہ قاصد بالآخر محل کے سب سے بیرونی دروازے سے باہر نکلنے میں کام یاب ہو سکا؟ کبھی نہیں۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ قاصد اگر کبھی محل سے باہر نکلتا بھی، تو پہلے اس کے سامنے شاہی دارالحکومت ہوتا، دنیا کا مرکز، اپنی ہی مٹی میں اس طرح دفن جیسے پھٹنے کو ہو۔

    یہاں سے تو کبھی کوئی گزر ہی نہیں سکتا۔ کسی مردے کا پیغام لے کر جانے والا تو کبھی بھی نہیں۔ تم لیکن اپنے گھر کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہو، جب شام گہری ہونے لگے، تو تم بس اس پیغام کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔

    (جرمن زبان میں تحریر کردہ فرانز کافکا کی ایک تمثیل کا اردو ترجمہ)

  • ’’وصیت‘‘

    ’’وصیت‘‘

    ایک تھا کچھوا۔ ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگائی۔

    کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تو نے کیوں لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے پہنچے، اسے اختیار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔

    دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تو یہ جا وہ جا، پلک چھپکنے میں خاصی دور نکل گیا۔ میاں کچھوے وضع داری کی چال چلتے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ تھوڑی دور پہنچے تو سوچا بہت چل لیے۔ اب آرام بھی کرنا چاہیے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شان دار ماضی کی یادوں میں کھو گئے۔ جب اس دنیا میں کچھوے راج کیا کرتے تھے۔ سائنس اور فنونِ لطیفہ میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔ یونہی سوچتے میں آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ خود تو تختِ شاہی پر بیٹھے ہیں۔ باقی زمینی مخلوق شیر، چیتے، خرگوش، آدمی وغیرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں یا فرشی سلام کر رہے ہیں۔

    آنکھ کھلی تو ابھی سستی باقی تھی۔ بولے ابھی کیا جلدی ہے۔ اس خرگوش کے بچّے کی کیا اوقات ہے۔ میں بھی کتنے عظیم ورثے کا مالک ہوں۔ واہ بھئی واہ میرے کیا کہنے۔

    جانے کتنا زمانہ سوئے رہے تھے۔ جب جی بھر کے سستا لیے تو پھر ٹیلے کی طرف رواں ہوئے۔ وہاں پہنچے تو خرگوش کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دی کہ واہ رے مستعدی میں پہلے پہنچ گیا۔ بھلا کوئی میرا مقابلہ کر سکتا ہے؟ اتنے میں ان کی نظر خرگوش کے ایک پلّے پر پڑی جو ٹیلے کے دامن میں کھیل رہا تھا۔

    کچھوے نے کہا، ’’اے برخوردار تُو خرگوش خان کو جانتا ہے؟‘‘ خرگوش کے بچّے نے کہا، ’’جی ہاں جانتا ہوں۔ میرے ابّا حضور تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ وہ کچھوے میاں ہیں جنہوں نے باوا جان سے شرط لگائی تھی۔ وہ تو پانچ منٹ میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد مدتوں آپ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر انتقال کر گئے۔ جاتے ہوئے وصیت کر گئے تھے کہ کچھوے میاں آئیں تو ان کے کان کاٹ لینا۔ اب لائیے ادھر کان۔‘‘

    کچھوے نے اپنے کان اور سری خول کے اندر کر لی۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔

  • ٹکٹ چیکر کون تھا؟ ایک دل گداز واقعہ

    ٹکٹ چیکر کون تھا؟ ایک دل گداز واقعہ

    ایک بڑھیا بے چاری بڑی مشکل سے ہانپتی کانپتی ٹرین کے ڈبّے میں سوار ہوگئی۔ چھوٹی سی گٹھری اس کے ساتھ تھی۔ اسے لے کر بمشکل وہ ایک طرف کو تھوڑی سی جگہ بنا کر بیٹھ گئی۔

    یہ دو آدمیوں کا چھوٹا سا فرسٹ کلاس کا ڈبّہ تھا لیکن اس کے اندر بیس آدمی ٹھسے ہوئے تھے۔ کوئی کھڑا تھا، کوئی بیٹھا تھا، جو جگہ لوگوں سے بچ گئی تھی، اس میں سامان رکھا ہوا تھا۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی کسی سے پوچھ نہ سکتا تھاکہ بھیّا تم کس درجہ کے مسافر ہو؟ یہ فرسٹ کلاس کا ڈبّہ ہے اور پہلے سے دو آدمیوں کے لیے ریزرو ہے۔

    یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ملک تقسیم ہوا تھا، پاکستان وجود میں آیا ہی تھا، اللہ اور رسول ﷺ کے نام پر۔ اس لیے یہی مسلمانوں کا وطن تھا۔ ہندوستان سے مسلمان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جان بچائے کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ رہے تھے۔

    یہ بے چاری بڑھیا بھی اپنا سب کچھ لٹا کر نہ جانے کس طرح بچتی بچاتی پاکستان پہنچ گئی تھی۔ اسے اتنا ہوش ہی کہاں تھا کہ یہ تمیز کر سکتی کہ وہ کس درجہ میں آکر بیٹھ گئی۔ اُسے تو بس ایک بات معلوم تھی کہ یہ ہمارا ملک ہے، یہ ہماری گاڑی ہے۔ جو دوسرے مسافر تھے ان کا بھی یہی حال تھا۔

    گاڑی کو پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے کچھ بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک اسٹیشن پر ٹکٹ چیکر ڈبّے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کاپی تھی، مشتاق احمد صاحب اپنی آپ بیتی کا روانِ حیات میں لکھتے ہیں۔

    "ٹکٹ چیکر کو دیکھ کر معاً مجھے خیال آیا کہ مدتوں میں ریلوے کا افسر رہا ہوں۔ دیکھو! یہ چیکر کیا کرتا ہے۔

    چیکر نے بڑھیا کو دیکھا تو اس سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا۔ وہ اللہ کی بندی کسی قابل ہوتی تو کچھ کہتی۔ بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ پڑے۔ اس کے پاس ٹکٹ نہ تھا۔ کسی درجہ کا بھی ٹکٹ نہ تھا۔

    ملک کے حالات، بڑھیا کی کیفیت، غم و اندوہ کی فضا ایسی تھی کہ عام معمولات کی پابندی بہت مشکل تھی۔ مشتاق صاحب لکھتے ہیں۔ میں نے بڑی حیرت سے دیکھا کہ چیکر نے اپنی نوٹ بک نکالی اور بلا ٹکٹ سفر پر بڑھیا کا چالان کر دیا۔ اس نے رسید کاٹ دی تو بڑھیا اُس سے بے اختیار بولی۔ بیٹا! میرے پاس کچھ نہیں تُو یہ رسید نہ کاٹ۔

    جواب ملا، امّاں اگر ہم بلا ٹکٹ سفر کریں تو ہمارے نئے ملک کا کام کیسے چلے گا؟ تمھارا چالان ہوگا، پیسے داخل ہوں گے۔ تم بہت دکھیاری ہو۔ تمھارے لیے میرا دل بھی دکھی ہے۔ یہ جرمانہ تم نہیں دوگی، میں اپنی طرف سے دے دوں گا۔

    احساسِ فرض، ملک کی محبّت اور بے سہاروں کی خدمت کا یہ ایسا انمول واقعہ تھا کہ سب مسافروں کے دلوں پر نقش ہوگیا۔ آج کوئی نہیں جانتا کہ یہ فرض شناس اور ملک دوست ٹکٹ چیکر کون تھا؟ لیکن دل بے اختیار کہتا ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی تھا۔

    (شاہ بلیغ الدّین کی کتاب "روشنی ” سے ایک دل گداز پارہ)

  • شاہی اصطبل اور ماشکی کا گدھا

    شاہی اصطبل اور ماشکی کا گدھا

    یہ ایک غریب اور محنت کش کی کہانی ہے جو اپنے گدھے پر مشکیں لاد کر لوگوں کے گھروں تک پانی پہنچاتا اور ان سے اپنی محنت اور اس مشقّت کا معاوضہ وصول کرتا۔ سب اسے ماشکی کہتے تھے جو اس کام سے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل ہی بھر پاتا، لیکن کوئی دوسرا ذریعہ معاش اس کی سمجھ نہیں‌ آتا تھا، اس لیے برسوں‌ سے یہی کام کیے جارہا تھا۔

    ایک طرف یہ ماشکی صبح سے دن ڈھلنے تک یہ کام کرتے ہوئے تھک جاتا تھا تو دوسری طرف اس کا گدھا بھی پانی سے بھری ہوئی مشکوں‌‌ کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے نڈھال ہوجاتا تھا۔ شہر کے ایک کنویں‌ کے علاوہ کچھ فاصلے پر جنگل کے قریب ایک میٹھے پانی کا چشمہ تھا، جہاں‌ دن میں‌ کئی چکر لگانے پڑتے تھے۔ اب اس گدھے کی حالت ابتر ہوگئی تھی۔ اکثر اسے کھانے کو پیٹ بھر کچھ نہ ملتا اور کام بہت زیادہ کرنا پڑتا تھا۔ اس کی پیٹھ پر زخم پڑ جاتے یا کبھی کوئی چوٹ لگ جاتی تو ماشکی دوا دارو، مرہم پٹّی پر توجہ نہ دیتا اور گدھا تکلیف برداشت کرنے پر مجبور تھا۔ وہ بے زبان ان حالات سے تنگ آکر ہر وقت اپنی موت کی آرزو کرنے لگا۔

    ایک دن اس گدھے کو شاہی اصطبل کے داروغہ نے دیکھا تو اس کی حالت پر بڑا رحم آیا۔ اس نے محنت کش سے کہا،’’تمھارا گدھا قریب المرگ ہے، اس کی حالت تو دیکھو، اسے کچھ دن آرام کرنے دو اور پیٹ بھر کر کھانے کو دو۔‘‘ ماشکی نے مؤدبانہ انداز اختیار کرتے ہوئے عرض کیا، ’’مائی باپ! گدھے کو کہاں سے کھانے کے لیے دوں؟ خود میری روٹیوں کے لالے پڑے ہیں، دن رات محنت کرنے کے باوجود بال بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر روٹی نہیں‌ کھلا پاتا۔‘‘

    یہ سن کر داروغہ کو اور ترس آ یا۔ کہنے لگا، ’’میاں ماشکی، تم چند روز کے لیے اپنے گدھے کو میرے حوالے کر دو، میں اسے شاہی اصطبل میں رکھوں گا۔ وہ تر و تازہ گھاس ، چنے اور جو کا دانہ کھا کھا کر دنوں میں پھول کر موٹا تازہ ہو جائے گا۔‘‘ ماشکی یہ سن کر خوش ہو گیا اور اپنا مریل گدھا اس کے سپرد کر دیا۔ داروغہ نے اسے لے جا کر شاہی اصطبل میں باندھ دیا۔ وہاں جاکر گدھے کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

    ہر طرف ترکی اور عربی النّسل گھوڑے نہایت قیمتی ساز و سامان کے ساتھ اپنے اپنے تھان پر بندھے ہوئے تھے۔ ہر گھوڑے کا بدن خوب فربہ تھا اور ان کی کھال آئینے کی طرح چمک رہی تھی۔ چار چار آدمی ایک ایک گھوڑے کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔ کوئی کھریرا کر رہا تھا، کوئی مالش، کوئی دانہ کھلا رہا تھا، کوئی پیٹھ پر محبت سے تھپکیاں دینے میں مصروف تھا۔ پھر گدھے نے یہ بھی دیکھا کہ گھوڑوں کے تھان نہایت صاف ستھرے ہیں۔ لید کا نام و نشان نہیں۔ لوہے کی بڑی بڑی ناندوں میں ہری ہری گھاس، جَو اور چنا بھیگا ہوا ہے۔

    یہ دیکھ کر گدھے نے اپنی تھوتھنی اٹھائی اور خدا سے فریاد کی ’’یا الٰہی! یہ کیا تماشا ہے، بے شک میں گدھا ہوں، لیکن کس جرم کی پاداش میں میرا برا حال ہے اور کس لیے میری پیٹھ زخموں سے بھری ہوئی ہے؟ کیا میں تیری مخلوق نہیں ہوں؟ کیا تُو نے مجھے پیدا نہیں فرمایا اور کیا تُو میرا ربّ نہیں ہے؟ پھر کیا سبب ہے کہ یہ گھوڑے اتنی شان و شوکت سے رہیں، دنیا کی بہترین نعمتیں ان کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوں اور میں دن بھر بوجھ ڈھو کر بھی اپنے مالک کی مار پیٹ اور گالیاں کھاؤں؟‘‘

    ابھی گدھے کی یہ فریاد ناتمام ہی تھی کہ اصطبل میں ہلچل مچی۔ گھوڑوں کے نگہبان اور خدمت گار دوڑے دوڑے آئے، ان پر زینیں کسیں اور ٹھیک کر کے باہر لے گئے۔ اتنے میں طبلِ جنگ بجنے لگا۔ معلوم ہوا کہ سرحد کے قریب گاؤں میں ایک بڑے گروہ سے جھڑپ چھڑ گئی ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے فوجی گھوڑوں پر سوار ہو کر گئے ہیں۔

    شام کے وقت گھوڑے میدانِ جنگ سے اس حال میں واپس آئے کہ ان کے جسم زخموں سے چور اور لہو میں رنگین تھے۔ بعض گھوڑوں کے بدن تیروں سے چھلنی ہو رہے تھے اور تیر ابھی تک ان کے جسموں میں گڑے تھے۔ اپنے تھان پر واپس آتے ہی تمام گھوڑے لمبے لمبے لیٹ گئے اور ان کے پیر مضبوط رسوں سے باندھ کر نعل بند قطاروں میں کھڑے ہوگئے۔ پھر گھوڑوں کے بدن میں پیوست تیر کھینچ کھینچ کر نکالے جانے لگے۔ جونہی کوئی تیر باہر آتا، گھوڑے کے بدن سے خون کا فوارہ بلند ہوتا۔

    جب گدھے نے یہ تماشا دیکھا تو مارے ہیبت کے روح کھنچ کر حلق میں آگئی۔ بدن کا ایک ایک رونگٹا کانپنے لگا۔ خدا سے عرض کی کہ مجھے معاف کر دے، میں نے اپنی جہالت اور بے خبری سے تیرے حضور میں گستاخی کی۔ میں اپنے اس حال میں خوش اور مطمئن ہوں۔ میں ایسی شان و شوکت اور ایسے کروفر سے باز آیا جس میں بدن زخموں سے چور چور ہو اور خون پانی کی طرح بہے۔

    سچ ہے کہ میں ان سے بہت بہتر ہوں، مار کھاتا ہوں‌، تیر تو جسم میں‌ پیوست نہیں ہوتے، ڈنڈے پڑنے سے میری ہڈیاں‌ درد کرتی ہیں، لیکن بھاگتے ہوئے ایسے نہیں‌ گرتا کہ ہڈی چور چور ہو جائے، اکثر میری کھال کٹ پھٹ جاتی ہے، لیکن ایسا تو نہیں‌ ہوتا جو ان گھوڑوں کے ساتھ ہوا ہے، میرا مالک دن ڈھلنے پر مجھے ایک کونے میں‌ چھوڑ کر جیسے بھول جاتا ہے اور میں اپنی مرضی سے اپنی جگہ پر گھوم پھر لیتا ہوں، لیکن ان گھوڑوں کے خدمت گار تو دن رات ان کے ساتھ ہی چمٹے رہتے ہیں۔

    چند دنوں بعد داروغہ نے ماشکی کو بلا کر گدھا اس کے حوالے کر دیا۔ گدھا پہلے کی نسبت کافی بہتر لگ رہا تھا۔ اس کے مالک نے سوچا کہ اس کا سبب اچھی خوراک اور آرام و سکون ہے، مگر گدھا جانتا تھا کہ اصطبل میں‌ رہ کر‌ اسے جن نعمتوں کے ساتھ اپنی حیثیت اور مقام کا جو احساس ہوا ہے، وہ یہ سب دیکھنے سے پہلے کبھی نہیں‌ ہوا تھا۔ گدھا یہ سمجھ چکا تھا کہ جو جہاں‌ ہے، وہیں‌ عافیت اور چین سے ہے اور ہر چیز کی آرزو نہیں‌ کرنا چاہیے۔

  • تصویرِ جاناں کیوں‌ نہیں‌ بنوائی؟

    تصویرِ جاناں کیوں‌ نہیں‌ بنوائی؟

    ایک نواب کے دربار میں وزرا، امرائے سلطنت کے علاوہ علما اور دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔

    دربار میں‌ موجود لوگوں میں ایک نابینا کے علاوہ فقیر، عاشق اور ایک عالم بھی شامل تھا۔

    نواب صاحب نے ایک مصرع دے کر ان چاروں سے کہا کہ شعر مکمل کریں۔

    وہ مصرع تھا:

    "اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں”

    نابینا نے شعر یوں مکمل کیا:

    اس میں گویائی نہیں اور مجھ میں بینائی نہیں
    اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں

    فقیر نے کہا:

    مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں
    اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں

    عاشق نے تو گرہ لگائی:

    ایک سے جب دو ہوئے پھر لطف یکتائی نہیں
    اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں

    نواب نے سلطنت کے نیک نام اور پرہیز گار عالم کی طرف دیکھا تو انھوں‌ نے یوں شعر مکمل کیا:

    بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں
    اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں

    کہتے ہیں ہر شخص کی سوچ اور فکر کا زاویہ مختلف ہوتا ہے اور وہ اپنے علم، مطالعے کے ساتھ اپنے مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں‌ کسی مسئلے اور نکتے کو بیان کرتا ہے اور یہی اس دربار میں ہوا۔

    سبھی اس شعر پر جھوم اٹھے اور نواب نے عالم صاحب کو خوب داد دی۔

  • دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا- مثال کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

    دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا- مثال کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

    کہتے ہیں کسی شہر سے نزدیک ایک گائوں میں دھوبی رہتا تھا جو قریبی ندی کے کنارے گھاٹ پر کپڑے دھوتا تھا۔ اس کے پاس کہیں سے ایک اچھی نسل کا کتا آگیا جو اسی کے ساتھ رہنے لگا۔ دھوبی صبح سویرے گھاٹ کا رخ کرتا اور کام ختم کر کے ہی لوٹتا۔ یہ اس کا برسوں سے معمول چلا آرہا تھا۔

    وہ کتا بڑا وفادار تھا اور دن رات اس کے گھر کی رکھوالی کرتا۔ جب صبح سویرے دھوبی گھاٹ پر چلا جاتا تو وہ اپنے مالک کی دہلیز پر جیسے اس کی واپسی کی راہ تکتے بیٹھا رہتا۔

    دھوبی کی بیوی روز گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر دوپہر کا کھانا لیتی اور گھاٹ پر جانے لگتی تب کتا بھی اس کے ساتھ چل پڑتا، بیوی تو کھانا دے کر لوٹ آتی مگر کتا وہیں رک جاتا اور اپنے مالک کے ساتھ لوٹتا۔ یہ اس کی عادت بن گئی تھی۔

    دھوبی کی بیوی کھانا باندھتی تو ایک روٹی کتے کے لیے بھی ساتھ ہی باندھ دیا کرتی تھی کہ گھاٹ پر اس کا شوہر کتے کے آگے ڈال دے گا۔ اسے یقین تھا کہ جب وہ کھانا کھائے گا تو اس وقت کتا بھی تقاضا کرے گا۔

    دھوبی کی بیوی کھانا چھوڑ کر واپس آجاتی اور ادھر وہ بے زبان جانور گھاٹ پر اس انتظار میں رہتا کہ کب مالک روٹی نکالے اور اسے بھی دے۔ دھوبی کام سے فارغ ہو کر کھانا کھاتا، لیکن یہ سوچ کر کتے کو روٹی نہ ڈالتا کہ گھر پر دے دی گئی ہو گی۔

    دھوبی کتے کی بے چینی کو کبھی سمجھ ہی نہیں سکا۔ کتا کم زور ہونا شروع ہو گیا اور ایک روز مر گیا۔ گائوں والوں نے بڑا افسوس کیا۔ سب اس کی موت کی وجہ جاننا چاہتے تھے۔

    ایک روز چند گاؤں والے جمع تھے کہ کتے کا ذکر نکلا کسی نے کچھ پوچھا، کسی نے کچھ، مگر ایک سیانے نے سوال کیا کہ اسے روٹی کتنی ڈالی جاتی تھی؟

    دھوبی نے بیوی کو بلایا کہ بتائو کتے کے آگے روٹی کتنی ڈالتی تھی؟ تب یہ راز کھلا کہ انجانے میں دھوبی سمجھتا رہا کہ گھر اور اس کی بیوی سمجھتی رہی کہ گھاٹ پر کتے کو روٹی مل رہی ہے۔ مگر ماجرا اس کے برعکس تھا۔

    یوں سب اس نتیجے پر پہنچے کہ کتے کی موت کا اصل سبب "بھوک اور فاقہ” ہے۔ تب کسی سیانے نے کہا:

    "یک در گیر و محکم گیر” (ایک در پکڑو اور مضبوط پکڑو) اور یوں یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ "دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا”

    ARY News Urdu- انٹرٹینمنٹ، انفوٹینمنٹ میگزین

  • دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیسے ہوتا ہے؟

    دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیسے ہوتا ہے؟

    دودھ کا دودھ پانی کا پانی ایک مشہور کہاوت ہے اور ایسے موقع پر سنی جاتی ہے، جب کسی کا سچ اور جھوٹ کھل کر سامنے آجائے یا کسی کو اس کے اچھے یا برے فعل کا بدلہ مل جائے۔

    اس کہاوت کے پس منظر میں جائیں تو ہمیں ایک قصہ پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے جو یہاں‌ آپ کی دل چسپی کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔

    ایک گوالا تھا جو زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کے خبط میں مبتلا ہو گیا۔ اس پر پیسے جمع کرنے کی دھن سوار ہو گئی تھی اور وہ لالچ میں اندھا ہو چکا تھا۔

    اس کے ذہن میں دولت کمانے کا سیدھا اور آسان طریقہ یہ آیا کہ وہ دودھ میں پانی ملا کر بیچنا شروع کرے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ شہر میں رہ کر اس نے ناجائز طریقے سے بہت جلد مال بنا لیا۔ جب اس کے پاس اچھی خاصی رقم اکٹھی ہو گئی تو وہ اپنے گاؤں جانے کی تیاری کرنے لگا۔

    گوالے نے ایک روز اپنی ساری رقم ایک تھیلی میں ڈالی اور گاؤں کی طرف چل دیا۔ ان دنوں شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا۔

    گوالا بھی گرمی کی وجہ سے نڈھال تھا۔ اس کے راستے میں ایک دریا پڑا تو اس نے نہانے کا ارادہ کیا اور رپوں کی تھیلی ایک درخت کے نیچے رکھ کر دوسروں کی نظر میں آنے سے چھپانے کی غرض سے اس پر کپڑے ڈال دیے۔ اس طرف سے مطمئن ہونے کے بعد اس نے لنگوٹ کس لیا اور پانی میں کود پڑا۔

    گوالا جس علاقے میں نہانے کے لیے رکا تھا، وہاں بندر بہت پائے جاتے تھے۔ اتفاق سے ایک بندر اسی درخت پر بیٹھا ہوا تھا جس کے نیچے گوالے نے رقم کی تھیلی رکھ کر اس پر کپڑے ڈال دیے تھے۔ اس نے یہ سارا ماجرا دیکھ لیا تھا۔ بندر بہت شراتی تھا۔ اس نے گوالے کو دریا میں نہاتے دیکھا تو درخت سے اترا اور رپوں کی وہ تھیلی اٹھا کر درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔

    گوالا پانی سے نکلا تو اس کی نظر بندر پر پڑی جس کے پاس رقم والی تھیلی تھی۔ اس نے بندر کو ڈرانے کی کوشش کی کہ کسی طرح وہ تھیلی نیچے پھینک دے، لیکن بندر اس سے ذرا نہ گھبرایا۔ اس نے تھیلی کھولی اور رُپے ایک ایک کر کے ہوا میں اڑانے لگا، کچھ زمین پر اور کچھ دریا میں گرنے لگے۔ گوالا رُپوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن یہ آسان نہ تھا۔

    اس دوران وہاں لوگ جمع ہو گئے اور تماشا لگ گیا۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو اس گوالے کی بے ایمانی سے واقف تھے۔ انھوں نے جب گوالے کو یوں روتا پیٹتا دیکھا تو کہنے لگے، ‘‘دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔’’
    یعنی اس نے جو پیسے دودھ میں پانی ملا کر ناجائز طریقے سے کمائے تھے وہ پانی ہی میں مل گئے۔

  • نیچی جگہ کا پانی…

    نیچی جگہ کا پانی…

    تھوڑی سی بارش ہوتی اور پانی پھسلتا ہوا نشیب میں جمع ہوجاتا۔ مکھیاں اور مچھر گندگی پھیلاتے۔

     

    ”ایمرجنسی راج میں ہم سے فیصلوں میں تو کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بڑے عہدوں پر تعینات افسروں نے اچھے فیصلے لاگو کرنے میں شاید ہی غلطیاں کی ہوں۔“ ایمرجنسی کی وجہ سے ٹوٹ جانے والی حکومت کے ایک اہم عہدے دار کا خیال تھا۔

     

    ”چوکی دار ذمے دار ہے، گھونٹ لگا کے کہیں پڑ گیا ہوگا۔ پیچھے سے سارا گودام خالی ہوگیا۔“

     

    سرکاری گودام سے چینی چوری ہو جانے پر حفاظتی افسر کا بیان تھا۔

     

    ”متعلقہ فائل گم ہوگئی ہے تو متعلقہ کلرک سے پوچھو، اسی کی بے پروائی سے گم ہوئی ہے۔“ محکمے کا سربراہ کہہ رہا تھا۔

     

    لاکھوں روپے کا گھپلا پکڑے جانے کے بعد متعلقہ فائل گم ہوگئی تھی۔

     

    ”مقامی مل میں ملاوٹ! ہوسکتا ہے، رات کی شفٹ میں کام کرنے والے کسی مزدور سے کوتاہی ہوگئی ہو اور مل کے باہر پڑے ہوئے کنکر پتھر اور مٹی مسالے میں مل گئی ہو۔ لکھو کے بچے کو ضرور سزا ملنی چاہیے، اسی کی غفلت سے یہ گڑبڑ ہوئی۔“ مل مالک پولیس سے کہہ رہا تھا۔

     

    مالی ذمے دار ہے، چپراسی ذمے دار ہے، بھنگی ذمے دار ہے، مزدور ذمے دار ہے۔

     

    بارش ہو رہی ہے۔ نیچے گندے تالاب میں اب اور پانی جمع نہیں ہوسکتا۔

     

    پانی کا دریا منہ زور ہو رہا ہے، کنارے کھڑی ہوئی مضبوط عمارتیں ریت کے گھروندوں کی طرح ڈھے رہی ہیں۔

     

    (ہم درد ویر نوشہروی کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ حکم راں یا صاحبانِ اختیار جب اپنے فرائض‌ اور ذمہ داریاں‌ ادا نہیں‌ کرتے اور مسائل اور مشکلات پر ماتحتوں‌ کو مطعون کرکے عوام کو دھوکا دیتے ہیں‌ تو بھول جاتے ہیں‌ کہ یہ بگاڑ‌ اور خرابیاں‌ ایک روز ان کے گھروں‌ کی بنیادیں‌ بھی ہلا سکتی ہیں)