Tag: مشہور کہانیاں

  • مجبور لکڑہارا (جرمنی کی لوک کہانی)

    مجبور لکڑہارا (جرمنی کی لوک کہانی)

    ایک چھوٹے سے گاؤں میں کوئی غریب لکڑہارا ایک جھونپڑی میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بڑے بیٹے کا نام ہینسل اور بیٹی کا نام گریٹل تھا جو دراصل اس کی پہلی بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد لکڑہارے نے دوسری شادی کر لی تھی۔

    لوک کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    لکڑہارا دن بھر جنگل میں لکڑیاں کاٹتا اور پھر ان کو بازار لے جا کر بیچ دیتا۔ اس سے جو کچھ نقدی ملتی، اس سے گھر کا خرچ چلاتا، لیکن اس کی آمدنی اتنی کم تھی کہ اکثر اس کنبے کو ایک وقت کی روٹی ہی میسر آتی۔ اس کی بیوی، جو بچوں کی سوتیلی ماں تھی، ایک سخت جان اور خود غرض عورت تھی۔

    ایک رات، جب گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا، لکڑہارے کی بیوی نے اس سے کہا، "ہمارے پاس اتنا کھانا نہیں کہ سب کا پیٹ بھر سکے۔ ہمیں بچوں کو جنگل میں چھوڑ آنا چاہیے تاکہ ان کی ذمہ داری ختم ہو اور ہم دونوں اپنا پیٹ بھر سکیں۔ یہ وہاں کسی طرح کچھ کھا پی کر جی ہی لیں گے۔” لکڑہارا اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا تھا، اس نے انکار کر دیا، لیکن اس نے طرح طرح کی باتیں بنا کر اور طعنے دے کر اپنے شوہر کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر ہی دیا۔

    اتفاق سے جس رات لکڑہارے کو اس کی بیوی نے اس ظلم اور گھناؤںے کام کے لیے بھوک کا خوف دلاتے ہوئے قائل کیا، ہینسل کسی وجہ سے سو نہیں سکا تھا۔ وہ ایک ہوشیار اور بہادر لڑکا تھا۔ اس رات خاموشی سے زمین پر لیٹے ہوئے ہینسل نے اپنی سوتیلی ماں کا منصوبہ سن لیا تھا۔ پہلے تو وہ گھبرایا مگر پھر اپنے ذہن کو اس کا حل تلاش کرنے کے لیے دوڑانے لگا اور پھر مطمئن ہو کر سو گیا۔ اگلی صبح، سوتیلی ماں نے بچوں سے کہا کہ کچھ دیر بعد وہ سب جنگل میں لکڑیاں کاٹنے چلیں گے۔ اس نے ہینسل اور گریٹل کو کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی دیا۔ اب ہینسل نے گریٹل کو ساتھ لیا اور جھونپڑی سے باہر نکل گیا، اور تھوڑی ہی دیر میں لوٹ آیا۔

    بچوں نے دیکھا کہ والدین جیسے انہی کے منتظر تھے۔ وہ ہینسل اور گریٹل کو لے کر جنگل کی طرف بڑھنے لگے۔ جنگل شروع ہوا تو ہینسل اپنی جیب سے وہ مخصوص قسم کے پتھر راستے میں گراتا ہوا جانے لگا، جو اس نے صبح کنویں کے قریب ایک عمارت کے کھنڈر سے جمع کیے تھے۔ یہ عام پتھر نہیں تھے بلکہ چاند کی روشنی میں‌ ایک خاص چمک پیدا کرتے تھے۔ وہ یہ پتھر نشانی کے طور پر گرا رہا تھا تاکہ راستہ پہچان سکے۔ گھنے درختوں کے درمیان پہنچ کر سوتیلی ماں نے بچوں سے کہا کہ وہ ایک جگہ بیٹھ جائیں، ہم دونوں ذرا آگے لکڑیاں کاٹنے جا رہے ہیں اور جلد لوٹ آئیں گے، لیکن کافی دیر گزر گئی اور وہ نہیں لوٹے۔ وہ دونوں منصوبہ کے مطابق بچوں کو چھوڑ کر گھر واپس چلے گئے تھے۔

    ادھر دن ڈھلنے کو تھا اور اب انھیں بھوک بھی ستا رہی تھی۔ گریٹل رونے لگی۔ ہینسل نے اسے دلاسہ دیا اور کہا، "چاند نکلنے کا انتظار کرو۔” جب چاندنی پھیلی تو ہینسل کے گرائے ہوئے پتھر چمکنے لگے۔ دونوں بہن بھائی ان کو دیکھتے ہوئے جنگل سے نکل کر گھر واپس پہنچ گئے۔ لکڑہارا انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوا، لیکن سوتیلی ماں غصے سے بھر گئی۔

    کچھ دن عافیت سے گزر گئے مگر پھر وہی کھانے پینے کا مسئلہ اور گھر میں فاقے کی نوبت آن پڑی۔ تب، سوتیلی ماں نے دوبارہ لکڑہارے کو مجبور کیا کہ بچوں کو جنگل میں چھوڑ آتے ہیں۔ اس مرتبہ انھوں نے بچوں کو پہلے سے نہیں بتایا۔ یوں ہینسل رات کو پتھر جمع نہ کر سکا۔ صبح اچانک ہی ان کو سوتیلی ماں نے کسی بہانے سے جنگل جانے کا بتایا۔ وہ سب جنگل کی طرف چل دیے۔ اتفاق سے گھر میں روٹی کے چند ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ ہینسل نے آنکھ بچا کر وہ اپنی جیب میں ٹھونس لیے۔ راستے میں وہ روٹی کے ٹکڑوں کو گراتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس مرتبہ بھی والدین نے وہی کیا، لیکن جب شام ڈھلی تو ہینسل کو واپسی کی فکر ہوئی۔ وہ اپنی بہن کا ہاتھ تھام کر اندازے سے آگے بڑھنے لگا اور دونوں زمین پر غور سے نشانی ڈھونڈنے لگے، لیکن وہ ٹکڑے تو پرندوں نے کھا لیے تھے۔ دونوں بہن بھائی جنگل میں بھوک اور تھکاوٹ سے نڈھال، تین روز تک بھٹکتے رہے۔ اچانک انھیں ایک جھونپڑی نظر آئی، جو مٹھائی، کیک، اور چاکلیٹ سے بنی تھی۔ یہ عجیب و غریب گھر دیکھ کر وہ حیران تو ہوئے مگر بھوک کی شدت کے باعث انھوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر جھونپڑی کو نوچ کر سب چیزیں کھانا شروع کردیں۔ اچانک دروازہ کھلا، اور ایک بوڑھی عورت باہر نکلی۔ وہ نہایت چالاک جادوگرنی تھی۔ اس نے میٹھی آواز میں کہا، "آؤ بچو، اندر آؤ، تمھیں اور بہت کچھ کھانے کو دوں گی۔”

    جادوگرنی نے دھوکے سے ان کو اندر بلا لیا اور ہینسل کو ایک پنجرے میں بند کر دیا۔ اسے گریٹل بہت پیاری لگی۔ اس نے گریٹل کو اپنی خادمہ بنا لیا۔ جادوگرنی نے گریٹل سے کہا کہ وہ ہینسل کے لیے بہت سا کھانا پکائے تاکہ وہ موٹا ہو جائے اور پھر وہ اسے بھون کر کھا سکے۔ جادوگرنی کی آنکھیں کمزور تھیں، اس لیے وہ ہر روز ہینسل کی انگلیاں چھو کر دیکھتی کہ وہ موٹا ہوا یا نہیں۔ ہینسل نے پنجرے میں رہتے ہوئے اس کی کمزوری کو بھانپ لیا تھا۔ ادھر وہ اپنی بہن سے موقع پاکر اشاروں اشاروں میں باتیں کرتا رہتا تھا۔ وہ یہی منصوبہ بناتے تھے کہ یہاں سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ ایک روز اس نے جادوگرنی کے کھانے سے بچی ہوئی ایک ہڈی کی طرف اشارہ کیا اور گریٹل نے نظر بچا بھائی کو وہ ہڈی تھما دی۔ اب ہینسل نے ہوشیاری سے اپنی انگلی کی جگہ وہ ہڈی جادوگرنی کے چھونے کے لیے آگے بڑھا دی، جسے وہ ظالم ہینسل کی انگلی سمجھی۔ دو تین ہفتوں تک ہینسل اس کے ساتھ یہی کرتا رہا اور جادوگرنی سمجھتی رہی کہ وہ موٹا ہوگیا ہے۔

    آخر کار، جادوگرنی نے گریٹل سے کہا کہ وہ تنور تیار کرے، کیونکہ وہ ہینسل کو بھون کر کھانا چاہتی ہے۔ گریٹل نے معصومیت سے پوچھا، "تنور کو دہکانے کے لیے کیا کروں، مجھے کبھی اس کا تجربہ نہیں‌ ہوا۔ میری مدد کریں۔” جادوگرنی اس کی باتوں میں آگئی۔ اس نے تنور کے اندر جھانک کر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور عین اس لمحے جب وہ تنور میں‌ جھانک رہی تھی، گریٹل نے جادوگرنی کو دھکا دیا، اور وہ تنور میں سر کے بل جا گری۔ گریٹل نے قریب پڑا ہوا لکڑی کا موٹا سا ڈنڈا اٹھایا اور جادوگرنی کی کمر پر برساتی چلی گئی۔ اس کے ہاتھ اسی وقت رکے جب گریٹل نے پنجرے سے آواز لگائی کہ وہ اسے باہر نکالے۔

    گریٹل نے ہینسل کو پنجرے سے آزاد کیا جس نے باہر آتے ہی سب سے پہلے تنور کو دہکا دیا تاکہ جادوگرنی کا قصہ تمام ہوجائے۔ اب انھوں نے جھونپڑی کو کھنگالا تو وہاں کافی مقدار میں سونا اور کئی قیمتی چیزیں ملیں۔ دونوں نے ایک بڑی سی چادر میں وہ سب مال جمع کیا اور اسے پیٹھ پر لاد کر وہاں سے نکل گئے۔ کسی طرح دونوں اس جنگل سے باہر نکلنے میں بھی کام یاب ہوگئے۔ آخر کار وہ اپنے گھر پہنچے۔ معلوم ہوا کہ ان کی سوتیلی ماں مر چکی ہے، اور لکڑہارا اپنے بچوں کے ساتھ ناروا سلوک پر پچھتا رہا ہے۔ وہ انھیں دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگیا۔ بچوں نے اپنے باپ کو جادوگرنی کی کٹیا سے لوٹا ہوا وہ خزانہ دیا جس سے ان کے باپ نے زمین خریدی اور کھیتی باڑی شروع کی۔ انھوں نے ایک اچھا سا گھر بنوایا اور خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

    (یہ مشہور جرمن لوک کہانی کا اردو ترجمہ ہے لیکن اس میں کہانی کے مزاج اور تفصیلات کو برقرار رکھتے ہوئے کئی ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جو اگرچہ اصل کہانی کا حصہ نہیں مگر اسے پُرلطف اور دل چسپ ضرور بناتی ہیں)

  • بادشاہ کے تین سوال

    بادشاہ کے تین سوال

    ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو تین سوالوں‌ کا درست جواب دینے پر آدھی سلطنت دینے کا وعدہ کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ چاہے تو یہ چیلنج قبول کرے اور اگر اسے لگتا ہے کہ ناکام ہوجائے گا تو معذرت کر لے، لیکن ان سوالوں کو جان لینے کے بعد اسے جواب لازمی دینا ہو گا اور اس امتحان میں ناکامی کی سزا موت ہوگی۔

    وزیر لالچ میں آگیا۔ اس نے سوچا ایسا کون سا سوال ہے جس کا جواب نہ ہو۔ وہ کسی دانا اور عالم سے پوچھ کر بادشاہ کو ضرور جواب دے سکے گا۔ اس نے ہامی بھر لی۔ بادشاہ نے اس کے سامنے اپنا پہلا سوال یہ رکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟ دوسرا سوال تھا دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟ اور تیسری بات جو بادشاہ نے پوچھی وہ یہ تھی کہ دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے؟

    بادشاہ نے اپنے وزیر کو ایک ہفتہ کی مہلت دی اور وزیر نے سلطنت کے عالی دماغ اور دانا لوگوں کو اکٹھا کرلیا۔ وہ ان کے سامنے یہ سوال رکھتا گیا لیکن کسی کے جواب سے وزیر مطمئن نہیں ہوا۔ اسے موت سر پر منڈلاتی نظر آنے لگی۔ مہلت ختم ہونے کو تھی، تب وزیر سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر محل سے فرار ہوگیا۔ چلتے چلتے رات ہوگئی۔ ایک مقام پر اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا۔ وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کی جواب کچھ یوں دیے۔ اس نے پہلے سوال کا جواب دیا کہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔ اسی طرح‌ دوسرا جواب تھا دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔ اور تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کے جواب بتا دوں تو مجھے کیا ملے گا؟ سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔

    کسان کی بات سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے شاہی اصطبل کا نگران بنانے کا وعدہ بھی کرلیا۔ کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا۔ وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤ گے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے ہرکارے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤ گے۔ یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے مسترد کر دیا۔ اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا۔ کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے، بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لو تو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتا دوں گا۔ یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔

    وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا
    تو کسان نے کہا کہ دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے! جس کے لیے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے!

  • چیونٹی اور پیوپا (قدیم یونانی حکایت)

    چیونٹی اور پیوپا (قدیم یونانی حکایت)

    ایک چمکیلی دوپہر کو ایک چیونٹی خوراک کی تلاش میں تیزی سے بھاگی جا رہی تھی کہ اس کا ٹاکرا ایک پیوپا سے ہوا جو اپنی جون بدلنے کی حالات میں تھا۔

    پیوپا نے اپنی دُم ہلائی تو چیونٹی اس کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے احساس ہوا کہ یہ بھی کوئی جاندار ہے۔ وہ حقارت سے بولی: ” بیچارے جانور، تمہیں دیکھ کر تو ترس آتا ہے، تمہاری قسمت کتنی خراب ہے کہ تم حرکت بھی نہیں کر سکتے، اور اپنے خول میں قید صرف دم ہلا سکتے ہو، جب کہ میں اپنی مرضی اور خوشی سے ادھر، ادھر تیزی سے دوڑ سکتی ہوں۔ اور اگر میں چاہوں تو سب سے اونچے درخت کی سب سے اوپر والی شاخ تک بھی پہنچ سکتی ہوں۔” پیوپا نے یہ سب سنا لیکن چیونٹی کو جواب دینے سے گریز کیا۔

    کچھ دنوں بعد کے جب چیونٹی کا گزر ایک بار پھر وہاں سے ہوا۔ وہاں پیوپا کا بس خول پڑا تھا۔ وہ حیران ہوئی کہ اس خول میں موجود پیوپا کہاں گیا۔ ابھی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اسے اپنے اوپر سائے کا احساس ہوا۔ اس نے اٹھا کر دیکھا تو اسے بڑے بڑے پروں والی ایک رنگ برنگی خوب صورت تتلی ہوا میں اڑتی نظر آئی۔

    تتلی نے چیونٹی سے کہا: "میں وہی پیوپا ہوں جسے تم نے چند روز قبل دیکھ کر اس پر ترس کھایا تھا اور اپنی برتری جتلائی تھی، اب مجھے تم پر ترس آتا ہے۔”

    یہ کہہ کر تتلی فضا میں بلند ہوئی اور موسمِ گرما کی ہوا کے دوش پر، فضا میں تیرتی، چیونٹی کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوگئی۔

    سبق: کسی کا ظاہر دیکھ کر عجلت میں کوئی قیاس کرنا اور اس پر اپنی رائے دینا شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔

    (مشہور یونانی داستان گو ایسوپ کی ایک حکایت جس کا ترجمہ قیصر نذیر خاورؔ نے کیا ہے)

  • سونے کی رکابی ( ایک سبق آموز کہانی)

    سونے کی رکابی ( ایک سبق آموز کہانی)

    کہتے ہیں‌ کسی ملک کا بادشاہ اپنے ایک ملازم سے ناراض ہوگیا بادشاہ نے ملازم کو دربار سے نکال دیا اور حکم دیا کہ تم دن رات اپنے گھر میں رہو، کہیں باہر نہ نکلنا اور کوئی کام بھی مت کرنا۔

    یہ بظاہر کوئی کڑی سزا تھی اور نہ ہی ایسی قید جس میں اس ملازم کو تکلیف ہوتی۔ اسے تو اپنے ہی گھر میں‌ رہنا تھا۔ لیکن اس حالت میں‌ چند ماہ گزارنے کے بعد وہ گھبرا گیا۔ ایک آدمی ایک ہی جگہ اور مخصوص لوگوں کے درمیان کب تک رہے؟ اسے وحشت ہونے لگی۔ وقت کاٹنا دوبھر ہوگیا۔ وہ سارا دن پڑا رہتا اور کوئی کام بھی نہیں کرسکتا تھا۔ بادشاہ کا وہ ملازم بہت پریشان تھا کیونکہ اس کے بچوں کے پیٹ بھرنے کا سوال تھا۔

    جب وہ گھر سے باہر قدم نہیں نکالے گا تو بیوی بچوں کو کھلائے گا کہاں سے؟“ اتفاق سے کچھ دنوں کے بعد اسے معلوم ہوا کہ بادشاہ کے دربار میں کوئی بڑا اہتمام کیا گیا ہے۔ وزیر، امراء اور نوابوں‌ کو دربار میں دعوت دی گئی‌ ہے۔ ملازم جس کا نام سردار تھا، اس کو ایک ترکیب سوجھی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اُس نے اپنی بیوی کو پڑوس میں ایک قیمتی جوڑا لانے کیلئے بھیجا۔ وہ پڑوس سے قیمتی جوڑا لے آئی۔ سردار نے مانگے کا قیمتی جوڑا جلدی سے زیب تن کیا اور گھر سے نکل پڑا اور شان سے چلتا ہوا شاہی دربار میں جا پہنچا۔ درباری سمجھے کہ کوئی معزز مہمان ہے، وہ پہچان نہ پائے اور سردار بڑے ادب سے دربار میں دوسرے بڑے لوگوں کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا۔ دربار شروع ہوا۔ تمام رسمیں ادا کی گئیں اور اس کے بعد دسترخوان پر اعلیٰ قسم کے کھانے چنے گئے۔ سردار نے بھی ہاتھ بڑھا کر خوب ڈٹ کر کھانا کھایا اور پھر نظر بچا کر بڑی چالاکی سے سونے کی ایک رکابی اپنے لباس میں چھپا لی اور دربار ختم ہوتے ہی وہاں سے سب سے نظر بچا کر گھر پہنچ گیا۔ گھر آکر بڑے مزے سے سارا واقعہ اپنی بیوی کو سنایا۔

    اس نے اپنی بیوی کو وہ سونے کی رکابی دی اور وہ اس کا ایک ٹکڑا کاٹ کر بازار جاتی اور جوہری کو فروخت کر کے کچھ رقم لے آتی۔ یوں سردار کی زندگی آرام سے گزرنے لگی اور پریشانی دور ہوگئی۔ ادھر دربار کے ملازموں نے دیکھا کہ سونے کی ایک رکابی کم نکلی ہے تو بیچارے بہت گھبرائے اور رکابی ڈھونڈنے لگے۔ بادشاہ کے کان میں‌ یہ بات پہنچی۔ اس نے ان کی حالت دیکھ کر کہا کہ تم سب کیوں پریشان ہو؟ مجھے معلوم ہے کہ سونے کی رکابی غائب ہوگئی اور اب وہ تمہیں نہیں ملے گی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رکابی کس نے چرائی ہے۔ خیر، ایک سال بیت گیا۔ اگلے سال پھر جشن ہوا اور دربار مہمانوں سے بھر گیا۔ جشن کے اختتام پر مہمانوں کو کھانا دیا گیا۔ سردار اس موقع پر بھی موجود تھا۔ کھانا کھانے کے بعد پھر اُس نے نظر بچا کر بڑے اطمینان سے ایک سونے کی رکابی اپنے لباس میں چھپا لی۔

    دربار ختم ہوا تو مہمان جانے لگے تو سردار بھی محل کے دروازے سے باہر نکلنے لگا کہ اچانک بادشاہ سامنے آگیا۔ بادشاہ کو دیکھ کر وہ بہت سٹپٹایا اور گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ بادشاہ نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ پچھلے سال کی رکابی ختم ہوگئی جو پھر ایک اور رکابی لے جانا چاہتے ہو؟ یہ سنتے ہی سزا یافتہ ملازم کے ہوش اُڑ گئے اور خوف کے مارے کانپنے لگا۔ آخر کار بادشاہ کے قدموں پر گر پڑا اور کہنے لگا ”حضور کے حکم کی تعمیل میں مجھے میرے گھر میں بند کر دیا گیا تھا۔ کئی مہینوں تک پریشان اور تنگ دست رہا۔ آخر مجبور ہو کر یہ حرکت کی۔ حضور مجھے معاف کردیں۔

    بادشاہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر کہنے لگا کہ اچھا ہم نے تمہیں معاف کیا اور تمہاری ملازمت بھی بحال کر دی۔ غلطی ہماری ہی تھی ہم نے حکم ہی ایسا دیا تھا کہ آدمی بھوک اور تنگ دستی سے مجبور ہو کر چوری کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، اگر ہم تمہیں گھر میں قید نہ کرواتے تو شاید تم ایسی حرکت کبھی نہ کرتے۔

    غلطی تو بادشاہ اور اس ملازم دونوں کی تھی۔ بڑی بات یہ ہوئی کہ بادشاہ نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور ملازم کو ایسی سزا دینے پر شرمندہ ہوا جس نے اسے تنگ دستی اور آزمائش میں‌ ڈالا۔

  • بیش قیمت کیا؟ (سبق آموز کہانی)

    بیش قیمت کیا؟ (سبق آموز کہانی)

    دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی شے یا انسان کے لیے بعض حالات میں ازحد ضروری چیز کیا ہوسکتی ہے؟ یقیناً ہر ایک کا جواب مختلف ہوگا۔ کوئی ہیرے جواہرات، بہت سی جائیداد اور ایک بڑے اور جمے جمائے کاروبار کو اپنے اور اپنی اولاد کے لیے ضروری سمجھتا ہوگا، لیکن یہ کہانی قدرت کی عطا کردہ ایک نعمت کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں ہمارے لیے سبق پوشیدہ ہے۔

    کہتے ہیں کسی ملک کی ملکہ نے ایک روز اپنے زیرِ ملکیت سب سے بڑے بحری جہاز کے کپتان کو بلا کر کہا۔ ”‌ فوراً بادبان چڑھاؤ، لنگر اٹھاؤ اور جہاز لے کر روانہ ہو جاؤ۔ تم کوشش کر کے دنیا کے ان حصّوں میں بھی جاؤ جہاں اب تک جانے کا اتفاق نہیں ہوا ہے اور وہاں جو چیز تم کو سب سے زیادہ عمدہ، عجیب اور قیمتی نظر آئے، جہاز میں بھر کر لے آؤ۔ قیمت کی ہرگز پروا نہ کرنا۔ میں ایک بار اپنے ملک والوں کو ایسی چیز دکھانا چاہتی ہوں جسے حقیقی معنوں میں سب سے زیادہ قیمتی اور ایک آسمانی نعمت کہا جا سکے۔“

    ملکہ حکم دے چکی تھی۔ کپتان کے لیے سوچ بچار کا وقت بچا ہی کہاں تھا۔ کپتان فوراً ساحل پر پہنچا۔ اپنے معاون ملاحوں کو جمع کیا اور انھیں‌ یہ بات بتائی اور ساتھ ہی فوراً روانگی کا اعلان کرتے ہوئے عملے کو جہاز کے بادبان کھول کر اس کا لنگر اٹھانے کی ہدایت کردی۔ جہاز چل پڑا اور کچھ دیر بعد سمندر کے بیچ میں پہنچ گیا۔

    تب، کپتان نے اپنے تمام نائبیں اور عملہ میں شامل پرانے اور بڑی عمر کے ساتھیوں کو بلا کر مشورہ کیا کہ انھیں کس سمت جانا چاہیے اور اگر وہ کسی ملک پہنچتے ہیں تو وہاں‌ سے کیا خریدنا چاہیے۔ جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ کسی نے کہا کہ عمدہ ریشم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ کسی نے کہا کہ ایسے زیورات خریدے جائیں جن کی بناوٹ اور ساخت بالکل نئی ہو۔ کسی نے کہا کہ کیوں نہ اعلیٰ قسم کے نیلم، زمرد، لعل و یاقوت یا بڑے بڑے موتی خریدے جائیں اور پھر اپنی نگرانی میں ان کے زیورا ت تیار کرائے جائیں۔ لیکن ان سب چہ مگوئیوں کے دوران میں ایک کمزور سا ملاح، جس کے بارے میں کہا جا سکتا تھا کہ وہ ہمیشہ فاقے کرتا رہا ہے، کسی قدر ہچکچاتا ہوا بولا۔’’ معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگوں پر کبھی برا وقت نہیں آیا، اس لیے تم کسی چیز کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ بتاؤ جب تم بری طرح بھوکے یا پیاسے ہو تو کون سا ہیرا یا موتی، زیور یا کپڑا کھا پی کر زندہ رہ سکتے ہو۔ اطمینان کی زندگی کے لیے خوراک کا ایک لقمہ، پانی کا ایک گھونٹ اور عمدہ ہوا میں ایک سانس ….سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس لیے کھانے کی چیزوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اور کھانے کی چیزوں میں گیہوں ہمارے لیے بنیادی غذا ہے۔ دنیا میں اس سے زیادہ قیمتی چیز کوئی نہیں۔ میں نے زندگی میں بہت سے فاقے کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہے۔ اگر تم بھی ان پہلوؤں پر غور کر لو تو میرے ہم خیال ہوجاؤ گے۔“

    سب لوگ حیران رہ گئے۔ ملاح کی بات ان کے دل میں اتر گئی۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ ”‌گیہوں سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ پورا جہاز اس سے بھر لیا جائے کہ جب قحط بھی پڑے تو اس کا مقابلہ ہو سکے۔“

    لہٰذا جہاز کا رخ سرزمینِ مصر کی طرف پھیر دیا گیا جہاں کا گیہوں اس زمانے میں بہت مشہور تھا۔ کہتے تھے کہ وہاں‌ کا گیہوں سب سے زیادہ اچھا اور صحت بخش ہوتا ہے۔ یہ جہاز پانی پر مسافت طے کر کے مصر کی بندرگاہ پر جا لگا۔ وہاں قانونی تقاضے پورے کرنے اور محصول ادا کرنے کے بعد کپتان اور اس کے ساتھی شہر میں‌ داخل ہوسکے۔ شہر میں کپتان نے محکمۂ تجارت سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھ کر گیہوں کے سب سے بڑے تاجر تک پہنچ گیا۔ ان کا کاروبار بہت پھیلا ہوا تھا اور اس وقت مصر میں گیہوں کی بڑی مقدار ذخیرہ تھی۔ کپتان نے سودا کیا اور بہت سا گیہوں خرید کر جہاز کے اوپر لاد لیا۔

    اب ملکہ کے دیس کی سنیے۔ جہاز روانہ ہو جانے کے بعد خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ اس پورے خطے میں سمندری طوفان کی صورت میں بڑی آفت آ پہنچی جس کی وجہ سے تمام آبادی اور زرعی زمینیں زیرِ‌ آب آگئیں۔ کھیت برباد اور لہلہاتی فصلیں مٹ گئیں۔ بڑی تعداد میں لوگ در بدر ہوگئے اور حالت یہ تھی وہاں لوگوں کو فاقے کرنے پڑ گئے۔ خود ملکہ کے گودام بھی غلّے اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء سے خالی ہو گئے۔ ایسے میں وہاں کے لوگوں سمیت اس ملکہ کے بھی ہوش ٹھکانے آ گئے تھے۔ دور تک کوئی آسرا اور امداد کا امکان نہ تھا۔ جس ملک میں خزانہ زر و جواہر سے بھرا ہوا تھا، وہاں عام لوگ تو ایک طرف خود ملکہ اور شاہی خاندان، وزیر، امیر سبھی غذائی قلّت اور اجناس کی عدم دست یابی کی وجہ سے سخت پریشان تھے۔ ملکہ کی صحت دن بدن گرتی جا رہی تھی۔ پورے ملک میں سخت مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔

    جیسے جیسے دن گزر رہے تھے، بھوک سے اموات کا سلسلہ بھی دراز ہوتا نظر آرہا تھا۔ کئی آبادیوں کا نام و نشان نہ رہا تھا اور جو جہاں تھا، وہاں سے اس کا نکلنا مشکل تھا۔ کیوں کہ سواری اور باربرداری کے جانور پانی میں بہہ گئے تھے اور بچّوں، عورتوں اور بوڑھوں کو چھوڑ کر جوان مردوں کا غذا اور محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں‌ نکلنا آسان نہ تھا۔ ملکہ سخت پریشان تھی اور کچھ سوجھتا نہ تھا کہ کیسے خود کو اور اپنی رعایا کو اس مصیبت سے نکالے۔

    ایک روز بہت دور سمندر کے سینے پر جہاز کے مستول نظر آئے۔ سمندری محافظوں کو معلوم ہوا کہ یہ تو وہی جہاز ہے جو ملکہ کے حکم پر نکلا ہوا تھا۔ ملکہ کو خبر دی گئی۔ بندرگاہ سے متصل شہر کے بچّے، بوڑھے، عورت، مرد سب اور خود ملکہ اور اس کے وزراء بھی اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوگئے اور جہاز کے لنگر انداز ہونے تک طرح طرح کی باتیں ان کے دماغ میں‌ آرہی تھیں کہ نجانے جہاز پر کون سی قیمتی چیز آئے گی۔ زندگی میں پہلی بار سب لوگ دنیا کی سب سے زیادہ قیمتی چیز دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ اس جہاز نے ان کو کچھ وقت کے لیے اپنی مصیبت سے بے نیاز کردیا تھا۔ تجسس بڑھتا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ جہاز لنگر انداز ہوا اور کپتان کو معلوم ہوا کہ ساحل پر ملکہ خود موجود ہے اور اس کا ملک آفت زدہ ہے۔

    کپتان جہاز سے اتر کر تیزی سے ملکہ کی جانب بڑھا اور ملکہ کو دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ وہ بہت کم زور اور افسردہ تھی۔ بیماری کے باوجود ملکہ ساحل تک آئی تھی۔ اس نے کہا۔ ”‌ملکہ میں ایک بہت ہی قیمتی چیز لایا ہوں جو حقیقتاً زندگی کا سہارا ہے۔‘‘

    ”‌ وہ کیا؟“ ملکہ نے پیشانی پر بِل ڈالتے ہوئے پوچھا۔

    ”‌ آپ اس سے واقف ہوں گی اسے کہتے ہیں گیہوں۔‘‘ کپتان نے جواب دیا۔

    ”‌گیہوں؟“ ملکہ نے حیرانی اور کچھ مسرت کے ساتھ دہرایا۔

    ارد گرد کھڑے لوگوں نے جب یہ خبر سنی تو وہ خوشی سے چلّا اٹھے، اور ”‌گیہوں گیہوں“ کے نعرے لگانے لگے۔ ملکہ نے خوشی سے کہا۔”‌ گیہوں…. واہ تم نے کمال کر دیا۔“

    اس کڑے وقت میں وافر مقدار میں گیہوں کی صورت میں کوئی دوسری چیز قیمتی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ فوراً گیہوں جہاز سے اتروا کر گودام میں رکھوائی گئی اور ملک بھر میں‌ تقسیم کا عمل شروع ہوا۔ یوں اس سن رسیدہ ضعیف ملاح کی دور اندیشی نے نہ صرف ملکہ کو خوش کردیا بلکہ اس ملک کے لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت بھی پوری ہوئی اور انھوں نے نعمت کی قدر جان لی۔

    (قدیم لوک کہانی)

  • عقاب اور مکڑی( ایک حکایت)

    عقاب اور مکڑی( ایک حکایت)

    ایک عقاب بادلوں کی چادروں کو چیرتا ہوا کوہ قاف کی چوٹیوں پر پہنچا اور ان کا چکر لگا کر ایک صدیوں پرانے دیودار کے درخت پر بیٹھ گیا۔

    وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا اس کی خوب صورتی میں وہ محو ہوگیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح سامنے کھلی ہوئی رکھی ہے۔ کہیں پر دریا میدانوں میں چکر لگاتے ہوئے بہہ رہے ہیں۔ کہیں پر جھیلیں اور جھیلوں کے آس پاس درختوں کے کنج پھولوں سے لدے ہوئے بہار کی پوشاک میں رونق افروز ہیں۔ کہیں پر سمندر خفگی سے اپنے ماتھے پر بل ڈالے کوّے کی طرح کالا ہو رہا ہے۔

    اے خدا عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، ’’میں تیرا کہاں تک شکر ادا کروں۔ تو نے مجھے اڑنے کی ایسی طاقت دی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں ہے جہاں میں پہنچ نہ سکوں، میں فطرت کے منظروں کا لطف ایسی جگہ بیٹھ کر اٹھا سکتا ہوں جہاں کسی اور کی پہنچ نہیں۔‘‘

    ایک مکڑی درخت کی ایک شاخ سے بول اٹھی۔’’تو آخر کیوں اپنے منہ میاں مٹھو بنتا ہے؟ کیا میں تجھ سے کچھ نیچی ہوں؟‘‘

    عقاب نے پھر کر دیکھا۔ واقعی ایک مکڑی نے اس کے چاروں طرف شاخوں پر اپنا جالا تن رکھا تھا اور اسے ایسا گھنا بنا رہی تھی کہ گویا سورج تک کو عقاب کی نظر سے چھپا دے گی۔

    عقاب نے حیرت سے پوچھا ’’تو اس سربلندی پر کیسے پہنچی؟ جب وہ پرندے بھی جنہیں تجھ سے کہیں زیادہ اڑنے کی طاقت ہے، یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں کرتے؟ تو کمزور اور بے پر کیا چیز ہے۔ کیا تو رینگ کر یہاں آئی؟‘‘

    مکڑی نے جواب دیا۔ ’’نہیں ایسا تو نہیں ہے۔‘‘

    ’’تو پھر یہاں کیسے آگئی؟‘‘

    ’’جب تو اڑنے لگا تھا تو میں تیری دم سے لٹک گئی اور تُو نے خود مجھے یہاں پہنچا دیا۔ لیکن میں یہاں اب تیری مدد کے بغیر ٹھہر سکتی ہوں، اور اس لئے میری گزارش ہے کہ تو اپنے آپ کو بے کار بڑا نہ ظاہر کر اور سمجھ لے کہ میں ہی۔۔۔‘‘

    اتنے میں ایک طرف سے ہوا کا جھونکا آیا اور اس نے مکڑی کو اڑا کر زمین پر گرا دیا۔

    میرا خیال ہے اور آپ کو بھی مجھ سے اتفاق ہوگا کہ دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جو اس مکڑی سے بہت مشابہ ہیں۔ ایسے لوگ بغیر کسی قابلیت اور محنت کے کسی بڑے آدمی کی دم میں لٹک کر بلندی پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر ایسا سینہ پھیلاتے ہیں کہ گویا خدا نے ان کو عقابوں کی سی طاقت بخشی ہے، مگر بات صرف یہ ہے کہ کوئی ذرا پھونک دے اور وہ اپنے جامے سمیت پھر زمین پر پہنچے ہوتے ہیں۔

    (معروف ہندوستانی اسکالر، ادیب اور ماہرِ تعلیم محمد مجیب کے قلم سے ایک حکایت)

  • اپنی مدد آپ (ایک پُراثر کہانی)

    اپنی مدد آپ (ایک پُراثر کہانی)

    ایک آدمی گاڑی میں بھوسا بھر کر لیے جا رہا تھا۔ راستے میں کیچڑ تھی۔ گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی۔

    وہ آدمی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور لگا چیخنے، ’’اے پیاری پریو، آؤ اور میری مدد کرو۔ میں اکیلا ہوں گاڑی کو کیچڑ سے نکال نہیں سکتا۔‘‘

    یہ سن کر ایک پری آئی اور بولی، ’’آؤ میں تمہاری مدد کروں۔ ذرا تم پہیوں کے آس پاس سے کیچڑ تو ہٹاؤ۔‘‘ گاڑی والے نے فوراً کیچڑ ہٹا دی۔

    پری بولی، ’’اب ذرا راستے سے کنکر پتھر بھی ہٹا دو۔‘‘ گاڑی بان نے کنکر پتھر بھی ہٹا دیے اور بولا، ’’پیاری پری، اب تو میری مدد کرو۔‘‘

    پری ہنستے ہوئے بولی، ’اب تمہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ تم نے اپنا کام آپ کر لیا ہے۔ گھوڑے کو ہانکو۔ راستہ صاف ہو گیا ہے۔‘‘

    (معروف پاکستانی شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کے قلم سے)

  • ماچس والی لڑکی

    ماچس والی لڑکی

    بَلا کی سردی تھی۔ شام اندھیری ہونا شروع ہو گئی تھی۔ بالآخر رات آگئی۔ سال کی آخری رات۔

    ایک چھوٹی سی غریب بچّی، ننگے سَر، ننگے پاؤں گلیوں میں پھر رہی تھی۔ جب وہ گھر سے نکلی تھی تو اس کے پاؤں میں اس کے اپنے نہیں بلکہ ماں کے چپل تھی لیکن وہ کس کام کے؟ وہ تو اس کے ننھے ننھّے پاؤں سے بہت بڑے تھے۔ صبح جب وہ سڑک پار کرنے لگی تھی تو ایک تیز رفتار گھوڑا گاڑی سے بچنے کی کوشش میں چپل اس کے پاؤں سے اتر گئے۔ ایک تو گٹر میں گر گیا ، دوسرا ایک لڑکا اس کا منہ چڑاتا ہوا، لے کر بھاگ گیا۔

    جب سے بچّی ننگے پاؤں پھر رہی تھی، پاؤں سردی کی شدت سے نیلے ہو رہے تھے۔ اس نے ایک پھٹا پرانا ایپرن باندھا ہوا تھا۔ ماچسوں کے کچھ پیکٹ اس نے ایپرن کی جھولی میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک پیکٹ گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ لیکن صبح سے اب تک اسے کوئی گاہک نہیں ملا تھا۔ اب تک اس نے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں کمائی تھی۔ سردی سے کانپتی، بھوک سے لاغر دکھ کی تصویر بنی یہ غریب معصوم بچّی گلی گلی گاہکوں کی تلاش میں پھرتی رہی۔

    گھروں سے لذیذ کھانوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ اس کے منہ میں پانی آ رہا تھا۔ اس کی بھوک اور بھڑک اٹھی تھی۔ اب وہ جس گلی میں آئی تھی اس کے دو مکانوں کے درمیان ایک چھوٹا سا تھڑا تھا۔ تھکن سے چور بچّی سستانے وہاں بیٹھ گئی۔ اپنے یخ پاؤں کو اس نے ہاتھوں سے گرمانے کی کوشش کی، پھر اکڑوں بیٹھ کر اپنی فراک سے انہیں کسی حد تک ڈھانپا لیکن وہ ویسے ہی ٹھنڈے رہے۔

    سردی شدید ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن اس کی ہمّت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ گھر واپس جائے، کیسے واپس جاتی؟ اس کی تو صبح سے ایک ماچس بھی نہیں بکی تھی۔ وہ خالی ہاتھ گھر نہیں جاسکتی تھی اور ویسے بھی گھر میں سردی کون سی کم تھی۔ ایک کمرے والے گھر کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا اور چھت میں ایک بڑا سا سوراخ جس کو بھوسے اور پرانے چیتھڑوں سے بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن وہاں سے ہر وقت ٹھنڈی ہوا آتی رہتی۔ اب اس کے ہاتھ سردی سے بالکل سُن ہو چکے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کاش اس وقت کہیں سے تھوڑی سی آگ مل جائے تو اس کے ہاتھ کچھ گرم ہو جائیں۔ لیکن آگ کیسے ملے؟ کہاں سے آئے؟

    اس نے لالچ بھری نظروں سے ماچس کی ڈبیہ کی طرف دیکھا۔ امید کی ہلکی سی کرن نظر آئی۔ سَر کے ایک جھٹکے سے اس نے اس خیال کو بھگانے کی کوشش کی، مگر خیال بار بار واپس لوٹتا رہا۔ اس نے جھجکتے جھجکتے ایک تیلی نکالی، ڈرتے ڈرتے اسے تھڑے کے فرش سے رگڑا۔ ایک شعلہ نمودار ہواتو اس نے جلتی تیلی کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپا، شعلے کی تپش کو محسوس کیا، شعلے کی چمک عجیب سی تھی۔

    اس لمحے بچّی کو ایسا لگا کہ وہ ماچس کا شعلہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑا آتش دان ہے، جس پر چمکیلے پیتل کے دستے لگے ہوئے ہیں اور سنہری جالی کے پیچھے جلتی آگ اس سجے سجائے کمرے کو تاپ رہی ہے، جہاں وہ ایک دیوان پر موٹا سا گرم اونی گاؤن پہنے بیٹھی ہے۔ اچانک شعلہ لپک کر ایک دم بجھ گیا۔ آتش دان، گرم اونی گاؤن، دیوان، سب اچانک غائب ہو گئے، تاریکی پھر سے چھا گئی۔ صرف بجھی ہوئی ماچس کی تیلی اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے ایک اور تیلی جلائی۔

    تھڑے سے جڑی ہوئی دیوار کو شعلے کی روشنی نے چمکیلے موتیوں سے جڑی جھالر میں بدل دیا۔ اس کے پیچھے اسے صاف نظر آیا جیسے ایک خوش و خرم خاندان کے لوگ دستر خوان کے گرد بیٹھے ہیں اور دستر خوان پر کھانے کی پلیٹیں لگی ہیں۔ کٹوروں میں انواع و اقسام کے کھانے ہیں، ایک بڑا برتن گرم گرم سوپ سے بھرا ہوا ہے جس میں سے بھاپ نکل رہی ہے۔ ایک لڑکا سوپ کا پیالہ لے کر اس بچّی کے پاس آیا۔ لیکن جیسے ہی اس نے سوپ کا پیالہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے ماچس کی تیلی بجھ گئی اور پھر سے اندھیرا چھا گیا۔ اب اس کے سامنے صرف ٹھنڈی، پتھریلی دیوار تھی۔

    بچّی نے آنکھیں اوپر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ ایک ستارہ ٹوٹ کر زمین کی طرف آ رہا تھا۔ بچّی کی دادی، واحد شخص تھیں جن سے اس کو پیار ملا تھا۔ وہ اسے کہانیاں سناتی تھیں۔ دادی نے ایک کہانی سناتے ہوئے اسے بتایا تھا کہ جب آسمان سے چمکتا ہوا تارہ ٹوٹ کر نیچے آتا ہے تو زمین سے کوئی روح آسمان کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ معلوم نہیں یہ تارہ کس کی موت کا پیغام لے کر میری طرف بڑھ رہا ہے؟ کوئی نہ کوئی ضرور مرنے والا ہے۔ خدا جانے کون؟

    بچّی نے ماچس کی ایک اور تیلی جلائی، پھر سے روشنی ہوئی۔ اب اسے روشنی میں صاف نظر آیا کہ سَر پر روشنی کا تاج پہنے اس کی دادی اس کے سامنے کھڑی اسے پیار سے دیکھ رہی ہیں۔ ’’دادی، پیاری دادی مجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔ میں بہت بھوکی ہوں۔ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں دادی۔ مجھے معلوم ہے کہ جیسے ہی یہ ماچس بجھے گی آپ بھی چلی جائیں گی، جیسے وہ گرم آتش دان غائب ہو گیا، جیسے سوپ کا پیالہ ۔ آپ بھی ایسے ہی چلی جائیں گی لیکن آپ نہ جانا۔ میں اب اندھیرا نہیں ہونے دوں گی۔

    میں آپ کو نہیں جانے دوں گی‘‘۔ اس سے پہلے کہ وہ تیلی بجھ جاتی اس نے ایک تیلی اور جلائی، پھر دوسری، پھر اس نے پورے ماچسوں کے بنڈل کو تیلی دکھا دی۔ ماچس کی تمام تیلیاں دم جلیں۔ ایک بہت بڑا شعلہ اٹھا، رات دن کی طرح روشن ہو گئی۔ دادی نے ہاتھ بڑھائے، بچّی کو گود میں لیا تو وہ خوشی سے نہال ہوگئی۔ اسے لگا وہ ستاروں کی طرف جا رہی ہے لیکن دو پرانے مکانوں کے درمیان بنے تھڑے پر دیوار سے لگی ایک چھوٹی سی بچّی، جس کے رخسار لال اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، سردی کی تاب نہ لا کر مر گئی۔ اس کا بے جان جسم سردی سے جم کر اکڑ چکا تھا۔ وہ ایسے ہی بیٹھی تھی جیسے رات کو بیٹھی تھی۔ ایک طرف جلی ماچسوں کا ڈھیر تھا، دوسری طرف، جھولی میں کچھ ماچسوں کی ڈبیاں۔ جیسے کہہ رہی ہو کہ کوئی تو مجھ سے ماچس خرید لے۔

    صبح کی چہل پہل شروع ہو چکی ہے۔ مرد، عورتیں، بچے تھڑے کے پاس جمع ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ بے چاری اپنے آپ کو سردی سے بچانے کی کوشش میں مر گئی۔ لیکن کسی کو نہیں پتہ کہ وہ اپنے تصور میں کتنی خوب صورت دنیا دیکھ رہی تھی اور اب کتنی مسرت سے اپنی بوڑھی دادی کی گود میں ایسی دنیا میں ہے جہاں نہ بھوک ہے نہ پیاس، نہ سردی ہے، جہاں صرف خوشی ہی خوشی ہے، محبت ہی محبت ہے۔ پیار ہی پیار ہے۔

    (عالمی شہرت یافتہ ادیب ہینز کرسچن اینڈرسن کی مشہور کہانی کا اردو ترجمہ)

  • بلبلِ ہزار داستان…

    بلبلِ ہزار داستان…

    ایک تو گڈی بی بی خوب صورت، دوسرے ان کی ادائیں۔ ہائے غضب… بس پارہ تھیں پارہ۔ سارے گھر کا ان کے مارے ناک میں دَم تھا۔

    شرارتیں کرنے کا تو گویا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ میز پر سیاہی پھیلی ہوئی ہے تو سمجھ لیجئے، بلا شبہ گڈی نے گرائی ہے۔ گل دان کے پھول نُچے ہوئے ہیں تو ذہن میں سوائے گڈی کے اور کس کا نام آسکتا ہے؟ بھائی جان کی ٹائیاں تو مزے سے دو دو آنے میں ملنے والی ٹین کی گاڑیوں میں جوتی جاتیں۔ ان کے بڑے بڑے جوتے گڑیوں کا گھر بنتے۔ پہلے پہل تو سارے بچّوں نے حد درجہ اعتراض کرنا شروع کیا۔

    "کوئی حد ہے۔ ہم تو کبھی اپنی گڑیا کو جوتے میں نہ بٹھائیں۔”

    "ارے واہ کسی نے دلہن کو جوتے میں سلایا ہوگا۔” گڈی بیگم تو جدید ترین فیشنوں کی موجد ہیں ہی۔ انہیں ایسے اعتراض بھلا کیا کھلتے؟

    "ارے بھئی قسم ہے، خود ہم نے اپنی آنکھ سے آج کل اس ٹائپ کی کاریں دیکھی ہیں۔” کسی اور کچھ اعتراض کیا تو بول پڑیں”بھئی اللہ ہم خود ڈیڈی کے ساتھ رشید انکل کی کار میں پکنک پر گئے تھے۔ بس ہوبہو جوتا ہی دیکھ لو۔”

    پھر تو یہ ہونے لگا کہ ریک کے سارے جوتے آنگن کے پچھواڑے ملتے اور جو بھائی جان بھناتے ہوئے آنگن سے جوتے سمیٹ کر لاتے تو کسی میں دلہن بیٹھی ہے تو کسی میں دولہا۔ اور تو اور "گھر” سجانے کی خاطر جو رنگ چڑھائے جاتے تھے وہ جوتوں کا روپ ہی دونا کر دیتے! نتیجے میں گڈی بیگم، اور ان کے ساتھ سب ہی کی پٹائی ہوتی۔ مگر توبہ کیجئے جو وہ ذرا بھی ٹس سے مس ہوتی ہوں! غضب خدا کا۔ زبان تو وہ تیز پائی تھی کہ بڑے بڑوں کے منہ بند کردیے۔ اس پر بھی امی کا وہ لاڈ کہ پوچھئے نہیں۔ ابا لاکھ جوتے ماریں مگر پھر خود ہی لاڈ کرنے بیٹھ جائیں۔

    "ارے یہ تو میری بلبل ہزار داستاں ہے۔ یہ نہ چہکے تو گھر میں چہل پہل کیسے مچے۔”

    گھر میں کسی ایک بچے کو چاہا جائے تو دوسرے بچے اس کے دشمن بن جاتے ہیں، گڈی بی بی کے بھی ان گنت دشمن تھے، مگر وہ کسے خاطر میں لاتی تھیں۔ کبھی چنّو کی موٹر کی چابی چھپا دی تو کبھی منّی کے جوتے لے جا کر پھولوں کے گملے میں چھپا دیے۔ اور جناب وہ تو ابا تک کو نہ چھوڑتیں۔ اس دن ابا نے عید کی خوشی میں معاف کر دیا شاید۔ ورنہ وہ پٹائی ہوتی کہ سارا چہکنا بھول جاتیں۔ ہوا یوں کہ ابا اپنی کتابیں رکھنے کے لئے ایک نیا شیلف لائے۔ اس سے پہلے والا بک شیلف وہیں ابا کے کمرے میں ہوتا تھا مگر شاید بلبل ہزار داستان کی نظر نہ پڑی ہوگی۔ تب ہی اس نئے شیلف کو دیکھ دیکھ کر اچھل پھاند مچانے لگیں۔

    "آہا جی۔۔۔۔۔اور ہو جی۔۔۔۔ ڈیڈی گڑیا گھر لائے ہیں، آہا، ہو ہو۔” اب دوسرے بڑے بچّے تھک ہار کر سمجھا رہے ہیں، مرمر کر کہہ رہے ہیں کہ بی بنّو یہ تمہاری گڑیا کا محل نہیں۔ کتابیں رکھنے کا شیلف ہے، مگر کسی کی مانتیں؟؟ کہنے لگیں۔” یہ جو خانے بنے ہوئے ہیں تو اسی لئے کہ سب الگ الگ رہیں اور لڑیں جھگڑیں نہیں۔۔ اور جو یہ گول گول گھومتا بھی ہے تو اس لئے کہ گڑیوں کے بچّے اگر رونے لگیں تو اس چھت پر بٹھا کر انہیں چک پھیریاں دی جائیں۔

    ان کی زبان کی تیزی کے آگے کون منہ کھول سکتا تھا۔ بس جناب ہتھوڑی اور کیلیں لے کر پہنچ ہی تو گئیں۔ ہر طرف کیلیں ٹھونک کر اس میں رنگین جھنڈیاں، غبارے اور پیپر فلاورز لگا دیے، ایسا شان دار گڑیا گھر تیار ہوا کہ سب بچے دیکھتے ہی رہ گئے۔ اب اس کے پاس تو کوئی نہ کوئی دوڑ ہی جاتا، اتنا ڈر بھی کیوں رہے؟ سب کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ سبھوں کی گڑیوں کو ایک ایک کمرہ دے دیا، ہر چند کہ ڈیڈی اپنے ہی لئے گڑیا گھر لائے تھے، پھر بھی اگر وہ محض اسی بات پر چڑ جاتے تو اگلے دن تو عید ہے اور یہ بچّے بجائے عید کی تیاریوں کے الٹ پلٹ دھندوں میں ہی جتے ہوئے ہیں تو۔۔۔؟!

    شام کو ننھّے منّے دوست اپنی اپنی عید کی پوشاکیں اور تیاریوں کی داستانیں بتانے، سنانے آئے تو گڈی نے سب کو اپنا گڑیا گھر دکھایا۔ جہاں اب کترنوں کے بچے کھچے کپڑوں کے پرے لٹک رہے تھے۔ دل میں تو سب جل گئے مگر منہ سے تو کہنا ہی پڑا۔ "واہ بھئی۔۔۔ بڑا اچھا گھر ہے۔ اچھا کل آئیں گے۔۔ ٹاٹا۔” عید کا کیا ہے ایک دن کے لئے آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ گڑیا گھر کی خوشی تو لافانی بن کر آئی تھی۔ گڈی کی اتراہٹ کا کیا پوچھنا تھا؟!

    ابا عید گاہ سے لوٹے تو مزے سے آکر گردن میں جھول گئیں۔ "ہماری بٹیا کتنی عیدی لے گی؟” جواب میں بٹیا اور بھی اترا گئیں۔ "آپ نے تو پیشگی عیدی دے ڈالی ڈیڈی۔ غضب خدا کا کتنا اچھا گھر ہے ڈیڈی۔”

    "ہائیں۔۔۔ کیا بک رہی ہے۔” ابا جھنجھلائے۔ "ہاں ہاں اور جو کل آپ لائے ہیں تو پھر کیا ہے؟” ابا نے تو شیلف گیسٹ روم میں رکھوادیا تھا کہ عید کے بعد فرصت سے اسے اپنے کمرے میں جائز مقام پر رکھوائیں گے آنکھیں گھماکر دیکھا اور پوچھا۔

    "گھر، کیسا گھر بھئی۔” جواب میں بٹیا رانی ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی گیسٹ روم تک ڈیڈی کو لائیں۔ ارے یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ نیا شیلف! پورے تین سو روپے میں بنوایا تھا۔ کیلے چبھے ہوئے، ہتھوڑی کی مار سے پالش جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی۔ گوند سے چپکائی گئی جھنڈیا۔ جھولتے غبارے، رنگین پھول۔۔۔ اف۔۔۔۔اف۔

    ” یہ سب کیا ہے بے بی؟” ڈیڈی بپھر کر بولے۔

    "جی گڑیا گھر۔” اب تو ڈیڈی کا پارہ آخری سرے تک چڑھ گیا، ابھی کچھ پٹائی کرتے ہی تھے کہ امی ہائیں ہائیں کرتی لپکی آئیں۔

    "اے لو۔۔۔۔ بھلا عید کے دن بچّی پر ہاتھ اٹھاؤ گے؟” ابا نے گڑبڑا کر امی کو دیکھا پھر اپنی لاڈو کو۔ منہ سے تو کچھ بولے نہیں مگر پیر پٹختے کمرے کو چلے گئے۔
    دوسرے دن ابا نے اپنے کمرے میں شیلف منگوایا۔ سب کیلیں، جھنڈیاں، جھاڑ جھنکار، غبارے اور پھول نکال باہر کئے۔ اب جو شیلف اپنی اصلی صورت میں سب کے سامنے آیا تو سب دیکھتے ہی رہ گئے۔ لگتا تھا، ہراج گھر سے دو چار روپے میں اٹھالائے ہوں گے۔

    بی گڈی کا یہ عالم کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ ساری چہک چہکار ہوا ہو گئی، اب کے تو ابا کو بھی اپنی "بلبلِ ہزار داستان” پر پیار نہ آیا۔ بار بار غصے سے گھورا کئے اور پھر نتیجے میں رانی بٹیا سے بول چال بند کردی۔

    اور جناب آپ کو معلو م ہے کہ لاڈلے بچّوں سے ماں باپ بات بند کر دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ انہیں بہت دکھ ہوتا ہے، جسے وہ بمشکل برداشت کر پاتے ہیں اور پھر بیمار پڑنا تو لازمی ہے۔ گڈی بی بی نے بھی پٹخنی کھائی۔ کچھ تو موسم ہی بدل رہا تھا اور کچھ ان کا دل ہی اداس تھا! پلنگ پر پڑے پڑے انہیں بس یہی خیال آتا کہ ہائے سب کے سامنے کیسی رسوائی ہوئی۔ بلا سے ڈیڈی دو چار طمانچے ہی جڑ دیتے۔ مگر اف انہوں نے تو بات ہی بند کر دی۔ اچھی بری کوئی بات سنتے، نہ جواب دیتے، اسکول کی رپورٹ آتی تو کچھ تو جہ بھی نہ دیتے۔ گڈی نے اپنے کمرے میں ایک دن یہ بھی سنا۔ ابا، امی کی بات کے جواب میں کہہ رہے تھے۔
    "ہمیں ایسی اولاد کی ضرورت نہیں جو ہمیں اس قدر پریشان کرے۔” اس نے صاف دیکھا کہ ڈیڈی یہ جانتے تھے کہ وہ یہ باتیں سن رہی ہے تب بھی اس کے دل کا کوئی خیال نہ کیا۔ ہائے اللہ، ڈیڈی کو میری ضرورت نہیں۔ امی کو بھی نہیں، منو کو چنو کو رابی منی۔ نیکی، یہ سب مجھ سے کٹے کٹے رہتے ہیں، کیا سچ میں بہت بری ہوں؟ ہاں چنّو کہتا بھی تھا کہ دیکھ لینا ایک دن تم اتنا دکھ اٹھاؤ گی۔ اف تمہاری زبان ہے کہ قینچی۔ اور توبہ کہیں لڑکیاں بھی اتنی شرارت کرتی ہیں؟ اور اب امی۔۔۔۔ ڈیڈی۔۔۔۔۔ بھائی جان۔۔۔۔۔کوئی مجھے نہیں چاہتا۔۔۔۔۔کوئی نہیں۔۔۔۔اف۔۔۔

    پھر ایک دن ڈاکٹر صاحب کمرے سے باہر نکلے اور ابا کے کمرے میں پہنچ گئے، ابا نے بے تابی سے پوچھا۔

    "کیوں ڈاکٹر صاحب اب کیا حال ہے بے بی کا؟” ڈاکٹر صاحب مسکرائے۔”شریر بچے بہت ذہین اور بہت حساس بھی ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب۔ میرے خیال سے اب آپ کو اور بیگم صاحبہ کو کبھی شکایت نہ ہوگی کہ رانی بٹیا شرارتی ہے۔ ضدی ہے، کسی کا کہا نہیں مانتی۔ میں نفسیاتی طور پر اس کے دل میں اتر چکا ہوں۔ اب اس وقت تو اسے صرف آپ کے ایک ذرا سے بلاوے کی ضرورت ہے، اتنے دنوں سے جو آنسو بہہ چکے ہیں، ان کا بہہ نکلنا ہی ٹھیک ہے۔”

    ڈیڈی لپک کر اٹھے اور پردے کے پاس جاکر پوچھا۔”کیوں بے بی اب کے ہفتے تمہارے مارکس بہت کم ہیں کیا بات ہے؟”

    اتنا سننا تھا کہ بی گڈی بے تابی سے اٹھیں اور ڈیڈی سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ "آپ ہی نے محبت اور توجہ چھوڑ دی تو پڑھائی میں خاک جی لگتا۔ امی بھی دور دور رہتی تھیں۔ اور سب۔ بھائی جان۔۔۔۔۔۔”ہچکیاں منہ سے آواز نہ نکلنے دیتی تھیں۔

    ڈاکٹر صاحب ڈیڈی کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ اور گڈی کہے جارہی تھی۔
    "اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ شرارت اتنی بری چیز ہے کہ امی ڈیڈی سے ٹوٹ جانا پڑتا ہے تو….تو ہم کبھی یوں ضد اورشرارت نہ کرتے۔” ہائے بے چاری موٹی موٹی گوری گوری گڈی اس وقت کیسی دبلی اور زرد نظر آرہی تھی۔۔۔۔! اور یہ سب کچھ تین چار ہفتوں ہی میں تو ہوا۔ ڈیڈی نے ذرا سا مسکراکر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا۔ اور بے بی کو گلے لگاتے ہوئے بولے۔ "سچ مچ اب اچھی بچی بن جاؤ گی۔”

    "جی ہاں۔۔۔۔” وہ آنسو پونچھ کر بولی۔” اور وہ تین سو روپے ہم پر ادھار سمجھئے۔۔۔۔ ڈاکٹر بن جاؤں گی تو پہلی تنخواہ آپ کے ہاتھ میں لاکر رکھ دوں گی۔” پیچھے سے چنّو نے جلا بھنا طعنہ چھوڑا۔

    "بھلا بلبل ہزار داستان چہکنا چھوڑ سکتی ہے؟!”

    (معروف فکشن رائٹر واجدہ تبسّم کی یہ بچّوں کے لیے لکھی گئی یہ کہانی 1959ء میں‌ ماہ نامہ کھلونا، نئی دہلی میں‌ شایع ہوئی تھی)

  • شوربے کا پتھر (لوک کہانی)

    شوربے کا پتھر (لوک کہانی)

    ‎ایک فوجی لڑائی کے میدان سے چھٹی لے کر اپنے گھر واپس جا رہا تھا۔ راستے میں وہ ایک گاؤں کے قریب سے گزرا۔ ‎ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، جب کہ سپاہی شدید بھوکا تھا۔

    وہ گاؤں کے سرے پر ایک مکان کے سامنے رک گیا اور کچھ کھانے کے لیے مانگا۔ گھر والوں نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے، لہٰذا وہ آگے بڑھ گیا۔

    وہ دوسرے گھر پر رُکا اور وہی سوال دہرایا۔ یہاں بھی گھر والوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے، اگر ذرا ٹھہر کر آؤ تو شاید کوئی انتظام ہو جائے۔

    ‎تب سپاہی نے سوال کیا ”تمھارے پاس ہنڈیا تو موجود ہے؟“ ‎گھر والوں نے کہا، ”بے شک! ہمارے پاس ہنڈیا موجود ہے۔“

    ‎پھر اس نے معلوم کیا ”تمھارے ہاں پانی بھی ہو گا۔“

    ”ہاں، پانی جتنا چاہو لے لو۔“ اسے جواب ملا۔ ‎سپاہی بولا، ”ہنڈیا کو پانی سے بھرو اور چولھے پر چڑھا دو۔ میرے پاس شوربہ تیار کرنے کا پتھر موجود ہے۔ بس ابھی کام بن جائے گا۔“

    ‎”کیا کہا؟“ ان میں سے ایک شخص نے تعجب سے پوچھا ”شوربہ بنانے کا پتھر! وہ کیا چیز ہے؟“

    ‎”بس ایک خاص قسم کا پتھر ہے، جسے پانی میں ڈال لینے سے مزے دار شوربہ تیار ہوجاتا ہے۔“

    ‎وہ سب لوگ، اس عجیب و غریب چیز کو دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے۔ گھر کی مالکہ نے ایک بڑی ہنڈیا کو پانی سے بھرا۔ وہ عام سا پتھر تھا جیسے اکثر سڑکوں پر اِدھر اُدھر پڑے نظر آتے ہیں۔ وہ پتھر اس نے ہنڈیا میں ڈال دیا اور کہا ”بس اب اسے اُبلنے دو۔ پھر دیکھو کہ کیا بنتا ہے۔“ ‎لہٰذا وہ سب چولھے کے آس پاس بیٹھ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب پانی گرم ہوکر ابلنے لگتا ہے اور کیسا شوربہ تیار ہوتا ہے۔

    ‎سپاہی نے کہا ”تمھارے پاس نمک تو ضرور ہوگا۔ مٹھی بھر نمک اس میں ڈال دو۔“

    ‎عورت نے کہا ”بہت اچھا۔“ اور یہ کہہ کر وہ نمک کا ڈبہ اٹھا لائی۔ سپاہی نے خود ہی ایک مٹھی بھر کر نمک پانی میں ڈال دیا۔ پھر سب لوگ انتظار کرنے لگے۔ ‎پھر سپاہی نے کہا ”اگر چند گاجریں ہوں تو شوربے کا ذائقہ اچھا ہو جائے گا۔“

    ‎”ہاں۔“ عورت بولی۔ ”گاجریں تو ہمارے ہی کھیت میں اگتی ہیں۔“ اور یہ کہہ کر اس نے چند گاجریں ٹوکری میں سے نکالیں۔ دراصل سپاہی نے ترکاریوں سے بھری ہوئی ٹوکری دیکھ لی تھی جس میں گاجریں بھی رکھی ہوئی تھیں۔
    ‎پانی میں گاجریں ڈال دینے کے بعد سپاہی نے اپنی بہادری کے قصّے بیان کرنے شروع کیے اور ایک دم رک کر پوچھا ”تمھارے پاس آلو بھی تو ہوں گے؟“

    ‎گھر کی مالکہ بولی ”ہاں! آلو بھی ہیں۔“ تو پھر اس میں ڈال دو شوربہ تھوڑا گاڑھا ہو جائے گا۔ ‎عورت نے آلو چھیل کر ہنڈیا میں ڈال دیے۔ ‎سپاہی نے کہا ”اگر ذائقے کو زیادہ لطیف بنانا ہو تو پیاز بھی کتر کر ملا دو۔“

    ‎کسان نے اپنے چھوٹے لڑکے سے کہا ”بیٹا! ذرا پڑوسی کے گھر جاؤ اور تھوڑی سی پیاز مانگ لاؤ۔ وہ بھی کبھی کبھی ہمارے گھر سے لے لیتے ہیں۔“ بچّہ بھاگ کر پڑوسی کے گھر گیا اور پیاز مانگ لایا۔ پس اُنہوں نے پیاز چھیلی اور کتر کر پانی میں ڈال دی۔ ‎پھر کچھ لطیفے سنائے گئے۔ انتظار کا وقت گزرتا ہوا محسوس نہیں ہوا تو سپاہی نے بڑی حسرت سے کہا، ”لڑائی کے میدان میں کرم کلہ نہیں ملتا۔ اپنے وطن سے روانہ ہونے کے بعد سے اب تک میں نے کرم کلے کی شکل بھی نہیں دیکھی۔“

    ‎”ارے منّے“ گھر کی مالکہ نے اپنے لڑکے سے کہا ”بھاگ کر کھیت میں جاؤ۔ دو چار ابھی باقی ہیں۔ ایک کرم کلہ لے آؤ۔“

    ‎”بس اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔“ سپاہی نے اطمینان دلایا اور واقعی ہنڈیا میں سے خوب بھاپ اٹھنے لگی۔ ‎عین اسی وقت کسان کا بڑا بیٹا شکار پر سے واپس آیا۔ وہ ایک خرگوش مار کر ساتھ لایا تھا۔ سپاہی نے خوش ہو کر کہا ”واہ واہ! کیا کہنے، یہ تو سونے پر سہاگے کا کام دے گا۔ بہت اچھے موقع پر آیا ہے۔“

    ‎نوجوان شکاری نے ہنڈیا کی طرف دیکھ کر ناک کو حرکت دی اور سر کھجا کر کہا ”معلوم ہوتا ہے کہ مزیدار شوربہ تیار ہو رہا ہے۔“

    ‎”ہاں! اس کی ماں نے فوراً اسے آگاہ کیا۔ اس سپاہی کے پاس ایک عجیب و غریب پتھر تھا۔ ہم اُسے ابال کر شوربہ بنا رہے ہیں۔ تم اچھے موقع پر آئے ہو۔ ایک پیالہ تم بھی پی لو گے۔“

    ‎اس دوران میں جلدی جلدی خرگوش کی کھال اتار کر اور اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکٹر ے کر کے فوراً ہنڈیا میں ڈال دیے۔ کچھ دیر بعد ہنڈیا سنسانے لگی اور پھر تیزی سے بھاپ نکلنے لگی۔ اور جب شکاری لڑکا اپنے کپڑے بدل کر اور ہاتھ منہ دھو کر واپس آیا تو شوربہ تیار ہوگیا تھا۔ سارے گھر میں اس کی خوشبو پھیل رہی تھی۔

    ‎وہ شوربہ سب گھر والوں کے لئے کافی تھا کیونکہ ہنڈیا اوپر تک بھری ہوئی تھی۔ سپاہی، کسان، اس کی بیوی، بڑا لڑکا، لڑکی، چھوٹا لڑکا اور لڑکی۔ سب پیالے بھر کر بیٹھ گئے۔ سب سے پہلے کسان نے شوربے سے چسکی لی۔ اُس نے خوش ہو کر کہا”بھئی واقعی! بہت مزے دار ہے، ایسا شوربہ تو ہم نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا۔“

    ‎بیوی نے بھی ایک گھونٹ پی کر ہاں میں ہاں ملائی اور کہا ”یہ عجیب قسم کا پتھر ہے۔ شوربہ کتنا مزے دار ہوگیا ہے۔ ہم اس کا ذائقہ کبھی نہیں بھولیں گے۔“

    ‎سپاہی بولا ”کمال کی بات ہے، یہ پتّھر کبھی گھل کر ختم نہیں ہوتا۔ آج والی ترکیب پر جب بھی عمل کیا جائے گا تو اتنا ہی خوش ذائقہ شوربہ تیار ہوسکتا ہے۔

    اپنا حصّہ ختم کر لینے کے بعد سپاہی نے رخصت چاہی اور خدا حافظ کہتے ہوئے اس نے شوربے کا پتھر گھر کی مالکہ ہی کو تحفے کے طور پر دے دیا اور کہا ”یہ تمھاری مہمان نوازی کا صلہ ہے۔ اسے اپنے پاس ہی رکھو اور جب بھی چاہو اسی ترکیب سے شوربہ تیار کر لیا کرو۔“

    ‎تازہ دَم ہو کر سپاہی نے اپنی راہ لی۔ خوش قسمتی سے تھوڑے سے فاصلے پر ویسا ہی ایک اور پتّھر سڑک پر پڑا ہوا مل گیا۔ سپاہی نے اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا کہ شاید گھر پہنچنے سے پہلے کسی اور گاؤں میں وہ کام آجائے اور اس کی بہ دولت مزے دار شوربہ نصیب ہوجائے۔

    (بیلجیئم کی ایک لوک کہانی کا اردو ترجمہ)