Tag: مشہور کہانیاں

  • سنتری کی لاش (عالمی ادب سے انتخاب)

    سنتری کی لاش (عالمی ادب سے انتخاب)

    کروڑ پتی مجرم کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اس سزا پر عمل درآمد کے لیے اسے شہر سے دور دراز ایک گمنام جزیرے کی جیل میں قید کر دیا گیا تاکہ وہ اپنی دولت یا اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے فیصلے پر اثر انداز نہ ہوسکے۔

    کروڑ پتی مجرم نے اس جزیرے پر ہی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے اس نے جیل کے سنتری کو رشوت دینے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی قیمت پر جیل کے جزیرے سے باہر وہ فرار ہو سکے۔

    سنتری نے اسے بتایا کہ یہاں پر حفاظتی اقدامات بہت سخت ہیں اور کوئی بھی قیدی جزیرے سے باہر نہیں نکل سکتا سوائے ایک صورت کے، جو کہ… موت ہے!
    لیکن لاکھوں کے لالچ نے سنتری کو قیدی کا ساتھ دینے پر آمادہ کر لیا۔ اس کے لیے سنتری نے ایک عجیب و غریب طریقہ نکالا اور اس کروڑ پتی مجرم کو بتا دیا، جو درج ذیل ہے…

    "سنو: جیل کے جزیرے سے صرف ایک چیز جو بغیر کسی حفاظتی انتظامات اور تفتیش کے باہر آتی ہے وہ ہے مُردوں کا تابوت۔ جب کبھی کسی کو پھانسی دے دی جائے یا وہ طبعی موت مر جائے تو ان کی لاشوں کو مردہ خانے سے تابوت میں ڈال کر بحری جہاز پر منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں پر غیر مسلح چند محافظوں کی نگرانی میں کچھ سادہ رسومات ادا کرنے کے بعد ان تابوتوں کو قبرستان میں دفن کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، وہ محافظ ان تابوتوں کو بحری جہاز سے خشکی پر منتقل کرنے اور پھر دفنانے کے بعد واپس لوٹ آتے ہیں۔ اس کارروائی پر روزانہ صبح دس بجے اس صورت میں عمل درآمد کیا جاتا ہے کہ وہاں مردہ خانے میں مردہ اور تابوت موجود ہوں، آپ کے فرار کا واحد حل یہ ہے کہ اختتامی لمحات سے پہلے آپ کسی طرح کسی ایک تابوت میں پہلے سے مردہ شخص کے ساتھ لیٹ جائیں، معمول کی کارروائی اختتام پذیر ہو، بحری جہاز سے آپ زمین اور زمین سے قبرستان پہنچ جائیں، وہاں جا کر تابوت کو دفن کر دیا جائے، اور جیسے ہی عملہ وہاں سے واپسی کے لیے نکلے تو میں ہنگامی رخصت لے کر آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہاں پہنچ کر آپ کو قبر اور تابوت سے باہر نکال لوں۔ پھر آپ مجھے وہ رقم دے دیں جس پر ہم نے اتفاق کیا ہے، اور میں چھٹی کا وقت ختم ہوتے ہی واپس جیل چلا جاؤں گا اور آپ غائب ہو جائیں گے۔ یوں آپ کی گمشدگی ایک معمہ ہی رہے گی، اور اس معمے سے ہم دونوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا… آپ کا کیا خیال ہے؟

    کروڑ پتی نے سوچا کہ یہ ایک جنونی قسم کا منصوبہ ہے، لیکن پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے یہ پھر بھی ہزار درجے بہتر ہے… کروڑ پتی نے تگڑی رقم دینے کا وعدہ کیا اور پھر دونوں نے اسی طریقہ کار پر اتفاق کر لیا۔

    سنتری کے منصوبے کے مطابق اس قیدی نے اتفاق کیا کہ وہ مردہ خانے میں چپکے سے جائے گا اگر وہ خوش قسمت رہا اور وہاں کسی کی موت واقع ہوگئی تو وہ اپنے آپ کو بائیں طرف کے پہلے نمبر والے تابوت میں بند کر لے گا جس کے اندر پہلے سے ایک لاش موجود ہوگی۔

    اگلے دن حسبِ منصوبہ سنتری کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے وہ کروڑ پتی شخص مردہ خانے کے اندر گھسنے میں کام یاب ہوگیا، وہاں مردہ خانے کے فرش پر دو تابوت رکھے ہوئے تھے۔ پہلے تو وہ تابوت میں کسی مردے کے ساتھ لیٹنے کے خیال سے گھبرا گیا لیکن ایک بار پھر زندہ رہنے کی جبلت اس عارضی خوف پر غالب آگئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے احتیاط سے تابوت کو کھولا تاکہ لاش کو دیکھ کر خوفزدہ نہ ہو، اور اپنے آپ کو تیزی سے تابوت کے اندر مردے کے اوپر گرا دیا اور اس وقت تک بے چینی اور پکڑے جانے کے خوف کے ساتھ وہ انتظار کرتا رہا جب تک کہ اس نے محافظوں کی آواز نہ سن لی۔ وہ تابوت کو جہاز کے عرشے پر لے جانے کے لیے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔

    مردہ خانے سے لے کر جہاز پر پہنچنے تک اسے قدم بہ قدم جگہ کی تبدیلی کا احساس ہوتا رہا۔ جہاز کا لنگر اٹھنے سے لے کر پانی پر اس کی حرکت کو اس نے محسوس کیا، سمندری پانی کی مہک جب تک اس کے نتھنوں سے ٹکراتی رہی تب تک اس کا عدم تحفظ کا احساس برقرار رہا۔ جہاز ساحل پر پہنچ کر لنگر انداز ہوا۔ محافظوں نے کھینچ کر تابوت کو خشکی پر اتارا تو اس کے کانوں سے محافظوں کی گفتگو کے چند الفاظ ٹکرائے، وہ اس تابوت کے عجیب و غریب وزن کے بارے میں ایک دوسرے سے تبصرہ کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اتنے وزنی تابوت سے زندگی میں پہلی دفعہ پالا پڑا ہے۔ اس گفتگو سے اس کروڑ پتی قیدی نے عجیب سا خوف اور تناؤ محسوس کیا۔ وہ ڈر گیا تھا کہ کہیں یہ محافظ اس تابوت کو کھول کر دیکھ ہی نہ لیں کہ اندر کیا ہے۔ لیکن یہ تناؤ اس وقت ختم ہو گیا جب اس نے ایک محافظ کو لطیفہ سناتے ہوئے سنا جس میں وہ زیادہ وزن والے قیدیوں کا مذاق اڑا رہا تھا۔ مردہ خانے سے لے کر قبرستان پہنچنے تک شاید یہ پہلا لمحہ تھا جب اس نے تھوڑی سی راحت محسوس کی۔

    اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ تابوت کو گڑھے میں اتارا جا رہا ہے، چند لمحوں بعد اسے تابوت کے اوپری حصے پر مٹی کے بکھرنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی، اور محافظوں کے بولنے کی آواز آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوئے ختم ہوگئی تھی۔ اور اب اس اندھیری قبر میں وہ ایک عجیب صورت حال سے دوچار تھا، انسانی لاش کے ساتھ تین میٹر کی گہرائی میں وہ زندہ دفن تھا، اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے لیے سانس لینا دوبھر ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے سوچا یہ بات درست ہے کہ وہ اس سنتری پر بھروسہ نہیں کرتا تھا، لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ دولت سے محبت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے اور وہ سنتری وعدے کے مطابق لاکھوں کی رقم لینے کے لیے دولت سے اپنی محبت کی بدولت ضرور آئے گا۔

    انتظار طویل ہوتا جارہا تھا.. جسم پر پسینہ بہنے کا احساس یوں ہو رہا تھا جیسے ہزاروں چیونٹیاں دھیرے دھیرے رینگ رہی ہوں۔ سانسیں دھونکنی کی مانند تیز تیز چلنے لگی تھیں اور حبس سے دم گھٹ رہا تھا۔

    خود کو مطمئن کرتے ہوئے وہ کہنے لگا، بس مزید دس منٹ کی بات ہے، اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اور وہ دوبارہ آزاد فضاؤں میں سانس لے گا اور ایک بار پھر روشنی دیکھے گا۔

    سانس لینے میں دقت کے باعث اب وہ مسلسل کھانسنے لگا تھا۔ مزید دس منٹ گزر گئے۔ اس قبر میں آکسیجن ختم ہونے والی ہے، اور وہ سنتری ابھی تک نہیں آیا۔ اسی سوچ میں تھا کہ اس نے بہت دور سے قدموں کی آہٹ سنی۔ ان آوازوں کے ساتھ ہی اس کی نبض تیز ہو گئی۔ ضرور یہ وہ سنتری ہی ہوگا۔ آخر وہ آ ہی گیا۔ آواز قریب پہنچ کر پھر دور ہوتی چلی گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اسے ہسٹیریا کا دورہ پڑ رہا ہے۔ اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے لاش حرکت رہی ہو۔ ساتھ ہی اس نے تصور میں دیکھا کہ اس کے نیچے دبا ہوا مردہ آدمی اس کی حالت پر طنزیہ انداز میں مسکرا رہا ہے۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اس کی جیب میں ماچس کی ڈبیہ ہے اور تیلی سلگا کر وہ اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھ سکتا ہے کہ سنتری کے وعدے کے مطابق کتنا وقت گزر گیا تھا اور کتنا باقی ہے۔ اسے امید تھی کہ سنتری کے بتائے ہوئے وقت میں سے ابھی چند منٹ باقی ہوں گے۔

    جب اس نے تیلی سلگائی تو آکسیجن کی کمی کے باعث مدھم سی روشنی نکلی۔
    شعلے کو گھڑی کے قریب لاکر اس نے دیکھا تو پتا چلا کہ پینتالیس منٹ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ گھڑی میں وقت دیکھ کر اب وہ حقیقی معنوں میں خوف زدہ ہو چکا تھا۔ ملگجی روشنی میں اسے محسوس ہوا کہ اس کا چہرہ مردے کے چہرے کے بالکل قریب ہے۔ اس نے خود سے سوال کیا، کیا مردہ شخص کا چہرہ دیکھنا اسے مزید خوف میں مبتلا کرے گا؟

    تجسّس اور خوف کے ساتھ اس نے اپنی گردن موڑی ، شعلے کو لاش کے چہرے کے قریب کیا اور دہشت کے مارے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔

    مرنے سے پہلے اس نے دیکھا کہ یہ تو اس شخص کا چہرہ ہے جسے زندہ دیکھنے کی امید میں وہ یہاں زندہ دفن تھا۔ وہ اُسی سنتری کی لاش تھی۔

    (عالمی ادب سے انتخاب، مترجم: توقیر بُھملہ)

  • بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    ایک بادشاہ ہاتھی پر سوار کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا تو اس کی نظر ایک ایسے بوڑھے شخص پر پڑی جو درختوں کی کاٹ چھانٹ میں‌ مصروف تھا۔

    وہ پھل دار درخت تھے، لیکن ابھی ان پر پھل آنے کا موسم نہ تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ وہ شخص خاصا سن رسیدہ ہے اور اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا اور شاہی سواری کو فیل بان نے اس مقام پر ٹھہرا لیا۔ اب بادشاہ نے سپاہیوں‌ کو کہا کہ اس بوڑھے کو میرے سامنے حاضر کرو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔

    بوڑھا بادشاہ کے روبرو آیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاصا کمزور ہے اور اس کی جلد جھریوں سے بھری ہوئی ہے۔ بادشاہ نے کہا، اے بوڑھے! تُو جن درختوں کا خیال رکھ رہا ہے، کیا تجھے ان درختوں کا پھل کھانے کی اُمید بھی ہے؟

    بوڑھے نے کہا، بادشادہ سلامت! ہمارے پہلے لوگوں نے زراعت کی، اپنے جیتے جی اناج پایا اور اسے پکا کر کھایا، پھر باغات کی زمین کو اس قابل بنایا کہ وہ بیج کو اپنے اندر دبا کر اللہ کے حکم سے اس کے بطن سے پودا نکالے جو توانا درخت بنے اور اس کی شاخیں پھلوں سے بھر جائیں۔ وہ زندہ رہ سکے تو پھل بھی کھایا اور جب وہ نہیں رہے تو ان کے بچّوں اور ان بچّوں‌ کی اولادوں‌ نے وہ پھل کھائے۔ ان کی محنت سے ہم سب لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا ہے حضور لیکن اب میں اپنے بعد آنے والوں کے لیے یہ محنت کر رہا ہوں تاکہ وہ نفع حاصل کریں۔

    بادشاہ کو اس کی یہ بامذاق اور مفید بات بہت ہی پسند آئی۔ خوش ہو کر بادشاہ نے بوڑھے کو ایک ہزار اشرفیاں انعام کے طور پر دیں۔ اس پر بوڑھا ہنس پڑا۔ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ یہ ہنسی کا کیا موقع ہے؟ بوڑھے نے کہا مجھے اپنی محنت کا اس قدر جلد پھل مل جانے سے تعجب ہوا۔ اس بات پر بادشاہ اور بھی زیادہ خوش ہوا۔ بوڑھا یقیناً ذہین بھی تھا۔ بادشاہ نے اسے ایک ہزار اشرفیاں اور دیں۔ باغ بان بوڑھا پھر ہنسا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اب کیوں ہنسے؟ وہ بولا کہ کاشت کار پورا سال گزرنے کے بعد ایک دفعہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ مجھے میری باغ بانی نے تھوڑی سے دیر میں دو مرتبہ اپنی محنت کا ثمر دے دیا۔ بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے ایک ہزار اشرفیاں مزید دیں اور سپاہیوں‌ کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔

    سبق: زندگی میں‌ کوئی کام صرف اپنے مفاد اور نفع کی غرض‌ سے نہیں‌ کرنا چاہیے، بلکہ نیک نیّتی کے ساتھ دوسروں‌ کی بھلائی کے لیے بھی اگر کچھ وقت نکال کر کوئی کام کرنا پڑے تو ضرور کرنا چاہیے۔ محنت کا پھل ضرور ملتا ہے اور اکثر ہماری توقع سے بڑھ کر اور آن کی آن میں قدرت ہم پر مہربان ہوسکتی ہے۔

  • لالچی سپیرا اور اژدھا

    لالچی سپیرا اور اژدھا

    زمانۂ قدیم ہی سے قصّے کہانیاں انسانوں‌ کی دل چسپی اور توجہ کا محور رہی ہیں۔ بالخصوص بچّے اور نوجوان بہت اشتیاق اور ذوق و شوق سے اپنے بڑوں کی زبانی وہ کہانیاں سنتے رہے ہیں، جو ان تک سینہ بہ سینہ اور کتابوں کے ذریعے پہنچی تھیں۔

    یہ سبق آموز کہانیاں اور حکایات اکثر سچے واقعات پر مبنی ہوتی ہیں جن میں عقل و دانش کی بات اور کوئی ایسا نکتہ بیان کیا جاتا ہے جو بچّوں اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت، فکری اور جذباتی راہ نمائی اور ان کو معاملاتِ زمانہ سکھانے میں‌ مددگار ثابت ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ زمانۂ قدیم میں یہ درس گاہوں کے نصابِ تعلیم کا حصہ ہوا کرتی تھیں اور لوگوں کو زبانی یاد ہوتی تھیں۔ دنیا کی کوئی قوم، کوئی علاقہ یا کوئی براعظم ایسی سبق آموز کہانیوں اور حکایات سے خالی نہیں اور ہر ایک قوم کے پاس لوک کہانیوں اور حکایات کا خزانہ موجود ہے۔ ان حکایات میں ہزاروں سال کے انسانوں کے مشاہدات، تجربات اور خیالات کو بہت خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی کہانی ہے جس سے بڑے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور اسے اپنے بچّوں کو پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی ملاحظہ کیجیے۔

    بچّو! یہ ایک سپیرے کا قصہ ہے۔ سپیرا کسے کہتے ہیں، تم جانتے ہو نا؟ یہ وہ آدمی ہوتا ہے جو جنگل بیاباں میں جاکر سانپ پکڑتا ہے اور اسے حکیم اور طبیب وغیرہ کو فروخت کردیتا ہے یا اس کا تماشا دکھا کر روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے۔ اس کے پاس ایک بین ہوتی ہے جسے بجاتا ہوا وہ اپنے شکار کی تلاش میں پھرتا رہتا ہے۔

    ہم جس سپیرے کی کہانی سنا رہے ہیں، وہ دن رات نت نئے اور زہریلے سانپوں کی تلاش میں جنگل، ویرانوں اور صحرا میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ سخت سردی کا موسم تھا۔ سپیرا پہاڑوں میں سانپ تلاش کر رہا تھا۔ وہ خاصا تھک گیا تھا اور اب مایوس ہو کر گھر لوٹنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اسے ایک اژدھا نظر آیا۔ یہ ایک بہت بھاری اور بہت لمبا اژدھا تھا۔ سپیرے نے غور کیا کہ اژدھا اس کے پیروں کی آواز اور اس کے بین بجانے پر ذرا بھی حرکت نہیں کر رہا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ مَر چکا ہے۔ سپیرے نے ہمّت کی اور اژدھے کے قریب گیا۔ اس نے اپنی چھڑی سے اس کے جسم پر متعدد بار ضرب لگائی اور ہلایا بھی، لیکن اس نے ذرا بھی حرکت نہ کی، تب سپیرے کو یقین ہوگیا کہ اژدھا مر چکا ہے، کیوں کہ پہاڑوں پر پچھلے چند ہفتوں کے دوران سخت سردی ہی نہیں پڑی تھی بلکہ برف باری بھی ہوئی تھی۔ سپیرے نے سوچا کہ موسم کی سختی کے باعث وہ شکار کر کے اپنا پیٹ بھرنے میں ناکام رہا ہوگا اور یخ بستہ ہواؤں کو برداشت نہیں کرسکا جس کے سبب اس کی موت واقع ہوگئی۔ سپیرے نے سوچا اگر اس مردہ اژدھے کو کسی طریقے سے شہر لے جاؤں تو اسے دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہوجائے گا اور یہ تماشا کرکے میں خوب مال کماؤں گا۔

    وہ اژدھا کیا تھا، ستون کا ستون تھا۔ سپیرے کے لیے اسے اپنے ساتھ لے جانا مشکل تھا۔ مگر اس نے دماغ لڑایا اور کسی طرح درختوں کے چند بڑے بڑے پتّوں کو جمع کر کے سوکھی ہوئی مضبوط شاخوں کی مدد سے اژدھے کے جسم کو ان پر پتّوں پر ڈال دیا۔ اب اس نے درختوں کی چھال سے ایک قسم کی رسّی بٹ لی اور جان لیا کہ وہ بڑی آسانی سے اژدھے کو کھینچ سکتا ہے۔ سپیرے نے خوشی خوشی شہر کا رخ کیا۔ وہ اسے ہموار راستے پر گھسیٹ کر اور ناہموار جگہوں پر پتّوں سمیت دونوں ہاتھوں میں‌ اٹھا کر، الغرض کسی طور شہر کے مصروف علاقے کے مرکزی بازار میں لے آیا۔ سپیرے کے اس کارنامے کی شہر میں دھوم مچ گئی۔ جس نے سنا کہ شہر میں فلاں سپیرا ایک نایاب نسل کا اژدھا پکڑ کر لایا ہے، وہی سب کام چھوڑ کر اسے دیکھنے چل پڑا۔ سیکڑوں ہزاروں لوگ آتے اور اژدھے کا مالک سپیرا دیکھتا کہ خاصے لوگ جمع ہوگئے ہیں‌ تو وہ اس کے جسم پر سے وہ چادر ہٹا دیتا جو اس نے یہاں‌ پہنچ کر ڈال دی تھی۔ اس کے ساتھ وہ لوگوں کو پہاڑوں کی جانب اپنے سفر اور خطرناک سانپوں کی تلاش کا قصّہ بڑھا چڑھا کر سناتا جاتا اور اس کا سچ جھوٹ سن کر لوگ حیران بھی ہوتے اور باتیں‌ بھی بناتے، مگر اسے انعام اور اس تماشے پر بخشش کے طور پر اشرفیاں ضرور دیتے۔ سپیرے کو اور چاہیے بھی کیا تھا۔ وہ ان لوگوں کے مذاق کا نشانہ بن کر اور ایسی ویسی باتیں سن کر بھی خوش تھا، کیوں کہ وہ شام کے آغاز سے اس وقت تک جتنی رقم جمع کرچکا تھا، وہ ایک سے دو ہفتے تک سپیرے اور اس کے گھر والوں کی کھانے پینے کی ضرورت کو کافی تھی۔ سپیرا لالچ میں آگیا اور گھر لوٹنے کے بجائے مرکزی چوک پر اژدھے کے ساتھ ہی سو گیا۔ اسے گھر جانے اور اس رقم کو اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کا خیال ہی نہیں آ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا زیادہ سے زیادہ مال بنا لے۔ اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو کسے معلوم تھا کہ یہ دن سپیرے پر آج کیسا غضب ڈھائے گا۔

    بچّو! جب سپیرا اژدھے کے ساتھ شہر آیا تھا، تو شام کا وقت شروع ہوچکا تھا۔ سورج ٹھنڈا‌ پڑنے کے بعد ڈوبنے کو تھا۔ مگر آج تو اژدھا مسلسل سورج کی تپش اور سخت دھوپ میں پڑا رہا تھا۔ دراصل وہ اژدھا زندہ تھا اور پہاڑوں پر سخت سردی اور برف باری کی وجہ سے اس کا جسم سُن ہو چکا تھا۔ برف سے ٹھٹھرنے کے باعث وہ بے حس و حرکت ایسا پڑا تھا جیسے مردہ۔ آج جیسے جیسے سورج کی براہِ راست تپش اور دھوپ اس کے جسم پر پڑی، اس کا منجمد جسم زندگی کی طرف لوٹنے لگا۔ دوپہر کو سخت دھوپ تھی اور لالچ کا مارا سپیرا جو اسے مردہ سمجھ رہا تھا، اژدھے کے قریب ہی کھڑا تھا۔ اچانک اژدھے کے جسم میں تھرتھری پیدا ہوئی اور اس نے اپنا منہ کھول دیا۔ اژدھے کا منہ کھولنا تھا کہ قیامت برپا ہوگئی۔ بدحواسی اور خوف کے عالم میں جس کا جدھر منہ اٹھا اسی طرف کو بھاگا۔ سپیرے نے جب اچانک بھگدڑ مچتے دیکھی اور شور سنا تو پلٹا اور تب مارے دہشت کے سپیرے کا خون ہی گویا اس کی رگوں میں جم گیا۔ اس نے دل میں کہا غضب ہو گیا۔ یہ پہاڑ سے میں کس آفت کو اٹھا لایا۔ ابھی وہ بھاگنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدھے نے اپنا بڑا سا منہ کھول کر اس سپیرے کو نگل لیا۔ لوگ تو اس افتاد سے ہڑبڑا کر دور جا کھڑے ہوئے تھے اور اکثر تو وہاں سے بھاگ ہی نکلے تھے۔ کون اس بیچارے سپیرے کو بچاتا؟

    سپیرے کو نگلنے کے بعد اژدھا رینگتا ہوا آگے بڑھا، اور ایک بڑے اور قدیم پیڑ کے مضبوط تنے سے خود کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ اندر موجود اس سپیرے کی ہڈیاں بھی سرمہ ہوگئیں۔

    بچّو! یہ مولانا روم سے منسوب حکایت ہے جس میں ہمارے لیے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ محض نام و نمود اور مال کی خواہش میں کیا گیا کوئی کام خطرے سے خالی نہیں‌ ہوتا۔ خوب سوچ سمجھ کر اور مشورہ کر کے ہی کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جس کی اچھائی اور نفع کا خوب یقین نہ ہو۔ اس حکایت سے ایک دوسرا سبق یہ بھی ملتا ہے کہ ہمارا نفس بھی سردی میں ٹھٹھرے ہوئے اژدھے کی مانند ہے جسے جب عیش و آرام کی حدّت اور سازگار ماحول ملتا ہے تو وہ بیدار ہوجاتا ہے اور تب ہماری ہی جائز و ناجائز خواہشوں کی شکل میں ہمیں نگلنے کو لپکتا ہے۔

  • بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلا۔ وہ جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک درویش پر پڑی جو اپنے حال میں مست بیٹھا تھا۔ بادشاہ اس درویش کے قریب سے گزرا لیکن اس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ یہ بھک منگے بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

    بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

    درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تُو نے سنا نہیں بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یاد رکھ! بادشاہی بھی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تُو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کرسکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

    وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے ان سے نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس کے پاس پہنچا اور عرض کی کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو۔ تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی۔

    فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔ بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت کرو۔

    درویش بولا، میری نصیحت یہ ہے کہ اس زمانے میں جب تُو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئیں گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا۔ جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا۔

    نیکیاں کر لے اگر تُو صاحبِ ثروت ہے آج
    کل نہ جانے کس کے ہاتھ آئے ترا یہ تخت و تاج

    سبق: حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ اپنے دل کو حرص اور لالچ سے پاک کر لینے کے بعد ہی انسان کو سچی راحت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ مرتبہ حاصل ہو جائے تو خدا ایسی جرأت بخش دیتا ہے کہ وہ لاؤ لشکر رکھنے والے بادشاہوں سے بھی خوف نہیں کھاتا۔ نیز یہ کہ مال دار شخص کے لیے سب سے زیادہ نفع کا سودا نیکیاں کرنا ہے۔ اخروی زندگی میں اس کے کام اس کا یہی سرمایہ آئے گا جس مال پر دنیا میں غرور کرتا تھا، اس میں سے کفن کے سوا کچھ بھی اپنے ساتھ نہ لے جاسکے گا۔

    ( منسوب از شیخ سعدی، مترجم: نامعلوم)

  • جسے اللہ رکھے، اسے  کون چکھے (کہانی)

    جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے (کہانی)

    بہت پرانی بات ہے کہ ایک گاؤں میں مراد نامی نوجوان اپنے بال بچّوں سمیت رہتا تھا۔ اس کا گھر کچّا بھی تھا اور چھوٹا بھی، لیکن مراد مطمئن تھا۔ وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔

    اس نوجوان کے زیادہ تر رشتہ دار اور عزیز و اقارب قریبی دیہات اور شہر کے مضافاتی علاقوں‌ میں سکونت پذیر تھے۔ وہ اکثر ان سے ملنے گاؤں سے باہر جاتا رہتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے ماموں کی مزاج پرسی کے کے ارادے گھر سے نکلا جو خاصی دور ایک مقام پر رہتے تھے۔ مراد صبح سویرے گھر سے چل پڑا تاکہ شام ہونے سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ راستے میں جنگل پڑتا تھا اور گزر گاہ خطرناک تھی۔ اس راستے پر جنگلی جانوروں کا بھی خطرہ رہتا تھا۔ مراد گھر سے دوپہر کا کھانا اور ضروری سامان ساتھ لیے منزل کی طرف چل پڑا۔

    جب وہ جنگل کے قریب تھا تو اچانک مشرق کی طرف سے اس نے گرد کا طوفان اور آندھی آتی دیکھی۔ مراد نے پناہ گاہ کی تلاش میں‌ نظر دوڑائی۔ خوش قسمتی سے قریب ہی اسے ایک جھونپڑی نظر آگئی۔ اس نے جھونپڑی کی طرف قدم بڑھائے اور تقریباً دوڑتا ہوا جھونپڑی کے دروازے پر پہنچا۔ اس اثناء میں آندھی جو بڑی زور آور تھی، کئی درختوں کو ہلاتی اور مختلف ہلکی اشیاء کو اڑاتی ہوئی اس علاقے میں داخل ہوچکی تھی۔ اسی کے ساتھ گرج چمک کے ساتھ بارش بھی شروع ہو گئی۔

    مراد کو جھونپڑی میں داخل ہونے سے کسی نے نہ روکا۔ وہ اندر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں پہلے سے چھے نوجوان پناہ لیے ہوئے تھے۔ دعا سلام کے بعد وہ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ بارش تیز ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ بجلی کی گرج چمک میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ جب بجلی چمکتی تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ اسی جھونپڑی کی چھت پر پڑی ہے۔ اندر جتنے لوگ تھے وہ بجلی کی کڑک سن کر خوف ذدہ ہو جاتے۔ وہ آفت ٹلنے کے لیے دعائیں‌ کرنے لگے اور اپنی اپنی جان کی امان اللہ سے طلب کرنے لگے۔

    جب بجلی بار بار جھونپڑی کی طرف آنے لگی تو سب کو یقین ہو گیا کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو نشانہ بنانا چاہتی ہے اور اس ایک کی وجہ سے سب کے سب موت کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ جھونپڑی میں پہلے سے موجود لوگوں نے فیصلہ کیا کہ سب مرنے کے بجائے یہ کریں‌ کہ ہر ایک باری باری سامنے کچھ فاصلے پر موجود درخت کو ہاتھ لگا کر آئے۔ ان کو نجانے کیوں یہ یقین ہوچلا تھا کہ جس کی موت آنی ہو گی، باہر نکلنے پر بجلی اس پر ضرور گرے گی۔

    جھونپڑی میں موجود ایک شخص پہلے نکلا اور درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گیا۔ بجلی کڑکی مگر وہ شخص زندہ سلامت جھونپڑی میں واپس آ گیا۔ پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا شخص حتّیٰ کہ وہ چھے کے چھے اشخاص درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گئے اور بجلی کڑکتی رہی، مگر ان میں‌ کوئی نشانہ نہیں‌ بنا تھا۔

    اب آخری شخص مراد تھا جسے ان سب نے جاکر درخت کو ہاتھ لگانے کے لیے کہا۔ مراد نجانے کیوں گھبرا گیا۔ اس نے پناہ لیے ہوئے تمام لوگوں کی منت سماجت کرنی شروع کر دی اور کہا کہ شاید وہ ان سب کی وجہ سے بچا ہوا ہے، لہٰذا اسے باہر نہ جانے کو کہا جائے۔ مگر سب بضد تھے اور ان کا کہنا تھا کہ بجلی جس زور سے کڑک رہی ہے، وہ یقیناً‌ کسی ایک کو نوالہ بنانا چاہتی ہے، ہم سب نے اپنی باری پوری کی ہے، ہم مرنا نہیں چاہتے۔ اب تمہاری باری ہے جاؤ اور درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ جاؤ۔ اگر تمھاری زندگی ہوگی تو تم لوٹ آؤ گے۔ انہوں نے اسے پکڑا اور باہر دھکیل دیا۔

    مراد طوفانی بارش اور گرج چمک میں‌ درخت کی طرف بھاگا تاکہ جلدی سے اسے ہاتھ لگا کر واپس آ جائے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی مقصود تھا۔ جونہی وہ جھونپڑی سے کچھ فاصلے پر پہنچا، اچانک بجلی چمکی ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ مراد کے اوسان اس آواز کو سنتے ہی خطا ہوگئے، لیکن لمحوں میں‌ جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو جھونپڑی جل گئی تھی۔ بجلی اس جھونپڑی پر گری تھی جہاں وہ چھے افراد موجود تھے جنھوں‌ نے اسے باہر نکال دیا تھا۔ وہ سب کے سب لقمۂ اجل بن چکے تھے۔

  • بسترِ مرگ پر بادشاہ کا سوال

    بسترِ مرگ پر بادشاہ کا سوال

    ایک بادشاہ کی چار بیویاں تھیں۔ یوں تو وہ سبھی سے بہت محبت کرتا تھا، مگر ہر بیوی کے ساتھ اس کا الگ رویہ اور سلوک تھا۔

    چوتھی بیوی بادشاہ کی نورِ نظر تھی۔ بادشاہ اسے اکثر بیش قیمت تحائف دیتا اور باقی بیویوں کے مقابلے میں اُس کا جھکاؤ چوتھی بیوی کی طرف زیادہ تھا۔

    بادشاہ کی تیسری بیوی انتہائی خوب صورت تھی اور بادشاہ ہمیشہ دربار میں اُس کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھاتا تھا۔

    دوسری بیوی سمجھدار، بُردبار، مہربان اور تحمل مزاج تھی اور بادشاہ جب بھی کسی مشکل سے دوچار ہوتا اپنی اسی بیوی سے مشورہ کرتا اور اُس کے کہنے پر عمل بھی کرتا۔

    اس بادشاہ کی پہلی بیوی انتہائی وفا شعار اور ساتھ نبھانے والی خاتون تھی۔ اسی کی ہمّت اور حوصلہ افزائی نے بادشاہ کو اس سلطنت اور تاج و تخت کا مالک بنایا تھا مگر بادشاہ اُسے نظر انداز کر دیا کرتا تھا اور کبھی اُس کے کسی کام کی تعریف نہیں کی تھی۔

    ایک روز بادشاہ بیمار پڑ گیا۔ یہ بیماری اتنی بڑھ گئی کہ بادشاہ کو محسوس ہونے لگا کہ وہ اس دنیا میں کچھ دن کا مہمان ہے۔ وہ بستر پر پڑا سوچ رہا تھا کہ "میں کیسا بادشاہ ہوں؟، میری چار بیویاں ہیں اور جب میں مروں گا تو تنہا مروں گا۔ کوئی بھی میرے ساتھ نہیں جائے گا۔” اس نے اپنی چوتھی بیوی سے کہا ” میری نُور نظر میری موت قریب ہے، میں چاہتا ہوں تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ قبر کی تنہائی میں میرا ساتھ دے سکو۔” اس نے بادشاہ کی بات سن کر منہ دوسری طرف پھیر لیا اور پھر کمرے سے باہر چلی گئی۔ بادشاہ کو بڑا ملال ہوا۔ اس نے یاد کیا کہ کیسے وہ اس بیوی کی خاطر کرتا تھا اور اس کے لیے ہر آسائش مہیا کررکھی تھی۔ اس نے اپنی تیسری بیوی کو بلایا اور اس سے یہی بات کی مگر اس نے بھی ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔

    دونوں بیویوں کی ایسی سرد مہری دیکھ کر بادشاہ کا دل ڈوبنے لگا تو اُس نے اپنی دوسری زوجہ سے ساتھ چلنے کی درخواست کی۔ دوسری والی بولی، ” بادشاہ سلامت آپ خود ہی تو فرماتے ہیں، مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔ لہٰذا یہ منزل آپ کو تنہا ہی پار کرنی پڑے گی۔” بادشاہ نے مایوس ہوکر اس سے منہ پھیر لیا۔

    ان تینوں بیویوں کو آزمانے کے بعد جب بادشاہ تکلیف اور بے بسی کے ساتھ چھت کی طرف دیکھے جارہا تھا تو اس کے کانوں میں چوتھی بیوی کی آواز پڑی، وہ کہہ رہی تھی ”بادشاہ سلامت! میں آپ کے ساتھ چلوں گی جہاں بھی آپ جائیں گے میں ساتھ دوں گی۔” بادشاہ نے چوتھی بیوی کی طرف دیکھا جو دراصل بادشاہ کے التفات سے محرومی اور کسی موقع پر اہمیت نہ دیے جانے کے سبب ذہنی اذیت سے گزرتی رہی تھی، اور وہ انتہائی لاغر ہوچکی تھی۔ اس کی رنگت زردی مائل نظر آرہی تھی۔ بادشاہ نے اسے قریب پاکر انتہائی رنجیدہ لہجے میں کہا ” میری حقیقی غم خوار! ہائے صد افسوس، کاش میں نے تمہارا خیال اُس وقت رکھا ہوتا جب میرے قبضۂ قدرت میں اختیار تھا۔” یہ جملہ ادا کر کے بادشاہ کا سَر ایک طرف ڈھلک گیا۔ وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا تھا۔

    اس کہانی میں ایک سبق اور دنیا کی ایک حقیقت پوشیدہ ہے کہ گویا ہر انسان کی زندگی میں چار بیویاں ہوتی ہیں، چوتھی بیوی اُس کا جسم ہے جس کو توانا رکھنے کے لیے وہ ساری زندگی کوشش کرتا ہے مگر ایک دن اُسے یہ جسم چھوڑنا پڑتا ہے۔

    تیسری بیوی اس کا مال اور منصب ہے جو مرنے پر چھوٹ جاتا ہے اور دوسروں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ دوسری بیوی کو اگر ہم اس کے رشتہ دار، دوست احباب فرض کریں تو ان کا حال ایسا کہ یہ ہر انسان کے مرنے کے بعد قبر تک اُس کا ساتھ دیتے ہیں اور پھر واپس اپنی عارضی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔

    پہلی بیوی کی مثال انسان کی روح جیسی ہے جس کا ہم ساری زندگی خوب صورت جسم حاصل کرنے کی چاہت، دولت، منصب و جاہ، شان و شوکت حاصل کرنے کی آرزو میں اور محفل عیش و طرب سجانے کے دوران خیال نہیں رکھ پاتے اور کوئی اہمیت نہیں دیتے، جب ہمیں اس کی ضرورت پڑتی ہے تب تک یہ ضیف و لاغر ہو چکی ہوتی ہے۔ ہمیں پہلی بیوی یعنی اپنی روح اور سیرت و کردار کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے اور یہی وہ سب ہے جو ہمارے مرنے کے بعد قبر میں ہمارا مضبوط سہارا بنتا ہے۔

    (قدیم اور سبق آموز کہانیاں)

  • وہ کوئی عام چور نہیں تھا!

    چین کے ہانگی چو شہر میں ایک مشہور ڈاکو رہتا تھا۔ اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا مگر سب اسے ’لو میں آیا‘ کے نام سے جانتے تھے۔ وہ جہاں بھی ڈاکہ ڈالتا، چوری کرتا وہاں کسی دیوار پر’’لو میں آیا‘‘ ضرور لکھ دیا کرتا تھا۔

    رفتہ رفتہ اس کی سرگرمیاں اتنی بڑھی گئیں کہ عوام نے حکومت سے درخواست کی کہ انہیں اس سے چھٹکارا دلایا جائے۔ کوتوال کو حکم دیا گیا کہ کسی بھی طرح ’’لو میں آیا‘‘ کو گرفتار کر لیا جائے۔ گرفتاری کے لئے آٹھ روز کی مدت مقرر کر دی گئی۔

    کوتوال سوچ میں پڑ گیا۔ وہ کوئی عام چور نہیں تھا، وہ اتنا چالاک تھا کہ کسی کے پاس اس کی پوری معلومات نہیں تھی، کوئی اس کے رنگ روپ، قد و قامت کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ ایسے چور کو ایک مقررہ وقت کے اندر گرفتار کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔

    کوتوال اور اس کے عملے نے چور کی تلاش میں رات دن ایک کر دیے۔ آخر ایک شخص کو گرفتار کر کے منصف کے سامنے پیش کر دیا۔ کوتوال نے کہا ’’حضور! یہی ’’لو میں آیا‘‘ ڈاکو ہے۔ اسے سخت سے سخت سزا دے کر شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کیجئے۔ ‘‘

    منصف نے پوچھا ۔’’تمہار پاس کیا ثبوت ہے کہ یہی وہ ڈاکو ہے۔‘‘

    ’’حضور!‘‘ کوتوال نے عرض کیا ’’ہم نے بڑی ہوشیاری سے اس پر نگاہ رکھی اور اس کی نقل و حرکت کی خبر رکھتے رہے۔ یقین ہو جانے کے بعد ہی ہم نے اسے گرفتار کیا ہے۔‘‘ منصف نے ملزم سے پوچھا ۔’’تمہارا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟‘‘

    ’’حضور! انہیں اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کسی نہ کسی کو گرفتار کرنا ہی تھا۔ بدقسمتی سے میں ان کے ہتھے چڑھ گیا۔ یہ مجھے پکڑ لائے میں بے گناہ ہوں۔‘‘ ملزم نے کہا۔

    مصنف کو شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر کوتوال نے کہا،’’حضور! آپ اس کی باتوں کا اعتبار نہ کریں۔ یہ بہت چالاک ہے۔‘‘

    منصف نے کوتوال کی بات کا اعتبار کر لیا اور قیدی کو فی الحال قید خانے میں رکھنے کا حکم جاری کر دیا۔

    قیدی درحقیقت ’’لو میں آیا‘‘ ہی تھا۔ اس نے قید خانے پہنچتے ہی اپنی چالاکی دکھانی شروع کر دی۔ اس نے جیل کے محافظوں سے تو دوستی کی ہی جیل کے افسر سے تنہائی میں کہا: ’’خالی ہاتھ بڑوں کی خدمت میں حاضر ہونا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ میرے پاس جو کچھ تھا وہ مجھے قید کرنے والے سپاہیوں نے چھین لیا۔ پھر بھی آپ کو میں ایک چھوٹا سا نذرانہ دینا چاہتا ہوں۔ پہاڑی پر دیوتا کے مندر کے اس ایک اینٹ کے نیچے میں نے تھوڑی سی چاندی چھپا رکھی ہے۔ آپ اسے لے لیں۔‘‘

    افسر نے پہلے تو قیدی کی بات کا اعتبار نہیں کیا، مگر پھر بھی قیدی کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گیا اور نشان زدہ اینٹ ہٹا کر دیکھا تو وہاں سے ایک سیر چاندی برآمد ہوئی۔ افسر نے وہ چاندی رکھ لی۔

    اس واقعے کے بعد قید خانے کا وہ افسر ڈاکو کے ساتھ دوستانہ سلوک کرنے لگا۔ چند روز گزر گئے۔ ایک روز ڈاکو نے افسر سے موقع دیکھ کر کہا کہ صاحب، میں نے فلاں پل کے نیچے بہت سے دولت گاڑ رکھی ہے۔ آپ وہ بھی لے لیجئے۔ اب میرے تو کسی کام کی نہیں۔ افسر نے کہا ’’پل پر ہمیشہ لوگوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ میں وہاں سے گڑی ہوئی دولت کیسے نکل سکتا ہوں؟‘‘

    ’’آپ اپنے ساتھ دو چار جوڑے کپڑے لے جائیں۔ ساتھ میں ایک خالی تھیلا بھی لے جائیں۔ سب سمجھیں گے آپ ندی پر کپڑے دھونے گئے ہیں۔ آپ دولت نکال کر تھیلے میں ڈال لیں۔ کپڑے بھی پانی میں گیلے کر کے تھیلے میں ڈال لیں اور تھیلا لے آئیں۔ کوئی آپ پرشک نہیں کر سکتا۔‘‘ قیدی نے ترکیب بتائی۔ افسر نے قیدی کی ترکیب پر عمل کیا اور پل کے نیچے سے دولت نکال لایا۔ اب ان دونوں کی دوستی اور گہری ہو گئی۔

    ایک رات افسر اپنے قیدی دوست کے لئے جیل خانے میں شراب لایا۔ دونوں نے بیٹھ کر شراب پی۔ جب افسر کونشہ چڑھ گیا تو قیدی نے اس سے کہا، آج رات مجھے گھر جانے کی اجازت دیجئے، سویرے تک میں لوٹ آؤں گا۔ آپ اپنے دل میں یہ خیال بالکل نہ لائیں کہ میں فرار ہونا چاہتا ہوں، اگر میں فرار ہوتا ہوں تواس کا مطلب ہوگا کہ میں نے اپنے جرم کو قبول کر لیا۔ اور میں بھاگوں کیوں؟ آج نہیں تو کل منصف مجھے رہا کر ہی دے گا، کیوں کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔‘‘

    قیدی نے اتنے اعتماد سے یہ بات کہی کہ کوتوال پس و پیش میں پڑ گیا۔ قیدی کے فرار ہونے یا جیل خانے سے باہر جانے کی بات پھیل جاتی تو اس کی ملازمت کو خطرہ ہو سکتا ہے مگر قیدی پر اسے بھروسہ ہو چکا تھا، اس لئے اس نے اسے اجازت دے دی۔

    قیدی نے باہر جانے کے لئے دروازے کا استعمال نہیں کیا۔ وہ چھت پر سے کود کر قید خانے سے باہر چلا گیا۔ صبح ہونے سے پہلے وہ واپس بھی آ گیا۔ اس نے خراٹے لے کر سوتے افسر کو جگایا۔

    ’’لو میں آیا!‘‘افسر نے خوش ہو کر کہا۔

    ’’آتا کیسے نہیں؟ میرے نہ لوٹنے سے آپ کی عزّت خاک میں مل جاتی۔ مجھے یہ گوارا نہ تھا۔ آپ نے جو احسان مجھ پر کیا ہے اسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا۔ شکریے کے اظہار کے لئے میں آپ کے گھر میں، ایک چھوٹا سا تحفہ دے آیا ہوں۔ آپ گھر جاکر تحفہ دیکھ آئیں۔ مجھے تو اب قید خانے سے جلد ہی رہائی مل جائے گی۔‘‘ قیدی نے کہا۔

    قید خانے کا افسر فوراً گھر پہنچا۔ اس کی بیوی نے خوشی خوشی اسے خبر دی۔’’جانتے ہو آج کیا ہوا؟ سویرا ہونے میں تھوڑی دیر باقی تھی کہ روشن دان میں سے ایک گٹھری اندر آ گری۔ میں نے کھول کر دیکھا، اس میں سونے چاندی کی تھالیاں تھیں۔‘‘

    افسر سمجھ گیا کہ قیدی اسی تحفے کا ذکر کر رہا تھا۔ اس نے بیوی کو ہدایت دی ۔’’کسی سے اس بات کا ذکر نہ کرنا۔ ان تھالیوں کو چھپا کر رکھ دو۔ جب کچھ وقت گزر جائے گا تب ہم انہیں بیچ کر نقد روپے حاصل کر لیں گے۔‘‘

    دوسرے دن عدالت میں کئی فریادی حاضر ہوئے۔ سب کا کہنا یہی تھا کہ رات ان کے گھر سے سونے چاندی کا قیمتی سامان چوری ہو گیا۔ سب کے گھر کی دیواروں پر’’لو میں آیا‘‘ لکھا ہوا تھا۔

    منصف نے کوتوال سے کہا ۔’’وہ قیدی صحیح کہتا تھا، وہ ’’لو میں آیا‘‘ نہیں ہے۔ وہ تو قید خانے میں ہے اور’’لو میں آیا‘‘ اب بھی دھڑلے سے چوریاں کر رہا ہے۔ اصلی چور کی تلاش کی جائے اور اس بے گناہ کو آزاد کر دیا جائے۔

    قید خانے کا افسر اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ یہی اصلی چور ہے مگر وہ کسی سے اس حقیقت کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ اس نے چور سے نہ صرف پہلے بلکہ حالیہ چوری میں سے بھی حصہ حاصل کیا تھا۔ قیدی کو آزاد کر دیا گیا۔

    (بھارتی ادیب بانو سرتاج کی بچّوں کے لیے لکھی گئی کہانی)

  • قسمت کی ماری (لوک داستان)

    ایک بادشاہ تھا۔ تھا تو منصف اور عادل پر اس میں ایک عادت بد تھی۔ اسے بیٹی سے بہت نفرت تھی۔

    اللہ کی قدرت کہ اس کے ہاں پہلے بیٹا پیدا ہوا۔ اسے اپنا بیٹا بہت عزیز تھا۔ بہت ناز و نعم اور لاڈ پیار سے اس کی پرورش ہو رہی تھی۔ چند سال بعد ملکہ پھر امید سے ہوئی۔ ولادت کے دن قریب تھے۔ لیکن بادشاہ سلامت کو کسی دوسرے بادشاہ کی دعوت پر ملک سے باہر جانا پڑا۔ جانے سے پہلے بادشاہ نے ملکہ کو حکم دیا کہ میں کہیں باہر جا رہا ہوں، اگر میرے آنے سے پہلے ولادت ہوئی، لڑکا ہوا تو ٹھیک لیکن اگر لڑکی ہوئی تو اسے ہلاک کر دینا۔

    بادشاہ چلا گیا۔ چند ہفتے بعد اس کے ہاں لڑکی کی ولادت ہوئی۔ اولاد ماں کو بہت پیاری ہوتی ہے۔ ملکہ رونے لگی کہ اے اللہ! اب میں کیا کروں؟ ولادت کے وقت ایک دائی موجود تھی جو ملکہ کی حالت زار دیکھ رہی تھی۔ اللہ نے اس کے دل میں رحم پیدا کیا۔ اس نے ملکہ سے کہا۔ "اے ملکہ! آپ دل چھوٹا مت کیجیے۔ میں یہاں سے سب کے سامنے بچّی کو ہلاک کرنے کے بہانے لے جاؤں گی۔ پر میں یہاں سے اسے اپنے گھر میں لے جا کر پالوں گی۔ اگر آپ کسی طرح سے بچّی کے لیے خرچ وغیرہ بھیجتی رہیں گی تو آپ کی بچّی خوش حال اور آسودہ ہو گی، وگرنہ مجھ غریب کو جو نصیب ہوگی، اس سے اسے بھی پالنے کی کوشش کروں گی۔” ملکہ نے کچھ سونا چاندی، زیور وغیرہ بچّی کے واسطے تھما دیے۔ بچّی کو اس کے حوالے کیا۔ محل میں یہ بات پھیلائی گئی کہ دائی نے بچّی کو لے جا کر ہلاک کر دیا ہے۔ جب کہ دائی نے شہزادی کو اپنے گھر لا کر پورے ناز و نعم سے اس کی پرورش شروع کر دی۔

    جب بادشاہ سفر سے واپس آیا تو اسے یہی احوال سنایا گیا۔ بادشاہ اپنی بد عادتی کے باعث خوش ہوا۔ ادھر دائی نے لوگوں کے سامنے شہزادی کو اپنی نواسی ظاہر کیا۔ کبھی کبھار بادشاہ سے چھپ چھپا کے شہزادی کو لاتی اور اپنی بیٹی کو دیکھ کر ملکہ کی مامتا کو کچھ قرار ملتا اور وہ دائی کو سونا چاندی اپنے بیٹی کی نگہداشت کے واسطے دے دیا کرتی۔ چوں کہ شہزادی کی پرورش اچھے طریقے سے ہو رہی تھی۔ اس لیے خوب قد کاٹھ نکالا۔ خوب صورت تھی ہی اس لیے جوان ہوتے ہی دنیا کے سامنے شہزادی نہ ہوتے ہوئے بھی شہزادیوں کی طرح نظر آنے لگی۔

    ایک دن بادشاہ کی سواری شہر سے گزر رہی تھی۔ اسی وقت شہزادی اور دائی بھی اسی راستے سے گزر رہی تھی۔ بادشاہ کی نظر شہزادی پر پڑی۔ پوچھا "یہ کون ہے؟” وزیر نے کہا "یہ اس بیچاری عورت کی نواسی ہے۔” بادشاہ نے حکم دیا "مجھے یہ بہت پسند آئی ہے۔ کل اس کے گھر میرے لیے رشتہ لے کر جانا۔” دوسرے دن وزیر، وکیل وغیرہ دائی کے گھر بادشاہ کے لیے اس کی نواسی کا ہاتھ مانگنے گئے۔ اب دائی کے اوسان خطا ہو گئے کہ کیا کروں؟ اس نے کہا "میں ایک غریب ہوں۔ میری نواسی بادشاہ کے لائق نہیں اور نہ ہی بادشاہ کا کسی غریب سے رشتہ جوڑنا صحیح ہے۔ اس لیے دوبارہ اس سلسلے میں میرے گھر مت آئیے گا۔” سب نے دائی کو بہت منت سماجت کی، لالچ، دھونس دھمکی دی، لیکن دائی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ تب بادشاہ نے حکم دیا کہ دائی کو پکڑ کے خوب سزا دو تاکہ وہ رشتے کے لیے مان جائے۔

    سپاہی دائی کو پکڑ کر بادشاہ کے سامنے لائے اور انہوں نے اسے خوب پیٹنا شروع کیا۔ سپاہیوں نے دائی کو کپڑے کی طرح نچوڑ کے رکھ دیا۔ بیچاری پہلے سے ہی دو ہڈیوں پر تھی، اتنی مار برداشت نہ کرسکی اور بادشاہ کے سامنے چیخ پڑی۔” بادشاہ سلامت! یہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی بیٹی ہے۔ میں نے اسے ہلاک کرنے کے بجائے لے جا کر اپنے گھر میں اس کی پرورش کی ہے۔”

    اب بادشاہ کو احساس ہوا کہ وہ کیا غلطی کرنے جا رہا تھا۔ خدا نے اسے گناہِ عظیم سے بچایا۔ وہ اور زیادہ غصّے میں آگیا۔ اپنے بیٹے یعنی شہزادے کو بلا کر حکم دیا کہ اپنی بہن کو جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور اس کی آنکھیں نکال کر اور گردن کا خون لا کر مجھے دکھا دے تاکہ مجھے یقین ہو جائے۔”

    شہزادہ کو کسی صورت یہ گوارہ نہ ہوا اگرچہ اسے اپنی بہن کے متعلق اب معلوم ہوا تھا۔ لیکن اسے پتا تھا کہ اس نے اسے قتل نہیں کیا تو بادشاہ دونوں کو ہلاک کر دے گا۔ مجبور ہو کر اپنی بہن کو ساتھ لے کر جنگل کی طرف چل پڑا۔ جب دونوں جنگل پہنچ گئے تو بھائی کی محبت بہن کے لیے جوش میں آ گئی۔ بہن سے کہا کہ "میں تمہیں یہیں چھوڑے دیتا ہوں آگے تمہاری قسمت کہ تمہیں درندے کھا جائیں یا تم بچ کر کہیں اور نکل جاؤ۔” دونوں بھائی بہن ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو پڑے۔ شہزادی آنسو بہاتے ہوئے گھنے جنگل کی طرف جانے لگی۔ آخری بار پلٹ کر بھائی کو دیکھا اور جنگل میں گھس گئی۔

    اس کے بعد شہزادے نے ادھر ادھر سے ڈھونڈ کر ایک ہرن کا شکار کیا۔ اس کی گردن کا خون نکالا اور آنکھیں نکال کر لے جا کر بادشاہ کو دکھا دیں۔ بادشاہ نے آئینہ منگوایا۔ اس میں ان آنکھوں کو اور اپنی آنکھوں کو غور سے دیکھا۔ جب اس کو یقین ہو گیا کہ آنکھوں کا رنگ ایک ہی ہے تب اسے تسلی ہوئی۔

    ملکہ نے کسی طور شہزادے کو بلا کر اس سے بیٹی کے متعلق پوچھا۔ شہزادے نے ماں کے سامنے سارا احوال گوش گزار کر دیا۔ ملکہ نے منہ آسمان کی طرف کر کے ہاتھ اوپر اٹھائے اور بیٹی کے لیے دعا مانگی کہ اے اللہ! تو میری بیٹی کی حفاظت کر۔ اسے اپنے امان میں رکھ اور اسے کسی اچھی جگہ پار لگا۔”

    اب آگے شہزادی کا قصہ سنیے۔ شہزادی جنگل میں رہنے لگی اور بھوک مٹانے کے لیے جنگلی پھل، پھول، بوٹے کھا کر اپنا وقت گزارنے لگی۔ اس دوران بہت سا وقت گزر گیا۔ ایک دن کسی اور ملک کا بادشاہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسی جنگل سے گزر رہا تھا۔ شہزادی کے کانوں میں کسی گھوڑے کے قدموں کی آہٹ پڑی تو جلدی جلدی کسی گھنے درخت پہ چڑھ گئی، اتفاقاً بادشاہ بھی آ کے اسی درخت کے نیچے ٹھہر گیا۔ درخت گھنا اور سایہ دار تھا۔ ایک طرف اپنے گھوڑے کو باندھا، اور درخت کے سائے میں کپڑا بچھا کر تھوڑی دیر سستانے کی خاطر لیٹ گیا۔ چونکہ اس کا منہ آسمان کی طرف تھا اور وہ اپنے خیالوں میں گم تھا، اس کی نظر درخت کے گھنے پتّوں میں پوشیدہ کسی ہیئت پر پڑی۔ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور بلند آواز سے کہنے لگا، تم جو بھی ہو، اپنے آپ کو ظاہر کرو۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔”

    اس پر شہزادی نے کہا۔” اے مسافر ! میں ایک لاچار لڑکی ہوں۔ اور کسی نہ کسی طریقے سے درخت سے اتر گئی۔ جب بادشاہ نے شہزادی کو دیکھا تو پورے دل و جان سے فریفتہ ہو گیا۔ جھٹ شہزادی سے کہا۔” میں ایک بادشاہ ہوں۔ اگر تم برا نہ مانو تو میں تم سے شادی کر کے تمہیں اپنی ملکہ بنانا چاہتا ہوں۔” اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ شہزادی نے ہامی بھری۔ وہ بھی ایک ایسا بندہ چاہتی تھی جو اسے عزّت دے۔ بادشاہ خوشی خوشی شہزادی کو لے کر اپنے ملک روانہ ہو گیا۔ اپنے ملک پہنچتے ہی بادشاہ پہلے وزیر کے گھر جا پہنچا اور اس سے کہا۔ "ایسا سمجھو کہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ میں کل رشتہ مانگنے آؤں گا۔ اور شادی بیاہ رچا کر اپنی امانت یہاں سے اپنے محل لے جاؤں گا۔” وزیر نے آداب بجا کر کہا۔” بادشاہ سلامت، آپ پوری طرح سے تسلی رکھیے۔ یہ آپ کی امانت ہے اور میری بیٹی۔ جب آپ کا دل چاہے، اسے بیاہ کر لے جائیے۔” بادشاہ شہزادی کو وزیر کے گھر چھوڑ آیا۔

    اگلے دن وکیل، قاضی بادشاہ کا رشتہ لے کر وزیر کے گھر آ پہنچے۔ وزیر نے رشتہ کے لیے ہاں کر دی۔ جلد ہی شہزادی کو بیاہ کر اپنے محل لایا۔ بادشاہ اور شہزادی شادی سے بہت خوش تھے۔

    اس دوران بادشاہ نے شہزادی سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا تھا۔ چند سال بعد اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بادشاہ بہت خوش تھا۔ اس نے شہزادی سے جو اب ملکہ بن گئی تھی، پوچھا۔” اب جب کہ اللہ نے ہم دونوں کو اولادِ نرینہ سے نوازا ہے، تم اب ایک بیٹے کی ماں بن گئی ہو، مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو؟ کسی کی بیٹی ہو؟ اور کس جگہ سے تمہارا تعلق ہے؟”
    شہزادی نے کسی طریقے سے بادشاہ کو ٹال دیا۔ ماہ و سال گزرتے چلے گئے۔ بادشاہ کے ہاں دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بادشاہ نے وہی سوال دہرایا۔ شہزادی نے پھر بادشاہ کو ٹال دیا۔ آخرکار ان کے ہاں جب تیسرے بیٹے کی ولادت ہوئی تو اس موقع پر بادشاہ نے شہزادی کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا۔ آخر کار شہزادی مان گئی اور بادشاہ کو حقیقت بتائی۔

    بادشاہ نے جب شہزادی کی دکھ بھری کہانی سنی تو اس سے کہا۔” اپنے آپ کو تیار کرو۔ میں تمہیں تمہارے ماں باپ کے گھر لے جاؤں گا۔” شہزادی نے بہت منت سماجت کی کہ مجھے میرے ظالم باپ کے سامنے مت لے جاؤ۔ وہ مجھے قتل کر دے گا۔ لیکن بادشاہ نہیں مانا۔ آخر کار وہ مجبور ہو کر اپنے ماں باپ کے گھر جانے کے لیے تیار ہو گئی۔

    بادشاہ نے پورے جاہ و جلال اور طمطراق سے ایک بڑے لشکر کے ساتھ شہزادی اور تینوں بیٹوں کو بھیجا لیکن خود سلطنت کے ضروری کاموں کی وجہ سے رک گیا۔ اپنے وزیر، وکیل اور قاضی کو شہزادی کے ساتھ کر دیا اور کہا کہ میں پہلی، دوسری یا تیسری منزل پر تم لوگوں سے آ کر ملوں گا۔ سب روانہ ہو گئے۔ شام ہوتے ہوتے انہوں نے پہلے منزل پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔

    خادموں نے شہزادی کا خیمہ ایستادہ کیا۔ تب شہزادی نے دیکھا کہ وزیر کا خیمہ بھی اس کے خیمے کے بالکل قریب کھڑا کیا گیا۔ شہزادی نے وزیر کو بلا کر اس سے پوچھا۔” اے وزیر! تم جانتے ہو کہ میں ایک بادشاہ کی بیٹی اور ایک بادشاہ کی بیوی ہوں۔ تم اپنا خیمہ یہاں سے دور لگوا دو۔” وزیر نے کہا۔” ملکہ صاحبہ! بادشاہ نے ہمیں آپ کی حفاظت کی خاطر آپ کے ساتھ روانہ کیا ہے۔ اگر آپ یا آپ کے بچّوں کو کچھ ہو گیا تو میں بادشاہ کو کیا جواب دوں گا۔” وزیر نہیں مانا۔ خیمے لگ گئے۔ رات ہو گئی تھی۔ تھکے ہارے لوگ سو گئے۔ وزیر کے دل میں کھوٹ تھا۔ آدھی رات کو شہزادی کے خیمے میں داخل ہو گیا۔ شہزادی آہٹ پا کر جاگ گئی۔ دیکھا کہ وزیر ہے تو اسے للکار کر باہر نکلنے کو کہا۔ لیکن وزیر آگے بڑھنے لگا۔ جب شہزادی نے دیکھا کہ وزیر کسی صورت نہیں مان رہا تو اس نے اپنے بڑے بیٹے کو وزیر کے سامنے کیا کہ تمہیں اس بچّے کے سر کی قسم اس طرح مت کرو۔ لیکن بد کردار وزیر آگے بڑھا اور تلوار نکال کر ایک ہی وار سے بچّے کا سر دھڑ سے الگ کردیا۔ شہزادی نے وزیر سے کہا۔”میں ایک پاک عورت ہوں۔ اس وقت بھی وضو میں ہوں۔ مجھے اتنا موقع دو کہ میں اپنے وضو کو توڑ کر آ جاتی ہوں تب تمہارا جو دل چاہے، وہ کرو۔”

    وزیر نے کہا۔” جاؤ اور جلدی آ جانا۔” شہزادی بھاگتی ہوئی وہاں سے دور ایک بڑے جھاڑی کے پیچھے چھپ گئی۔ وزیر کچھ دیر بعد اسے ڈھونڈنے نکل گیا۔ لیکن ناکام رہا۔ صبح ہونے والی تھی، تب وہ دوبارہ شہزادی کے خیمے میں داخل ہوا۔ بچّے کی لاش کہیں دور لے جاکر دفن کی اور اپنے خیمے میں گھس گیا۔

    صبح بہت دیر کے بعد شہزادی اپنے خیمے میں داخل ہو گئی۔ اپنے مقتول بیٹے کو نہ پا کر رونے لگی۔ لشکر دوبارہ روانہ ہو گیا۔ چلتے چلتے شام تک دوسری منزل پر جا پہنچے۔

    خادموں نے شہزادی کا خیمہ ایستادہ کرنا شروع کیا۔ شہزادی نے دیکھا کہ وزیر نے آج اپنا خیمہ بہت دور کھڑا کروایا ہے۔ لیکن خدام وکیل کا خیمہ قریب کھڑا کررہے ہیں۔ شہزادی نے وکیل کو بلوایا اور کہا تم اپنا خیمہ ہٹوا دو۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔” وکیل نے کہا۔” اے ملکہ! بادشاہ سلامت نے مجھے آپ کے ساز و سامان کی حفاظت کے لیے آپ کے ہمراہ کیا ہے اور تاکید کی ہے۔ اگر آپ کو یا آپ کے سامان کو کچھ ہو گیا تو میں بادشاہ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔” شہزادی چپ ہوگئی۔ مگر وزیر کے ہاتھوں مار کھا چکی تھی۔ اس لیے رات کو پورے ہوش و حواس میں تھی۔ آدھی رات کو اس نے قدموں کی آہٹ سنی۔ جب دیکھا کہ آنے والا وکیل ہے تو اسے للکارا۔ لیکن بدکردار وکیل کہاں ٹلنے والا تھا۔ شہزادی نے اپنے دوسرے بیٹے کو اس کے سامنے کیا اور اسے دہائی دی۔ لیکن وکیل نے بھی تلوار سے وار کر کے اس کے دوسرے بیٹے کا سر تن سے جدا کر دیا۔ شہزادی نے بیچارگی سے کہا۔” میں پاک و صاف اور وضو سے ہوں۔ مجھے کچھ وقت دے تاکہ میں خود کو ناپاک کر دوں۔ اس کے بعد جو تمہارا دل چاہے، کرو۔” وکیل نے اسے جانے دیا ۔ شہزادی خیمے سے نکل گئی۔

    آج بھی شہزادی میں جتنی ہمّت تھی، نکل بھاگی۔ اور آخر کار تھک ہار کر ایک بڑے جھاڑی کے پیچھے چھپ گئی۔ وکیل نے اسے بہت ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ وکیل جلدی جلدی واپس آیا۔ مرے ہوئے بچّے کو اٹھا کر کہیں دور دفن کیا اور اپنے خیمے میں جا کر سوتا بن گیا۔

    جب صبح پو پھٹی تو شہزادی اپنے خیمے میں داخل ہو گئی۔ دیکھا کہ دوسرے بیٹے کی لاش بھی نہیں ہے۔ سمجھ گئی کہ بدکردار وکیل نے اسے ٹھکانے لگا دیا ہے۔ بیچاری کس پر اعتبار کرتی، اس لیے چپ رہی۔ لشکر پھر شہزادی کے باپ بادشاہ کے ملک کی طرف روانہ ہو گیا۔ آج شہزادی اکیلی ایک بیٹے کے ساتھ غموں کا انبار لیے اونٹ پر سوار تھی۔ جب تیسرے منزل پر پڑاؤ ڈالا گیا تو آج وزیر اور وکیل نے اپنے خیمے شہزادی کے خیمہ سے بہت دور کھڑا کروا دیے تھے۔ وہ شرمندہ شرمندہ شہزادی کے سامنے آ ہی نہیں رہے تھے۔ حیران و پریشان تھے کہ جب بادشاہ کو پتا چلے گا تو اسے کیا جواب دیں گے؟

    آج جیسے ہی شہزادی کا خیمہ کھڑا کر دیا گیا تو دیکھا کہ قاضی اپنا خیمہ اس کے خیمے کے سامنے ایستادہ کر وا رہا ہے۔ شہزادی نے اسے بھی بہتیرا سمجھایا لیکن قاضی بد ذات بھی ٹلنے والوں میں سے نہیں تھا۔ جب رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تو دیکھا کہ قاضی بھی خراماں خراماں خیمے میں داخل ہو رہا ہے۔ شہزادی نے دیکھا کہ یہ بھی نہیں ٹلنے والا تو اس خیال سے کہ شاید اس کے دل میں رحم پیدا ہو جائے، اپنے تیسرے سب سے چھوٹے بیٹے کو اس کے سامنے کر دیا۔ اس کی دہائی دی۔ قاضی بدبخت کو بھی رحم نہ آیا اور معصوم بچّے کا سر قلم کر دیا۔ شہزادی نے اسے بھی یہی کہا کہ میں وضو سے ہوں۔ مجھے موقع دو تاکہ اپنا وضو توڑ دوں۔ قاضی نے بھی اسے جانے دیا۔

    جیسے ہی شہزادی باہر نکلی، جدھر منہ اٹھا، بھاگ نکلی۔ بھاگتے بھاگتے اچانک اس نے دیکھا کہ آگے ایک بہت بڑا دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے دل میں دھواں بھر گیا، اپنے معصوم بچّے یاد آئے۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کہ اگر بادشاہ نے پوچھا کہ بچے کدھر ہیں تو میں اسے کیا جواب دوں گی؟ اس سے بہتر ہے کہ خود کو اس دریا کے حوالے کر دوں۔ یہ فیصلہ کر کے اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ پُر شور دریا اسے چکر دے کر کہیں کا کہیں پہنچا کے دوسری طرف نکال لے گیا۔ دوسری طرف چھ فقیر جو کہ بھائی تھے، اپنے کپڑے دریا پر دھونے کے لائے تھے۔ جب دیکھا کہ دریا میں کوئی عورت بہتی ہوئی آ رہی ہے تو پکڑ کر باہر نکال لائے۔

    اب شہزادی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ فقیروں میں سے ہر ایک یہی کہہ رہا تھا کہ یہ میری ہے۔ آخر صلاح یہی ٹھہری کہ اسے باپ کے پاس لے جائیں گے۔ وہ جس کا کہے، یہ عورت اسی کی ہے۔ وہ شہزادی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ ان کا باپ ایک زیرک اور عقل مند انسان تھا۔ دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ کسی شہنشاہ گھرانے کی عورت ہے۔ میرا کوئی بھی بیٹا اس کے لائق نہیں۔ اسی وجہ سے اس نے اپنے بیٹوں کو سمجھایا۔” اے میرے بیٹے! تم چھ بھائی ہو۔ تمہاری کوئی بہن نہیں ہے۔ اسے اپنی بہن بنا لو۔ تم چھ بھائی اور ساتویں تمہاری یہ بہن۔ اس کی خوب نگہداشت کرو۔ اس کی برکت سے تم سب سرخرو رہو گے۔” باپ کے فیصلے سے فقیر بہت خوش ہو گئے اور اپنے سے بڑھ کر شہزادی کا خیال رکھنے لگے۔

    جب بادشاہ چوتھے دن آ کر لشکر سے ملا تو دیکھا وزیر، وکیل اور قاضی اس سے کترا رہے تھے۔ اس کے سامنے شرمسار سے تھے۔ پوچھا میرے بیوی بچے کہاں ہیں؟ تینوں نے یک زبان ہو کر کہا۔” ملکہ تو ایک ڈائن تھی۔ تینوں بچّوں کو کھا کر خود بھاگ نکلی۔”

    بادشاہ حیران و پریشان ہو گیا کہ یہ کیا بات ہو گئی۔ وہ ان تینوں پر شک میں پڑ گیا۔ لیکن کہا کہ بعد میں دیکھتے ہیں۔ ابھی جس طرف جا رہے ہیں، وہاں جا کے فیصلہ کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔ بادشاہ اپنے دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ جا کر اپنے ظالم سسر بادشاہ کو دیکھوں اور اس سے پوچھوں کہ اسے کیوں بیٹیوں سے اتنی نفرت ہے؟ اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے اس کی بیٹی ڈائن بن گئی اور اپنے بچّوں تک کو کھا گئی۔ چلتے چلتے انہوں نے ایک بڑے دریا کو پل کے ذریعے پار کیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

    ادھر شہزادی فقیروں کی بہن بن کر رہنے لگی۔ اسے ادھر ادھر سے سن گن مل گئی اور سمجھ گئی کہ اپنے باپ بادشاہ کے ملک میں پہنچ گئی ہے۔ اسے پتا تھا کہ اس کے باپ کو قصہ سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے فقیر بھائیوں سے کہا کہ جا کر بادشاہ کو بتا دو کہ ہماری بہن ایک قصہ گو ہے۔ کیا وہ اسے شاہی قصہ گو کے طور پر ملازمت دے گا یا نہیں۔ فقیروں نے بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کر کے اس کو یہ گوش گزار دیا کہ ہماری ایک بہن ہے جو بہت اچھی قصہ گو ہے۔ اگر اسے پسند ہو تو اسے قصہ سنوانے کے لیے لے کر دربار میں‌ آئیں۔ بادشاہ نے انہیں اجازت دے دی اور کہا کہ اگر اس کے قصے پسند آئے تو وہ اسے شاہی قصہ گو رکھ دیں گے۔

    شام کو فقیر شہزادی کو لے کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ شہزادی نقاب میں تھی اور درمیان میں بھی پردہ حائل تھا۔ اس نے بادشاہ کے لیے ایک قصہ سنایا جو بادشاہ کو بہت پسند آیا۔ اس نے خوش ہو کر فقیروں کو بہت سا انعام و اکرام دیا۔ فقیر انعام و اکرام لے کر بہن کے ہمراہ واپس گھر آئے۔ وہ پہلے ہی بھیک مانگنے سے بیزار تھے اس لیے بہت خوش تھے۔

    شہزادی ہر رات آ کر بادشاہ کو ایک نیا قصہ سناتی۔ بادشاہ سے داد اور انعام و اکرام پا کر واپس اپنے فقیر بھائیوں کے ساتھ گھر لوٹ آتی۔ فقیروں کی جان بھی بھیک مانگنے سے چھوٹ گئی۔ایک رات جب وہ آئی تو دیکھا کہ آج تو اس کا شوہر بادشاہ، وزیر، وکیل، قاضی وغیرہ بھی اس کے باپ بادشاہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ شہزادی نے سوچا آج تو قصہ مزہ کرے گا۔

    شہزادی آج بھی ہر روز کی طرح نقاب میں تھی۔ پردے کے دوسری طرف آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ بادشاہ سے کہا۔ "بادشاہ سلامت! آج میں ایک بہت خاص داستان سنانے والی ہوں۔ اگر کسی کو کوئی حاجت درپیش ہے تو ابھی سے اٹھ کر رفع حاجت پوری کرے۔ داستان کے درمیان کسی کو اٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی اٹھ گیا تو میں داستان سنانا بند کروں گی اور آئندہ کے لیے بھی کوئی قصہ سنانے نہیں آؤں گی۔” بادشاہ نے سب کو حکم دیا۔ سب نے اقرار کیا کہ وہ داستان کے درمیان نہیں اٹھیں گے۔

    شہزادی نے داستان سنانا شروع کی۔” ایک ظالم بادشاہ تھا۔ اسے اپنے گھر میں بیٹی کی پیدائش پسند نہیں تھی۔ جب اس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی تو اپنے بیوی کو اسے مارنے کا حکم دیا۔ اس کے بیوی نے دائی کے ذریعے اپنی بیٹی کو بچا کر اس کی پرورش کی۔ ایک دن اس لڑکی پر بادشاہ کی نظر پڑی جو اب جوان ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے اس بوڑھی دائی کے گھر اپنے لیے رشتہ بھیجا لیکن دائی نے تسلیم نہیں کیا۔ بادشاہ نے اس پر ظلم و ستم ڈھائے تب دائی نے بتایا کہ وہ لڑکی اسی بادشاہ کی بیٹی ہے۔”

    بادشاہ حیران ہوا کہ یہ تو میرا قصہ ہے جو یہ خاتون سنا رہی ہے۔ بادشاہ نے بہت سے ہیرے جواہرات شہزادی کی طرف پھینک کر کہا کہ دیکھنا داستان کو بند مت کرنا۔ شہزادی نے ہیرے جواہرات فقیروں کی طرف پھینک دیے جو اسے پا کر بہت خوش ہوئے۔

    شہزادی نے داستان جاری رکھی کہ کس طرح‌ بادشاہ نے بیٹی کو اپنے بیٹے کے حوالے کر کے کہا کہ اسے جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور آگے کیا کچھ ہوا۔

    بادشاہ عمرِ رفتہ کے باعث اب بوڑھا ہو گیا تھا۔ اسے پہلے ہی سے اپنے بیٹی کے ساتھ کیے گئے ظلم و ستم سے بہت پشیمانی اور پچھتاوا تھا۔ جب اسے داستان کے ذریعے اپنی بیٹی کے متعلق پتا چلا اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ شہزادے کو بھی احساس ہوا کہ یہ تو میری بہن کا قصہ ہے۔ اس نے بے چین ہو کر کچھ اور ہیرے جواہرات شہزادی کے طرف پھینک دیے اور کہا کہ داستان جاری رکھنا، روکنا مت۔ فقیر بھائیوں کے تو اتنے انعامات دیکھ کر باچھیں کِھل اٹھیں۔ شہزادی نے داستان جاری رکھی اور بتایا کہ "ایک دن ایک بادشاہ کا گزر اسی جنگل سے ہوا۔ لڑکی کو دیکھا اور اسے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جا کر اس سے بیاہ رچایا۔”
    شہزادی کا شوہر بادشاہ جو پہلے بڑی دل چسپی اور انہماک سے داستان سن رہا تھا، چونک پڑا کہ یہ تو میرا اور میری بیوی کا قصہ لگ رہا ہے۔ اس نے بھی بہت سے ہیرے جواہرات نکال کر شہزادی کی طرف پھینک دیے اور کہا کہ دیکھنا داستان آخر تک سنانا۔ مجھے اس داستان کو پورا سننا ہے۔ فقیر بھائیوں کے تو پیر خوشی سے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔

    شہزادی نے داستان جاری رکھی۔ "بادشاہ نے اس لڑکی سے شادی کی۔ اس سے اسے تین بیٹے ہوئے۔ ایک دن بادشاہ نے اسے ان کے بیٹوں کے ساتھ اپنے وزیر، وکیل اور قاضی کے ہمراہ اس کے سسرال روانہ کیا۔” اب وزیر، وکیل اور قاضی کے اوسان خطا ہو گئے اور ایک دوسرے کی طرف سراسیمگی سے دیکھنے لگے کہ یہ تو ہمارا قصہ ہے۔ بادشاہ نے کچھ اور ہیرے جواہرات شہزادی کی طرف پھینک دیے۔ فقیر بھائیوں کی خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہ رہا تھا۔

    "پہلی منزل پر بادشاہ کا وزیر ناپاک ارادے سے اس کی طرف بڑھا اور اسے بدی کے لیے تنگ کیا۔ اس کے بڑے بیٹے کا سر تن سے جدا کیا۔ لیکن لڑکی کسی طرح اپنی عزّت بچا کے بھاگ نکلی۔” وزیر منمنایا۔” مجھے بہت زور کا پیشاب لگا ہے۔ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔” بادشاہ نے اسے ڈانٹ دیا۔” خاموشی سے بیٹھ بد ذات کہیں کے۔ اسی وقت تمہیں کیوں پیشاب آ رہا ہے؟” وزیر چپ کر کے بیٹھ گیا۔

    "دوسری منزل پر اسی طرح وکیل نے بھی اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ لڑکی کو بدی کے لیے تنگ کیا اور اپنے ناپاک عزائم پورا کرنے کے لیے اس کے دوسرے بیٹے کا سر تن سے جدا کرنے سے بھی باز نہ آیا۔ پاک دامن لڑکی نے یہاں بھی اپنی عزّت بچائی اور بھاگ کر کہیں چھپ گئی۔” اب وکیل ہکلایا۔” بادشاہ سلامت! مجھے زور کی حاجت پیش آئی ہے۔ بس میں یوں گیا اور یوں آیا۔” بادشاہ نے وکیل پر آنکھیں نکالیں۔” بس کر بد ذات، اور خاموشی سے بیٹھ۔ جب حقیقت ظاہر ہو رہی ہے تو تم لوگوں کو حاجت پیش آ رہی ہے۔” وکیل بھی خاموشی سے بیٹھ گیا۔

    "تیسری منزل پر قاضی بھی اللہ رسول کو بھول کر بدی کے لیے لڑکی کو تنگ کرنے لگا اور اس ظالم نے اس کے تیسرے بیٹے کا سر قلم کردیا۔ لڑکی بھاگ کر ایک بڑے دریا میں کود گئی۔” یہ سن کر قاضی نے بھی کوئی بہانہ بنانے کی کوشش کی لیکن بادشاہ نے اسے بھی ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔

    "دریا نے لڑکی کو کہیں دور لے جا کر دوسری طرف پھینک دیا جہاں اسے چھ فقیروں نے دیکھا اور اسے دریا سے نکالا۔” اب فقیر بھائیوں کی گھگھی بندھ گئی کہ ہو نہ ہو یہ ہماری بہن کا قصہ ہے۔ وہ بھی چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔ "فقیر اس لڑکی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ اس کے عقل مند باپ نے اس لڑکی کو ان چھ بھائیوں کی بہن بنا دیا۔”

    اس کے باپ بادشاہ کے آنکھوں سے جھل جھل آنسو بہہ رہے تھے۔ دونوں بادشاہوں نے ہیرے جواہرات کے ڈھیر ان کے سامنے لگا دیے کہ خدارا داستان کو جاری رکھو۔

    "لڑکی کو کسی طرح پتا چلا کہ یہ اس کے باپ بادشاہ کا ملک ہے۔ اسے پتا تھا کہ اس کے باپ کو داستان سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے بھائیوں کے ذریعے بادشاہ کو کہلوا بھیجا کہ اگر اسے منظور ہو تو آ کے اسے داستان سنائے۔” یہاں پہنچ کر اس کے باپ بادشاہ کا دل چُور چُور ہو گیا۔ وہ ایک فریاد مار کر اٹھ کھڑا ہو گیا۔ شہزادی نے بھی اپنے چہرے سے نقاب اٹھا دی تو اس کے شوہر بادشاہ نے بھی شہزادی کو پہچان لیا۔ باپ، بیٹی کو اور شوہر بیوی کو پا کر بے طرح خوش ہو گئے۔

    دونوں نے وزیر، وکیل اور قاضی کو پکڑا۔ ان سے کہا کہ بول کیسی سزا چاہیے۔ چار چڑی چابک یا چار بٹور (یہ براہوی زبان میں دو سخت سزاؤں کے نام ہیں) انہوں نے کہا کہ چار بٹور۔ بادشاہ نے بارہ گھوڑے منگوائے۔ ہر ایک کے ہاتھ پیر چار گھوڑوں سے چار اطراف میں باندھ کر انہیں چار مخالف سمت میں دوڑا دیا۔ جن سے ان کے جسم ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ اس طرح ان بد ذاتوں کو ان کے کیے کی سزا ملی اور شہزادی کا باپ اپنی بیٹی اور اس کا شوہر اپنی بیوی کو پا کر بہت خوش ہوئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (براہوی لوک داستان، محقق: سوسن براہوی)

  • مالی کا ارادہ

    ایک بہت ہی خوب صورت باغ تھا۔ اس میں طرح طرح کے خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے۔ گلاب چمپا، چمبیلی، گیندا، سورج مکھی، جوہی، موگرا موتیا وغیرہ۔ سبھی اپنی اپنی خوب صورتی اور خوش بُو سے باغ کو دلربا بنائے ہوئے تھے۔

    شام کے وقت ٹھنڈی ہوا کے بہاؤ میں اس باغ کی رونق کا کچھ کہنا ہی نہ تھا۔ شام کے وقت وہاں لوگوں کی خوب بھیڑ رہتی تھی۔ بچّے اچھل کود مچاتے تھے۔

    پھلوں کی کیاریوں کے بیچ میں کہیں کہیں پر آم، لیچی، پپیتا، اور جامن کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ان درختوں کے چاروں طرف مالی نے بہت سے کانٹے بچھا رکھے تھے اور کانٹوں کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بہت سے رنگ برنگے پھول لگا رکھے تھے تاکہ کوئی بھی انسان پھل توڑ نہ سکے۔

    مالی دن بھر اپنا وقت پھلوں اور پھولوں کی دیکھ بھال میں گزارا کرتا اور باغ کی رونق کو دیکھ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا تھا۔ جب کبھی کوئی شخص کسی پھول یا پھل کی تعریف کر دیتا تو اس کا دل بلیوں اچھلنے لگتا۔ وہ ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہتا کہ کون سا ایسا نیا پھول لگائے جس سے لوگ اس کی تعریف کریں۔

    باغ کے ایک چھوٹے سے حصے میں ترکاری لگا رکھی تھی۔ لوگ ان ترکاریوں پر کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ نہ ہی للچائی ہوئی نظروں سے ان کو دیکھا کرتے تھے۔

    اسی طرح دن گزر رہے تھے کہ ایک دن جناب کٹہل کو بہت غصہ آیا اور وہ درخت سے کود کر ترکاریوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے اور بولے۔ "میرے پیارے بھائیو اور بہنو! ہم لوگوں میں آخر ایسی کون سی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ ہمیں پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں کسی قابل سمجھتے ہیں۔

    حالانکہ ہم سے طرح طرح کی چیزیں بنتی ہوں، یہاں تک کہ ہمارے بغیر انسان پیٹ بھر کے روٹی بھی نہیں کھا سکتا ہے، پھلوں کا کیا جھٹ چھری سے کاٹا اور کھا گئے۔ لیکن ہم تو راجا ہیں راجا بغیر گھی مسالہ کے ہمیں کوئی کھاتا نہیں، دیکھو مجھ میں تو اتنی بڑی خوبی ہے کہ میں پت کو مارتا ہوں۔ اب تم سب اگر مجھے اپنا راجا بنا لو تو میں بہت سی اچھی اچھی باتیں بتاؤں گا۔”

    ترکاریوں نے کٹھل کی بات بڑی توجہ سے سنی اور ان کے دل میں ایک جوش سا پیدا ہونے لگا۔ اب تو سب کو اپنی اپنی خوبی یاد آنے لگی۔ جب سبھی اپنی اپنی خوبیوں کا ذکر کرنے لگے تو جناب کٹہل پھر بولے۔ "دیکھو بھئی صبر کے ساتھ، آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے بولو۔ ورنہ کسی کی بات میری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ہاں کریلا پہلے تم…”

    کریلا: میں کھانے میں تلخ ضرور لگتا ہوں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مجھے نہیں کھاتے ہیں۔ لیکن میں بہت فائدہ مند ہوں۔ کف، بخار، پت اور خون کی خرابی کو دور کرتا ہوں اور پیٹ کو صاف کرتا ہوں۔

    بیگن: بھوک بڑھاتا ہوں۔ لوگ میرے پکوڑے اور ترکاری بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

    بھنڈی: سبزی تو میری بہت اچھی بنتی ہے اور میں بہت طاقت پہنچاتی ہوں۔

    لوکی: میں اپنی تعریف کیا سناؤں، میرا تو نام سن کر ہی لوگ مجھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں دماغ کی گرمی کو دور کرتی ہوں اور پیٹ صاف رکھتی ہوں۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر، حکیم مجھے مریضوں کو دینے کے لیے کہتے ہیں۔

    پَلوَل:۔ میں بھی مریضوں کو خاص فائدہ پہنچاتا ہوں اور انہیں طاقت دیتا ہوں۔

    ترئی:۔ میں بخار اور کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہوں اور کف کو دور کرتی ہوں۔ میری سہیلی سیم بھی کف کو دور کرتی ہے۔

    شلغم: مجھے شلجم بھی کہا جاتا ہے۔ میں کھانسی کو فائدہ کرتا ہوں اور طاقت بڑھاتا ہوں۔

    گوبھی: بخار کو دور کرتی ہوں، اور دل کو مضبوط کرتی ہوں۔

    آلو: میں بے حد طاقتور اور روغنی ہوں۔

    گاجر: میں پیٹ کے کیڑے مارتا ہوں۔

    مولی: میں کھانے کو بہت جلد پچاتی ہوں، اور پیٹ کو صاف کرتی ہوں۔

    جب سب کی باتیں ختم ہوئیں تو ساگوں نے کہا کہ واہ بھئی خوبی تو ہم میں بھی ہے پھر ہم چپ کیوں رہیں۔ آپ لوگ ہم غریب پتوں کی بھی خوبیاں سن لیں۔

    پالک: میں خون بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں اور کمر کے درد کے لیے مفید ہوں۔ خون کی گرمی کو دور کرتا ہوں، دست آور ہوں اور کھانسی کو فائدہ پہنچاتا ہوں۔

    میتھی: بھوک بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں۔

    بتھوا: تھکاوٹ دور کرتا ہوں، مجھے کف کی بیماری میں زیادہ کھانا چاہیے۔ تلّی، بواسیر اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہوں۔

    مالی چپ چاپ باغ کے ایک کونے میں کھڑا سب کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ ترکاریوں کی خوبیوں کو جان کر اسے بہت تعجب ہوا، اور وہ سوچنے لگا کہ اگر میں پھولوں کی جگہ ترکاریوں کے پودے پیڑ لگاؤں تو زیادہ بہتر اور سود مند ہو گا۔

    جب سے مالی کے ارادے کا مجھے علم ہوا ہے اس باغ کی طرف جانے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا۔ کیا معلوم اس باغ میں اب بھی لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے، بچّے اچھل کود مچاتے ہیں اور خوش نما پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں یا ترکاریوں کے لتوں سے مالی کا فائدہ ہوتا ہے؟

    (پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی)

  • میں تو اُسی دن قتل ہوگیا تھا!

    میں تو اُسی دن قتل ہوگیا تھا!

    دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت میں ہمیں نصیحت آمیز قصّے اور دل چسپ داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہماری دنیا کی ہر زبان کا ادب ایسی کہاوتوں اور حکایات سے مالا مال ہے جو دانایانِ رفتہ کے علم، ان کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہیں اور ہمارے لیے سبق آموز۔

    عربی کی ایک مشہور کہاوت ہے ”میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا۔“ اسی ضربُ المثل سے جڑی ایک دل چسپ حکایت بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    کہتے ہیں کسی جنگل میں دو بیل رہتے تھے، ایک لال اور ایک سفید۔ ان کی آپس میں گہری دوستی تھی، ایک ساتھ چرنے کے لیے جانا اور گھومنا پھرنا۔ ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور ہر بار اس نے گرتے پڑتے ہی بھاگ نکلنے میں‌ عافیت جانی۔

    ایک دن شیر نے ایک چال چلی۔ اس نے لال بیل کو چکنی چپڑی باتیں کر کے بہلایا اور اسے کچھ خواب دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا۔ شیر نے باتیں ہی ایسی کی تھیں کہ اسے اپنے ساتھی سفید بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر سے راہ و رسم بڑھانا زیادہ ’محفوظ‘ نظر آ رہا تھا۔ لال بیل کے اپنے ساتھی سے دوری اختیار کر لینے سے سفید بیل شیر کے مقابلے میں کمزور پڑ گیا تھا۔ چند دنوں کے بعد شیر نے سفید بیل کے شکار کا پروگرام بنایا اور ایک روز موقع ملتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔

    اس سے پہلے جب شیر ان میں سے کسی ایک کو بھی گھیرتا تھا تو دوسرا اس کی مدد کو آجاتا تھا اور وہ مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے، مگر اس بار اکیلے بیل کے لیے شیر کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا… سفید بیل نے اپنے ساتھی لال بیل کو بہت پکارا، بہت آوازیں دیں، پرانی دوستی کے واسطے دیے اور بیل ہونے کے ناتے ’بھائی چارے‘ کا احساس دلایا، مگر شیر کی دوستی کے نشے میں ڈوبے لال بیل پر اس کی پکار کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اپنی برادری کے ایک فرد کو درندے کا شکار بنتا دیکھتا رہا۔ وہ بہت مطمئن تھا کہ سفید بیل کے ساتھ نہ تھا ورنہ آج شیر کے حملے میں اس کام بھی تمام ہو جاتا۔ شیر نے پے در پے حملے کرکے سفید بیل کو شدید زخمی کردیا اور وہ اس کے آگے ڈھسل گیا۔ شیر نے مزے سے اس کا گوشت کھایا اور اگلے دن کے لیے بھی کچھ بچا کر رکھ لیا۔ وہ اپنے باقی ماندہ شکار کو کھینچتا اپنے ٹھکانے پر لے گیا تھا۔

    تھوڑے دن گزرے تھے کہ شیر نے لال بیل کو بھی ہڑپ کرنے کا سوچا۔ جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل کی آنکھوں میں ملال کی سرخی دوڑ گئی اور اب وہ شیر کا ساتھ دینے پر پچھتا رہا تھا۔ اس نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باسیوں کو پیغام دیا کہ… ”میں تو اسی دن ہی قتل ہو گیا تھا، جس دن سفید بیل قتل ہوا…!“