Tag: مشہور کہانیاں

  • ایک درخت کا قتل

    ایک درخت کا قتل

    دنیا بھر میں‌ انسانی آبادی میں‌ اضافہ اور شہر، قصبات بسانے کی غرض سے سبزہ پامال اور پیڑ پودے جڑ سے اکھاڑ دینا عام بات ہے۔

    یہ افسانہ بھی اسی موضوع پر ہے اور ایک درخت کے کٹنے کی روداد ہے، لیکن درخت اور اسے کاٹنے کی انسانی کوشش کو مصنّف نے پرانی روایات اور قدروں کے مٹنے سے جوڑ کر بتایا ہے کہ نئی نسل بھی اب بے پروا اور بے نیاز ہوچکی ہے اور وہ اپنی روایات کے مٹ جانے کا کچھ احساس نہیں‌ رکھتی۔ یہ اختر اورینوی کا پُراثر افسانہ ہے جو انھوں‌ نے ایک درخت کا قتل کے عنوان سے تحریر کیا تھا۔ وہ ایک تنقید نگار، محقق، فکشن رائٹر اور شاعر تھے۔ آئیے افسانہ پڑھتے ہیں۔

    ایک کوارٹر کے پہلو میں ایک بہت ہی اونچا، مضبوط، گھنیرا اور خوب صورت درخت تھا۔ شہر کے مشہور باغ کو بڑی بدسلیقگی سے کاٹ کاٹ کر بے ربط، بد وضع کوارٹر کھڑے کر دیے گئے تھے۔ بے ہنگم، نہ ناک درست نہ نقشہ۔

    صرف ایک کوارٹر اسی چھتنار اور بلند و بالا درخت کی وجہ سے بہت بھلا لگتا تھا۔ ہرا بھرا، سایہ دار، ماحول کے بے کیف سپاٹ پن اور بد آہنگی کو دور کرنے والا۔ گہری جڑیں، سڈول، بھاری بھرکم، اونچا تنا، پھلی ہوئی صحت مند شاخیں، سر سبز کو نپلیں، سندر، ہرے بولتے ہوئے پتے۔

    اس پیڑ کی سر بلندی کو دیکھ کر جی خوش ہو جاتا تھا اور آسمان کی طرف نظر یں اٹھ جاتی تھیں۔ دل میں بڑا اعتماد اور حوصلہ پیدا ہوتا تھا۔ جس مٹی سے ایسا وشال درخت اگے وہ مقدس محسوس ہوتی تھی۔ اس پرانے باغ کے نہ جانے کتنے خوب صورت اور پھل دار درخت کاٹ کر پھینک دیے گئے ہوں گے۔ آم، لیچی، جامن، امرود اور شریفے کے پیڑ۔ افتادہ زمینوں اور بنجر قطعوں کی کمی نہ تھی لیکن نہ جانے کس جبلت کی تسکین کے لئے یہی حسین باغ قتل گاہ بنایا گیا۔

    اس برباد باغ کی ایک تاریخ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شاہی وقت کا باغ تھا۔ ایک فراخ دل نواب نے اپنے جگری دوست ایک مہاراجہ کو تحفتاً یہ باغ پیش کیا تھا۔ انھیں دنوں ایک کامل فقیر باغ کے ایک گوشے میں دھونی رما بیٹھا۔ مہاراجہ نے کوئی مزاحمت نہ کی بلکہ اسے نیک شگون سمجھا اور پہلو میں ایک قطعہ اراضی بھی شاہ صاحب کو دے دیا۔ آج بھی اس احاطے میں قبر میں موجود ہیں۔ خدا رسیدہ فقیر کا سالانہ عرس ہندو مسلمان سب دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ جس عظیم الشان درخت کا ذکر ہے، شاہ صاحب کی قبر پر سایہ کئے ہوئے تھا، جیسے چتر لگانے کی سعادت حاصل کر رہا ہو۔ لوگوں میں یہ مشہور تھا کہ یہ درخت بھی متبرک ہے اور اس خطے کی خاک پاک ہے۔ جب انگریزوں کا راج ہوا تو لیفٹیننٹ گورنر بہار نے سخت دباؤ ڈال کر یہ باغ مہاراجہ سے اونے پونے خرید لیا۔ یہیں سرکار بہادرکی کوٹھی بنی مگر باغ کا بڑا حصہ قائم رہا اور وقت پر پھل دیتا رہا۔ قبریں رفتہ رفتہ مہندم ہو گئیں اور ان کے نشانات بھی مٹتے گئے لیکن پیر صاحب کی قبر جیسی تھی ویسی ہی رہی۔

    1857ء کے ناکام ہندوستانی انقلاب کے بعد اسی باغ میں کئی مجاہدوں کو سولی پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا۔ انگریزی راج محل خون اور گوشت کے گارے سے تعمیر ہوا۔ اس وشال پیڑ نے یہ خونی ڈرامہ دیکھا تھا۔ خلقت کہتی ہے کہ اس عجیب درخت کی خونِ شہداء سے آبیاری ہوتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر درخت کے پتے یا شاخیں کوئی توڑتا تو ان سے سرخ خون ٹپکنے لگتا تھا۔ اسی وجہ سے جب نئے کوارٹر باغ کے درختوں کو کاٹ کاٹ کر بنائے جانے لگے تو کسی بڑھئی کی یہ جرأت نہ ہو سکی کہ اس متبرک زندہ جاوید درخت پر آرا چلائے۔

    یہ درخت عجوبۂ روزگار تھا۔ اس کا نام کوئی صحیح طورپر نہیں جانتا تھا۔ کوئی کچھ کہتا اور کوئی کچھ۔ نہ پھول نہ پھل مگر ہریالی، شادابی، نین سکھ اور سکونِ دل و جان۔ یہ بھی مشہور تھا کہ انقلاب 1857ء کے پہلے پھول لگتے تھے، پھل لگتے تھے۔ اس بات کی شہرت بھی تھی کہ فرنگیوں کی حکومت کے بعد تین چار بڑے خوشبو دار پھول کھلے اور لال لال پھل آئے اور فرنگیوں کو بڑا تعجب ہوا۔ ادھر سالوں سے کسی نے پھول دیکھے نہ پھل کھائے۔ شہر بھر میں ایسا کوئی پیڑ نہ تھا۔ ریاست اور ملک بھر میں لافانی اور فرد ہو تو عجب نہیں۔ مجھے اس درخت کے وقار سے بڑی تسکین ہوتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ آندھیوں اور طوفان کو آڑ لے گا۔ وہ ہماری سپر تھا، سہارا تھا، مربی تھا، ہم سایہ تھا، ساتھی تھا، دوست اور غم گسار تھا۔

    وہ قطب نما تھا۔ ایک عظیم و رفیع علامت تھا۔ پورے احاطے کی انفرادیت اس سے قائم تھی۔ میں پہروں اسے دیکھتا رہتا تھا۔ ہر موسم میں اس کی الگ بہار تھی۔ صبح، دوپہر، شام جب بھی دیکھئے وہ دل کش تھا۔ چاندنی راتوں میں اس کا حسن دیدنی تھا۔ اندھیری راتوں میں وہ ایک بلند و بالا، قوی اور جاگتا ہوا سنتری دکھائی دیتا تھا اور اس کی حفاظت میں ہم سب لوگ سکھ کی نیند سوتے تھے۔ اس کی خاموش ہم کلامی میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ کبھی تو میں یہ محسوس کرتا کہ اس درخت کا بیچ میرے دل میں ہے۔ کبھی نہ کبھی وہ آنکرائے گا اور ایک عظیم و سرفراز شجر بن جائے گا۔

    اس شاداب درخت کو کاٹ کر گرانے کی برسوں سے کوششیں ہو رہی تھیں لیکن اس کی تقدیس جاننے والے بڑھئی اور مزدور اسے کاٹنے سے ڈرتے تھے۔ درخت کی رگوں میں لال لال لہو تیرتا تھا اور اس کا سایہ پیر صاحب کی خدمت گزاری کرتا تھا۔ وہ قبر کے کنارے جیتے جاگتے پاسبان کی طرح چوکس کھڑا رہتا تھا۔ کبھی کوئی ٹھیکہ دار دور کے شہر سے مزدور لا کر اس پاک پیڑ کو کاٹ کے اس کی لکڑیاں بیچ کر نفع کمانا چاہتا تھا لیکن یہ دیکھا گیا کہ درخت کے کسی تنے یا شاخ پر تبر چلاتے ہی سرخ عرق ٹپکنے لگتا اور کارندوں پر دہشت طاری ہو جاتی اور کام رک جاتا۔

    ایک بار کوئی کلہاڑا چلانے والا درخت کی کسی اونچی شاخ سے گر کر مر گیا۔ کبھی کوئی مزدور خطرناک طور پر بیمار پڑ جاتا۔ غرض یہ کہ حیات اور رحمت کا علم بردار درخت فضا کی رفعتوں پر لہلہاتا رہا اور اس کا ماحول اس کا گہوارہ بنا رہا۔ اسے دیکھ کر شکتی اور شانتی کا احساس ہوتا تھا۔

    پچھلی گرمیوں میں نہ جانے کہاں سے ایک سخت دل اور بے باک ٹھیکہ دار کو انجان اور ڈھیٹ کارندے مل گئے اور ایک نئی ترکیب سے اس شان د ار پیڑ کا قتل شروع ہوا۔ بڑے بڑے، لانبے اور موٹے رسوں سے اس درخت پر پھانسیاں بنائی گئیں۔ بالائی پتلی پتلی شاخوں کو کاٹ کاٹ کر پھانسی پر چڑھایا جانے لگا۔ پھر بڑے تنوں کی باری آئی اور انھیں آرے سے کاٹ کاٹ کر پھانسی پر لٹکایا گیا۔ کئی مزدور کٹے ہوئے تنوں کو آہستہ آہستہ جھلاتے ہوئے زمین پر لے آتے۔ یہ اہتمام اس لئے تھا کہ کوارٹروں کو نقصان نہ پہنچے۔ یہ پیڑ جڑ کے پاس سے گرایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس کا وقار و جلال لرزہ پیدا کرتا تھا۔ اس میں زمین کا جاں بخش رس تھا، بلند آسمان کی کرنوں کی روشنی اور دھڑکتی ہوئی زندگی کی شادابی تھی۔

    پندرہ دنوں تک اس درخت کو پھانسی دی جاتی رہی۔ عضو بہ عضو لال لال عرق بہتا رہا۔ پھر وہ تھوڑی دیر کے بعد خون کے چکتوں کی طرح جم جاتا۔ اس کے عرق کا رنگ ببول کے گوند کی طرح پیلا نہ تھا۔ کوارٹروں کی نالیوں میں لال لال لوتھرے کیچڑ کے ساتھ مل کر بہہ رہے تھے۔ اچانک کئی مزدور بیمار پڑ گئے اور کئی موٹے موٹے رسے پارہ پارہ ہو گئے۔ پندرہ دنوں کے لئے کام رک گیا۔ لانبے لانبے بالوں اور چڑھی ہوئی آنکھوں والے ٹھیکہ دار کو بڑی تشویش ہوئی۔ محلے کے لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور پیر صاحب کی کرامات کے چر چے ہونے لگے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو چاہتے تھے کہ یہ اونچا جھماٹ درخت کٹے تو وہ اپنے کوارٹروں کے چھوٹے احاطوں میں مولی، گوبھی، آلو اور چقندر اگا کر کچھ پیسے حاصل کر لیں۔ اس عظیم درخت کی قلمرو میں مولی اور چقندر کہاں اگ سکتے تھے۔ ہاں امن، سکون، طمانیت، راحت اور حسن کی نشوو نما ہوتی رہتی تھی اور چین کی برکھا برستی تھی۔

    کام پھر شروع ہو گیا۔ درخت کے بڑے بڑے موٹے تنے کٹنے لگے۔ کئی تنوں سے جہازی رسے کئی سمتوں میں باندھے جاتے تھے اور ان کے سرے درجنوں مزدور زمین پر کھڑے تن کر پکڑے رہتے تھے۔ درخت کے تنوں پر کلہاڑے اور آرے سے تیز دست مزدور اس کے جوڑ بند کاٹتے جاتے تھے اور مضبوط رسوں سے باندھ کر انھیں آہستہ آہستہ جھلا جھلا زمین پر کوارٹروں سے بچا بچا کر گرایا جاتا تھا۔ دور سے ایسا لگتا تھا جیسے گٹھیلے بدن کے پہلوانوں کو پھانسی دی جا رہی ہے اور ان کی جسیم لاشیں زمین پر پڑی ہیں۔ روزانہ دو ہی تین تنے کاٹے جا سکتے تھے اور انھیں نیچے لانا بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ رسے کئی پہلوؤں سے باندھے جاتے اور کئی سمتوں سے کھینچے جاتے تھے اور مرکزی رسے کو دھیرے دھیرے ڈھیل دے کر اس حساب سے دیوقامت تنوں کے ٹکڑوں کو کوارٹروں کی چھتوں اور دیواروں سے بچا بچا کر زمین پر گرایا جاتا تھا کہ ان پر ضرب نہ پڑے۔ پھر بھی زور کا دھماکا ہوتا تھا اور درد دیوار لرز جاتے تھے۔

    چند دنوں میں جیتے جاگتے، شاداب و مسرت بار درخت کا عضو عضو کاٹ ڈالا گیا، جیسے پہلے لوگوں کو صلیب پر چڑھانے کے بعد ان کی ہڈیاں توڑ دیتے تھے۔ میرا ذہن مہینے بھر تک سولی پر چڑھتا رہا اور میرے دل کو صلیب دی جاتی رہی۔

    اب ایک محیط، رعب دار جڑیلا تنا اور اس سے نکلے ہوئے دو ثانوی تنوں کے ٹکڑے بے برگ و بار، بے دم ہو کر ہ گئے۔ اوپر کے دونوں تنوں سے بندھے رسے جھول رہے تھے۔ ایک صبح میں اپنے احاطہ میں ٹہل رہا تھا۔ میری نظر اس ٹھنٹھ درخت پر پڑی۔ زمین پر تنوں کی لاشیں بے سدھ بکھری پڑی تھیں۔ بہت سے تنے اور شاخیں ٹھیکہ دار بیل گاڑیوں میں لے جا چکا تھا۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ سامنے ایک دیو قامت غلیل ہے۔ اس کا عظیم دو شاخہ آسمان تک بلند ہو جانا چاہتا ہے اور مہیب دستہ دھرتی کے ہاتھوں میں ہے اور اب شکتی شالی دھرتی کٹے ہوئے تنے کے چھوٹے چھوٹے ٹونوں کو چموٹی پر جما کر شست باندھے گی اور قاتلوں پر بھرپور نشانہ لگائے گی۔

    ایک روز دو شاخہ بھی کاٹ دیا گیا مگر گرتے گرتے دو شاخہ کے ایک بازو نے ایک کوارٹر کی دیوار سے ٹکرا کر اسے شق کر دیا اور دوسرے بازو نے دوسرے کوارٹر کی گیراج کی چھت کو پارہ پارہ کر ڈالا۔ نہ جانے کیوں مہینوں قتل و غارت کا کام ٹھیکے دار نے روک دیا اور وسطی جڑیلا تنا دیوار سے اٹکی ہوئی لاش کی طرح کھڑا رہا۔ ہفتوں یہ درد ناک تنا مقتول امن و شادابی کی علامت بن کر میرے دل میں تیر نیم کش کی طرح پیو ست رہا اور دو شاخے کے دونوں بازو کسی عظیم ٹوٹی ہوئی بیساکھی کے بالائی حصوں کی مانند اس سر و تن بریدہ درخت کی لاش کے سامنے زمین پر پڑے رہے۔

    بیساکھ اور جیٹھ کے مہینے ختم ہوگئے اور اساڑھ آ گیا۔ وقفے وقفے سے بادل کے ٹکڑے آئے اور کچھ چھڑکاؤ ہوتا رہا۔ ایک صبح روح پرور معجزہ رونما ہوا، اسے دیکھ کر ہم سب خوشی سے لہلہا اٹھے۔ چند ہی دنوں بعد ٹھیکہ دار پھر نمودار ہوا۔ درخت کے وسطی تنے پر مزدوروں کو آرا چلانے کے لئے آمادہ کیا۔ پہلے کلہاڑیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ ہم چوکنا ہو گئے اور بھاگتے ہوئے مقتول درخت کی طرف دوڑ پڑے۔ دیکھا کہ درخت کو جڑ سے کاٹا جا رہا ہے۔ ہم لوگوں نے ٹھیکہ دار اور عملوں سے پُر زور احتجاج کیا اور انھیں صاف صاف کہہ دیا کہ جڑ والا تنا ہرگز نہیں کٹے گا۔ جو زمین پر تنوں کے گرے ہوئے ٹکڑے ہیں، چاہو تو اٹھا کر لے جاؤ۔ جڑ میں اب ہرگز ہاتھ لگانے نہیں دیا جائے گا۔ تند و تیز مجادلے کے بعد ٹھیکہ دار اور اس کی ذریت دفع ہوئی اور دوسرے دن وہ لوگ تنوں کے افتادہ ٹکڑے لاد کر لے گئے۔

    مجروح، جڑیلا تنا صبر، استقلال، اطمینان اور امید کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ اس کے بالائی پہلو میں سر سبز نئی کو نپلیں پھوٹ رہی تھیں اور کوارٹروں کی چھتوں سے اونچی چند نئی ہری بھری شاخیں ہوا میں لہرا رہی تھیں۔ وہ رحمت نشاں درخت مَر کر بھی جی اٹھا تھا۔

  • دال میں کچھ کالا ہے!

    دال میں کچھ کالا ہے!

    کسی پوشیدہ بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ مثل بولتے ہیں، یعنی جس معاملے میں‌ ظاہراً تو کچھ نہ ہو، لیکن باطن میں کوئی نہ کوئی عیب یا خرابی ضرور ہو۔ اس مثل کو سمجھنے کے لیے یہ کہانی پڑھیے۔

    کہتے ہیں ایک نوعمر تجارت کی غرض سے کسی شہر میں گیا۔ جاتے وقت اس کے محلّے داروں اور خیر خواہوں نے اسے خبردار کردیا تھا کہ جہاں جا رہے ہو وہاں کے لوگ انتہائی جھگڑالو اور شرپسند ہیں۔ ان سے ہوشیار رہنا۔

    یہ نوعمر تاجر اپنا سامان لیے شہر پہنچا تو وہاں ایک سرائے میں قیام کے ساتھ چند دنوں کے لیے ایک مقامی شخص کو اپنے کام نمٹانے کے لیے اجرت پر رکھ لیا۔ ایک دن ہی گزرا تھا کہ کوئی کانا آدمی اس نوعمر سوداگر کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ غالباً آپ کے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے آپ خود یہاں تشریف لائے ہیں؟ وہ بیچارے جب بھی یہاں تشریف لاتے تو اسی سرائے میں قیام کرتے تھے۔ وہ لڑکا اس کانے شخص کی باتوں سے سمجھ گیا کہ یہ کوئی چالاک اور دغا باز قسم کا انسان ہے، اس لیے وہ ہوشیار ہو گیا۔

    تھوڑی دیر کے بعد کانے نے کہا۔ آپ کے والد آنکھوں کی تجارت کرتے تھے۔ ان کے پاس میں نے اپنی ایک آنکھ گروی رکھ کر کچھ روپے لیے تھے، اب آپ وہ روپے لے کر میری آنکھ واپس کر دیجے۔ نوعمر سوداگر یہ سن کر بہت گھبرایا اور اس کانے کو کل کا وعدہ کر کے اس وقت تو ٹال دیا۔ اگلے دن جب وہ آیا تو سوداگر خود کو اس کے جواب کے لیے تیار کر چکا تھا۔ اس نے کانے سے کہا کہ میرے پاس والد مرحوم کی گروی رکھی ہوئی سیکڑوں آنکھیں ہیں۔ میں رات بھر تمہاری آنکھ تلاش کرتا رہا لیکن نہ مل سکی۔ اب صرف یہی طریقہ ہے کہ تم دوسری آنکھ بھی مجھے دے دو تاکہ میں اس کے ساتھ ملا کر تلاش کر لوں اور تمہیں دے سکوں۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیں کسی دوسرے کی آنکھ بدل نہ جائے۔ کانے نے جب یہ سنا تو سمجھ گیا کہ یہاں دال گلنا دشوار ہے۔ وہ سوداگر بچّے سے اپنی جان چھڑوا کر وہاں سے نکل گیا۔

    جب یہ نوعمر سوداگر منافقوں کے اُس شہر کو چھوڑنے لگا تو اس نے ملازم کو تنخواہ دینا چاہی۔ ملازم نے کہا کہ حضور نے ملازمت دیتے وقت کہا تھا کہ کچھ دیں گے، روپوں کا معاہدہ نہیں ہوا تھا، اس لیے مجھے روپے نہیں بلکہ کچھ چاہیے۔ سوداگر سوچنے لگا کہ اس سے کیسے چھٹکارا حاصل کروں۔ اس نے ملازم کو بازار بھیج دیا اور اس روز کی پکی ہوئی مسور کی دال ایک کوزے میں بھری۔ پھر تھوڑی سی کالی مرچیں ڈال کر کوزے کو الماری میں رکھ دیا۔

    ملازم جب واپس آیا تو سوداگر بچے نے کہا کہ دیکھو تو الماری میں کیا رکھا ہے؟ حضور اس میں دال ہے۔ نوعمر تاجر نے کہا! اور کیا ہے؟ ملازم بولا۔ کالا کالا معلوم ہوتا ہے۔ سوداگر بولا! کالا کالا کیا ہے؟ ملازم نے کہا، حضور کچھ ہے۔ اسی وقت اس نوعمر سوداگر نے کہا! میں نے جو ‘کچھ’ دینے کا وعدہ تم سے کیا تھا، وہ یہی ہے۔ تم اسے اٹھا لو اور اپنے گھر کا راستہ لو۔ اس وقت سے یہ مثل مشہور ہو گئی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

  • جَل پری

    جَل پری

    کسی چھوٹی سی بستی میں کوئی بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے آگے پیچھے ایک لڑکی کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا۔ بڑھیا نے لاڈ پیار میں اسے ایسا اٹھایا تھا کہ وہ اپنوں کو خاطر میں لاتی نہ غیروں کو۔ زبان دراز، پھوہڑ، کام چور۔ ماں کے جھونٹے نوچنے کو تیار مگر ماں تھی کہ داری صدقے جاتی۔ اس کے نخرے اٹھاتی۔

    بڑھیا نے اپنی مرنے والی بہن کی لڑکی کو بھی اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ بیچاری بے گھر اور بے بس۔ سارے دن خالہ کی خدمت میں لگی رہتی۔ بہن کے نکتوڑے اٹھاتی، تب کہیں روکھی سوکھی میسر آتی۔ غریب اپنی ننھی سی جان کو مارتی لیکن کیا مجال جو کبھی خالہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ہو یا بہن نے میٹھی زبان سے کوئی بات کی ہو۔ جب دیکھا ماں بیٹیوں کو غرّاتے۔ مثل تو یہ مشہور ہے کہ ماں مرے اور موسی جیے۔ ہوتی ہوں گی ماں سے زیادہ چاہنے والی خالائیں بھی۔ اس کے نصیب سے تو بڑھیا جلادنی تھی۔

    عید بقرعید کو بھی بیچاری اچھے کھانے، اپنے کپڑوں کے لیے ترستی کی ترستی ہی رہ جاتی۔ اس برے برتاؤ پر شاباش ہے اس لڑکی کو کہ ایک دن بھی اس نے کسی سے شکایت نہیں کی، نہ کام کاج سے جی چرایا۔ جس حال میں خالہ رکھتی رہتی اور ہنسی خوشی وقت گزارتی۔

    بڑی بی اگر اندھی تھیں یا ان کے دل سے ترس اٹھ گیا تھا تو دوسرے تو اندھے نہ تھے۔ دنوں لڑکیوں کا رنگ ڈھنگ سب کے سامنے تھا۔ پاس پڑوس والیاں دیکھتیں اور جلتیں مگر کیا کرسکتی تھیں۔ ایک تو پرائی آگ میں پڑے کون؟ دوسرے بڑھیا چلتی ہوا سے لڑنے والی۔ بد مزاج۔ حق ناحق الٹی سیدھی بکنے لگے۔ اچھی کہو بری سمجھے۔ جھاڑ کا کانٹا ہو کر لپٹ جائے۔ پڑوسنوں کا اور تو کیا بس چلتا۔ بڑھیا اپنے گھر کی مالک تھی۔ ایک اس کی بیٹی دوسری بھانجی۔ ہاں انہوں نے اپنے دل کے جلے پھپولے پھوڑنے کو دونوں لڑکیوں کے نام رکھ دیے۔ جب آپس میں ذکر آتا تو بڑھیا کی چہیتی کو تتیا کہیں کہ ہر وقت بھن بھن، ذرا چھیڑا اور کاٹا۔ دوسری کو گؤ کہ نگوڑی پٹتی ہے، بُرا بھلا سنتی ہے۔ اور کان تک نہیں ہلاتی۔

    وہ جو مثل ہے کہ نکلی ہونٹوں اور چڑھی کوٹھوں۔ بستی ہی کون سی لمبی چوڑی تھی۔ دونوں لڑکیوں کے یہ نام سب کو یاد ہوگئے۔ جہاں ذکر آتا بڑھیا کو تتیا اور بھانجی کو گؤ کہتے۔ ایک دن کہیں جھلو خانم کے کانوں میں بھی بھنک پڑگئی۔ وہ آئے تو جائے کہاں۔ پڑوسنوں پر تو دل ہی دل میں خوب برسی کہ جاتی کہاں ہیں میرا موقع آنے دو۔ ایسی پھلجھڑی چھوڑوں گی کہ گاؤں بھر میں ناچتی پھریں۔ تتیے ہی نہ لگادوں تو بات ہی کیا۔ ہاں غریب بھانجی کہ کم بختی آگئی۔ کہاوت سنی ہوگی کہ

    کمہار پر بس نہ چلا تو گدھیا کے کان امیٹھے۔

    جب ہوتا اسے گود گود کر کھائے جاتی کہ ہاں یہ گؤ ہے اور میری بچی تتیا؟ خدا کرے کہنے والوں کی زبان میں تتیے ہی کاٹیں۔ کیوں ری تُو گؤ ہے؟ یہ سارے کوتک تیرے ہی ہیں۔ میں سب جانتی ہوں۔ ارے تیرے کہیں اس نے ڈنگ مارا ہوگا؟ نہ جانے میرے گھر میں سوکن بن کر کہاں سے آ مری۔ یہ جیسی مسمسی ہے اسے کوئی نہیں جانتا۔

    اس طرح روز بڑھیا بکا کرتی اور لڑکی شامت کی ماری کو سننا پڑتا۔ سننے کے سوا اسے چارہ ہی کیا تھا۔ خدا کسی کو کسی کے بس میں نہ ڈالے۔ ایک دن بستی کے باہر کوئی میلہ تھا۔ بڑھیا کی لاڈلی اچھے کپڑے پہن مٹکتی اتراتی اپنی سہیلیوں کے ساتھ میلہ دیکھنے چلی۔ گؤ بھی آخر لڑکی ہی تھی۔ ایک ایک کا مونہہ دیکھنے لگی۔ ہمسائی اوپر سے جھانک رہی تھیں۔ انہوں نے کہا، ’’بوا اس بچی کو بھی بھیج دو۔ اس کا دل بھی خوش ہوجائے گا۔ دیکھنا بے چاری کیسی چپ چاپ کھڑی ہے۔‘‘

    بڑی بی جھلاّ کر بولیں، ’’یہ میلہ میں جانے کے قابل ہے۔ سر جھاڑ مونہہ پہاڑ۔ نہ ڈھنگ کے کپڑے، نہ کہیں جانے کا سلیقہ۔ دوسرے گھر کا کام کون کرے گا۔ اس کی لونڈیاں بیٹھی ہیں جو کام کرنے آئیں گی۔‘‘ اور لڑکی سے چلّا کر کہنے لگی، ’’چل گھڑا اٹھا اور کنویں پر سے پانی لا۔‘‘

    اس غریب لڑکی نے گھڑا اٹھایا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے کنویں پر گئی، پانی بھرا اور درخت کی چھاؤں میں پہنچی کہ ذرا دل ٹھہر جائے تو گھر چلوں۔ رات دن کی مصیبت پر اسے رونا آگیا۔ اتنے میں پیچھے سے اس کو ایک آواز سنائی دی۔ اس نے جھٹ پلّو سے آنسو پوچھ کر گردن اونچی کی تو دیکھا ایک بڑھیا کھڑی ہے۔ بڑھیا نے گڑگڑا کر لڑکی سے کہا، ’’بیٹی پیاسی ہوں ذرا سا پانی پلا دے۔‘‘ لڑکی نے خوشی خوشی بڑھیا کو پانی پلا دیا۔

    پانی پی کر بڑھیا نے لڑکی کو دعائیں دیں اور بولی، ’’تم بڑی اچھی لڑکی ہو۔ میں تمہارے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہوں کہ ساری عمر یاد کرو گی۔ لو آج سے جب تم بات کرو گی تمہارے مونہہ سے موتی جھڑیں گے۔‘‘ یہ کہتے کہتے بڑھیا لڑکی کی آنکھوں کے آگے سے غائب ہوگئی۔ اصل میں وہ بڑھیا جَل پری تھی۔

    جَل پری تو چلی گئی، اور لڑکی بھی اپنا گھڑا سَر پر رکھ اپنے گھر کے طرف روانہ ہوئی۔ لیکن اب اسے یہ فکر ہوا کہ یہ بڑھیا کون تھی اور اس نے کیا کہا؟ میں اس کا مطلب نہیں سمجھی۔

    گھر پہنچی تو خالہ نے بیچاری کی خواب خبر لی، ’’اب تک کہاں رہی تیرا کام کرنے کو دل نہیں چاہتا تو کہیں اور چلی جا۔‘‘

    لڑکی دبی زبان سے بولی، ’’خالہ جی اب ایسا نہیں ہوگا۔ ایک بڑھیا کو پانی پلانے لگی تھی۔‘‘ لڑکی کا مونہہ سے بات کرنا تھا کہ آنگن میں موتی بکھر گئے۔ جل پری کا کہنا سچ ہوا۔ بڑھیا نے جو چمکتے ہوئے موتی دیکھے تو دیوانوں کی طرح جھپٹی اور موتی چننے لگی۔ موتی سمیٹ چکی تو بڑے پیار سے بولی، ’’چندا! یہ کہاں سے لائی؟‘‘

    لڑکی نے کہا، ’’خالہ جی لائی تو کہیں سے بھی نہیں، میرے مونہہ سے جھڑے ہیں۔‘‘

    بڑھیا ہنس کر بولی، ’’چل جھوٹی۔ مونہہ سے بھی موتی جھڑا کرتے ہیں۔ ایک واری سچ بتا ضرور تجھے کوئی خزانہ ملا ہے۔‘‘

    ’’نہیں خالہ اللہ جانے میرے مونہہ سے جھڑے ہیں۔ ایک بڑھیا کنویں پر ملی تھی۔ اسے میں نے پانی پلایا۔ اس نے مجھے دعا دی کہ جب تُو بات کرے گی تیرے مونہہ سے موتی جھڑیں گے۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔ وہ ضرور کوئی پری تھی مگر بیٹی اب تو دوچار دن پانی بھرنے نہ جائیو پریوں کا کیا بھروسہ۔ آج مہربان ہیں تو کل قہرمان۔ تجھے کہیں کنویں میں نہ لے جائیں۔‘‘ بڑی بی بڑی تیز تھیں۔ بھانجی سے تو ظاہر میں یہ باتیں بنائیں لیکن دل میں کھول ہی تو گئی کہ پری نے میری بچّی کو موتیا کھان نہ بنایا۔ بیٹی میلے میں سے آئی تو اسے خوب پٹیاں پڑھائیں اور بڑی مشکل سے دوسرے دن اس کو کنویں پر پانی بھرنے کے لیے بھیجا۔

    تتیا مرچ اوّل تو گئی بڑے نخروں سے۔ پھر کنوئیں پر ڈول کو جھٹکتی پٹکتی رہی۔ جھینک پیٹ کر گھڑا بھرا اور درخت کے نیچے جا بیٹھی۔ بیٹھی ہی تھی کہ جَل پری بڑھیا کے روپ میں اس کے بھی پاس آئی۔ بولی، ’’بیٹی! ذرا سا پانی تو پلا دے۔ کب سے پیاسی مر رہی ہوں۔‘‘

    بڑھیا کی لڑکی ویسے ہی جلاتن۔ پھر جل پری نے ایسی گھناؤنی صورت بنا رکھی تھی کہ دیکھے سے نفرت ہو۔ گھرک کر بولی، ’’چل چل، میں نے کوئی پیاؤ لگا رکھی ہے۔‘‘

    جل پری گھگھیا کر بولی، ’’پلا دے بیٹی ثواب ہوگا۔‘‘

    لڑکی نے جواب دیا، ’’جاتی ہے یا پتھر ماروں۔‘‘

    ’’اری میں بہت پیاسی ہوں۔‘‘

    ’’میری جوتی سے۔ پیاسی ہے تو کنویں میں ڈوب جا۔‘‘ لڑکی نے تیزی سے جواب دیا۔

    جل پری کو پانی کی کیا ضرورت تھی۔ اسے تو اس بھیس میں اپنا کرشمہ دکھانا تھا۔ غصّے سے بولی، ’’بدتمیز لڑکی جاتی کہاں ہے۔ اتنی آپے سے باہر ہوگئی۔ میں بھی تجھے وہ مزہ چکھاتی ہوں کہ یاد رکھے۔ جا میں نے کہہ دیا کہ آج سے جب تو بات کرے گی تیرے مونہہ سے مینڈک پھدک پھدک کر باہر آئیں گے۔

    لڑکی کو اس بات پر غصّہ تو بہت آیا۔ جوتی اٹھا مارنے کو کھڑی ہوئی لیکن پری کب ٹھہرنے والی تھی وہ بددعا دیتے ہی غائب ہوگئی۔ لڑکی دیر تک دانت پیستی رہی۔ پری کا بھی اسے انتظار تھا۔ دوپہر ہونے آئی اور پری وری کوئی نہیں دکھائی دی تو یہ دل ہی دل میں بڑبڑاتی اپنے گھر روانہ ہوئی۔

    ماں اپنی چہیتی بیٹی کے انتظار میں دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھی تھی۔ دیکھتے ہی پوچھا، ’’کہو بیٹی پری ملی اس نے تجھے کیا دیا۔‘‘

    لڑکی جلی بھنی تو پہلے ہی چلی آرہی تھی تڑخ کر جواب دیا، ’’چولھے میں جائے تمہاری پری۔ نگوڑی میری تو گردن بھی ٹوٹ گئی۔‘‘

    ’’آخر کیا ہوا؟ پری آج نہیں آئی؟‘‘ ماں نے پوچھا۔

    ’’کیسی پری؟ وہاں تو ایک پگلی سی بڑھیا نجانے کہاں سے آن مری تھی۔‘‘ لڑکی نے جل کر جواب دیا۔

    لڑکی جب بات کرتی اس کے مونہہ سے مینڈکیاں نکل کر زمین پر بھدکنے لگتیں۔ پہلے تو بڑھیا نے اپنی دھن میں دیکھا نہیں۔ لیکن جب ایک مینڈکی اس کی گود میں جاکر اچھلنے لگی تو وہ اچھل پڑی۔ ’’اوئی یہ مینڈکی کہاں سے آئی۔‘‘ پھر جو دیکھتی ہے تو سارے صحن میں مینڈکیاں ہی مینڈکیاں کودتی پھر رہی ہیں۔ ’’ہے ہے اری کیا گھڑے میں بھر لائی ہے۔‘‘

    ’’اسی پچھل پائی بڑھیا نے کوسا تھا کہ تیرے مونہہ سے مینڈکیاں برسیں گی۔‘‘ بیٹی نے بسور کر جواب دیا۔

    ’’جھلسا دوں اس کے مونہہ کو۔ وہ پری نہیں کوئی بھتنی ہوگی۔‘‘ بڑھیا بولی۔

    ’’امّاں یہ سب اس کٹنی کے کرتوت ہیں۔ اسے تم نے گھر میں کیوں گھسا رکھا ہے۔‘‘

    ’’اچھا اب تُو تو مونہہ بند کر پڑوسنیں دیکھ لیں گی تو سارا گاؤں تماشا دیکھنے آجائے گا۔ دیکھ میں اس مردار کی خبر لیتی ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر بڑھیا نے پھکنی اٹھا، بیچاری بے قصور بھانجی کو دھننا شروع کردیا۔ ’’کیوں ری مردار، تیرے مونہہ سے تو موتی جھڑیں اور میری بچّی کے مونہہ سے مینڈکیاں۔ جاتی کہاں ہے۔ آج میں بھی تیری دھول جھاڑ کر رہوں گی۔‘‘

    بڑھیا اپنی یتیم بھانجی پر پل پڑی۔ مارنے کے بعد بھی بڑھیا کو صبر نہ آیا۔ ہاتھ پکڑ گھر سے باہر نکال دیا۔ لڑکی اور کہاں جاتی کنواں ہی پاس تھا۔ روتی ہوئی اس درخت کے نیچے جا بیٹھی جہاں جل پری ملی تھی۔ کبھی خیال کرتی کہ ڈوب مروں۔ کبھی سوچتی کہ کسی اور بستی میں چلی جاؤں۔ اتنے میں جل پری بھی آگئی اور اس نے لڑکی سے پوچھا، ’’بیٹی روتی کیوں ہے؟‘‘

    لڑکی نے اپنی بپتا سنائی اور کہا، ’’تمہاری بدولت میں گھر سے نکالی گئی ہوں۔‘‘

    پری قہقہہ لگا کر بولی، ’’اچھی لڑکیاں کہیں اس طرح بے آس ہو کر رویا کرتی ہیں۔ جا خدا تیرے دن پھیر دے۔ آج سے تو پھولوں کی سیج پر شاہی محل میں سوئے گی۔‘‘

    اللہ کو نہ بگاڑتے دیر لگتی ہے نہ بناتے۔ اتفاق سے ادھر تو پری نظروں سے اوجھل ہوئی اور ایک شہزادہ شکار کھیلتا پانی کی تلاش میں کنویں کے پاس آیا۔ ڈول اٹھاتے اٹھاتے لڑکی پر نظر پڑی۔ لڑکی حقیقت میں چاند کا ٹکڑا تھی۔ کیسا پانی اور کیسی پیاس۔ ڈول وول چھوڑ لڑکی کے پاس آیا۔ بات کی کہ مونہہ سے پھول کیسے سچ مچ کے موتی جھڑتے ہیں۔ اتنے میں پھر جل پری سامنے آئی۔ اب وہ اور ہی شان سے آئی تھی۔

    شہزادہ سمجھا کہ یہ لڑکی کی ماں ہے۔ اس نے پری سے لڑکی کی درخواست کی۔ جل پری نے عہد و پیمان کرکے لڑکی کو شہزادے کے ساتھ کر دیا۔

    شہزادہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ لڑکی کو اپنے محل میں لے گیا۔ بہو کو دیکھ کر ساس سسرے بہت خوش ہوئے۔ بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ بن ماں باپ کی لاوارث لڑکی کو خدا نے اس کے صبر کا پھل دیا۔ بڑھیا اور بڑھیا کی تتیا ساری عمر اپنے تتیے میں کھولتی اور مینڈکوں ہی کے چکر میں رہی۔

    (اردو کے ممتاز صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کے قلم سے)

  • خدا سب کا ایک ہے!

    خدا سب کا ایک ہے!

    کسی ملک میں ابراہم نام کا ایک آدمی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ وہ ایک معمولی اوقات کا عیال دار تھا۔ مگر تھا بہت ایمان دار اور سخی۔ اس کا گھر شہر سے دس میل دور تھا۔

    اس کی جھونپڑی کے پاس سے ایک پتلی سے سڑک جاتی تھی۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو مسافر اسی سڑک سے آتے جاتے تھے۔

    رستے میں آرام کرنے کے لئے اور کوئی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو ابراہم کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا تھا۔ ابراہم ان کی مناسب خاطر داری کرتا۔ مسافر ہاتھ منہ دھو کر جب ابراہم کے گھ روالوں کے ساتھ کھانے بیٹھتے تو کھانے سے پہلے ابراہم ایک چھوٹی سی دعا پڑھتا اور خدا کا اس کی مہربانی کے لئے شکر ادا کرتا۔ بعد میں باقی سب آدمی بھی اس دعا کو دہراتے۔

    مسافروں کی خدمت کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ لیکن سب کے دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ زمانے کے پھیر میں پڑ کر ابراہم غریب ہو گیا۔ اس پر بھی اس نے مسافروں کو کھانا دینا بند نہ کیا۔ وہ اور اس کے بیوی بچے دن میں ایک بار کھانا کھاتے اور ایک وقت کا کھانا بچا کر مسافروں کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس سخاوت سے ابراہم کو بہت اطمینان ہوتا، لیکن ساتھ ساتھ ہی اسے کچھ غرور ہو گیا اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ میں بہت بڑا ایمان دار ہوں اور میرا ایمان ہی سب سے اونچا ہے۔

    ایک دن دوپہر کو اس کے دروازے پر ایک تھکا ماندہ بوڑھا آیا۔ وہ بہت ہی کمزور تھا۔ اس کی کمر کمان کی طرح جھک گئی تھی اور کمزوری کے باعث اس کے قدم بھی سیدھے نہیں پڑ رہے تھے۔ اس نے ابراہم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابراہم اسے اندر لے گیا اور آگ کے پاس جا کر بٹھا دیا۔ کچھ دیر آرام کر کے بوڑھا بولا۔ ’’بیٹا میں بہت دور سے آ رہا ہوں۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ابراہم نے جلدی سے کھانا تیار کروایا اور جب کھانے کا وقت ہوا تو اپنے قاعدے کے مطابق دعا کی۔ اس دعا کو اس کے بیوی بچوں نے اس کے پیچھے کھڑے ہو کر دہرایا۔ ابراہم نے دیکھا وہ بوڑھا چپ چاپ بیٹھا ہے۔ اس پر اس نے بوڑھے سے پوچھا۔’’کیا تم ہمارے مذہب میں یقین نہیں رکھتے، تم نے ہمارے ساتھ دعا کیوں نہیں کی؟‘‘

    بوڑھا بولا۔ ’’ہم لوگ آ گ کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘

    اتنا سن کر ابراہم غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس نے کہا۔

    ’’اگر تم ہمارے خدا پر یقین نہیں رکھتے اور ہمارے ساتھ دعا بھی نہیں کرتے تو اسی وقت ہمارے گھر سے باہر نکل جاؤ۔‘‘

    ابراہم نے اسے کھانا دیے بغیر ہی گھر سے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کر لیا۔ مگر دروازہ بند کرتے ہی کمرے میں اچانک روشنی پھیل گئی اورایک فرشتے نے ظاہر ہو کر کہا۔

    ابراہم یہ تم نے کیا کیا؟ یہ غریب بوڑھا سو سال کا ہے۔ خدا نے اتنی عمر تک اس کی دیکھ بھال کی اور ایک تم ہو جو اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہو اس پر بھی اسے ایک دن کھانا نہیں دے سکے، صرف اس لئے کہ اس کا مذہب تمہارے مذہب سے الگ ہے۔ دنیا میں مذہب چاہے بے شمار ہوں۔ لیکن خدا سب کا سچا خالق ہے اور سب کا وہی ایک مالک ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر فرشتہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ابراہیم کو اپنی غلطی معلوم ہوئی اور وہ بھاگا بھاگا اس بوڑھے کے پاس پہنچا اور اس بوڑھے بزرگ سے معافی مانگی۔ بوڑھے نے اسے معاف کرتے ہوئے کہا ۔’بیٹا اب تو تم سمجھ گئے ہو گے کہ خدا سب کا ایک ہے۔‘‘

    یہ سن کر ابراہم کو بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ یہی بات اس سے فرشتے نے بھی کہی تھی۔

    (پیرس کی ایک لوک کہانی)

  • قلعی کھل گئی….

    قلعی کھل گئی….

    اٹلی میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی رعایا اسے ناپسند کرتی تھی مگر کچھ لوگ ایسے بھی جو اس کی بہت تعریف کرتے تھے۔

    اس بادشاہ کا ایک خوشامدی وزیر تھا۔ وہ دن رات بادشاہ کی جھوٹی تعریفیں کرتا۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ اسے سچ سچ بتایا جائے کہ کون کس حالت میں ہے اور میرے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں۔ اس طرح میں ان کی رائے اور سب کے حالات صحیح طور پر معلوم کرسکوں گا۔ اس کے جواب میں دوسرے وزیر تو خاموش رہتے، مگر تعریف کرنے والا وزیر فوراً کہتا، حضور کی نیکی اور انصاف کے چرچے سارے ملک بلکہ دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ بھلا وہ کون بے وقوف آدمی ہوگا جو حضور کے انتظام سے خوش نہ ہو، ہمارے ملک کی رعایا تو بے حد آرام اور چین سے ہے۔

    بادشاہ کو اس کی باتیں سنتے سنتے شک ہونے لگا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ خوشامدی مجھ سے سچی اور صاف باتیں نہیں کرتا اور اس کے دھوکے میں اپنی رعایا کے اصل حال سے بے خبر رہوں۔ یہ سوچ کر اس نے ارادہ کیا کہ اس وزیر کو کسی طرح آزمانا چاہیے۔ پہلے تو وہ اسے باتوں باتوں میں سمجھاتا رہا کہ دیکھو دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہوتا جس کے سارے لوگ اپنے بادشاہ سے خوش ہوں اور کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ جو کسی معاملے میں بے جا فیصلہ نہ کر بیٹھے، جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ وزیر کو چاہئے کہ اس کے سامنے سچ بولے اور حق بات کہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم نڈر ہو کر میرے سامنے رعایا کا حال، ان کے خیالات اور میرے انتظام کی صحیح حالت مجھے بتا دیا کرو تاکہ میں سب لوگوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کر سکوں، لیکن وزیر اپنی خوشامد کی عادت سے باز نہ آیا اور اسی طرح جھوٹی سچی باتیں بنا کر تعریفیں کرتا رہا۔

    آخر بادشاہ نے تنگ آکر اس کی آزمائش کے لئے اس سے کہا، ہم تمہارے کام اور تمہاری باتوں سے بہت خوش ہیں اور اس صلے میں تمہیں بہت بڑا انعام دینا چاہتے ہیں۔ یہ انعام ایک دن کی بادشاہت ہے۔ کل تم بادشاہ بنو گے اور دربار میں سب امیروں، وزیروں اور رعایا کے اعلیٰ و ادنیٰ لوگوں کو جمع کر کے تمہاری دن بھر کی بادشاہت کا ہم اعلان کریں گے۔

    وزیر یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ دوسرے دن شاہی دربار میں مہمان آنا شروع ہوئے۔ ہر طبقے کے لوگوں کو دعوت دی گئی تھی اور ان کے سامنے وزیر کو بادشاہ نے اپنا تاج پہنا کر اپنے تخت پر بٹھا دیا اور اعلان کیا کہ آج کے دن ہم بادشاہ نہیں۔ آپ لوگوں کا یہ بادشاہ ہے۔ اس کے بعد سب لوگ کھانے پینے میں مصروف ہوگئے۔ خوشامدی وزیر بادشاہ بنا، بڑی شان سے تخت پر بیٹھا، نئے نئے حکم چلا رہا تھا اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔

    اصلی بادشاہ ایک دن کے نقلی بادشاہ کے پاس چپ چاپ بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک دن کے بادشاہ کی نظر جو اچانک اٹھی تو وہ ایک دم خوف سے کانپنے لگا۔ اصلی بادشاہ اس کی یہ حالت دیکھ کر مسکراتا رہا۔ قصہ یہ تھا کہ نقلی بادشاہ نے دیکھا کہ شاہی تخت کے اوپر اس جگہ جہاں وہ بیٹھا تھا سَر پر ایک چمک دار خنجر لٹک رہا تھا جو بال جیسی باریک ڈوری سے بندھا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر نقلی بادشاہ کا ڈر کے مارے برا حال ہوگیا کہ کہیں یہ بال ٹوٹ نہ جائے اور خنجر اس کے اوپر نہ آپڑے۔ اس نے ضبط کر کے بہت سنبھلنے کی کوشش کی، مگر اس سے خوف کی وجہ سے سیدھا نہ بیٹھا گیا۔

    آخر مجبور ہو کر اصلی بادشاہ سے کہنے لگا:’’حضور! یہ خنجر میرے سر پر سے ہٹوا دیا جائے۔ اصلی بادشاہ نے مسکرا کر کہا:’’یہ کیسے ہٹایا جاسکتا ہے۔ یہ تو ہر بادشاہ کے سَر پر ہر وقت لٹکا رہتا ہے۔ اسے فرض کا خنجر کہتے ہیں۔ اگر کوئی بادشاہ اپنے فرض سے ذرا غافل ہوتا ہے تو یہی خنجر اس کے سَر کی خبر لیتا ہے، لیکن جو بادشاہ انصاف اور سچائی سے حکومت کرتا ہے یہ خنجر اس کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘

    اب تو وزیر کی بہت بری حالت ہوگئی اور وہ پریشان ہو کر سوچنے لگا کہ اب کیا کرے، کیا نہ کرے۔ اس کے دل میں خیال آرہا تھا کہ ایک دن کی بادشاہت میں وہ ایسے ایسے حکم چلائے جس سے اس کے خاندان والوں، عزیزوں اور دوستوں کو خوب فائدے پہنچیں، مگر اب تو اس کے سارے منصوبے خاک میں ملتے نظر آرہے تھے۔ اس نے سوچا اگر کوئی حکم اس نے انصاف کے خلاف دیا تو یہ خنجر اس کی گردن اڑا دے گا۔ اصلی بادشاہ اس کی گھبراہٹ دیکھ کر کہنے لگا، اب تمہاری سمجھ میں آیا کہ بادشاہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کی جان کو کیا کیا عذاب جھیلنے پڑتے ہیں۔ یہ تخت آرام اور من مانی کے لیے نہیں ہے۔ رعایا کا حال اور ملکی انتظام کے بارے میں صحیح صحیح حالات بتاؤ۔

    وزیر اپنے بادشاہ کی یہ باتیں سن کر بہت شرمندہ ہوا اور جھوٹی خوشامد سے باز رہنے کی توبہ کر کے بادشاہت سے دست بردار ہوگیا۔

    (مصنّف: عشرت رحمانی)

  • چاند کی بیٹی….

    چاند کی بیٹی….

    ایک چھوٹی سی بچّی تھی۔ اس کے ماں باپ مرچکے تھے۔ وہ بچاری گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔

    ایک امیر آدمی کے گھر میں اسے بہت کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ پانی بھر کے لاتی، کھانا پکاتی۔ بچّوں کی دیکھ بھال کرتی اور اتنے کاموں کے بدلے اسے بس دو وقت کی روٹی ملتی۔ کھیلنا کودنا تو کیا دو گھڑی آرام بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ آدمی بہت چالاک اور بے رحم تھا اور اس کی بیوی تو میاں سے بھی دو قدم آگے تھی۔

    ایک رات چاند آسمان پر چمک رہا تھا اور باہر بہت سخت سردی تھی۔ امیر آدمی کی بیوی نے اس بچّی سے پانی لانے کے لیے کہا۔ بچّی پانی بھرنے باہر گئی۔ جب وہ تالاب پر پہنچی تو سردی سے اس کے پیر پتھر ہو چکے تھے۔ تالاب کا پانی بھی اوپر سے جما ہوا تھا۔ بچّی نے برف میں سوراخ کیا اور پانی کی بالٹی بھر کر گھر واپس آنے لگی۔ گھر کے قریب پہنچ کر وہ گر پڑی اور سارا پانی بہہ گیا۔ بچی گھبرا گئی۔ وہ خالی بالٹی لے کر گھر نہیں جا سکتی تھی۔ وہ دروازے پر کھڑی خوف سے کانپ رہی تھی۔ آسمان پر چمکتا ہوا چاند ہنس رہا تھا۔

    بچّی نے چاند سے کہا، ’’چندا ماموں، دیکھو تو میں کتنی دکھی ہوں۔ میری مدد کرو۔ مجھے ان ظالموں سے بچاؤ۔ یہ تو مجھے مار ڈالیں گے۔‘‘

    چاند اس کی فریاد سن کر زمین پر اتر آیا۔ وہ ایک خوب صورت نوجوان کے بھیس میں تھا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ چاند کے بڑے بھائی سورج نے بھی بچّی کی فریاد سن لی تھی۔ وہ بھی آدمی کی شکل میں سنہرے رنگ کے کپڑے پہنے زمین پر اتر آیا۔

    سورج نے چاند سے کہا، ’’میں اس دکھی لڑکی کو لینے آیا ہوں۔ اسے مجھے دے دو۔ کیوں کہ میں تم سے بڑا ہوں۔‘‘

    چاند نے کہا، ’’یہ ٹھیک ہے کہ تم بڑے ہو سورج بھائی، لیکن اس وقت رات ہے، اور میں رات کا بادشاہ ہوں۔ اس بچّی نے مجھ سے مدد مانگی ہے۔ اس لیے میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

    چاند بچّی کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ جب سے وہ ننھی بچّی چاند میں رہتی ہے۔ جب تم چودھویں کا پورا چاند دیکھو گے تو اس میں وہ ہنستی گاتی نظر آئے گی۔

    (پاکستان کی نام وَر شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کے قلم سے)

  • ایک کشتی کے چار مسافر (ترکی ادب سے ترجمہ)

    ایک کشتی کے چار مسافر (ترکی ادب سے ترجمہ)

    عرشے پر بجھے بجھے بلب کی روشنی میں چار آفراد بیٹھے تھے۔ ایک بھورے بالوں والی خاتون، ایک قصاب جس سے کچّے گوشت کی بساند آ رہی تھی، ایک گنجے سر والا پروفیسر، منہ میں پائپ تھامے ایک گورا چٹا نوجوان۔

    چاروں کے پہنچنے سے پہلے ہی آخری اسٹیمر چھوٹ چکا تھا۔ اس کشتی کے کپتان نے جو نیند میں دھت تھا، فی کس پانچ لیروں (رقم) کا مطالبہ کیا تو چاروں کود کر جھٹ کشتی میں سوار ہو گئے۔

    انجن سے چلنے والی یہ کشتی اندھیرے میں پانی کو چیرتے آگے بڑھ رہی تھی۔ بھورے بالوں والی عورت ٹانگ پر ٹانگ ٹکائے سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔ سگریٹ کے دھوئیں کو ایک شان دار انداز میں رات کی خنکی کی طرف چھوڑ رہی تھی۔

    گورے چٹے نوجوان کی نگاہیں خاتون کے گھٹنوں پر مرکوز تھیں۔ گو اس کا ذہن ابھی تک شراب خانے کی اس ویٹرس کی بھری بھری رانوں میں الجھا ہوا تھا جس سے وہ تھوڑی ہی دیر پہلے جدا ہوا تھا۔ پروفیسر کا دماغ اس مقالے میں پھنسا ہوا تھا جو وہ ٹرام میں سفر کے دوران پڑھ چکا تھا۔ قصاب ادھر مونگ پھلی کھا رہا تھا اور ادھر اس بل کے بارے میں سوچ رہا تھا جو بکروں کے تھوک کے بیوپاری نے اسے بھیجا تھا۔ چلو قرامانی بکرے کے ڈیڑھ سو لیرے مان بھی لو مگر اس ناہنجار نے پہاڑی بکروں کی قیمت ایک سو اسّی کے حساب سے کیسے لگائی ہے؟‘‘

    رات کے وقت آسمان پر ستاروں کا نام و نشان نہیں تھا۔ سمندر کی موجوں میں معمولی سا اضطراب دکھائی دیتا تھا۔ کشتی سے ٹکراتی چھوٹی چھوٹی لہروں کی پھوار کبھی کبھی تڑپال کے گدوں کو بھگو جاتی تھی۔ کشتی استنبول کے ساحلی قصبوں کو پیچھے چھوڑتی جزیروں کی جانب بڑھ رہی تھی۔

    بھورے بالوں والی خاتون کو سردی لگی ہو گی کہ وہ یکدم عرشے سی اٹھی اور ہوا سے اڑتی اسکرٹ کو تھامے تھامے کمرے کی طرف لپکی۔ اندر داخل ہوتے ہی اس کا سر چکرانے لگا۔ کیونکہ کمرہ جلتے پٹرول اور دہکتے لوہے کی ملی جلی بُو سے بھرا ہوا تھا۔ خاتون نے فوراً ایک کھڑکی کھولی اور اس کے بالمقابل بیٹھ گئی۔ چاملی جا کی ڈھلانوں سے ہوائی جہاز مار گرانے والی توپوں کی دو عدد سرچ لائٹیں اندھیرے گھپ آسمان کو کھنگال رہی تھیں۔ ان میں سے ایک آہستہ آہستہ دائیں سے بائیں حرکت کر رہی تھی جب کہ دوسری بائیں سے دائیں سرک رہی تھی۔ دونوں شعاعیں وسط میں ایک جگہ پہنچ کر اکھٹی ہوتیں تو دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا جاتیں۔

    خاتون اسی نظارے سے لطف اندوز ہونے میں مگن تھی کہ قریب ہی سے جگنو کی طرح کی کوئی عجیب سی روشنی اڑ کر سمندر میں جا گری۔ اس کے بعد ایک اور پھر اور یکے بعد دیگرے روشنی کی چنگاریوں کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہو گیا۔ عورت اپنے خیالوں میں ڈوبی کچھ دیر ایک دوسرے کا پیچھا کرنے والے ان روشنی کے مکوڑوں کو ایک ایک کر کے کالے سیاہ سمندر میں گرتے اور پھر چینی سیاہی کی طرح پگھلتے دیکھتی رہی۔ پھر اچانک اسے پگھلتے لوہے کی وہ بُو یاد آئی جس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کا استقبال کیا تھا۔ وہ اچھل کر اپنی جگہ سے اٹھی اور کپتان کے کمرے کی طرف لپکی۔ اس کمرے کے دروازے میں سے ہلکا سے دھواں باہر آ رہا تھا۔ وہ گھبرا کر دروازے کے ساتھ چمٹ گئی۔ تب اس نے چہرہ جھلساتے دھوئیں میں سے دیکھا کہ اندر کپتان اور اس کا میٹ جو رسّے سے کشتی کو ساحل سے باندھنے کا کام کرتا ہے۔ دونوں خون پسینے سے تر زمین پر آلتی پالتی مارے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ بے ہوش ہونے کو ہے پھر آگ آگ بچاؤ بچاؤ چلاّتی کمرے سے باہر کود گئی، عورت کے چلّانے کی وجہ سے عرشے پر بھگدڑ مچ گئی۔

    وہ چونکہ کپتان کے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ آئی تھی اس لیے اب دھواں اتنا گاڑھا ہو گیا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ قصاب نے گھبراہٹ میں اپنی سیٹ کی گدی اٹھا کر سینے سے بھینچ رکھی تھی۔ پروفیسر صاحب کشتی کا واحد حفاظتی جیکٹ اٹھا کر زیب تن کر چکے تھے۔ نوجوان کے منہ سے بوکھلاہٹ کے باعث پائپ نیچے گر چکا تھا۔ بھورے بالوں والی خاتون نوجوان کی طرف بھاگی اور منت سماجت کرتے ہوئی بولی۔

    ’’مجھے بچا لو……….مجھے بچا لو…………مجھے تو تیرنا بھی نہیں آتا۔‘‘

    نو جوان تھر تھر کانپتی آواز میں بولا: ’’ میں بھی نہیں جانتا تیرنا۔‘‘ حالانکہ وہ تھوڑا بہت تیرنا جانتا تھا۔ کم از کم اتنا تو ضرور جانتا تھا کہ آدھ گھنٹے کے قریب پانی کی سطح پر رہ سکتا، مگر تنِ تنہا۔ اس سے مایوس ہو کر خاتون نے قصاب سے مدد کی امید باندھی۔ مگر وہ اس وقت دونوں ہاتھ پھیلا لا کر منت مان رہا تھا۔‘‘

    اگر اس مصیبت سے میں زندہ بچ جاؤں تو اپنی جان کا صدقہ تین بھیڑیں قربان کروں گا۔‘‘

    سب سے بری حالت پروفیسر کی تھی حالانکہ اسے اپنے بڑا بہادر ہونے کا دعوی تھا۔ ابھی اسی روز صبح یہ پڑھاتے ہوئے کہ سقراط نے کیسے زندگی کو حقیر جان کر ٹھکرا دیا تھا، اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ ایک حقیقی فلسفی کے لیے ایسی راہ عمل اختیار کرنا بالکل معمولی بات ہوتی ہے اور یہ کہ وہ خود بھی سقراط کی طرح ہنستے مسکراتے موت کا خیر مقدم کر سکتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ طلبا کے ساتھ ساتھ وہ خود اپنے آپ کو بھی اپنے اس طرزِ عمل کے بارے میں یقین دلانے میں کام یاب ہو گیا تھا۔

    اس وقت میٹ بالٹی میں پانی بھر رہا تھا۔ عورت اس کے بالوں سے اٹے سینے سے چمٹ کر چلّائی۔

    ’’ خدا کا واسطہ ہے مجھے اکیلے چھوڑ کر نہ چلے جانا۔ ہرگز نہ جانا مجھے چھوڑ کر۔‘‘
    وہ یونہی شور مچا رہی تھی کہ ادھر سے کپتان کی آواز سنائی دی۔ ’’ ہنگامہ مت کرو۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ تم لوگ ضرور اس کشتی کو ڈبو کے رہو گے۔‘‘

    غصے میں ہونے کے باوجود کپتان کی آواز میں کوئی ایسا جادو تھا جس سے سب کو سلامتی کا پیغام مل رہا تھا۔ کیا آگ پر قابو پا لیا گیا تھا؟ جی ہاں، آگ بجھا لی گئی ہو گی ورنہ کپتان کو انہیں یوں جھڑکیں پلانے کی مہلت کیسے مل سکتی تھی۔ اور پھر میٹ بالٹی میں بچا ہوا پانی دوبارہ سمندر میں کیسے انڈیل سکتا تھا؟

    کپتان پھر بولا۔ ’’ خدا جانے کیسے لوگوں سے پالا پڑا ہے۔‘‘ پروفیسر کے مطابق کپتان کا غصہ بالکل جائز تھا۔ وہ اپنا کالر سیدھا کرتے ہوئے کھؤ کھؤ کر کے کھانسا اور ابھی کہنے ہی کو تھا کہ ’’ حضرات، یہ گھبراہٹ چہ معنی دارد؟ خاموش ہو جائیے۔‘‘ مگر اچھا ہی ہوا کہ وہ یہ الفاظ نہ کہہ پایا۔ کہتا بھی کیسے؟ ابھی تک حفاظتی جیکٹ اس کے جسم پر ہی رونق افروز تھا۔

    کشتی کا انجن ایک دو بار رکا اور پھر دوبارہ مزے مزے سے چلنے لگا۔ کپتان اب واپس اپنی جگہ پر پہنچ چکا تھا۔ وہ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے تک آگ کی وجہ سے لال سرخ ہو جانے والی کشتی کے انجن کو، اور شور و غوغا کرنے والے مسافروں کو جلی کٹی سنا رہا تھا۔ مگر کسی نے ذرا بھی برا نہ منایا۔ برا بھلا کہتا ہے تو کہتا رہے، گالیاں دیتا ہے تو دیتا رہے گا۔ چاہے تو بیشک سب کو پیٹ بھی لے۔ کیا یہی کچھ کم ہے کہ اس نے ہم سب کی جان بچا لی ہے۔

    میٹ اب اپنی قمیص کے بازو سے پسینہ خشک کر رہا تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ اس پورے ہنگامے میں کپتان سے کہیں زیادہ یہ بچارا تھکن کا شکار ہوا تھا۔ کوئی پندرہ منٹ بعد ہر چیز اپنے معمول پر آ چکی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے ہوا گلا گھونٹتے کثیف دھوئیں کے ساتھ ساتھ موت کے خطرے کو بھی عرشے پر سے اچک کر اڑا لے گئی ہے۔

    عرشے پر بجھے بجھے بلب کی روشنی میں اب پھر وہی چار مسافر بیٹھے تھے۔ چار مسافر جو سب کے سب اپنے آپ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ خاتون بظاہر خاصے سکونِ قلب سے ہمکنار ہو چکی تھی۔ وہ سگریٹ بھی پی رہی ہوتی، اگر اس کے ہاتھ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی کانپنا نہ شروع کر دیتے۔

    نوجوان حسبِ سابق پائپ کے کش لگا رہا تھا البتہ اب اس کی نگاہیں خاتون کے گھٹنوں پر مرکوز نہیں تھیں۔ پروفیسر پیچھے گھر میں اپنی منتظر گول مٹول بیوی اور لال لال گالوں والے بچوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جنہیں اب وہ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ پیار کرنے لگا تھا۔

    جہاں تک قصاب کا تعلق ہے تو وہ تھوڑی دیر پہلے مانی گئی منت کی تین بھیڑوں کی تعداد گھٹا کر دو کرنے کی خاطر اپنے ضمیر کو بہکانے میں مصروف تھا۔ وہ اپنی اس کوشش میں کام یاب بھی ہو چکا تھا۔ اور کام یاب بھی اس حد تک کہ جونہی بڑے جزیرے کی روشنیاں دکھائی دینے لگیں، قصاب کی قربانی کی بھیڑوں کی تعداد گھٹ کر ایک ہو گئی۔ اس ایک بھیڑ کو بھی وہ عید قربان پر ذبح کرنے کا عہد کر چکا تھا۔

    منزلِ مقصود پر پہنچتے ہی کشتی پر سے کود کر نیچے اترنے والا پہلا شخص پروفیسر تھا۔ اس کے بعد گورا چٹا نوجوان جو سیٹیاں بجاتا، ڈانس میوزک کی دھنیں سناتا چلا جا رہا تھا۔ قصاب بھاگتا بھاگتا، اچھلتا کودتا، ایک بچّے کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے
    اوجھل ہو گیا۔ بھورے بالوں والی خاتون کی باری سب سے آخر میں آئی۔ اسے ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ ڈولتی کشتی میں سے چھلانگ لگا کر ساحل پر جا اترے۔ میٹ نے ہاتھ بڑھا کر اس کی مدد کرنے کی پیشکش کی مگر خاتون بھلا اس پسینے کی بو والے، میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس شخص کا بازو تھامنے پر کیسے راضی ہو سکتی تھی؟ اس نے ہچکچاتے ہوئے اناڑیوں جیسی جست لگائی اور خود کو ساحل پر پہنچا دیا۔ پھر اپنی جوتی کی ایڑیوں کے بل نہایت پُر وقار طریقے سے خراماں خراماں ساحل سے دور ہوتی چلی گئی۔

    (افسانہ نگار: یشار کمال، ترکی، اردو مترجم: مسعود اختر شیخ)

  • نوسر باز کا قصّہ (عربی ادب سے ماخوذ)

    نوسر باز کا قصّہ (عربی ادب سے ماخوذ)

    ایک دفعہ ایک چالاک اور دھوکے باز شخص نے کہیں سے ایک گدھا چوری کیا اور اسے فروخت کرنے کے لیے قریبی بازار لے گیا۔ بازار جانے سے پہلے اس نے گدھے کے منہ میں اشرفیاں ٹھونس کر کپڑے سے اچھی طرح بند کر دیا۔

    بازار کی پُر ہجوم جگہ پر کھڑے ہوکر اس نے گدھے کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا، جیسے ہی کپڑا ہٹا گدھے کے منہ سے اشرفیاں نکل کر زمین پر گرنے لگیں۔ سکّوں کی جھنکار سن کر لوگ متوجہ ہوگئے، اور حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ گدھے کے منہ سے سکّے وہ بھی سونے کے! یہ کیا ماجرا ہے؟

    دھوکے باز کہنے لگا، بھائیو یہ ایک عجیب و غریب گدھا ہے اور میں اس سے بہت تنگ ہوں، میں جب بھی پریشان یا اداس ہوتا ہوں تو دن میں ایک بار اس کے منہ سے سونے کی اشرفیاں گرنے لگتیں ہیں۔ اب تو میرے گھر میں اشرفیاں رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچی، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اسے کوئی ضرورت مند اور جانوروں سے پیار کرنے والا تاجر خرید لے۔ لوگوں نے اشرفیاں گرتی ہوئی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھیں اور باقی کا قصّہ سن کر ہر کسی کی خواہش یہی تھی کہ یہ گدھا جتنے میں بھی مل جائے سستا ہے۔

    ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بولیاں لگاتے ہوئے، آخر کار ایک بڑے تاجر نے خطیر رقم کے عوض اسے خرید لیا۔ فروخت کرنے والے نے رقم اور زمین پر گرے ہوئے سکّے سمیٹے اور گھر چلا گیا۔

    جس تاجر نے گدھا خریدا تھا، وہ فخر سے گردن اکڑائے ہوئے چل رہا تھا اور اہلِ قریہ اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے اس کے گھر تک پہنچ گئے۔ سارے لوگ مل کر اداس اور پریشان شکلیں بنا کر گدھے کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ لوگ گھنٹوں بیٹھ کر انتظار کرتے رہے اور بالآخر وہ سچ مچ پریشان ہوگئے۔ اس دوران گدھا جو کب سے بھوکا تھا اس نے خوب چارہ کھایا مگر ایک سکّہ تک نہ گرا۔

    آخر وہاں سے کسی دانا کا گزر ہوا۔ اس نے بتایا کہ تمھارے ساتھ دھوکا ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے کہ فروخت کرنے والا بھاگ جائے، فوراً اس دھوکے باز کو پکڑو۔ وہ تاجر اور اہلِ قریہ اکٹھے ہو کر جب اس دھوکے باز کے گھر کے باہر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹا کر اس کے متعلق استفسار کیا تو اندر سے اس دھوکے باز کی بیوی نے کہا کہ وہ تو کہیں کام سے دوسرے گاؤں گئے ہوئے ہیں۔ آپ باہر ہی انتظار کریں میں اپنا پالتو کتّا بھیجتی ہوں، یہ جاکر انہیں آپ کے متعلق بتائے گا اور انہیں ہر صورت ساتھ بھی لے کر آئے گا۔ لوگ دل چسپی سے دیکھنے اور سوچنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کتّا اپنے مالک کو گھر لائے۔

    دراصل اس چالاک شخص نے جب دیکھا کہ تمام لوگ اس کے گھر کے باہر جمع ہیں تو اس نے اپنی بیوی کو کتّے والی پٹی پڑھائی۔ گھر میں پہلے سے بندھے ہوئے کتّے کو آزاد کیا اور خود گھر کی پچھلی سمت سے چپکے سے نکل گیا۔ دور جاکر اس نے کتّے کو پکڑ لیا اور اس کے ساتھ واپس گھر کی طرف چل دیا۔

    تھوڑی دیر گزری تو لوگوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہی شخص جس نے گدھا فروخت کیا تھا، اسی کتّے کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا آرہا تھا۔ اب سارے لوگ یہ بات بھول کر کہ وہاں کیوں آئے ہیں، کتّے کے متعلق پوچھنے لگے کہ یہ تو بڑے کام کا ہے، بتاؤ یہ کتنے کا ہے؟ اسے تو ہر صورت خریدنا ہوگا۔

    اس دھوکے باز اور چالاک شخص نے پہلے تو انکار کیا لیکن بعد میں اچھے دام ملنے پر وہ کتّا اسی ہجوم میں سے ایک دوسرے تاجر کو فروخت کر دیا۔ اب لوگ ٹولی کی شکل میں صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ کتّا گھر سے گئے ہوئے شخص کو کیسے واپس لے کر آتا ہے اس تاجر کے ساتھ چلتے گئے۔

    تاجر نے گھر جاکر غلام کو کہا کہ تم ساتھ والے گاؤں جاؤ تاکہ کتّا تمھیں ڈھونڈ کر واپس لے آئے۔ غلام جیسے ہی دوسرے گاؤں پہنچا وہاں سے بھاگ نکلا اور کتّا بھی کہیں دور چلا گیا جو واپس نہ آیا۔ جب غلام اور کتّا دونوں واپس نہ آئے تو لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ ایک بار پھر ہمارے ساتھ دھوکا ہوگیا ہے۔

    وہ دوبارہ اکٹھے ہوکر جب اسی دھوکے باز کے گھر گئے تو وہ ایک بار پھر گھر کے پچھلے خفیہ دروازے سے بھاگ نکلا، اور اس کی بیوی کہنے لگی وہ ساتھ والے گاؤں کسی کام سے گئے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ آج ہم اس کا گھر کے اندر بیٹھ کر انتظار کریں گے، اور یوں دونوں تاجروں سمیت ارد گرد کے تمام لوگ اس کے گھر میں بیٹھ گئے۔

    کافی دیر جب گزر گئی تو وہی دھوکے باز گھر میں داخل ہوا اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے ان کے سامنے جھک جھک کر آداب بجا لانے لگا اور بیوی سے پوچھنے لگا کہ میرے خاص مہمانوں کی تکریم میں تم نے کیا کیا؟ ان مہمانوں کو کچھ کھانے پینے کو دیا یا بھوکا ہی بٹھایا ہوا ہے؟

    وہ لوگ دل ہی دل میں شرمندہ ہونے لگے کہ ہم جسے دھوکے باز سمجھ رہے ہیں وہ تو بڑا سخی اور مہمان نواز بندہ ہے۔ اس کی بیوی نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ان فضول اور فالتو لوگوں کو کون اپنا مہمان بناتا ہے، میں نے تو انہیں پانی تک نہیں پوچھا۔ یہ سن کر وہ شخص غصے میں پاگل ہوگیا اور جیب سے ایک خنجر نکال کر بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ فوراً لہو بہہ نکلا اور اس کی بیوی لہرا کر نیچے فرش پر گر پڑی۔

    وہاں بیٹھے ہوئے لوگ اسے برا بھلا کہنے لگے کہ ہمارے پیسوں کو تو رہنے دو لیکن ہمارے لیے اپنی بیوی کو قتل کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ وہ چالاک اور دھوکے باز کہنے لگا، آپ لوگ فکر نہ کرو یہ ہمارا روزانہ کا کام ہے۔ میں اسے غصے میں آکر قتل کر دیتا ہوں تو دوبارہ اس سینگ سے زندہ بھی کر دیتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے دیوار پر ٹنگے ہوئے کسی جانور کے بڑے سے سینگ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر وہ سینگ اتارا اور مری ہوئی بیوی کے پاس بیٹھ کر سینگ کو منہ میں دبا کر سپیروں کی طرح جھوم جھوم کر پھونک مار کر بجانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہی مقتولہ جو کچھ دیر پہلے سب کے سامنے خنجر کے وار سے ہلاک ہوچکی تھی۔ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ تمام لوگ حیرت زدہ رہ گئے، اور ایک بار پھر وہ سب یہ بات بھول کر کہ یہاں کیوں آئے ہیں، اس سینگ کو خریدنے کے درپے ہوگئے۔

    دھوکے باز نے بولی بڑھانے کی خاطر کہنا شروع کردیا کہ یہ طلسماتی سینگ پوری دنیا میں ایک ہی ہے جو صرف میرے پاس ہے اور میں اسے کسی بھی قیمت پر فروخت نہیں کروں گا۔ کرتے کرتے ایک بڑے تاجر نے سب سے زیادہ رقم ادا کرکے وہ سینگ خرید لیا، اور سینگ خرید کر وہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

    جس نے سینگ خریدا تھا، کہنے لگا، میں جو اپنی بیوی کی چخ چخ سے تنگ ہوں، آج اگر اس نے لڑائی کی تو مار دوں گا اور رات سکون سے گزار کر صبح سینگ کی مدد سے زندہ کرلوں گا، لیکن درحقیقت اس دھوکے باز نے جب اپنے گھر کے باہر لوگوں کا اکٹھ دوبارہ دیکھا تھا تو فوراً منصوبہ بنا کر اس میں اپنی بیوی کو شامل کرلیا تھا۔ لال رنگ کو ایک تھیلی میں ڈال کر بیوی کے کپڑوں میں چھپا دیا، پھر ایک خنجر لیا جس کے دستہ میں خفیہ خانہ اور ایک بٹن تھا جس کو دبانے سے خنجر کا پھل اپنے دستے میں غائب ہوجاتا تھا۔ اور ایک پرانا بیکار سینگ لے کر دیوار پر ٹانگ دیا اور خود گھر کے خفیہ رستے سے نکل کر تھوڑی دیر روپوش رہ کر واپس آگیا۔ اور پھر بیوی کو زندہ کرنے کا ڈرامہ رچا کر بیکار سینگ فروخت کردیا تھا۔

    جس نے سینگ خریدا تو جیسے ہی گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے حسبِ معمول لڑائی شروع کر دی۔ اس نے بے فکر ہو کر خنجر نکالا اور بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا، خون نکلا، وہ تڑپی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ اس نے اٹھا کر کمرے میں لٹا دیا اور پوری رات ایسے ہی رہنے دیا، صبح اٹھ کر اس نے بہتیرا سینگ کو مختلف طریقوں سے بجایا مگر وہ تو مردہ ہوچکی تھی، دھیرے دھیرے اسے اپنی بیوقوفی کا احساس ہونے لگا، وہ پچھتاوے کے احساس کے ساتھ گھر سے نکلا تو باہر تمام لوگ اس کے منتظر تھے کہ پتا کریں رات کیا بیتی اور سینگ نے کیا کمال دکھایا۔ وہ شخص دکھ اور شرمندگی کو چھپانا چاہتا تھا مگر کچھ لوگوں نے جب اصرار کیا تو اصل بات اگلوا ہی لی۔ اب کی بار انہوں نے پکا ارادہ کر لیا کہ اس نوسر باز کی کسی بات میں نہیں آنا، اور اس کو دیکھتے ہی قابو کرکے ایک بوری میں بند کرکے سمندر برد کر دینا ہے۔

    سب نے اس پر اتفاق کیا، ایک بار پھر وہ لوگ اکٹھے ہو کر اس دھوکے باز کے گھر پہنچے اور اندر جاکر اسے قابو کرلیا، بڑی سی بوری میں ڈال کر سمندر کی طرف چل دیے۔
    سمندر وہاں سے کافی دور تھا۔ بوری میں بند دھوکے باز شخص کو باری باری اٹھاتے ہوئے وہ سب لوگ تھک گئے تھے۔ سمندر سے نصف فاصلے پر پہنچ کر انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر سستا لیتے ہیں، اس کے بعد آرام سے اسے پانی میں پھینک دیں گے۔ وہ لوگ تھکے ہوئے تھے، اس لیے جیسے ہی آرام کرنے کے لیے رکے تو انہیں نیند نے آ لیا اور وہ بے فکر ہو کر سو گئے۔ بوری میں بند شخص نے بھوک اور پیاس سے بے حال ہو کر چیخنا چلانا شروع کر دیا، مگر وہ تمام لوگ تو خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ اسی اثناء میں وہاں سے ایک چرواہے کا گزر ہوا اس نے دیکھا کہ لوگوں کا جمِ غفیر آڑھا ترچھا ہوکر سو رہا ہے، اور ایک طرف پڑی بوری سے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی ہیں۔

    اس نے بھیڑ بکریوں کو ایک طرف کھڑا کیا اور آگے بڑھ کر جب بوری کھولی تو اس نے دیکھا کہ اس کے اندر تو کوئی شخص بند ہے۔ چرواہے نے پوچھا کہ ایک شخص تُو کون ہے، یہ ارد گرد سوئے ہوئے لوگ کون ہیں؟ اور تجھے بوری میں کیوں بند کیا ہوا ہے، یہ ماجرا کیا ہے؟

    دھوکے باز نے کہا سنو! یہ تمام لوگ میرے خاندان کے ہیں، یہ میری شادی سمندر پار ایک شہزادی سے زبردستی کرانا چاہتے ہیں، مگر مجھے مال و دولت کی ذرا بھی ہوس نہیں ہے، میں تو اپنی چچا زاد لڑکی سے محبت کرتا ہوں۔ چرواہا اس کی باتیں سن کر بڑا متاثر ہوا، اور کہنے لگا، بتاؤ کیا میں تمھارے کسی کام آسکتا ہوں؟ دھوکے باز کہنے لگا ہاں ہاں کیوں نہیں، تم میری جگہ اس بوری میں آجاؤ، اور جب شہزادی کے سامنے بند بوری کھلے گی تو پھر اس کا تم سے شادی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ چرواہا یہ سن کر خوش ہوگیا اور ہنسی خوشی اس دھوکے باز کی جگہ بوری میں بند ہوکر بیٹھ گیا۔ دھوکے باز نے وہاں سے چرواہے کی بھیڑ بکریوں کو ساتھ لیا اور واپس اپنے گھر آگیا۔

    وہ لوگ جب نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے بوری کو اٹھایا اور چلتے چلتے آخر کار سمندر میں پھینک دیا، اور مطمئن ہوکر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔

    اگلے دن انہوں نے دیکھا کہ دھوکے باز شخص کے گھر کے باہر تین چار سو کی تعداد میں بھیڑ بکریاں بندھی ہوئی ہیں۔ وہ بڑے حیران ہوکر جب وہاں گئے تو دیکھا کہ جس کو سمندر میں پھینک کر آئے تھے وہ تو گھر میں بیٹھا اپنی بیوی سے گپیں لڑا رہا ہے۔ انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ، ہم نے تو تمھیں کل سمندر میں پھینکا تھا، اور آج تم صحیح سلامت اپنے گھر میں ہو اور باہر بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بھی ہے؟

    وہ دھوکے باز شخص کہنے لگا، جب تم لوگوں نے مجھے سمندر میں پھینکا تو وہاں سے ایک جل پری نمودار ہوئی اور وہ مجھے اپنے ساتھ زیرِ سمندر بنے گھر میں لے گئی، وہاں ہیرے جواہرات اور موتیوں سے بنے ہوئے بے شمار محل اور ہزاروں کی تعداد میں مال مویشی تھے۔

    جل پری نے مجھے مہمانوں کی طرح رکھا اور میری خوب خاطر مدارات کی، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی اور وہاں کا حاکم بنانا چاہتی تھی، مگر جب میں نے کہا کہ میری پہلے سے ایک بیوی ہے اور میں اپنے گھر جانا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کوئی بات نہیں اور اپنی طرف سے بھیڑ بکریوں کا تحفہ دے کر کہنے لگی کہ اگر تمھارے علاقے میں کوئی ایسا ہوا جو یہاں کی جل پریوں سے شادی کر کے یہاں عیش و عشرت کی زندگی گزارنا چاہتا ہو تو اسے یہاں لے آنا۔ یہ بات سننے کی دیر تھی کہ وہاں آئے ہوئے تمام بوڑھے اور جوان کہنے لگے ہم وہاں جانا چاہتے ہیں اور وہاں جاکر حاکم بننا چاہتے ہیں۔

    اس دھوکے باز شخص نے کہا کہ تم تو صرف چند افراد ہو اگر اس قصبے کے تمام لوگ بھی وہاں چلے جائیں تو پھر بھی کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم قصبے کے ہر شخص کو اپنے ساتھ جانے کے لیے راضی کر لیں گے۔ دھوکے باز نے کہا ٹھیک ہے کل صبح کے وقت سمندر کے کنارے ہر شخص اپنے لیے ایک بوری اور ایک رسی لے کر پہنچ جائے، اور وہاں پہنچ کر ہر شخص ایک دوسرے کو بوری میں بند کرنے میں مدد کرے گا۔

    اگلے روز صبح کے وقت دھوکے باز شخص نے سب کو بوری میں بند کیا اور اپنی بیوی کی مدد سے تمام بوریوں کو سمندر میں پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ بیوقوفوں کے قصبے کا تن تنہا مالک بن گیا۔

    (ماخذ: عربی قصص و عبر مِن قدیم زمان، اردو ترجمہ: توقير بُھملہ)

  • فقیہ کی دستار اور چور

    فقیہ کی دستار اور چور

    ایک دفعہ کسی فقیہ نے کپڑے کی بہت سے چندیاں دھوئیں اور پاک صاف کرکے انہیں اپنے سَر پر عمامے کے نیچے اس طرح‌ باندھ لیا کہ اس کا عمامہ بلند اور وزنی دکھائی دے اور لوگ سمجھیں کہ بڑا عالم فاضل ہے جس کے سَر پر ایسی بھاری دستار سجی ہوئی ہے۔

    بلاشبہ ان حقیر اور بے قیمت دھجیوں سے دستار کا وزن دگنا تگنا ضرور ہوگیا، لیکن قلبِ منافق کی طرح وہ اندر سے پست، کم حیثیت اور بے قیمت ہی تھی۔ دراصل فقیروں کی گدڑیوں کے ٹکڑے، بوسیدہ اور سڑی ہوئی روئی اور پوستین کی دھجیاں اس عمامے کی بنیاد تھیں۔

    وہ فقیہ یہ وزنی عمامہ سَر پر باندھ کر اگلے روز صبح سویرے ایک مدرسے کی طرف چلا۔ وہ خیال کررہا تھا کہ وہاں اس کی یہ اونچی اور سجیلی دستار اس کی عزت و عظمت کا ایک سبب بنے گی۔ وہ سمجھ رہا تھاکہ عزّت اور تکریم ہی نہیں کچھ ہدیہ بھی اپنی جانب متوجہ ہونے والوں سے حاصل کر سکے گا۔

    راستے میں‌ ایک چور نے تاڑ لیا کہ ایک قیمتی دستار والا چلا آرہا ہے۔ جوں ہی وہ فقیہ نزدیک آیا چور نے دستار جھپٹ لی اور بھاگا تاکہ اسے بازار میں بیچ کر ٹکے کھرے کرے۔

    فقیہ نے اُسے آواز دی کہ ارے بھائی! یہ دستار کدھر لیے جاتا ہے اور کس دھوکے میں ہے؟ ذرا اسے کھول کر بھی دیکھ لے اس کے بعد جی چاہے تو بڑے شوق سے لے جا۔ میں نے تجھے عطا کی۔

    فقیہ کی یہ آواز سن کر اُچکے نے دوڑتے دوڑتے اس وزنی دستار کو کھولا اور ایک جگہ سے اس کی سلائی ادھیڑ دی۔ اس میں سے رنگ برنگی کپڑوں کی دھجیاں نکل نکل کر زمین پر گرنے لگیں۔ یہاں تک کہ اس کے ہاتھ میں بوسیدہ کپڑا رہ گیا جسے جھّلا کر زمین پر پھینکا اور رک کر کہنے لگا۔

    اے غریب اور فریبی انسان! تُو نے اس دغا بازی سے خواہ مخواہ میری محنت برباد کی۔ یہ کیسا فریب دیا تُو نے کہ ظاہر میں ایسی عمدہ دستار بنائی جس نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں‌ تیرے سر سے کھینچ لوں اور بازار میں بیچ کر مال بناؤں؟ تجھے ذرا حیا نہ آئی ایسا مکر کرتے ہوئے۔ وہ افسوس کرنے لگا کہ بیٹھے بٹھائے ایک گناہ کیا اور وہ بھی بے لذّت۔

    فقیہ نے اس کی بات سن لی تھی۔ اس نے چور کو جواب دیا، تُو سچ کہتا ہے کہ بے شک یہ دھوکا تھا، لیکن یہ سوچ کہ بطور نصیحت تجھے آگاہ بھی کردیا کہ لے جانے سے پہلے اسے کھول کر دیکھ لے۔ اب مجھے لعنت ملامت کرنے سے فائدہ؟ کچھ میرا قصور ہو تو بتا۔ اس لٹیرے نے فقیہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    سبق: اے عزیز! فقیہ کی اس وزنی اور بظاہر قیمتی دستار کی طرح یہ دنیا بھی بڑی بھاری اور بیش قیمت نظر آتی ہے مگر اس کے اندر جو عیب پوشیدہ ہے اس کا بھی اس نے سب پر اظہار کر دیا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

  • نابینا لڑکی

    نابینا لڑکی

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو یہ حقیقت جاننے کے بعد بھی کہ وہ لڑکی نابینا ہے اس سے شادی کرتا ہے جو اس کے باپ کے دوست کی بیٹی ہے۔

    اس لڑکی کی پہلی بارات آئی تھی تو لڑکے والوں کی جانب سے لڑکی پر بہتان لگاتے ہوئے اسے لوٹا دیا گیا تھا۔ اس شخص نے بھی ان باتوں کو سچ جانا تھا اور نابینا لڑکی کے باپ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔ مگر ایک رات اس نے سرگوشی کی وہ آواز سنی جس پر وہ اس نابینا اور بہتان لگائی گئی لڑکی سے شادی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ کہانی پڑھیے۔

    میرے گھر کے برابر دیوار بیچ، ایک قاضی صاحب کا مکان تھا۔

    بیچارے ایک زمانے میں بڑے متمول آدمی تھے، مگر ریاست کی زندگی خصوصاً ملازمت انقلاب کی تصویر ہوا کرتی ہے۔ ذرا راجہ صاحب کے کان بھرے اور بے قصور پر آفت برپا ہوگئی۔ اسی طرح ان شریف قاضی صاحب کے تموّل نے افلاس کا پہلو بدلا، اور فقط پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار کی قلیل رقم بہ ہزار دقت بچ بچا کر رہ گئی۔ اسی پر صبر شکر کے ساتھ قانع تھے اور اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالتے تھے۔

    عربی اور فارسی کی قابلیت کے لحاظ سے دور دور تک ان کا شہرہ تھا، اور باہر سے اکثر اشخاص مشکل سے مشکل مسئلے حل کرانے آتے تھے۔

    قاضی صاحب کی صاحب زادی کی شادی کی تقریب جب ہوئی تو نکاح میں مجھے بھی مدعو کیا گیا مگر چند دو چند ضروریات کی وجہ سے میں شامل نہ ہو سکا۔ مگر ہمسایہ تھا، واقعات کی خبر برابر مل گئی۔ معلوم ہوا کہ دولھا کو پہلے سے اس لڑکی کی نسبت جس سے اب اس کی قسمت وابستہ ہونے والی تھی کچھ بھی معلوم نہ تھا، اور عین نکاح کے وقت نامعلوم کس بات کے علم پر اس نئی روشنی کے شیدا نے شادی سے قطعی انکار کر دیا۔ طرفین کی بڑی بدنامی ہوئی۔ اور آخر کار بارات واپس آگئی۔

    اس کے بعد خود دولھا سے میری راہ و رسم ہو گئی اور اس کی وجہ اس نے غریب لڑکی کی بدچلنی بیان کی۔ یہ سن کر میرے خیالات بھی قاضی صاحب کی طرف سے خراب ہونے لگے، اور میں نے ان سے ملنا جلنا کم کر دیا۔ راستہ میں بھی ان سے کترا کر نکل جاتا۔ وہ دراصل مجھ سے محبت کرتے اور میرے والد بزرگوار کے بڑے سچّے دوست تھے۔

    اسی طرح چھ مہینے گزر گئے، اب گرمی کا موسم آ پہنچا۔ میری والدہ ضعیفہ تو صحن میں سویا کرتی تھیں۔ مگر میں اکیلا چھت پر لیٹا کرتا تھا۔ ایک دفعہ مجھے خوب یاد ہے جمعہ کا دن تھا۔ چلچلاتی گرمی تھی۔ پہر بھر دن سے ہوا بند تھی، دونوں وقت ملتے ہی مارا مارا کرکے میں نے کھانا کھایا اور سیدھا کوٹھے پر جا پڑا۔ چاروں طرف اجلی چاندنی چٹکی ہوئی تھی اور تارے اکا دکا نظر آتے تھے۔ دو تین گھنٹے یوں ہی کروٹیں بدلتے اور ہاتھ پاؤں مارتے کٹے۔ خداخدا کر کے 11 بجے ہوا ذرا سرسرائی اور کچھ جان میں جان آئی۔

    نیند کی غنودگی میں یکایک مجھے یہ معلوم ہوا کہ کوئی میرے سرہانے بول رہا ہے۔ میں فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھا۔ مگر آدمی تو آدمی پرچھائیں تک دکھائی نہ دی۔ اتنے میں ہوا کے جھونکے کے ساتھ ایک درد بھری آواز قاضی صاحب کی چھت سے آئی۔

    ’’خدا جانے کیونکر بدنامی ہوتی ہے۔ مگر خیر ربُّ العالمین خوب جانتا ہے، مجھے کسی سے غرض ہی کیا! پاک پروردگار!! میں نہیں چاہتی کہ میری شادی ہو۔ مجھ دکھیاری اندھی کو کون قبول کرے گا؟ مگر ہاں یہ ضرور ہے کہ میں پاک ہوں اور باعصمت ہوں۔ آپ سے میں یہ چاہتی ہوں کہ میری بدنامی نہ ہو، اور برا کہنے والوں کا منہ تو بند کر دے۔‘‘ ان درد بھرے جملوں کے بعد پھر کوئی آواز قطعی نہ آئی۔

    یہ الفاظ میرے چوٹ کھائے ہوئے دل کے ساتھ نمک کا کام کررہے تھے، اور میری ساری رات آنکھوں میں کٹی۔ صبح ہوتے ہی میں جناب والد صاحب کی اجازت پر ایک دوست کے ذریعے سے پیغام بھیجا اور قاضی صاحب کی غلامی میں اپنے آپ کو دینا چاہا۔ مگر ان سچّے اور پاک باز انسان نے اس کے جواب میں آب دیدہ ہو کر کہا کہ ’’ان سے کہہ دینا، ابھی صاحب زادہ ہو، نا تجربہ کار ہو۔ کیوں اپنی زندگی تلخ کرتے ہو۔ وہ بدنصیب لڑکی اندھی ہے۔ میں تمہارے والد کا نیاز مند ہوں۔ قیامت کے دن انھیں کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘

    بمشکل تمام میں نے قاضی صاحب کو کئی دنوں میں مجبور کر لیا، اور اس مصیبت زدہ نابینا لڑکی سے چپ چپاتے شادی کر لی۔ اب وہ میرے گھر میں آئی اور میری بیوی بن کر رہنے لگی۔ اس کی خصائل کی نسبت میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ صبر، قناعت، سچائی، ہمدردی، محبت اور پاک بازی کی مجسم تصویر تھی۔ اکثر اوقات پچھلی رات کبھی میری آنکھ کھل جاتی۔ تو میں ایک عجیب مؤثر نظارہ دیکھتا۔ وہ پلنگ پر لیٹے لیٹے نہایت عاجزی کے ساتھ دعا میں مشغول ہوتی اور ہزار ہزار طرح سے پہروں میری ترقّی، آرام اور آسائش کے لیے دعائیں مانگتی حتّٰی الامکان میں اس کی خوشی کا خیال از حد رکھتا۔ جب تک میری والدہ ضعیفہ زندہ تھیں۔ میری نابینا بیوی کو میرے حاضر و غائب میں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچی، مگر انھوں نے بھی ایک دن اس دارِ فانی کو الوداع کہا اور ان کے صدمے نے میری ہمت پست کردی۔

    اب گھر میں صرف ایک خادمہ تھی اور ڈیوڑھی پر ایک نوکر۔ والدہ صاحبہ کی آنکھیں بند ہوتے ہی خادمہ نے اسے تکلیف پہنچانی شروع کی، مگرمیں سچ عرض کرتا ہوں، کبھی بھول کر بھی اس نے خادمہ کی شکایت مجھ سے نہیں کی، اور مجھے قطعی اس بات کی اطلاع نہیں ہوئی۔

    ایک روز اتفاقیہ خلافِ معمول دوپہر کو گھر میں واپس آیا۔ جب کہ میری بیوی کھانا کھا رہی تھی اور خادمہ دسترخوان کے پاس بیٹھی تھی۔ سالن وغیرہ دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا، اور اس ماما کو برا بھلا کہنے لگا کیوں کہ پورے خرچ پر بھی کھانا بہت خراب تھا، اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجھے اچھا کھلاتی تھی اور میری غریب نابینا بیوی کے سامنے روکھی سوکھی روٹیاں اور بچا کھچا سالن رکھ دیتی تھی اور باقی سب اچھا اچھا تیر کر جاتی تھی۔

    اسی دن سے میں صبح کو جب تک میری قابلِ رحم بیوی ضروریات اور نماز سے فارغ نہ ہو لیتی تھی، باہر نہ جاتا، اور دوپہر سے پہلے واپس آکر کھانا اسی کے ساتھ کھاتا۔ پھر شام سے ہی گھر میں آپڑتا اور تمام رات کہیں نہ نکلتا۔ اس کی سچّی محبت اور راست بازی نے اس قدر میرے دل میں گھرکر لیا تھا کہ اکثر ماما کے نہ ہونے پر میں خود کام کرتا۔ اس کے لیے وضو وغیرہ کے لیے پانی لانے میں مجھے عار نہ تھا۔ اس طرح گھر میں گھسے رہنے کی وجہ دوست احباب مجھ پر فقرے کسنے لگے اور میرے ہم عمر میرا مذاق اڑانے لگے۔ مگر میں نے پروا نہ کی اور میرے معمول میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا۔

    اسی اثنا میں ان نئی روشنی کے نوجوان کی جس نے میری نابینا بیوی پر جھوٹا الزام لگایا تھا، بڑی دھوم دھام سے شادی ایک متمول لڑکی سے ہو گئی۔ مشکل سے ایک برس گزارا ہوگا کہ شکر رنجی ہوئی اور بڑھتے بڑھتے خانہ جنگیوں کی نوبت آئی۔ تمام شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ان کی بیوی آوارہ ہے۔ انھوں نے اس کو نکال دیا۔ اس نے میکے پہنچتے ہی نان نفقہ اور مہر کی نالش ٹھوک دی، اور نئی روشنی کے نوجوان کو چھٹی کا کھایا ہوا یاد آگیا۔ غرض خوب عرضی پرچہ ہوتا رہا۔ ان پر بیوی کی ڈگری ہوگئی۔ اب انھوں نے خاندان کے بزرگوں کے سامنے منت سماجت کی اور صلح ہو گئی۔ ان کی بیوی گھر میں آگئی۔ مگر تھوڑے عرصے کے بعد پھر وہی تکا فضیحتی شروع ہوگئی۔ بہرحال ڈگری کے خوف سے وہ غصہ دباتے اور بیوی کی جوتیاں کھاتے رہتے۔

    اس دارِ ناپا ئیدار کے قانون کے موافق مجھ بدنصیب پر ایک اور مصیبت آئی۔ میری نابینا بیوی کو بخار آنے لگا، میں نے ڈاکٹر، حکیم، ملاّ، سیانے، دوا، ٹھنڈائی، گنڈا غرض کچھ نہ چھوڑا۔ مگر بخار میں کمی نہ ہونی تھی نہ ہوئی۔

    میں نے بالکل ہر جگہ کا آنا جانا چھوڑ دیا۔ وہ برابر چھ مہینے تک بیمار رہی۔ میں نے ہر قسم کی خدمت کی۔ یہاں تک کہ چوکی پر لے جانا۔ دوائی پلانا وغیرہ میرا روزانہ معمول تھا۔ کئی بار میرے اگال دان اٹھاتے ہی ابکائی آئی، اور جونہی میں نے اگال دان سامنے کیا اس نے ڈالنا شروع کیا جس سے میرے ہاتھ بھی بھر گئے۔ اگرچہ میں شہر میں نازک مزاج مشہور ہوں۔ لیکن بخدا کبھی مجھے ایسی کراہت نہیں آئی کہ محبت پر غالب آتی۔

    ایک دن اس نے متواتر بارہ گھنٹے آنکھ نہ کھولی اور مجھے از حد تشویش ہوئی۔ رات کے تقریباً نو بجے جب کہ اس کا سر میرے زانو پر تھا۔ اسے ہوش آیا۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا۔ ’’تم اس قدر کیوں تکلیف اٹھاتے اور مجھے شرمندہ کیے جاتے ہو؟ میں اس شرمندگی سے مر جاؤں تو اچھا ہے۔ تمہیں ماما پر اعتبار نہ ہو تو اپنی شادی کسی سے کرلو۔ وہ گھر کا انتظام خود کرے گی، اور تمہیں اس قدر درد سری نہیں کرنی پڑے گی۔ یہ نہ سمجھنا کہ مجھے سوکن کا خیال ہوگا۔ تمہارا یہی ایک احسان کہ تم نے میرا سرتاج بننا منظور کیا، ایسا ہے جس کا میں کسی طرح بدلہ نہیں دے سکتی۔ تم نے میرے ساتھ شادی کر کے واقعی اپنے اوپر بڑا ظلم کیا۔

    کچھ نہ پوچھیے کہ ان الفاظ نے میرے ساتھ کیا کیا۔ میرے خون میں چکر آیا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے کلیجہ تھام لیا۔ حالت روز بروز خراب ہوتی گئی۔ قاضی صاحب دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اس لیے اس نے اپنی والدہ کو بلایا اور درد بھرے الفاظ کے ساتھ مہر معاف کر دیا، اور میں روتے روتے بے ہوش ہوگیا۔ اسی دن سے ہچکی لگ گئی۔ اس کے آخری الفاظ یہ تھے ’’اگر تم کو تکلیف ہوئی تو میری روح کو صدمہ ہوگا۔‘‘