Tag: مشہور کہانیاں

  • "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    ایک بادشاہ کو اس کے وزیروں اور مشیروں نے بتایا کہ حضور آپ کی سلطنت میں دو ایسے شخص بھی رہتے ہیں جن سے ان کے اڑوس پڑوس والے بے حد تنگ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں دربار میں طلب کرکے سرزنش کی جائے۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ مجھے ان کے متعلق تفصیل بتاؤ تاکہ دیکھا جاسکے کہ ان کا قضیہ دربارِ شاہی میں لانے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔

    وزیر نے عرض کی کہ بادشاہ سلامت ان دونوں میں سے ایک حاسد ہے اور ایک بخیل، بخیل کسی کو کچھ دینے کا روادار نہیں اور حاسد ہر کسی کے مال سے حسد رکھتا ہے۔ بادشاہ نے ان دونوں کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم صادر کردیا۔

    اگلے روز جب دونوں بادشاہ کے حضور پیش ہوئے تو، بادشاہ نے پوچھا کہ تم دونوں کے متعلق مشہور ہے کہ ایک حسد میں مبتلا رہتا ہے اور دوسرا حد درجے کا کنجوس ہے، کیا یہ سچ ہے؟

    وہ دونوں یک زبان ہو کر بولے نہیں بادشاہ سلامت، یہ سب افواہیں ہیں، جو نجانے کیوں لوگ پھیلا رہے ہیں۔

    بادشاہ نے یہ سن کر کہا، اچھا پھر میں تم دونوں کو انعام دینا چاہتا ہوں، وہ انعام تم دونوں کی مرضی کا ہوگا، جو مانگو گے ملے گا، اور جو پہل کرتے ہوئے مانگ لے گا اسے تو ملے گا ہی مگر دوسرے کو وہی انعام دگنا کرکے دیا جائے گا۔

    اب دونوں کشمکش میں گرفتار ہوگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ دوسرا ہی پہل کرے، کنجوس نہیں چاہتا تھا کہ میں پہلے بول کر زیادہ انعام سے محروم رہوں، اور حاسد اسی سوچ میں تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو میں مانگوں، اس کا دگنا انعام اس بخیل کو بھی ملے۔ وہ بھی بنا مانگے۔ اس کشمکش میں دنوں نے کافی وقت گزار دیا مگر بولنے میں پہل کسی نے بھی نہ کی۔

    اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے ان دونوں پر ایک جلّاد مقرر کیا، اسے حکم دیا کہ تین تک گنتی گنو اور اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی بولنے میں پہل نہ کرے تو قید خانے میں ڈال دو،

    جلّاد نے جیسے ہی گننا شروع کیا تو حاسد فوراً بول اٹھا۔

    "بادشاہ سلامت، میری ایک آنکھ نکال دیجیے!”

    (قدیم عربی حکایت سے ماخوذ)

  • ’’تم میرا نام بوجھ لو!‘‘

    ’’تم میرا نام بوجھ لو!‘‘

    ایک بہت ہی پیارا سا بونا جنگل میں رہتا تھا۔ اس کے باغ میں ایک چھوٹی سی چڑیا رہتی تھی، جو روز صبح ہونے کے لیے گانا گاتی تھی، گانے سے خوش ہو کر بونا چڑیا کو روٹی کے ٹکڑے ڈالتا تھا۔

    بونے کا نام منگو تھا وہ چڑیا سے روز گانا سنتا تھا۔ ایک دن بہت ہی عجیب واقعہ پیش آیا۔

    ہوا یوں کہ منگو خریداری کر کے گھر واپس جارہا تھا تو ایک کالے بونے نے اسے پکڑ کر بوری میں بند کردیا اور اسے اپنے گھر لے گیا۔ جب اسے بوری سے باہر نکالا گیا تو وہ ایک قلعے نما گھر میں تھا۔

    کالے بونے نے اسے بتایا کہ وہ آج سے بونے کا باورچی ہے۔ مجھے جام سے بھرے ہوئے کیک اور بادام پستے والی چاکلیٹس پسند ہیں۔ میرے لیے یہ چیزیں ابھی بناؤ۔ بے چارہ منگو سارا دن کیک اور چاکلیٹس بناتا رہتا، کیوں کہ کالے بونے کو اس کے علاوہ کچھ بھی پسند نہ تھا۔ وہ سارا دن مصروف رہتا۔ وہ اکثر سوچتا کہ یہ کالا بونا کون ہے؟

    ’’آپ کون ہیں ماسٹر؟‘‘ ایک دن منگو نے اس سے پوچھا۔ کالے بونے نے کہا’’اگر تم میرا نام بوجھ لو تو میں تمہیں جانے دوں گا، لیکن تم کبھی یہ جان نہیں پاؤگے!‘‘

    منگو نے ایک آہ بھری، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ وہ کالے بونے کا اصل نام کبھی نہیں جان پائے گا، کیوں کہ اسے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں تھی کہ وہ دوسرے بونوں ہی سے کچھ معلوم کرسکتا۔ اس نے کچھ تکے لگائے۔

    ایک دن کالا بونا باہر گیا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا اور وہ تالا لگا کر چلا گیا۔ منگو جانتا تھا کہ وہ باہر نہیں جاسکتا، کیوں کہ وہ پہلے بھی کوشش کر چکا ہے، مگر ناکام رہا تھا۔ وہ ایک قیدی بن چکا تھا۔ اس نے ایک آہ بھری اور پھر جلدی جلدی کام کرنے لگا۔

    اسے کام کرتے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اس نے اپنی چڑیا کے گانے کی آواز سنی۔ وہ وہی گانا گا رہی تھی، جو منگو کو پسند تھا۔ منگو نے کھڑکی سے باہر دیکھا، چڑیا ایک درخت پر بیٹھی تھی۔

    ’’پیاری چڑیا! وہ چلّایا، میں یہاں ہوں۔ اوہ کیا تم مجھے تلاش کر رہی تھیں؟ کیا تم نے اپنی روٹی کے ٹکڑے یاد کیے؟ میں یہاں قید ہوں۔ میں یہاں سے اس وقت ہی نکل سکتا ہوں، جب میں کالے بونے کا نام معلوم کرلوں، جس نے مجھے یہاں قید کیا ہوا ہے۔‘‘ اسی وقت کالا بونا واپس آگیا۔ منگو بھاگ کر تندور کے پاس چلا گیا۔ چڑیا کچھ منٹ تک وہاں بیٹھی گانا گاتی رہی اور پھر اڑ گئی۔

    چڑیا نا خوش تھی۔ وہ پیارے منگو سے بہت مانوس تھی، کیوں کہ وہ اس سے پیار کرتا تھا اور گانا بھی شوق سے سنتا تھا۔ اب صرف چڑیا ہی تھی جو منگو کو باہر نکالنے کی کوشش کرسکتی تھی مگر کیسے؟

    چڑیا نے سوچا کہ وہ کالے بونے کا پیچھا کرے گی اور دیکھے گی کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ اگلے دن جب کالا بونا باہر نکلا تو وہ اس کے پپیچھے ہو لی۔ آخر کار بونا ایک گھر پر رکا، چڑیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ گھر کا دروازہ ایک بلّی نے کھولا، جس کا رنگ کالا اور آنکھیں سبز تھیں۔ چڑیا سوچنے لگی کہ دیکھوں کہ یہ کالی بلّی کب بونے کو پکارے گی۔ کالا بونا کچھ دیر وہاں رکا اور پھر چلا گیا۔ چڑیا بھی جانے والی تھی کہ اس نے بلّی کو گاتے سنا۔ وہ اون بُن رہی تھی اور گاتی بھی جارہی تھی۔ وہ گانا بہت عجیب تھا۔

    پہلا انگور کا دوسرا سیب کا
    دوسرا انار کا تیسرا ٹماٹر کا
    تیسرا جامن کا چوتھا لیچی کا
    چوتھا نارنگی کا چوتھا خوبانی کا
    پہلا میرا، دوسرا ان کا، تیسرا ہمارا
    دوسرا آم کا اور تیسرا آڑو کا
    کھیلو گے تو بن جائے گا کام
    ہوسکتا ہے مل جائے اس کا نام

    کالی بلّی یہ گانا گاتی جارہی تھی اور چڑیا سنتی رہی۔ یہاں تک کہ اسے بھی یہ گانا یاد ہوگیا۔ چڑیا اڑ کر قلعے کے پاس جا پہنچی۔ اس نے دیکھا کہ منگو کالے بونے کے لیے کھانا سجا رہا ہے اور اس سے باتیں بھی کر رہا ہے۔

    اگلے دن چڑیا کالے بونے کے جانے کا انتظار کرنے لگی اور جب وہ چلا گیا تو اس نے گانا شروع کیا، منگو اس کی آواز سن کر کھڑکی کے پاس آیا اور جب اس نے یہ عجیب گانا سنا تو حیران رہ گیا کہ آج چڑیا دوسرا گانا کیوں گا رہی ہے۔ منگو سمجھ گیا کہ چڑیا گانا گا کر اس کی مدد کرنا چاہتی ہے۔

    منگو جلدی سے ایک پینسل اور کاغذ لے آیا اور گانا سن کر لکھنے لگا اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ اس گانے میں کیا نام چھپا ہے۔ الفاظ کچھ یوں تھے۔

    پہلا انگور کا۔ الف، دوسرا سیب کا، ی، دوسرا انار کا۔ ن، تیسرا ٹماٹر کا۔ الف، تیسرا جامن کا۔ م، چوتھا لیچی کا۔ ی، چوتھا نارنگی کا۔ ن، چوتھا ہی خوبانی کا۔ الف، پہلا میرا یعنی۔ م، دوسرا ان کا۔ ن، تیسرا ہمارا۔ الف، دوسرا آم کا۔ م اور تیسرا آڑو کا و!‘‘

    اس نے حروف کو لفظ کی شکل میں لکھا اور پھر اسے پڑھنے کی کوشش کی۔

    اینا، مینا، منا مو!

    ’’تو یہ ہے کالے بونے کا نام! وہ خوشی سے چلایا’’میں نے کبھی یہ نام سوچا بھی نہیں تھا۔ چڑیا جلدی سے اڑ گئی، کیوں کہ اس نے کالے بونے کی آواز سن لی تھی۔ وہ اندر داخل ہوا اور یہ دیکھ کر آگ بگولہ ہوگیا کہ منگو کیک بنانے کی بجائے میز پر بیٹھا کچھ لکھ رہا ہے۔

    ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ وہ دھاڑا۔

    ’’کیا تمہارا نام بھوری بلّی ہے؟‘‘ منگو نے جان بوجھ کر پوچھا۔ ’’نہیں نہیں‘‘ کالا بونا بولا، ’’جا کر کام کرو۔‘‘ کالا بونا پوری قوّت سے چیخا اور کہا، ’’میرے کیک کہاں ہیں؟‘‘

    ’’کیا تمہارا نام ’’اینا، مینا، منا، مو‘‘ ہوسکتا ہے؟‘‘ منگو خوشی سے چیخا۔

    کالے بونے نے منگو کو گھورا اور ڈر سے پیلا ہوگیا، تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔ تمہیں میرا راز معلوم ہوگیا ہے تم فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ منگو خوشی سے باہر بھاگا۔

    وہ سارے راستے کودتا پھلانگتا، اپنے گھر پہنچا۔ اس نے اپنے باغ کے دروازے پر چڑیا کو اپنا منتظر پایا۔ منگو نے چڑیا کا بہت شکریہ ادا کیا کہ یہ رہائی صرف اس کی وجہ سے ملی ہے۔ اب منگو کی دوستی چڑیا سے مزید گہری ہوگئی اور وہ روز اس کا گانا سنتا اور اسے روٹیاں بھی کھلاتا۔

    (مصنّف: نامعلوم)

  • ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا

    ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا

    ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا۔ مینا کا گھر موم کا تھا اور کوّے کا نون کا تھا۔

    مینا نے ایک دن کھچڑی پکائی۔ بازار بند ہوگیا تھا۔ نمک نہ ملا تو اس نے اپنے بچّے کو کوّے کے پاس بھیجا کہ اپنے گھر میں سے ذرا سا نون دے دے۔ مینا کے بچّے نے جب کوّے سے یہ بات جاکر کہی تو کوّا بہت خفا ہوا اور کہنے لگا جا، جا بڑا بچارا نمک مانگنے والا آیا، تیری ہنڈیا کی خاطر میں اپنے گھر کی دیوار توڑ دوں، تب تجھ کو نمک دوں؟ ایسے بیوقوف مینا کے محلّہ میں رہتے ہوں گے۔

    مینا کا بچہ اپنا سا منہ لے کر ماں کے پاس آگیا اور اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر خدا سے دعا کی کہ الہٰی گھمنڈ کرنے والوں کو نیچا دکھا، یہ دعا کرنی تھی کہ ایسا مینہ برسا کہ جل تھل بھر گئے۔ کوّے کا گھر تو نون کا تھا، سب بہہ گیا۔ مینا کا گھر موم کا تھا، اس کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا۔

    جب کوّے کا گھر برباد ہوگیا تو وہ مینا کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا بی مینا رات کی رات مجھے اپنے گھر میں ٹھہرا لو۔ مینا نے جواب دیا تُو نے غرور کا کلمہ بولا تھا اور مجھ کو نمک نہ دیا تھا، خدا نے اس کا بدلہ دکھایا ہے، اب میں تجھے گھر میں کیوں ٹھہراؤں، تُو بڑا خود غرض اور خدا کا گنہگار بندہ ہے۔ کوّے نے بہت عاجزی کی تو مینا کو ترس آگیا اور اس نے خیال کیا ایسا نہ ہو خدا مجھ سے بھی ناراض ہوجائے کہ تُو نے مصیبت زدہ کی مدد کیوں نہ کی، اس واسطے اس نے دروازہ کھول دیا اور کوّے کو اندر بلا لیا۔

    کوّے نے کہا آپا مینا میں کہاں بیٹھوں۔ مینا بولی چولھے پر بیٹھ جا۔ کوّے نے کہا۔

    میں جَل مروں گا، میں جَل مروں گا۔

    مینا نے کہا اچّھا جا میری چکّی پر بیٹھ جا۔

    کوّا بولا، میں پس مروں گا، میں پس مروں گا۔

    مینا نے کہا اچھا میرے چرخے پر بیٹھ جا۔

    کوّا بولا، میں کٹ مروں گا، میں کٹ مروں گا۔

    تو مینا نے کہا اچھا کوٹھری میں جا بیٹھ، وہاں میرے چنے بھرے ہوئے ہیں، ان کو نہ کھا لیجو۔ کوّے نے کہا، توبہ ہے آپا مینا، تم بھی کیسی بدگمان ہو۔ تم مجھ پر احسان کرو، گھر میں جگہ دو اور میں تمہارے ہاں چوری کروں گا۔ توبہ توبہ، اس کا تو خیال بھی نہ کرنا۔

    مینا نے کوٹھری کھول دی اور کوّا اندر جاکر بیٹھ گیا۔ آدھی رات کو مینا کی آنکھ کھلی تو کوٹھری میں کچھ کھانے کی آواز آئی۔ مینا نے پوچھا بھائی کوّے کیا کھا رہے ہو۔ بولا آپا مینا میری سسرال سے بن آئے تھے۔ وہ سردی میں چبا رہا ہوں۔

    مینا چپکی ہوئی۔ پچھلی رات کو مینا کی آنکھ پھر کھلی تو کھانے کی آواز آئی اور مینا نے پھر پوچھا تو کوّے نے وہی جواب دیا۔

    کوّا سب جانوروں سے پہلے جاگا کرتا ہے۔ مینا ابھی بچھونوں سے اٹھی بھی نہ تھی جو کوّا کوٹھری سے نکل کر بھاگ گیا۔ مینا نے اٹھ کر دیکھا تو ساری کوٹھری خالی تھی۔ کوّے نے سب چنے کھالئے تھے۔

    مینا نے کہا، بد ذات اور شریر کے ساتھ احسان کرنے کا یہ بدلہ ملتا ہے۔

    (از قلم لیلیٰ خواجہ بانو)

  • پھول والے دادا جی…

    پھول والے دادا جی…

    کسی گاؤں میں ایک بوڑھا اور بڑھیا رہا کرتے تھے۔ ان کے پاس پوچی نام کا ایک کتّا تھا۔ اس کو دونوں بہت پیار کرتے تھے۔

    ایک دن جب بوڑھا اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا، پوچی اسے کھینچ کر ایک طرف لے گیا اور بھونک بھونک کر پنجوں سے زمین کریدنے لگا۔ بوڑھا جتنا بھی اسے ہٹانے کی کوشش کرتا پوچی اتنے ہی زور سے بھوں بھوں کرتے ہوئے پھر زمین کریدنے لگتا۔ آخر بوڑھے نے پھاوڑا اٹھا کر اس جگہ کو کھودنا شروع کیا۔ کھودنے پر وہاں سے ہیرے اور موتیوں سے بھرا ہوا گھڑا نکلا جسے پاکر بوڑھا بہت خوش ہوا اور سارا خزانہ لے کر اپنے گھر آگیا۔

    بوڑھے کا ایک پڑوسی تھا۔ بے حد لالچی۔ اس نے بوڑھے کو خزانہ لاتے ہوئے دیکھا تو پوچھ لیا۔ بوڑھا تھا سیدھا سادہ۔ اس نے پڑوسی کو خزانہ ملنے کا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ جلن کی وجہ سے پڑوسی کی نیند اڑ گئی۔

    اگلے دن اس نے میٹھی میٹھی باتیں کر کے بوڑھے سے ایک دن کے لیے پوچی کو مانگ لیا۔ اسے لے کر وہ سیدھے اپنے کھیت میں گیا اور بار بار کتّے کو تنگ کرنے لگا کہ وہ اسے بھی خزانہ دکھائے۔ آخر پوچی نے ایک جگہ کر پنجوں سے زمین کریدنی شروع ہی کی تھی کہ پڑوسی نے جھٹ پھاوڑے سے وہ جگہ کھود ڈالی۔ کھونے پر ہیرے موتیوں کے بجائے اسے ملا کوڑا اور گندا کچرا۔ پڑوسی نے جھلاہٹ میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پوچی کو مار کر پھینک دیا۔

    جب پوچی کے مالک بوڑھے کو معلوم ہوا تو وہ بہت دکھی ہوا۔ اس نے پوچی کی لاش کو گاڑ کر وہاں پر ایک پیڑ اگا دیا۔ حیرانی کی بات کہ دو دن میں ہی وہ بڑھ کر پورا پیڑ بن گیا۔ بوڑھے نے اس پیڑ کی لکڑی سے اوکھلی بنائی۔ نئے سال کے پکوان بنانے کے لیے اس میں دھان کوٹنے لگا تو اوکھلی میں پڑا دھان سونے اور چاندی کے سکّوں میں بدلنے لگا۔

    پڑوسی کو بھی معلوم ہوا تو وہ اوکھلی ادھار مانگ کر لے گیا۔ جب اس نے اوکھلی میں دھان کوٹے تو دھان گندگی اور کوڑے میں بدل گیا۔ پڑوسی نے غصّے میں اوکھلی کو آگ میں جلا ڈالا۔ بوڑھے نے دکھے ہوئے دل سے جلی ہوئی اوکھلی کی راکھ اکٹھا کی اور اسے اپنے آنگن میں چھڑک دیا۔ وہ راکھ جہاں جہاں پڑی وہاں سوکھی گھاس ہری ہوگئی اور سوکھے ہوئے پیڑوں کی ڈالیاں پھولوں سے لد گئیں۔

    اسی وقت وہاں سے بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔ بادشاہ نے پھولوں سے لدے پیڑوں کو دیکھا۔ اس کا دل خوش ہوگیا اور اس نے بوڑھے کو اشرفیوں کی تھیلی انعام میں دی۔

    حاسد پڑوسی نے یہ دیکھا تو بچی ہوئی راکھ اٹھالی اور بادشاہ کے راستے میں جاکر ایک سوکھے پیڑ پر راکھ ڈالی۔ پیڑ ویسا ہی ٹھنٹ بنا رہا پر راکھ اڑ کر بادشاہ کی آنکھوں میں جا پڑی۔ بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے خوب پیٹا۔

    بوڑھا آس پڑوس میں پھول والے دادا جی کے نام سے مشہور ہوگیا۔

    (اس کہانی کے خالق اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد افسر میرٹھی ہیں۔ وہ بامقصد اور تعمیری ادب کے قائل تھے اور اسی خیال کے تحت انھوں نے بچّوں کے لیے کئی نظمیں اور کہانیاں لکھیں)

  • انسانوں کے بارے میں‌ بھوت پریت کیا رائے رکھتے ہیں؟

    انسانوں کے بارے میں‌ بھوت پریت کیا رائے رکھتے ہیں؟

    دنیا ترقّی کررہی ہے، تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اور آج کا انسان خود کو پہلے سے زیادہ متمدن و مہذّب بتاتا ہے، دانا اور باشعور سمجھتا ہے۔

    وہ رفتگاں کی طرح توہّم پرست بھی نہیں اور بھوت پریت پر یقین نہیں رکھتا، آج کے لوگ ایسے قصّوں کو من گھڑت کہتے ہیں اور ان کی نظر میں بھوت پریت خیالی باتیں ہیں، لیکن کیا بھوت بھی انسانوں کے بارے میں ایسا ہی سوچتے ہیں!

    اردو ادب میں مختصر کہانی نئی نہیں۔ اسے شارٹ اسٹوری کہیے یا افسانچہ ہر شکل میں اسے وہ تخلیق کار میّسر آئے جنھوں نے اپنے تخیل کی قوّت اور زورِ قلم سے خوب کام لیا۔ یہاں ہم نام وَر فکشن نگار جوگندر پال کا ایک پُراثر افسانچہ آپ کی نذر کررہے ہیں جسے پڑھ کر شاید آپ جان سکیں گے کہ بھوت پریت انسانوں کو کیا سمجھتے ہیں۔

    افسانچہ ملاحظہ کیجیے۔

    چند بھوت حسبِ معمول اپنی اپنی قبر سے نکل کر چاندنی رات میں گپیں ہانکنے کے لیے کھلے میدان میں اکٹھا ہو کر بیٹھ گئے اور بحث کرنے لگے کہ کیا واقعی بھوت ہوتے ہیں!

    ’’نہیں،‘‘ ایک نے ہنس کر کہا،’’سب من گھڑت باتیں ہیں۔‘‘

    ایک اور بولا، ’’کسی بھی بھوت کو علم نہیں ہوتا کہ وہی بھوت ہے۔‘‘

    اسی اثنا میں ایک اور نے ایک جھاڑی کی طرف اشارہ کر کے خوف زدہ آواز میں کہا، ’’وہ دیکھو!‘‘

    جھاڑی کے پیچھے ایک غریب آدمی بڑے انہماک سے لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔

    ’’ہاں، وہی۔۔۔‘‘ اور سارے بھوت بے اختیار چیخیں مارتے ہوئے اپنی اپنی قبر کی طرف دوڑے۔

  • معافی…

    معافی…

    مسلمانوں کو اسپین پر حکومت کرتے صدیاں گزر چکی تھیں۔ کلیساؤں کی جگہ مسجدوں نے لے لی تھی۔ گھنٹوں کی بجائے اذان کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔

    غرناطہ اور الحمرا میں وقت کی چال پر ہنسنے والے وہ قصر تعمیر ہوچکے تھے، جن کے کھنڈرات اب تک دیکھنے والوں کو اپنی گزشتہ عظمت کا اندازہ کروا دیتے ہیں۔ عیسائیوں کے با وقار مرد اور عورتیں مسیحیت چھوڑ کر اسلام کے سایہ میں پناہ لے رہے تھے اور مؤرخ اس بات پر حیران ہیں کہ اب تک وہاں عیسائیوں کا نام و نشان کیونکر باقی رہا۔

    جو عیسائی راہ نما مسلمانوں کے سامنے اب تک سر نہ جھکاتے تھے اور اپنے ملک کی آزادی کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک سوداگر داؤد بھی تھا۔ داؤد با حوصلہ اور روشن دماغ تھا۔ اپنے علاقہ میں اس نے اسلام کو قدم نہ رکھنے دیا تھا۔

    مسلمان داؤد سے خائف رہتے تھے۔ وہ مذہبی فوقیت سے اس پر بس نہ چلتا دیکھ کر قوّت کے بل پر اسے جیتنا چاہتے تھے، لیکن داؤد کبھی اس کا سامنا نہ کرتا۔ ہاں جہاں عیسائیوں کے مسلمان ہونے کی خبر پاتا، آندھی کی طرح اڑ کر وہاں پہنچتا اورانہیں اپنے مذہب پر مضبوط رہنے کی تلقین کرتا۔ آخر میں مسلمانوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر کر گرفتار کرنے کی ٹھانی۔

    فوجوں نے اس کے علاقے کا محاصرہ کرلیا۔ داؤد کو زندگی بچانے کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت بھاگنا پڑا۔ وہ گھر سے فرار ہو کر مسلمانوں کی راجدھانی غرناطہ میں آگیا اور بالکل الگ تھلگ رہ کر اچھے دنوں کے انتظار میں زندگی بسر کرنے لگا۔ مسلمانوں نے اس کی تلاش میں دن رات ایک کر دیے۔ بھاری انعام مشتہر کیے گئے، لیکن کہیں بھی سراغ نہ مل سکا۔

    ایک دن تنہائی کی وحشت سے اکتا کر داؤد باغ میں گھومنے نکل گیا۔ شام ہوچکی تھی۔ داؤد سب سے الگ ہو کر ایک طرف ہری ہری گھاس پر لیٹا سوچ رہا تھا کہ وہ دن کب آئے گا جب ہمارا ملک ان سفاکوں کے پنجے سے چھوٹے گا۔ اس کے تصوّر میں آرہا تھا، جب عیسائی عورتیں اور مرد ان روشوں پر آزادانہ چلتے ہوں گے۔ جب یہ خطہ عیسائیوں کے باہمی میل جول اور ربط ضبط سے گلزار ہوجائے گا۔

    اچانک ایک مسلمان نوجوان اس کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ اسے دیکھ کر بولا، ’’کیا ابھی تک تمہارا دل اسلام کی روشنی سے منوّر نہیں ہوا؟‘‘

    داؤد نے انتہائی شانتی سے کہا، ’’اسلام کی روشنی اونچی چوٹیوں کو روشن کرسکتی ہے، گہرے غاروں میں سے اس کا گزر نہیں!‘‘

    اس نوجوان کا نام جمال تھا۔ اتنا گہرا طنز سن کر تیکھے انداز میں بولا، ’’اس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘

    داؤد، ’’میرا مطلب یہی ہے کہ عیسائیوں میں جو لوگ اونچے درجہ کے ہیں وہ جاگیروں اور سرکاری عہدوں کی ترغیب اور سزا کے خوف سے اسلام قبول کرسکتے ہیں۔ لیکن کم زور اور مفلس عیسائیوں کے لیے اسلام میں وہ آسمانی بادشاہت کہاں جو حضرتِ مسیح کے دامن میں انھیں نصیب ہوگی۔‘‘

    جمال اپنے مذہب کی توہین سن کر بھنّا اٹھا۔ بے قرار ہوکر بولا، ’’خدا کی قسم۔ اگر تم نہتّے نہ ہوتے تو تمہیں اسلام کی توہین کرنے کا مزا چکھا دیتا۔‘‘

    داؤد نے اپنے سینے میں چھپی ہوئی کٹار نکال کر کہا، ’’نہیں ! میں نہتّا نہیں ہوں۔ مسلمانوں پر جس روز اتنا اعتبار کروں گا۔ اس روز عیسائی نہ رہوں گا۔ تم اپنے دل کے ارمان نکال لو۔‘‘

    دونوں نے تلواریں سونت لیں۔ ایک دوسرے پر لوٹ پڑے۔ یکبارگی میں ناگن لپک کر عرب کے سینہ میں جا پہنچی۔ وہ زمین پر گر پڑا۔ جمال کے گرتے ہی چاروں طرف سے لوگ دوڑ اٹھے۔ وہ داؤد کو گھیرنے کی کوشش کرنے لگے۔ داؤد نے دیکھا۔ لوگ تلواریں لیے لپکے آرہے ہیں۔ وہ جان بچا کر بھاگا، لیکن جس طرف جاتا، سامنے باغ کی دیوار آکر راہ روک لیتی۔ دیوار اونچی تھی اور اسے پھاندنا بے حد مشکل۔

    ادھر عربوں کے انتقام کا جذبہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جارہا تھا۔ یہ محض ایک قاتل کو سزا دینے کا سوال نہ تھا بلکہ قومی وقار کا مسئلہ تھا۔ مفتوح عیسائی کی یہ ہمّت کہ عرب پر ہاتھ اٹھائے۔ ایسا ظلم۔‘‘

    اچانک اسے اپنی دائیں طرف باغ کی دیوار کچھ نیچی نظر آئی۔ آہ! یہ دیکھتے ہی اس کے پاؤں میں نئی قوت عود کر آئی۔ رگوں میں نیا خون دوڑنے لگا۔ وہ ہرن کی طرح اس طرف دوڑا اور ایک جست میں دیوار پھاند کر باغ کے اس پار جا پہنچا۔ تاحد نظر جھاڑیاں ہی جھاڑیاں نظر آتی تھیں۔ زمین پتھریلی اور اونچی نیچی تھی۔ قدم قدم پر پتھر کی سلیں پڑی تھیں۔ داؤد ایک سل تلے چھپ کر بیٹھ گیا۔

    ایک لمحہ میں تعاقب کرنے والے وہاں بھی آپہنچے اور ادھر ادھر جھاڑیوں میں درختوں پر، گڑھوں میں، سلوں تلے تلاش کرنے لگے۔ داؤد نے سانس روک لی۔ سناٹا طاری ہوگیا۔ ایک نظر پر ہی اس کی زندگی کا دار و مدار تھا، لیکن عربوں کے لیے اس قدر وقت کہاں کہ اطمینان سے سلوں تلے جھانکتے پھریں، وہاں تو ہتھیار تھامنے کی جلدی تھی۔ داؤد کے سر سے بلا ٹل گئی۔ وہ ادھر ادھر دیکھ بھال کر آگے چل دیے۔

    اندھیرا ہوگیا۔ آسمان پر تارے نکل آئے اور ان کے ساتھ ہی داؤد بھی سل سے باہر آگیا۔ لیکن دیکھا تو اس وقت بھی ہلچل مچھی تھی۔ عرب بھاری تعداد میں مشعلیں لیے ادھر ادھر جھاڑیوں میں گھوم رہے تھے۔ باہر نکلنے کے تمام راستے مسدود ہوچکے تھے۔ اب جائے تو کہاں جائے۔۔۔؟ داؤد ایک درخت تلے کھڑا ہوکر سوچنے لگا کہ اب جان کیونکر بچے۔

    جب رات زیادہ گزر گئی تو داؤد خدا کا نام لے کر وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔ اور دبے قدموں درختوں کی آڑ لیتا۔ آدمیوں کی نظر بچاکر ایک طرف کو چلا۔ وہ اب ان جھاڑیوں میں نکل کر آبادی میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ویرانہ کسی کو بھی نہیں پناہ دے سکتا۔ بستی کی رونق بجائے خود آسرا ہے۔

    کچھ دور تک تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئی۔ جنگل کے درختوں نے اس کی حفاظت کی، لیکن جب وہ ان جھاڑوں سے نکل کر صاف دھرتی پر آیا تو ایک عرب کی نگاہ اس پر پڑگئی۔ اس نے للکارا۔ داؤد بھاگا۔

    قاتل بھاگا جاتا ہے۔ یکبارگی یہ آواز ہوا میں گونجی۔ اور ایک لمحہ میں ہی چاروں طرف سے عربوں نے اس کا پیچھا کیا۔

    امید اسے بھگائے لیے جارہی تھی۔ عربوں کا ہجوم پیچھے رہ گیا۔ آخر وہ اس امید پر دیے کے قریب آہی گیا۔ ایک چھوٹا سا پھونس کا مکان تھا۔ ایک بوڑھا عرب سامنے قرآن رکھے چراغ کی مدھم روشنی میں اسے پڑھ رہا تھا۔ داؤد آگے نہ جا سکا۔ اس ہمّت نے جواب دیا۔ وہ تھک ہار کر وہیں گرپڑا۔

    عرب نے پوچھا، ’’تو کون ہے؟‘‘

    ’’ایک غریب عیسائی، مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ اب آپ ہی پناہ دیں تو میں بچ سکتا ہوں۔‘‘

    ’’خدا پاک تیری مدد کریں گے۔ تجھ پر کیا مصیبت پڑی ہے؟‘‘

    داؤد نے لجاجت سے کہا، ’’ڈرتا ہوں۔ اگر میں نے کہہ دیا۔ تو کہیں آپ بھی میرے خون کے پیاسے نہ ہوجائیں۔‘‘

    ’’جب تُو میری پناہ میں آگیا ہے۔ تو مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم مسلمان ہیں۔ جسے ایک مرتبہ پناہ میں لے لیتے ہیں۔ اس کی زندگی بھر حفاظت کرتے ہیں۔‘‘

    ’’میں نے ایک مسلم نوجوان کو قتل کردیا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی عرب کا چہرہ بگڑ اٹھا۔ بولا، ’’کیا نام تھا اس کا؟‘‘

    ’’اس کا نام جمال تھا۔‘‘ عرب سر تھام کر بیٹھ گیا اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ گردن کی رگیں تن گئیں۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے ذہن میں خوف ناک کشمکش جاری ہے اور وہ پوری قوّت سے ذہنی مدوجزر کو دبا رہا ہے۔ دو تین منٹ تک وہ اسے یونہی بت بنا بیٹھا تاکتا رہا۔ پھر مبہم سے لہجہ میں بولا،

    ’’نہیں نہیں۔ پناہ میں آئے ہوئے کی حفاظت کرنی ہی پڑے گی۔ آہ ظالم! تُو جانتا ہے۔ میں کون ہوں؟ میں اسی نوجوان کا بدقسمت باپ ہوں۔ تُو نے میرے خاندان کا نشان مٹا دیا۔ جمال میرا اکلوتا بیٹا تھا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ دونوں ہاتھوں سے تیری گردن دبوچ کر اس زور سے دباؤں کہ تیری زبان باہر آجائے اور آنکھیں کوڑیوں کی طرح نکل پڑیں، لیکن نہیں۔ تُو نے میری پناہ لی ہے۔ اس وقت فرض میرے ہاتھ باندھے ہوئے ہے۔ رسول پاک کی ہدایت کے مطابق پناہ میں آئے پر ہاتھ اٹھانے سے قاصر ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر عرب نے داؤد کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور اسے گھر لے جاکر ایک کوٹھڑی میں چھپا دیا۔ وہ گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ عربوں کا ایک گروہ اس کے مکان کے سامنے آکھڑاہوا۔

    ایک آدمی نے پوچھا، ’’کیوں شیخ حسن! تُو نے ادھر سے کسی کو بھاگتے دیکھا ہے؟‘‘

    ’’ہاں! دیکھا ہے۔‘‘

    ’’اسے پکڑ کیوں نہ لیا؟ وہی جمال کا قاتل تھا۔‘‘

    ’’یہ جان کر بھی میں نے اسے چھوڑ دیا۔‘‘

    ’’غضب خدا کا۔ یہ تم نے کیا کیا؟ جمال حساب کے روز ہمارا دامن پکڑے گا۔ تو ہم کیا جواب دیں گے؟‘‘

    ’’تم کہہ دینا کہ تیرے باپ نے تیرے قاتل کو معاف کردیا۔‘‘

    ’’عرب نے کبھی قاتل کا خون معاف نہیں کیا۔‘‘

    ’’یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ میں اپنے سَر کیوں لوں؟‘‘

    عربوں نے شیخ حسن سے زیادہ حجّت نہ کی اور قاتل کی تلاش میں دوڑ پڑے۔ شیخ حسن پھر چٹائی پر بیٹھ کر قرآن پڑھنے لگا۔ لیکن اس کا دل پڑھنے میں نہ لگ سکا۔ اس کے دل میں بار بار یہ خواہش پیدا ہوتی کہ ابھی داؤد کے خون سے دل کی آگ بجھائے۔

    آخر میں شیخ حسن بھی برقرار ہو کر اٹھا۔ اس کو اندیشہ ہوا کہ اب میں خود پر قابو نہیں رکھ سکوں گا۔ اس نے تلوار میان سے نکالی اور دبے پاؤں دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا جس میں داؤد چھپا ہوا تھا۔ تلوار کو دامن میں چھپاکر اس نے آہستگی سے کواڑ کھولے۔ داؤد ٹہل رہا تھا۔ بوڑھے کے منتقمانہ چہرہ کو دیکھ کر داؤد اس کے دلی جذبات بھانپ گیا۔ اسے بوڑھے سے ہمدردی سی ہوگئی۔ اس نے سوچا۔ یہ مذہب کا قصور نہیں۔ میرے بچّے کی اگر کسی نے ہتیا کی ہوتی۔ تو میں بھی یونہی اس کے خون کا پیاسا ہوجاتا۔ انسانی فطرت کا تقاضا یہی ہے۔‘‘

    عرب بولا،’’داؤد! تمہیں معلوم ہے۔ بیٹے کی موت کا غم کس قدر گہرا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’محسوس تو نہیں ہوسکتا۔ البتہ اندازہ کرسکتا ہوں۔ اگر میری زندگی سے اس کا جزو بھی مٹ سکے تو لیجیے، یہ سَر حاضر ہے۔ میں اسے شوق سے آپ کی نذر کرتا ہوں۔ آپ نے داؤد کا نام سنا ہوگا؟‘‘

    ’’کیا پیٹر کا بیٹا؟‘‘

    ’’جی ہاں! میں وہی بدنصیب ہوں۔ میں محض آپ کے بیٹے کا قاتل ہی نہیں اسلام کا بھی دشمن ہوں۔ میری جان لے کر آپ جمال کے خون کا بدلہ ہی نہ لیں گے اپنی قوم اور مذہب کی حقیقی خدمت بھی کریں گے۔‘‘

    شیخ حسن نے متانت سے کہا، ’’داؤد میں نے تمہیں معاف کیا۔ میں جانتا ہوں کہ مسلمانوں کے ہاتھوں عیسائیوں کو بہت سی تکالیف پہنچی ہیں، لیکن یہ اسلام کا نہیں مسلمانوں کا قصور ہے۔ فتح کی نخوت نے ان کی عقل اور احساس چھین لیے ہیں۔‘‘

    ہمارے مقدس نبی نے یہ تعلیم نہیں دی تھی۔ جس پر ہم آج کل چل رہے ہیں۔ وہ خود رحم اور فیض کا معیار ہے۔ میں اسلام کے نام کو بٹّہ نہ لگاؤں گا۔ میری سانڈنی لے لو اور رات بھر میں ہی یہاں سے بھاگ جاؤں۔ بھاگو۔ کہیں ایک لمحہ کے لیے بھی نہ رکنا۔ عربوں کو تمہاری بُو بھی مل گئی تو تمہاری خیر نہیں، جاؤ! خدا پاک تمہیں گھر بخیریت پہنچائے۔ بوڑھے شیخ حسن اور اس کے بیٹے جمال کے لیے خدا سے دعا کرنا۔‘‘

    (ہندوستان کے نام ور افسانہ نگار پریم چند کے قلم سے)

  • عہد ساز شخصیت اور عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت اور عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت اور شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا جاتا ہے جو سماجی برائیوں، خامیوں اور مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے نظام کو بدلنے میں‌ مددگار ثابت ہوا۔ اس عظیم تخلیق کار نے 9 جون 1870ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    باذوق قارئین اور ناول کے شیدائیوں‌ نے چارلس ڈکنز کے ناول اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز جیسی کہانیاں‌ ضرور پڑھی ہوں گی، یہ ناول عالمی ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں اور آج بھی کیمبرج کے نصاب کا حصّہ ہیں۔

    چارلس ڈکنز نے 7 فروری 1812ء کو انگلینڈ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کے والد بحریہ میں کلرک تھے جب کہ والدہ تدریس کے شعبے سے منسلک تھیں۔ اس کے باوجود اس کنبے کے مالی حالات کچھ بہتر نہ تھے اور 1822ء میں حالات اس وقت مزید بگڑے جب ڈکنز کے والد فضول خرچی اور عیّاشی کے ہاتھوں‌ مجبور ہو کر مقروض ہوگئے اور پھر انھیں‌ جیل جانا پڑا۔

    12 سالہ چارلس ڈکنز کو اس واقعے کے بعد فیکٹری میں ملازمت کرنا پڑی۔ اس کا بچپن فیکٹری میں دن رات کام کرتے گزرا، اسے کم اجرت ملتی تھی جب کہ جبر و استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اس کے ذہن پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ اس دور کی جھلکیاں اس کے ناول ’’اولیور ٹوئسٹ‘‘ اور ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ‘‘ میں نظر آتی ہیں۔

    15 سال کی عمر میں‌ چارلس ڈکنز نے آفس بوائے کی حیثیت سے ایک ادارے میں ملازمت اختیار کر لی اور یہیں اس نے لکھنا شروع کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ وہ برطانیہ کا مقبول ترین فکشن نگار اور سماجی دانش وَر بنا۔ دنیا بھر کی زبانوں‌ میں‌ اس کے ناولوں‌ کا ترجمہ ہوا۔ چارلس ڈکنز نے اپنی کہانیوں کے لیے جو کردار تخلیق کیے وہ آج بھی مقبول ہیں۔ ان کے ناول پر ایک فلم Great Expectations بھی بنائی گئی تھی جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ چارلس ڈکنز کو ایک عظیم تخلیق کار ہی نہیں برطانوی سماج کا محسن بھی مانا جاتا ہے جس نے معاشرے میں سدھار لانے اور مثبت تبدیلیوں کا راستہ ہموار کیا۔

  • ترجمہ نام ہے ایک سعیِ نامشکور کا…

    ترجمہ نام ہے ایک سعیِ نامشکور کا…

    ”عالی ادب کو ایک ٹھوس حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے ترجمہ ایک ناگزیر وسیلہ ہے۔“

    یہ خیال تقابلی ادبیات کے فرانسیسی نژاد امریکی پروفیسر آلبیر ژیرار (Albert Gerard) نے اپنی عمدہ تصنیف ”مقدمۂ ادبِ عالم“ میں ظاہر کیا تھا، لیکن ساتھ ہی بڑی درد مندی سے یہ ٹھوس حقیقت بھی تسلیم کی تھی کہ ”ترجمہ نام ہے ایک سعیِ نامشکور کا جس کے صلے میں، شدید مشفقت کے بعد، صرف حقارت ملتی ہے۔“

    یہ فقرہ آج سے کوئی آدھی صدی پہلے لکھا گیا تھا، جب نوبیل انعام اور دوسرے بین الاقوامی امتیازات کے خواہش مند ادیب مترجمین کی تلاش میں سرگرداں نہیں پھرتے تھے، اور نہ عالمی ادب کے تراجم مقبولِ عام پیپر بیک ایڈیشنوں میں شائع ہوا کرتے تھے۔ تاہم دیکھا جائے تو اب بھی صورتِ حال میں نہایت معمولی سا فرق پڑا ہے۔

    مغرب میں ترجمے کا ”حقُ الخدمت“ پہلے سے زیادہ تسلیم کیا جا چکا ہے اور مترجم کا نام اب کتاب کے سرورق پر بھی چھپنے لگ گیا ہے۔ اس کے علاوہ تقابلی ادبیات کا مطالعہ دنیا کی بہت سی یونیورسٹوں میں شروع ہو چکا ہے (چناں چہ ”پاکستان ادب، بہ شکلِ ترجمہ“ ایک مضمون کے طور پر امریکا اور کناڈا میں پڑھایا جا رہا ہے)۔ ترجمے کا عام معیار بھی غالبًا پہلے سے بہتر ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود، کم سے کم تیسری دنیا کے اس حصے میں، جہاں اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے، ترجمے کو اب تک حقارت ہی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، حالاں کہ یہی حقیر کام کم سے کم مغرب میں ایسے لوگوں نے بھی انجام دیا ہے جو اپنی اپنی زبانوں کی آبرو تھے۔

    انگریزی میں چوسر سے لے کر ڈرائیڈن، پوپ، کولرج اور براؤننگ تک، اور بیسویں صدی میں لارنس، ییٹس، پاؤنڈ، ایلیٹ، آڈن اور بیکٹ تک نے یہ کام کیا ہے۔ فرانسیسی میں بودلیر سے لے کر آندرے ژیدتک کتنے ہی بڑے فن کاروں نے خود کو مترجم کہلانے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کی (بلکہ ژید نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ہر ادیب کے لیے لازم ہے کہ عالمی ادب کا کم سے کم ایک شاہکار اپنی زبان میں منتقل کرے)۔ جرمن زبان میں گوئٹے کے علاوہ شلّر، اور روسی زبان میں پاسترناک کے تراجم کی اہمیت مسلم ہے۔ (گوئٹے نے آٹھ دس زبانوں سے ترجمہ کیا ہے اور پاسترناک کو شیکسپیئر کے عمدہ ترین مترجمین میں شمار کیا جاتا ہے۔) پھر یہ بھی نہیں کہ اتنے بڑے لکھنے والوں نے یہ کام محض پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیا ہو یا اس کو لڑکپن کا ایک مرحلہ تربیت سمجھا ہو، انہوں نے تو اپنی پوری شخصیت اور ادبی شہرت کو داؤ پر لگا کر یہ کام کیا ہے۔

    بیسویں صدی کے اردو ادب میں پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم سے لے کر اختر حسین رائے پوری، سعادت حسن منٹو، عزیز احمد، محمد حسن عسکری، قرةُ العین حیدر اور انتظار حسین تک نے نثری ادب کا ترجمہ کیا ہے اور اقبال سے لے کر فیض، راشد، فراق، میراجی، مجید امجد اور شان الحق حقّی جیسے شاعروں نے شعری ادب کے تراجم کیے ہیں۔

    ان میں سے کون ہے جس نے کسی بھی دوسری شخصیت کا ضمیمہ بننا قبول کیا ہو؟ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ تخلیقِ ادب کے مقابلے میں ترجمے کا کام نفیِ خودی کا مظہر ہے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ پھر یہ کام اثباتِ خودی کے پیغمبر حضرتِ علامہ نے کیوں انجام دیا؟ شاید اس لیے کہ اسرارِ خودی ہی سے نہیں، رموزِ بے خودی سے بھی ان کا رشتہ اتنا ہی گہرا تھا۔

    کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کا اصولِ حیات انفرادیت پرستی اور غیر جمہوری معاشرتوں کا فلسفۂ زندگی اجتماعیت پرستی ہے، اس کے باوجود مغربی یورپ اور امریکا میں علمی، ادبی اور اجتماعی ادارے صدیوں سے چل رہے ہیں اور مشرقی یورپ اور روس میں انفرادی کمال کا حصول ناممکن نہیں۔ اس کے برعکس تیسری دنیا کے بڑے حصّے میں نہ انفرادی جوہر درجہ کمال تک پہنچتے پاتا ہے، نہ تہذیبی تعاون کی صورت پیدا ہوتی ہے، بلکہ دونوں کی جگہ ایک ناپختہ انانیت پسندی اور غرض مندانہ بد انتظامی کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں ترجمے کا کام کسی اعلیٰ پیمانے پر کہاں سے ہو؟

    ترجمے کا تو اصلُ الاصول ہی تعاون ہے: مصنف سے تعاون، قاری سے تعاون، اصل زبان سے تعاون، اپنی زبان سے تعاون، موضوعِ کتاب کے خصوصی ماہرین سے استمداد بلکہ مختلف قسم کے پیشہ وروں کے تعاون کے حصول بھی لازم ہے، تا کہ عمومی سطح پر استعمال ہونے والے اصطلاحی الفاظ کا زندہ مفہوم سمجھ میں آئے، ورنہ علم و ادب کا رابطہ زندگی سے کٹ کر رہ جائے گا۔ چناں چہ ترجمہ ایک نہایت مشقت طلب کام ہے اور جو طبیعتیں اس کے خلاف تعصب اور مزاحمت سے کام لیتی ہیں، در حقیقت محنت سے جان چُراتی ہیں۔ ایسے میں تخلیقی الہام اور آمد پرستی سے بہتر بہانہ کیا ہو سکتا ہے؟

    ترجمہ ایک فن ہے اور جملہ فنون کی طرح اس فن میں بھی کمال اور بے کمالی کے ہزاروں مدارج موجود ہیں۔ جورج اسٹاینر(George Steiner) کا کہنا ہے کہ ننانوے فی صد تراجم ناقص ہوتے ہیں۔ (اور طبع زاد تحریریں کتنے فی صد ناقص نہیں ہوتیں؟) پھر ترجمے کی بہت سی اقسام ہیں کہ یہ کام تو بازار سے لے کر اقوامِ متحدہ تک اور اخبار سے لے کر وی سی آر تک کسی نہ کسی شکل میں چلتا ہی رہتا ہے، چاہے محض چالو قسم کا ہو۔

    عام زندگی میں بھی ترجمے کا معیار قدرے بہتر ہو سکتا ہے اگر اس کو، فن کے طور پر نہ سہی، ایک روزمرہ ہُنر ہی کی طرح سیکھنے سکھانے کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔ فن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ محض تعلیم و تعلم سے نہیں آتا، اگرچہ اس میں بھی ایک عنصر ہنر کا ضرور ہوتا ہے جو ماہرانہ تربیت سے نکھر سکتا ہے، لیکن ترجمے کا ہنر اس لحاظ سے خاصا پیچیدہ ہے کہ اس میں دہری تہری صلاحیت کی ضرورت پڑتی ہے۔

    متن کی زبان اور اپنی زبان تو خیر آنی ہی چاہیے۔ اُس موضوع کے ساتھ بھی طبعی مناسبت درکار ہے جو متن میں موجود ہے۔ مصنف سے بھی کوئی نہ کوئی نفسیاتی مماثلت لازمی ہے، اور اُس صنفِ ادب یا شاخِ علم سے بھی جس سے متن پیوست ہے، مترجم کو پیوستگی حاصل ہو، تب شاید ترجمہ چالو معیار سے اوپر اٹھ سکے۔

    (مظفر علی سید کے مضمون ’ ترجمے کی جدلیات‘ سے اقتباس)

  • ’’خوجی“ ایک ایسا آئینہ جس میں ہم اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں

    ’’خوجی“ ایک ایسا آئینہ جس میں ہم اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں

    فسانۂ آزاد اردو ناول نگاری کے عہدِ اوّلین کا ایک خوب صورت نقش ہے جو پنڈت رتن ناتھ سرشار کشمیری کی تخلیق ہے۔ اردو ادب میں یہ بحث کی جاتی رہی کہ اسے ناول کہا جائے یا داستان، لیکن سبھی یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ فسانۂ آزاد کا کردار ’’خوجی“ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔

    پنڈت رتن ناتھ سرشار ادیب اور شاعر تھے، تعلق کشمیر سے تھا۔ اپنے زمانے کے اخبارات میں مدیر رہے، سرکاری ملازمت بھی کی اور مضمون نگاری کے ساتھ تصنیف و ترجمہ کا شغل جاری رکھا۔

    خوجی کا کردار ان کے ذہن کی اختراع ہے جسے انھوں نے فسانۂ آزاد میں متعارف کروایا۔ اس مشہور کردار کے بارے میں اردو کے ممتاز نقّاد اور محقّق ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھا ہے:

    ’’فسانۂ آزاد“ دسمبر 1878ء سے دسمبر 1879ء تک، اودھ اخبار لکھنؤ کے ضمیمے کے طور پر قسط وار شائع ہوتا رہا۔ اور پہلی بار 1880ء میں نول کشور پریس لکھنؤ سے شائع ہوا۔ اس ناول میں سرشار نے زوال شدہ لکھنؤ، مسلم تہذیب کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ خود یہ تہذیب اس ناول میں محفوظ اور اجاگر ہو گئی ہے۔

    اس ناول میں ہر طبقے کے مردوں اور عورتوں کے بے شمار چھوٹے بڑے کردار ہیں، لیکن ایک کردار خصوصیت کے ساتھ ایسا ہے جو زندۂ جاوید ہو گیا ہے۔ عرفِ عام میں اس کردار کا نام ”خوجی“ ہے۔ ”فسانۂ آزاد“ میں اس کردار نے وہ رنگ بھرا ہے کہ اس کے بغیر خود یہ ناول بے مزہ و بے لطف ہو کر رہ جاتا۔ میں نے اسی عجیب و غریب اور نرالے کردار کی سرگزشت آپ کی تفریحِ طبع کے لیے مرتب کی ہے۔ خوجی کی انوکھی سرگزشت ترتیب دیتے ہوئے میں نے اس کردار کے سارے چھوٹے بڑے واقعات کو مربوط انداز میں اس طرح اکٹھا کر دیا ہے کہ ایک طرف آپ قبلہ خوجی صاحب کے مزاج اور رنگا رنگ تماشوں سے پوری طرح واقف ہو جائیں اور دوسری طرف ان کی زندگی کی ساری کہانی بھی آپ کے سامنے آ جائے۔

    خوجی صاحب دھان پان سے آدمی ہیں، لیکن ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے اور ذرا سی بات پر بڑی سے بڑی طاقت سے بھڑ جاتے ہیں اور مار کھاتے ہیں، لیکن شکست نہیں مانتے۔ بات بات پر قرولی نکالنے اور حریف کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔

    ”نہ ہوئی قرولی“ ان کا تکیۂ کلام ہے۔ یہی تکیۂ کلام خوجی کی سرگزشت کا عنوان ہے۔ آپ کو اس سرگزشت میں ربط بھی نظر آئے گا اور تسلسل بھی۔ آپ اسے ”سوانحی ناول“ کی طرح روانی اور دل چسپی کے ساتھ پڑھ سکیں گے۔

    خوجی کے کردار کو بحیثیت مجموعی دیکھیے تو یوں محسوس ہو گا کہ یہ کردار زوال شدہ لکھنوی مسلم تہذیب کا نمائندہ ہے۔ وہ تہذیب جس کا جسم کم زور و بے جان اور قد گھٹ کر بالکل بونوں جیسا ہو گیا ہے، لیکن ایک ہزار سال کی حکومت، طاقت اور عظمت کا نشہ اب بھی چڑھا ہوا ہے۔ اسی لیے شیخی بھگارنا، دون کی ہانکنا، اپنی بڑائی کا اظہار کرنے کے لیے ڈینگیں مارنا خوجی کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔

    برصغیر کی زوال پذیر مسلم تہذیب کی روح خوجی کے کردار میں مجسم ہو گئی ہے۔ اس لیے خوجی صاحب آج بھی زندہ ہیں اور آنے والے زمانے میں بھی زندہ رہیں گے۔“

  • چاندی کا فرشتہ

    چاندی کا فرشتہ

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسپین پر اہل فِنیشیا کی حکومت تھی اور اسپین کے باشندے زمین سے معدنیات نکالا کرتے تھے۔

    اسی اسپین کے ایک پہاڑی علاقے میں ایک خچر بان رہتا تھا جس کا نام انتونیو (Antonio) تھا۔ انتونیو خچروں کے ایک مال دار بیوپاری کے یہاں کام کرتا تھا جو خچروں کو شمالی علاقوں میں فروخت کرنے کے لیے بھیجا کرتا تھا جہاں اُن کی مانگ زیادہ تھی اور قیمت اچھی مل جاتی تھی۔

    انتونیو بہت ایمان دار اور ہوشیار آدمی تھا، اس لیے اُس کا مالک اس پر بہت اعتماد کرتا تھا اور اُسی کے ہاتھ خچر بازار بھیجا کرتا تھا لیکن اس کے محنتی اور ایمان دار ہونے کے باوجود وہ انتونیو کو اتنی کم تنخواہ دیتا تھا کہ اس کا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا تھا۔

    انتونیو کے کئی کئی وقت فاقے بھی ہو جاتے تھے۔ اپنی غریبی کی وجہ سے وہ اپنی پیاری روزیتا (Rosita) سے شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ روزیتا اور انتونیو دونوں ملاگا (Malaga) کے زرخیز میدانوں کے رہنے والے تھے۔ روزیتا بہت خوب صورت لڑکی تھی مگر وہ بھی انتونیو کی طرح غریب تھی اور اس پر بھی فاقے گزرا کرتے تھے۔

    انتونیو خچروں کو بازار لے جاتا تو گرمیوں کی راتوں میں تاروں کی چھاؤں میں وہ خچروں کے پاس ہی سوتا تھا۔ کڑکڑاتے جاڑوں میں کسی سرائے کی آگ کے سامنے رات کاٹنی ہوتی تھی، مگر اب ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ اسے جاڑے کے موسم میں رات گزارنے کے لیے کوئی سرائے نصیب ہو جائے۔ اکثر کسی جھاڑی کے نیچے بارش اور برف باری میں بھوکے انتونیو کو رات کاٹنی پڑتی تھی۔ بہت ہوتا تو کسی پہاڑ کا غار نصیب ہو جاتا جس کا فرش اور دیواریں گیلی ہوتی تھیں۔

    ایک مرتبہ گرمیوں کی ایک چاندنی رات تھی اور انتونیو خچروں کے ساتھ ایک کالے پہاڑ کے دامن میں ڈیرا ڈالے ہوئے تھا۔ قریب ہی ایک جھرنا بہہ رہا تھا۔ بڑا ہی خوش نما منظر تھا۔

    ایسے وقت میں انتونیو کا دھیان ملاگا کی طرف چلا گیا جہاں روزیتا رہا کرتی تھی۔ اس نے سوچا کہ نہ جانے روزیتا اُس وقت کیا کر رہی ہو گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اُس کی شادی روزیتا سے ہو جائے، پھر وہ اور زیادہ محنت کرے گا۔ دونوں کے لیے وہ چھوٹی سی جھونپڑی بنا لے گا جس میں وہ رہیں گے۔ وہ کسی محل سے کم نہ ہو گی اور کھانے کو جو بھی روکھا سوکھا مل جائے گا، اسے وہ نعمت سمجھ کر کھا لیں گے۔ یہ باتیں سوچتے سوچتے اُسے نیند آ گئی۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو چاند ڈوب رہا تھا لیکن رات ابھی بہت اندھیری تھی۔

    انتونیو کی نظر کالے پہاڑ کی طرف اُٹھ گئی۔ اُسے ایسا نظر آیا جیسے وادی میں چاندی کی ندی سی بہہ رہی ہو اور پہاڑوں کی ڈھلانوں سے چاندی کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر نیچے وادی میں جھما جھم گر رہے ہوں۔ پہاڑ کی چوٹی پر جب اُس کی نگاہ پڑی تو اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک بانکا بہادر شخص جگ مگ کرتا ہوا زرہ بکتر پہنے، چاندی کا نیزہ لیے کھڑا ہے۔ پھر وہ شخص پہاڑ سے اُتر کر آہستہ آہستہ اُس کی طرف آیا۔ انتونیو کو یقین تھا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ یوں بھی بہت تھکا ہارا تھا۔ اس لیے اُس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور نیند نے پھر اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

    پھر انتونیو نے سوتے سوتے ایک آواز سُنی ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔ میں چاندی کا فرشتہ ہوں اور سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہوں۔ مجھ کو صرف ایمان دار آدمی ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے یاد رکھنا۔ میں تمہیں اپنا دوست بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

    صبح جب انتونیو کی آنکھ کھلی تو اُس نے سب سے پہلے پہاڑ کی چوٹی کی طرف دیکھا جہاں پچھلی رات چاندی کا فرشتہ کھڑا تھا اور جس کی وادی میں چاندی کی ندی بہہ رہی تھی، لیکن وہ کالا پہاڑ دِن کی روشنی میں بھی پہلے کی طرح کالا بھجنگ ہی نظر آ رہا تھا۔ اب تو انتونیو کو بالکل یقین آ گیا کہ جو کچھ اُس نے رات کو دیکھا تھا وہ خواب ہی تھا۔ وہ اُٹھا اور اپنے خچروں کو لے کر بازار کی طرف چل دیا۔

    راستہ بہت لمبا اور سنسا ن تھا۔ انتونیو کو رات والا خواب بار بار یاد آ رہا تھا اور اُس کے کانوں میں چاندی کے فرشتے کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ چاندی کا فرشتہ اُسے کس طرح امیر بنا سکتا تھا۔ اُس فرشتے نے یہ بھی تو کہا تھا کہ وہ سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہے۔ انتونیو سارے ملک میں اپنے مالک کے خچر بیچنے جاتا تھا۔ اُسے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ دوبارہ اِس پہاڑ کی طرف کبھی پھر آئے گا، اور اگر آیا بھی تو اُسی دن آئے گا جب چاندی کا فرشتہ نظر آتا ہے۔ کیا وہ فرشتہ واقعی اُسے وہ جگہ دکھا دے گا جہاں چاندی کا خزانہ دفن ہے؟‘‘

    انتونیو کے دماغ میں یہ سوالات آتے رہے اور وہ پتھریلی پگڈنڈیوں پر چلتا رہا۔ خچروں کی ٹاپوں کی آوازیں چٹانوں سے ٹکر ا کر ہوا میں گونجتی رہیں یہاں تک کہ وہ اُس سڑک پر پہنچ گیا جو اُس بازار تک جاتی تھی جہاں اُس کو خچر بیچنے تھے۔

    راستے میں ایسے بہت سے لوگ اُس کے ساتھ ہو لیے جو بازار جا رہے تھے۔ وہ خچر بان بھی اُس سے دعا سلام کرتے ہوئے گزر گئے جن سے اُس کی ملاقات مختلف بازاروں میں ہوتی رہتی تھی۔

    لوگوں نے اُسے ان بازاروں کی خبریں سنائیں۔ اسے جا بجا خوب صورت لڑکیاں اُون اور انڈے لیے بازار کی جانب جاتی دکھائی دیں جہاں وہ ان چیزوں کو بیچتی تھیں۔ امیر بیوپاری اپنے خوب صورت گھوڑوں پر سوار جاتے ہوئے نظر آئے۔ اسی گہماگہمی میں انتونیو کے دماغ سے پچھلی رات والا واقعہ نکل گیا۔

    بازار میں انتونیو نے خچر اچھے داموں بیچے اور واپس ہونے سے پہلے راستے کے لیے کھانے پینے کا سامان اور اپنے مالک کی بتائی ہوئی بہت سی چیزیں خریدیں۔ جو روپے باقی بچے انہیں اُس نے ایک پیٹی میں رکھ کر اپنی کمر سے باندھ لیا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بازار والی سرائے میں اور چند دن رک کر اپنے دوستوں سے ملے اور آتش بازی دیکھے، لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کھیل تماشوں میں انہیں خرچ کرتا۔ پھر اُس کے مالک نے اُسے جلد لوٹ آنے کی تاکید بھی کی تھی اور اب وقت تنگ ہو چلا تھا۔

    انتونیو بازار میں رکنے کا خیال چھوڑ کر اپنے خچر پر بیٹھ کر واپس چل دیا۔ اندھیرا ہونے سے پہلے وہ اسی وادی میں جا پہنچا جہاں اس نے پچھلی رات گزاری تھی۔ ابھی دن کی روشنی باقی تھی لیکن وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر اُسے رات والا واقعہ یاد آ گیا۔ اُس نے سوچا ’’کیا آج بھی وہی چاندی کا فرشتہ نظر آئے گا؟‘‘وہ اپنے خچر کی زین کھول ہی رہا تھا تاکہ اُسے گھاس چرنے کے لیے چھوڑ دے اور اتنی دیر میں وہ بھی کچھ کھا لے کہ اُس نے ایک لمبے تڑنگے شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا۔

    وہ شخص مٹیالے رنگ کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا اور کسی درویش کی طر ح لگ رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا جس کا سہارا لے کر وہ چل رہا تھا۔ وہ شخص بہت تھکا ہارا نظر آ رہا تھا اور لنگڑا بھی رہا تھا۔

    اُس درویش نے انتونیو کے پاس آکر کہا، ’’بھائی ! کیا تم اس پہاڑ پر چڑھنے میں میری مدد کرسکتے ہو؟ میں پہاڑ پر رہنے والے ایک جوگی سے ملنا چاہتا ہوں، مگر میں بہت تھک گیا ہوں اور آگے جانے کی مجھ میں طاقت نہیں رہی ہے۔ کیا تم مجھے اپنا خچر دے سکتے ہو؟ میں تم کو اس خدمت کا اچھا انعام دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے جواب دیا ’’میں آپ کی مدد بغیر کسی لالچ کے کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن میں خود بے حد تھکا ہوا ہوں۔ اگر میں اپنا خچر آپ کے حوالے کر دوں گا تو مجھ کو بھی آپ کے ساتھ چلنا ہو گا کیوں کہ خچر میرا نہیں ہے بلکہ میرے مالک کا ہے۔‘‘

    درویش نے کہا ’’اگر تم بہت تھکے ہوئے نہیں ہو تو میرے ساتھ چلو۔ مجھے تمہاری رفاقت سے بہت خوشی ہو گی اور میں تمہیں اِس کا انعام بھی ضرور دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے سوچاکہ وہ ابھی ایک مضبوط جوان ہے۔ تھکا ہوا ہے تو کیا ہوا۔ ذرا سی دور تو اور چل ہی سکتا ہوں۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ جس پہاڑ پر وہ درویش جانا چاہتا ہے وہ تو وہی پہاڑ ہے جس پر اُس نے چاندی کے جھرنے بہتے دیکھے تھے تو وہ جلدی سے راضی ہو گیا۔ اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا جھاڑیوں میں چھپا دیا تاکہ کوئی چور نہ اُٹھا لے جائے اور بوڑھے درویش کو خچر پر بٹھا کر اس کے ساتھ آہستہ آہستہ ہولیا۔

    جب وہ آدھا راستہ طے کر چکا تو درویش نے خچر روک دیا اور اُتر کر بولا، ’’تم سویرے تک یہیں ٹھہرو۔ اگر میں صبح تک واپس نہ آؤں تو میرا انتظار نہ کرنا اور واپس لوٹ جانا کیوں کہ اس کے بعد مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ بوڑھا درویش پہاڑ کی چوٹی کی طرف چل دیا اور تھوڑی ہی دیر میں انتونیو کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    جب انتونیو کو خیال آیا کہ اُس نے انتونیو کی خدمت کی قیمت ادا نہیں کی تھی تو اس کا دل اُداس ہو گیا۔ بہرحال وہ اُسی جگہ کھڑا تھا جہاں سے اس نے رات کو چاندی کے جھرنے پھوٹتے دیکھے تھے۔ اُس نے سوچا، ’’ہو نہ ہو اس بوڑھے درویش کا چاندی کے خزانے سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ انتونیو نے پتھروں اور چٹانوں کے درمیان چھپے ہوئے خزانہ کی تلاش شروع کر دی۔ دیر تک وہ چٹانوں کے ٹکڑے توڑ کر دیکھتا رہا، مگر اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ آخر کار تھک کر وہ لیٹ گیا اور پھر اسے نیند آ گئی۔

    جب اُس کی آنکھ کھلی تو سورج نکل آیا تھا اور اُس درویش کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ وہ پہاڑ پر تھوڑی دور تک اور چڑھا اور درویش کو آوازیں دیتا رہا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ انتونیو کو اب احساس ہوا کہ اس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ وہ مایوس ہو کر اُسی جگہ واپس چلا گیا جہاں اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا چھپائے تھے۔ جب اُس نے اپنا تھیلا اٹھایا تو وہ اُسے بہت بھاری لگا۔ تھیلا کھول کر دیکھا تو اس میں چٹانوں کے وہی ٹکڑے نظر آئے جو رات کو اُس نے توڑے تھے۔

    پتھروں کے وہ ٹکڑے بہت بھاری اور بے ڈول تھے۔ انتونیو انھیں پھینکنے ہی والا تھا کہ اسے درویش کے یہ الفاظ یاد آ گئے کہ وہ اُسے انعام دے گا۔ اس کو ایسا لگا جیسے چاندی کا فرشتہ اس کے کانوں میں کہہ رہا ہو کہ’’اِسے مت بھولنا! یہ ساری چاندی تمہارے لیے ہی ہے، تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ انتونیو نے پتھروں سے بھرا تھیلا خچر پر لادا اور گھر کی طرف چل پڑا۔

    جب انتونیو اپنے گھر پہنچا تو اس نے اپنے مالک کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ مالک نے انتونیو کے لائے ہوئے پتھروں کو غور سے دیکھا تو اسے سیاہ پتھروں میں سفید سفید چمکتی ہوئی نسیں سی نظر آئیں۔ وہ ان پتھروں کو اپنے ایک دوست کے پاس لے گیا جو چاندی کی ایک کھدان کا منیجر تھا۔

    منیجر نے مالک سے پوچھا کہ پتھروں کے یہ ٹکڑے اُسے کہاں سے ہاتھ آئے۔ مالک کو اس جگہ کا علم نہیں تھا اِس لیے اُس نے گھر آ کر انتونیو سے اُس جگہ کا اَتا پتا پوچھا۔ انتونیو کو اپنے مالک پر بھروسہ نہیں تھا۔ اُس نے مالک سے کہا کہ وہ چاندی کی کان اُس منیجر کو دکھا دے گا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ منیجر ایمان دار شخص ہے اور اُسے دھوکا نہیں دے گا۔

    منیجر نے انتونیو کو کچھ رقم دی اور بعد میں اور پیسے دینے کا وعدہ کیا۔ انتونیو اُسے ساتھ لے کر گیا اور جگہ دکھائی جہاں اسے درویش نے چھوڑا تھا، جہاں اس نے خزانے کی تلا ش میں چٹانوں کو توڑا تھا اور جہاں اس نے چاندی کے جھرنے نکلتے دیکھے تھے۔ منیجر نے اس جگہ زمین کھودی تو وہاں چاندی کی ایک بہت بڑی کان نکلی۔

    منیجر نے انتونیو کو بہت سے روپے دیے جن کو لے کر وہ ملاگا کے میدانوں میں چلا گیا اور وہاں اُس نے روزیتا سے شادی کر لی۔ دونوں نے وہاں ایک بڑا فارم خرید لیا اور وہ روزیتا کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگا۔

    انتونیو اب بوڑھا ہو گیا ہے اور چاندی کے فرشتے کی کہانی اپنے بچّوں، پوتے پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کو مزے لے لے کر سنایا کرتا ہے۔

    (اسپین کے لوک ادب سے انتخاب)