Tag: مشہور کہانیاں

  • بادشاہ کی وصیت

    بادشاہ کی وصیت

    ایک بادشاہ لا ولد تھا۔ جب اس کی موت کا وقت نزدیک آیا تو اس نے وصیت کی کہ میری موت کے دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہو، میری جگہ اسے بادشاہ بنا دیا جائے۔

    خدا کی قدرت کا تماشا دیکھیے کہ دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوا وہ ایک فقیر تھا۔ اس کی ساری زندگی در در بھیک مانگتے اور اپنی گدڑی میں پیوند پر پیوند لگانے میں گزری تھی اور اچانک ہی اسے ایک بڑی سلطنت اور محل نصیب ہو گیا۔

    امیروں، وزیروں نے بادشاہ کی وصیت کے مطابق اسے بادشاہ بنا دیا اور وہ تاج و تخت اور خزانوں کا مالک بن کر بہت شان سے زندگی گزارنے لگا۔ قاعدہ ہے کہ حاسد اور کم ظرف لوگ کسی کو آرام میں دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگتے ہیں۔ اس فقیر کے ساتھ بھی یہی ہوا جو اب بادشاہ بن گیا تھا۔ اس کے دربار کے کچھ امرا نے آس پاس کے حکم رانوں سے ساز باز کر کے ملک پر حملہ کروا دیا اور بہت سا علاقہ حملہ آوروں نے فتح کر لیا۔

    فقیر بادشاہ بہت افسردہ رہنے لگا۔ انھی دنوں اس کا ایک ساتھی فقیر ادھر آ نکلا اور اپنے یار کو ایسی حالت میں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اسے مبارک باد دی کہ خدا نے تیرا مقدر سنوارا اور فرشِ خاک سے اٹھا کر تختِ افلاک پر بٹھا دیا۔

    فقیر کی یہ بات بالکل درست تھی۔ کہاں در در کی بھیک مانگنا اور کہاں تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہونا، لیکن اس شخص کو تو اب بادشاہ بن جانے کی خوشی سے زیادہ ملک کا کچھ حصہ چھن جانے کا غم تھا۔ غم ناک آواز میں بولا، ہاں دوست تیری یہ بات تو غلط نہیں لیکن تجھے کیا معلوم کہ میں کیسی فکروں میں گھرا ہوا ہوں۔ تجھے تو صرف اپنی دو روٹیوں کی فکر ہو گی، لیکن مجھے ساری رعایا کی فکر ہے۔

    شیخ سعدیؒ کی اس حکایت میں یہ سچائی اور سبق پوشیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا اعزاز پا کر بھی انسان کو سچا اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ طاقت و منصب، جاہ و جلاس اس کی خواہشات بڑھا دیتے ہیں اور اگر ان میں‌ سے کوئی پوری نہ ہو تو وہ اداس اور افسردہ ہو جاتا ہے۔ اگر اس سے مال و دولت چھن جائے یا اس میں‌ کمی آجائے تو اسے روگ لگ جاتا ہے۔

  • پُراسرار دستانے

    پُراسرار دستانے

    مصنّف: مختار احمد

    عظیم کے گھر میں بڑی گہماگہمی تھی۔ خالہ اور ممانی اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ بچوں کے اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں ہوگئی تھیں اس لیے انہوں نے کچھ دنوں کے لیے گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا تھا۔

    عظیم کے والد بغرضِ ملازمت اس چھوٹے سے شہر میں مقیم تھے۔ یہ گاوٴں، دیہات اور ایک بڑے دریا سے ملحق بہت ہی خوب صورت اور پرسکون شہر تھا۔

    عظیم کا تو خوشی کے مارے برا حال تھا۔ اس کے اسکول اور محلے کے تو کئی دوست تھے مگرخالہ زاد اور ممانی زاد بہن بھائیوں کی تو بات ہی دوسری ہوتی ہے۔ ان کے آنے کی خبر سے وہ بہت خوش ہوا تھا۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ پرسوں اس کی چودھویں سال گرہ بھی ہے، سب لوگ ہوں گے اور خوب مزہ آئے گا۔

    چوں کہ ٹرین لیٹ ہو گئی تھی اس لیے وہ سب رات کو دیر سے گھر پہنچے تھے۔ کھانا کھاتے کھاتے اور باتیں کرتے کرتے رات کے دو بج گئے تھے۔ صبح کسی نے اسکول تو جانا نہیں تھا، اس لیے سونے کی کسی کو فکر بھی نہیں تھی۔ عظیم کی امی کو صبح جلدی اٹھنا تھا کیوں کہ اس کے ابّو کو آفس جانا تھا اور انھیں ناشتہ تیار کر کے دینا تھا، اس لیے وہ سونے کے لیے چلی گئیں۔ وہ گئیں تو یہ محفل بھی برخاست ہوگئی۔ آنے والے مہمان کافی تھکے ہوئے تھے، گھوڑے بیچ کر سو گئے۔

    عظیم کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ بہت خوش تھا اور پروگرام بنا رہا تھا کہ خالہ اور ممانی کے بچوں کے ساتھ کس طرح وقت گزارے گا۔ نیند تو خیر اس کو آگئی تھی مگر وہ صبح سویرے ہی جاگ گیا تھا۔ تھکن کی وجہ سے مہمان مزے سے سو رہے تھے۔ عظیم نے ہاتھ منہ دھویا، امی کے ساتھ نماز پڑھی۔ امی تو کچن میں مصروف ہو گئیں اس نے سوچا کہ باہر نکل کر تھوڑی سی ہوا خوری کرلے۔ ابھی پو نہیں پھٹی تھی اور کافی اندھیرا تھا۔

    وہ گھر سے قریب ایک پارک میں پہنچ گیا۔ اونچے اونچے درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندوں کا شورسنائی دینے لگا تھا۔ ہوا میں کافی خنکی تھی، گرم سویٹر پہننے کے باوجود اسے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ گھر سے چلتے ہوئے اس کی امی نے اسے مفلر بھی تھما دیا تھا جسے اس نے گردن کے گرد لپیٹ لیا۔

    پارک سنسان پڑا تھا لیکن جب اس نے غور سے دیکھا تو پارک میں نصب آخر والی بینچ پر اسے کوئی شخص بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اس کے ذہن میں پہلا خیال یہ ہی آیا کہ یہ کوئی بچے پکڑنے والا آدمی ہے۔ اس نے سوچا کہ وہاں سے بھاگ جائے مگر ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ اس کے پاوٴں من من بھر کے ہوگئے، اس سے اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں گیا۔ وہ مفلر جو اس نے گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا اچانک اس کے گلے سے نکلا اور اڑتا ہوا اس شخص کی جانب چل دیا جو دور بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔

    ’’امی۔۔۔۔!‘‘ عظیم کے منہ سے بے اختیار خوف بھری ایک چیخ نکلی اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے پاؤں کی جان نکل گئی ہے۔ وہ خود کو لعنت ملامت کرنے لگا کہ اتنے اندھیرے میں گھر سے نکل کر یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس واقعے نے اسے اس قدر خوف زدہ کر دیا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے جسم سے جان نکل گئی ہو۔

    اس کے بعد رونما ہونے والے دوسرے واقعہ نے اس کے رگ و پے میں خوف کی سنسناہٹ دوڑا دی۔ وہ شخص اٹھ کر اسی کی طرف آنے لگا تھا۔ عظیم کا ڈر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اس سے چیخا بھی نہیں جا رہا تھا، ایسا معلوم دیتا تھا جیسے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہے۔

    ’’ماں کے لاڈلے۔ یہ لو پکڑو اپنا مفلر۔‘‘ قریب آنے والے اس شخص نے کہا۔ اب عظیم نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔

    ’’بھائی تم کون ہو؟‘‘عظیم نے تھوک نگل کر پوچھا۔

    ’’ڈر لگ رہا ہے تو بھائی بھائی کر رہے ہو۔‘‘ وہ لڑکا بڑی خوش دلی سے ہنسا، مگر پھر فوراً ہی اداس ہوگیا: ’’میں بہت بدنصیب ہوں۔ میرے لیے اب عام لڑکوں کی طرح زندگی گزارنا ایک خواب ہی ہے۔‘‘

    اس کے دکھ بھرے لہجے سے عظیم متاثر ہو گیا ۔ کچھ پوچھنے کے لیے اس نے منہ کھولا ہی تھا کہ اتنے میں ایک ننھی سی چڑیا ان کے قریب سے اڑتی ہوئی گزری، اس پراسرار لڑکے نے اپنا ہاتھ بلند کرکے اپنی مٹھی کھولی، چڑیا آگے جاتے جاتے بجلی کی تیزی سے پلٹی اور اس لڑکے کی مٹھی میں آگئی۔

    یہ دیکھ کر عظیم کے جسم پر کپکی طاری ہو گئی، اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں اور پیٹ میں جیسے کوئی چیز زور زور سے گھومنے لگی۔ اس سے کھڑا رہنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ وہ گھاس پر بیٹھ گیا اور خوف بھری نظروں سے اس لڑکے کو دیکھنے لگا۔ اس لڑکے نے ہاتھ میں پکڑی چڑیا کو فضا میں اچھال کر اسے اڑا دیا اور خود بھی عظیم کے پاس بیٹھ گیا۔

    عظیم اس سے دور ہٹتے ہوئے بولا:’’میں امی کے پاس جاوٴں گا۔‘‘

    لڑکا ہنس پڑا۔ ’’ہو تو تم میرے ہی جتنے مگر دودھ پیتے بچے بن رہے ہو۔ مجھ سے ڈرو مت، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوٴں گا۔ دیکھو میں نے تمہارا مفلر بھی واپس کر دیا تھا، اگر میں چاہتا تو اس کو لے کر بھاگ بھی سکتا تھا۔‘‘

    ’’لیکن تم بہت عجیب سے ہو۔ ‘‘ عظیم نے تھوک نگل کر کہا۔ ’’تم کوئی جادوگر ہو، تم نے لڑکے کا روپ دھار رکھا ہے۔‘‘

    ’’اگر میں جادوگر ہوتا تو کسی شہزادی کو اپنے محل میں قید کر کے اس کی خوشامد کررہا ہوتا کہ وہ مجھ سے شادی کرلے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ لڑکا ہنسا پھر اداسی سے بولا۔ ’’میرے سب دوست مجھ سے دور ہوگئے ہیں۔ سب لوگ مجھ سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ میں اکیلا ہی گھومتا پھرتا ہوں، سب سمجھتے ہیں کہ میں کوئی جادوگر ہوں، حالاں کہ میں ہوں نہیں۔‘‘

    ’’پھر تم یہ سب کچھ کیسے کر لیتے ہو، جادوگر ہی ایسا کر سکتے ہیں؟‘‘۔ عظیم نے کہا۔

    ’’میرا نام انعام ہے۔ ‘‘ اس لڑکے نے کہا۔ ’’کیا تم میری کہانی سننا پسند کرو گے۔ میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا۔‘‘

    انعام کی بات سن کر عظیم کا دل بھر آیا۔ ’’ہاں ہاں، میں ضرور تمہاری کہانی سنوں گا، اچھا ہے تمہارے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مجھے تو تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو بس تمہاری حرکتیں ٹھیک نہیں لگتیں۔‘‘

    اس کی بات سن کر انعام خوش ہوگیا اور اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’یہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ میں اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ بد قسمتی سے اسکول میں میری دوستی چند آوارہ لڑکوں سے ہو گئی تھی۔ ان لڑکوں نے مجھے اسکول سے بھاگنا سکھا دیا تھا۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ میں بجائے اسکول جانے کے، دریا کی جانب چل دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ دریا پر جا کر سیر کروں گا اور چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی پکڑوں گا۔ میں دریا پر پہنچا تو مجھے وہاں ایک بوڑھا شخص ملا۔ اس کی شکل عجیب سی اور خوف ناک تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر دوستانہ انداز میں مسکرایا۔

    ’’مچھلیاں پکڑنے آئے ہو لڑکے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ دریا کی طرف کیا اور پل بھر میں اس کی ہتھیلی پر تین چار چھوٹی چھوٹی مچھلیاں آکر تڑپنے لگیں۔ اس نے قریب پڑی پلاسٹک کی ایک تھیلی اٹھا کر اس میں پانی بھرا اور مچھلیوں کو اس میں ڈال کر میرے حوالے کر دیا۔ یہ دیکھ کر میں تمہاری طرح خوف زدہ نہیں ہوا تھا۔ میں ایک بہادر لڑکا ہوں، ہاں یہ ضرور ہے کہ تھوڑا بے وقوف ہوں۔ میں نے بوڑھے سے پوچھا کہ وہ یہ کیسے کرتا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ ’’یہ تو میں تمہیں نہیں بتا سکتا ، لیکن اگر تم چاہو تو میں یہ طاقت تمہیں دے سکتا ہوں۔ مجھے تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو۔‘‘

    اس کی چاپلوسی کی باتیں سن کر میں خوش ہوگیا اور حامی بھر لی۔ ایک بات میں نے نوٹ کی تھی وہ شخص دستانے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے دستانوں کی طرف متوجہ دیکھا تو بولا۔ ’’ان دستانوں کو تم حیرت سے دیکھ رہے ہو۔ جب یہ طاقت تمہیں مل جائے گی تو تمہیں بھی ان کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ میں نے اس کی بات پر غور نہیں کیا، اسی سوچ میں مگن رہا کہ جب میں بھی ایسا کرنے لگوں گا تو اپنے دوستوں کو تماشا دکھا کر مرعوب کیا کروں گا۔ وہ کتنا حیران ہوں گے جب میں دور پڑی چیزوں کوایک جگہ بیٹھے بیٹھے اپنے پاس منگوا لیا کروں گا۔ اس نے مجھے قریب بلایا اور بولا۔ ’’آنکھیں بند کرو اور جو الفاظ میں کہوں تم انھیں دہراتے جاوٴ۔‘‘

    میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’میں اس طاقت کو اپنی مرضی سے لینا چاہتا ہوں۔ ‘‘میں نے وہ الفاظ بھی دہرا دیے۔ اس نے کہا ۔ ’’اب آنکھیں کھو ل دو۔ تمہیں یہ عجیب و غریب طاقت مل گئی ہے۔‘‘

    میں نے آنکھیں کھول کر اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ میرے دونوں ہاتھ کلائیوں تک بالکل سیاہ رنگ کے ہو گئے تھے۔ اس شخص نے اپنی مکروہ آواز میں کہا ۔ ’’تم چاہو تو اس طاقت کو آزما سکتے ہو۔ ‘‘ میں نے دور زمین پر پڑی ایک شیشے کی بوتل کی طرف دیکھ کر اسے اشارہ کیا، وہ زمین سے بلند ہوئی اور میرے ہاتھ میں آگئی۔

    اس طاقت کو حاصل کرکے مجھے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی تھی کیوں کہ اس کی وجہ سے میرے ہاتھوں کا رنگ تبدیل ہوگیا تھا۔ یہ سوچ کر ہی مجھے وحشت ہونے لگی تھی کہ اب میں اپنی امی ابّا اور دوستوں کا کیسے سامنے کروں گا، ان سے اپنے کالے ہاتھوں کے بارے میں کیا کہوں گا۔

    اس بوڑھے نے اپنے ہاتھوں سے دستانے اتار کر میرے حوالے کیے اور خود ایک جانب روانہ ہوگیا۔ اس بات کو تین روز گزر گئے ہیں۔ میری زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ میں ان دستانوں کو پہنے پہنے تنگ آگیا ہوں۔ ان کی وجہ سے میں کوئی کام ٹھیک طریقے سے بھی نہیں کرسکتا۔ وہ شیطان بوڑھا بھی پتہ نہیں کہاں چلا گیا ہے۔ اپنے دوستوں کو میں نے تماشے تو بہت دکھائے مگر مرعوب ہونے کے بجائے وہ مجھ سے خوف زدہ ہوگئے ہیں۔ وہ مجھ سے دور دور رہنے لگے ہیں اور بات چیت کرنے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ اور تو اور کل میرے ابّا بھی میری امی سے چپکے چپکے کہہ رہے تھے کہ اس کو کسی سینٹر چھوڑ کر آجائیں گے، یہ ہمارا والا انعام نہیں ہے کوئی اور ہے۔ پرسوں کی بات ہے انہوں نے باہر جانا تھا، مجھ سے بولے کہ میرے جوتے اٹھا دو۔ میں نے بیٹھے بیٹھے ان کے جوتوں کی طرف اشارہ کیا، وہ میرے پاس آگئے۔ ابّا گھبرا کر کھڑے ہوگئے اور بولے۔ ’’ان جوتوں کو اب میں کبھی نہیں پہنوں گا، ان میں جادو لگ گیا ہے۔‘‘

    اس کی یہ کہانی سن کر عظیم کو بہت افسوس ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’اس دنیا میں عجیب عجیب لوگ موجود ہیں جیسے وہ بوڑھا۔ اس نے بچہ سمجھ کر اپنی مصیبت تمہارے گلے ڈال دی ہے۔ اسی لیے تو ہمارے ماں باپ ہمیں اس بات کی نصیحت کرتے ہیں کہ اجنبیوں سے دور ہی رہنا چاہیے۔ ان سے کسی قسم کی کوئی بات بھی نہیں کرنا چاہیے، یہ لوگ ہمیں مصیبتوں میں پھنسا دیتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘

    انعام نے افسردگی سے کہا۔ ’’میری امی بھی مجھے بہت سمجھاتی تھیں کہ کسی بھی اجنبی شخص سے کوئی بات چیت نہ کروں۔ وہ کوئی کھانے کی چیز دے تو وہ بھی نہیں کھاوٴں، ان چیزوں میں بے ہوشی کی دوا ہوتی ہے اور اسے کھلا کر وہ لوگ بچوں کو اغوا کرلیتے ہیں اور اتنی سی چیز کھلا کر ان کے ماں باپ سے لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔‘‘

    اب چاروں طرف ہلکی ہلکی روشنی ہونے لگی تھی۔ عظیم نے ایک مرتبہ پھر انعام کا گہری نظروں سے جائزہ لیا اور بولا۔ ’’انعام بھائی کیا تم مجھے دریا پر اس جگہ تک لے جا سکتے ہو جہاں وہ خبیث بوڑھا تمہیں ملا تھا؟‘‘

    ’’وہ جگہ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے، آؤ۔‘‘ انعام نے کہا اور دونوں چل پڑے۔ عظیم ایک ذہین لڑکا تھا۔ اس کو انعام پر بہت ترس آرہا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ انعام کو اس مصیبت سے نجات مل جائے جس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھ کالے ہوگئے تھے۔ وہ دعا کررہا تھا کہ وہ بوڑھا ان کو دوبارہ مل جائے۔ اور پھر اس کی دعا قبول ہو ہی گئی۔ وہ بوڑھا انھیں نظر آگیا۔ وہ دریا کے کنارے بیٹھا اس کے پانی سے گاجروں کو دھو دھو کر کھا رہا تھا۔ عظیم نے انعام کو رکنے کا اشارہ کیا اور اس کے کان میں چپکے چپکے کچھ کہنے لگا۔ اس کی بات سن کرانعام کا چہرہ جوش و مسرت سے تمتمانے لگا۔

    اس بوڑھے نے انعام کو دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ نظر آنے لگی، وہ اسے پہچان گیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’میاں خوب مزے آرہے ہیں۔ اب تو تمہیں کوئی کام بھی نہیں کرنا پڑتا ہوگا۔ بیٹھے بیٹھے ہی سب چیزیں تمہیں مل جاتی ہوں گی۔‘‘

    انعام نے کہا۔ ’’اپنی یہ طاقت مجھ سے واپس لے لو۔ اس کی وجہ سے میرے دونوں ہاتھ بالکل سیاہ ہوگئے ہیں۔ لوگ مجھ سے ڈرنے لگے ہیں۔ میری امی تو مجھ سے اتنی خوف زدہ ہو گئی ہیں کہ انہوں نے مجھے مارنا پیٹنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وہ مجھے یہ دھمکی بھی نہیں دیتیں کہ آ لینے دے تیرے باپ کو تیری شکایت کروں گی۔ میں کسی کا سامنا بھی نہیں کرسکتا۔ رات کو سونے کے لیے لیٹتا ہوں تو دونوں ہاتھ گرم ہوجاتے ہیں۔ میں ٹھیک سے سو بھی نہیں سکتا۔‘‘

    ’’ان ہی تکلیفوں کی وجہ سے تو میں نے یہ طاقت تمہیں دی تھی۔ میں خود ان باتوں سے تنگ آگیا تھا۔‘‘ اس آدمی نے لاپروائی سے کہا۔ ’’میں اب اس کو واپس نہیں لے سکتا۔ تم یہاں سے چلے جاوٴ۔ اگر زیادہ تنگ کرو گے تو میں تمہیں دریا میں دھکا دے دوں گا اور تمہارے ساتھ اس کو بھی جسے تم حمایتی بنا کرلائے ہو۔‘‘

    ’’اچھا یہ بات ہے۔ ‘‘ انعام نے دستانے اتارتے ہوئے کہا۔ ’’تو پھر میری بات بھی کان کھول کر سن لو‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کیں اور بلند آواز میں بولا۔ ’’مجھے تمھاری یہ طاقت نہیں چاہیے۔‘‘

    اس کی بات کو سن کر بوڑھے نے ایک چیخ ماری اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ عظیم اور انعام نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ انعام کے ہاتھوں کا کالا رنگ دھویں میں تبدیل ہو کر بوڑھے کی طرف پرواز کرنے لگا اور اس کے قریب پہنچ کر اس کے جسم میں داخل ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے دونوں ہاتھ کالے نظر آنے لگے۔

    ’’لو۔ یہ پکڑو اپنے دستانے۔‘‘ انعام نے دستانوں کو پوری طاقت سے بوڑھے کی طرف پھینک دیا۔ اتنی دیر میں دریا کی ایک تیز لہر آئی اور اس بوڑھے کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ انعام کے دونوں ہاتھ پھر پہلے کی طرح سرخ و سفید ہو گئے تھے۔ اس نے عظیم کو گلے سے لگا لیا۔

    ’’میرے دوست۔ اگر تم وہ الفاظ مجھے نہ بتاتے جو میں نے اس بوڑھے شیطان سے کہے تھے تو مجھے کبھی بھی اس مصیبت سے نجات نہ ملتی۔‘‘

    اس کے بعد وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ عظیم گھر پہنچا تو سارے مہمان ناشتے میں مصروف تھے۔ اسے دیکھ کر امی نے کہا۔ ’’عظیم بیٹے۔ تم کہاں چلے گئے تھے۔ ہم ناشتے پر تمہارا انتظار کر رہے تھے۔‘‘

    عظیم نے کوئی جواب نہیں دیا، خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔ ناشتے کے بعد خواتین تو باتوں میں مصروف ہوگئیں۔ عظیم بچوں کو لے کر اپنے کمرے میں آگیا۔ وہاں اس نے انہیں یہ عجیب و غریب کہانی سنائی۔ تمام بچے یہ کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔

    عظیم نے کہا۔ ’’آج سے ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اسکول جاتے ہوئے اور نہ ہی اسکول سے آتے ہوئے کسی اجنبی سے کوئی بات کریں گے تاکہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوں۔‘‘

    سب بچوں نے اس بات کا وعدہ کیا۔ وہ سب عظیم کی عقل مندی سے بھی بہت متاثر تھے جس کی وجہ سے انعام کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملا تھا۔

  • انور چاچا کی وفاداری

    انور چاچا کی وفاداری

    یہ اس وقت کا ذکر ہے کہ جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ انگریزی کپڑوں اور انگریزی زبان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اس زمانے میں ہر ایسا آدمی جو حکومت سے کچھ فائدے حاصل کرنا چاہتا تھا، اپنے لباس اور بول چال میں انگریزوں جیسا بننے کی کوشش کرتا۔

    بہت سے لوگ ایسے تھے، جن کے پاس کھیتی باڑی کے لیے بڑی بڑی زمینیں تھیں۔ بہت سے آدمیوں کی شہروں میں جائیدادیں تھیں۔ ایسے لوگوں کو اس بات کی تو کوئی فکر ہوتی نہیں تھی کہ اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے روپیہ کہاں سے کمائیں۔ ان کے پاس تو جائیداد کا کرایہ آ جاتا یا پھر کھیتوں سے پیسہ اور اناج گھر پہنچ جاتا۔ ایسے بڑے آدمی آرام سے زندگی گزارتے تھے۔ انھی میں سے کچھ ایسے تھے، جنھوں نے انگریزی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ یہ لوگ خود کو انگریزوں کا وفادار ثابت کرنے کے لیے بالکل ہی انگریزوں کی نقل کرنے لگتے۔

    انگریزوں کے دورِ حکومت میں جہاں بہت سے ایسے زمین دار موجود تھے، جو انگریزوں سے وفاداری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے رہتے، وہیں ایسے بھی بہت سے لوگ تھے جو انگریزوں سے نفرت کرتے تھے۔

    وفادار قسم کے زمین دار بالکل انگریزوں ہی کی طرح منہ ٹیڑھا کر کے انگریزوں سے نفرت کرنے والوں کو برا بھلا کہتے رہتے، ان لوگوں کی یہ خواہش بھی ہوتی تھی کہ انگریز ان کی وفاداری کے بدلے انھیں کوئی خطاب دے دیں۔ ایسے بہت سے آدمیوں کی یہ خواہش پوری بھی ہو گئی۔ ان میں سے کوئی خان صاحب ہو گیا، کوئی خان بہادر اور کوئی رائے صاحب بن گیا۔

    انور چاچا بھی دراصل ایسے ہی لوگوں میں سے تھے، جن کے سر پر انگریزوں سے وفاداری کا بھوت سوار تھا۔ اتفاق سے انور چاچا نے تھوڑی بہت تعلیم بھی حاصل کر لی تھی۔ تھوڑی بہت تعلیم سے یہ مقصد تھا کہ میٹرک کے امتحان میں پانچ چھے بار شرکت کر چکے تھے۔

    انور چاچا کے والد چوں کہ بہت بڑے زمیں دار تھے اور انور چاچا ان کے اکلوتے بیٹے تھے، اس لیے لاڈلے ہونے کی وجہ سے امتحان میں کام یاب ہونے کی تکلیف ان سے برداشت نہ ہو سکی۔ ممتحن کی اس نالائقی پر انور چاچا کو اس قدر غصہ آیا کہ انھوں نے مزید پڑھنے لکھنے کا خیال ہی دل سے نکال دیا اور اپنی زمین کی دیکھ بھال میں لگ گئے۔ اب ان کا کام ہر چھوٹے بڑے کو گھرکنا اور نصیحتیں کرنا رہ گیا تھا۔ شاید اسی کی وجہ سے سارا شہر انھیں انور چاچا پکارنے لگا تھا۔ ہاں اتنی بات ضرور تھی کہ جب لوگ انھیں چاچا کہہ کر پکارتے تو ان کی گردن کچھ اور اکڑ جاتی۔

    ابھی انور چاچا کو اپنی زمینوں پر پہنچے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ پہلی جنگِ عظیم شروع ہو گئی۔ ہندوستان میں بھی فوجیوں کے لیے بھرتی شروع ہوئی۔ ہندوستان کے بڑے زمیں داروں اور جاگیرداروں نے دل کھول کر انگریزوں کی مدد کی اور اپنے اپنے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فوج میں بھرتی کرا دیا۔ انور چاچا کے والد بھی تو آخر زمیں دار ہی تھے، انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی فوج میں بھرتی کرا دیا۔ انور چاچا کا فوج میں عہدہ کیا تھا اور فوج کی ملازمت انھوں نے کس طرح حاصل کی، اس کے متعلق کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔ البتہ انور چاچا کے والد اپنے بیٹے کو ہمیشہ کپتان ہی کہتے تھے۔ یہ دوسری بات تھی کہ شہر والوں کو اس پر یقین کبھی نہیں آیا۔

    جنگ ختم ہوئی تو انور چاچا بھی واپس آ گئے، لیکن اتنے دن فوج میں رہنے کی وجہ سے بالکل ہی بدل چکے تھے۔ داڑھی مونچھیں بالکل صاف تھیں۔ فوج سے واپسی کے بعد شہر کے کسی آدمی نے انور چاچا کو کبھی پاجامے اور کرتے میں نہیں دیکھا، کیوں کہ انور چاچا ہر وقت سوٹ پہنے رہتے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ چاچا کو انگریزی کپڑوں کا اتنا شوق ہے کہ سوتے وقت بھی ٹائی باندھ کر سوتے ہوں گے۔ بہرحال فوج سے واپسی کے کچھ ہی دن بعد انور چاچا کی شادی بھی ہو گئی۔ انھوں نے اپنی بیوی یعنی چاچی کو بھی اپنے ہی رنگ میں رنگ لیا۔

    اسی طرح کچھ دن گزر گئے۔ انور چاچا کے والد بھی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ اب تو انور چاچا کے عیش تھے۔ کھیتوں پر کاشت کار کھیتی باڑی کرتے اور چاچا اپنے گھر پر آرام کرتے۔ البتہ ان کے ہاں آئے دن انگریز افسروں کی دعوتیں ضرور ہوتی رہتیں۔

    انور چاچا کا گھر خاصا بڑا تھا۔ کئی کمرے خالی پڑے رہتے تھے۔ گھر کے سامنے ایک بہت بڑا میدان بھی تھا۔ یہ زمین بھی انور چاچا ہی کی تھی۔ کھلی جگہ ہونے کی وجہ سے اکثر انگریز افسر چھٹیاں گزارنے ان کے گھر چلے آتے، ان کے گھر میں جو بے شمار کمرے خالی پڑے رہتے تھے، ان میں انگریز افسروں کی رہائش کا انتظام بھی آسانی سے ہو جاتا تھا۔ پھر چاچا کی طرف سے مدارات کا جو سلسلہ شروع ہوتا تو آخری دن تک جاری رہتا۔ اس طرح انگریز افسروں کے چھٹیوں کے زمانے میں پیسے بھی بچ جاتے۔ اس کے علاوہ جس شہر میں انور چاچا کا مکان تھا، اس کی آب و ہوا بھی بہت اچھی تھی۔

    ایک مرتبہ ایک انگریز افسر چاچا کا مہمان تھا۔ اس افسر نے چاچا کے مکان کے سامنے بہت بڑا میدان جو دیکھا تو ایک دن کھانے کے بعد اس نے چاچا کو مشورہ دیا کہ اس میدان میں ایک چھوٹا سا خوب صورت باغ لگوا دیا جائے۔ اس نے چاچا کو یہ بھی بتایا کہ خود اسے باغ بانی کا بہت شوق ہے۔ یہ شوق ایسا ہے جو ہر بڑے آدمی کو ہوتا ہے۔ اس انگریز افسر کو غالباً باغ بانی سے بہت زیادہ دل چسپی تھی، اس لیے اس نے بہت سے بڑے بڑے انگریزوں کی مثالیں بھی دیں، جنھیں باغ بانی کا شوق تھا، بلکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ جس آدمی کو باغ بانی کا شوق نہ ہو اسے تو بڑا آدمی کہا ہی نہیں جا سکتا۔

    انگریز افسر کی بات انور چاچا کے دل میں اتر گئی اور انھوں نے فوراً ہی بڑا آدمی بننے کا فیصلہ کر لیا، بس پھر کیا تھا، دوسرے ہی دن میدان کے چاروں طرف احاطے کی دیوار بننا شروع ہو گئی، یہ چہار دیواری اس طرح بنائی گئی کہ پورا میدان انور چاچا کے مکان کا احاطہ بن گیا، لیکن اب باغ لگانے کا مسئلہ پیدا ہوا۔

    انور چاچا نے تو زندگی میں کبھی کوئی کام نہیں کیا تھا۔ وہ بھلا باغ بانی جیسا سخت کام کیسے کرتے؟ بہرحال یہ مسئلہ بھی جلد حل ہو گیا۔ چاچا نے قریب کے شہر سے ایک تربیت یافتہ مالی کو بلا لیا۔ وہ مالی تو بے چارہ دیہات کا رہنے والا تھا، لیکن انور چاچا نے اسے بھی زبردستی پتلون پہنا دی۔ دیہاتی زبان میں بات چیت کرنے والا غریب مالی جب انور چاچا کی دلائی ہوئی پتلون پہن کر اپنی دیہاتی زبان میں بات چیت کرتا تو بڑا عجیب سا لگتا، لیکن چاچا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور اکثر کہا کرتے: "میں نے تو اپنے مالی کو بھی انگریز بنا کر رکھا ہے۔”

    مالی نے باغ لگانا شروع کر دیا تھا۔ وہ روزانہ کوئی نہ کوئی نیا پودا ضرور لگاتا، نئی کیاریاں بناتا، پرانی کیاریوں کی صفائی کرتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چاچا کے باغ میں پھولوں کے بہت سے پودے نظر آنے لگے۔ ان میں رنگ برنگے پھول کھلے ہوتے۔ بعض پھلوں کے پودے بھی تھے، لیکن ان میں ابھی پھل نہیں آئے تھے۔ چاچا بھی اپنا زیادہ وقت اپنے باغ ہی میں گزارتے تھے، لیکن ان کا کام صرف یہ تھا کہ کبھی کسی پودے کے پاس کھڑے ہو جائیں، کبھی کسی پھول کو ہاتھ میں لے کر دیکھیں۔ کبھی کوئی پھول مرجھاتا ہوا دکھائی دیتا تو فوراً مالی کو آواز دیتے: "آگسٹس! آگسٹس!”

    اصل میں مالی کا نام گھسیٹا خان تھا، لیکن چاچا نے مالی کو انگریز بنانے کی خاطر اس کا نام گھسیٹا خان کے بجائے آگسٹس خین رکھ دیا تھا۔

    چاچا کا باغ لگ گیا تو ان کے یہاں دعوتوں کا سلسلہ اور زیادہ بڑھ گیا۔ دعوت پر آنے والے انگریز افسروں کی تعداد بڑھ گی۔ کچھ ایسے انگریز افسروں نے جو چاچا کے زیادہ گہرے دوست بن گئے تھے، ایک آدھ بار خود بھی کیاریوں کی صفائی وغیرہ کی تو چاچا کو خیال آیا کہ صرف مالی رکھ کر باغ لگوانا ہی بڑا آدمی بننے کے لیے کافی نہیں۔ مجھے خود بھی باغ بانی کرنی چاہیے۔

    اس خیال کے آتے ہی انھوں نے باغ بانی کے لیے خاص قسم کے جوتے خریدے، تاکہ ان کی پتلون کے پائنچے مٹی میں خراب نہ ہونے پائیں، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ زمین کس طرح بنائی جاتی ہے اور بیج کس طرح لگائے جاتے ہیں۔ یہ تو چاچا کو معلوم ہی نہیں تھا، اس لیے اکثر یہ ہوتا کہ چاچا کہیں بیج بوتے وہاں کوئی پودا نہ اگتا۔ کبھی کبھی چاچا گھسیٹا خاں عرف آگسٹس خین کی بنائی ہوئی کیاری تباہ کر دیتے۔ بیچارہ دیہاتی گھسیٹا خان انگریزی کپڑے پہن کر آگسٹس خین بنے رہنے سے یوں بھی اکتایا ہوا تھا، اس لیے چاچا سے چڑچڑانے لگتا، لیکن آدمی محنتی تھا، اس لیے چاچا اس کے چڑچڑے پن کو برداشت کر لیتے کہ کہیں آگسٹس خین ناراض ہو کر نوکری نہ چھوڑ دیں اور ان کا باغ ویران نہ ہو جائے۔

    ایک دن چاچا کو خیال آیا کہ اتنے سارے انگریز افسر ان کے دوست ہیں، لیکن اس کے باوجود انھیں ابھی تک برطانیہ کی حکومت نے کوئی خطاب نہیں دیا، حالاں کہ وہ فوج میں بھی رہ چکے ہیں اور انگریز حکومت کے وفادار بھی ہیں۔ آخر انہوں نے اس سلسلے میں اپنے انگریز افسر دوستوں سے بھی مشورہ کیا۔ ان میں سے ایک افسر نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے باغ میں کوئی ایسا پھل پیدا کریں جو اپنی مثال آپ ہو یا ایسا پھل ہو جو اس شہر میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر اسے سبزیوں اور پھلوں کی سالانہ نمائش میں افسروں اور وائسرائے کے نمائندے کے سامنے پیش کریں تو انھیں بھی خطاب مل جائے گا۔

    یہ مشورہ انور چاچا کو پسند آیا، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان میں انگریز حکومت کی طرف سے وائسرائے ہی سب سے بڑا حاکم ہوتا ہے۔ اگر اس کے نمائندے کو میرے باغ کا پھل پسند آ گیا تو مجھے ضرور خطاب مل جائے گا۔

    انور چاچا جس شہر میں رہتے تھے، اس کی آب و ہوا میں یوں تو بہت سے پھل پیدا ہو سکتے تھے، لیکن خربوزہ بالکل پیدا نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے باغ میں خربوزہ ہی پیدا کرنا چاہیے۔ انھوں نے آگسٹس پر اپنا یہ خیال ظاہر کیا تو اس نے خربوزے پر محنت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس شہر میں خربوزہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا، لیکن چاچا کے سر میں تو خربوزے کا سودا سمایا ہوا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ آگسٹس راضی نہیں ہوتا تو کیا ہوا۔ میں خود ہی خربوزہ اگانے کی کوشش کروں گا۔ چناں چہ انھوں نے پہلے تو دہلی خط لکھ کر ایک کتاب منگوائی، جس میں خربوزے پیدا کرنے کے طریقے اور اس کی کاشت کے ضروری قاعدے لکھے ہوئے تھے۔ اس کتاب میں ایک ترکیب ایسی تھی، جس پر عمل کر کے خربوزے پیدا کرنے کے لیے کھلی جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بلکہ مکان کے اندر بھی گملے میں خربوزہ اگایا جا سکتا تھا۔

    چاچا نے اسی ترکیب پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور گھر کے اندر ہی ایک گملے میں کتاب دیکھ دیکھ کر خربوزے کے بیج لگائے۔ پھر وہ ہر روز صبح اٹھ کر کتاب میں لکھی ہوئی ترکیب کے مطابق اس میں پانی ڈالتے اور ہر پندرہ دن کے بعد کھاد بھی ڈالتے۔

    خربوزے کے ننھے سے پودے کی خدمت کرتے ہوئے انھیں کافی دن ہو گئے۔ اب یہ خربوزے کا ننھا سا پودا بڑھ کر بیل کی شکل اختیار کر گیا۔ چاچا نے اب اس کی دیکھ بھال میں بھی اضافہ کر دیا۔ گھر میں تو انھیں پہلے بھی کوئی کام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اب تو انھوں نے خود کو بالکل ہی خربوزے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ کچھ دن بعد اس بیل میں ایک ننھا منا سا خربوزہ نظر آیا۔ اب تو چاچا کی خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ چاچا نے اب پندرہ دن کے بجائے ہر ہفتے خربوزے کی بیل میں کھاد ڈالنا شروع کر دیا۔ اسی طرح چھے مہینے گزر گئے۔

    اب خربوزہ بہت بڑا ہو چکا تھا۔ جو بھی یہ خربوزہ دیکھتا حیرت میں رہ جاتا، کیوں کہ وہ عام خربوزوں سے کئی گنا بڑا تھا۔ بالکل ایک چھوٹی میز کے برابر۔ ابھی اس کا رنگ بالکل ہرا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ ابھی اور بڑھے گا۔ خربوزہ دیکھ کر لوگ یہ سوچتے کہ یہ خربوزہ نجانے پکنے کے بعد کتنا بڑا ہوگا۔

    جب چاچا انھیں بتاتے کہ وہ یہ خربوزہ سبزیوں اور پھلوں کی سالانہ نمائش میں رکھیں گے تو لوگ سوچنے لگے کہ اس وقت تک تو یہ خربوزہ بہت ہی بڑا ہو چکا ہوگا، کیوں کہ ابھی نمائش میں پورے چھ مہینے باقی تھے۔

    دن اسی طرح گزرتے رہے اور خربوزہ بڑا ہوتا رہا۔ اتنا بڑا کہ اب اسے ایک یا دو آدمی بھی مل کر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ پھر جب نمائش کا وقت آیا تھا یہ خربوزہ ایک چھوٹے کمرے کے برابر ہو چکا تھا۔ اونچا بھی اتنا ہی تھا کہ خربوزے کے اوپر کا حصہ دیکھنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت پیش آتی۔

    خدا خدا کر کے نمائش کا دن آیا تو چاچا نے سیڑھی لگا کر خربوزے کو بیل سے کاٹ کر الگ کیا پھر ایک بڑی بیل گاڑی کا انتظام کیا، جس میں خربوزے کو نمائش تک پہنچایا گیا۔ نمائش شروع ہوئی تو ہر طرف چاچا کے خربوزے کا ہی ذکر تھا۔

    بہت سے انگریز افسر نمائش دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ چاچا ایک عمدہ سی سوٹ پہنے اپنے خربوزے کے پاس کھڑے تھے۔ نمائش میں ہمیشہ کی طرح وائسرائے کے نمائندے نے بھی شرکت کی تھی۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ نمائش دیکھنے آیا تھا۔

    نمائش دیکھتے دیکھتے جب وہ چاچا کے خربوزے کے پاس پہونچا تو چاچا نے فوراً سیڑھی لگائی اور قصائی والے ایک چھرے سے خربوزے کی بڑی سی قاش کاٹی۔ یہ قاش اتنی بڑی تھی کہ چاچا کو اسے دونوں ہاتھوں سے سنبھالنا پڑا۔ وائسرائے کا نمائندہ اس قاش کو بڑی حیرت سے دیکھتا رہا۔ بہرحال اس نے وائسرائے سے چاچا کی باغ بانی اور خربوزے کاشت کرنے میں چاچا کی مہارت کی بڑی تعریف کی، جس کے نتیجے میں کچھ دن کے بعد چاچا کو انگریز حکومت نے ایک خطاب اور خربوزے اگانے کے متعلق ایک سند بھی دی۔

    مصنّف: نامعلوم

  • ہم راجا ہیں راجا…

    ہم راجا ہیں راجا…

    ایک بہت ہی خوب صورت باغ تھا۔ اس میں طرح طرح کے خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے۔ گلاب چمپا، چمبیلی، گیندا، سورج مکھی، جوہی موگرا، موتیا وغیرہ سبھی اپنی اپنی خوب صورتی اور خوش بُو سے باغ کو دل رُبا بنائے ہوئے تھے۔ شام کے وقت ٹھنڈی ہوا کے بہاؤ میں اس باغ کی رونق کا کچھ کہنا ہی نہ تھا۔ شام کے وقت وہاں لوگوں کی خوب بھیڑ رہتی تھی۔

    بچّے اچھل کود مچاتے تھے۔ پھلوں کی کیاریوں کے بیچ میں کہیں کہیں پر آم، لیچی، پپیتا، اور جامن کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ان درختوں کے چاروں طرف مالی نے بہت سے کانٹے بچھا رکھے تھے اور کانٹوں کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بہت سے رنگ برنگے پھول لگا رکھے تھے تاکہ کوئی بھی انسان پھل توڑ نہ سکے۔

    مالی دن بھر اپنا وقت پھلوں اور پھولوں کی دیکھ بھال میں گزارا کرتا اور باغ کی رونق کو دیکھ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا تھا۔ جب کبھی کوئی شخص کسی پھول یا پھل کی تعریف کر دیتا تو اس کا دل بلیوں اچھلنے لگتا۔ وہ ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہتا کہ کون سا ایسا نیا پھول لگائے جس سے لوگ اس کی تعریف کریں۔

    باغ کے ایک چھوٹے سے حصّے میں ترکاری لگا رکھی تھی۔ لوگ ان ترکاریوں پر کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ نہ ہی للچائی ہوئی نظروں سے ان کو دیکھا کرتے تھے۔

    اسی طرح دن گزر رہے تھے کہ ایک دن جناب کٹہل کو بہت غصہ آیا اور وہ درخت سے کود کر ترکاریوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے اور بولے۔ "میرے پیارے بھائیو اور بہنو! ہم لوگوں میں آخر ایسی کون سی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ ہمیں پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں کسی قابل سمجھتے ہیں۔

    حالاں کہ ہم سے طرح طرح کی چیزیں بنتی ہیں، یہاں تک کہ ہمارے بغیر انسان پیٹ بھر کے روٹی بھی نہیں کھا سکتا، پھلوں کا کیا جھٹ چھری سے کاٹا اور کھا گئے، لیکن ہم تو راجا ہیں راجا، بغیر گھی مسالا کے ہمیں کوئی کھاتا نہیں، دیکھو مجھ میں تو اتنی بڑی خوبی ہے کہ میں پت کو مارتا ہوں۔ اب تم سب اگر مجھے اپنا راجا بنا لو تو میں بہت سی اچھی اچھی باتیں بتاؤں گا۔”

    ترکاریوں نے کٹہل کی بات بڑی توجہ سے سنی اور ان کے دل میں ایک جوش سا پیدا ہونے لگا۔ اب تو سب کو اپنی اپنی خوبی یاد آنے لگی۔ جب سبھی اپنی اپنی خوبیوں کا ذکر کرنے لگے تو جناب کٹہل پھر بولے۔ "دیکھو بھئی صبر کے ساتھ، آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے بولو۔ ورنہ کسی کی بات میری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ہاں کریلا پہلے تم۔”

    کریلا: میں کھانے میں تلخ ضرور لگتا ہوں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مجھے نہیں کھاتے ہیں۔ لیکن میں بہت فائدہ مند ہوں۔ کف، بخار، پت اور خون کی خرابی کو دور کرتا ہوں اور پیٹ کو صاف کرتا ہوں۔

    بیگن: بھوک بڑھاتا ہوں۔ لوگ میرے پکوڑے اور ترکاری بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

    بھنڈی:۔ سبزی تو میری بہت اچھی بنتی ہے اور میں بہت طاقت پہنچاتی ہوں۔

    لوکی:۔ میں اپنی تعریف کیا سناؤں ، میرا تو نام سن کر ہی لوگ مجھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں دماغ کی گرمی کو دور کر تی ہوں اور پیٹ صاف رکھتی ہوں۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر، حکیم مجھے مریضوں کو دینے کے لیے کہتے ہیں۔

    پَلوَل: میں بھی مریضوں کو خاص فائدہ پہنچاتا ہوں اور انہیں طاقت دیتا ہوں۔

    ترئی: میں بخار اور کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہوں اور کف کو دور کرتی ہوں۔ میری سہیلی سیم بھی کف کو دور کرتی ہے۔

    شلغم: مجھے شلجم بھی کہا جاتا ہے۔ میں کھانسی کو فائدہ کرتا ہوں اور طاقت بڑھاتا ہوں۔

    گوبھی: بخار کو دور کرتی ہوں اور دل کو مضبوط کرتی ہوں۔

    آلو: میں بے حد طاقت ور اور روغن دار ہوں۔

    گاجر: میں پیٹ کے کیڑے مارتا ہوں۔

    مولی: میں کھانے کو بہت جلد پچاتی ہوں، اور پیٹ کو صاف کرتی ہوں۔

    جب سب کی باتیں ختم ہوئیں تو ساگوں نے کہا کہ واہ بھئی خوبی تو ہم میں بھی ہے۔ پھر ہم چپ کیوں رہیں۔ آپ لوگ ہم غریب پتّوں کی بھی خوبیاں سن لیں۔

    پالک: میں خون بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں اور کمر کے درد کے لیے مفید ہوں۔ خون کی گرمی کو دور کرتا ہوں، دست آور ہوں اور کھانسی کو فائدہ پہنچاتا ہوں۔

    میتھی: بھوک بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں۔

    بتھوا: تھکاوٹ دور کرتا ہوں، مجھے کف کی بیماری میں زیادہ کھانا چاہیے۔ تلّی، بواسیر اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہوں۔

    مالی چپ چاپ باغ کے ایک کونے میں کھڑا سب کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ترکاریوں کی خوبیوں کو جان کر اسے بہت تعجب ہوا، اور وہ سوچنے لگا کہ اگر میں پھولوں کی جگہ ترکاریوں کے پودے پیڑ لگاؤں تو زیادہ بہتر اور سود مند ہو گا۔

    جب سے مالی کے ارادے کا مجھے علم ہوا ہے اس باغ کی طرف جانے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا ہے۔ نامعلوم اس باغ میں اب بھی لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے، بچّے اچھل کود مچاتے ہیں اور خوش نما پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں یا ترکاریوں کے لتوں سے مالی کا فائدہ ہوتا ہے؟

    (مصنف: نامعلوم)

  • ہرن کیوں‌ پچھتایا؟

    ہرن کیوں‌ پچھتایا؟

    ایک جنگل میں‌ ہرن کو پیاس لگی تو وہ اپنے محفوظ ٹھکانے سے نکلا اور ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ آس پاس کوئی درندہ تو چھپا ہوا نہیں‌ ہے۔ اطمینان کرنے کے بعد وہ دریا کی طرف بڑھنے لگا۔

    قسمت اچّھی تھی، راستے میں کسی سے مڈ بھیڑ نہ ہوئی اور وہ دریا کنارے پہنچ گیا۔ دریا کے صاف شفاف اور میٹھے پانی سے سیراب ہونے کے لیے اس نے اپنا منہ ڈالا تو اُس آبِ زُلال میں اپنا سر نظر آیا۔

    وہ اپنے سَر پر موجود سینگوں کو دیکھنے لگا اور کچھ دیر بعد دکھ، غصّے اور بے بسی کی ملی جلی کیفیت میں افسوس سے کہنے لگا کہ اگر میرے دبلے دبلے پاؤں اس خوب صورت شاخ دار سَر کی مانند ہوتے تو میں اپنے دشمنوں کو خاطر میں‌ نہ لاتا۔ ان کے لیے مجھے ہڑپ کرنا یوں آسان نہ ہوتا اور منہ کی کھاتے۔

    وہ ہرن اسی سوچ میں‌ گم تھا کہ اچانک شکاری کتّوں کے بھونکنے کی آواز اُس کے کان میں‌ پڑی جو لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتی جارہی تھی۔ ہرن گھبرایا اور سوچا کہ اب کیا کروں، کتے اس کے قریب آچکے تھے۔ اس نے چوکڑی بھری اور ذرا فاصلے پر موجود درختوں کے جھنڈ میں گُم ہونے کے ارادے سے گھستا چلا گیا۔

    ہرن تیز رفتار اور پھرتیلا جانور تھا، وہ انھیں کہیں کا کہیں پیچھے چھوڑ چکا تھا، لیکن کتے اس کے تعاقب میں تھے۔ درختوں کے درمیان پہنچ کر اسے ایک جگہ جھاڑیاں نظر آئیں اور اس نے لمحوں میں فیصلہ کیاکہ وہ ان کے اندر سے ہوتا ہوا مزید آگے نکل جاسکتا ہے۔ وہ جیسے ہی جھاڑیوں میں گھسا، اس کے سینگ کانٹوں میں اُلجھ گئے۔ اس نے اپنے سَر کو بارہا جھٹکا، لیکن سینگ ان جھاڑیوں میں ایسے پھنسے کہ چھڑا نہ سکا۔

    اسی کوشش کے دوران اس نے دیکھا کہ چار پانچ کتے اس کے سَر پر پہنچنے کو ہیں۔ آخر کتوں نے ہرن پر حملہ کردیا اور اسے شکار کرکے اپنا پیٹ بھرنے میں کام یاب ہوگئے۔

    کتوں کے حملہ کرنے کے بعد جب ہرن نے دیکھا کہ اب اس کی موت یقینی ہے، تب اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور نہایت افسوس سے کہنے لگا! دوستوں کو میں نے دشمن سمجھا اور دشمنوں کو دوست۔ میں اپنی شاخوں(سینگوں) پر فریفتہ ہوا تھا، مگر انھوں نے مجھے اس مصیبت میں گرفتار کیا، اور اپنے پاؤں کی طرف حقارت سے دیکھا تھا، لیکن پاؤں ہی کے سبب تو دریا سے بھاگ کر جنگل تک آیا تھا اور ہر بار یہی تو میری جان بچاتے رہے ہیں۔

    ہرن کو خیال آیا کہ وہ تو اس بار بھی اپنی ٹانگوں ہی کی بدولت سارا میدان طے کر آیا تھا، لیکن جب اس نے قدرت کی صنعت گری میں تعجب کیا اور عیب نکالا تو اس کا یہ حال ہوا۔

    کہتے ہیں، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کی صنعت و تخلیق میں عیب تلاش کرنے والا نادان دراصل اس کی حکمتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔

    (ماخذ: کتاب جوہرِ اخلاق)

  • بولتا درخت

    بولتا درخت

    ٹن۔ٹن۔ٹن۔ٹن….ٹن ٹن۔ اسکول میں چھٹّی کا گھنٹہ بجا۔ استادوں نے اپنی اپنی جماعت کے بچّوں کو قطار میں کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ بچّوں نے گھنٹے کی آواز کے ساتھ ساتھ استادوں کے حکم کو انتہائی خوشی سے سنا اور جھٹ پٹ مُنّے منّے ہاتھوں اپنے اپنے بستے گلے میں لٹکا کر لائنوں میں جا لگے۔ قومی ترانہ گایا گیا اور بچّے پرنسپل کو خدا حافظ کہہ کر قطار در قطار اسکول سے باہر نکلنے لگے۔

    پھاٹک سے باہر کچھ ٹھیلے والے کھڑے ’’آلو چھولے کی چاٹ، دہی بڑے، مونگ پھلی، امرود کے کچالو۔ فالسے۔‘‘ کی آوازیں لگا رہے ہیں۔ بچّے ان کے ٹھیلوں پر ٹوٹ پڑے۔ ننّھا بختیار بھی ایک ہاتھ سے اپنا بستہ، دوسرے سے نیکر سنبھالے ایک ٹھیلے کے پاس رک گیا۔ جیب سے اِکَنّی نکالی اور ٹھیلے والے سے انگلی کے اشارے سے کہا۔

    ’ایک آنہ کے فالسے دے دو۔‘ فالسے والے نے جو لہک لہک کر آواز لگانے میں مگن تھا بختیار کے ہاتھ سے اِکَنّی لے اپنی گلک میں ڈالی اور گاتے ہی گاتے ایک پڑیا میں فالسے ڈالے۔ ان پر نمک چھڑکا۔ دو چار دفعہ پڑیا کو اچھالا اور بختیار کو’’لو مُنّے‘‘ کہہ کر پکڑا دی اور پھر گانے میں مصروف ہو گیا۔ وہ گا رہا تھا:۔

    ’’آؤ بچّو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔‘‘

    بختیار کو اس کی امّی اسکول کے لیے ایک آنہ روز دیتی تھیں کہ اس کا دل چاہے تو کوئی صاف ستھری چیز گھر پر لا کر کھا لے، ورنہ پیسے جمع کر کے اپنے لیے کوئی اچھی سی کہانیوں کی کتاب خرید لے۔

    ننّھا بختیار اسی اِکَنّی کے فالسے کی پڑیا مٹھی میں دبا گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جا کر کتابوں کا بستہ مقررہ جگہ پر رکھا اور فالسوں کی پڑیا ماں کو دی، اپنی یونیفارم اور جوتے موزے اتارے، ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھانے بیٹھا اور بڑے جوش سے ماں سے کہا۔

    ’’امّی آپ نے فالسے کھائے؟ کتنی مزے دار ہیں نا؟

    امّی نے کہا۔’’فالسے کھانے سے پہلے میں نے انہیں دھویا اور پھر سے نمک چھڑکا۔ بازار کے کھلے ہوئے فالسے تھے۔ نہ جانے صاف تھے یا نہیں۔ کھانا کھا کر میں بھی دو چار کھالوں گی، باقی تم کھانا۔ فالسے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں صحّت کے لیے، مگر صفائی ضروری ہے۔ تمہارا جی چاہے تو اپنے باغ کی کیاریوں میں اس کی گٹھلیاں بکھیر دینا۔ تمہارے گھر میں فالسے ہی فالسے ہو جائیں گے۔‘‘

    بختیار کھانا ختم کر کے فالسے کھاتا جائے اور گٹھلیاں جمع کرتا جائے اور پھر اس نے وہ گٹھلیاں اپنی کیاری میں ڈال دیں۔

    کچھ دنوں بعدایک ننّھا سا پودا زمین سے نکلا۔ ننّھا بختیار خوشی سے اچھل پڑا۔ دوڑ کر امّی کو پکڑ لایا۔’’امی، دیکھیے میرے فالسے کا پودا نکلا۔‘‘ اسے دھیان سے پانی دیا کرو۔ کبھی کبھی زمین کی گڑائی کرتے رہا کرو۔ میں کھاد اور میٹھی مٹّی منگا کر ڈلواتی رہوں گی۔ بس پھر تمہارا یہ ننّھا پودا جلدی سے بڑا اور پھل دار درخت بن جائے گا۔‘‘

    ننّھا بختیار ہر روز اسکول سے آ کر دوپہر کو آرام کرنے کے بعد اپنے باغ میں اپنی ماں کے ساتھ کام کرتا اور فالسے کی پتیوں کو محبت سے چومتا اور اسے بڑا ہوتے دیکھ کر جی ہی جی میں خوش ہوتا۔

    ایک روز بختیار نے اپنے فالسے کے درخت میں بہت سے پیلے پیلے نازک سے پھول لگے ہوئے دیکھے۔ اس نے ان پھولوں کا ذکر اپنے اسکول کے دوستوں سے کیا۔ دوستوں کا بھی دیکھنے کو جی چاہا۔ وہ بختیار کے ساتھ اس کے گھر آئے اور پھول دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے ہاتھ بڑھائے کہ پھول توڑ کر گھر لے جائیں اور خوش ہوں مگر جیسے ہی بچوں کے ہاتھ درخت کی طرف بڑھے ایک آواز آئی جیسے کوئی درد بھری آواز سے کہہ رہا ہو’’ہائے ظالم، مارڈالا۔‘‘

    بچّوں نے ڈر کے مارے اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے اور ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ شاید کوئی آدمی بول رہا ہو، مگر جب انہیں کوئی نظر نہ آیا تو دوبارہ پھول توڑنے کے لیے اپنے ہاتھ بڑھائے، مگر پھر وہی آواز آئی۔ ’’ہائے ظالم ، مارڈالا‘‘

    اب تو سب بچّے ’’بھوت بھوت‘‘ کہتے اپنے اپنے گھروں کو بھاگے۔ بیچارا بختیار اپنے گھر کے اندر بھاگا اور جا کر اپنی امّی کو سب حال بتا دیا۔

    امّی باہر آئیں کہ دیکھیں کون بھوت ہے جو بچّوں کو ڈرا رہا ہے۔ امّی نے درخت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہیں وہی آواز سنائی دی۔ وہ سمجھ گئیں کہ درخت کو اپنے پھولوں کے توڑے جانے کا درد ہے۔ انہوں نے بختیار کو سمجھایا ’’بیٹا یہ بھوت کی آواز نہیں ہے بلکہ درخت کہہ رہا ہے کہ میرے پھول نہ توڑو۔ ان کے توڑنے سے مجھے دکھ ہوگا، کیوں کہ پھولوں سے فالسے بنیں گے اور اگر انہیں توڑ لو گے تو میں پھول دار کیسے بنوں گا۔‘‘

    بختیار کو فالسے کے درخت سے بہت سے محبت تھی۔ فوراً ایک اچھے بچّے کی طرح اپنی ماں کی بات اس کی سمجھ میں آگئی اور اس نے ان پھولوں کو ہاتھ نہ لگایا۔

    تھوڑے دنوں بعد اس درخت میں ہری ہری گٹھلیاں سی لگی ہوئی دیکھنے میں آئیں تو بختیار سمجھا کہ یہی فالسے ہیں۔ اس نے اسکول میں اپنے دوستوں کو بتایا کہ میرے درخت میں بہت سے فالسے آرہے ہیں۔ اس کے دوستوں کو وہ پچھلا بھوت کا واقعہ کچھ یاد تو تھا مگر فالسے کھانے کے شوق میں اسکول سے واپسی پر وہ پھر بختیار کے ساتھ اس کے گھر پر آ ہی دھمکے۔ ہاتھ بڑھا کر فالسے توڑنا ہی چاہتے تھے کہ پھر وہی دردناک آواز سنائی دی۔

    ’’ہائے ظالم، مار ڈالا۔‘‘ اوہو! بچوں کو اب پوری طرح یقین ہوگیا کہ بختیار کے فالسے کا درخت بھوتوں کا اڈّا ہے۔ بھاگے سب کے سب اور اپنے اپنے گھر جا کر ہی دم لیا۔

    ننھا بختیار یہ تماشا دیکھ کر باہر آیا۔ ’’امی سچ کہہ رہا ہوں، فالسے کے درخت کے اندر بھوت رہتا ہے۔ ابھی پھر اس میں سے آواز آئی تھی۔‘‘

    امی اپنی ہنسی روکتی جائیں اور پتّوں کو ہٹا کر دیکھنا چاہتی تھیں کہ کون بھوت ہے۔ امّی کا ہاتھ بڑھتے دیکھ کر درخت سمجھا وہ بھی اس کے فالسے توڑنے آگئیں۔ پھر اس میں سے آواز آئی ’’ہائے ظالم، مارڈالا۔‘‘

    امّی سمجھ گئیں اور کہنے لگیں۔’’دیکھو، یہ بھوت کی آواز نہیں ہے۔ یہ درخت نہیں چاہتا کہ اس کا کچّا پھل توڑا جائے۔ جب پک جائے تو کھانا۔ اس لیے یہ بچارہ اس طرح کہہ رہا ہے۔‘ ننھا بختیار کچھ سمجھا، کچھ نہ سمجھا، مگر چپ ضرور ہو گیا۔

    کوئی پندرہ دن کے بعد ایک صبح اسکول جانے سے پہلے بختیار نے دیکھا کہ اس کے فالسے کا درخت بڑا حسین نظر آ رہا ہے۔ ہری ہری پتّیوں کی آڑ سے ڈالیوں میں لگے ہوئے اودے اودے کالے کالے فالسے جھانک رہے تھے اور پھلوں سے لدی ہوئی ڈالیاں خوشی سے جھوم رہی تھیں۔ اس نے سوچا کہ بس اپنے دوستوں کو فالسے ضرور کھلاؤں گا اور خود بھی کھاؤں گا۔

    اسکول سے واپسی پر وہ اپنے دوستوں کو ساتھ لایا۔ بچّے کہنے لگے۔’’بھئی تمہارا درخت تو بھوتوں کا اڈّا ہے۔ ہاتھ نہیں لگانے دیتا۔ ہم کیسے فالسے کھائیں گے؟‘‘ یہ کہتے گئے اور ہاتھ بڑھا کے فالسے توڑنے لگے، مگر اس بار درخت میں سے بڑی پیار بھری دھیمی دھیمی آواز آرہی تھی۔

    ’’آؤ بچّو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔ آؤ بچو…….‘‘ اور ڈالیاں تھیں کہ بچوں کے آگے محبت سے بڑھی آتی تھیں، جھکی جاتی تھیں۔

    اس روز سب بچّوں اور ننّھے بختیار نے خوب مزے لے لے کر اپنے درخت سے فالسے توڑ توڑ کر کھائے اور تھوڑے تھوڑے فالسے جیبوں میں بھر کر اپنے اپنے گھر لے گئے۔

    راستہ بھر ایک دوسرے سے کہتے تھے۔ ’’بختیار کا درخت بولتا درخت ہے، مگر ہے بڑے کام کا، ہم بھی اس کے فالسے کے بیج اپنے گھر میں بوئیں گے۔‘‘

  • کہاں کی نیکی، کیسی بھلائی!

    کہاں کی نیکی، کیسی بھلائی!

    ایک تھی چوہیا اور ایک تھی چڑیا۔ دونوں کا آپس میں بڑا اخلاص، پیار تھا اور بہنیں بنی ہوئی تھیں۔

    ایک روز صبح کو چڑیا نے کہا: ’’کہ چلو بہن چوہیا ذرا ہوا کھا آئیں۔‘‘ چوہیا نے کہا چلو۔ دونوں سہیلیاں مل کر چلیں ہوا کھانے۔

    چڑیا تو اُڑتی اڑتی جاتی تھی اور چوہیا پھدک پھدک چلتی جاتی تھی۔ راستے میں آیا ایک دریا۔ چڑیا اس دریا کے کنارے پر بیٹھ کر نہانے لگی۔ چڑیا نے کہا، بہن چوہیا تم بھی منہ ہاتھ دھولو۔ چوہیا جو اپنا منہ ہاتھ دھونے لگیں تو دریا میں ڈوب گئیں۔

    چڑیا لگی رونے اور دعا مانگنے کہ میری چوہیا بہن نکل آئیں۔ میں کونڈا (نذر) دوں گی۔ چوہیا نکل آئی۔

    آگے چلیں تو ایک ہاتھی جارہا تھا۔ چوہیا بی اس کے پاؤں کے نیچے دب گئیں۔ چڑیا پھر رونے لگی کہ میری چوہیا بہن نکل آئیں تو میں کونڈا دوں گی۔ چوہیا ہاتھی کے پیر تلے سے بھی جتنی جاگتی نکل آئی۔

    آگے چلیں تو بہت سی کانٹوں کی جھاڑیاں تھیں۔ چوہیا بی اس میں پھنس گئیں۔ چڑیا پھر رونے لگی اور وہی دعا مانگی۔ چوہیا وہاں سے بھی صحیح و سلامت نکل آئی۔

    دونوں سہیلیاں گھر پہنچیں۔ چڑیا نے کورا کونڈا منگایا۔ ملیدہ بنا کے صحنک دی اور شکر کیا کہ میری چوہیا بہن سب جگہ سے صحیح و سلامت نکل کر گھر پہنچیں۔

    ایک روز چوہیا اور چڑیا میں لڑائی ہوئی۔ چڑیا بولیں، وہ دن بھول گئیں جب دریاؤں میں ڈوب ڈوب جاتی تھیں۔ چوہیا نے کہا تمہیں میری کیا پڑی؟ میں اپنا منہ ہاتھ دھلواتی تھی۔

    چڑیا نے کہا: وہ دن بھول گئیں جب ہاتھی کے پیر تلے دب دب جاتی تھیں۔ چوہیا نے کہا: تجھے کیا پڑی؟ میں اپنے ہاتھ پاؤں دبواتی تھی۔

    چڑیا نے کہا: وہ دن بھول گئیں جب کانٹوں میں چِھد چِھد جاتی تھیں۔ چوہیا نے کہا: ’’تمہیں میری کیا پڑی؟ میں تو اپنے ناک کان چِھداتی تھی۔

    سبق: سچ ہے کہ لڑائی جھگڑا اور غصّہ ہمارے تعلقات اور برسوں کی رفاقت کو پل بھر میں‌ ختم کردیتا ہے اور ایسا شخص غصّے کے عالم میں دوسرے کی تمام اچھائیوں اور احسانات کا انکار کرتے ہوئے اپنے منصب سے گر جاتا ہے۔ اس کہانی سے ہمیں‌ یہ بھی سبق ملتا ہے کہ نیکی اور احسان کے جواب میں کسی صلے اور ستائش کی توقع کم ہی رکھنی چاہیے۔

    (اردو زبان کے پرانے کتابی نسخے سے لی گئی سبق آموز کہانی جس پر مصنف یا تدوین کار کا نام درج نہیں‌ ہے)

  • ایمان دار موچی

    ایمان دار موچی

    مصنف:‌ مختار احمد

    سردیوں کے دن تھے۔ بالا موچی درخت کے نیچے اپنی چھوٹی سی دکان میں جوتوں کی مرمت کرنے میں مصروف تھا۔ اس کی دکان بغیر چھت اور دیواروں کے ایک ٹنڈ منڈ درخت کے نیچے، گاؤں کے بالکل بیچوں بیچ ایک صاف ستھرے میدان میں تھی اور اس دکان کا کُل اثاثہ لکڑی کا ایک صندوق تھا۔

    جب بالا کام ختم کر لیتا تھا تو اپنی ساری چیزیں اس صندوق میں بند کر کے اس کی کنڈی لگا دیا کرتا تھا اور یوں دکان بند ہوجاتی تھی۔

    دوپہر کا وقت ہو گیا تھا اور سر پر سورج بھی چمک رہا تھا مگر بالا پھر بھی سردی محسوس کر رہا تھا۔ اس نے اون کی بنی ہوئی پرانی شال کو اپنے جسم کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔ اس کے باوجود اس کے باتھ پاؤں سردی سے ٹھنڈے ہو رہے تھے۔

    وہ گاؤں کا واحد موچی تھا ۔ گاؤں کے سب لوگ اپنے پھٹے پرانے جوتوں کی مرمت اس سے ہی کرواتے تھے، اس لیے اس کو خالی بیٹھنے کی ذرا بھی فرصت نہیں ملتی تھی اور وہ صبح سے شام تک اپنے کام میں ہی لگا رہتا تھا۔

    بالا تھا تو غریب آدمی مگر اس میں لالچ نام کو بھی نہ تھا۔ اسے علم تھا کہ گاؤں کے لوگوں کی آمدنی زیادہ نہیں ہوتی اور وہ بڑی مشکل سے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔ بالا گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح ہی ان پڑھ تھا مگر اس کو گاؤں والوں کی غربت کا احساس تھا، اس لیے وہ ان سے جوتوں کی مرمت کے زیادہ پیسے نہیں لیتا تھا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اس کو جوتوں کی مرمت کے بدلے رقم ہی ملتی ہو، گاؤں کے کچھ لوگ تو اس خدمت کے عوض اسے مرغی، انڈے، گندم، سبزیاں اور گڑ وغیرہ بھی دے جاتے تھے۔

    ایک دفعہ اس نے گاؤں کے ایک آدمی کے دو بچوں کے نئے جوتے بنائے تھے تو اس آدمی نے ان جوتوں کے بدلے اسے ایک بکری دے دی تھی۔ اس بکری کی وجہ سے بالے اور اس کے گھر والوں کو دودھ کی آسانی ہو گئی تھی۔

    وہ اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ گاؤں میں رہتا تھا۔ گھر چلانے کے لیے اسے سخت محنت کرنا پڑتی تھی۔ اس کی بیوی ایک بہت اچھی اور محنتی عورت تھی۔ وہ جوتوں میں کام آنے والا چمڑا رنگنے میں بالا کا ہاتھ بٹاتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ گاؤں کے زمین داروں کے کھیتوں میں بھی کام کرتی تھی جس سے اسے کچھ پیسے مل جاتے تھے۔ دونوں کی اس جدوجہد کے نتیجے میں گھر کی گاڑی چلتی تھی۔

    ان کی دونوں بیٹیاں ابھی چھوٹی تھیں اور گاؤں کے کچّے مدرسے میں پڑھنے جاتی تھیں۔ دونوں میاں بیوی ان کو کسی کام میں ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے۔ بالا ان سے کہتا تھا کہ بس وہ پڑھتی لکھتی رہیں۔ اس کے باوجود دونوں لڑکیاں گھر کے مختلف چھوٹے موٹے کاموں میں لگی رہتی تھیں جس کی وجہ سے بالا کی بیوی کو بڑی آسانی ہوجاتی تھی۔

    بالا کے گھر کی ایک مدت سے مرمت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے گھر میں تین کمرے تھے اور ان کی چھتیں بوسیدہ ہو گئی تھیں۔ بارش ہوتی تھی تو پانی کمروں میں ٹپکنے لگتا تھا۔ بالا یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو جاتا تھا کہ اگر سردیوں میں بارشیں شروع ہو گئیں تو کیا ہوگا۔ اس نے پیسے جمع کرنا شروع کر دیے تھے تاکہ بارشوں کے ہونے سے پہلے ہی گھر کی چھتوں کی مرمت کروا لے، مگر ابھی اس کے پاس بہت تھوڑے پیسے ہی جمع ہوےٴ تھے۔ وہ اس مقصد کے لیے اب سورج غروب ہونے تک کام میں لگا رہتا تھا تاکہ کچھ اضافی رقم حاصل ہوجائے جو چھتوں کی مرمت میں کام آئے۔

    تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اس کی بیوی اس کا کھانا لے کر آ گئی۔ وہ اپنے ساتھ ٹین کا ایک بڑا سا ڈبہ بھی لائی تھی جس میں اس نے لکڑیوں سے آگ جلا رکھی تھی۔ بالا بیوی کو، کھانے کو اور آگ کے ڈبے کو دیکھ کر خوش ہوگیا، بولا۔

    ’’بالی۔ خوش رہ۔ تُو نے تو کمال کر دیا۔ تجھے کیسے پتہ چلا کہ مجھے سردی لگ رہی ہے۔‘‘ بالی اپنی تعریف سن کر شرما گئی۔ خوش ہو کر بڑے پیار سے بولی۔ ’’بالے جیسی سردی یہاں ہے، ویسی سردی گھر پر بھی ہے۔ میں نے سوچا کہ تو سردی میں کام کررہا ہوگا اس لیے میں ڈبے میں آگ جلا کر لے آئی ہوں۔ ‘‘

    یہ کہہ کر اس کی بیوی نے کھانا کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا اور بولی۔

    ’’بالے تُو کھانا کھا، میں گھر جاتی ہوں، دونوں بچیّاں مدرسے سے واپس آنے والی ہوں گی۔ انھیں بھی کھانا دینا ہوگا۔ ‘‘ بالے نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے تُو جا، مگر بالی یہ سن لے کہ تُو میری خاطر بہت تکلیفیں اٹھاتی ہے، مجھے تو اس کا افسوس ہوتا ہے کہ میں تجھے کوئی سکھ نہیں دے سکا۔ بس تُو دیکھتی رہ، جیسے ہی گھر کی چھتوں کی مرمت ہو جاتی ہے، میں پھر پیسے جمع کروں گا اور ان سے تیرے لیے سونے کی بالیاں اور ہاتھ کے کڑے بنواؤں گا۔‘‘

    اس کی بیوی بولی۔ ’’تو ہمارے لیے ہی تو صبح سے شام تک کام میں لگا رہتا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ میں بہت سکھ میں ہوں۔ ہماری بچیاں پڑھ لکھ رہی ہیں، مجھے نہ بالیاں چاہیے اور نہ کڑے، اب تو اوڑھنے پہننے کی باری ہماری بچیوں کی ہے۔‘‘

    بالا سر ہلا کر جگ کے پانی سے ہاتھ دھونے لگا اور پھر کھانے میں مصروف ہوگیا۔ اس کی بیوی اٹھ کر گھر چلی گئی۔ بالا جلد ہی کھانے سے فارغ ہوگیا اور دوبارہ کام میں لگ گیا، زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس کو دور سے بہادر آتا دکھائی دیا۔ وہ بالا کے قریب ہی ایک گھر میں رہتا تھا اور اینٹوں کے ایک بھٹے پر مزدوری کرتا تھا، اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا۔

    قریب آکر اس نے وہ تھیلا بالے کے لکڑی کے صندوق پر رکھ دیا اور خود زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ بالے نے وہ جوتا جس کی وہ مرمت کر رہا تھا ایک طرف رکھا اور بولا۔ ’’بہادر بھائی کیسے آنا ہوا؟‘‘

    بہادر نے دھیرے سے کہا ’’پرسوں دوسرے گاوٴں سے لڑکے والے شادی کے لیے میری بڑی لڑکی کو دیکھنے کے لیے آرہے ہیں اس لیے جوتے مرمت کروانے کے لیے لایا ہوں، لڑکے والے آئیں گے تو ان پھٹے ہوئے جوتوں میں ان کے سامنے جاتے ہوئے شرم آئے گی۔‘‘ اس نے اپنا پاوٴں آگے کر کے کہا۔

    بالے نے دیکھا اس نے جو جوتے پہنے ہوئے تھے وہ انتہائی بدنما اور خستہ تھے، بالا نے خاموشی سے وہ تھیلا اٹھایا جس میں بہادر مرمت کروانے کے لیے جوتے لایا تھا، یہ جوتے بھی نہاہت خستہ حالت میں تھے اوپر کا چمڑا پرانا ہو گیا تھا مگر پھٹا نہیں تھا، اس نے انھیں پلٹ کر دیکھا تو دونوں جوتوں کے تلے پھٹے ہوئے تھے، بالے کی تجربہ کار انگلیوں نے جوتوں کے چمڑے کو چھو کر اندازہ کر لیا تھا کہ وہ ہرن کی کھال کے بنے ہوئے تھے، جو نہایت نرم، مضبوط اور ہلکی ہوتی ہے۔

    دوسری بات جو بالے نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ ہرن کی کھال کے بنے ہوئے جوتے اگرچہ ہلکے پھلکے ہوتے ہیں، مگر یہ جوتے اسے کچھ زیادہ ہی وزنی لگے۔ اس نے اس بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔

    جب بہادر نے جوتوں میں بالے کا انہماک دیکھا تو وہ پریشان ہوگیا۔ اس کو یہ ڈر تھا کہ اتنے خراب جوتے دیکھ کر بالا ان کی مرمت سے انکار نہ کر دے اس لیے وہ بڑی لجاجت سے بولا۔ ’’بالے بھائی جوتے بہت پرانے ہیں۔ ان کو میں نے گھر میں پڑے پرانے سامان سے نکالا ہے، یہ جوتے میرے دادا کے تھے اور کسی زمانے میں بہت اچھی حالت میں تھے۔ دادا کے انتقال کے بعد میرے ابّا نے پہن پہن کر ان کا یہ حال کردیا تھا۔ اگر بیٹی کی بات پکّی ہونے کی تقریب نہ ہوتی تو میں کبھی بھی ایسے پھٹے پرانے جوتے لے کر تمہارے پاس نہیں آتا۔ بس یہ سمجھ لو عزت کا معاملہ ہے۔‘‘

    بالا اس کی بات سن کر رنجیدہ ہو گیا، اس نے کہا ’’یہ جوتے ہرن کی کھال کے بنے ہوئے ہیں اور ہرن کی کھال کے جوتے بہت قیمتی ہوتے ہیں، تمہارے دادا تو کافی پیسے والے ہوں گے۔‘‘

    بہادر نے بڑے فخر سے کہا۔ ’’وہ بہت بڑے زمین دار تھے۔ اس گاوٴں کی بہت سی زمینیں ان ہی کی ملکیت تھیں۔ ان کے مرنے کے بعد میرے باپ نے ساری زمینیں بیچ کر ان کے پیسے اپنے دوستوں پر اڑا دیے تھے۔ اگر وہ سنبھل کر چلتے تو ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔‘‘

    اس کی شرمندگی محسوس کرکے بالا نے اس کی تسلی کے لیے کہا۔ ’’تم فکر مت کرو، ان جوتوں کو تو میں ایسا کر دوں گا کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جائیں گے۔‘‘

    اس کی بات سن کر بہادر نے نظریں جھکا کر کہا۔ ’’اور بالے بھائی ایک بات اور ہے۔ان کی اجرت میں بعد میں دوں گا۔ ابھی تو لڑکے والوں کے کھانے کا بھی انتظام نہیں ہوا ہے، وہ بھٹہ جہاں میں کام کر تا ہوں اب میں اس کے مالک کے پاس جاؤں گا، شاید وہ مجھے کچھ رقم ادھار دے دے اور میں کھانے کا انتظام کرسکوں۔‘‘

    بالے نے کہا۔ ’’دیکھو بہادر بھائی۔ جیسی تمھاری بیٹی، ویسی میری بیٹی۔ تم فکر مت کرنا۔ بھٹے کا مالک بھلے تمہیں ادھاردے یا نہ دے، میرے پاس چلے آنا، میرے پاس کچھ رقم موجود ہے، بارش میں چھتیں ٹپکنے لگتی ہیں ان کی مرمت کے لیے میں رقم جمع کر رہا ہوں۔ مرمت تو بعد میں بھی ہوجائے گی، ان پیسوں کو تم بس اپنا ہی سمجھو۔ تم آرام سے لڑکے والوں کی دعوت کا انتظام کرنا۔‘‘

    بالے کی ہم دردی اور محبت بھری باتیں سن کر بہادر کا دل بھر آیا اور اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ اسے دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوا۔

    چوں کہ گاوٴں کی ایک بیٹی کی شادی کا معاملہ تھا اس لیے بالے نے دوسرے جوتوں کی مرمت کا کام چھوڑا اور بہادر کے جوتے لے کر بیٹھ گیا۔ جوتوں کے تلے تو بالکل بھی مرمت کے قابل نہ تھے، وہ نہ صرف بری طرح گھس گئے تھے بلکہ بیچ میں سے دو حصوں میں بھی تقسیم ہو گئے تھے۔ بالے نے اپنے لکڑی کے صندوق میں سے سب سے مہنگے والے تلے نکالے، یہ تلے وہ گاوٴں کے امیر زمین داروں کے جوتوں میں لگاتا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنے کام میں لگ گیا ۔

    شام تک جوتے تیار ہو گئے تھے۔ بالے نے ان پر بہت محنت کی تھی اور وہ بالکل نئے لگ رہے تھے۔ اس نے اپنی ساری چیزیں لکڑی کے صندوق میں بند کر کے اس کی کنڈی لگائی اور بہادر کے جوتوں کا تھیلا اٹھا کر گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔

    اس پوری کارروائی کے دوران اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے اور دبے دبے جوش کے آثار تھے اور وہ بہت سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ اس کے قدم تیزی سے گھر کی جانب بڑھ رہے تھے ایسا معلوم دیتا تھا جیسے وہ جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا ہو۔

    گھر پہنچ کر اس نے جوتوں کا تھیلا ایک طرف رکھا۔ دونوں بچّیاں باہر گلی میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ بالی رات کا کھانا پکا رہی تھی۔ بالے نے اسے آواز دے کر بلایا۔ وہ آئی تو بالے نے اسے بہادر کے جوتے دکھائے اور پھر اسے پاس بٹھا کر چپکے چپکے اس کو کچھ بتانے لگا۔

    بالے کی باتیں سن کر بالی آنکھیں حیرت سے چمکنے لگی تھیں۔ اپنی بات ختم کر کے بالے نے اپنے کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈال کر پرانے کپڑے کی ایک پوٹلی کھول کر بالی کو دکھائی۔ پوٹلی میں بہت سارے چمکتے ہوئے ہیرے اور سونے کی چھوٹی چھوٹی اینٹیں چمک رہی تھیں۔ ان کو دیکھ کر بالی حیران بھی تھی اور خوش بھی۔

    بالے نے کہا۔ ’’اب ہم بہادر کے گھر چلیں گے، بچّیاں باہر گلی میں کھیل رہی ہیں، تُو چولھے کی آگ ہلکی کردے، ہم جلدی واپس آجائیں گے۔‘‘

    تھوڑی دیر بعد بالا اپنی بیوی بالی کو لے کر بہادر کے گھر پہنچا۔ بہادر گھر پر ہی مل گیا تھا اور سخت پریشان اور فکرمند نظر آ رہا تھا۔ اس نے بالے اور اس کی بیوی کو عزت سے بٹھایا۔ اس کی بیوی اور بیٹیاں بھی ان کے پاس آکر بیٹھ گئی تھیں۔

    جب سب بیٹھ گئے تو بہادر نے بالے کو بتایا کہ اسے بھٹے کے مالک نے پیسے دینے سے انکار کر دیا ہے، اس نے اس کی بے عزتی بھی کی تھی کہ وہ ادھار لینے کے لیے ہر وقت منہ اٹھا کر چلا آتا ہے۔

    بالے نے کہا۔ ’’بہادر، اللہ بہت رحیم اور کریم ہے۔ اب میں تم سب لوگوں کو ایک عجیب و غریب کہانی سناتا ہوں۔ یہ کہانی سن کر تم سب بہت خوش ہو جاوٴ گے۔‘‘

    اس کی بات سن کر بہادر کی بیوی اور بیٹیاں اسے حیرت اور دل چسپی سے دیکھنے لگیں۔ بالی کو تو بالا یہ باتیں پہلے ہی بتا چکا تھا اس لیے وہ حیران نہیں ہورہی تھی۔ بہادر کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا تھا وہ منہ کھولے بالے کی باتیں سن رہا تھا۔ ان سب کی حیرانی اور پریشانی دیکھ کر بالے کی بیوی مسکرا رہی تھی۔

    بالے نے کہنا شروع کیا۔ ’’بہادر۔ تمہارے دادا بہت امیر آدمی تھے۔ جب میں نے ان کے جوتوں کی چیر پھاڑ کی تو ان کی ایڑیوں میں سے یہ چیزیں نکلی تھیں۔‘‘

    اس نے کپڑے کی و ہی چھوٹی سی پوٹلی نکال کر سرکنڈوں سے بنے مونڈھے پر رکھ دی۔ سب حیرانی سے اس پوٹلی کو دیکھ رہے تھے۔ جب بہادر نے وہ پوٹلی کھولی تو اس میں رکھے ہوئے ہیرے اور سونے کی چھوٹی چھوٹی اینٹیں دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔

    بہادر نے وہ پوٹلی اٹھا کر بہادر کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ ’’میرا یہ خیال ہے تمہارے دادا نے اس دولت کو چوروں اور ڈاکووٴں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنے جوتوں میں چھپا دیا تھا۔‘‘ اتنی ساری دولت سامنے پا کر بہادر کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس پوٹلی کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی بیوی تو اتنی خوش ہوئی کہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔ جب تھوڑی دیر بعد ان لوگوں کی حالت سنبھلی تو بہادر بالے کے ہاتھ تھام کر رونے لگا۔

    ’’بالے بھائی تم انسان نہیں فرشتہ ہو۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’تمہارا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ تمہارے جیسا ایمان دار آدمی پورے گاوٴں میں کوئی دوسرا نہیں ہو گا۔‘‘

    ’’بہادر میں تو اس بات پر خوش ہوں کہ تمہاری بیٹی کے نصیب سے یہ دولت تمہیں ملی ہے۔ اب تو تم اس گاوٴں کے بہت امیر آدمی ہو گئے ہو۔ ان چیزوں کو فروخت کر کے ان سے ملنے والی رقم سے پہلے تو بیٹی کی شادی کرنا پھر کوئی اچھا سا کام شروع کردینا۔‘‘

    تھوڑی دیر کے بعد بالا اور اس کی بیوی اپنے گھر جانے کے لیے اٹھ گئے۔ راستے میں اس کی بیوی نے کہا۔ ’’بالے تجھے یہ ایمان داری کس نے سکھائی ہے۔ تُو چاہتا تو اس قیمتی خزانے کو چھپا بھی سکتا تھا، کسی کو کیا پتہ چلتا۔ ان کو بیچ کر تو گھر کی چھتیں ٹھیک کروا سکتا تھا، میرے لیے سونے کے زیورات بنوا سکتا تھا۔ ہم اپنی بچیوں کو گاوٴں کے نہیں پڑوس کے قصبے میں کسی اچھے سے اسکول میں داخل کروا سکتے تھے۔‘‘

    بالا اس کی بات سن کر ہنسا پھر سینہ تان کر بولا۔ ’’ہمارے گھر کی چھتوں کی مرمت بھی ہوگی، تیرا زیور بھی بنے گا اور ہماری بچیاں قصبے کے اسکول میں نہیں شہر کے اسکول میں بھی پڑھنے جائیں گی۔ اور یہ سب میں اپنے ہاتھ کے کمائے ہوئے پیسوں سے کروں گا۔‘‘

    اس کی بات سن کر بالی کھل اٹھی اور بولی۔ ’’میں اور میری دونوں بچیاں بہت خوش نصیب ہیں، مجھے اتنا اچھا شوہر اور بچیوں کو اتنا اچھا باپ ملا ہے۔‘‘

    اپنی تعریف سن کر بالا شرما گیا تھا، بیوی سے اس شرم کو چھپانے کے لیے جھوٹ موٹ کے غصے سے بولا۔ ’’بالی ذرا تیز چل۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔ گھر جاتے ہی کھانا کھاوٴں گا۔‘‘

    بالی سمجھ گئی تھی کہ اس کی تعریف سے بالا شرما گیا ہے، وہ مسکرائی اور تیز تیز چلنے لگی۔

  • خوش قسمت

    خوش قسمت

    کسی جنگل میں ایک چوہا رہتا تھا۔ ایک دن وہ کچھ بیمار ہو گیا جس کے سبب اس کی جسمانی طاقت جاتی رہی اور نقاہت کی وجہ سے اس چلنا پھرنا بھی دوبھر ہو گیا۔ چوہا کسی طرح دوپہر کو سخت گرمی میں گرتا پڑتا علاج کے لیے اُلّو کے مطب جا پہنچا۔ وہ جنگل کا مشہور حکیم تھا۔ اُلّو نے چوہے کا معائنہ کرنے کے بعد انکشاف کیا کہ وہ تو قریب المرگ ہے۔

    اُلّو نے کہا کہ بس اب تمھاری زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ یہ جان کر چوہا اداس ہوگیا۔ حکیم اُلّو نے اُس کی یہ حالت دیکھی تو ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ موت تو ہر نفس کو ایک دن آنی ہے، تم تو خوش قسمت ہو کہ تمہیں پہلے ہی علم ہوگیا کہ تمھارے جانے کا وقت قریب ہے، ورنہ کتنے ہی چوہے آخری وقت تک خوابِ غفلت میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ اپنی عیش کی زندگی اور دنیوی مصروفیت میں اس بات کی فکر ہی نہیں‌ کرتے کہ کوئی اچّھائی اپنے نام کرلیں۔ خلقِ خدا کے لیے کچھ نیک کام کرتے جائیں۔ ہر موقع پر ہمّت اور بہادری کا ثبوت دیں، تم تو خوش قسمت ہو کہ ابھی کچھ وقت ہے جس کا فائدہ اُٹھا سکتے ہو۔

    چوہا اس کی باتوں‌ پر غور کرتا واپس گھر کی طرف چل دیا۔ راستے میں ایک جنگلی بلّی کی اس پر نظر پڑگئی۔ بلّی نے چوہے کو ہڑپ کرنے کے لیے جھپٹا مارا، چوہے کے اندر نجانے کہاں سے اتنی توانائی آگئی کہ اس نے ایک لکڑی کا ٹکڑا اٹھایا اور بلّی کی دھنائی کردی۔ یہ اتنا غیرمتوقع درعمل تھاکہ بلّی اپنا بچاؤ نہ کرسکی اور خوف کے مارے وہاں‌ سے بھاگ نکلی۔ وہ حیران تھی کہ کل تک جو معمولی جانور اس کی آواز سے ڈر جاتا تھا، آج اس کی یہ درگت بنا رہا ہے۔

    ادھر چوہے کا حوصلہ بڑھ گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا چار دن کی زندگی ہے، اسے بھی ڈر کے کیوں‌ گزاروں۔ اب میرے پاس کھونے کو بچا ہی کیا ہے، موت تو آنی ہی ہے، کیوں‌ نہ حالات کا مقابلہ دبنگ طریقے سے کروں۔ یہ سوچتے ہوئے وہ آگے بڑھا تو دیکھا کہ آسمان سے ایک باز اُسے اچکنے کے لیے نیچے آ رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہی چوہے نے ایک پتھر اُٹھایا اور نشانہ باندھ کر پوری قوّت سے باز کے منہ پر دے مارا۔ پتھر باز کی آنکھ پر لگا اور وہ تکلیف سے چلّاتا ہوا وہاں‌ سے آگے نکل گیا۔ اب تو چوہا جیسے شیر ہو گیا۔

    اُسے لگ رہا تھا کہ ساری زندگی تو بیکار اور ناحق ڈرتے ہوئے گزار دی۔ اُس نے سوچا کہ میں تو صرف قد میں ہی چھوٹا ہوں، میری ہمّت کے آگے تو پہاڑ بھی نہ‌ ٹھہرے۔ ان خیالات نے اسے بہت طاقت اور توانائی دی۔ اس کی نظر میں اب جنگل کا بادشاہ شیر بھی کسی بکری جیسا تھا۔

    چوہا اس بلّی اور باز کے مقابلے میں اپنی جیت پر خوشی سے پھولے نہیں‌ سما رہا تھا۔ راستے میں اچانک پیر پھسلا تو ایک گہرے گڑھے میں جا گرا۔ اس کا سَر کسی پتھر سے ٹکرایا اور خون نکلنے لگا۔ چند منٹ بعد اپنے حواس بحال کرکے وہاں‌ سے نکلا اور دوبارہ حکیم کے پاس پہنچ گیا تاکہ وہ اس کی مرہم پٹّی کردے۔

    وہاں‌ پہنچا تو سورج ڈھلنے کو تھا۔ حکیم نے زخم پر دوا لگائی اور چوہے کو بغور دیکھا تو اُسے سمجھ آیا کہ دوپہر میں اس نے جس مرض کی تشخیص کی تھی وہ غلط تھی۔ چوہے کو تو معمولی بخار ہے جو دوا کی چند خوراکوں‌ سے ٹھیک ہو سکتا ہے۔

    اُلّو نے چوہے کو یہ بات بتانے سے پہلے کہاکہ زخم گہرا ہے، اسے بھرنے میں کم از کم ایک ہفتہ تو لگ ہی جائے گا۔ چوہا یہ سن کر افسردگی سے بولا میری تو موت سَر پر ہے، اوپر سے چوٹ اور یہ زخم بھی لگ گیا۔ اس پر حکیم نے سچ بتا دیا اور غلط تشخیص پر معافی بھی مانگ لی۔ چوہا یہ جان کر بہت خوش ہوا اور خوشی خوشی گھر کو جانے لگا۔ خوشی کے ساتھ اس نے اپنے اندر عجیب سی تبدیلی بھی محسوس کی لیکن اسے سمجھ نہ سکا۔

    شام گہری ہوچلی تھی۔ راستے میں اُسے ایک چھوٹا سا بچّھو نظر آیا۔ چوہے نے سوچا کہ اس موزی کو مار بھگائے، مگر فوراً ہی اُسے بچھو کا خطرناک زہر اور نوکیلا ڈنک یاد آگیا۔ خوف کے احساس نے اس کے بدن میں‌ سنسنی پیدا کردی۔ وہ راستہ بدل کر نکلنے لگا۔ تب اچانک ہی بچّھو گویا اڑتا ہوا اس تک پہنچ گیا اور چوہے کو ڈنک مار کر آناً فاناً ختم کر دیا۔

    اس حکایت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو شخص میّسر و موجود کو کھو دینے سے نہیں‌ ڈرتا، وہ کچھ بھی حاصل کرسکتا ہے۔ جب ایسا شخص اپنی منزل کا تعین کرکے اس کی سمت بڑھنا شروع کرتا ہے تو راستے کی مشکلات کا مقابلہ بھی ڈٹ کرتا ہے، وہ گھبراتا نہیں‌ ہے اور کام یابی ایسے ہی لوگوں کا مقدّر بنتی ہے۔

    (غیرملکی ادب سے ماخوذ، سائرہ جمال کا انتخاب)

  • شاہی اصطبل اور ماشکی کا گدھا

    شاہی اصطبل اور ماشکی کا گدھا

    یہ ایک غریب اور محنت کش کی کہانی ہے جو اپنے گدھے پر مشکیں لاد کر لوگوں کے گھروں تک پانی پہنچاتا اور ان سے اپنی محنت اور اس مشقّت کا معاوضہ وصول کرتا۔ سب اسے ماشکی کہتے تھے جو اس کام سے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل ہی بھر پاتا، لیکن کوئی دوسرا ذریعہ معاش اس کی سمجھ نہیں‌ آتا تھا، اس لیے برسوں‌ سے یہی کام کیے جارہا تھا۔

    ایک طرف یہ ماشکی صبح سے دن ڈھلنے تک یہ کام کرتے ہوئے تھک جاتا تھا تو دوسری طرف اس کا گدھا بھی پانی سے بھری ہوئی مشکوں‌‌ کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے نڈھال ہوجاتا تھا۔ شہر کے ایک کنویں‌ کے علاوہ کچھ فاصلے پر جنگل کے قریب ایک میٹھے پانی کا چشمہ تھا، جہاں‌ دن میں‌ کئی چکر لگانے پڑتے تھے۔ اب اس گدھے کی حالت ابتر ہوگئی تھی۔ اکثر اسے کھانے کو پیٹ بھر کچھ نہ ملتا اور کام بہت زیادہ کرنا پڑتا تھا۔ اس کی پیٹھ پر زخم پڑ جاتے یا کبھی کوئی چوٹ لگ جاتی تو ماشکی دوا دارو، مرہم پٹّی پر توجہ نہ دیتا اور گدھا تکلیف برداشت کرنے پر مجبور تھا۔ وہ بے زبان ان حالات سے تنگ آکر ہر وقت اپنی موت کی آرزو کرنے لگا۔

    ایک دن اس گدھے کو شاہی اصطبل کے داروغہ نے دیکھا تو اس کی حالت پر بڑا رحم آیا۔ اس نے محنت کش سے کہا،’’تمھارا گدھا قریب المرگ ہے، اس کی حالت تو دیکھو، اسے کچھ دن آرام کرنے دو اور پیٹ بھر کر کھانے کو دو۔‘‘ ماشکی نے مؤدبانہ انداز اختیار کرتے ہوئے عرض کیا، ’’مائی باپ! گدھے کو کہاں سے کھانے کے لیے دوں؟ خود میری روٹیوں کے لالے پڑے ہیں، دن رات محنت کرنے کے باوجود بال بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر روٹی نہیں‌ کھلا پاتا۔‘‘

    یہ سن کر داروغہ کو اور ترس آ یا۔ کہنے لگا، ’’میاں ماشکی، تم چند روز کے لیے اپنے گدھے کو میرے حوالے کر دو، میں اسے شاہی اصطبل میں رکھوں گا۔ وہ تر و تازہ گھاس ، چنے اور جو کا دانہ کھا کھا کر دنوں میں پھول کر موٹا تازہ ہو جائے گا۔‘‘ ماشکی یہ سن کر خوش ہو گیا اور اپنا مریل گدھا اس کے سپرد کر دیا۔ داروغہ نے اسے لے جا کر شاہی اصطبل میں باندھ دیا۔ وہاں جاکر گدھے کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

    ہر طرف ترکی اور عربی النّسل گھوڑے نہایت قیمتی ساز و سامان کے ساتھ اپنے اپنے تھان پر بندھے ہوئے تھے۔ ہر گھوڑے کا بدن خوب فربہ تھا اور ان کی کھال آئینے کی طرح چمک رہی تھی۔ چار چار آدمی ایک ایک گھوڑے کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔ کوئی کھریرا کر رہا تھا، کوئی مالش، کوئی دانہ کھلا رہا تھا، کوئی پیٹھ پر محبت سے تھپکیاں دینے میں مصروف تھا۔ پھر گدھے نے یہ بھی دیکھا کہ گھوڑوں کے تھان نہایت صاف ستھرے ہیں۔ لید کا نام و نشان نہیں۔ لوہے کی بڑی بڑی ناندوں میں ہری ہری گھاس، جَو اور چنا بھیگا ہوا ہے۔

    یہ دیکھ کر گدھے نے اپنی تھوتھنی اٹھائی اور خدا سے فریاد کی ’’یا الٰہی! یہ کیا تماشا ہے، بے شک میں گدھا ہوں، لیکن کس جرم کی پاداش میں میرا برا حال ہے اور کس لیے میری پیٹھ زخموں سے بھری ہوئی ہے؟ کیا میں تیری مخلوق نہیں ہوں؟ کیا تُو نے مجھے پیدا نہیں فرمایا اور کیا تُو میرا ربّ نہیں ہے؟ پھر کیا سبب ہے کہ یہ گھوڑے اتنی شان و شوکت سے رہیں، دنیا کی بہترین نعمتیں ان کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوں اور میں دن بھر بوجھ ڈھو کر بھی اپنے مالک کی مار پیٹ اور گالیاں کھاؤں؟‘‘

    ابھی گدھے کی یہ فریاد ناتمام ہی تھی کہ اصطبل میں ہلچل مچی۔ گھوڑوں کے نگہبان اور خدمت گار دوڑے دوڑے آئے، ان پر زینیں کسیں اور ٹھیک کر کے باہر لے گئے۔ اتنے میں طبلِ جنگ بجنے لگا۔ معلوم ہوا کہ سرحد کے قریب گاؤں میں ایک بڑے گروہ سے جھڑپ چھڑ گئی ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے فوجی گھوڑوں پر سوار ہو کر گئے ہیں۔

    شام کے وقت گھوڑے میدانِ جنگ سے اس حال میں واپس آئے کہ ان کے جسم زخموں سے چور اور لہو میں رنگین تھے۔ بعض گھوڑوں کے بدن تیروں سے چھلنی ہو رہے تھے اور تیر ابھی تک ان کے جسموں میں گڑے تھے۔ اپنے تھان پر واپس آتے ہی تمام گھوڑے لمبے لمبے لیٹ گئے اور ان کے پیر مضبوط رسوں سے باندھ کر نعل بند قطاروں میں کھڑے ہوگئے۔ پھر گھوڑوں کے بدن میں پیوست تیر کھینچ کھینچ کر نکالے جانے لگے۔ جونہی کوئی تیر باہر آتا، گھوڑے کے بدن سے خون کا فوارہ بلند ہوتا۔

    جب گدھے نے یہ تماشا دیکھا تو مارے ہیبت کے روح کھنچ کر حلق میں آگئی۔ بدن کا ایک ایک رونگٹا کانپنے لگا۔ خدا سے عرض کی کہ مجھے معاف کر دے، میں نے اپنی جہالت اور بے خبری سے تیرے حضور میں گستاخی کی۔ میں اپنے اس حال میں خوش اور مطمئن ہوں۔ میں ایسی شان و شوکت اور ایسے کروفر سے باز آیا جس میں بدن زخموں سے چور چور ہو اور خون پانی کی طرح بہے۔

    سچ ہے کہ میں ان سے بہت بہتر ہوں، مار کھاتا ہوں‌، تیر تو جسم میں‌ پیوست نہیں ہوتے، ڈنڈے پڑنے سے میری ہڈیاں‌ درد کرتی ہیں، لیکن بھاگتے ہوئے ایسے نہیں‌ گرتا کہ ہڈی چور چور ہو جائے، اکثر میری کھال کٹ پھٹ جاتی ہے، لیکن ایسا تو نہیں‌ ہوتا جو ان گھوڑوں کے ساتھ ہوا ہے، میرا مالک دن ڈھلنے پر مجھے ایک کونے میں‌ چھوڑ کر جیسے بھول جاتا ہے اور میں اپنی مرضی سے اپنی جگہ پر گھوم پھر لیتا ہوں، لیکن ان گھوڑوں کے خدمت گار تو دن رات ان کے ساتھ ہی چمٹے رہتے ہیں۔

    چند دنوں بعد داروغہ نے ماشکی کو بلا کر گدھا اس کے حوالے کر دیا۔ گدھا پہلے کی نسبت کافی بہتر لگ رہا تھا۔ اس کے مالک نے سوچا کہ اس کا سبب اچھی خوراک اور آرام و سکون ہے، مگر گدھا جانتا تھا کہ اصطبل میں‌ رہ کر‌ اسے جن نعمتوں کے ساتھ اپنی حیثیت اور مقام کا جو احساس ہوا ہے، وہ یہ سب دیکھنے سے پہلے کبھی نہیں‌ ہوا تھا۔ گدھا یہ سمجھ چکا تھا کہ جو جہاں‌ ہے، وہیں‌ عافیت اور چین سے ہے اور ہر چیز کی آرزو نہیں‌ کرنا چاہیے۔