Tag: مشہور کہانیاں

  • درویش وزیر! (حکایت)

    درویش وزیر! (حکایت)

    کسی بادشاہ نے معمولی خطا پر اپنے وزیر کو اس کے منصب سے ہٹا دیا۔ فراغت کے دنوں‌ میں وزیر کو درویشوں کی صحبت میں‌ بیٹھنے کا موقع ملا اور اس نے خود کو بہت مطمئن، آسودہ اور روحانی طور پر مسرور پایا۔ ادھر تھوڑا عرصہ گزرنے پر بادشاہ کو احساس ہوگیا کہ وزیر کی خطا ایسی نہ تھی کہ اسے یوں دربار سے نکال دیا جاتا۔ اس نے وزیر کو دربار میں طلب کیا اور اسے کہا کہ وہ دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالے اور جو ہوا اسے فراموش کردے۔

    اس پر سابق وزیر نے بادشاہ سے جو کہا وہ دنیا داروں اور درباریوں کے لیے حیران کُن تھا۔ درباریوں‌ نے سنا کہ اس نے بادشاہ کو نہایت نرم اور مؤدب لہجے میں‌ انکار کردیا اور وجہ دریافت کرنے پر کہا کہ اب گوشہ نشیں‌ ہے اور سمجھتا ہے کہ جو لوگ مکانِ عافیت میں‌ بیٹھ جاتے ہیں‌ وہ دوسروں کی ناخوشی اور اپنی سلامتی کے خوف سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

    بادشاہ نے یہ سن کر اصرار کیا اور کہاکہ مجھے سلطنت کے انتظام کے واسطے ایک عقل مند اور تجربہ کار وزیر کی ضرورت ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کے لیے تم سے بہتر کوئی نہیں‌ ہے۔

    وزیر نے جواب دیا۔ آپ کو ایک عقل مند چاہیے اور اگر میں‌ یہ منصب قبول کرتا ہوں تو یہ میری کم عقلی اور نادانی ہو گی۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے کاموں کا ذمہ ہی نہ لیا جائے۔ بادشاہ سلامت غور کیجیے کہ ہُما تمام پرندوں میں کیوں‌ اتنا معزز ہے؟ وہ اس لیے کہ وہ ہڈیاں کھا لیتا ہے، لیکن کسی جانور کو نہیں‌ ستاتا۔

    سابق وزیر نے بادشاہ کو ایک حکایت بھی سنائی۔ اس نے کہا کہ ایک مرتبہ کسی نے سیاہ گوش سے پوچھا، تم نے شیر کے قریب رہنا کیوں پسند کیا؟ سیاہ گوش نے جواب دیا، اس لیے کہ اس کے شکار کا بچا ہوا کھاؤں اور اپنے دشمنوں سے محفوظ رہوں، میں‌ شیر کے دبدبہ میں حفاظت سے زندگی بسر کررہا ہوں اور یوں دوسرو‌ں کی دشمنی سے محفوظ ہوں۔

    بادشاہ اس کی بات غور سے سن رہا تھا۔ وزیر نے اسے نرم اور اپنی طرف متوجہ پایا تو مزید حکمت و دانائی کے موتی بکھیرے۔ کہنے لگا، بادشاہ سلامت! دانا کہتے ہیں بادشاہوں کا مزاج بدلتا رہتا ہے، ان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ کیوں کہ ایک وقت تو وہ سلام کرنے اور آداب بجا لانے پر رنجیدہ اور ناراض ہوسکتے ہیں اور دوسرے وقت گالیاں کھا کر انعام دیتے ہیں۔

    بادشاہ پر اس کی باتوں‌ کا بہت اثر ہوا۔ اس نے اپنے سابق وزیر اور حال کے اس درویش مزاج شخص کو درباری منصب قبول کرنے پر مجبور نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور عزت کے ساتھ رخصت کردیا۔

    درویشوں کی صحبت میں اس دنیا اور جاہ و منصب کی حقیقت سے واقف ہوجانے والے اس شخص نے دربار سے رخصت ہوتے ہوئے کہا کہ اگر انسان اپنی عزت اور مرتبہ کو پہچان لے تو لازم ہے کہ وہ اس کا لحاظ رکھے، اور دل لگی اور ہنسی مذاق اُن مسخروں کے لیے چھوڑ دے جن کی کسی دربار میں‌ کمی نہیں‌ اور جو ہمہ وقت اس کام کے لیے حاضر رہنا پسند کرتے ہیں۔

    ( نامعلوم مصنف کی کہانی سے ماخوذ)

  • کنجوس جوہری(اردو ادب سے انتخاب)

    کنجوس جوہری(اردو ادب سے انتخاب)

    بہت دنوں کی بات ہے۔ کسی قصبے میں ایک جوہری رہا کرتا تھا۔ قصبہ چوں کہ چھوٹا تھا اس لیے یہاں کے رہنے والے تقریباً سبھی لوگ ایک دوسرے سے واقف تھے۔

    جوہری کے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنے آپ پر اور بیوی بچوں پر تو خاصی رقم خرچ کرتا تھا، لیکن وہ دوسروں پر کسی مطلب کے بغیر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتا۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا فقیر اس کے پاس آ جاتا تو جو ہری اس کو اس بری طرح جھڑکتا کہ بے چارہ بھکاری پھر کبھی بھول کر بھی اس طرف کا رخ نہ کرتا۔

    کنجوس جوہری کے بہت کم دوست تھے۔ وہ اپنے دوستوں پر بھی پیسہ خرچ نہ کرتا، بلکہ ان سے ہی کھانے پینے کی توقع رکھتا۔ چوں کہ وہ باتیں بنانے کا ماہر تھا، اس لیے کچھ لوگ اس کے دوست بن گئے تھے اور کبھی کبھی اسے کھلا پلا دیتے تھے۔

    اسی قصبے میں ایک دھوبی رہا کرتا تھا۔ وہ جوہری کے بالکل برعکس تھا۔ اس کے پاس ضرورت سے زیادہ جو پیسہ ہوتا، وہ دوستوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کر دیا کرتا۔ جب شاہی دھوبی بیمار ہو جاتا تو وہ بادشاہ کے کپڑے بھی دھویا کرتا۔ وہ لوگوں میں بڑا ہر دل عزیز تھا۔ وہ دھوبی تھا، مگر لوگ جوہری سے زیادہ اس کی عزت کرتے تھے۔

    ایک شام دھوبی کام ختم کر کے اپنے دوستوں سے گپ شپ کر رہا تھا کہ کنجوس جوہری کا ذکر چھڑ گیا۔ ایک دوست نے کہا: "اس جیسا کنجوس انسان تو ہم نے اپنی زندگی میں دیکھا نہ سنا۔”

    دوسرے دوست نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی: "اس نے آج تک کسی کو ایک گلاس پانی نہیں پلایا۔”

    دھوبی بولا: ” میں اس کنجوس جوہری سے چائے پانی تو ایک طرف رہا۔ کھانا تک کھا سکتا ہوں۔”

    تمام دوستوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ ایک دوست نے ٹانگیں پھیلاتے ہوئے کہا: "بڑے بڑے تیس مار خاں اس سے چائے تک نہیں پی سکے، بھلا تم کھانا کیسے کھاؤ گے؟”

    دھوبی نے کہا: "آخر تم لوگوں کو میری بات پر یقین کیوں نہیں آ رہا؟”

    "جب اس کنجوس جوہری سے کوئی چیز کھانا ممکن نہیں تو یقین کیسے آئے گا؟”

    دھوبی نے کہا: "اگر میں نے اس سے کھانا کھا لیا تو تم مجھے کیا انعام دو گے؟”

    ایک دوست بولا: ” ہم سب مل کر تمھاری ایک شان دار دعوت کریں گے۔”

    دھوبی بولا: ” تو پھر ٹھیک ہے۔ میں کل دوپہر کا کھانا جوہری کے گھر کھاؤں گا۔”

    "ٹھیک ہے۔ ہم بھی وہاں آئیں گے۔” سب بے ایک زبان ہو کر کہا۔

    دھوبی رات دیر تک کنجوس جوہری سے کھانا کھانے کی ترکیب سوچتا رہا۔ آخر ایک ترکیب اس کی سمجھ میں آ ہی گئی۔

    دھوبی نے اگلے دن ایک خالی ڈبا لیا اور جوہری کے گھر جا پہنچا۔ اسے معلوم تھا کہ جوہری اس وقت دوپہر کا کھانا کھاتا ہے۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

    "کون ہے؟” اندر سے جوہری کی آواز آئی۔

    "میں ہوں، دھوبی۔”

    "تمھیں معلوم نہیں، یہ میرے کھانے کا وقت ہے؟” جوہری بیزاری سے بولا۔

    دھوبی نے ادب سے جواب دیا: "معلوم ہے جناب! لیکن اس وقت میں آپ کے پاس ضروری کام سے آیا ہوں۔”

    "کون سا کام؟”

    دھوبی نے کہا: "آپ دروازہ کھولیے۔ ایک ہیرے کے بارے میں بات کرنی ہے۔”

    ہیرے کا نام سنتے ہی جوہری کے منھ میں پانی بھر آیا اور اس نے فوراً دروازہ کھول دیا۔ دھوبی کے ہاتھ میں ڈبا دیکھ کر وہ سمجھا کہ اس میں ہیرا ہے، جسے دھوبی بیچنے آیا ہے۔

    جوہری کو یہ بات بھی معلوم تھی کہ دھوبی کبھی کبھی شاہی محل میں کپڑے دھوتا ہے۔ اس نے سوچا: بہت ممکن ہے، میلے کپڑوں میں بھولے سے کوئی ہیرا آ گیا ہو۔

    جوہری نے کہا: "باہر کیوں کھڑے ہو، ادھر آ جاؤ۔ بیٹھ کر آرام سے باتیں ہوں گی۔”

    دھوبی، جوہری کے گھر میں داخل ہو گیا۔ اس وقت دسترخوان پر کھانا چنا جا چکا تھا، جس کی خوشبو سے دھوبی کی آنتیں قل ہو اللہ پڑھنے لگیں۔

    "مرغی کے انڈے کے برابر ہیرے کی آج کل کیا قیمت ہے؟ ” دھوبی نے اطمینان سے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

    یہ سن کر جوہری کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے سوچا کہ ڈبے میں ضرور کوئی بڑا ہیرا ہے، جو دھوبی کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ میں اسے بیوقوف بنا کر قیمتی ہیرے کو اپنے قبضے میں لے لوں گا۔ بھلا اسے ہیرے کے بارے میں کیا معلوم۔

    "ہاں تو بتائیے! مرغی کے انڈے کے برابر ہیرے کے کیا دام چل رہے ہیں ؟” جوہری کو خاموش دیکھ کر دھوبی نے دوبارہ پوچھا۔

    جوہری نے دعوت دی: "آؤ، پہلے کھانا شروع کرو، ہیرے کی باتیں کھانے کے بعد ہوتی رہیں گی۔”

    دھوبی تو اسی انتظار میں تھا۔ فوراً لذیذ کھانوں پر ہاتھ صاف کرنے لگا۔ پلاؤ، شامی کباب، شاہی ٹکڑوں اور گاجر کے حلوے کو جلدی جلدی حلق سے نیچے اتارنے لگا۔

    جوہری نے اپنے دل میں کہا: کوئی بات نہیں بچو! اڑا لو میرا مال، جتنا اڑا سکو۔ میں نے بھی تم سے چند سکوں میں ہیرا نہ ہتھیایا تو جوہری کا کام چھوڑ دوں گا۔

    دھوبی نے کہا: "سنا ہے، مرغی کے انڈے جتنے ہیرے بڑے نایاب ہوتے ہیں۔”

    جوہری نے چالاکی سے کہا: "ہیروں کی قیمت آج کل گری ہوئی ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب ہیروں کے دام بہت چڑھے ہوئے تھے، لیکن جب سے نقلی ہیرے بننے شروع ہوئے ہیں، اصلی ہیروں کی مانگ تقریباً ختم ہو چکی ہے۔”

    "پھر بھی آخر اتنا بڑا ہیرا کتنے کا ہو گا؟” دھوبی شامی کباب منھ میں رکھتے ہوئے بولا۔

    "یہی کوئی پچاس ساٹھ روپے کا۔” جوہری نے ڈبے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

    "اتنے بڑے ہیرے کی اتنی کم قیمت!” دھوبی نے رومال سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔

    "صحیح قیمت تو ہیرا دیکھنے کے بعد ہی بتائی جا سکتی ہے۔ آج کل تو نقلی ہیرے بھی اصلی کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔” جوہری نے ملازم کو خالی برتن لے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    "بڑی مہربانی جوہری صاحب! آپ نے ہیروں کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔” دھوبی جوتا پہنتے ہوئے بولا۔

    جب وہ ڈبا اٹھا کر دروازے کی طرف بڑھا تو جوہری بڑا سٹپٹایا اور بولا: "کیا تم ہیرا نہیں دکھاؤ گے؟ بیچنے کا ارادہ بدل دیا ہے کیا نقلی ہیرے کے بھی کچھ نہ کچھ پیسے تو مل ہی جائیں گے۔”

    دھوبی نے پُر اعتماد لہجے میں کہا: "آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، جوہری صاحب! میرے پاس نہ نقلی ہیرا ہے نہ اصلی۔ بھلا غریبوں کے پاس بھی ہیرے ہوا کرتے ہیں؟”

    "تو۔۔۔۔۔۔ تو پھر میرے پاس کس لیے آئے تھے؟”

    "چند دوستوں سے میری شرط لگی ہ، وہ کہتے ہیں کہ مرغی کے انڈے جتنا ہیرا ہوتا نہیں، جب کہ میں کہتا ہوں کہ ہوتا ہے۔ بس یہی بات آپ سے پوچھنے چلا آیا تھا۔”

    "مکار! دغا باز! نکال میرے کھانے کے پیسے، ورنہ تیری چمڑی ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔” جوہری ایک بڑا سا ڈنڈا لے کر اس کی طرف جھپٹا۔

    شور و غل کی آواز سن کر کئی لوگ جمع ہو گئے، جن میں دھوبی کے دوست بھی تھے۔ اتنے میں دھوبی نے چلانا شروع کر دیا: "ارے! میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ تمھارے کھانے نے میرے پیٹ میں درد کر دیا ہے۔ دوا کے پیسے نکالو، ورنہ تمھیں پولیس کے حوالے کر دوں گا۔”

    لوگوں نے جب یہ سنا تو انھوں نے سوچا کہ جوہری تو کسی کو ایک گلاس پانی تک نہیں پلاتا، پھر اس نے دھوبی کو کھانا کیسے کھلا دیا؟ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ وہ سب مل کر بولے: "دھوبی کو دوا کے پیسے دو، ورنہ تمھیں پولیس کے حوالے کر دیں گے۔”

    اب تو جوہری بڑا گھبرایا۔ وہ پولیس سے بہت ڈرتا تھا۔ جی کڑا کر کے اس نے دھوبی کو دوا کے پیسے دیے اور اپنی جان چھڑائی۔ جب دھوبی دوستوں کے ساتھ دکان پر پہنچا تو انھوں نے اس سے کہا: "بھئی مان گئے! آج شام ہمارے طرف سے تمھاری دعوت ہے۔

    مصنف: مہروز اقبال

  • دریائے میلانگ جہاں روزانہ دو یا تین لوگ زندگی ہار رہے تھے!

    دریائے میلانگ جہاں روزانہ دو یا تین لوگ زندگی ہار رہے تھے!

    کئی سال تک جاوا کے جنگلوں میں گھومنے کے بعد جب میں اپنے وفادار ملازم ہاشم کی معیت میں سماٹرا کی طرف روانہ ہوا، نہ جانے کیوں مجھے اپنے دل میں ایک عجیب اضطراب محسوس ہونے لگا۔

    سماٹرا پہنچ کر مجھے پیلمبنگ کے ضلع میں تعینات کیا گیا۔ یہ علاقہ دلدلی میدانوں اور گھنے جنگلوں سے پٹا پڑا تھا اور فضا میں ہر وقت ایک بو دار رطوبت سی چھائی رہتی تھی۔

    میری عمل داری میں جو علاقہ آیا وہ دریائے میلانگ کے کنارے واقع تھا اور بیس مربع میل میں پھیلا ہوا تھا۔ میں جس روز یہاں پہنچا ، مزدوروں کی ٹولیاں مجھے دیکھنے کے لیے آئیں اور میں نے بڑے تعجب سے دیکھا کہ ان سب کے چہرے سوجے ہوئے اور سیاہ تھے اور چال ڈھال سے بھی وہ مضمحل نظر آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ اس علاقے میں کالا بخار اور ملیریا کثرت سے پھیلا ہوا ہے اور یہاں ان مزدوروں کا علاج کرنے والا بھی کوئی بھی ڈاکٹر نہیں ہے۔

    مصیبت یہ تھی کہ یہ لوگ اس قدر جاہل اور وحشی تھے کہ بیماریوں سے محفوظ رہنے کے جو قواعد انہیں بتائے جاتے ، ان پر بالکل عمل نہ کرتے تھے۔ حالاں کہ وہ دیکھتے تھے کہ وبائی امراض کی بدولت روزانہ تین چار آدمی موت کا شکار ہو رہے ہیں۔

    سورج غروب ہوتے ہی دریا کی جانب سے ایک سیاہ بادل کی شکل میں بڑے بڑے مچھروں کی فوج اپنی خوراک کی تلاش میں نکلتی اور بدنصیب مزدوروں پر ٹوٹ پڑتی۔ ان کے پاس مچھروں کو بھگانے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ آگ کے الاؤ جلا دیے جاتے تاکہ مچھر نزدیک نہ آئیں۔ مگر جونہی ان بے چاروں پر نیند کا غلبہ ہوتا اور آگ مدھم پڑ جاتی، وہ ہزاروں کی تعداد میں ایک آدمی سے چمٹ جاتے اور جب صبح ان کی آنکھ کھلتی تو ان کے چہرے اور جسم سوجے ہوئے نظر آتے۔

    اگرچہ میں نے حکم دے رکھا تھا کہ پانی ابال کر پیا جائے لیکن مزدوروں کو اس کی پروا نہ تھی۔ وہ دریا اور گڑھوں میں سے پانی نکال کر بے تکلفی سے پی لیتے تھے حالاں کہ اس پانی کی سطح پر مچھروں کے انڈے تیر رہے ہوتے تھے۔

    قصّہ مختصر میری جان توڑ کوششوں کے باوجود ملیریا کا مرض مزدوروں میں پھیلتا چلا گیا۔ میں بھلا کیا کرتا؟

    (انتخاب:‌ آنائی کے آدم خور وحشی​، مقبول جہانگیر)​

  • دو درویش اور دنیا داری

    دو درویش اور دنیا داری

    یہ ایک درویش کا قصہ ہے، ایک بہت پرہیز گار اور نیک انسان کا جنھوں نے خود کو ایک آزمائش میں‌ ڈال لیا تھا، مگر جلد ہی ان پر اپنے کیے کی حقیقت کھل گئی اور انھوں نے خدا کے کاموں میں مصلحت کو سمجھا اور اپنے دنیا میں آنے کا مقصد جان لیا۔

    کہتے ہیں اس بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ محنت کیے بغیر حلال رزق عطا ہو اور ان کا زیادہ وقت عبادت میں گزرے۔ بزرگ نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے روز کی مشقت سے بچا اور حلال رزق عطا فرما، میں زیادہ عبادت نہیں کر پاتا۔ کیوں کہ دن کا خاصا وقت معاش کی بھاگ دوڑ میں‌ گزر جاتا ہے۔

    اس رات جب بزرگ سوئے تو خواب میں کسی پہاڑ کے نزدیک جنگل دیکھا جس میں ایک جگہ بہت سے پھل دار درخت تھے، ان کی دعا قبول ہو گئی تھی اور یہ خواب ایک اشارہ تھا۔

    بزرگ نے جنگل جاکر بہت سے پھل توڑ لیے اور گھر لے آئے۔ وہ نہایت میٹھے اور فرحت بخش تھے اور ان کا شکم بھرنے کو بہت تھے۔

    درویش نے محسوس کیا کہ ان پھلوں کو کھانے سے ان کی گفتگو اور لب و لہجے میں بڑی تاثیر اور شیرینی پیدا ہو گئی ہے اور ان کا کلام سن کر لوگ بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں‌ اور ان سے بڑی محبت کرنے لگے ہیں۔ اب انھیں چاہنے والے ہر وقت گھیرے رہتے اور یوں ان کو عبادت کا وقت نہ ملتا۔

    بزرگ کے دل میں ایک اور خیال آیا اور انھوں دعا کی کہ اے پروردگار! مجھے وہ انعام عطا فرما جو سب سے پوشیدہ ہو۔ اس دعا کے بعد ان کی قوتِ گویائی جاتی رہی۔

    بزرگ کے دل کو اطمینان ہوا کیوں کہ پہلے ان کی گفتگو سننے کے لیے ہر وقت لوگ ان کے پاس حاضر رہتے تھے، لیکن اس طرح رفتہ رفتہ سب دور ہوگئے اور یوں ان کو عبادت کا زیادہ سے زیادہ موقع ملنے لگا اور قربِ خداوندی میں لطف آنے لگا۔

    اب بزرگ روزی کمانے اور محنت و مشقت کی فکر سے آزاد تھے اور لوگوں سے بھی چھٹکارا مل گیا تھا۔

    بزرگ کے پاس کمائی کے دنوں کا ایک درہم بچا ہوا تھا جسے انھوں نے اپنی آستین میں سی رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ان کا گزر جنگل کے قریب سے ہوا جہاں ایک لکڑہارے کو دیکھا جو بہت تھکا ہوا اور پسینے میں شرابور تھا، بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ یہ درہم اسے دے دوں؟ مجھے تو اللہ پاک رزق دے رہا ہے، لیکن اس درہم سے یہ لکڑہارا دو چار روز کی مشقت اور روزی کے غم سے بچ جائے گا۔

    جنگل میں ملنے والا وہ لکڑہارا دراصل ایک روشن ضمیر اور متقی تھا۔ اللہ تعالیٰ کا اس پر خاص کرم تھا، بزرگ نے خود یہ واقعہ بتایا کہ اس نے کشف سے میرے دل کی ہر بات جان لی اور غصے سے بھر گیا۔

    اس نے اپنی لکڑیوں کا گٹھا زمین پر رکھا اور دعا کی یہ سب سونے کی بن جائیں، اور ایسا ہی ہوا۔ یہ دیکھ کر مجھے ہوش نہ رہا جب حواس بحال ہوئے تو وہ ولی اللہ دعا مانگ رہا تھا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری کرامت میری شہرت کا باعث نہ بن جائے، اس لیے ان لکڑیوں کو اپنی اصل حالت پر کر دے۔ اور اس بار بھی اس کی دعا قبول ہوئی، اس مرد نے مجھے دیکھا اور لکڑیاں لاد کر اپنی راہ چل دیا۔

    بزرگ نے کہا کہ میں نے اس واقعے کا بھید پا لیا، قدرت نے مجھے سمجھایا تھا کہ اس کا ایک باقاعدہ نظام ہے جس سے ہٹنا مسائل پیدا کرتا ہے۔ تب سے میں دوبارہ محنت کے ساتھ حلال روزی کی جستجو کرنے لگا اور جو وقت ملتا اس میں خشوع خضوع سے عبادت کرتا۔

    اس حکایت کو حضرت رومی سے منسوب کیا جاتا ہے جو ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ عبادات اور دنیاوی زندگی دونوں‌ میں توازن پیدا کرنا چاہیے اور دین میں فکرِ معاش اور حلال روزی کی کوشش ترک کرنے کو پسند نہیں‌ کیا گیا ہے۔

  • آخری جماعت

    آخری جماعت

    اس صبح مجھے اسکول سے خاصی تاخیر ہو چکی تھی، اور میں ڈانٹ ڈپٹ سے ڈرا ہوا تھا۔ خاص طور پر سَر ہامل نے کہا ہوا تھا کہ وہ اسم، صفت اور فعل کا امتحان لیں گے، اور مجھے ان کے بارے میں ٹھیک سے پتا نہیں تھا۔

    ایک لمحے کے لیے میں نے اسکول سے دور رہنے اور کھیتوں میں آوارہ گردی کا سوچا، میں یہ سب اس لیے کرنا چاہتا تھا کہ امتحان سے بچ سکوں مگر میرے اندر مزاحمت کی طاقت نہیں تھی اور میں اتنی تیزی سے اسکول کی طرف دوڑا جتنا تیز میں چل سکتا تھا۔

    میں کوتوال کے دفتر کے پاس سے گزرا تو دیکھا یہاں چند لوگ ایک بورڈ کے گرد جمع تھے جس پر نوٹس آویزاں کیا گیا تھا۔ گزشتہ دو سال سے ہماری تمام بری خبریں اسی بورڈ پر آویزاں کی جاتی تھیں۔ ”ہم جنگ ہار گئے“ ہیڈ کوارٹر کی طرف سے فوج میں جبری بھرتی کا حکم، میں نے بغیر رکے سوچا، ”اب کیا ہو گا؟“ پھر جب میں دوڑتے ہوئے چوک کے پاس سے گزرا۔

    ایک محافظ لوہار نے جو اپنے شاگردوں کے ساتھ کھڑا ”اعلان“ پڑھ رہا تھا مجھے پکار کر کہا۔ ”بچے…. اتنی جلدی نہ کرو، تم جلد ہی اسکول پہنچ جاؤ گے۔“

    میں نے سوچا وہ مذاق کر رہا ہے۔ میں دوڑا سَر ہامل کے چھوٹے سے حصے کی طرف جو اسکول میں اس کے لیے وقف تھا۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ۔ عام طور پر اسکول کے آغاز کے وقت بہت شور ہوتا تھا جو گلیوں میں بھی سنائی دیتا۔ ڈیسک کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں، اکٹھے ہو کر سبق دہرانے کی آوازیں، ہمارے کان اس کے عادی ہو چکے تھے اور استاد کا بید جسے وہ ڈیسک پر مارتے رہتے۔

    ”ایک دم خاموشی؟“ عام دنوں میں، مَیں اپنے ڈیسک تک پہنچنے تک اس شور پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ مگر اس دن مکمل خاموشی تھی۔ ایک اتوار کے دن کی طرح۔

    اگرچہ میں دیکھ سکتا تھا کمرے کی کھڑکیوں سے کہ میرے ساتھی اپنی جگہوں پر پہلے ہی بیٹھے تھے اور سَر ہامل کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک آہنی رولر اپنی بغل میں دبائے۔ میں نے دروازہ کھولا اور اس مکمل خاموشی کے ماحول میں داخل ہو گیا۔

    سَر ہامل نے میری طرف دیکھا، ان کی نظر میں غصہ نہیں تھا بہت تحمل تھا۔
    ”فوراً اپنی نشست پر پہنچ جاؤ میرے چھوٹے، ہم تمہارے بغیر ہی شروع کرنے والے تھے۔“

    میں نشست کی طرف بڑھا اور فوراً بیٹھ گیا۔ اس وقت تک میں اپنی گھبراہٹ پر جزوی طور پر قابو پا چکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارا استاد آج اپنا خوب صورت نیلا کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ دھاری دار گلو بند اور سیاہ ریشمی کڑھائی والا پاجامہ جسے وہ صرف ان دنوں میں پہنتے جب تقسیمِ انعامات کا موقع ہوتا یا اسکول کے آغاز کا دن۔

    اس کے علاوہ جماعت میں گہری سنجیدگی تھی مگر میرے لیے سب سے حیرانی کا باعث کمرے کا وہ پچھلا حصہ تھا جو عام طور پر خالی رہتا تھا۔ وہاں گاؤں کے چند لوگ بیٹھے تھے، اتنے ہی خاموش جتنے ہم۔

    تین کونوں والے ہیٹ پہنے معزز بزرگ، سابق کوتوال، سابق پوسٹ ماسٹر اور ان کے ساتھ اور لوگ۔ وہ سب پریشان لگ رہے تھے۔ اور معززین کے پاس پرانے ہجوں والی ایک کتاب تھی جس کے کونے کُترے ہوئے تھے۔ جسے ان میں سے ایک نے اپنے گھٹنوں پر کھول کر رکھا ہوا تھا اور اپنی عینک کو ترچھا کیا ہوا تھا۔
    اسی دوران جب میں اس سب پر حیران ہو رہا تھا، سَر ہامل نے آغاز کیا اور یہ اتنا ہی تحمل آمیز اور سنجیدہ آواز میں تھا جسے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے اپنایا تھا۔ انہوں نے ہم سے کہا۔

    ”میرے بچو! یہ آخری دفعہ ہے جب میں تمہیں پڑھاؤں گا۔ برلن سے حکم آیا ہے کہ السیشن اور لوریانی میں جرمن زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں کچھ نہ پڑھایا جائے۔ نیا استاد کل آ جائے گا۔ فرانسیسی کی یہ آخری جماعت ہے۔ تو میری درخواست ہے بہت توجہ سے سنو۔“

    ان چند الفاظ نے مجھے مغلوب کر دیا۔ اچھا یہ وہ بدمعاشی تھی جو کوتوالی کے دفتر کے سامنے آویزاں تھی۔

    ”فرانسیسی میں میری آخری جماعت!“

    میں ابھی ٹھیک سے لکھنا نہیں جانتا تھا، تو میں نہیں سیکھ سکوں گا۔ میں یہیں رک جاؤں گا جہاں میں ہوں۔ میں اپنے سے بہت ناراض تھا کہ میں نے کتنا وقت ضایع کیا۔ وہ سبق جو میں نے چھوڑ دیے۔ گھونسوں کے پیچھے بھاگتے، سارا دن دریا میں پھسلتے ہوئے گزار دیا۔

    بیچارہ! یہ آخری سبق کا تقدس تھا کہ اس نے یہ لباس پہننا تھا اور اب مجھے گاؤں کے ان معززین کی کمرے میں موجودگی بھی سمجھ آ گئی۔ ایسا لگتا تھا انہیں کبھی کبھی اسکول نہ آنے کا پچھتاوا تھا۔ ہمارے استاد کی ایمان دارانہ چالیس سال کی نوکری کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ تھا اور اجداد کی سرزمین کو عزت دینے کا جو اب برباد ہو رہی تھی۔

    میں انہی خیالات میں گم تھا کہ مجھے اپنا نام پکارنے کی آواز آئی۔ یہ میری سبق کی قرأت کرنے کی باری تھی۔ میں اسم کی حالتوں کے اصولوں کو شروع سے آخر تک پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اونچی آواز میں بغیر اٹکے۔ لفظوں کو پہلے لفظوں سے ملا جلا دیا اور اپنی نشست پر کھڑا جھوم رہا تھا، بھاری دل کے ساتھ سر اٹھانے سے خائف۔ میں نے سر ہامل کو کہتے سنا۔

    ”میں تمہیں ماروں گا نہیں۔ میرے چھوٹے فرانٹز۔ تم بہت سزا بھگت چکے۔ ایسے ہی ہر دن ہم خود سے کہتے ہیں کہ ابھی کافی وقت ہے۔ میں اسے کل یاد کر لوں گا۔ اور پھر تمہیں پتا ہے کیا ہوتا ہے؟“

    آہ ہمارے السیشنوں کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم آج کا سبق کل پر ڈال دیتے ہیں۔ اب وہ لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں۔ ”تم فرانسیسی ہونے کا دعویٰ کیسے کرو گے؟، تم فرانسیسی زبان نہ بول سکتے ہو نہ پڑھ سکتے ہو۔ اس صورت حال میں پیارے فرانٹرز صرف تم نادم نہیں ہو۔ اپنے آپ کو مخاطب کریں تو ان ملامتوں میں ہم سب حصہ دار ہیں۔“

    ایک بات سے دوسری بات نکالتے سر ہامل نے فرانسیسی زبان کے بارے میں گفتگو شروع کی۔ انہوں نے کہا یہ دنیا میں خوب صورت ترین زبان تھی۔ نہایت صاف، برقرار رہنے والی، ہم اسے یاد رکھتے ہیں اور کبھی نہیں بھولتے۔“ اس کے بعد سر نے گرامر کی کتاب اٹھائی اور ہمارا سبق پڑھا۔

    میں حیران ہوا کہ کتنی آسانی سے میری سمجھ میں آ گیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا مجھے نہایت آسان محسوس ہوا۔ بہت آسان۔ میں جانتا ہوں کہ پہلے میں نے اتنے غور سے نہیں سنا اور یہ ان کی وجہ سے بھی تھا کہ اس سے پہلے انہوں نے سمجھاتے وقت اتنے تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایسا کہا جا سکتا ہے کہ بیچارہ استاد جاتے ہوئے ہمیں سارا علم سونپنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ایک ہی پھونک سے ہمارے ذہنوں میں بھرنا چاہتا ہے۔

    جب سبق ختم ہوا ہم لکھنے کی طرف آئے اور اس دن سَر کچھ بالکل ہی نئی مثالیں تیار کر کے لائے تھے، جو انہوں نے خوشخط کر کے لکھیں۔

    اسکول کی چھت پر کبوتر آہستگی سے بول رہے تھے اور میں نے اپنے آپ سے کہا جیسے میں نے ان کو سنا۔

    دیر بہ دیر جب بھی میں نے کاغذ سے نظریں اٹھائیں میں نے سر ہامل کو کرسی پر ساکت بیٹھے پایا۔ سب چیزوں کو گھورتے ہوئے جیسے وہ اپنے ساتھ اس چھوٹے سے اسکول کو بھی اٹھا لے جانا چاہتے ہیں۔

    ذرا سوچو! چالیس سال سے وہ یہاں ہیں۔ اس کی بہن کمرے میں چکر کاٹ رہی ہے اور سامان باندھ رہی ہے کیوں کہ کل انہوں نے جانا ہے۔ اس خطے سے ہمیشہ کے لیے۔ تاہم ان میں آخر تک جماعت کو پڑھانے کی ہمت تھی۔ لکھنے کے بعد وہ تاریخ کے مضمون کی طرف آئے اور تمام چھوٹے بچوں نے مل کر گایا با…. بی…. بی…. بو…. بو…. وہاں کمرے کے پچھلے حصے میں بوڑھے معززین نے اپنی عینکیں پہن لیں اور قدیم ہجوں والی کتاب کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ انہوں نے بھی بچوں کے ساتھ ہجے کرتے ہوئے آواز ملائی۔ میں نے دیکھا سر بھی اپنی آواز ساتھ ملا رہے تھے۔ ان کی آواز جذبات سے بھرا گئی۔ اور میرے لیے ان کو ایسے دیکھنا ایک مزاحیہ بات لگ رہی تھی۔ ہم سب ہنس رہے تھے، رو رہے تھے، آہ…. میں اس آخری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔

    اچانک گرجے کی گھڑی نے بارہ بجائے، دعا پڑھی گئی۔ سر ہامل موت کی طرح زرد، اپنی کرسی سے اٹھے، اس سے پہلے وہ مجھے کبھی اتنے لمبے محسوس نہیں ہوئے۔

    ”میرے دوستو“ انہوں نے کہا…. ”میرے دوستو، میں …. میں ….“ مگر کسی چیز نے ان کی آواز کو گھوٹ دیا۔ وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکے۔

    وہ تختہ سیاہ کی طرف بڑھے، چاک کا ایک ٹکڑا اٹھایا، اور اپنی تمام ہمت جمع کر کے اتنے بڑے حروف میں لکھا جتنا وہ لکھ سکتے تھے۔

    ”فرانس دائم آباد“

    پھر وہ اپنا سر دیوار کے ساتھ لٹکائے وہاں کھڑے رہے، بغیر کچھ بولے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، ”بس…. اب جاؤ۔“

    (فرانسیسی ادیب الفونزے ڈاؤڈٹ کی اس کہانی کے مترجم آکاش منور ہیں)

  • خوشی کا ماسک…

    خوشی کا ماسک…

    میں بندرگاہ کے کنارے کھڑا ان سمندری پرندوں کو دیکھ رہا تھا جو بار بار پانی میں غوطہ لگاتے اور بھیگتے ہوئے جسموں سے پانی جھاڑنے کے لیے اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے تھے۔

    ان کے پروں سے پانی پھولوں پر شبنم کی طرح ٹپک رہا تھا۔ میں محویت سے ان کا یہ کھیل دیکھ رہا تھا۔ سمندر کی سطح پر پھیلے ہوئے تیل نے سطح کو مزید چمک دار اور گہرا بنا دیا تھا۔ اردگرد کوئی جہاز نہیں تھا۔

    بندرگاہ پر کھڑی زنگ آلود کرینیں خاموش دکھائی دیتی تھیں۔ ساحلی عمارتوں پر سنسان ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ ویرانی کا یہ عالم کہ چوہے بھی اندر داخل ہوتے ہوئے گھبرائیں، لگتا تھا اس ساحل پر غیر ملکی جہازوں کی آمدورفت پر قد غن ہے۔

    یکایک ایک پرندہ ڈبکی لگا کر پھڑ پھڑاتا ہوا اڑا اور فضا میں بلند ہوکر دوبارہ سمندر میں غوطہ زن ہوا۔ لمحہ بھر بعد اس نے پھر گردن تک غوطہ لگایا اور پَر پھڑپھڑا کر، اپنا بدن ہولے ہولے تولتے ہوئے پرواز کی تیاری کرنے لگا۔

    میں نے محسوس کیا کہ اسے پانی سے چھیڑ چھاڑ میں مزہ آرہا ہے۔ اس وقت اسے خوراک کی طلب ہورہی تھی۔ جب تک سانس اس کا ساتھ دیتا، وہ پانی میں گردن ڈالے رکھتا لیکن اس کی چونچ شکار سے محروم رہتی۔ وہ ہمت نہ ہارتا۔

    میں دل میں سوچنے لگا کہ کاش میرے پاس اس وقت ڈبل روٹی کا ٹکرا ہوتا تو میں اسے یوں تھکنے، بھٹکنے اور تڑپنے نہ دیتا لیکن میں بذات خود بھوک سے بے تاب اور اس پرندے کی طرح بے بس تھا۔

    میں نے اپنے ہاتھ خالی جیبوں میں ڈال لیے اور اپنی خواہش دل میں دبا لی۔ دفعتاً کسی نے میرے کندھے پر زور سے اپنا ہاتھ رکھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، وہ ایک پولیس والا تھا۔

    مجھے اس کی یہ دخل اندازی بری لگی۔ جی چاہا اس کا ہاتھ جھٹک دوں اور دوبارہ معصوم پرندے کا نظارہ کرنے لگوں۔ اس وقت تک، جب تک اس پرندے کی چونچ میں خوراک کا کوئی ٹکڑا نہ آجائے لیکن اب تو میں خود اس سپاہی کے شکنجے میں شکار کی طرح پھنسا ہوا تھا۔

    ”کامریڈ“! اس نے میرے کندھے پر دباؤ ڈال کر کہا۔

    ”جی جناب!“ میں نے عاجزی سے جواب دیا۔

    ”جناب؟ جناب کوئی لفظ نہیں، یہاں سب لوگ کامریڈ ہیں۔“ اس کی آواز میں واضح طنز تھا۔

    ”آپ نے مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے؟ کیا مجھ سے کوئی جرم سرزد ہوگیا ہے؟“

    وہ مسکرایا۔”تم مغموم نظر آتے ہو۔“ اس کی بات سن کر میں کھلکھلا کر ہنسا۔

    ”اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟“ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا۔

    میں سوچ رہا تھا کہ شاید وہ اس وقت بیزاریت کا شکار ہے اس لیے غصہ دکھا رہا ہے۔ آج شاید ساحل پر اسے کوئی شکار نہیں ملا۔ نہ کوئی نشے میں دھت مئے نوش اور نہ کوئی جیب تراش۔ لیکن چند لمحوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ واقعی غصّے میں ہے۔

    اب اس نے دوسرا ہاتھ بھی بڑھایا اور مجھے قابو کرلیا۔ اس وقت میری حالت اس پرندے جیسی تھی جو جال میں پھنس گیا ہو اور نکلنے کے لیے پھڑپھڑا رہا ہو۔ اس کی گرفت میں پھنسے ہوئے سمندر کو اپنی نظروں میں سمویا اور اپنے صیاد کے پہلو میں چلنے لگا۔

    پولیس کی گرفت میں آنے کا مطلب یہی ہے کہ اب لمبے عرصے کے لیے تاریکی میں دھکیل دیا جائے۔ جیل کا خیال آتے ہی میں اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آگیا اور ہکلاتے ہوئے کہا۔

    ”کامریڈ، میر اقصور تو بتائیے؟“

    ”قصور! اس ملک کا قانون یہ ہے کہ ہر شخص ہر وقت خوش نظر آئے۔“

    ”لیکن میں تو بے حد مسرور ہوں۔“ میں نے پورے جوش و جذبے سے جواب دیا۔
    ”بالکل غلط ۔“

    ”لیکن میں تو ملک میں رائج اس قانون سے ناواقف ہوں۔“

    ”کیوں؟ اس قانون کا اعلان چھتیس گھنٹے پہلے ہوا ہے۔ تم نے کیوں نہیں سنا؟ چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد ہر اعلان قانون میں بدل جاتا ہے۔“

    وہ اب بھی مجھے اپنے ساتھ گھسیٹے جارہا تھا۔ شدید سردی کے سبب میں بری طرح کانپ رہا تھا۔ بھوک نے الگ ستا رکھا تھا۔ میرا لباس جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا، شیو بڑھی ہوئی تھی، جب کہ اعلان کے مطابق ہر آدمی پر لازم تھا کہ وہ ہشاش بشاش نظر آئے۔

    تو یہ تھا میرا جرم……!

    تھانے جاتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ہر راہ گیر نے خوشی کا ماسک منہ پر چڑھا رکھا ہے۔ ہمیں دیکھ کر کئی راہ گیر رک جاتے۔ سپاہی ہررک جانے والے کے کان میں کچھ کہتا تو اس کا چہرہ مسرت سے چمکنے لگتا حالاں کہ مجھے لگ رہا تھا کہ ہر کوئی بولایا بولایا پھر رہا ہے۔

    صاف لگ رہا تھا کہ ہر کوئی پولیس والے کی نظروں سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

    ایک چوراہے پر ہماری ایک بوڑھے سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ وہ حلیے سے کوئی اسکول ماسٹر لگ رہا تھا، ہم اس کے اتنا قریب پہنچ چکے تھے کہ وہ بچ نکلنے سے قاصر تھا۔

    قاعدے کے مطابق اس نے بڑے احترام سے سپاہی کو سلام کیا اور میرے منہ پر تین بار تھوک کر کہا۔

    ”غدار کہیں کا۔“ اس کی اس حرکت سے قانون کے تقاضے تو پورے ہو گئے، مگر مجھے صاف محسوس ہوا کہ اس فرض کی ادائیگی سے اس کا گلا خشک ہوگیا ہے۔

    میں نے آستین سے تھوک صاف کرنے کی جسارت کی تو میری کمر پر زور دار مکّا پڑا۔ میں نے اپنی سزا کی طرف قدم بڑھا دیا۔

    اسکول ماسٹر تیز قدموں سے چلتا ہوا کہیں غائب ہوگیا۔ آخر ہم تفتیش گاہ پہنچ گئے۔ یکایک بیل بجنے کی آواز آئی جس کا مفہوم یہ تھا کہ سب مزدور اپنے اپنے کام چھوڑ دیں اور نہا دھوکر، صاف لباس پہن کر خوش و خرم نظر آئیں۔

    قانون کے مطابق فیکٹری سے باہر نکلنے والا ہر مزدور خوش نظر آرہا تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ اس خوشی سے یہ تاثر ملے کہ وہ کام سے چھٹکارا پاکر بغلیں بجارہا ہے۔

    میری خوش بختی کہ بگل دس منٹ پہلے بجا دیا گیا۔ شکر ہے یہ دس منٹ مزدوروں نے ہاتھ منہ دھونے میں صرف کیے ورنہ قاعدے کے مطابق میں جس مزدور کے سامنے سے گزرتا، وہ تین مرتبہ میرے منہ پر تھوکتا۔

    مجھے جس عمارت میں لے جایا گیا تھا وہ سرخ پتھروں کی بنی ہوئی تھی۔ دو سپاہی دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ انہوں نے بھی میری پیٹھ پر اپنی بندوقوں کے بٹ رسید کیے۔

    اندر ایک بڑی سی میز تھی جس کے پاس دو کرسیاں پڑی تھیں اور میز پر ٹیلی فون پڑا تھا، مجھے کمرے کے وسط میں کھڑا کردیا گیا۔

    میز کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اور ایک اور شخص خاموشی سے اندر آیا اور اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ وہ سادہ لباس پہنے ہوئے تھا، جب کہ دوسرا فوجی وردی میں ملبوس تھا۔ اب مجھ سے تفتیش شروع ہوئی۔

    ”تم کیا کرتے ہو؟“

    ”ایک عام کامریڈ ہوں۔“

    ”تاریخِ پیدائش۔“

    یکم جنوری، 1901ء“

    ”یہاں کیا کررہے ہو؟“

    ”جی، میں ایک جیل میں قید تھا۔“ میرا جواب سن کر دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے۔

    ”کس جیل میں؟“

    ”جیل نمبر 12، کوٹھری نمبر 13۔ میں نے کل ہی رہائی پائی ہے۔“

    ”رہائی کا پروانہ کہاں ہے؟“ میں نے رہائی کے کاغذات نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے۔

    ”تمہارا جرم کیا تھا؟“

    ”جی میں ان دنوں خوش خوش دکھائی دے رہا تھا۔“ وہ دونوں پھر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

    ”کھل کر بات کرو۔“

    ”اس روز ایک بہت بڑا سرکاری افسر انتقال کر گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اعلان ہوا کہ سب لوگ سوگ میں شامل ہوں گے۔

    مجھے اس افسر سے کوئی دل چسپی نہ تھی اس لیے الگ تھلگ رہا۔ ایک پولیس والے نے مجھے یہ کہہ کراندر کروا دیا کہ میں سوگ میں ڈوبے عوام سے الگ تھلگ خوشیاں منا رہا تھا۔“

    ”تمہیں کتنی سزا ہوئی؟“

    ”پانچ سال قید…“ جلد ہی میرا فیصلہ سنا دیا گیا۔

    اس بار دس سال قید کی سزا ہوئی تھی۔

    جی ہاں! خوشی سے کھلا ہوا چہرہ میرے لیے پانچ سال قید کا موجب بنا اور اب میرے مغموم چہرے نے مجھے دس سال کی سزا دلا ئی تھی۔

    میں سوچنے لگا کہ جب مجھے رہائی نصیب ہوگی تو شاید میرا کوئی چہرہ ہی نہ ہو۔

    نہ خوش و خرّم، نہ مغموم اور اداس چہرہ۔

    (یہ کہانی جرمن ادیب ہینرخ بوئل کی تخلیق ہے، اس کا اصل عنوان ” خلافِ ضابطہ” ہے)

  • دوا کا نسخہ

    دوا کا نسخہ

    لڑکی دوا فروش سے سکون آور دوا کا مطالبہ کررہی تھی اور وہ کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر کا نسخہ دکھاؤ۔

    لڑکی کو یہ مطالبہ کچھ عجیب سا لگا کیوں کہ وہ خواب آور دوا نہیں مانگ رہی تھی۔ دوا فروش اس کی بات تو سمجھ گیا لیکن سکون آور دوا کے لیے بھی ڈاکٹر کا نسخہ ضروری تھا۔

    لڑکی اب بحث پر اتر آئی۔ ”سکون آور دوا سے کسی قسم کے نقصان کا خطرہ نہیں ہے اور میں اس دوا کی عادی ہوں۔“

    دوا فروش نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ”سوال یہ نہیں ہے کہ تم کیا کیا استعمال کرتی رہی ہو۔ تم جو کررہی ہو، یہ ایک خطرناک حرکت ہے۔“

    ”یعنی تم سمجھتے ہو کہ میرا خود کُشی کا ارادہ ہے؟“

    ”نہیں ایسا تو نہیں، مگر اس میں کافی خطرہ ہے۔“

    اب لڑکی نے ذرا مختلف انداز میں سوال کیا۔ ”تمہارے پاس سکون آور دوائیں کون کون سی ہیں۔“

    دوا فروش نے ایک نام بتایا۔ یہ ایک بہت ہی معمولی طاقت کی دوا تھی اور اس کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ پھر بھی اس کا خیال تھا کہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    ”دیکھو! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔“ لڑکی نے جھلا کر کہا۔

    ”اگر کوئی اس دوا سے خودکشی کرنے کی کوشش کرے تو اسے کم از کم ایک سو گولیاں کھانی ہوں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی درجن بوتلیں درکار ہوں گی۔ انھیں نگلنے کے لیے بھی گھنٹوں لگ جائیں گے اور بے اندازہ پانی پینا پڑے گا۔ یہ تمام ملغوبہ مل کر اس کے پیٹ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دے گا اور اس قدر طویل وقت کو دیکھتے ہوئے موت کو بھی کچھ سوچنا پڑے گا۔

    گولیوں کو اپنا اثر دکھانے کے لیے ایک معقول وقت چاہیے اور یہ عمل پورا ہونے سے پہلے پہلے وہ آدمی اپنی حرکت سے توبہ کرلے گا اور فوراً اسپتال پہنچ جائے گا جہاں ڈاکٹر اسے بچالیں گے۔ اب تو تمہاری عقل میں یہ بات سماگئی ہوگی کہ اس قدر معمولی مقدار کی سکون آور دوا خودکشی کے لیے ناکافی ہے۔“

    ”آپ بڑی ذہین اور سمجھ دار خاتون ہیں۔“ دوا فروش نے مرعوب ہوتے ہوئے کہا۔ ”آپ پورے مرحلے سے اچھی طرح با خبر ہیں، فرض کرلیں کہ آپ کی تمام باتیں تسلیم کر لیتا ہوں…..“

    ”آپ جو کچھ بھی سوچ رہے ہیں وہ سب غلط ہے۔“ لڑکی نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
    دوا فروش نے یہ دیکھتے ہوئے کہ مزید بحث کرنا فضول ہے، اسے ایک بوتل پکڑا دی۔ لڑکی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل گئی۔

    اس نے دوسری فارمیسی میں بھی یہی ڈراما دہرایا۔ تیسری فارمیسی میں اسے اپنی کہانی سنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ دوا فروش نے بلا حیل و حجت ایک شیشی اسے پکڑا دی۔ چوتھی میں اسے زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں پڑی اور اسی طرح پانچویں میں بھی اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہا۔

    اخبار میں خبر کی اشاعت ہوئی کہ ایک نوجوان لڑکی اپنے بستر پر مردہ پائی گئی۔ اس کے قریبی میز پر سکون آور دوا کی کئی بوتلیں خالی پڑی تھیں اور اس کے ساتھ ہی ایک نوٹ بھی رکھا ہوا تھا۔

    ”میں نے اس زندگی کو خود پسند کیا تھا اور اس کے لیے کسی سے رائے نہیں مانگی، مگر زندگی نے میری قدر نہ کی لہٰذا میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، اپنی زندگی کو ختم کرلینے کا فیصلہ بھی میرا اپنا ہے۔“

    لوگوں نے یہ خبر پڑھ کر اظہار تاسف کیا۔ بے چاری لڑکی! نہ جانے کس بات سے عاجز آکر اس نے یہ فیصلہ کر ڈالا۔ ایک شخص نے تبصرہ کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے اس کے ساتھ بے وفائی کی، دوسرے نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

    دوا فروش نے اپنا بیان دیتے ہوئے کہاکہ وہ پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں تھی اور اس نے خودکشی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا تھا۔

    دوا فروش نے اخبار میں تصویر دیکھ کر اس کو پہچان لیا اور اپنے بیان میں کہاکہ اب اس بات کو زیادہ طول نہ دیا جائے جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ اس کی ماں نے زار و قطار روتے ہوئے کہا۔

    ”ہم نے اس کی جان بچانے کی سَر توڑ کوشش کی۔ اس کی زندگی میں کوئی راز نہیں تھا۔ اسے اپنی زندگی سے بے حد پیار تھا۔ وہ بے حد شرارتی اور کھلنڈری لڑکی تھی۔ شاید اس نے کوئی شرارت سوچ کر یہ حرکت کی ہوگی۔

    (اس کہانی کے مصنف ڈیزی الامیر (عراق) اور مترجم ابوالفرح ہمایوں ہیں)

  • دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیسے ہوتا ہے؟

    دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیسے ہوتا ہے؟

    دودھ کا دودھ پانی کا پانی ایک مشہور کہاوت ہے اور ایسے موقع پر سنی جاتی ہے، جب کسی کا سچ اور جھوٹ کھل کر سامنے آجائے یا کسی کو اس کے اچھے یا برے فعل کا بدلہ مل جائے۔

    اس کہاوت کے پس منظر میں جائیں تو ہمیں ایک قصہ پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے جو یہاں‌ آپ کی دل چسپی کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔

    ایک گوالا تھا جو زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کے خبط میں مبتلا ہو گیا۔ اس پر پیسے جمع کرنے کی دھن سوار ہو گئی تھی اور وہ لالچ میں اندھا ہو چکا تھا۔

    اس کے ذہن میں دولت کمانے کا سیدھا اور آسان طریقہ یہ آیا کہ وہ دودھ میں پانی ملا کر بیچنا شروع کرے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ شہر میں رہ کر اس نے ناجائز طریقے سے بہت جلد مال بنا لیا۔ جب اس کے پاس اچھی خاصی رقم اکٹھی ہو گئی تو وہ اپنے گاؤں جانے کی تیاری کرنے لگا۔

    گوالے نے ایک روز اپنی ساری رقم ایک تھیلی میں ڈالی اور گاؤں کی طرف چل دیا۔ ان دنوں شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا۔

    گوالا بھی گرمی کی وجہ سے نڈھال تھا۔ اس کے راستے میں ایک دریا پڑا تو اس نے نہانے کا ارادہ کیا اور رپوں کی تھیلی ایک درخت کے نیچے رکھ کر دوسروں کی نظر میں آنے سے چھپانے کی غرض سے اس پر کپڑے ڈال دیے۔ اس طرف سے مطمئن ہونے کے بعد اس نے لنگوٹ کس لیا اور پانی میں کود پڑا۔

    گوالا جس علاقے میں نہانے کے لیے رکا تھا، وہاں بندر بہت پائے جاتے تھے۔ اتفاق سے ایک بندر اسی درخت پر بیٹھا ہوا تھا جس کے نیچے گوالے نے رقم کی تھیلی رکھ کر اس پر کپڑے ڈال دیے تھے۔ اس نے یہ سارا ماجرا دیکھ لیا تھا۔ بندر بہت شراتی تھا۔ اس نے گوالے کو دریا میں نہاتے دیکھا تو درخت سے اترا اور رپوں کی وہ تھیلی اٹھا کر درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔

    گوالا پانی سے نکلا تو اس کی نظر بندر پر پڑی جس کے پاس رقم والی تھیلی تھی۔ اس نے بندر کو ڈرانے کی کوشش کی کہ کسی طرح وہ تھیلی نیچے پھینک دے، لیکن بندر اس سے ذرا نہ گھبرایا۔ اس نے تھیلی کھولی اور رُپے ایک ایک کر کے ہوا میں اڑانے لگا، کچھ زمین پر اور کچھ دریا میں گرنے لگے۔ گوالا رُپوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن یہ آسان نہ تھا۔

    اس دوران وہاں لوگ جمع ہو گئے اور تماشا لگ گیا۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو اس گوالے کی بے ایمانی سے واقف تھے۔ انھوں نے جب گوالے کو یوں روتا پیٹتا دیکھا تو کہنے لگے، ‘‘دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔’’
    یعنی اس نے جو پیسے دودھ میں پانی ملا کر ناجائز طریقے سے کمائے تھے وہ پانی ہی میں مل گئے۔

  • قدرِ گوہر (رومانیہ کی ایک مشہور رومانوی داستان)

    قدرِ گوہر (رومانیہ کی ایک مشہور رومانوی داستان)

    اس کا نام سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے یہ تصویر ابھرتی ہے۔

    گہری رنگت والا ایک طاقت وَر شخص، وحشی گھوڑے پر سوار، دو آہنی آنکھیں اور بھری بھری مونچھیں۔ اس کے ہونٹ مونچھوں میں چھپے رہتے تھے۔ کوسما ایک خطرناک آدمی تھا، قانون کا مجرم، ہمیشہ گھوڑے پر سوار، کندھوں پر رائفل اور کمر میں گز بھر لمبی تلوار۔

    اب میں کم و بیش سو سال کا ایک بوڑھا ہوں، سو سال میں بڑی دنیا دیکھی ہے میں نے، جگہ جگہ کی سیر کی ہے، طرح طرح کے لوگوں سے ملا ہوں، لیکن کوسما جیسا دلیر میں نے آج تک نہیں دیکھا۔

    وہ کوئی دیوہیکل شخص نہیں تھا درمیانہ قد، چوڑی اور پُرگوشت ہڈیاں، سورج کی تمازت نے اس کا رنگ جھلسا دیا تھا۔ گھر سے باہر رہنے والوں کے ساتھ عموماً یہی ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دبدبے اور ہیبت کا دوسرا نام کوسما تھا۔ کسی کا اس سے ایک بار آنکھیں ملا لینا ہی بہت تھا۔

    وہ زمانہ ہمارے وطن کے لیے بڑا پُرآشوب تھا۔ ترک اور یونانی، رومانیہ کی سرزمین تاراج کررہے تھے۔ عجب اداسی اور بے کیفی کا دور تھا۔ ہر رومانیین غیر محفوظ تھا اور خوف کی حالت میں زندگی گزار رہا تھا۔ کوسما نے انہی حالات کے باعث باغیانہ رویہ اختیار کیا تھا اور اس طرز حیات میں خوب کام یاب تھا۔ شاید وہ واحد رومانیین تھا جو ترکوں اور یونانیوں دونوں سے محفوظ تھا۔

    اس کا مسکن جنگل اور پہاڑ تھے آج یہاں تو کل وہاں، اس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ ایک بار وہ گرفتار بھی ہوا اور اسے ہتھ کڑیاں پہنادی گئیں لیکن وہ بھی کوئی اور نہیں، کوسما تھا۔ اس نے صرف ایک جھٹکے سے خود کو آزاد کرلیا پھر فوراً گھوڑے پر سوار ہوکے گھنے جنگلوں میں گم ہوگیا۔

    شاید اس کے نوشتے میں تحریر تھا کہ بندوق کی گولی اس پر اثرانداز نہیں ہوگی، ہاں! کوئی چیز اسے زد پر لے سکتی تھی تو وہ چاندی کی گولی تھی۔

    وہ عہد بہادروں کا عہد تھا۔ کم زور صرف سر جھکا کر، صرف اطاعت کرکے زندہ رہ سکتا تھا۔ سنتے ہیں، مالدیویا کی سرحدوں کے اس پار، ولے شیا میں بھی ایک شخص رہتا تھا جس کی صفات کوسما سے ملتی جلتی تھیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دونوں آپس میں بہت اچھے دوست تھے۔

    وہ رات کی تاریکی میں سرحد پر ایک دوسرے سے ملتے اور اپنا اپنا مالِ غنیمت ایک دوسرے سے تبدیل کرلیتے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سرحد پر متعین محافظوں نے اسے گرفتار کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن کوسما کا گھوڑا تو کوئی جن یا بھوت تھا، پلک جھپکتے ہی غائب ہوجاتا، محافظوں کی گولیاں بھی اس تک نہ پہنچ پاتیں، ویسے بھی سرحد کا علاقہ بکاﺅ کی پہاڑی سے بہت دور تھا، رات کی رات وہاں جاکر لوٹ آنا بہت دشوار بلکہ ناممکن تھا، لیکن کوسما کے لیے ایسا نہیں تھا، وہ تو اس دنیا کا انسان ہی نہیں تھا۔

    اس کی زندگی، جنگلوں، میدانوں اور پہاڑوں میں گزر رہی تھی۔ وہ کوئی عاشق، کوئی مجنوں نہیں، ایک فاتح شخص تھا، فاتح اور ظفر مند، اس نے کبھی شکست نہیں کھائی تھی۔ لوگ اس کی دہشت سے لرزتے تھے۔

    ول تورستی میں یونانی نسل کا ایک شخص رہتا تھا اس کا نام فرنکو لازیم فریڈ تھا۔

    ہماری سَرزمین پر ایک ویران محفل میں رومانیہ کی ایک نازنین رہتی تھی، وہ بے مثال حسن کی مالک تھی، اس کی بھنویں کمان کے مانند اور آنکھیں جُادو بھری تھیں۔ نوعمری میں اس کی مرضی کے خلاف علاقے کے ایک بڑے زمین دار سے اس کی شادی کردی گئی تھی۔ حسن اتفاق سے شادی کے بعد جلد ہی اس کا خاوند چل بسا۔ اب یہ جواں سال حسینہ اس کی تمام جائیداد کی تنہا وارث تھی۔ اس کا نام سلطانہ تھا۔

    نکولازیم فریڈ اس حسین و جمیل بیوہ کے عشق میں بری طرح گرفتار تھا۔ اس نے اسے حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے لیکن سلطانہ کسی طور بھی اس کی نہ ہوسکی، حد ہے کہ اس نے جادو ٹونے بھی کرائے، مگر سب بے سود۔

    ایک صبح نکولا بے حد ملول اور دل گرفتہ تھا، رات بھر اسے سلطانہ کی یاد ستاتی رہی تھی، وہ حویلی سے نکل کے اصطبل کی جانب گیا، چبوترے پر بیٹھ گیا اور سلطانہ کے تصور میں کھو گیا۔ سوچتے سوچتے اسے کوئی خیال آیا اس نے چونک کے آواز لگائی۔ ”ویسائل!“۔۔۔

    تبھی ایک معمر اور جہاں دیدہ شخص ادب سے سامنے آکے کھڑا ہوگیا۔ ویسائل، نکولا کا رازدار تھا۔ نکولا نے اسے اپنی پریشانی بتائی اور کہا کہ کوئی راہ نکالے۔

    اجازت ہو تو میں کچھ عرض کروں آقا؟“ ویسائل نے کہا۔

    ضرور ضرور۔ نکولا بے تابی سے بولا۔

    بوڑھے ویسائل نے کہا کہ سلطانہ کو طاقت کے زور پر اس کے محل سے اٹھوا لیا جائے۔ نکولا نے تذبذب سے دریافت کیا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

    کیوں نہیں میرے آقا! دنیا میں کوئی بات ناممکن نہیں۔ اسی رات نکولا پانچ مسلح سپاہیوں کے ساتھ سلطانہ کے کوچے فراسینی کی جانب روانہ ہوگیا۔ کچھ دیر بعد وہ سلطانہ کی حویلی کے سامنے پہنچ گئے۔ تاریکی میں ڈوبی حویلی کوئلے کا پہاڑ نظر آرہی تھی۔

    نکولا اور اس کے ساتھی احاطے کی دیوار کے قریب کھڑے تھے۔ وہ خاموشی کے ساتھ گھوڑوں سے اتر کے دیوار پر چڑھ گئے۔ دوسرے ہی لمحے حویلی میں جاگ پڑگئی اور ہوشیار خبردار کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔

    نکولا نے اس شور کی پروا نہیں کی، وہ بے خوفی سے اپنے ساتھیوں سمیت حویلی کے اندرونی دروازے تک پہنچ گیا۔ سپاہیوں نے دروازہ توڑ دیا۔ انسانی سائے راہ داری میں ادھر سے ادھر دوڑ رہے تھے۔ اچانک خواب گاہ کا دروازہ کھلا اور روشنی کا سیلاب سا باہر نکلا۔

    نکولا نے دیکھا کہ اس کی محبوبہ دروازے پر کھڑی ہے۔ نکولا کے منہ سے بے اختیار نکلا دیکھا، آخر میں نے تمہیں پالیا، وہ سفید لباس میں وقار اور تمکنت سے کھڑی تھی، خوابیدہ آنکھیں اس کا حسن اور نکھار رہی تھیں، اس سحر انگیز منظر نے نکولا کو دم بہ خود کردیا۔

    نکولا کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ جھک کر اس کے مرمریں پاﺅں چوم لے، لیکن اس نے خود پر قابو رکھا۔ سلطانہ بولی ‘‘اچھا، یہ تم ہو۔ میں تو سمجھی تھی چور وغیرہ آگھسے ہیں۔ اس کی آواز سے گھنٹیاں بج اٹھیں، مگر اس کے لہجے میں تمسخر تھا۔ اپنا جملہ ختم کرکے اچانک اس نے ہاتھ اٹھایا، ننگی تلوار چمکی، تلوار کی غیر متوقع چمک سے نکولا گڑ بڑا گیا۔ سلطانہ نے کسی تاخیر کے بغیر اس کے سر پر تلوار کی الٹی جانب سے ایک زور دار ضرب لگائی، نکولا لڑکھڑا گیا، پھر اس سے پہلے کہ اس کے ساتھی مدد کو آگے بڑھتے سلطانہ کے ملازمین نے ان پر دھاوا بول دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نکولا اور اس کے ساتھیوں کو پسپا ہونا پڑا اور وہ جان بچاکر بد حواسی سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

    اس سانحے نے نکولا کو گوشہ نشین کردیا۔ وہ ہر وقت حویلی کے ایک گوشے میں پڑا آہیں بھرتا رہتا۔

    اس کا واحد غم گسار ویسائل تھا۔ ایک روز نکولا نے روتے ہوئے ویسائل سے کہا کہ اب ہم سلطانہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ویسائل نے آہستہ سے کہا: میں سمجھ سکتا ہوں، آپ پر کیا گزر رہی ہے۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے نکولا کو اس معاملے میں کوسما سے مدد لینے پر اکسایا اور کہا کہ اگر کوسما اس مہم پر آمادہ ہوگیا تو سلطانہ آپ کے پہلو میں ہوگی اور آپ جانتے ہیں کہ کوسما دولت کے عوض کچھ بھی کرسکتا ہے۔

    نکولا نے کوسما سے ملاقات کی اور اسے اپنے سامنے کھڑا پایا تو دَم بہ خود رہ گیا، وہ تھا ہی اتنا با رعب۔ ایک تو اس کی شخصیت کا جاہ و جلال، دوسرے اس کی شہرت دونوں ہی باتیں لوگوں کو خوف زدہ کرنے میں مہمیز کا کام کرتی تھیں۔

    گفت گُو میں پہل کوسما ہی نے کی۔ خدا تم پر مہربان ہو۔

    خوش آمدید کوسما! میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ ویسائل نے جواب دیا۔

    ادھر نکولا کچھ سنبھل گیا تھا، اس نے بھی براہ راست سوال کیا۔

    پچاس ہزار۔۔۔ نکولا نے ویسائل کو حکم دیا کہ رقم کی تھیلی لاﺅ۔

    نہیں۔ کوسما نے بے اعتنائی سے کہا۔ ابھی مجھے رقم نہیں چاہیے۔ یہ ایک سودا ہے میں فراسینی سے لاکر سلطانہ کو تمہارے حوالے کروں گا اس کے بعد تم مجھے رقم ادا کرو گے۔ رات ہونے تک میں یہیں وقت گزاروں گا، یہ کہتا ہوا کوسما اپنے گھوڑے سے اتر کر باغ میں آکر گھاس پر لیٹ گیا۔

    کوسما فراسینی پہنچا تو پوری بستی سورہی تھی۔ اس نے حویلی کے بیرونی دروازے پر پہنچ کر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔

    کون ہے؟ اندر سے کسی نے پوچھا۔۔۔ دروازہ کھولو۔ کوسما نے حکم دیا۔

    تم ہو کون؟ اندر سے پھر استفسار کیا گیا۔ کھولو! کوسما گرجا۔ مزید سرگوشیاں سی ہونے لگیں کب تک انتظار کرنا پڑے گا؟۔۔۔ کوسما برہم ہوگیا۔

    نام بتاﺅ ورنہ دروازہ نہیں کھلے گا۔ اندر سے آواز آئی۔

    نام سننا چاہتے ہو؟ اچھا۔۔۔ سنو، کوسما داکورے۔

    اندر خاموشی چھاگئی۔ پھر دروازے کی جھریوں سے روشنی کی کرن باہر آئی اور غائب ہوگئی۔ دوسرے ہی لمحے دروازے کی زنجیر بجی اور دروازہ کھل گیا۔ کوسما اعتماد سے اندر پہنچا اور گھوڑے سے اتر کر اندرونی دروازے کی جانب بڑھا۔ ملازموں میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اسے روکے۔ اندرونی دروازہ کھلا تھا کوسما درانہ اندر چلا گیا۔ دروازہ کھلا ہونے سے اس نے اندازہ لگایا کہ عورت دلیر معلوم ہوتی ہے۔

    راہ داری میں کوسما کے بھاری جوتے گونج پیدا کررہے تھے۔ معاً اندر کسی کمرے میں ہلکا سا شور ہوا کوسما چوکنا ہوگیا، اسی وقت راہ داری اچانک روشن ہوگئی۔ کوسما نے دیکھا کہ خواب گاہ کے دروازے پر سلطانہ کھڑی ہے۔ اس کے بال کھلے ہوئے تھے۔ وہ شب خوابی کا باریک سفید لباس زیب تن کیے ہوئے تھی۔

    کون ہو تم؟ اور یہاں کس مقصد سے آئے ہو؟ سلطانہ نے سختی سے پوچھا۔

    میں کوسما ہوں اور رئیس نکولا کے لیے تمہیں لینے آیا ہوں۔ کوسما نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

    اچھا۔ سلطانہ نے اپنی تلوار اٹھائی۔

    میں ابھی سبق سکھاتی ہوں، تمہیں بھی اور تمہارے رئیس نکولا کو بھی۔

    کوسما پیچھے ہٹنے کے بجائے اس کے اور قریب ہوگیا، پھر اس نے چشم زدن میں عورت کی کلائی گرفت میں لے لی۔ تلوار عورت کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ وہ زور زور سے پکاری گبریل! نکولائی! دوڈو! دوڑو۔

    محافظ تیزی سے کوسما کی طرف بڑھے۔ کوسما ایک ہاتھ سے سلطانہ کو پکڑے ہوئے تھا۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی اور آنکھوں میں چیتے جیسی چمک، اس کی خوں خواری دیکھ کر محافظ ٹھٹک گئے۔

    کوسما کے رعب نے انھیں مفلوج کردیا۔ انھیں رکتے دیکھ کر عورت نے ایک دم کوسما سے ہاتھ چھڑایا اور دیوار کی طرف لپکی، وہاں ٹنگی ہوئی تلوار کھینچ کر وہ اپنے آدمیوں پر چیخی۔

    بزدلو! کھڑے کیا ہو اسے باندھ دو۔

    مادام! کوسما نے تحمل سے کہا۔ آپ کیوں الفاظ ضایع کررہی ہیں، آپ کے نمک خوار آپ کی طرح بہادر نہیں ہیں۔
    سرکار! ایک ملازم نے ہکلا کے کہا۔ اسے ہم کیسے باندھ سکتے ہیں، یہ کوسما ہے۔۔۔ کوسما، اس پر رائفل کی گولیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔

    نوکروں سے مایوس ہو کے سلطانہ خود کوسما پر جھپٹ پڑی۔ کوسما نے بھی برق رفتاری کا مظاہرہ کیا اور سلطانہ کو آناً فاناً بے بس کرکے کسی بوری کی طرح اپنے کندھے پر ڈال لیا۔ ملازم تتر بتر ہوگئے۔

    کوسما نے آگے بڑھتے ہوئے سوچا، واہ کیا عورت ہے؟ نکولا کی پسند واقعی قابل داد ہے۔

    باہر آکر کوسما گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ سلطانہ کو اس نے آگے بٹھالیا۔ مالک کا اشارہ ملتے ہی گھوڑا تاریکی میں سرپٹ دوڑنے لگا۔

    کچھ راستہ طے ہوگیا تو سلطانہ نے چہرہ موڑا اور مدھم چاندنی میں کوسما کو غور سے دیکھا۔
    گھوڑے کی رفتار اور تیز ہوگئی۔ سلطانہ کے بال ہوا میں لہرارہے تھے۔ وہ رہ رہ کے اپنے لٹیرے، اپنے ڈاکو کو دیکھ رہی تھی۔

    کوسما کے ہاتھ لوہے کی طرح مضبوط تھے اور سیاہ چمک دار آنکھیں پتھر کی طرح سخت تھیں۔ گھوڑا ہوا سے باتیں کر رہا تھا۔ منزل نزدیک آتی جارہی تھی، چاند بادلوں میں تیر رہا تھا کبھی چھپ جاتا، کبھی سامنے آجاتا، دونوں خاموش تھے۔ سلطانہ پوری طرح کوسما کی طرف متوجہ تھی، مگر کوسما ایسے بیٹھا تھا، جیسے اس کے وجود سے بے خبر ہو۔

    منزل پر پہنچ کے درختوں میں ہلکی روشنی اور کچھ انسانی سائے نظر آئے۔ سلطانہ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟
    کوسما نے بتایا، نکولا اور اس کے ساتھی، یہ ہمارا انتظار کررہے ہیں۔

    سلطانہ خاموش ہوگئی۔ وہ کوسما کے بازوﺅں کے حصار میں تھی، اس کے دونوں ہاتھ آزاد تھے۔ اس نے تیزی سے دایاں ہاتھ بڑھا کے گھوڑے کی لگام تھامی اور بائیں کلائی کوسما کے گردن میں حمائل کردی، گھوڑا جھٹکا کھاکر رفتار کم کرنے پر مجبور ہوگیا۔ سلطانہ نے کوسما کو سینے پر سَر رکھ کے سرگوشی کی۔

    مجھے کسی اور کو مت دو!

    کوسما نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا اور لگام ڈھیلی کردی۔ گھوڑے نے رخ موڑا اور تاریکی میں حرکت کرتے ہوئے سائے پیچھے چھوڑ کے گھنے جنگلوں میں گم ہوگیا۔

    (میخائل سیندو ویناﺅ کی اس کہانی کو صبیحہ علی نے اردو کے قالب میں‌ ڈھالا ہے)