Tag: مشہور گانے

  • پاکستانی دُھنوں اور گانوں کی بالی وڈ میں نقل

    پاکستانی دُھنوں اور گانوں کی بالی وڈ میں نقل

    دنیا بھر میں‌ تخلیقی کاموں کا اعتراف اور اس کی پذیرائی کے لیے ہر سال اپریل کے مہینے میں‌ ’انٹلکچوئل پراپرٹی‘ کا دن منایا جاتا ہے۔ پاک و ہند کی فلم انڈسٹری کی بات کی جائے تو یہاں کسی تخلیق کی نقل اور چوری کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے فن کار ایک دوسرے پر اکثر موسیقی یا شاعری نقل اور چوری کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔

    یہاں ہم بھارت کے موسیقاروں کی جانب سے ان چند پاکستانی گانوں کی نقل کا تذکرہ کررہے ہیں جو نام ور موسیقاروں اور مشہور ترین گلوکاروں کے تخلیق کردہ اور فن کا اظہار تھے۔

    میڈم نور جہاں کا گانا ‘تیرے در پر صنم چلے آئے…’ پچاس کی دہائی میں‌ مقبول ہوا تھا اور اسی طرح 60 کے عشرے میں ‘بادلوں میں چھپ رہا ہے چاند کیوں…’ بھی کئی برس بعد الزام اور تنازع کی زد میں آگیا بھارتی موسیقاروں نے موسیقی ہی نہیں بلکہ گیتوں کے بول اور کبھی پورا ہی گانا کاپی کر لیا۔

    ستّر اور اسّی کی دہائی میں مشہور بھارتی موسیقاروں نے یہ سلسلہ شروع کیا اور آر ڈی برمن، لکشمی کانت پیارے لال اور بپّی لہری اور 90 کی دہائی میں انو ملک، ندیم شرون اور آنند ملند پر موسیقی اور گیت کاپی کرنے کے الزام لگے، لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں۔

    دونوں ممالک کی فلم انڈسٹری نے جب نئی صدی میں قدم رکھا تو پریتم جیسے موسیقاروں نے پاکستانی گانے کاپی کیے۔ سرحد پار سب سے زیادہ گانے مہدی حسن کے کاپی کیے گئے۔ اس کے بعد میڈم نور جہاں اور دیگر گلوکاروں کا نام آتا ہے جن کے گانوں کی نقل بھارتی فلم انڈسٹری میں‌ پیش کی گئی۔

    مہدی حسن کی آواز میں ‘تیرے میرے پیار کا’ اور ‘بہت پیار کرتے ہیں’ جیسے گانے سپر ہٹ ثابت ہوئے جنھیں بالی وڈ میں کاپی کیا گیا۔ بالی وڈ اسٹار عامر خان ہوں یا شاہ رخ ان کی فلموں میں مہدی حسن کے نقل کیے گئے گانے شامل تھے۔ پاکستان میں مقبول ‘رفتہ رفتہ وہ میری’ ایسا کلام تھا، جسے بالی وڈ کی کام یاب فلم ‘بازی’ کے لیے موسیقار انو ملک نے کاپی کیا۔

    میڈم نور جہاں کی آواز میں مقبول ترین گانے بھارتی فلموں میں شامل ہوئے اور ‘وہ میرا ہو نہ سکا….’ کو بالی وڈ نے ‘دل میرا توڑ دیا اس نے…’ کی تبدیلی کے ساتھ پیش کردیا۔

    اپنی مسحور کن گائیکی سے شہرت اور مقبولیت پانے والے اخلاق احمد کے کئی گانے بھارت میں کاپی کیے گئے جن میں ‘سونا نہ چاندی، نہ کوئی محل’ بھی شامل ہے۔ اسے موسیقار آنند ملند نے ‘چھوٹی سی دنیا ‘ بنا کر پیش کیا تھا۔

  • وہ گلوکار جنھیں صرف ایک ہی گیت نے شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا

    وہ گلوکار جنھیں صرف ایک ہی گیت نے شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا

    موسیقی اور گائیکی کی دنیا کے کئی مشہور اور مقبول ترین نام ایسے ہیں‌ جنھوں نے اپنے طویل کیریئر کے دوران لاتعداد گیت اور غزلیں گائیں اور دلوں پر راج کیا، لیکن کچھ ایسے گلوکار بھی ہیں‌ جن کی آواز میں‌ فقط ایک ہی فلمی گیت، کوئی غزل یا ملّی نغمہ اتنا مشہور ہوا کہ اسی ایک پرفارمنس نے انھیں گویا امر کردیا اور دہائیوں بعد بھی ان کی شناخت اور پہچان برقرار ہے۔

    یہاں ہم چند ایسے گلوکاروں کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جن کی ایک ہی پرفارمنس نے انھیں راتوں رات شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور آج بھی ان کا نام زندہ رکھے ہوئے ہے۔

    ‘تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں، جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں…’ یہ گیت شرافت علی کی آواز میں آج بھی سماعتوں میں‌ رس گھول رہا ہے۔ 1957ء کی بات ہے جب ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد کی فلم ‘وعدہ’ ریلیز ہوئی اور شائقین نے اس گیت پر اپنے وقت کے خوب رُو اداکار سنتوش کمار کی پرفارمنس دیکھی۔ یہ گیت شرافت علی آواز میں فلم بینوں کے دل میں اتر گیا۔ آج بھی یہ گیت پسند کیا جاتا ہے اور شرافت علی کی یاد دلاتا ہے۔

    ایس بی جون کی آواز میں ‘تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں‌ ہے…’ جیسا خوب صورت گیت 1959ء میں ریلیز ہونے والی فلم ‘سویرا’ میں شامل تھا۔ سنی بنجمن جون کو برصغیر پاک و ہند میں ایس بی جون کے نام سے پہچان ملی اور ان کا گایا ہوا یہ نغمہ مقبول ترین ثابت ہوا۔

    ایس بی جون ایک شوقیہ گلوکار تھے اور ان کی پُرسوز آواز میں‌ یہی گیت اُن کی وجہِ شہرت بنا اور آج بھی ان کی شناخت ہے۔

    پاکستانی گلوکار محمد افراہیم کو ان کے گائے ہوئے ملّی نغمات نے بے مثال شہرت اور مقبولیت دی۔ ‘زمیں کی گود رنگ سے، امنگ سے بھری رہے…خدا کرے، خدا کرے…’ ان کی آواز میں‌ ملک بھر میں‌ مقبول ہوا۔ یہ وہ نغمہ تھا جس نے انھیں پہچان دی اور ایسی شہرت عطا کی جو بہت کم گلوکاروں کے حصّے میں آئی۔ اس کی موسیقی سہیل رعنا نے ترتیب دی تھی اور شاعر اسد محمد خان تھے۔

    وسیم بیگ کی آواز میں نغمہ ‘یہ دیس ہمارا ہے’ آج بھی ہماری سماعتوں‌ میں رس گھول رہا ہے اور جذبۂ حبُّ الوطنی سے سرشار قوم کے بچّے بچّے کی زبان پر ہے۔ یہ رعنا اکبر آبادی کا تحریر کردہ ملّی نغمہ تھا۔ اس کا شمار پاکستان کے مقبول ترین ملّی نغمات میں ہوتا ہے۔

  • آپ "درباری” کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟

    آپ "درباری” کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟

    بدلتے ہوئے طرزِ زندگی نے رسم و رواج، فنون و ثقافت اور ہمارے ذوقِ طبع، شوق اور تفریح کے رنگ ڈھنگ اور رجحانات کو بھی بدل دیا۔ کلاسیکی موسیقی اور راگ راگنیاں سمجھنا تو دور کی بات، اسے سننے اور محظوظ ہونے والے بھی کہاں رہے۔ اسی طرح ساز ہیں تو سازندے نہیں رہے اور کتنے ہی آلاتِ موسیقی تو معدوم ہوچکے ہیں۔

    آپ نے راگ درباری کا نام تو سنا ہو گا۔ یہ ہندوستان بھر میں مشہور اور عوام و خواص میں مقبول راگ ہے۔ سیکڑوں شعرا کا کلام اس راگ سے آراستہ ہوا اور ہزاروں غزلیں اور گیت راگ درباری میں بنے۔ کہتے ہیں یہ راگ گانے میں آسان ہے اور اس کی پہچان بھی، مگر نزاکتیں سمجھنا اور اسے مخصوص رچاؤ سے اساتذہٴ فن ہی نبھا سکتے ہیں۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ یہ راگ مشہور موسیقار، سُر اور آواز کے ماہر تان سین کی اختراع تھا، جو دربارِ اکبری میں نمایاں مقام رکھتا تھا اور اسے دربار میں گانے کے لیے خاص طور پر اختراع کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق اس راگ میں خاص گمبھیرتا ہے جس نے اسے بارعب، با وقار ہی نہیں نہایت متین اور پُر اثر راگ بنا دیا۔ اس راگ کو صرف درباری بھی کہا جاتا ہے۔

    اس راگ میں بندشوں کے علاوہ غزلیں اور گیت بھی آپ نے سنے ہوں گے۔

    کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوش بُو کی طرح میری پزیرائی کی

    ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی جو پی لی ہے
    ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے۔۔۔

    اور گیت کا یہ بول دیکھیے

    آ میرے پیار کی خوش بُو، منزل پہ تجھے پہنچاؤں

  • طلعت محمود کو سگریٹ پینے کی کیا سزا ملی؟

    طلعت محمود کو سگریٹ پینے کی کیا سزا ملی؟

    ایک زمانہ تھا جب اخلاقی قدریں، روایات اور کردار بہت اہمیت رکھتا تھا۔ مختلف شعبہ ہائے حیات میں غیر سنجیدہ طرزِ عمل، منفی عادت اور رویہ یا کوئی معمولی کوتاہی بھی کسی کے لیے مسئلہ بن جاتی تھی۔ ایسی صورتِ حال میں کسی شعبے میں اپنے سینئرز سے رعایت اور درگزر کی امید بھی کم ہی ہوتی تھی۔

    اس کی ایک مثال یہ واقعہ ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    یہ دنیائے موسیقی کی دو نہایت مشہور، باصلاحیت اور قابل شخصیات سے متعلق ہے جن میں سے ایک طلعت محمود ہیں جنھوں نے گلوکاری کے میدان میں خوب نام کمایا اور آج بھی ہم ان کی آواز میں کئی گیت نہایت ذوق و شوق سے سنتے ہیں اور انھیں پسند کرتے ہیں۔

    طلعت محمود نے ریڈیو سے گلوکاری کا سفر شروع کیا تھا اور جلد ہی مشہور فلم سازوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اپنے وقت کے نام ور موسیقاروں نے ان کی آواز کو معتبر اور پُرسوز مانا۔

    ایک وقت آیا کہ فلم انڈسٹری کی قد آور شخصیات اور کام یاب فلم سازوں نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا۔

    طلعت محمود خوب رُو اور پُرکشش شخصیت کے مالک تھے اور مشہور فلم ساز کے کہنے پر اداکاری بھی کی، لیکن درجن سے زائد فلموں میں کام کرنے کے باوجود وہ شائقین کو اس روپ میں متأثر نہ کرسکے۔

    تب وہ اپنی دنیا میں یعنی گلوکاری کی طرف لوٹ آئے اور ان کی آواز میں کئی گانے مشہور ہوئے۔

    طلعت محمود کے بعد ہم ماسٹر نوشاد کا تذکرہ کریں گے جنھیں ہندوستان کا عظیم موسیقار مانا جاتا ہے۔

    ماسٹر نوشاد کی خوب صورت اور دل موہ لینے والی دھنوں کے ساتھ طلعت محمود کی پُرسوز آواز نے ہندوستان میں‌ سنیما کے شائقین کو گویا اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔

    ماسٹر نوشاد ایک وضع دار، اپنی اقدار اور روایات سے محبت کرنے والے، سنجیدہ اور متین انسان تھے۔

    ایک مرتبہ انھوں نے طلعت محمود کو سگریٹ پیتے دیکھ لیا اور اس کے بعد کبھی اس مشہور گلوکار کے ساتھ کام نہیں کیا۔

    کہتے ہیں اس واقعے کے بعد طلعت محمود ایک بار بھی ماسٹر نوشاد کی ترتیب دی ہوئی موسیقی کے لیے کوئی غزل یا گیت ریکارڈ نہیں کروا سکے۔