Tag: مشہور گلوکار

  • تان رس: دلّی کا باکمال گویا

    تان رس: دلّی کا باکمال گویا

    ہندوستان کی سرزمین پر سُروں کا جادو صدیوں سے پھونکا جارہا ہے۔ سریلی آوازیں اور آلاتِ موسیقی لوگوں کی سماعتوں میں رس گھول رہی ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، مگر زمانے کے ساتھ ساز اور گائیکی کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔

    صدیوں پہلے ہندوستان کے گویّے جو اپنے فن میں‌ طاق اور اپنے انداز میں‌ یگانہ تھے، ان کا نام آج بھی لیا جاتا ہے۔ یہ شاہانِ وقت کے دربار سے بھی منسلک رہے اور فنِ موسیقی میں بے مثال ہوئے۔ اکبر کے عہد میں سوامی ہری داس اور تان سین جیسا درخشاں ستارہ موجود تھا۔ بعد میں کئی اور نام ہو چلے اور پھر بادشاہت کا زمانہ ختم ہوا۔ ہندوستانی ریاستوں پر سلطان، راجہ اور نوابوں نے حکم رانی کی جو باذوق اور بڑے قدر دان تھے۔ اپنے عہد کے گانے والوں کو عزت اور احترام بھی دیا اور ان پر زر و جواہر بھی نچھاور کیے۔

    یہ ایک ایسے ہی گویّے تان رس کا تذکرہ ہے جو مرزا احمد سلیم شاہ عرش تیموری کے قلم سے نکلا ہے۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے ان کا مضمون پیشِ خدمت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    اس سے پہلے کہ تان رسؔ خاں کے حالات بیان کروں، بہتر ہے کہ ان واقعات میں جو بیان کیے گئے ہیں، کتنی واقعیت ہے اور اس کے واقعہ ہونے کے ثبوت کیا ہیں، بیان کر دوں۔

    یہ حالات جو بیان کیے گئے ہیں، خاندانی بزرگوں اور ان شہزادوں سے منقول ہیں جو زمانۂ غدر میں بیاہے تیاہے تھے۔ اس لیے ان واقعات کے صحیح ہونے میں ذرا بھی شبہ نہیں۔

    تان رس خاں

    نام قطبؔ بخش تھا اور بادشاہ عالم ثانی کے انتقال کے وقت اس کی عمر پانچ سال کی تھی۔ یہ بہت فریس اور خوش قسمت تھا۔ چند ہی دنوں میں اپنے فنِ آبائی میں معقول ترقی کی۔ قطبؔ بخش ان لوگوں کی نسل سے تھا جو محمد شاہ باد شاہ کے دربار میں بہت بڑھے چڑھے تھے۔ جب قطب بخش کی استادی کی شہرت ہوئی تو بہادر شاہ بادشاہ دہلی کے دربار میں پیش ہوا۔ اس زمانے میں ملازمین شاہی کی تنخواہیں تو بہت کم ہوتی تھیں لیکن انعام و اکرام بہت ملتا تھا۔

    گو اس کی تنخواہ بھی بہت کم تھی لیکن میوے اور یخنی کا خرچ دربار شاہی سے بطور یومیہ عطا ہوتا تھا۔ یخنی نے تان رسؔ خاں کے گلے کو لوچ دار بنانے میں بہت مدد دی۔ کیونکہ گوشت کی یخنی اور طاقت بخش میوے گلے کے پٹھوں کو مضبوط اور لچک دار بناتے ہیں۔

    بہرحال قطبؔ بخش نے گانے میں بہت ترقی حاصل کی اور تان رسؔ خاں کا خطاب حاصل کیا۔

    تان رسؔ خاں بہادر شاہ بادشاہ کی گائنوں کو تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ پیاریؔ بائی، چندراؔبائی، مصاحبؔ بائی، سلطانؔ بائی وغیرہ کل تعداد میں اٹھارہ تھیں اور ہر ایک ان میں سے لاجواب گانے والی تھی۔

    قلعے سے نکالا

    جب تان رسؔ خاں کا رسوخ بڑھ گیا اور بادشاہ میں زیادہ پیش ہونے لگے تو زمانہ گردش کا آیا یعنی ایک گائن سے جس کا نام پیاریؔ تھا، تعلقات ہوگئے۔ آخر کار بھانڈا پھوٹ گیا اور قلعے سے نکالا ملا۔ تان رسؔ خاں بہت پریشان ہوئے کیونکہ قلعہ سے نکالے ہوئے آدمی کو کون منہ لگاتا۔ ہر ایک نے آنکھیں پھیر لیں اور لوگوں کی نظروں میں ان کی عزت نہ رہی۔

    قدرِ کمال

    اب تان رسؔ خاں اپنی قسمت پر شاکر رہ کر بیٹھ گئے تھے۔ بہت افسردہ تھے کہ حکم شاہی آیا کہ ’’خطاب، تنخواہ اور معاش بدستور بحال و جاری ہے لیکن آئندہ کے لیے دربار بند اور قلعہ میں آنے کی اجازت نہیں۔‘‘

    یہ بہادر شاہ بادشاہ نے از راہِ قدرِ کمال کیا کہ تنخواہ اور خطاب کو بحال رکھا اور شہر میں رہنے کی اجازت دی۔ ان اٹھارہ گائنوں کو بھی بادشاہ نے نکال دیا اور وہ مختلف شہزادوں کی سرکاروں میں نوکر ہوگئیں۔

    غدر

    جب سلطنت دہلی برباد ہوئی تو تان رسؔ خاں نے ریاست الور، جے پور اور جودھ پور میں ملازمتیں کیں۔ اور ہزاروں روپے کے انعام و اکرام بھی پائے۔ حیدرآباد دکن کی شاہانہ داد و دہش کا شہرہ سن کر حیدرآباد آئے اور اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خاں مرحوم و مغفور کی ملازمت اختیار کرکے بہت عروج حاصل کیا۔ تان رسؔ خاں کے دو فرزند تھے۔ غلامؔ غوث خاں، امراؤؔ خاں۔

    حاضر جوابی

    ایک دن تان رس خاں نواب میر محبوب علی خاں کے حضور میں حاضر تھے۔ اعلیٰ حضرت ایک پلنگڑی پر لیٹے ہوئے تھے اور تان رسؔ خاں یہ ٹھمری گا رہے تھے،

    ’’رات بالم تم ہم سے لڑے تھے۔۔۔‘‘ راگ پورے جوبن پر تھا اور بڈھے تان رسؔ خاں کی آواز اپنے استادانہ کمالات کے جوہر دکھاتی ہوئی دل میں اتر رہی تھی، در و دیوار سے اسی ٹھمری کی آواز بازگشت سنائی دیتی تھی۔ ایسا سماں بندھا کہ حضور بے تاب ہوگئے اور فرمایا،

    ’’واہ تان رسؔ خاں واہ۔۔۔‘‘ اس فقرے کے سنتے ہی تان رسؔ خاں لپک کر قریب پہنچا اور چٹ چٹ بلائیں لے لیں۔

    یہ حرکت حضور کو بہت بری معلوم ہوئی۔ آپ نے گرم نگاہوں سے تان رسؔ خاں کو بھی دیکھا اور مڑ کر حاضرین کی طرف بھی نگاہ ڈالی۔ سب لوگ سناٹے میں آگئے اور انتظار کرنے لگے کہ دیکھو اب کیا ہوتا ہے۔ بڈھا تان رسؔ خاں گرم و سرد روزگار اور امیروں اور بادشاہوں کے مزاج سے واقف تھا۔ فوراً بھانپ لیا کہ کیا معاملہ ہے اور جب قریب تھا کہ خرابی اور بے عزتی کے ساتھ نکالا جائے، حواس کو جمع کرکے کہا، ’’قربان جاؤں! مدّت سے آرزو تھی کہ کسی مسلمان بادشاہ کی بلائیں ہوں، ان ہاتھوں نے یا تو حضور بہادر شاہ شاہ کی بلائیں لیں یا آج آپ کی۔‘‘

    یہ سن کر میر محبوب علی خاں بہادر مرحوم مسکرا دیے اور بات رفع دفع ہوگئی۔

    انتقال

    تان رسؔ خاں کا انتقال حیدر آباد دکن میں ہوا اور شاہ خاموش صاحب کی درگاہ کے قرب و جوار میں دفن ہوئے ہیں۔ اس طرح دلّی کے بہترین اور مشہور گویے کا انجام ہوا۔ انتقال کے بعد ان کی اولاد نے چاہا کہ لاش کو چند روز کے لیے حیدرآباد سپرد خاک کر کے پھر دلّی لے جائیں لیکن اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خاں بہادر نے ان کے فرزندوں کو بلوایا اور فرمایا، ’’کیا خدا وہیں ہے یہاں نہیں ہے؟‘‘

    اس تہدید کی بنا پر تان رسؔ خاں ہمیشہ کے لیے حیدر آباد دکن کی سرزمین میں آرام گزیں ہوگئے۔ دلّی (قلب ہندوستان) کا آفتاب حیدرآباد میں غروب ہوگیا۔ لیکن اپنی آتشیں کرنوں کا نشان آسمان کمال پر چھوڑ گیا۔

  • برصغیر کے نام وَر گلوکار طلعت محمود کی برسی

    برصغیر کے نام وَر گلوکار طلعت محمود کی برسی

    طلعت محمود کو بھارتی فلم انڈسٹری میں درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع ملا، لیکن شائقین نے انھیں سندِ قبولیت نہ بخشی، تاہم سُر، ساز اور آواز کی دنیا میں‌ انھیں وہ شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی جو بہت کم گلوکاروں کو نصیب ہوتی ہے۔ آج بھی ان کی آواز میں فلمی نغمات بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ طلعت محمود کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 9 مئی 1998ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    طلعت محمود 24 فروری 1924ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کی آواز بھی اچھی تھی اور وہ نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ طلعت محمود نے بھی چھوٹی عمر میں نعتیں پڑھنا شروع کردی تھیں۔ 1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر اپنی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کروایا تھا۔

    1944 میں ایک غیر فلمی گیت ‘تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی’ سے ان کی شہرت پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ وہ شکل و صورت کے اچھے تھے اور اسی لیے انھیں بطور ہیرو بھی فلموں میں سائن کیا گیا، لیکن ناکامی ہوئی۔ لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر وہ فلمیں ہیں جن میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

    بھارت میں فلم انڈسٹری میں بہ حیثیت گلوکار ان کی شہرت کا آغاز آرزو نامی فلم کے گیت ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ سے ہوا۔ فلم داغ کے لیے انھوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت گائے اور اپنے فن کو منوایا۔

  • دکن کے شوقیہ گلوکار

    دکن کے شوقیہ گلوکار

    دکن کے شوقیہ موسیقاروں میں، جن کا ہر مجلس میں چرچا تھا سب سے پہلا نمبر عبدالرّؤف کا تھا۔

    عبدالرّؤف غالباً محکمہ رجسٹریشن بلدہ میں سب رجسٹرار تھے، لیکن شوقیہ گاتے تھے۔ گلے میں نور تھا۔ میں نے ان کو مختلف مجلسوں میں گاتے دیکھا ہے، جب وہ سُر کو تال سے ہم آہنگ کرتے تو ہر طرف سے داد و تحسین کی صدائیں بلند ہوتیں۔

    جب وہ آواز کا جادو جگاتے تو پوری محفل پر سناٹا چھا جاتا۔ ان کی آواز پپیہے کی آواز کی طرح تھی۔ حیرتؔ (شاعر) صاحب کی بدولت میری ان سے رسمی ملاقات تھی۔

    آج سے 40 سال پہلے میں نے رفیقانِ حیدرآباد کے عنوان سے نظم کہی تھی جس میں اپنے دوستوں سے شکوہ کیا تھا کہ وہ عہدِ ماضی کو یاد نہیں کرتے۔ ان میں رؤف، میر ابن علی، ماہر، حیرت، جوش، حکیم آزاد انصاری کا خاص طور پر ذکر کیا تھا۔

    میر ابن علی، میر محفوظ علی کے صاحبزادے تھے۔ محلہ ملہ پلی میں رہتے تھے۔ علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ علم، مجلس اور حاضر جوابی کے ساتھ موسیقی میں بھی دسترس رکھتے۔ موسیقی کی محفلیں ان کے دم سے رونق پاتی تھیں۔ پولیس ایکشن کے بعد وہ مددگار کوتوالی بلدہ ہوگئے تھے۔ ایک گیت جس کے بول تھے، ”کایہ کا پنجرہ ڈولے“ بہت ہی عمدہ گاتے تھے۔

    طبلے کی تھاپ اور ہارمونیم پر جب یہ گیت گاتے تو اہل محفل وارفتہ ہوجاتے۔ میں نے اکثر ان کی محفلوں میں شرکت کی ہے۔

    معزالدین صدر محاسبی میں ملازم تھے۔ موسیقی کے رسیا تھے۔ حیرت صاحب سے گہرے مراسم تھے۔ ان کی بدولت میں بھی ایک دو مرتبہ ان کی بزم موسیقی میں شریک ہوا تھا۔ گاتے اچھا تھے۔ ان کے گانے میں بڑا کیف تھا۔


    (معروف نثر نگار، شاعر اور تاریخ نویس اعجاز الحق قدوسی کی کتاب ”میری زندگی کے 75سال“ سے ایک ورق)

  • لینن کے البم Double Fantasy کا کور!

    لینن کے البم Double Fantasy کا کور!

    دنیا بھر کے کروڑوں شیدائیوں کے محبوب گلوکار، جان لینن کی زندگی شعلۂ مستعجل کے مانند بھڑکی اور آن کی آن میں بجھ گئی۔ وہ صرف چالیس کا تھا جب اسے سفاکی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔

    8 ستمبر 1980 کو شام پانچ بجے وہ اپنی بیوی کے ساتھ ریاست ڈکوٹا میں واقع اپنے اپارٹمنٹ سے ریکارڈنگ اسٹوڈیو جانے کے لیے باہر نکلا۔ راستے میں آٹو گراف کے خواہش مندوں نے انہیں گھیر لیا۔ ان میں وہ آدمی مارک ڈیوڈ چیپ مین بھی تھا جس کے ہاتھ اس کے خون سے رنگنے والے تھے۔

    اس نے آٹو گراف حاصل کرنے کے لیے لینن کی مشہور البم Double Fantasy کا کور آگے بڑھایا جس پر لینن نے دستخط کر دیے۔

    جان اور یوکو چند گھنٹے بعد ریکارڈنگ اسٹوڈیو سے فارغ ہوکر واپس آئے اور کار سے اترے تو چیپ مین وہاں موجود تھا۔ اس نے لینن کو پکارا۔

    ”مسٹر لینن…“ پھر اس نے اپنے پستول کی چار گولیاں لینن کے جسم میں اتاردیں۔ پولیس پہنچی تو چیپ مین بڑے سکون کے عالم میں اپنی جگہ کھڑا ہوا تھا، البتہ اس نے اپنا پستول نیچے پھینک دیا تھا۔ تمام ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنوں نے معمول کے پروگرام روک کر جان لینن کے انتقال کی خبر نشر کی۔

    یوکو اونو نے اپیل جاری کی، ”جان بنی نوع انسان سے محبت کرتا تھا۔ براہِ کرم، آپ بھی اس سے محبت کا اظہار کریں۔“

    14 دسمبر کو دنیا بھر میں جان لینن کے کروڑوں مداحوں نے اس کی یاد میں سَر جھکا کر اسے نذرانہ محبت پیش کیا۔

    (ممتاز شاعر، ادیب اور سینئر صحافی احفاظ الرّحمٰن کی کتاب ”جنگ جاری رہے گی“ سے ایک ورق)

  • رسیلی دھنیں‌ اور مدھر آوازیں، پنجابی فلموں‌ چند مشہور گیت

    رسیلی دھنیں‌ اور مدھر آوازیں، پنجابی فلموں‌ چند مشہور گیت

    قیامِ پاکستان کے بعد ہی لاہور میں پنچابی فلمیں بننا شروع ہو گئی تھیں۔ مشہور ہے کہ فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار نذیر نے پہلی پنجابی فلم بنائی تھی جو بزنس کے لحاظ سے خاصی کام یاب رہی۔

    اس فلم کے پنجابی گیت بہت مقبول ہوئے تھے۔ اس کے بعد دیگر فلم سازوں نے بھی پنجابی فلمیں بنائیں جن کے لیے اس وقت کے مشہور شعرا نے گیت لکھے اور باکمال موسیقاروں نے ان کی دھنیں ترتیب دیں۔

    فلم سازوں‌ نے پنجابی گیتوں کو اُس دور کی مشہور آوازوں میں ریکارڈ کیا۔ یہ گیت جہاں فلم کی کام یابی کی بھی ایک وجہ بنے وہیں پاکستانی گلوکاراؤں کی شہرت اور مقبولیت کو بھی گویا پَر لگ گئے۔

    یہاں ہم چند ایسے ہی گیتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جو اپنی خوب صورت دھنوں، مدھر آواز اور رسیلے بولوں کی وجہ سے آج بھی سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

    تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے، وے منڈیا سیالکوٹیا، وے منڈیا سیالکوٹیا

    https://youtu.be/f5BUEBrLPOc

    نی میں اُڈی اڈی جاواں ہوا دے نال

    مینوں رب دی سو تیرے نال پیار ہو گیا وے چنا سچی مچی

    اساں جان کے میت لئی اکھ وے

    https://youtu.be/joTA2YsbXnQ

    نی کی کیتا تقدیرے توں رول بیٹھے دو ہیرے

    https://youtu.be/eK0ZPoGhwQw

    او چن چھپ گیا انکھیاں لا کے، دل لے گیا نین ملا کے