Tag: مشہور گلوکارہ

  • بھارت کی مشہور گلوکارہ چل بسیں

    بھارت کی مشہور گلوکارہ چل بسیں

    نئی دہلی : بھارت کی مشہور گلوکارہ شاردا سنہا چل بسیں وہ گزشتہ کئی روز سے کینسر میں مبتلا ہوکر مقامی اسپتال میں زیر علاج تھیں۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی صوبہ بہار کی مشہور گلوکارہ شاردا سنہا کا 72 سال کی عمر میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب دہلی میں انتقال ہوگیا۔ ملک بھر میں ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کی جارہی تھیں لیکن وہ زندگی کی بازی ہار گئیں۔

    شاردا سنہا

    سال 2017میں انہیں "ملٹی پل مائیلوما” نامی بون میرو کینسر کی تشخیص ہوئی تھی معروف گلوکار کو دہلی کے ایمس اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور وہ 25 اکتوبر سے اسپتال کے آنکولوجی ڈیپارٹمنٹ میں زیر علاج اور آخری دن وینٹی لیٹر پر تھیں۔

    فوک موسیقی کیلئے مشہور شاردا سنہا کو پیر کی رات وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا۔ ان کی آکسیجن کی سطح مسلسل گر رہی تھی۔ یہ بات لوک گلوکارہ کے بیٹے انشومن سنہا نے گزشتہ روز اپنے ایک ویڈیو پیغام میں بتائی تھی۔

    ان کے صاحبزادے کا کہنا تھا کہ والدہ متعدد اندرونی جسمانی اعضاء کی خرابی کے باعث کئی امراض کا شکار تھیں اب کافی مشکل ہے آپ سب دعا کیجئے کہ وہ زندگی کی بازی جیت سکیں۔

    Sharda Sinha

    وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عظیم عقیدت کے تہوار چھٹھ کے ساتھ وابستہ ان کے سریلے گانوں کی گونج ہمیشہ برقرار رہے گی۔”

    واضح رہے کہ شاردا سنہا بھارت کی معروف گلوکاروں میں سے ایک تھیں۔  شاردا سنہا کو 1991 میں پدم شری اور 2018 میں پدم بھوشن سے بھی نوازا گیا تھا، انہوں نے میتھلی، بھوجپوری، اور مگہی زبانوں میں بے شمار گیت گائے۔ خاص طور پر چھٹھ تہوار کے ان کے گیت بے حد مقبول ہیں۔

    اس کے علاوہ ان کی کی آواز ہندی فلموں "میں نے پیار کیا” اور "ہم آپ کے ہیں کون” کے گانوں میں بھی شامل ہے، انوراگ کشیپ کی مشہور فلم "گینگز آف واسع پور” میں ان کا گانا "تار بجلی” بھی بہت مشہور ہوا۔

  • مشہور گلوکارہ کی پرفارمنس سے قبل لاش برآمد

    مشہور گلوکارہ کی پرفارمنس سے قبل لاش برآمد

    جنوبی کوریا کی مشہور گلوکارہ لی سانگ یون کی  پرفارمنس سے قبل باتھ روم سے لاش ملی ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق  جنوبی کوریا کے شہر گمچیون کے کلچر سینٹر میں گلوکارہ لی سانگ یون نے کنسرٹ میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا۔

    رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اداکارہ اپنی پرفارمنس سے چند منٹ قبل ہی غائب ہوگئیں تھیں اور نام پکارنے کے باوجود اسٹیج پر نہ آنے کے باعث ان کی تلاش شروع کی گئی تو وہ باتھ روم میں مردہ حالت میں پائی گئیں۔

    اطلاعات کے مطابق گلوکارہ کو قریبی اسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں مردہ قرار دیا گیا، اسٹاف ممبر کی جانب سے گلوکارہ کی لاش ملنے کی اطلاع پولیس دی گئی جس کے بعد تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق 46 سالہ لی سانگ یون کوریا کی مشہور کلاسیکل گلوکارہ تھیں، انہوں نے نیویارک سے موسیقی میں ماسٹرز کر رکھا تھا۔

  • گرامو فون پر نغمہ ریکارڈ کروانے والی پہلی ہندوستانی گوہر جان کا تذکرہ

    گرامو فون پر نغمہ ریکارڈ کروانے والی پہلی ہندوستانی گوہر جان کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے اوائل میں جب گرامو فون ریکارڈ تیار کرنے والی کمپنیاں‌ ایشیائی ممالک کی طرف متوجہ ہوئیں اور مقامی گلوکاروں‌ کی آوازیں ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تو گوہر جان پہلی ہندوستانی مغنّیہ تھیں‌ جنھیں اس مشین پر اپنی آواز ریکارڈ کروانے کا موقع ملا۔ وہ اپنے زمانے کی مشہور کلاسیکی گلوکارہ اور مقبول رقاصہ تھیں جنھوں نے 1930ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    1898ء میں جب لندن کی ایک کمپنی نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ گرامو فون ریکارڈنگ مہم شروع کی، تو اس کام کے لیے یہاں ایک ایجنٹ کا انتخاب کرتے ہوئے فریڈرک ولیم گیسبرگ نامی ایک ماہر کو بھی کلکتہ بھیجا گیا۔ اس انگریز ماہر نے مختلف شخصیات کی مدد سے ہندوستان میں موسیقی کی محافل اور تھیٹروں تک رسائی حاصل کی اور گلوکاروں کو سنا، تاہم اسے کوئی آواز نہ بھائی، لیکن اس کی یہ کھوج اور بھاگ دوڑ رائیگاں نہیں گئی۔ گوہر جان کی آواز اُن دنوں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں گونج رہی تھی۔ وہ ہر خاص و عام میں مقبول تھیں۔

    کمپنی کے نمائندے کو گوہر جان کو سننے کا موقع ملا اور اس نے ملاقات کر کے انھیں ریکارڈنگ کی پیش کش کردی جو بامعاوضہ تھی۔ 14 نومبر 1902ء کو کلکتے میں گوہر جان کو ریکارڈنگ کے لیے بلایا گیا۔ اس مغنیہ نے راگ جوگیا میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    26 جون 1873ء کو اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والی گوہر جان کا پیدائشی نام انجلینا یووارڈ تھا، اور وہ ایک برطانوی کی اولاد تھی، لیکن اس کی ماں وکٹوریہ ہیمنگز جو ایک کلاسیکی رقاصہ اور گلوکارہ تھی، اس نے بعد شوہر سے طلاق کے بعد جب ایک مسلمان سے شادی کی تو اسلام قبول کرلیا اور اپنی بیٹی انجلینا کو گوہر جان کا نام دے دیا۔

    انھوں نے استاد کالے خان، استاد وزیر خان اور استاد علی بخش جرنیل سے رقص اور موسیقی کی تربیت حاصل کی اور کتھک رقص کے ساتھ ساتھ غزل، ٹھمری، کجری، ترانہ اور دادرا کی اصناف پر عبور حاصل کیا۔ 1911ء میں انھیں دہلی دربار میں جارج پنجم کی تاج پوشی کے موقع پر نغمہ سرا ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

    کہتے ہیں کہ گرامو فون ریکارڈنگ کے لیے گوہر جان صبح 9 بجے زیورات سے لدی پھندی اپنے سازندوں کے ساتھ ہوٹل پہنچی تھیں جہاں‌ انھیں‌ بلایا گیا تھا۔ یہ تین منٹ کی ریکارڈنگ تھی جو گوہر جان اور ان کے سازندوں کے لیے ایک نہایت اہم اور یادگار موقع تھا۔ ریکارڈ پر لیبل لگانے میں آسانی کی غرض سے اور محفوظ کی گئی آواز کی شناخت کے لیے انگریزی زبان میں گوہر جان نے مخصوص جملہ ‘مائی نیم از گوہر جان’ بھی ادا کیا تھا۔

  • اقبال بانو کی برسی جنھوں نے غزل گائیکی کو بامِ عروج پر پہنچایا

    اقبال بانو کی برسی جنھوں نے غزل گائیکی کو بامِ عروج پر پہنچایا

    سُر اور ساز ہی نہیں اقبال بانو اردو زبان کی لطافت، چاشنی اور الفاظ کی تاثیر کو بھی خوب سمجھتی تھیں۔ تلفظ اور ادائی ہی نہیں انھیں شعر کا بھی خوب فہم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا گایا ہوا کلام سامعین کے دل میں اتر جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کی اس منفرد اور باکمال گلوکارہ نے 21 اپریل 2009ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ آج اقبال بانو کی برسی ہے۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کو بامِ عروج تک لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    انھوں نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز کیا تھا۔ ان کی عمر سترہ برس تھی جب انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور ملتان میں آباد ہوئیں۔ یہ 1952 کی بات ہے۔

    اقبال بانو نے اپنی گائیکی سے پاکستان کے مشہور موسیقاروں اور بڑے حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو جب اقبال بانو نے گایا تو جیسے یہ کلام ہر خاص و عام کا ترجمان بن گیا۔ یہ نظم ہر طرف ایک نعرے کی صورت گونجنے لگی۔

    ان کی گائی ہوئی ایک غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُولاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسے گیت کو شاید ہی ہم فراموش کرسکیں جسے اقبال بانو نے گا کر امر کر دیا۔

    فیض کا کلام ’ہم دیکھیں گے‘ گانے کے بعد اقبال بانو کو شہرت اور بے حد پیار تو ملا، مگر پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ان کی آواز اور پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا، لیکن ان کا سب سے بڑا اعزاز اور تمغہ مداحوں کی محبت اور ہر جگہ ملنے والی پزیرائی تھی۔ انھیں اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے نہ صرف سراہا بلکہ ان کے فن کی عظمت اور ان کی منفرد گائیکی کا اعتراف بھی کیا۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • مشہور مغنیہ زاہدہ پروین اور خواجہ غلام فرید کی کافیاں

    مشہور مغنیہ زاہدہ پروین اور خواجہ غلام فرید کی کافیاں

    صوفیانہ کلام اور طرزِ گائیکی کے حوالے سے بھی "کافی” مشکل صنف ہے، مگر یہ نہایت مقبول اور عقیدت و اظہار کا ایک خوب صورت ذریعہ ہے۔ پاکستان میں زاہدہ پروین نے اسے کچھ اس طرح نبھایا کہ اس فن کی ملکہ کہلائیں‌۔

    آج پاکستان کی اس مشہور مغنیہ کی برسی منائی جارہی ہے۔ 1975 میں زاہدہ پروین لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔

    زاہدہ پروین 1925 میں امرتسر میں پیدا ہوئیں۔ موسیقی کی ابتدائی تعلیم استاد بابا تاج کپورتھلہ والے سے حاصل کی، استاد حسین بخش خاں امرتسر والے سارنگی نواز سے گائیکی کے رموز سیکھے، اور بعد میں‌ استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کی شاگرد بنیں۔ ان کے استادوں میں اختر علی خان بھی شامل ہیں۔

    زاہدہ پروین نے یوں تو سبھی کلام گایا، مگر بعد میں خود کو خواجہ غلام فرید کی کافیوں تک محدود کر لیا۔ وہ ان کے کلام کی شیدا تھیں اور بہت لگائو رکھتی تھیں۔

    زاہدہ پروین کا کافیاں گانے کا منفرد انداز انھیں اپنے دور کی تمام آوازوں میں ممتاز کرتا ہے۔ انھوں نے کافیوں کو کلاسیکی موسیقی میں گوندھ کر کچھ اس طرز سے پیش کیا کہ یہی ان کی پہچان، مقام و مرتبے کا وسیلہ بن گیا۔

    وہ ‌میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • معروف گلوکارہ گل بہار بانو بھائی کے گھر سے بازیاب

    معروف گلوکارہ گل بہار بانو بھائی کے گھر سے بازیاب

    بہاولپور: پنجاب پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ماضی کی معروف گلوکارہ گل بہار بانو کو بھائی کے گھر سے بازیاب کرالیا۔

    تفصیلات کے مطابق ماضی میں اپنی گائیکی سے لوگوں کو مسحور کرنے والی نامور پاکستانی گلوکارہ گل بہار بانو طویل عرصے سے گمشدہ تھیں، جن کا معمہ بہاولپور پولیس نے کارروائی کرکے حل کرلیا۔

    اطلاعات تھیں کہ گلوکارہ کو ان کے سگے بھائی نے حبس بے جا میں رکھا ہوا تھا، پولیس نے آج شام کارروائی کرتے ہوئے گل بہار بانو کو بھائی کے گھر سے بازیاب کرکے بھائی کو تحویل میں لے لیا۔

    بھائی نے پولیس کو بیان دیا کہ گل بہار بانو کو قید میں نہیں رکھا بلکہ وہ دماغی مرض میں مبتلا ہیں، ان کا علاج چل رہا ہے، چند روز پہلے ہی اسپتال سے گھر لے کر آئے تھے۔

    پڑوسیوں اور دیگر اہل خانہ کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد پولیس نے بھائی کو رہا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اہل خانہ نے گل بہار بانو کو حفاظت کے پیش نظر گھر میں رکھا ہوا تھا۔

    پولیس حکام کے مطابق گل بہار بانو حبس بے جا میں نہیں تھیں بلکہ وہ گھر میں عام افراد کی طرح زندگی گزار رہی تھیں البتہ بھائی اور دیگر افراد ان پر نظر ضرور رکھے ہوئے تھے، تفیتیشی افسر کا مزید کہنا ہے کہ گلوکارہ اپنے گھر اور اسپتال جانے کے لیے راضی نہیں ہیں۔

    قبل ازیں پولیس نے گل بہار بانو کو قید کیے جانے سے متعلق انکشافات کیے تھے کہ گلوکارہ محرم میں شوہر کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے خانقاہ شریف آئیں، ان کے شوہر افضل کی اربوں کی پراپرٹی اور بینک بیلنس ہے، گلوکارہ کے بھائی نے نشہ آور ادویات کے زیر اثر رکھ کر قید کیا ہوا تھا۔

    پولیس رپورٹ کے مطابق بھائی اور دیگر رشتے دار گلوکارہ گل بہار بانو کی جائیداد اور بینک بیلنس ہتھیانا چاہتے ہیں۔

    یاد رہے کہ گل بہار بانو 1955 میں بہاولپور میں پیدا ہوئیں، استاد افضل حسین سے موسیقی کے اسرارو رموز سیکھے اور 1992 میں ریڈیو پاکستان بہالپور سے گائیکی کا آغاز کیا۔

    گلوکارہ کا کراچی میں منتقلی کے بعد شہرت کا باقاعدہ آغاز ہوا اور وہ ریڈیو اور ٹیلی وژن کی مقبول گلوکارہ بن گئیں، حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2007 کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔