Tag: مشہور گیت نگار

  • ”آوارہ“ جس نے رومانیہ کی گلوکارہ کو نرگیتا بنا دیا

    ”آوارہ“ جس نے رومانیہ کی گلوکارہ کو نرگیتا بنا دیا

    ”آوارہ“ راج کپور اور نرگس دت کی وہ فلم ہے جس نے بالی وڈ کی تاریخ میں مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔ صرف 1954ء میں‌ اس فلم کے 6 کروڑ سے زائد ٹکٹ خریدے گئے تھے۔ آوارہ کا اسکرپٹ خواجہ احمد عباس نے لکھا تھا جو اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، فلمی ہدایت کار اور نام ور صحافی تھے۔

    اس فلم کا اپنی اوّلین نمائش کے بعد اس قدر شہرہ ہوا کہ دوسرے ممالک میں بھی پردے پر سجائی گئی۔ اس کے گانے ہندوستان میں تو مقبول ہوئے ہی جب یہ فلم رومانیہ پہنچی تو وہاں بھی فلم بہت پسند کی گئی اور اس کے گانوں کی دھوم مچ گئی۔ اگرچہ فلم راج کپور کے گرد گھومتی ہے لیکن فلم کا ستون نرگس کی اداکاری ہے۔

    1951ء اور دہائیوں تک اس فلم کے گانے نوجوانوں کی زبان پر تھے جب کہ رومانیہ میں اس فلم کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ تیس برس بعد بھی اس کا ایک گیت وہاں کی پاپ سِنگر نے نئے انداز سے گایا۔ اس نے اپنا نام بھی فلم کی اداکارہ نرگس دت سے متاثر ہوکر نرگیتا رکھا تھا۔ اس مغنیہ کو بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی نے مدعو کیا اور اس سے یہ گیت سنا۔ انھوں نے نرگیتا کو ایک ساڑھی بھی تحفے میں دی تھی۔ بعد میں 1981 میں اندرا گاندھی نے رومانیہ کا دورہ کیا تو وہاں نرگیتا نے وہی ساڑھی پہن کر حاضرین کے سامنے آوارہ کے گیت پیش کیے تھے۔

    فلم آوارہ کی کہانی میں ایک جج کا بیٹا دکھایا گیا ہے جو اپنی بیوی کو ایک بات پر گھر سے نکال دیتا ہے۔ وہ اس جج کے بیٹے کو لے کر کسی غریب لوگوں کی بستی میں قیام کرتی ہے، بچّہ وہاں بدمعاش قسم لوگوں اور غنڈوں کے درمیان بڑا ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے جج کا بیٹا بھی آوارہ بن جاتا ہے اور ایک روز اپنے باپ کے سامنے آجاتا ہے۔

    یہ فلم پاکستان ہی نہیں ایشیا اور افریقی ممالک میں بھی دیکھی گئی۔ آوارہ کی کہانی نے سوویت یونین کے علاوہ عرب ممالک میں بھی ناظرین کو متاثر کیا۔

    اس فلم کے مقبول ترین گیت کے بول تھے؛

    آوارہ ہوں…..آوارہ ہوں

    یا گردش میں ہوں
    آسمان کا تارہ ہوں

    آوارہ ہوں…..آوارہ ہوں

    گھر بار نہیں سنسار نہیں

    مجھ سے کسی کو پیار نہیں…

  • لازوال گیتوں کے خالق شہریار کا تذکرہ

    لازوال گیتوں کے خالق شہریار کا تذکرہ

    کنور محمد اخلاق دنیائے ادب میں شہریار کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ تدریس سے منسلک رہے، ہندوستان سے تعلق تھا۔

    شہریار نے نظم، غزل اور گیت جیسی اصنافِ‌ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور خوب نام پیدا کیا، انھوں‌ نے اپنے وقت کی کام یاب ترین فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے جو سدا بہار ثابت ہوئے۔

    شہریار کے کلام کا ترجمہ فرانسیسی ،جرمن، روسی، مراٹھی، بنگالی اور تیلگو زبانوں میں ہوا۔ متعدد ادبی اعزازات اپنے نام کرنے والے اس شاعر نے 13 فرروری 2012 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔ یہاں‌ ہم ان کا ایک مشہور فلمی گیت باذوق قارئین کی نذر کررہے ہیں۔

    یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
    حدِ نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے

    ہر ایک جسم روح کے عذاب سے نڈھال ہے
    ہر ایک آنکھ شبنمی، ہر ایک دل فگار ہے

    ہمیں تو اپنے دل کی دھڑکنوں پہ بھی یقیں نہیں
    خوشا وہ لوگ جن کو دوسروں پہ اعتبار ہے

    نہ جس کا نام ہے کوئی نہ جس کی شکل ہے کوئی
    اک ایسی شے کا کیوں ہمیں ازل سے انتظار ہے

  • گیت نگاری میں ممتاز نگار صہبائی کا یومِ وفات

    گیت نگاری میں ممتاز نگار صہبائی کا یومِ وفات

    نگار صہبائی اردو کے معروف گیت نگار اور نام ور شاعر تھے جن کی آج برسی ہے۔ وہ 8 جنوری 2004ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا اصل نام محمد سعید تھا اور وہ ناگ پور میں پیدا ہوئے تھے۔

    7 اگست 1926ء کو پیدا ہونے والے نگار صہبائی نے ابتدائی تعلیم مدراس اور ناگ پورسے حاصل کی۔ 1947ء میں پاکستان ہجرت کرنے کے بعد کراچی کو اپنا مستقر بنایا اور یہاں جامعہ کراچی سے گریجویشن کیا۔

    نگار صہبائی نے قلم سے ناتا جوڑا تو ابتدائی عرصے میں شاعری کے علاوہ افسانے بھی لکھے۔ وہ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق و شیدا تھے۔ انھیں‌ مصوّری، موسیقی اور رقص کا شوق بھی رہا۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی، مگر گیت نگاری میں انھوں نے خاص پہچان بنائی اور مشہور ہوئے۔ نگار صہبائی منفرد اسلوب کے مالک تھے۔ ان کے گیتوں کے تین مجموعے جیون درپن، من گاگر اور انت سے آگے شایع ہوچکے ہیں۔

  • مقبول ترین گیتوں‌ کے خالق تسلیم فاضلی کی برسی آج منائی جارہی ہے

    مقبول ترین گیتوں‌ کے خالق تسلیم فاضلی کی برسی آج منائی جارہی ہے

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں ہوتا ہے جو کم عمری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر انڈسٹری میں نام اور مقام حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ 17 اگست 1982 کو پاکستان کی فلمی صنعت کے اس خوب صورت نغمہ نگار کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ آج تسلیم فاضلی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    تسلیم فاضلی کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ادبی گھرانے سے تھا اور والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    تسلیم فاضلی نے اپنی شہرت کے عروج پر پاکستان کی معروف اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

    تسلیم فاضلی نے سادہ اور عام فہم انداز میں‌ دل کو چھو لینے والے گیت تخلیق کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت کے لیے ان کی فلمی غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور اسی گیت کی شہرت نے اس شاعر پر جیسے فلموں کی برسات کردی تھی، لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ تسلیم فاضلی صفِ اول کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کے چند گیت کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
    ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
    ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا
    مجھے دل سے نہ بھلانا
    کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی

    تسلیم فاضلی کے انتقال سے پاکستان فلم انڈسٹری ایک خوب صورت نغمہ نگار سے محروم ہوگئی مگر اپنے دل کش گیتوں‌ کی وجہ سے وہ آج بھی دلوں‌ میں‌ زندہ ہیں۔

  • ہم بھی اگر بچے ہوتے، پل میں ہنستے پل میں روتے!

    ہم بھی اگر بچے ہوتے، پل میں ہنستے پل میں روتے!

    1964 میں ہندی فلم "دُور کی آواز” ریلیز ہوئی جس کا ایک نغمہ بہت مشہور ہوا۔ اس کے خالق شکیل بدایونی تھے۔ یہ اس مشہور شاعر اور گیت نگار کے تخلیق کردہ اُن فلمی گیتوں‌ میں سے ایک ہے جنھیں‌ آج بھی گنگنایا اور پسند کیا جاتا ہے۔

    اس کا عنوان تھا "ہم بھی اگر بچے ہوتے” جو آشا بھونسلے، مناڈے اور محمد رفیع کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوا اور اس کے موسیقار روی تھے۔

    آپ نے بھی یہ نغمہ سنا ہو گا۔ آج اپنی یادوں کی چلمن اٹھا کر جھانکیے اور مان لیجیے کہ اس گیت کے بولوں میں ایک ایسی حقیقت اور سچّائی پوشیدہ ہے جس سے کوئی انکار نہیں‌ کرسکتا۔

    ہم بھی اگر بچے ہوتے
    نام ہمارا ہوتا گبلو ببلو
    کھانے کو ملتے لڈو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

    کوئی لاتا گڑیا، موٹر، ریل
    تو کوئی لاتا پھرکی، لٹو
    کوئی چابی کا ٹٹو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

    کتنی پیاری ہوتی ہے یہ بھولی سی عمر
    نہ نوکری کی چنتا، نہ روٹی کی فکر
    ننھے منے ہوتے ہم تو دیتے سو حکم
    پیچھے پیچھے پاپا ممی بن کے نوکر
    چاکلیٹ، بسکٹ، ٹافی کھاتے، پیتے دُدّو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو

    کیسے کیسے نخرے کرتے گھر والوں سے ہم
    پل میں ہنستے پل میں روتے کرتے ناک میں دم
    اکڑ بکڑ لکا چھپی، کبھی چھُوا چھو
    کرتے دن بھر ہلہ گلہ دنگا اور ادھم
    اور کبھی ضد پر اڑ جاتے جیسے اڑیل ٹٹو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

    اب تو یہ ہے حال کہ جب سے بیتا بچپن
    ماں سے جھگڑا باپ سے ٹکر بیوی سے اَن بَن
    کولہو کے ہم بیل بنے ہیں، دھوبی کے گدھے
    دنیا بھر کے ڈنڈے سَر پہ کھائیں دنادن
    بچپن اپنا ہوتا تو نہ کرتے ڈھینچو ڈھینچو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو

  • ناظم پانی پتی: خوب صورت گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    ناظم پانی پتی: خوب صورت گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا اور چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا… جیسے خوب صورت گیتوں کے خالق ناظم پانی پتی کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

    18 جون 1998 کو پاکستان کےاس معروف فلمی گیت نگار کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا۔ وہ لاہور میں مدفون ہیں۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ 15 نومبر 1920 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے لاہور سے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کی۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام و مقام حاصل کیا۔

    وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔

    انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی گیت نگاری کی اور متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔