Tag: مشہور ہندوستانی ادیب

  • دامودر ذکی: غیر مسلم نعت گو شاعر

    دامودر ذکی: غیر مسلم نعت گو شاعر

    اردو ادبا اور شعرا کی فہرست کا جائزہ لیں تو ان میں بلا تفریقِ مذہب و ملت سارے ابنائے وطن کے نام نظر آتے ہیں۔

    اردو زبان کا وجود ہندوستان میں ہوا۔ ہندوستانیوں نے اس زبان کی ترقی میں مؤثر رول ادا کیا۔

    اس زبان کی شیرینی اور لطافت کے نہ صرف ابنائے وطن بلکہ مستشرقین بھی دل و جان سے قائل رہے۔ چنانچہ مشہور فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی نے اردو کے مشہور شاعر ولی اورنگ آبادی کو اردو کا باوا آدم قرار دیا اور ان کے دیوان کو فرانس میں زیورِ طبع سے آراستہ کرکے منظر عام پر لایا۔

    حیدرآباد (دکن) میں اردو ادب کے منظر نامے میں بہت سے غیر مسلم حضرات کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔ اردو کی وجہ سے جو تہذیب پروان چڑھی اس کو گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں۔

    ان حضرات میں ایک اہم نام دامودر ذکی کا ہے۔

    انہوں نے نہ صرف اردو شاعری کی مختلف اصناف میں اپنے جوہر دکھائے بلکہ نعت شریف بھی اتنا ڈوب کر لکھتے تھے کہ عبدالماجد دریا آبادی جیسی شخصیت نے ان کے اور رگھویندر راؤ، جذب عالم پوری کے تعلق سے کہا تھا کہ وہ کس منہ سے ان حضرات کو غیر مسلم شعرا کہہ سکتے ہیں۔

    ذکی کو میلاد کے جلسوں میں بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ میلاد کے ایک جلسہ میں وہ اپنا نعتیہ کلام سنارہے تھے۔ ان کے اس شعر پر سامعین پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور آنکھیں نم ناک ہوگئی تھیں۔

    قیامت میں محمدﷺ کا سہارا ڈھونڈھنے والے
    سنا بھی زندگی میں تُو نے فرمایا محمدﷺ کا

    (رشید الدین، حیدر آباد، دکن کے مضمون سے ایک پارہ)

  • نیچی جگہ کا پانی…

    نیچی جگہ کا پانی…

    تھوڑی سی بارش ہوتی اور پانی پھسلتا ہوا نشیب میں جمع ہوجاتا۔ مکھیاں اور مچھر گندگی پھیلاتے۔

     

    ”ایمرجنسی راج میں ہم سے فیصلوں میں تو کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بڑے عہدوں پر تعینات افسروں نے اچھے فیصلے لاگو کرنے میں شاید ہی غلطیاں کی ہوں۔“ ایمرجنسی کی وجہ سے ٹوٹ جانے والی حکومت کے ایک اہم عہدے دار کا خیال تھا۔

     

    ”چوکی دار ذمے دار ہے، گھونٹ لگا کے کہیں پڑ گیا ہوگا۔ پیچھے سے سارا گودام خالی ہوگیا۔“

     

    سرکاری گودام سے چینی چوری ہو جانے پر حفاظتی افسر کا بیان تھا۔

     

    ”متعلقہ فائل گم ہوگئی ہے تو متعلقہ کلرک سے پوچھو، اسی کی بے پروائی سے گم ہوئی ہے۔“ محکمے کا سربراہ کہہ رہا تھا۔

     

    لاکھوں روپے کا گھپلا پکڑے جانے کے بعد متعلقہ فائل گم ہوگئی تھی۔

     

    ”مقامی مل میں ملاوٹ! ہوسکتا ہے، رات کی شفٹ میں کام کرنے والے کسی مزدور سے کوتاہی ہوگئی ہو اور مل کے باہر پڑے ہوئے کنکر پتھر اور مٹی مسالے میں مل گئی ہو۔ لکھو کے بچے کو ضرور سزا ملنی چاہیے، اسی کی غفلت سے یہ گڑبڑ ہوئی۔“ مل مالک پولیس سے کہہ رہا تھا۔

     

    مالی ذمے دار ہے، چپراسی ذمے دار ہے، بھنگی ذمے دار ہے، مزدور ذمے دار ہے۔

     

    بارش ہو رہی ہے۔ نیچے گندے تالاب میں اب اور پانی جمع نہیں ہوسکتا۔

     

    پانی کا دریا منہ زور ہو رہا ہے، کنارے کھڑی ہوئی مضبوط عمارتیں ریت کے گھروندوں کی طرح ڈھے رہی ہیں۔

     

    (ہم درد ویر نوشہروی کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ حکم راں یا صاحبانِ اختیار جب اپنے فرائض‌ اور ذمہ داریاں‌ ادا نہیں‌ کرتے اور مسائل اور مشکلات پر ماتحتوں‌ کو مطعون کرکے عوام کو دھوکا دیتے ہیں‌ تو بھول جاتے ہیں‌ کہ یہ بگاڑ‌ اور خرابیاں‌ ایک روز ان کے گھروں‌ کی بنیادیں‌ بھی ہلا سکتی ہیں)