Tag: مشیر کاظمی

  • مشیر کاظمی: لازوال فلمی گیتوں اور ملّی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    مشیر کاظمی: لازوال فلمی گیتوں اور ملّی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسٹری کو اپنے دورِ عروج میں کئی باکمال اور بہترین فلم ساز، ہدایت کار اور بے مثل اداکار ہی‌ نہیں لاجواب شاعری تخلیق کرنے والے بھی ملے جن میں ایک نام مشیر کاظمی کا ہے وہ اعلیٰ پائے کے ایسے گیت نگار تھے جن کے فلمی گیت اور نغمات پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبول ہوئے اور آج بھی انھیں بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    آج مشیر کاظمی کی برسی ہے۔ وہ 8 دسمبر 1975ء میں‌ وفات پا گئے تھے۔ فلمی شاعر مشیر کاظمی کا تعلق ہندوستان کے مشہور شہر انبالہ سے تھا۔ 1915ء میں پیدا ہونے والے مشیر کاظمی کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی تھا۔ ان کے والد پولیس سروس سے وابستہ تھے۔ میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے ایما پر پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی اس ملازمت کو ترک کرکے ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا اور پھر شعر و ادب کی طرف مائل ہوگئے۔ مشیر کاظمی نے وہ دور دیکھا جب تقسیمِ ہند اور انگریزوں کے خلاف تحریکیں عروج پر تھیں اور دوسری طرف ادب اور فلم کے شعبوں میں‌ کئی بڑے نام اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے تھے۔ مشیر کاظمی کو بھی انقلابی ترانے، رومانوی شاعری اور فلم کی دنیا اپنی جانب کھینچنے لگی تھی۔ اس وقت کلکتہ، ممبئی اور لاہور میں بڑی شان دار فلمیں تخلیق ہو رہی تھیں۔ مشیر کاظمی ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور (ضلع مظفر گڑھ) میں آن بسے تھے، مگر یہاں ان کا جی نہ لگا اور علی پور سے لاہور منتقل ہوگئے اور یہیں فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ بطور شاعر وہ اپنا سفر شروع کرچکے تھے اور لاہور میں‌ انھوں‌ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں بننے والی فلموں کے لیے بطور گیت نگار بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار شروع کردیا۔ اس میدان میں کام یابی نے ان کے قدم چومے اور بطور فلمی گیت نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ تھی۔

    فلم دوپٹہ کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ یہ اردو زبان میں وہ پہلی فلم تھی جس کے نغمات ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے۔ مشیر کاظمی کے گیت سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم نے مشیر کاظمی کو بڑا نغمہ نگار بنا دیا۔ وہ چند فلموں میں بطور معاون اداکار بھی نظر آئے۔ بشیرا اپنے وقت کی ایک مشہور فلم تھی جو 1972ء میں ریلیز ہوئی۔ اس میں سلطان راہی نے کام کیا تھا۔ فلم میں‌ مشیر کاظمی کی لکھی ہوئی ایک قوالی بھی شامل تھی۔ فلم میں دکھایا گیا کہ یہ قوالی سننے کے بعد سلطان راہی کا دل بھر آتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیتا ہے۔ اس موقع پر معاون اداکار کے طور پر مشیر کاظمی ہیرو کے قریب ہوتے ہیں اور فلم بینوں کو پردے پر بڑے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

    مشیر کاظمی نے زندگی میں‌ کئی اتار چڑھاؤ بھی دیکھے۔ پہلی فلم اور گلوکارہ نور جہاں‌ سے ملاقات سے متعلق ایک واقعہ ممتاز صحافی ستار طاہر نے اپنی کتاب ’تعزیت نامے‘ میں لکھا ہے: ’وہ ایک عجیب و غریب منظر تھا جب انہیں (مشیر کاظمی کو) پہلی بار نور جہاں کے سامنے بطور شاعر لے جایا گیا۔ تب ان کا لباس بے حد معمولی اور میلا تھا، شیو بڑھا ہوا تھا اور انہیں ایسے کمرے میں بٹھایا گیا تھا جہاں بہت سارے آئینے لگے ہوئے تھے۔ وہ ان آئینوں میں اپنی خستہ حالی کی تصویر دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ یہ اس شخص کی نور جہاں سے پہلی ملاقات تھی، جس کی آواز میں اپنا گیت سننے کے لیے اس نے ملازمت چھوڑ دی تھی۔ خستہ حالی اور فاقہ کشی کو اپنا لیا تھا۔ نور جہاں نے گیت سنا اور فضلی صاحب سے کہا اس شاعر سے گیت لکھوائیں، میں انہی کے گیت گاؤں گی اور یوں ’دوپٹہ‘ کے گیت نگار کی حیثیت سے مشیر کاظمی کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو پوری ہوگئی۔‘

    ان کا شمار اپنے دور کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا تھا۔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے، لیکن قومی و ملّی نغمات اور فلمی گیتوں نے مشیر کاظمی کو بے پناہ شہرت اور مقبولیت دی۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے مشیر کاظمی کی شاعری ایک محبِ وطن اور سچّے پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ مشیر کاظمی نے پاکستان اور بھارت کی جنگوں کے دوران روح گرما دینے والے ملّی نغمات لکھے جن کی گونج آج بھی وطن عزیز کی آزاد فضا میں سنائی دیتی ہے۔

    فلمی دنیا میں مشیر کاظمی کے ایک سدا بہار اور مقبولِ عام گیت سے متعلق مشہور ہے کہ ایک رات انھیں بھوک محسوس ہو رہی تھی اور خالی پیٹ نیند نہیں آرہی تھی۔ مشیر کاظمی نے اس وقت یہ مصرع کہا "چاندی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں….تاروں سے کریں باتیں” اور بعد میں مکمل گیت فلم دوپٹہ میں شامل ہوا اور ریکارڈ مقبولیت حاصل کی۔ یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی۔

    مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ ‘اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو’ مشیر کاظمی کا لکھا ہوا مقبول ترین ملّی نغمہ ہے۔ مشیر کاظمی کے چند مشہور فلمی گیتوں میں تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے، ہم چلے اس جہاں سے، دل اٹھ گیا یہاں سے، شکوہ نہ کر گلہ نہ کر یہ دنیا ہے پیارے،

    مشیر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    بطور شاعر مشیر کاظمی نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی لازوال گیت تخلیق کیے، جنھیں پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی مقبولیت ملی اور آج بھی ان کے فلمی گیت بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    مشیر کاظمی اعلیٰ پائے کے گیت نگار تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ 1975ء میں‌ وفات پانے والے مشیر کاظمی کا تعلق انبالہ سے تھا۔ وہ 1915ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سید شبیر حسین کاظمی تھا۔ والد پولیس سروس میں تھے۔ میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے ایما پر پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی اس ملازمت کو چھوڑ دیا، پھر ادیب فاضل کا امتحان پاس کر کے شعر و ادب کی طرف مائل ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور (ضلع مظفر گڑھ) میں آن بسے، مگر یہاں ان کا جی نہ لگا اور علی پور سے لاہور آ گئے جہاں‌ فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ انھوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لاجواب گیت تخلیق کیے۔

    فلمی دنیا میں بطور نغمہ نگار مشیر کاظمی کی پہلی فلم دوپٹہ تھی۔ اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ یہ اردو زبان میں پہلی فلم تھی جس کے نغمات ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔ دوپٹہ کے زیادہ تر نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے۔ اس فلم نے مشیر کاظمی کو بڑا اور کام یاب نغمہ نگار بنا دیا۔ مشیر کاظمی نے چند فلموں میں بطور معاون اداکار بھی کام کیا۔ایک ایسی ہی مشہور فلم بشیرا تھی جو 1972ء میں ریلیز ہوئی اور اس میں سلطان راہی نے کام کیا تھا۔ فلم میں‌ مشیر کاظمی کی لکھی ہوئی ایک قوالی بھی شامل تھی۔ فلم میں یہ قوالی سننے کے بعد سلطان راہی کا دل بھر آتا ہے اور وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے، اس موقع پر معاون اداکار مشیر کاظمی کے ساتھ ہیرو کے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا فلم بینوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

    فلمی دنیا میں مشیر کاظمی کے ایک سدابہار اور مقبولِ عام گیت سے متعلق مشہور ہے کہ ایک رات انھیں بھوک محسوس ہو رہی تھی اور خالی پیٹ نیند نہیں آرہی تھی۔ مشیر کاظمی نے اس وقت یہ مصرع کہا "چاندی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں….تاروں سے کریں باتیں” اور بعد میں مکمل گیت ان کی پہلی کام یاب ترین فلم دوپٹہ میں شامل ہوا جو 1952 میں ریلیز ہوئی تھی۔

    مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ ‘اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو’ مشیر کاظمی کا لکھا ہوا مقبول ترین ملّی نغمہ ہے۔ ملّی نغمات اور افواجِ پاکستان سے یکجہتی کے لیے کی گئی مشیر کاظمی کی شاعری ان کے جذبۂ حب الوطنی کی مثال ہے۔

    مشیر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

  • مقبول فلمی گیتوں اور لازوال قومی نغمے کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    مقبول فلمی گیتوں اور لازوال قومی نغمے کے خالق مشیر کاظمی کا تذکرہ

    مشیر کاظمی ایک اعلیٰ پائے کے گیت نگار تھے جنھوں نے کئی سپر ہٹ گیت پاکستانی فلمی صنعت کو دیے۔ مشیر کاظمی 1975ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پا گئے تھے۔

    وہ 1915ء میں ضلع انبالہ کے ایک علاقے میں‌ پیدا ہوئے۔ انہوں نے فلموں میں نغمہ نگاری کا آغاز فلم دوپٹہ سے کیا جس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔ یہ پہلی اردو فلم تھی جس کے نغمے ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں تھے۔ دوپٹہ کے زیادہ تر نغمات سپر ہٹ ثابت ہوئے اور مشیر کاظمی فلمی صنعت میں کام یاب نغمہ نگار بن گئے۔

    مشیر کاظمی نے فلم میرا کیا قصور‘ زمین‘ لنڈا بازار‘ دلاں دے سودے‘ مہتاب‘ ماں کے آنسو‘ آخری نشان‘ آخری چٹان‘ باغی کمانڈر اور دل لگی جیسی فلموں کے علاوہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی نغمات لکھ کر داد پائی۔ قومی نغمہ اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو انہی کا لکھا ہواتھا جو آج بھی بے حد مقبول ہے۔

    وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔