Tag: مشینری

  • ایک سال کے دوران پاکستانی پچاس ارب روپے کی چائے پی گئے

    ایک سال کے دوران پاکستانی پچاس ارب روپے کی چائے پی گئے

    کراچی: قرضوں کے بوجھ تلے ملک میں زرعی اور صنعتی شعبے کی کارکردگی انتہائی خراب رہی لیکن اس کے باوجود مشینری کے بجائے موبائل خریدے جاتے رہے۔

    پاکستان کے ہر فرد پر قرضوں کا بوجھ ایک لاکھ روپے سے تجاوز کرچکا ہے، مگر صرف حکام ہی نہیں بلکہ شاید عوام بھی بے حس ہوچکے ہیں رواں مالی سال کے دوران پاکستان کا زرعی شعبہ مشکلات کا شکار رہا۔

    تاہم اس دوران بیرون ملک سے صرف سات ارب روپے کی مشینری درآمد ی گئی، جب کہ ہر سال نئے ماڈل کے شوق میں اس سے دس گنا مالیت کے موبائل فون درآمد کرلئے گئے۔

    s

    صرف یہی نہیں بلکہ پاکستانی پچاس ارب روپے کی چائے بھی پی گئے، جب کہ ٹیکسٹائل شعبے کی مشینری کی درآمد صرف تینتالیس ارب روپے رہی۔

    a

    ایک اندازے کے مطابق آئی ایم ایف سے قرض لیکر بجٹ بنانے والے ملک کا ہر فرد تقریبا ایک کلو چائے پی جاتا ہے۔

    دوسری جانب ٹیکسٹائل انڈسٹری زرائع کے مطابق اخراجات میں اضافے ،خراب موسمیاتی اور مالی حالات کے باعث رواں سیزن میں بھی کاشتکار کپاس لگانے سے کترا رہے ہیں جس کے باعث آئندہ مالی سال بھی کپاس کی پیداوار میں بارہ فیصد تک کی کمی کا خدشہ ہے ۔

    d

    وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال ملکی ٹیکسٹائل برآمدات میں سات فیصد کمی ہوئی ہے، مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران برآمدات کا حجم محض ساڑھے گیارہ ارب ڈالر رہا۔

    ٹیکسٹائل کےویلیو ایڈیڈ شعبے کی کارکردگی خاص طور پر مایوس کن رہی جس کی برآمدات میں بیس فیصد کی کمی ہوئی۔

  • بجلی پیدا کرنے والی مشینری کی درآمدات میں کا اضافہ

    بجلی پیدا کرنے والی مشینری کی درآمدات میں کا اضافہ

    اسلام آباد: جون 2013ءکے مقابلہ میں جون 2014ءکے دوران بجلی پیدا کرنے والی مشینری کی درآمدات میں 49 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا ، جون 2014ءکے دوران درآمدات میں تقریباً دوگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

    ادارہ برائے شماریات پاکستان کے اعدادو شمار کے مطابق جون 2013ءکے دوران 56 ملین ڈالر کی بجلی پیدا کرنے کی مشینری درآمد کی گئی تھی جبکہ گزشتہ مالی سال کے آخری ماہ جون 2014ءکے دوران بجلی پیدا کرنے والی مشینری کی ملکی درآمدات کا حجم 105 ملین ڈالر تک بڑھ گیا ۔

    جس سے توانائی بحران پر قابو پانے کے حکومتی عزم کی عکاسی ہوتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بجلی کی پیداوار کے ذریعے توانائی کی قلت کے مسئلہ پر قابو پایا جاسکے۔