Tag: مصری اداکار عمر شریف

  • عمر شریف: ہالی وڈ میں‌ ’لارنس آف عریبیہ‘ کی دریافت

    عمر شریف: ہالی وڈ میں‌ ’لارنس آف عریبیہ‘ کی دریافت

    ہالی وڈ کی فلموں میں اپنی بے مثال اداکاری سے عالمی شہرت پانے والے عمر شریف کی موت پر کہا گیا کہ دریائے نیل کا ایک گوہرِ نایاب پانی میں اتر گیا۔ اپنی فن کارانہ صلاحیتوں‌ سے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھر دینے والے عمر شریف نے مصری فلم انڈسٹری سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ 10 جولائی 2015ء کو اداکار عمر شریف دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    مصر کے مشہور شہر اسکندریہ میں 10 اپریل 1932ء کو عمر شریف نے ایک عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والدین کا تعلق شام اور لبنان سے تھا جو اسکندریہ میں آن بسے تھے۔ عمر شریف کی پرورش ایک کیتھولک مسیحی کے طور پر کی گئی۔ وہ اسکندریہ کے وکٹوریہ کالج سے فارغُ التحصیل ہوئے۔ بعدازاں قاہرہ یونیورسٹی سے ریاضی اور طبیعیات کی ڈگری حاصل لی۔ اسی زمانے میں عمر شریف کو اداکاری کا شوق ہوگیا اور اسی شوق کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے مصر کی فلم انڈسٹری کا رخ کیا۔ ’صراع فی الوادی‘ بطور اداکار ان کی پہلی فلم تھی۔ اسی فلم میں عمر شریف کے مدِ مقابل ہیروئن کا کردار فاتن حمامہ نے ادا کیا تھا۔ اس اداکارہ سے فلمی پردے کے توسط سے بننے والا تعلق محبّت میں تبدیل ہو گیا اور ان دونوں نے شادی کر لی۔ فاتن حمامہ سے شادی کے ساتھ ہی عمر شریف نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا خاندانی نام تبدیل کرلیا۔

    وہ دراز قد، وجیہ اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے اپنے کام کی بدولت ہالی وڈ میں بھی نام و مقام بنایا۔ اس کا سلسلہ 1960 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب عمر شریف کو مشہورِ زمانہ فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ کا شریف علی نامی کردار آفر ہوا۔ بعد میں وہ متعدد فلموں‌ میں نظر آئے اور ہالی وڈ میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ہالی وڈ میں پہلی فلم پر انھیں دو گولڈن گلوب ایوارڈ سے نوازا گیا تھا جب کہ شریف علی نامی مشہور کردار کے لیے ان کا نام آسکر ایوارڈ کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس کام یابی کے بعد عمر شریف کو ڈیوڈ لین کی ہدایات کاری میں بننے والی ایک اور فلم ’ڈاکٹر ژواگو‘ میں مرکزی کردار نبھانے کا موقع دیا گیا۔ اس روپ میں بھی عمر شریف نے شان دار پرفارمنس دی اور گولڈن گلوب ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    عمر شریف کی مادری زبان عربی تھی، لیکن وہ انگریزی، فرانسیسی، یونانی، اطالوی اور ہسپانوی زبانیں بھی روانی کے ساتھ بولتے تھے۔ اپنے کیریئر کے دوران انھوں نے کئی فیچر فلموں میں کام کیا اور ٹیلی وژن پر بھی اداکاری کی۔ 2003ء میں طویل وقفے کے بعد وہ موسیو ابراہیم‘ نامی فلم میں نظر آئے۔ فلم میں عمر شریف نے ایک مسلمان دکان دار کا کردار ادا کیا تھا، اور اس مرتبہ وہ وینس کے فلمی میلے کا ایوارڈ اپنے نام کرگئے۔ عمر شریف نے 2013ء میں آخری مرتبہ ایک فیچر فلم میں کام کیا تھا۔ وہ 83 برس تک زندہ رہے اور قاہرہ میں وفات کے بعد وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • عمر شریف: مصر کے اس باکمال اداکار کو دریائے نیل کا گوہرِ‌ نایاب بھی کہا جاتا ہے

    عمر شریف: مصر کے اس باکمال اداکار کو دریائے نیل کا گوہرِ‌ نایاب بھی کہا جاتا ہے

    مصر سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ اداکار عمر شریف کی وفات پر کہا گیا کہ مصری فلمی صنعت یتیم ہو گئی، دریائے نیل کا گوہرِ نایاب فن کے سمنر میں‌ اتر گیا۔ وہ 10 جولائی 2015ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اداکار عمر شریف 10 اپریل 1932ء کو بحیرہٴ روم کے کنارے واقع مصر کے مشہور ترین شہر اسکندریہ میں پیدا ہوئے۔ والدین کا تعلق شام اور لبنان سے تھا اور یہ خاندان عیسائیت کا پیروکار تھا۔ عمر شریف کی پرورش بھی کیتھولک مسیحی کے طور پر ہوئی۔

    اسکندریہ کے وکٹوریہ کالج سے فارغُ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے ریاضی اور طبیعیات کی ڈگری حاصل کی۔ اسی زمانے میں انھیں‌ فنِ اداکاری میں دل چسپی پیدا ہوگئی تھی اور پھر انھوں نے مصر کی فلم انڈسٹری میں‌ قدم رکھا۔

    ’صراع فی الوادی‘ ان کی پہلی فلم تھی۔ اسی فلم میں ان کے مدِ مقابل ہیروئن کا کردار فاتن حمامہ نے ادا کیا تھا جن سے فلمی پردے پر ان کا تعلق محبّت میں تبدیل ہو گیا اور انھوں نے شادی کر لی۔ عمر شریف نے فاتن سے شادی کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا اور اپنا خاندانی نام تبدیل کرلیا۔

    مصر کا یہ دراز قد، وجیہہ اور پرکشش اداکار بعد میں ہالی وڈ میں نام و مقام بنانے میں کام یاب ہوا۔ 1960 کی دہائی میں انھیں شہرۂ آفاق فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ کا شریف علی نامی کردار ملا اور انھوں نے ہالی وڈ میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ اس فلم کے لیے انھیں دو گولڈن گلوب ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ اسی کردار کے لیے عمر شریف کو آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    اس کام یابی کے بعد عمر شریف کو ڈیوڈ لین کی ہدایات کاری میں بننے والی ایک اور فلم ’ڈاکٹر ژواگو‘ میں مرکزی کردار ادا دیا گیا اور اس بار بھی انھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کرکے گولڈن گلوب ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    عمر شریف کی مادری زبان عربی تھی، لیکن وہ انگریزی، فرانسیسی، یونانی، اطالوی اور ہسپانوی زبانیں بھی روانی کے ساتھ بولتے تھے۔ اپنے کیریئر کے دوران عمر شریف نے کئی فیچر فلموں اور ٹیلی وژن کے لیے بھی اداکاری کی۔

    2003ء میں طویل وقفے کے بعد وہ اپنے مداحوں کے سامنے ’موسیو ابراہیم‘ نامی فلم میں تھے۔ اس فلم میں‌ انھوں نے ایک بزرگ مسلمان دکان دار کا کردار ادا کیا تھا، جس پر انھیں وینس فلمی میلے کا ایوارڈ دیا گیا۔ عمر شریف نے 2013ء میں زندگی کی آخری فیچر فلم میں کام کیا۔

    انھوں نے 83 برس کی عمر میں قاہرہ میں وفات پائی اور وہیں سپردِ خاک کیے گئے۔