Tag: مصری ادب

  • پُراسرار درویش

    پُراسرار درویش

    قریبی واقع تکیہ (خانقاہ) کی محراب اور قبرستان کے احاطہ کے درمیان چوک پر کھیلنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ خانقاہ کے باغ میں لگے شہتوت کے درخت بہت بھاتے ہیں۔ باغ کے پیڑوں کے ہرے بھرے پتے ہمارے محلہ کی رونق ہیں۔ ان کے کالے کالے شہتوت ہمارے ننھے دلوں کو خوب لبھاتے ہیں۔

    یہ خانقاہ گویا ایک چھوٹا سا قلعہ ہے جو باغ سے گھرا ہوا ہے۔ اس کا باغ کی جانب کھلنے والا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا۔ اس کی کھڑکیاں بھی بند رہتی تھیں۔ اس طرح پوری عمارت اداسی اور تنہائی میں ڈوبی جدائی کی تصویر بن کر رہ گئی تھی۔

    ہمارے ہاتھ اس خانقاہ کی فصیل نما چہار دیواری کی طرف اس طرح لپکتے، جس طرح شیرخوار بچوں کے ہاتھ چاند کی طرف۔ باغ کی دیوار پر چڑھتے تو ایسا لگتا کہ ہم قلعے کے اندر پہنچ گئے ہوں۔

    اس باغ میں کبھی کبھی کوئی درویش بھی نظر آجاتا تھا جس کی ڈاڑھی لمبی ہوتی تھی، اس کا چغہ ڈھیلا ڈھالا ہوتا اور ٹوپی کشیدہ کاری سے آراستہ۔ جب اس درویش کی نظر ہم بچوں پر پڑتی تو وہ مسکرا کر ہماری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتا۔ ہم سب بچّے بھی بیک زبان دعائیہ آواز سے پکارتے، ‘‘درویش! خدا تمہاری عمر دراز کرے۔’’ مگر وہ درویش کوئی جواب دیے بغیر گھاس سے لدی زمین کو گھورتے ہوئے یا چشمے کے قریب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے خاموشی سے وہاں سے گزر جاتا، تھوڑی دیر میں وہ خانقاہ کے اندرونی دروازے کے پیچھے گم ہوجاتا ہے۔

    میں اکثر اپنے والد سے یہ پوچھتا ہوں، ‘‘بابا! یہ کون لوگ ہیں؟’’
    ‘‘یہ اللہ والے لوگ ہیں۔’’ جواب ملتا ہے اور پھر وہ تنبیہ کے انداز میں معنی خیز لہجہ سے کہتے، ‘‘جو انہیں تنگ کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا، بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ان کو پریشان کرتے ہیں۔’’

    میں چپ ہوجاتا ہوں کیونکہ میرا دل تو صرف وہاں لگے شہتوتوں کا دیوانہ تھا۔
    ایک دن میں کھیلتے کھیلتے بہت تھک گیا۔ کھیل کے بعد میں زمین پر لیٹا اور میری آنکھ لگ گئی۔ جب میں جاگا تو مجھے احساس ہوا کہ اب میں وہاں تنہا تھا۔ سورج پرانی فصیل کے پیچھے غروب ہوچکا تھا، آسمان پر خوب صورت شفق پھیل چکی تھی اور بہار کی بھیگی بھیگی مہک سے شام کی ہوا کے جھونکے مجھے سرشار کرنے لگے تھے۔ اندھیرا پھیلنے سے پہلے مجھے محلے میں واپس جانے کے لیے قبرستان کے راستہ سے ہو کر گزرنا تھا۔ میں دفعتاً چھلانگ لگا کر کھڑا ہوا۔ اچانک ایک ہلکا سا احساس مجھ سے سرگوشی کرتا ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔ اس پر میں ایک لطیف محویت میں ڈوب جاتا ہوں۔

    میں محسوس کرنے لگتا ہوں کہ میرا دل نامعلوم برکتوں سے بھر گیا ہے۔ کسی کی نظر نے مجھے محصور کیا ہوا تھا، میرے دل کو اپنی گرم نگاہ کی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ میں نے اپنا رخ خانقاہ کی طرف کیا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی باغ کے درمیان والے شہتوت کے درخت کے نیچے کھڑا تھا۔ وہ کوئی درویش تو لگتا ہے مگر اُن دوسرے درویشوں کی طرح نہیں تھا جن کو ہم گاہ بہ گاہ دیکھتے ہیں۔

    وہ کافی بوڑھا تھا، خاصے ڈیل ڈول کا دراز قامت، اس کا چہرہ چمک دمک سے پُر تھا۔ گویا نور کا سرچشمہ ہو، اس کے چغے کا رنگ سبز، اس کی لمبی ڈاڑھی، سفید پگڑی، وہ ایک پُرعظمت شخص نظر آتا تھا۔ اسے گھورتے رہنے سے مجھے جیسے نشہ سا ہوگیا۔ ایک خوب صورت خیال مجھ سے سرگوشی کرتا ہے کہ اس جگہ کا مالک یہی ہے۔ دوسرے درویشوں کے برعکس اس کے چہرے میں دوستی اور اپنائیت کی جھلک نظر آئی ۔ میں چہار دیواری کے قریب آتا ہوں اور اسے خوشی سے کہتا ہوں….‘‘مجھے شہتوت اچھے لگتے ہیں….’’ لیکن وہ صاحب نہ تو کچھ بولے اور نہ ہی کوئی جنبش کی۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید انہوں نے سنا ہی نہیں۔ پھر میں نے تھوڑی اونچی آواز سے دوبارہ اپنا جملہ دہرایا۔ ‘‘مجھے شہتوت بہت پسند ہیں۔’’ مجھے محسوس ہوا کہ انہوں نے مجھے شفیق نظروں سے دیکھا اور نرم اور دھیمی آواز سے کہا۔

    بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد
    ( بلبل نے اپنے جگر کا خون پیا اور پھول حاصل کیا)

    مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے انہوں نے میری طرف کوئی پھل پھینک دیا ہے۔ میں پھل کو ڈھونڈنے اور اٹھانے کے لیے جھکا مگر مجھے وہاں کچھ نہ ملا۔ میں سیدھا ہو کے کھڑا ہوا تو وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔ خانقاہ کا اندرونی دروازہ اندھیرے کی وجہ سے نظر نہیں آیا۔ اس واقعے کو میں نے والد صاحب سے بیان کیا۔ میری بات سن کر وہ مجھے شکی نظروں سے دیکھنے لگے، میں نے زور دے کر اپنی بات کی سچائی کا یقین دلایا تو وہ بول اٹھے، ‘‘یہ نشانیاں اور اوصاف تو صرف شیخ اکبر ہی کے ہوسکتے ہیں….مگر وہ اپنی خلوت سے کبھی باہر ہی نہیں آتے….’’

    میں نے اپنا مشاہدہ صحیح ہونے پر اصرار کیا تو والد صاحب نے پوچھا:‘‘انہوں نے کیا الفاظ کہے تھے’ میں نے طوطے کی طرح وہ الفاظ رٹ دیے: ‘‘بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد’’

    والد صاحب نے پوچھا۔ ‘‘کیا تم نے اجنبی زبان کی جس عبارت کو یاد کیا اسے سمجھتے بھی ہو….؟ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے؟’’

    ‘‘خانقاہ سے آنے والی درویشوں کی دعاؤں کی آوازوں میں یہ عبارت میں نے پہلے بھی کئی بار سنی ہے۔’’ میں جواب دیتا ہوں۔ میرے والد کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر انہوں نے مجھ سے کہا: ‘‘کسی کو اس کے بارے میں مت بتانا۔’’

    اس واقعے کے بعد سے میں ہر روز سارے بچوں سے پہلے چوک پہنچ جاتا اور بچوں کی واپسی کے بعد اکیلا رہ جاتا اور باغ کے احاطے میں جاکر شیخ اکبر کا انتظار کرنے لگتا، مگر وہ نظر نہیں آتے۔ میں اونچی آواز میں کہتا:‘‘بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد’’

    مجھے کوئی جواب نہ ملتا۔ میں عجیب اذیت میں مبتلا رہتا۔ میں اس واقعہ کو یاد کرتا رہتا اور اس کی حقیقت کو جاننا چاہتا، سوچتا اور اپنے آپ سے پوچھتا کہ کیا میں نے واقعی شیخ اکبر کو دیکھا تھا؟ یا میں نے محض اسے دیکھنے کا دعوٰی کیا تھا تاکہ لوگوں کی توجہ حاصل کر سکوں؟

    کیا وہ میرا کوئی ایسا تصور تھا۔ شیخ کے بارے میں جو باتیں ہمارے گھر میں ہوتی تھیں وہ مشاہدہ کیا اس وجہ سے تھا؟ نیند کی غنودگی اور گھر میں جھنجھٹ کی وجہ سے میں نے اپنے خیال میں ایک ایسی چیز کو ذہن میں بسا لیا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے….؟ یہ سوالات میرے دل و دماغ کو جھنجھوڑتے رہتے۔ میں نے سوچا کہ وہ مشاہدہ محض میرا تصور ہی ہوگا ورنہ شیخ اکبر دوبارہ نمودار کیوں نہیں ہوئے؟ ہر کوئی یہ کیوں کہتا تھا کہ شیخ اکبر اپنی خلوت سے باہر نہیں آتے؟ شاید میں نے یہ افسانہ تخلیق کیا اور اسے پھیلا دیا۔

    مگر شیخ کا وہ خیالی وجود بھی کہیں میرے اندر جا کے جم چکا ہے۔ یہ خیال میری یادوں کو معصومیت سے بھر دیتا ہے، اور میرے دل و دماغ میں اس طرح چھایا رہا جس طرح شہتوت کا شوق۔

    عرصے بعد والد کے ایک دوست شیخ عمر فکری والد صاحب سے ہمارے گھر ملنے آئے۔ وہ ایک ریٹائرڈ وکیل اور مصنف ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ہمارے محلے میں پبلک سروس کے نام سے ایک ایجنسی کھول رکھی ہے۔ ایجنسی کا آفس محلہ کی مسجد اور مدرسے کے بیچ واقع ہے۔ یہ ایجنسی محلے کے لوگوں کی مختلف خدمات انجام دیتی ہے، کرائے پر مکان دلانا، سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرانا، تجہیز و تدفین کا انتظام کرنا اور شادی و طلاق اور خرید و فروخت۔ جب ان کو میں نے اپنے والد سے فخر کے ساتھ کہتے سنا کہ ‘‘وہ اپنے طویل تجربوں کی بدولت زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کی خدمت کرسکتے ہیں تو میرے دل میں دبی خواہش پھر سے ابھر آئی۔ میں نے پوچھا۔
    ‘‘کیا آپ میرا ایک کام کرسکتے ہیں….؟’’
    مسکرا کر انہوں نے مجھے دیکھا اور پوچھا۔
    ‘‘بتاؤ بیٹے….! تمہیں کیا چاہیے….؟’’
    ‘‘میں خانقاہ کے شیخ اکبر کو دیکھنا چاہتا ہوں۔’’ میں نے کہا
    شیخ عمر نے زور کا قہقہہ لگایا، ان کا ساتھ والد صاحب نے بھی دیا اور پھر شیخ عمر نے کہا: ‘‘میں جو کام انجام دیتا ہوں وہ زندگی سے متعلق اور ذرا سنجیدہ قسم کے ہوتے ہیں۔’’

    ‘‘لیکن آپ نے تو کہا کہ آپ زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کے کام انجام دیتے ہیں۔’’ میں نے کہا۔ ‘‘خانقاہ زندگی کے میدان میں نہیں آتی۔’’انہوں نے کہا۔ ‘‘خانقاہ زندگی کے میدان سے باہر کیسے ہوسکتی ہے….؟’’ میں نے سوال کیا اور والد صاحب نے وہ شعر سنانے کو کہا جسے میں نے خانقاہ میں سن کر یاد کرلیا تھا۔ میں نے وہ شعر خوشی سے پڑھ کر سنایا۔

    یہ سن کر شیخ عمر نے والد صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ‘‘لوگ اس شعر کو بلا سمجھے پڑھا کرتے ہیں۔’’ انہوں نے مجھ سے کہا ‘‘کیا میں اس کے کسی لفظ کو سمجھتا ہوں۔’’ انہوں نے کہا ‘‘یہ لوگ اجنبی ہیں اور ان کی زبان اجنبی ہے لیکن محلے والے ان پر فریفتہ ہیں۔’’
    میں نے کہا ‘‘مگر آپ تو ہر کام انجام دینے پر قادر ہیں۔’’
    یہ بات سن کر والد صاحب نے ‘‘استغفر اللہ’’ پڑھا اور شیخ عمر نے مجھ سے پوچھا
    ‘‘میں خانقاہ کے شیخ کو کیوں دیکھنا چاہتا ہوں۔’’
    میں نے جواب دیا، ‘‘صرف اس لیے کہ جو تجربہ بچپن میں مجھے ہوا تھا اس کو پھر پرکھوں اور بس۔’’
    والد صاحب نے ان کو شیخ اکبر کو میرے دیکھنے کا واقعہ سنایا تو شیخ فکری ہنسے اور بولے‘‘میں نے بھی شیخ اکبر کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔’’
    ‘‘سچ مچ۔ ’’میں نے سوال کیا۔
    انہوں نے کہا، ‘‘ایک دن میں نے اپنے دل میں سوچا کہ سارا محلہ شیخ اکبر کا نام لیتا رہتا ہے، کسی نے بھی ان کو نہیں دیکھا ہے اس لیے شیخ اکبر کو دیکھنا چاہیے۔ میں خانقاہ گیا اور کسی ذمہ دار آدمی سے ملنا چاہا۔ خانقاہ کے درویشوں نے مجھے پریشانی، حیرانی اور ناراضی سے دیکھا اور کسی قسم کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ عمر فکری صاحب کو افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ ان کو پریشان کیا۔ درویشوں کے رویے سے وہ جان گئے کہ خانقاہ کے اندر جائز طریقہ سے جانا ممکن نہیں اور ناجائز طریقہ قانون شکنی ہے اور اس لیے قطعی مناسب نہیں ہے۔
    ‘‘اس لیے آپ اپنی خواہش کی تکمیل سے باز آگئے؟’’ میں نے سوال کیا۔
    انہوں نے جواب دیا، ‘‘یہ بات نہیں۔ میں نے محلے کے معمر اور جانے مانے لوگوں سے پوچھا۔ ان میں سے کچھ نے کہا کہ وہ شیخ اکبر کو دیکھ چکے ہیں، لیکن ہر ایک نے ان کا حلیہ مختلف بتایا جو ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب میرے نزدیک یہ ہوا کہ کسی نے بھی شیخ اکبر کو نہیں دیکھا ہے۔’’
    ‘‘لیکن میں نے شیخ اکبر کو دیکھا ہے۔’’ میں نے پُرجوش لہجے میں کہا۔
    شیخ عمر نے کہا ‘‘تم لوگ جھوٹ تو نہیں بولتے لیکن اپنے اپنے خیال کے مطابق دیکھتے ہو۔’’
    میں نے کہا ‘‘شیخ اکبر کو دیکھنا محال نہیں۔ کیا وہ گاہ بہ گاہ خانقاہ کے باغ میں گھوم نہیں سکتے۔’’
    انہوں نے کہا ‘‘لیکن تم کو کیا معلوم کہ جس کو تم نے دیکھا ہے وہ شیخ اکبر ہی تھے، کوئی دوسرا درویش بھی تو ہوسکتا ہے۔’’
    میں نے کہا ‘‘ٹھیک ہے۔ اس طرح آپ نے سوچ لیا کہ شیخ اکبر کو کسی نے دیکھا ہی نہیں اور نہ ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔’’
    انہوں نے کہا ‘‘نہیں، ہرگز نہیں۔ میں تو ان کو دیکھنے کا بے حد مشتاق تھا۔
    ‘‘کیا شیخ اکبر کو دیکھنے کے لیے دوسرے وسیلے نہیں ہوسکتے۔’’
    شیخ فکری نے کہا، ‘‘ہاں، عقل نے مجھے جان لیوا خواہش سے آزاد کیا۔ عقل نے باور کرایا کہ خانقاہ کو ہم دیکھتے ہیں۔ درویشوں کو ہم دیکھتے ہیں لیکن شیخ اکبر کو ہم کیوں نہیں دیکھتے؟’’
    یہ بات سن کر میرے والد صاحب نے کہا ‘‘اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ شیخ اکبر کا وجود ہی نہیں؟’’
    جواب ملا ‘‘نہیں، بات یہ نہیں۔’’
    ‘‘بات تو صرف یہی ہے۔’’ میں نے کہا لیکن بلاشک کوئی وسیلہ تو ضرور ہوگا جس سے شیخ اکبر کے وجود اور ان کی روایت ثابت ہو۔’’
    جواب ملا ‘‘دراصل میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کوئی وسیلہ خلافِ قانون ہے اور میں قانون شکنی کرنا نہیں چاہتا۔ یہ کہہ کر وہ بولے شیخ اکبر کو دیکھنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔’’
    ‘‘آخر وہ لوگ خانقاہ کے دروازے بند کیوں رکھتے ہیں؟ میں نے سوال کیا۔
    شیخ فکری نے جواب دیا ‘‘دراصل خانقاہ آبادی سے دور بنائی گئی تھی کیونکہ صوفیائے کرام لوگوں سے الگ تھلگ پرسکون ماحول میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وقت گزرتا گیا، آبادی بڑھتی گئی اس لیے یہ خانقاہ آبادیوں میں گھر گئی۔ اب وہ درویش تنہائی کے لیے خانقاہ کے دروازے بند رکھنے لگے۔’’
    یہ بتا کر شیخ فکری نے مایوس کن مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ‘‘میں نے تم کو کئی باتیں بتا دی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شیخ سے ملنا عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان سے ملنے کی اجازت نہیں گویا ان سے ملنا ہے تو بغیر اجازت ہی خانقاہ میں داخل ہونا پڑے گا۔

    ‘‘شیخ اکبر کی یاد بھلائی نہیں جاسکتی۔ آج تک مجھ میں بغیر اجازت خانقاہ میں چلے جانے کی ہمت نہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ بغیر شیخ اکبر کے خانقاہ کے وجود کو بھی تصور نہیں کرسکتا۔ اب حال یہ ہے کہ میں خانقاہ کو صرف مقبرے کی زیارت کے دنوں ہی میں دیکھتا ہوں۔ جب میں خانقاہ کو دیکھتا ہوں تو مسکراتا ہوں اور شیخ یا جس کو میں نے کبھی شیخ سمجھا تھا کی تصویر کو یاد کرتا ہوں اور تنگ راستہ سے قبرستان کی طرف گزر جاتا ہوں۔’’

    بھائی پڑوسی، میں تمہیں صاف صاف بتائے دیتا ہوں، بات یہ نہیں کہ مجھے اس کی تعلیمات پر کوئی اعتراض نہیں، قطعاً نہیں، میں نے ایک بار اسے تبلیغ کرتے سنا تھا اور تمہیں کیا بتاؤں، میں خود اس کے مریدوں میں شامل ہونے سے بال بال بچا۔’’

    (نوبل انعام یافتہ مصری ادیب نجیب محفوظ کی کہانیوں کے مجموعہ ‘‘حکایاتِ حارتنا’’ (محلّہ کی کہانیاں) سے ایک منتخب کہانی کا اردو ترجمہ)

  • نجیب محفوظ:‌ عربی ادب کا تابندہ ستارہ

    نجیب محفوظ:‌ عربی ادب کا تابندہ ستارہ

    نجیب محفوظ نے سترہ سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا اور جب وہ اڑتیس برس کے تھے تو ان کی پہلی تصنیف منظرِ عام پر آئی۔ اسی طرح ان کے ناول کو اشاعت کے تیس سال بعد نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    مصری ادب کو اپنی کہانیوں سے مالا مال کرنے والے نجیب محفوظ نے 2006ء میں وفات پائی تھی۔ انھیں 1988ء میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    ان کا مکمل نام نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا تھا۔ مصر کے شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911 کو پیدا ہونے والے نجیب محفوظ نے اپنے ادبی سفر میں تیس سے زائد ناول اور 350 کہانیاں تخلیق کیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے اسکرپٹ، اسٹیج پلے بھی لکھے جب کہ مؤقر جرائد اور اخبارات میں‌ ان کے مضامین اور کالم بھی شائع ہوتے تھے۔ وہ ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے اپنی تخلیقات کے سبب مصر میں مقبول ہوئے اور بعد میں دنیا بھر میں انھیں پہچانا گیا۔

    نجیب محفوظ نے غربت اور مشکلات دیکھتے ہوئے ابتدائی عمر گزاری اور ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ اس کے باوجود وہ فنونِ لطیفہ اور ادب کی طرف مائل ہوئے اور روایت سے بغاوت کرتے ہوئے ان موضوعات کو بھی زیرِ نوکِ قلم لائے جس نے قدامت پرستوں کے درمیان انھیں متنازع بنا دیا۔

    مصر پر برطانوی قبضے اور انقلابی تحریکوں نے نجیب محفوظ پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ اس فکر کو پروان چڑھایا جس میں انھیں تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کا موقع ملا۔

    نجیب محفوظ نے 1934 میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کی ڈگری لی اور ماسٹرز کے لیے داخلہ لیا، لیکن اس مضمون میں اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکے اور لکھنے لکھانے میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے مصر کے معاشرے کی خرابیوں کو اپنی کہانیوں‌ میں اجاگر کیا اور کئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ نجیب محفوظ کے ناولوں اور کتابوں کے تراجم بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔

    50 کی دہائی میں نجیب محفوظ معروف ادیب بن چکے تھے اور اسّی دہائی میں ان کی مشہور کتاب ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ شائع ہوئی۔ یہ تین کہانیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 کا احاطہ کرتا ہے۔ نجیب محفوظ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی ایک مثال تھے۔

  • مقبول ترین ادیب اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی برسی

    مقبول ترین ادیب اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی برسی

    مصری ادب میں نجیب محفوظ کا نام مقبول ترین ادیب کے طور پر محفوط ہے جنھوں نے 2006ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    انھوں نے سترہ سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن ان کی پہلی تصنیف 38 سال کی عمر میں شایع ہوئی تھی۔ 1988ء میں وہ نوبل انعام کے لیے منتخب ہوئے اور یہ انعام ان کی اس تخلیق پر دیا گیا جو 30 برس قبل منظرِ عام پر آئی تھی۔

    50 کی دہائی میں وہ معروف ادیب بن چکے تھے اور اسی دہائی میں ان کے تین ناولوں پر مشتمل معروف ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ شائع ہوئی۔ اس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 پر مشتمل ہے۔

    نجیب محفوظ کا مکمل نام’’نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا‘‘ تھا۔ وہ مصر کے شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی ادبی تخلیقات میں 34 ناول، تین سو سے زائد کہانیاں اور فلم اور اسٹیج کے لیے اسکرپٹ کے علاوہ اخباری کالم شامل ہیں۔

    نجیب محفوظ کا خاندان قاہرہ کے پرانے علاقے میں غربت میں گھرا ہوا تھا۔ سخت مذہبی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی، لیکن وہ جدید نظریات اور افکار سے متاثر ہوکر روایتی معاشرت اور ثقافت سے باغی رہے۔

    1919ء میں برطانوی قبضے کے خلاف انقلاب نے بھی ان پر گہرے اثرات مرتب کیے اور یہیں سے ان کے ادیب بننے کا سفر شروع ہوا۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا اور سنا اسے اپنی کہانیوں میں اپنے فن کی گہرائی اور جذبات کی شدّت کے ساتھ سمو دیا۔

    1934ء میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کیا، مگر ماسٹرز نہ کرسکے۔ بطور صحافی بھی کیرئیر کو آگے بڑھایا، سول سروس میں بھی کام کیا، لیکن ادیب کے طورپر زندگی بھر مصروف اور کہانیاں لکھنے میں مشغول رہے۔ وہ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی ایک منفرد مثال تھے۔

  • نام وَر ادیب اور افسانہ نگار محمود تیمور کی برسی

    نام وَر ادیب اور افسانہ نگار محمود تیمور کی برسی

    محمود تیمور مصر کے معروف ادیب اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے 1973ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ انھیں عربی ادب میں دورِ جدید میں افسانے اور مختصر کہانیوں کی بنیاد رکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    قلم کاروں نے انھیں عربی ادب کا موپاساں اور عرب کا شیکسپئیر بھی لکھا ہے۔ وہ 16 جولائی 1894ء کو مصر میں شہر قاہرہ کے ایک قدیم قصبے کے ایسے گھرانے میں‌ پیدا ہوئے جو علم و ادب کے حوالے سے معروف تھا۔ ان کے دادا ترک نژاد مصری رئیس اسماعیل پاشا تیمور اپنے شوقِ مطالعہ اور ذخیرہ کتب کے لیے مشہور تھے اور اسی ماحول میں‌ آنکھ کھولنے والے محمود تیمور کے والد ادیب بنے جن کا نام علاّمہ احمد توفیق تیمور پاشا تھا۔ یہی نہیں محمود تیمور کی پھوپھی بھی شاعرہ تھیں جب کہ ایک بھائی محمد تیمور معروف عربی ادیب تھے۔

    محمود تیمور کو بھی شروع ہی سے گھر میں کتابیں میسر آئیں اور مطالعہ کا شوق پروان چڑھا۔ انھوں نے زرعی اسکول میں تعلیم حاصل کی، لیکن ٹائیفائیڈ کا شکار ہونے کے باعث تعلیم مکمل نہ کرسکے اور کئی ماہ بستر پر گزارے۔ اس دوران گھر میں موجود کتابیں پڑھتے ہوئے خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ ان کے بھائی محمد تیمور نے اس مرحلے پر ان کی راہ نمائی کی اور گھر میں اپنی حوصلہ افزائی اور تعاون کے سبب باقاعدہ لکھاری بنے۔

    انھوں نے نوجوانی میں وزارتِ خارجہ میں ملازمت حاصل کی اور اس زمانے میں یورپ گئے جہاں قیام کے دوران مغربی ادب کا مطالعہ کیا۔ وہ موپاساں، چیخوف اور خلیل جبران کی تحریروں سے متاثر ہوئے اور مصر لوٹنے کے بعد جدید عربی ادب کی بنیاد رکھی اور عربی افسانے کو بین الاقوامی معیار دیا۔

    محمود تیمور القصۃ نامی رسالے مدیر بھی رہے جس میں ان کی کئی مختصر کہانیاں شایع ہوئیں، 1925 ء میں ان کا مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ‘‘ما تراہ العيون’’ شایع ہوا اور بعد میں‌ مزید مجموعے سامنے آئے۔

    محمود تیمور نے عربی زبان میں کئی مقبول کہانیاں قارئین کو دیں جب کہ ان کے سات ناول بھی شایع ہوئے۔ انھوں نے سفر نامے بھی تحریر کیے اور ادبی مضامین لکھتے رہے۔ ان کے کئی افسانوں پر مصر میں ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں۔ محمود تیمور کی کئی کہانیوں کے تراجم بھی خاصے مقبول ہوئے۔

    عربی ادب کے اس نام وَر تخلیق کار نے بین الاقوامی ادبی کانفرنسوں میں شرکت کی اور ایک موقع پر پاکستان بھی آئے۔

    محمود تیمور نے 80 برس کی عمر میں سوئٹزر لینڈ کے شہر لوزان میں وفات پائی۔