کراچی : ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ ہم نواز شریف کو پنجاب کا نہیں پاکستان بھر کا لیڈر سمجھتے ہیں، انھوں نے کل کی پریس کانفرنس کرکے اپنا سیاسی قد کم کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جس کےگھرمہنگےبجلی کےبل جارہے ہیں وہ حکومت پر غصے کا اظہار کررہا ہے، جب بجلی کی قیمتوں میں کمی ہوگی تو کروڑوں شہری تعریف کریں گے۔
رہنما ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ حکومت تک بات پہنچانےکےلئے کوئی دھرنے کی ضرورت نہیں ، دھرنا دینگے تو 4لوگ بات کرینگےہم براہ راست وزیر اعظم سے مسائل پر بات کررہے ہیں۔
انھوں نے نواز شریف کی پریس کانفرنس کے حوالے سے کہا کہ ہم نواز شریف کو پنجاب کانہیں پاکستان بھر کالیڈر سمجھتے ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف کو پاکستان بھر کےلئے پیکج کا اعلان کرنا پڑے گا، صرف پنجاب کےلئے ریلیف کا اعلان نہیں چلےگاپاکستان بھر کےلئے اعلان ہوناچاہیے۔
انھوں نے مزید کہا کہ نواز شریف نے کل کی پریس کانفرنس کرکے اپنا سیاسی قد کم کیا ہے صرف پنجاب میں عوام کیلئے بجلی کا بل کم کرکے غلط میسج دیاگیا، ہم یہ نہیں کہتے آپ پنجاب کیلئےکم نہ کریں،پورے ملک کیلئےبجلی قیمتیں کم کریں۔
مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کو ردکررہے ہیں کیوں صرف پنجاب کےلئے بجلی سستی کی گئی، کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہے؟صرف پنجاب کےلئے ہی بجلی سستی کیوں؟
رہنما ایم کیو ایم نے بتایا کہ وزیراعظم سے ڈھائی گھنٹے کی ملاقات میں ہم نے ان کے سامنے اس حوالے سے تمام گزارشات رکھیں، اسکے بعدعطاتارڑ نے صرف آئی پی پیز پر پریس کانفرنس کی، اس پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کی کاوشوں کی تعریف کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاور سیکٹر کے کرائسز کے مسئلے کو اٹھانے میں ہم نے بنیادی کردار ادا کیا، ہم وہ واحد پارٹی ہیں جس نے پاور سیکٹر کے مسائل کا حل پیش کیا۔
رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ وزیراعظم نے ہمارے مطالبات کو اپنے مطالبات کہہ کر مسائل کے حل کےلئے کہا، وزیر اعظم شہباز شریف نے ہمیں تفصیلات بتائیں کہ اس پر کام ہورہا ہے، یہ بات ہوئی کہ ہمیں آئندہ آنے والے دنوں میں ریلیف دینا ہے، آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بعد ان سے مختلف چیزوں پر اجازت لینی ہوتی ہے، ایم کیو ایم مطالبہ کرتی ہے حکومتی 52فیصد آئی پی پیز فوری پیسے لینا بند کردے۔
کراچی : ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نےآئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کوملک کیلئےخطرہ قرار دے دیا اور کہا ان معاہدوں کے باعث ملکی معیشت اورترقی زمیں بوس ہوچکی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفی کمال نے اےآر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ آئی پی پیزکےساتھ معاہدے ملکی سلامتی کیلئےخطرہ ہیں، آئی پی پیزکےساتھ معاہدےاورپاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ آئی پی پیزسےمعاہدوں کوفوری ری اسٹرکچرکرنےکی ضرورت ہے، معاہدوں کوازسرنو ری وزٹ نہ کیا گیا تو ملک نہیں چلے گا۔
ایم کیو ایم کے رہنما نے بتایا کہ معاہدوں کےباعث ملکی معیشت اورترقی زمیں بوس ہوچکی ہے، آئی پی پیزمعاہدوں سےملک مزیدتباہ ہوجائے گا۔
انھوں نے کہا کہ آئی پی پیزکےساتھ معاہدوں سےکراچی کی صنعتیں بندہورہی ہیں، عوام سڑکوں پر ہیں ،60 روپے یونٹ بجلی خرید سکتے ہیں نہ بل دےسکتےہیں۔
رکن قومی اسمبلی نے زور دیا کہ 50 فیصد حکومتی اور 20 فیصد لوکل آئی پی پیز کے ساتھ چارجز شق کو ختم کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہبازشریف کو ون پوائنٹ ایجنڈےپرچین جاناچاہیے اور چینی حکومت سےبات کریں اور بتائیں ہم سےغلطی ہوگئی، وزیراعظم بتائیں پاکستان اب ان معاہدوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، کمپنیوں نےجوپیسےبٹورنےتھےبٹورلیےاب مزیدنہیں چل سکتے۔
رہنما ایم کیو ایم نے بتایا کہ وزیراعظم شہبازشریف سےایم کیو ایم وفدجلد ملاقات کرنےجارہاہے، جس میں آئی پی پیز معاہدوں کےنقصانات ، تمام شواہد اور اپنا پرپوزل رکھیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ معاہدےن لیگ اورپی پی دورمیں ہوئے لیکن گڑھےمردے نہیں اکھاڑناچاہتا، معاہدےپردیگرجماعتیں بھی پارلیمان میں ساتھ دیں تومشترکہ قراردادلائی جاسکتی ہے۔
رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ دھونس ،دھمکی یا حکومت چھوڑنےکی باتیں کرکےپوائنٹ اسکورنگ نہیں چاہتے ، معاملے کا حل چاہتے ہیں اورنکال کر رہیں گے۔
انھوں نے بتایا کہ 45ہزارمیگاواٹ بجلی بنانےکی صلاحیت ہے،ڈیمانڈ25ہزارمیگا واٹ ہے، اس وقت سوچناچاہیےتھا 45ہزارمیگا واٹ کے پلانٹ لگوارہے ہیں سپلائی کیسے ممکن ہوگی۔
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ رواں سال بھی کیپیسٹی چارجز مد میں 1700ارب مزیدرکھےگئےہیں، بجلی تو ہم آئی پی پیزسے نہیں لے رہے لیکن بجلی نہ لینے کے پیسے ڈالرز میں دے رہے ہیں۔
کراچی : ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال نے سندھ میں ترقی کے صوبائی حکومت کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا اگر کچھ کیاہوا ہوگا تو چاند پر تونہیں زمین پر ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نےسندھ حکومت کی15سالہ کارکردگی بیان کی، بتایاجارہاتھاکہ سندھ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبہ بن گیا ہے، ایم کیوایم پاکستان وزیراعلیٰ سندھ کے تمام دعوؤں کو رد کرتی ہے۔
رہنما ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے صوبے کی غلط تصویر پیش کرنےکی کوشش کی، اگر کچھ اچھا ہوتا تو ہم وزیراعلیٰ سندھ کے کاموں کی تعریف کرتے۔
انھوں نے کہا کہ ایم کیوایم ایم پی ایز نےاسمبلی میں پورے سندھ کامقدمہ لڑنےکی کوشش کی، سندھ کےعوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی،دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ حکومت کو اپنی کارکردگی بتانے کیلئےاربوں روپے خرچ کرنا پڑیں، کچھ اچھا کیا ہوگا تو چاند پر تو نہیں کیا ہوگا، زمین پر ہوگا تو لوگ اچھا بولیں گے۔
رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ کی پریزنٹیشن کے دوران ہر 2منٹ بعد اشتہار چلتے رہے،دنیا میں جہاں بھی کام ہوتا ہےحکومت کو اشتہارات لگاکر کارکردگی بتانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
انھوں نے بتایا کہ پچھلے15سالوں میں سندھ حکومت نے 18ہزار ارب روپے خرچ کئے، 18ہزارارب اتنے ہوتے ہیں پورے سندھ کو مسمار کرکے 50باردوبارہ بناسکتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے رہنما نے مزید کہا کہ کراچی سے کشمور تک ہر طرف تباہی ہے، 3ہزار200ارب روپے تعلیم پر لگائے اور بچےاسکولوں سےباہر ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ میری میئرشپ میں کراچی دنیا کے 12 تیزی سےترقی کرنیوالےشہروں میں شامل تھا اور آج کراچی دنیا کے5 بدترین رہنے والے شہروں کی جگہ میں شامل ہے۔
اسلام آباد : ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی مصطفیٰ کمال نے نوازشریف سے رائیونڈ محل، آصف زرداری سے بلاول ہاؤس ،بانی پی ٹی آئی سے بنی گالہ عطیہ کرنے کا مطالبہ کردیا۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی مصطفیٰ کمال نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 70سالوں سےبجٹ پیش کرنےوالےتعریف،اپوزیشن مخالفت کرتی ہے، ہمارےاس رویےسےملک کاکوئی فائدہ نہیں ہوا۔
رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ وزیرخزانہ اوراپوزیشن لیڈرکی تقریرسنی، نان ٹیکس ریونیو 4 ہزارارب جمع کرنے کا کہا گیا، پاکستان پر78ہزار942ارب کاقرضہ ہے، عام تاثرہےسارہ پیسہ آئی ایم ایف دیتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے صرف 18فیصدپیسہ آئی ایم ایف ودیگرکاہے.
انھوں نے بتایا کہ بجٹ کے مطابق ایف بی آر13ہزارارب ٹیکس اکٹھاکرےگا، 10ہزارارب روپے سود کی مد میں ادا کریں گے، جو ریونیو کا 51 فیصد بنتا ہے اور 7ہزار303ارب روپےلوکل بینکوں کودیےجائیں گے۔
بجلی کمپنیوں سے معاہدے پر رکن اسمبلی نے کہا کہ پاورسیکٹر میں71 فیصد کیپسٹی چارجز ادا کر رہے ہیں، گزشتہ ادوار میں بجلی کیلئے معاہدے کیے گئے، 1700ارب روپے بجلی کمپنیوں کوادا کیے جائیں گے، بجلی کمپنیوں سے معاہدے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
انھوں نے زور دیا کہ غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی فیصلوں کی ضرورت ہے اور پاکستان کی معیشت کا ٹیومر ختم کرنےکیلئےسرجری کی ضرورت ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما نے اپنی جماعت کی جانب سے معاشی ایمرجنسی ڈکلیئر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فنانشل ایمرجنسی کی ابتداپارلیمنٹ سےہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ 78 ہزارارب روپےعوام سےمانگے جارہے ہیں، نوازشریف،آصف زرداری و دیگر لیڈرز اس میں پہل کریں ، کیا ہی بہتر ہو ہم سب ملکر ایک ہزار ارب روپے اپنی جیبوں سے جمع کرائیں۔
مصطفیٰ کمال نے مطالبہ کیا کہ نوازشریف رائے ونڈ کا محل ، بانی پی ٹی آئی بنی گالہ اور آصف زرداری بلاول ہاؤس پاکستان کوعطیہ کردیں جبکہ تمام ایم این ایز، ایم پی ایز، وزرا اور سینیٹرز 25 فیصد جائیداد پاکستان کو عطیہ کریں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ایک ہزار ارب جمع کردیا تو عوام 78 ہزار ارب اپنے پیٹ کاٹ کر جمع کرائیں گے، جائیدادوں سے 25 فیصد دیدیں کوئی غریب نہیں ہوگا۔
رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت کو پینا ڈول سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ملکی معیشت کا علاج پینا ڈول سے نہیں سرجری سے ممکن ہے۔
انھوں نے کہا کہ عوام ہر مشکل کے موقع پر قربانی دیتے ہیں، عوام اب بھی ملک کیلئے قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں، ملک چلانے والوں کی وجہ سے ملک پر قرضہ چڑھا ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما نے مشورہ دیا کہ حکومت نےرواں سال لوکل بینکوں کو قرض و سود کی مد میں7ہزار ارب واپس کرنے ہیں، حکومت معاشی ایمرجنسی لگا کر لوکل بینکوں کو ادائیگیاں کرے۔
اسلام آباد :سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال28جون کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے تمام نیوز چینلز کو دوہفتوں میں جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی گزشتہ روز سماعت کا حکم نامہ جاری کر دیا۔
جس میں کہا ہے کہ مصطفیٰ کمال کےوکیل نے بتایا انہوں نے غیر مشروط معافی مانگی اور وہ خودکو عدالتی رحم و کرم پرچھوڑتےہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ فیصل واوڈا کے وکیل نے اضافی جواب جمع کرانے کیلئے مہلت طلب کی، پیمرا نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کی ٹرانسکرپٹ جمع کروائی۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ رپورٹ کےمطابق فیصل واوڈاکی پریس کانفرنس کو34نیوز چینلز اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کو28نیوزچینلز نے نشر کیا، بادی النظر میں پریس کانفرنس نشرکرناتوہین عدالت کےزمرےمیں آتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ 17 مئی کےحکم نامے کے مطابق نیوزچینلزبھی توہین عدالت کے مرتکب ہوئے، تمام نیوز چینلز دو ہفتوں میں اپنا جواب جمع کروائیں اور نیوز چینلز نمائندے جواب میں بتائیں ان ک ےخلاف توہین عدالت کارروائی کیوں نہ چلائی جائے۔
اٹارنی جنرل ٹرانسکرپٹ میں نشاندہی کریں کہ کہاں توہین عدالت کی گئی، آئندہ سماعت پر توہین عدالت کے دونوں ملزمان فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔
ایڈوکیٹ حافظ عرفات احمد نےقرآن و احادیث کی روشنی میں حوالے دیے، قرآن و حدیث سے حوالے غیبت، تکلیف دہ اور بہتان آمیز تقریر سے متعلق تھے، ٹی وی چینلز کے نمائندےبھی آئندہ سماعت پرذاتی حیثیت میں پیش ہوں، توہین عدالت کیس کی مزید سماعت 28 جون کو ہوگی۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس دکھانے پر ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کردیئے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سےمتعلق توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سپریم کورٹ بینچ میں جسٹس عرفان سعادت،جسٹس نعیم افغان شامل ہیں ، سپریم کورٹ کےطلب کرنےپر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوچ کو ترویج دیتے ہیں ، ٹی وی چینل کہہ دیتےہیں فلاں نے تقریر کی ہم نے چلا دی یہ اظہار رائے کی آزادی ہے ،فیصل واوڈا کی کانفرنس کو تمام ٹی وی چینلز نے چلایا، کیا اب ٹی وی چینلز کو بھی توہین عدالت کا نوٹس کریں، جس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ میرے خیال میں نوٹس بنتاہے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پیمرا نے عجیب قانون بنا دیاہے کہ عدالتی کارروائی رپورٹ نہیں ہوگی، یہ زیادتی ہے کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹی وی چینلزکی ذمہ داری ہے کہ اپنےپلیٹ فارم کوتوہین کیلئےاستعمال نہ ہونےدیں ، ٹی وی چینلز نے اپناپلیٹ فارم مہیا کرنا چھوڑ دیا تو معاملہ ختم ہو جائے گا ،دو ججز کے بارے میں ایسی باتیں بولی گئیں اور ٹی وی چینلز نے نشر کیا۔
سپریم کورٹ نےعدالتی رپورٹنگ پر پابندی سے متعلق پیمرا نوٹیفکیشن طلب کرتے ہوئے توہین عدالت سےمتعلق مواد نشرکرنے پر پابندی کے پیمرا نوٹیفکیشن پر جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایسی پریس کانفرنس نشر ہوتی ہیں توکوئی مسئلہ نہیں مگرعدالتی کارروائی سے مسئلہ ہے؟ وکیل پیمرا نے بتایا کہ مجھے ابھی اس سے متعلق ہدایات نہیں تو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید کہا کہ پریس کانفرنس کے بجائے ہمارے سامنے کھڑے ہو کربات کرتے، مجھ سے متعلق جو کچھ کہا گیا کبھی اپنی ذات پر نوٹس نہیں لیا ، آپ نے عدلیہ پر بات کی اس لیے نوٹس لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس کر رہے ہیں ، کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی ، آپ نےکس حیثیت میں پریس کانفرنس کی تھی ، آپ بار کونسل کے جج ہیں کیا۔
چیف جسٹس نے صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں بڑی بڑی ٹویٹس کرجاتے ہیں ، جو کرنا ہے کریں بس جھوٹ تونہ بولیں ،صحافیوں کو ہم نے بچایا ہے ان کی پٹیشن ہم نے اٹھائی۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آئے اور کہا کہ پیمرا عدالتی رپورٹنگ پرپابندی نہیں لگا سکتا ،پیمرا کو ٹی وی پروگرامزمیں بے بنیاد باتوں کودیکھناچاہیے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کئی لوگ فیصلوں پراعتراض کرتےہیں، پوچھا جائےفیصلہ پڑھاتوجواب ہوتا ہے،نہیں۔
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سینیٹر فیصل واوڈا اور ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے پر تمام ٹی وی چیلنز کو نوٹسز جاری کردیا۔
عدالت نے تمام ٹی وی چینلز سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 28 جون تک ملتوی کردی
اسلام آباد: توہین عدالت کیس میں ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال کی معافی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصل واوڈا سے شوکاز نوٹس پر دوبارہ ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سےمتعلق توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سپریم کورٹ بینچ میں جسٹس عرفان سعادت،جسٹس نعیم افغان شامل ہیں ، سپریم کورٹ کےطلب کرنےپر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگ لی گئی، صرف ایک صفحہ کے جواب میں معافی مانگی ہے۔
فروغ نسیم نے مصطفیٰ کمال کا معافی کا بیان پڑھ کر سنادیا اور کہا کہ مصطفیٰ کمال نے بالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پرمعافی مانگی، انھوں نے پریس کانفرنس زیر التوا ربا کی اپیلوں سے متعلق کی تھی، ربا کی اپیلوں کے تناظر میں بات کی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا ربا کی اپیلیں کہاں زیر التوا ہیں،فروغ نسیم نے بتایا کہ ربا اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں زیر التوا ہیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ تکنیکی طور پر وہ ایک الگ ادارہ ہے، شریعت اپیلٹ بینچ کے جج جسٹس غزالی وفات پاگئےتھے۔
فروغ نسیم نے استدعا کی عدالت غیرمشروط معافی قبول کرکےتوہین عدالت کارروائی ختم کردے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے میرا خیال ہے میں نے توہین عدالت کا نوٹس پہلی بار کیاہے، فیصل واوڈا تو سینیٹ میں ہیں وہاں مزید سلجھے لوگ ہونےچاہئیں، ارکان پارلیمنٹ عدلیہ پر حملہ کرےگاتویہ ایک آئینی ادارے کا دوسرے پر حملہ ہوتا ہے۔
وکیل رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ میرے خیال میں مصطفیٰ کمال کی باتیں توہین عدالت کےزمرےمیں نہیں آتیں تو چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ توہین نہیں تھی تومعافی کس بات کی مانگ رہے ہیں ،قوم کو ایسی پارلیمنٹ اور عدلیہ چاہیے جس کی عوام میں عزت ہو، آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی، پارلیمنٹ میں بات کرتےتب بھی کچھ تحفظ حاصل ہوتا، پریس کلب میں بات کریں ،میڈیا دکھائے تومعاملہ الگ ہے۔
توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے مصطفیٰ کمال سمجھتے ہیں توہین عدالت نہیں کی تو پھر معافی قبول نہیں کرینگے، قوم کا تقاضاہے پارلیمنٹ اور عدلیہ اپنےامور کی انجام دہی کرے، پارلیمنٹ نے آرٹیکل270میں ترمیم کی ہم نے کوئی بات نہیں کی، ہمیں پارلیمنٹ کا احترام ہے، پاکستان کی خدمت کےلئے تنقید کرنی ہے تو ضرور کریں ، اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں کہ وہ دوسرے آئینی ادارے پرتنقید کرے
وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ مصطفیٰ کمال نے معافی اس لیے مانگی کیونکہ عدالتوں کی بہت عزت کرتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معافی کی گنجائش دین اسلام میں قتل پربھی ہےمگرپہلےاعتراف لازم ہے تو وکیل کا کہنا تھا کہ اسلام تو اور بھی بہت کچھ کہتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فروغ نسیم سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے پریس کلب میں جا کر معافی نہیں مانگی تو وکیل کا کہنا تھا کہ پریس کلب میں معافی مانگناشرط ہےتومصطفیٰ کمال ایساکرنےپربھی تیارہیں۔
چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے استفسار کیا آپ تو سینیٹر ہیں؟ فیصل واوڈا نے جواب میں کہا کہ جی مائی لارڈ تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سینیٹ تو ایوان بالا ہوتاہے، سینیٹ میں زیادہ سلجھے ہوئے لوگ ہوتےہیں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا ججز کی دوہری شہریت کی آئین میں ممانعت نہیں تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ یہ بات کیوں کر رہے ہیں تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا ججز کی دہری شہریت کی بات پریس کانفرنس میں کی گئی، ججز کے کنڈکٹ پربات کرناتوہین عدالت میں آتا ہے، ارکان پارلیمنٹ کو بات کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔
عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھی ججزکے کنڈکٹ کو زیربحث نہیں لایا جاسکتا، عدالت کوبھی اس طرح ایوان کی کارروائی کا اختیار نہیں، دونوں ملزمان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ ارکان پارلیمنٹ ہیں، رکن پارلیمنٹ دہری شہریت نہیں رکھ سکتا جو پارلیمنٹ کا ہی بنایاگیا قانون ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمارےسامنےدہری شہریت کا معاملہ نہیں توہین عدالت کاکیس ہے، آئین پاکستان دیکھیں، کتنےخوبصورت الفاظ سے شروع ہوتا ہے، ہمیں کسی کو توہین کا نوٹس دینے کا شوق نہیں، امام نے فرمایا تھا کسی سے اختلاف ایسے کریں کہ اس کے سر پر چڑیا بیٹھی ہو تو بھی نہ اڑے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیاہمیں لوگوں نے ایک دوسرے سے لڑنے پربٹھایاہے؟ ہم نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے فیصلوں پرتنقید نہ کریں، فیصل واوڈا کے وکیل کی بڑی شرعی شکل ہے، اللہ کرے ہمارے اعمال بھی شرعی ہوجائیں۔
فیصل واوڈا کے وکیل معیزاحمدروسٹرم پر آئے ، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوچ کو ترویج دیتے ہیں ، ٹی وی چینل کہہ دیتےہیں فلاں نے تقریر کی ہم نے چلا دی یہ اظہار رائے کی آزادی ہے ، فیصل واوڈا کی کانفرنس کو تمام ٹی وی چینلز نے چلایا، کیا اب ٹی وی چینلز کو بھی توہین عدالت کا نوٹس کریں، جس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ میرے خیال میں نوٹس بنتاہے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پیمرا نے عجیب قانون بنا دیاہے کہ عدالتی کارروائی رپورٹ نہیں ہوگی، یہ زیادتی ہے کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ نےعدالتی رپورٹنگ پر پابندی سے متعلق پیمرا نوٹیفکیشن طلب کرتے ہوئے توہین عدالت سے متعلق مواد نشرکرنے پر پابندی کے پیمرا نوٹیفکیشن پر جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایسی پریس کانفرنس نشر ہوتی ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں مگر عدالتی کارروائی سے مسئلہ ہے؟ وکیل پیمرا نے بتایا کہ مجھے ابھی اس سے متعلق ہدایات نہیں تو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید کہا کہ پریس کانفرنس کے بجائے ہمارے سامنے کھڑے ہو کربات کرتے، مجھ سے متعلق جو کچھ کہا گیا کبھی اپنی ذات پر نوٹس نہیں لیا ، آپ نے عدلیہ پر بات کی اس لیے نوٹس لیا۔
وکیل فیصل واوڈا نے کہا کہ میرے موکل پیمرا سےمتعلق بات کرنا چاہتے ہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی نہیں آپ کوسننا ہے، آپ وکیل ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل معیزاحمد سے استفسارکیا آپ معافی نہیں مانگنا چاہتے؟ تو وکیل کا کہنا تھا کہ جواب جمع کرایا ہے ، عدالت میں پڑھنا چاہتا ہوں تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کلائنٹ نے کہا کیا؟ پہلے دیکھتے ہیں توہین عدالت بنتی یانہیں، جس پر وکیل معیزاحمد نے کہا کہ میں اس پریس کانفرنس کے بعدہونے والے سوال جواب پڑھناچاہتا ہوں۔
جسٹس عرفان سعادت نے مکالمے میں کہا کہ آپ نے صحافی کے جواب میں کہا دوججز کیخلاف بات کرنے آیا ہوں، آپ نے پریس کانفرنس پاکستان کےلوگوں کے بارےمیں نہیں کی،آپ نے دو انتہائی قابل احترام ججزپر بات کی ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس پریس کانفرنس سے کس کی خدمت کرنا چاہتے تھے، کیا آپ نے کوئی قانون بدلنے کے لئے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا ، ہم نے کبھی کہا فلاں سینیٹر نے اتنے دن اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس کر رہے ہیں ، کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی ، آپ نےکس حیثیت میں پریس کانفرنس کی تھی ، آپ بار کونسل کے جج ہیں کیا۔
چیف جسٹس نے صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں بڑی بڑی ٹویٹس کرجاتے ہیں ، جو کرنا ہے کریں بس جھوٹ تونہ بولیں ،صحافیوں کو ہم نے بچایا ہے ان کی پٹیشن ہم نے اٹھائی۔
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کردی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت پر سزا کے ساتھ ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک بیان میں کوئی 10بار توہین کرے تو جرمانہ 10 لاکھ ہوگا ؟ جس پر وکیل فروغ نسیم نے پوچھا کہ جرمانہ ایک لاکھ روپے ہی ہوگا۔
فروغ نسیم نے بتایا کہ 16مئی کے بعدسےاس گفتگو کےحق میں ایک لفظ نہیں بولا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کو اشارہ مل گیا ہے وہ پریس کانفرنس کریں گے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہ آپ پراسکیوٹر ہیں ایسی بات نہ کریں ، کیا فیصل واوڈا ،مصطفیٰ کمال نے ندامت دکھانے کیلئےکوئی اور پریس کانفرنس کی تو وکیل مصطفیٰ کمال نے بتایا کہ ایسی کوئی بھی پریس کانفرنس نہیں کی گئی،
چیف جسٹس نے وکیل حافظ عرفان کو قرآن و حدیث کے حوالوں سےمعاونت کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو وقت دیتے ہیں اس بارے میں سوچ لیں ، جھوٹ بولنےسےڈالرملتے ہیں ،سارے صحافیوں کو ہم نے بچایا، اگر آپ کو مزید وقت درکار ہے بتا دیں، عدالتی فیصلوں پرضرور تنقید کریں اڑا کر رکھ دیں، سی نے میرے فیصلے پر تنقید کرنی ہے تو پڑھ کر کریں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کیا فیصل واوڈا معافی مانگ رہے ہیں یا نہیں؟ وکیل نے بتایا کہ مشاورت کے بعد عدالت کو آگاہ کریں گے۔
عدالت نے توہین عدالت کیس میں فیصل واوڈا سےشوکاز نوٹس پر دوبارہ ایک ہفتےمیں جواب طلب کر لیا، فروغ نسیم نے کہا کہ ہم قانون بدلنا چاہتے تھے ، اس پر شورپڑجاناتھا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شور کیوں پڑنا تھا، جس پر فروغ نسیم نے مزید کہا کہ اس معاملے پر فی الحال کچھ نہیں کہنا چاہتا ،مصطفیٰ کمال کی حد تک نوٹس واپس لےلیں ، مصطفیٰ کمال صرف رباکو اللہ کیساتھ جنگ کہتےہیں ،اس کیس کا فیصلہ چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے مجھے تولگا تھا وہ مذہبی جماعتوں کاکیس ہے ، پہلی بار پتا چلا ایم کیو ایم بھی شریک ہے اور سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا، بعد ازاں کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے توہین عدالت کے نوٹس پر ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال اور سینیٹر فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا تھا۔
جس میں مصطفیٰ کمال نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معذرت کی تھی جبکہ سینیٹر فیصل واوڈا نے غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا تھا۔
اسلام آباد : ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معافی مانگ لی اور کہا معززعدالت سے معافی کی درخواست اور خود کرعدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہوں۔
تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بیان حلفی جمع کرادیا۔
جس میں ایم کیو ایم رہنما نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ججزبالخصوص اعلی ٰعدلیہ کے ججز کا دل سے احترام کرتا ہوں۔
رہنما ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ عدلیہ اورججز کےاختیارات ، ساکھ کو بدنام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، عدلیہ سے متعلق بیان بالخصوص 16مئی کی نیوزکانفرنس پرغیرمشروط معافی کا طلبگارہو۔
بیان حلفی میں کہا گیا کہ معززعدالت سے معافی کی درخواست اورخودکرعدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہوں۔
یاد رہے 17 مئی کو سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا، مصطفیٰ کمال کو عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کانوٹس جاری کیا تھا اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونےکا حکم دیا تھا۔
حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ فیصل واوڈا اور رہنما ایم کیو ایم اپنے بیانات کی وضاحت کریں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینیٹر فیصل واوڈا توہین عدالت کیس کی سماعت کل ہوگی۔
کراچی : ایم کیوایم کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کراچی کو 3 ماہ کے لیے فوج حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت ، پولیس نے کراچی کو ڈکیتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایم کیوایم رہنما مصطفیٰ کمال نے کراچی میں بڑھتی اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں پر کہا کہ سندھ حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں سنجیدہ نہیں، سندھ حکومت ، پولیس نے کراچی کو ڈکیتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، کراچی کو 3 ماہ کیلئے فوج کے حوالے کیا جائے۔
مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ 3ماہ میں اسٹریٹ کرائمز میں جاں بحق شہریوں کی تعداد 60 ہونے والی ہے، متعصب حکومت اور نااہل پولیس نے ڈاکوؤں، قاتلوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
رہنما ایم کیو ایم نے سوال کیا کہ سندھ کے وزیر داخلہ ضیاء لنجار بتائیں کس نے پولیس کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں؟ سندھ پولیس ایکشن کیوں نہیں لے رہی؟
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان اسٹریٹ کرمنلز سے نمٹنے کیلئے ہر ممکن تعاون کیلئے تیار ہے، میٹرول کے علاقے میں دو شہریوں کو قتل کرکےسوا کروڑ لوٹ لئے گئے، کراچی کا کوئی علاقہ اور کوئی سڑک ایسی نہیں ہے جہاں شہریوں کی جان و مال محفوظ ہو۔
کراچی : ایم کیوایم رہنما مصطفیٰ کمال نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سندھ میں گورنر شپ ایم کیو ایم کا حق ہے، دستبردار نہیں ہوں گے، ایم کیو ایم کی طرف سے گورنرکامران ٹیسوری ہی رہیں گے۔
تفصیلات کے مطابق ایم کیوایم رہنما مصطفیٰ کمال نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری بہت اچھا کام کررہے ہیں ، تمام گورنرز میں کامران ٹیسوری سب سےزیادہ متحرک ہیں۔
سندھ کی گورنر شپ کے سوال پر مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ نہیں چاہتے سندھ کی گورنر شپ کے معاملے پر کوئی بحث ہو، سندھ میں گورنرشپ ایم کیوایم کا حق ہے دستبردارنہیں ہوں گے۔
رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ کامران ٹیسوری کی کارکردگی عمدہ ہے انہی کو آگے چلنا چاہیے ، ایم کیو ایم کے پاس کراچی کا 80 اور حیدرآباد کا 100 فیصد مینڈیٹ ہے، ایم کیو ایم کی طرف سے گورنرکامران ٹیسوری ہی رہیں گے۔
حکومت سازی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت میں برائےنام نہیں رہنا چاہتے، ڈیڈ لاک کوئی نہیں چیزیں طے پا جائیں گی ، آئین میں3ترامیم پرحمایت،بلدیاتی اداروں کی خودمختاری نمایاں ہے۔
مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ الیکشن سے پہلے سے مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے ہیں، صرف نمبرپورے کرکے حکومت بناناکافی نہیں اسکو چلانا بھی ہے ، آئیڈیل صورتحال یہ ہے وزارتیں نہ لیں اور حکومت کا ساتھ دیں، یہ حکومت پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہو گی۔
رہنما ایم کیو ایم نے بتایا کہ اپنے حلقوں میں عوام سے کیے وعدوں کوپورا کرنےکافارمولہ بنانا ہے، ایسا نہ ہو کہ نام کے حکومت میں ہوں اور عوام کو کچھ ڈیلیور نہ کرسکیں۔